عنبر کے متعلق تحقیق
باسمہ تعالی
نام
عنبر جعفر کے وزن پر عربی زبان کا لفظ ہے(۱) ۔لکھنے میں عین کے بعد نون آتا ہے لیکن پڑھتے وقت اسےمیم(عمبر) پڑھاجاتا ہے(۲)۔ اس کی جمع عنابر آتی ہے۔ انگریزی نامAmbergris’’ایمبر گرس‘‘ہے۔ایک اورنام:AmbraGrasea ہے۔
ماہیت
عنبر کیا ہے ؟ معروف ومشہور یہ ہے کہ خاکستری رنگ کا ایک خوشبو دار مادہ ہے:
اٹھا لذتِ عود و عنبر اٹھا اٹھا لطفِ زلفِ معطر اٹھا
( ١٩٧٧ء، سرکشیدہ، ١٣١ )
یہ مادہ ایک بڑی جسامت والی مچھلی کے پیٹ سے نکل کر سطح آب پر جمع ہو جاتا ہے اس وجہ سے اس مچھلی کو بھی عنبر کہتے ہیں جوعنبر کو نگلتی اوراگلتی ہے۔یہ مچھلی اپنے بڑے سر کی وجہ سےدیگر مچھلیوں سے ممتاز ہوتی ہے۔بعض اوقات اس مچھلی کا شکار کرکے اس کے پیٹ سے بھی عنبرنکال لیتے ہیںچنانچہ امام شافعی ؒ سے منقول ہےکہ میں نے ایک شخص سے سنا کہ میں نے سمندر میں اگاہوا عنبر دیکھا جوبکری کی گردن کی طرح مڑاہواتھا ،ادھر سمندر میں ایک جانور ہوتا ہے جو اس عنبر کو کھالیتا ہے مگر عنبر اس کے لیےزہر قاتل ہوتا ہے اس لیے نگلتے ہی مرجاتا ہے ،پھر وہ مردہ جانور سمندر کی لہروں سے ساحل پر آجاتاہے اور اس کے پیٹ سے عنبر نکال لیا جاتا ہے۔(۳)
عنبرمختلف قسم کا ہوتاہےلیکن رنگت کے لحاظ سے بہترین عنبراشہب(Black ambergis) ہوتاہےجوکہسفید زردی مائل اور بہت خوشبودار ہوتاہے اور اشہب اس سیاہ رنگ کو کہتے ہیں جس کی سفیدی غالب ہو۔
خوشبویات(Fragrances) میں عمدہ اورقیمتی ہونے کی وجہ سےمشک کے بعد عنبر کا درجہ ہے۔اس کی کئی انواع واقسام ہیں جن میں سب سے اعلی اشہب رنگ کی طرح پھر نیلا پھر زرد اور سب سے ادنی نوع سیاہ رنگت کا ہوتا ہے۔(۴)
بعض ماہرین کی رائے ہے کہ سمندر میں ایک خاص قسم کا پودااگتا ہے جس کو سمندری مخلوق کھالیتی ہے اور بطور فضلہ کے خارج کردیتی ہے،مشہور مسلم طبیب اور سائنسداں ابن سینا سے منقول ہے کہ عنبر سمندری مادہ ہے،بعض نے کہا کہ سمندری گھا س ہے اور بعض نے سمندری پودا لکھا ہے،ایک مشہور قول یہ ہےکہ مچھلی کی قے (Vomit)ہے۔(۵)
جدید تحقیق
عنبر پر جو جدیدتحقیق ہوئی ہے وہ ان آراء سے مختلف نہیں ہے جو بہت پہلے علماء اسلام ظاہر کرچکے ہیں چنانچہ امام زمحشری کے حوالے سے تاج العروس میں منقول ہے کہ عنبر سمندر کی سطح پر تیرتا ہوا مادہ ہے جس میں بسااوقات پرندوں کی باقیات بھی ملتی ہیں۔
امام زمحشری کی رائے کو اگر موجودہ تحقیقات کی روشنی میں دیکھا جائے تو ان کی رائے کی اہمیت اوربڑھ جاتی ہے۔عنبر کے متعلق ایک تحقیق یہ ہے کہ عنبردراصل درختوں سے بہنے والی رال اور گوند ہے۔ جب حشرات اسے کھانے کےلیے قریب آتے ہیں تو اس میں چپک جاتے ہیں اور ہوا بند(Airtight)ہونے کے باعث ہمیشہ کے لئے اس میں مقید ہوجاتے ہیں۔
