Co2 شراب سے کشید کردہ گیس کا حکم
استفتاء
محترم جناب مفتی صاحب دامت برکاتہم
السلام علیکم
آپ سے درخواست ہے کہ درجِ ذیل مسئلہ میں ، قرآن و سنت کی روشنی میں ہماری راہنمائی فرمائیں۔
چینی بنانے کے عمل کے دوران شیرہ بنتا ہے۔ اس شیرہ سے کیمیائی عمل کے نتیجہ میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور الکحل بنائی جاتی ہے۔ کیا یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ حلال ہے، جبکہ اس تمام عمل میں استعمال کئے جانے والے تمام خام مال/کیمیکلز حلال ہوتے ہیں اور یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ ۹۹٫۹۹ فیصد خالص ہوتی ہے۔براہ کرم راہنمائی فرمائیں۔
جزاکم اللہ تعالیٰ خیراً۔
سنحا پاکستان
باسمہ تعالیٰ
کاربن ڈائی آکسائیڈجن مشروبات میں شامل ہو،ان کاپینا حلال ہے یا نہیں ؟اس سوال کےجواب کے لیے ہمیں اس گیس کے حصول کے طریقہ کار اور اس پر پیدا ہونے والے سوالات پر غورکرنا ہوگا۔
اس گیس کے حصول کا طریقہ کیا ہے ؟ سائنسی اور کیمیاوی اصطلاحات سے صرف نظر کرتے ہوئے آسان اورسادہالفاظ میں اس گیس کو حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی مادے مثلا جو یاگندم میں پانی ڈال کراسے ایک برتن میں ابالاجاتا ہے اورپھراس میں خمیر ڈال کرتخمیر کے مشین میں جوش دیا جاتا ہے،اس دوران اس میں کچھ اضافی اجزاء بھی شامل کیے جاتے ہیں جن کا مقصد غیر ضروری اجزاء کو الگ کرنا اوربیکٹریا وغیرہ کو ختم کرنا ہوتا ہے۔اس عمل کے اختتام پر اسے ٹھنڈا کیا جاتا ہے جس سے دوچیزیں الکحل اور کاربن ڈائی آکسائیڈ حاصل ہوجاتی ہیں۔جس وقت یہ دونوں چیزیں حاصل ہوتی ہیں، اس وقت الکحل سیال یا جامد شکل میں نیچے رہتا ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ اوپر کو اٹھ کر جمع ہوجاتی ہے۔
یہ وہ طریقہ کار ہے جس کے ذریعے مذکورہ گیس حاصل کی جاتی ہے۔
اس طریقہ کار کا اگر شرعی پہلو سے جائزہ لیاجائے تو کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں اور ان کے جوابات کے بعد ہی اس گیس کے پاک اور حلال یا ناپاک اورحرام ہونے کے متعلق رائے ظاہر کی جاسکتی ہے۔
۱۔پہلا سوال یہ ہے کہ جس چیز میں خمیر ڈال کر عمل تخمیر کیا جاتا ہے وہ چیز کیا ہے۔
۲۔دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ گیس الکحل سے یا خمیر کے بخارات سے یا اس شیرہ میں سے کس چیز سے حاصل کی جاتی ہے۔بالفاظ دیگر اس میں الکحل شامل ہوتاہے یا نہیں
۳۔آخری وضاحت طلب بات یہ ہےکہ اس گیس میں الکحل کی آمیزش ہوتی ہے یا نہیں اوراگر جواب اثبات میں ہے توجس مشروب میں اس گیس کی آمیزش ہو،اس کا کیا حکم ہے۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ماخذ
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ اس گیس کے حصول کے دوبڑے ذرائع ہیں :
۱۔کیمیکل
۲۔عمل تخمیر یعنی شراب بنائی جائے اور اسی دوران یہ گیس بھی کشید کرلی جائے۔
ہماریگفتگو اس دوسری قسم کے متعلق ہےکیونکہ سوال شیرے سے حاصل کیے گیے الکحل کے متعلق ہے ۔
