میڈیکل تعلیم کے بعد لاش کی بے حرمتی
مغربی ممالک میں لوگ میڈیکل کے طلباء کی سہولت کے لیے اپنے بدن کا عطیہ کرجاتے ہیں،جس کے بعد متعلقہ یونیورسٹی یا کالج کےلوگ باعزت طریقے سے اور اپنے ذمہ داری سے میت کی تدفین کردیتے ہیں مگر ہمارے ہاں میڈیکل کالجز میں لاوارث اموات کو میڈیکل ٹریننگ کے لیے استعمال کرنے کے بعد میت اور اس کے بقایا جات کو عزت کے ساتھ اور اسلامی طریقے سے دفن کرنے کے بجائے ضائع کردیتے ہیں۔ذیل کی تحریر اسی موضوع پر ہے۔
انسان بحیثیت انسان قابل احترام ہے خواہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔
اگر وہ مسلمان ہے تو اس کا احترام اور زیادہ ہے۔
اگروہ زندہ نہیں مردہ ہے تو قابل رحم ہے اور اس کے بے احترامی یا بے ادبی کا گناہ اس پ
عدالت کے ذریعے خلع کا حصول۔۔۔موجودہ صورت حال اور درپیش مسائل
۱۔یہ درست ہے کہ موجودہ عدالتی نظام میں خلع کے ذریعے بیوی کے لیے شوہر سے خلاصی بہت آسان ہے اور تقریبا خلع کے ہر مقدمے میں فیصلہ اسی کے حق میں ہوتا ہے۔دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض اوقات واقعۃ بیوی مظلوم ہوتی ہے اور شوہر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ بیوی کو بساتا ہے اور نہ طلاق دیتا ہے اور نہ ہی خلع دینے پر آمادہ ہوتا ہے ۔اس کا مقصد صرف بیوی کو ستانا اور دکھ دینا ہوتا ہے چنانچہ اس قسم کے جملے بھی شوہر سے سننے کو ملتے ہیں کہ جس طرح اس کے دانت سفید ہیں اس طرح اس کے بال سفید ہوجائیں گے مگر میں پھر بھی اسے نہیں چھوڑوں گا۔ جب ان حالات میں بیوی عدالت سے خلع حاصل کرلیتی ہے تو شوہر اسے شرعی قانون کے تحت چیلنج کرلیتا ہے حالانکہ اس کامقصد شریعت پر عمل نہیں بلکہ اپنی ضد پوری کرنا اور بیوی کو نیچا دکھانا مقصد ہوتا ہے۔سوال ی
(حلال کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں (پہلی قسط
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
اسلام نے دنیا کو بیش بہا عطیات دیے ہیں ان میں سے ایک اس کا انتہائی لطیف، نفیس اور پاکیزہ ’’نظام اکل و شرب‘‘ ہے۔ جس کی حساسیت کا اندازہ وہی شخص کرسکتا ہے جس کے سامنے اس حوالے سے قرآن و سنت کے احکامات پوری طرح واضح ہوں۔ قرآن حکیم میں ایک جگہ تمام اہل ایمان کو اور دوسری جگہ انبیا کو اپنی ماکولات کو ’’طیب‘‘ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ چند آیات و احادیث ملاحظہ ہوں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
یا ایھا الناس کلو مما فی الارض حلالا طیبا ولا تتبعوا خطوات الشیطن انہ لکم عدو مبین۔ (البقرۃ: ۱۶۸)
ترجمہ: اے لوگو
غیر مسلموں کے بنائے ہوئے حلال تصدیقی اداروں کی شرعی حیثیت
بسم الله الرحمن الرحيم
تمہید
کوئی ایساادارہ جو مصنوعات کے حلال ہونے کی تصدیق کرتا ہواوراس بنا پر حلال کاسرٹیفکیٹ دیتا ہو ،مگر وہ ادارہ کسی غیر مسلم ملک یا فرد کا ہو تو کیاشریعت میں ایسے حلال تصدیقی ادارے کی تصدیق کا اعتبار ہوگا اور اس بنا پر کسی پروڈکٹ کو حلال تصور کرتے ہوئے مسلمانوں کے لیے اس کا استعمال جائز ہوگا ؟ان سطور میں شریعت کی روشنی میں اس کاجائزہ لیا گیا ہے۔
سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ حلال وحرام کا تعلق شریعت کے کس دائرے سے ہے؟
دوسرے یہ کہ کسی شئ کے متعلق یہ کہنا کہ وہ حلال ہے یا
تعزیرات پاکستان کی بعض دفعات کا شرعی جائزہ ۔ ۴
دفعہ :۱۶۱
سرکاری ملازم اگر اپنے کام کے متعلق سرکاری تنخواہ کے علاوہ کوئی اور ناجائز مفاد حاصل کرتا ہے تو حکومت اس سے جرمانہ یا قید کی سزا دے گی ،یہی مذکورہ دفعہ کا حاصل ہے۔
ناجائز استفادہ بالفاظ دیگر رشوت لینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔ اگر کوئی اپنے منصب کو ایسے کاموں کیلئے استعمال کرے تو حکومت کی شرعی ذمہ داری بنتی ہے کہ اسکا سد باب کرے اور اس کے سد باب کیلئے حکومت تعزیری سزاؤں سے بھی کام لے سکتی ہے ۔
البتہ تعزیر کیلئے ضروری ہے کہ وہ سزا ایسی ہو جو حد سے کم ہو لہٰذا حکومت رشوت ستانی کے مرتکب کیلئے قید وغیرہ کی سزا تجویز کرسکتی ہے ۔جمہور فقہاء امت کا تعزیر مالی یعنی مالی جرمانہ کے جائز نہ ہونے پر اتفاق ہے لہٰذا حکومت رشوات ستانی کے سد باب کیلئے مالی جرماہ کو بطور سزا کے عائد