عظیم یونانی ماہر حیاتیات اورفلاسفر ’’ تھیوفہارسٹس‘‘ (Theophrastus)وہ پہلا شخص تھا جس نے لگ بھگ چارسوسال قبل مسیح میں عنبر کے خواص کے بارے میں تحقیق کی تھی ۔تحقیق سے ثابت ہوا کہ عنبر زیادہ تر ان ساحلی علاقوں میں پایا جاتاہے جہاں ماضی میں صنوبری جنگلات کی بہتات تھی بعد ازاں یہ درخت زیر آب آگئے اور ان کی رال یا گوند درختوں سے علیحد ہو کر دلدلی پانی اور ساحلی پہاڑیوں میں پھیل گئی اور مخصوص کیمیائی عوامل کے بعد نیم دائروی شکل کے ٹھوس عنبروں میں تبدیل ہوگئی جنہیں غوطہ خور اور تاجر حضرات تلاش کر کے فروخت کرتے ہیں۔(۶)
اب تک کی گفتگو کی حاصل یہ ہے کہ عنبر ایک خوشبودار مادہے ،امگر یہ مادہ خود کیا ہے ؟اس بارے میں مختلف آراء ہیں ،مثلا:
۱۔ درختوں کی رال اورگوند ہے۔
۲۔ سمندر کی تہہ میں اگنے والا پودا ہے۔
۳۔ سمندری جڑی بوٹی ہے۔
۴۔ مچھلی کی قے ہے۔
۵۔ مچھلی کا فضلہ ہے۔
۶۔ تارکول کی طرح سمندر ی چشمے سے نکلنا والا مادہ ہے۔
۷۔ ایک خاص قسم کی مکھی کا شہد کی طرح چھتہ ہے جو بارشوں اور طوفانوں سے ٹوٹ کر سمندر میں آجاتا ہے۔
عنبر کے متعلق طب یونانی میں تفصیلات
عنبر کے متعلق طبیبوں اور حکیموں نے جو کچھ طب کی کتابوں میں لکھا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ عنبر گرم خشک ہے ،مفرح قلب ،مقوی دماغ اور محرک حرارت غریزی ہے۔اعصاب کو تقویت بخشتا ہے۔ عنبر کو زیادہ تر اعصاباور قلب کے امراض باردہ میں استعمال کیاجاتاہے۔ حرارت غریزی کے ضعف کے وقت اس کو برانگیختہ کرنے کیلئے کھلایا جاتاہے۔عنبر کا کھانا بوڑھوں کیلئے مفیدہے۔ضعف اور زخم معدہ کو زائل کرنے کیلئے بھی استعمال کرایا جاتاہے۔ عنبر کی خاص خصوصیت بطور دوا یہ ہے کہ محرک باہ اورمحافظ غریزی ہے لیکنآنتوں اور جگر کے لئے مضر ہے اوراس کے لیےمصلح صمغ،عربی ،طباشیر ہے،مشک اورزعفران کو اس کے بدل کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے۔عنبر سے جو مرکبات تیار ہوتے ہیں ان میں خمیرہ ابریشم ،حب عنبر مومیائی اور خمیرہ گاؤ زبان عنبری مشہور ہیں۔(۷)
عنبرچونکہ ایک قدرتی نعمت ہے اور بڑی قدروقیمت رکھتی ہے اس لیے علماء کے درمیان یہ نکتہ بھی زیر بحث آیا ہے کہ دیگر معدنیات کی طرح عنبر پر بھی محصول عائد ہوگا یا نہیں اور اگر ہوگا تو اس کی مقدار کیا ہوگی ،اس بارے میں ائمہ کے آراء مختلف ہیں ۔علماء کی اکثریت کے نزدیک عنبر میں سے حکومت وقت کو محصول وصول کرنے کا حق نہیں ۔یہی رائے مالکیہ ،شافعیہ اور احناف میں سے امام ابوحنفیہ اور امام محمد کی ہے۔تابعین میں سے حضرت عطاء،امام سفیان ثوری،ابن ابی لیلی،حسن بن صالح اور ابوثور ؒ کا بھی یہی مذہب ہے۔جب کہ بعض حنابلہ اوراحناف میں سے امام ابویوسف کی رائے یہ ہے کہ عبنر میں خمس سے یعنی پانچواں حصہ واجب ہے۔(۸)
عنبر قرآن وحدیث کی روشنی
قرآن کریم میں سمندری عجائبات اور معدنیات کا ذکر ہے مگر نام کے ساتھ عنبر کا ذکر نہیں البتہ احادیث میں عنبر کا بطورخوشبو بھی ذکر موجود ہے چنانچہ نسائی شریف میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ کیا آنحضرت ﷺ خوشبو لگاتے تھے ؟انہوں نے جواب دیا :’’جی ہاں‘‘ مردانہ خوشبو یعنی مشک اورعنبر