اس پہلے سوال سے جڑا دوسرا سوال یہ تھا کہ خود ،کاربن ڈائی آکسائیڈ الکحل ہے یا
الکحل سے بنتا ہے یا
الکحل اس میں شامل ہوتا ہےیا
شیرے سے بنتا ہے یا
خمیر کے بخارات سے وجود میں آتا ہے۔؟
ماہرین کے مطابق یہ گیس نہ خود الکحل ہے اور نہ ہی الکحل سے بنتی ہے اورنہ یہ الکحل کا بھاپ ہے بلکہ شیرے کی پیداوار ہے۔ لیکن شیرے کی پیداوار ہونے کے باوجود اس میں قلیل مقدار میں الکحل شامل ہوتا ہے جو مقدارصفائی کے بعد مزید کم ہوجاتی ہے۔جو مشروبات اس وقت رائج ہیں، ان میں دس لاکھ میں سے ایک حصہ الکحل کا ہوتا ہے۔گویا ان میں الکحل نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے،مگر چونکہ ہوتا ضرور ہے،اس لیے اس کاجواب نظرانداز نہیں کیا جاسکتا،اسی مقصد کےلیے گفتگو کے آغاز میں تیسری تنقیح قائم کی گئی تھی۔
ماہرین جو فنی تفصیل بیان کرتے ہیں کہ کاربن ڈائی آکسائیڈالکحل یا خمیر کے بخارات سے نہیں بلکہ اس شیرے سے حاصل کیاجاتا ہے ،ممکن ہے یہ وجہاپنی جگہ درست ہومگر شریعت کا مزاج اس قسم کی فنی اورتکنیکی باریکی وگہرائی کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا ہے،ا س لیے یہی کہاجائے گا کہ شراب بنانے کے عمل کے دوران گیس کشید کرلی جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں سوال کی تعبیر کچھ اس طرح ہوگی کہ جو گیس شراب سے کشید کی جائے وہ پاک ہے یا نہیں؟ اس کے ساتھ یہ بھی سوال ہوگا کہ جو مشروبات حصول لذت اورتفریح طبع کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، ان میں الکحل کی آمیزش گوارہ کی جاسکتی ہے یا نہیں۔؟ ان دونوں باتوں کو جمع کرنے کے بعد حل طلب بات یہ ہوگی کہ شراب سے بنائی گئی گیس کا بطور لذت استعمال جائز ہےیا نہیں ؟
جہاں تک الکحل کا تعلق ہے تواگر وہ انگور یا کھجور سے حاصل کردہ ہے تو بالاتفاق نجس اور حرام ہے اور اگر ان دو کے علاوہ کسی اورذریعے حاصل شدہ ہے تو شیخین کے نزدیک وہ پاک ہے اورحصول طاقت یا صحت یا کسی اورجائز مقصد کے لیے اس کی اتنی مقدار استعمال کرناجائز ہے جو نشہ کی حد تک نہ ہو مگر حصول لذت یا تفریح کے لیے شیخین کے نزدیک اس کا استعمال جائز نہیں ہے۔
جب کہ جو گیس الکحل سے کشید کردہ ہو اس کا کیا حکم ہے ؟ کےبارے کوئی صریح جزئیہ کتب فقہ میں نہیں ہے البتہ اس کی نظیریں کتابوں میں موجود ہیں ،چنانچہ کتب فتاوی میں مذکورہے کہ نجاست کا دھواں اوربخارات اصح قول کے مطابق ناپاک نہیں ہے:
اذامرت الرح بالعذرات واصابت الثوب المبلول یتنجس ان وجدت رائحۃ النجاسۃ ومایصیب الثوب من بخارات النجاسۃ لایتنجس بھا وھوالصحیح ہکذا فی الظھیریۃ ،دخان النجاسۃ اذا اصاب الثوب او البدن الصحیح ان لاینجسہ ہکذا فی السراج الوہاج،وفی الفتاوی :اذااحرقت العذرۃ فی بیت فعلا دخانہ وبخارہ الی الطابق وانعقد ثم ذاب اوعرق الطابق فاصاب ماوہ ثوبا لایفسدہ استحسانامالم یظھراثر النجاسۃ۔الفتاوی الھندیۃ ۱؍۴
علامہ ابن عابدین فرماتے ہیں :
(وبخارنجس) فی الفتح مرت الریح بالعذرات واصاب الثوب ان وجدت رائحتھا تنجس کن نقل فی الحلیۃ ان اصحیح انہ لاینجس ومایصیب الثوب من بخارات النجاسۃ قیل:ینجسہ وقیل : لا ،وھو الصحیح،وفی الحلیۃ استنجی ٰ بالماء وخرج منہ ریح لاینجس عند عامۃ المشایخ وھو الاصح وکذا اذا کان سراویلہ مبتلا۔شامی:۱؍۳۳۲۵سعید
شیخ طحطاوی لکھتے ہیں:
دخان النجاسۃ اذا اصاب الثوب او البدن فیہ اختلاف،والصحیح انہ لاینجسہ۔حاشیۃ الطحطاوی علی الدر،۱؍۱۶۱،ط کوئٹہ
دوسری دلیل اس گیس کے پاک ہونے کی یہ ہے کہ شراب سے سرکہ بنانا جائز ہے حالانکہ سرکہ میں ایک سے تین فیصد تک الکحل ہوتا ہے تو شراب سے گیس بنانا بھی جائز ہوگا اور سرکہ پاک ہے تو وہ گیس بھی پاک ہوگی۔
وخل الخمر سواء خللت اوتخللت یعنی خل الخمر فلافرق فی ذلک بین ان یتخلل بنفسہ اویخلل بالقاء شئ فیہ کالملح۔البحر الرائق،۸؍۲۱۹
مزید یہ کہ انسان جسم سے ریح کا خروج ہوتو وضو ٹوٹ جاتا ہے لیکن وہی ریح کسی گیلے کپڑے کو لگ جائے تو وہ نجس نہیں ہوتا۔
وفی الحلیۃ استنجی ٰ بالماء وخرج منہ ریح لاینجس عند عامۃ المشایخ وھو الاصح وکذا اذا کان سراویلہ مبتلا۔شامی:۱؍۳۳۲۵سعید
علاوہ بریں ناپاک پانی کا بھاپ بدن پر لگ جائے تو بدن ناپاک نہیں جب تک بھاپ اس قدر نہ ہوکہ بدن سے ٹپک جائے،ملاحظہ کیجیے:
اگر پانی کی بھاپ بدن کو لگی تو بدن کو ناپاک جب کہیں گے جب کوئی قطرہ پانی کا بدن سے ٹپکے ورنہ صرف بھاپ کی حرارت لگنے سے نجاست کا فتوی نہیں دیاجائےگا جیسے نجاست کی بدبو دماغ میں پہنچنے سے کوئی حکم نہیں ہوتا ،علی ہذا اگر بدن مین یا کپڑوں میں نجاست کے دھویں یا بھاپ کی بدبو آجائے تو نجاست کا حکم نہیں ہوگا۔(بہشتی زیور،طبی جوہر،حصہ نہم ص۷۸۳)
اگر ہم فرض کرلیں کہ گیس الکحل سے بنی ہے اور الکحل انگوریا کھجور سے حاصل کیا ہوا ہے تودرج بالاجزئیات کی بناء پروہ پھر بھی ناپاک نہیں اورجب الکحل سے بنی گیس ناپاک نہیں تو جو گیس الکحل سے نہ بنی ہو یا الکحل سے بنی ہو مگر الکحل انگور اور کھجور کے علاوہ کسی چیز سے کشید کیا ہوتو شیخین کے مذہب کے مطابق اسے بطریق اولی پاک ہونا چاہیے۔
آخری سوال یہ قائم کیاگیا تھا کہ جس مشروب میں الکحل ہواس کے استعمال کا کیا حکم ہے؟جواب یہ ہے کہ الکحل اگر انگور اورکھجور کے علاوہ ہو تو شیخین کے نزدیک دوا یا کسی معقول ضرورت کے لیے استعمال جائز ہے بشرطیکہ حد سکر نہ پہنچے،مگر لذت اورطرب کے لیے اس کا استعمال جائز نہیں ہے۔
جو مشروبات ہمارے ہاں بلکہ دنیا بھر میں رائج ہیں ان کااستعمال اگرچہ کسی ضرورت یا علاج ومعالجہ کے طور پرنہیں مگر ان کا استعمال عام ہے،اس کثرت استعمال سے کی وجہ سے ان کے استعمال کی گنجائش ہے خصوصا جب کہ گیس الکحل سے اور الکحل انگور یاکھجور سے حاصل نہ کیا گیا ہواور بہت قلیل مقدار میں کسی مشروب میں شامل ہو۔
وما سوی ذلک من الاشربۃ فلا باس بہ۔۔۔وھو نص علی ان مایتخذ من الحنطۃ واشعیر والعسل والذرۃ حلال عند ابی حنیفۃ۔۔۔وعن محمد انہ حرام۔۔۔وکان ابویوسف۔۔۔رجع الی قول ابی حنیفۃ۔الھدایۃ،کتاب الاشربۃ،۴؍۴۹۵،ط:ملتان
واللہ اعلم بالصواب
شعیب عالم