وعن محمد بن علي قال: «سألت عائشة - رضي الله عنها - أكان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يتطيب؟ قالت: نعم بذكارة الطيب المسك والعنبر» . رواه النسائي والبخاري في تاريخه) .نيل الأوطار (1/ 165)
حضرت سعیدبن جبیر سے مروی ہے کہ حائضہ عورت کو کپڑوں کو خون کے دھبے لگ جائیں تو انہیں دھولے اور پھر خوشبودارگھاس یا زعفران کو یا عنبر کو اس پر مل لے۔ اس کے علاوہ کچھ اور روایات بھی ہیں جن میں عنبر پر زکوۃ واجب ہونے یا نہ ہونے کی بحث ہے۔
حدثنا ابن فضيل، عن ليث، عن سعيد بن جبير، في الحائض يصيب ثوبها من دمها، قال: «تغسله ثم يلطخ مكانه بالورس والزعفران، أو العنبر۔مصنف ابن أبي شيبة (1/ 91)
مشہور تابعی حضرت عطاء بن رباح سے سوال ہواکہ میت کو مشک لگاسکتے ہیں تو منع فرمایا لیکن عنبر کے متعلق جب پوچھا گیا تو اس کی اجازت دی۔
6143 - عن ابن جريج قال: قلت لعطاء: أيكره المسك حنوطا؟ قال: نعم قال: قلت: فالعنبر؟ قال: «لا، إنما العنبر والمسك قطرة دابة»
مصنف عبد الرزاق الصنعاني (3/ 415)
عنبر کے پاک وحلال ہونے متعلق مذاہب فقہاء
فقہ حنفی:
عنبر کے متعلق فقہ حنفی میں بھی وہی اقوال منقول ہیں جن کاپہلے تذکرہ ہوچکا ہے ۔علامہ کاسانی نے عنبر کو اپنی اصل کے لحاظ سےخوشبو قراردیا ہے ۔علامہ شامی ؒ نے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ عنبر اصل میں سمندر میں نکلنا والا چشمہ ہے اورپاک ہے اور فیصلہ یہ کیا ہے کہ عنبر پاک بھی ہے اورحلال بھی ہے۔ایک دوسرے مقام پر علامہ شامی نے عنبر کے استعمال کو دوشرطوں کے ساتھ جائز قرار دیا ہے ،ایک یہ کہ اتنی مقداراستعمال نہ کیا جائے کہ جس سے نشہ پیدا ہو یا جو صحت کے مضر ہو۔بہر حال فقہ حنفی کی رو سےعنبر کا بطور خوشبو خارجی استعمال اور بطور دوا یا کھانے کے داخلی استعمال جائز ہے کیونکہ پاک بھی ہے اور حلال بھی ہے۔محقق علامہ شامی لکھتے ہیں :
وَأَمَّا الْعَنْبَرُ فَالصَّحِيحُ أَنَّهُ عَيْنٌ فِي الْبَحْرِ بِمَنْزِلَةِ الْقِيرِ وَكِلَاهُمَا طَاهِرٌ مِنْ أَطْيَبِ الطِّيبِ. اهـ
(رد المحتار) (1/ 209)
أقول: المراد بما أسكر كثيره إلخ من الأشربة، وبه عبر بعضهم وإلا لزم تحريم القليل من كل جامد إذا كان كثيره مسكرا كالزعفران والعنبر، ولم أر من قال بحرمتها، ۔۔۔۔۔ وأن البنج ونحوه من الجامدات إنما يحرم إذا أراد به السكر وهو الكثير منه، دون القليل المراد به التداوي ونحوه كالتطيب بالعنبر وجوزة الطيب، ونظير ذلك ما كان سميا قتالا كالمحمودة وهي السقمونيا ونحوها من الأدوية السمية فإن استعمال القليل منها جائز، بخلاف القدر المضر فإنه يحرم، فافهم واغتنم هذا التحرير
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 42
فقہ حنفی میں عنبر کے متعلق مزید تفصیل کے لیے منسلکہ فائل ملاحظہ کیجیے۔
فقہ شافعی
فقہ شافعی میں خودبانی مذہب حضرت امام شافعی سے منقول ہے عنبرپاک ہے۔ایک کمزور قول یہ ہےکہ عنبر نجس ہے مگرامامزينالدينعمربنمظفرالوردیالشافعینے عنبر کےپاکہونےپراجماع نقل کیاہے اسی وجہ سے فقہ شافعی میں عنبر کی خریدوفروخت اور بیع سلم جائز لکھاہے ورنہ ناپاک اشیاء کی تجارت مذہب شافعی میں جائز نہیں ہے۔امام ماوردی نے عنبر کا تذکرہ ان اشیاء میں کیا ہے جو کبھی خوراک کے طورپر بھی استعمال کی جاتی ہیں ۔پاک ہونے کی وجہ سے عنبر کا داخلی استعمال بھی جائز ہے کیونکہ مذہب شافعی کی رو سے ہرپاک شے کا کھاناجائز ہے ماسوائے ان اشیاء کے جو انسانی صحت یا عقل کے لیےمضرہوں یا نشہ آور ہوں یا مردار کی دباغت دی ہوئی کھال ہو۔
عنبر کی ماہیت کے متعلق شافعی مذہب میں تین قول ملتے ہیں ،ایک یہ کہ سمندری پودا ہے،دوسرے یہ کہ سخت اورٹھوس قسم کی شے ہے جسے جانورنگلنے کے بعد ہضم نہیں کرپاتا اوراگل دیتا ہے اورتیسرے یہ کہ جانورکا فضلہ ہے۔خشکی کے نباتات کی طرح سمندر کے نباتات بھی حلال ہیں اس لیے پہلے قول کے مطابق عنبرکی حلت وطہارت کے متعلق کوئی اشکال پیدا نہیں ہوتا اوراگر یہ قول اختیار کیا جائے کہ عنبر مچھلی کی قے ہے تو ہاضمہ کے اندرونی عمل سے اس کی ساخت تبدیل ہوجاتی ہے اورساخت کی تبدیلی سے تو ناپاک شے بھی پاک ہوجاتی ہے اورجس صورت میں مچھلی اسے جوں کا توں اگل دیتی ہے اس صورت میں عنبر کا حکم وہی رہے گا جو نگلنے سے پہلے تھا اوریہ واضح ہے کہ نگلنے سے پہلے وہ پاک اورحلال تھا ،زیادہ سے زیادہ ان آلائشوں کو صاف کردیا جائے گا جو اس سے لگی ہوں۔امام شافعی نے اس موضوع پر اپنی عادت کے مطابق بڑی فاضلانہ بحث کی ہے جو کتاب الام میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے اور اس سے موجودہ دور میں حلال وحرام کے متعلق بڑی زریں اصولوں کی طرف رہنمائی ملتی ہے۔
فقہ شافعی میں عنبر کے متعلق مزید تفصیل اوربعض دیگر اہم مباحث اورحوالہ جات کےلیے منسلکہ فائل ملاحظہ کیجیے۔
مذہب مالکی:
مالکی فقہ میں عنبر کے بارے میں تین قول منقول ہیں :خوشبودار مادہ ہے،مچھلی کی قے ہے یا اس کا فضلہ ہے۔پہلے قول کو بعض نے صحیح قراردیا ہے۔محقق مالکی علماء کے نزدیک عنبر سمندرجڑی بوٹی ہے جس کی سب سے اعلی اوربرترقسم وہ ہے جولہروں کی مددسے ساحل پر آپہنچتی ہے اورجسے مچھلی کھانے کے بعداگل دیتی ہے وہ درمیانی نوعیت کاعنبر ہے اور اگر مچھلی کے گلنے سڑنے کےبعد اس کا پیٹ چاک کرکے عنبر نکالاجائے تو وہ سب سے ادنی قسم ہے۔
عنبر کے خارجی استعمال کے متعلق فقہ مالکی میں صراحت کے ساتھ اجازت منقول ہے چنانچہ امام ابن قاسم کہتےہیں کہ میں نے امام مالکؒ سے پوچھا کہ میت کو مشک وعنبر لگاسکتے ہیں ؟تو جواب دیا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ۔اس سے معلوم ہواکہ عنبر پاک ہے کیونکہ کسی چیز کا بیرونی استعمال اسی وقت جائز ہوتا ہے جب وہ پاک ہو۔جہاں تک عنبر کے داخلی استعمال کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں وہی عام شرائط لاگو ہیں جو کسی بھی حلال شےکے متعلق لاگو ہوتی ہیں یعنی یہ کہ اس کا اتنی مقدارمیں استعمال نہ ہو جوضرر کا باعث ہو یاجس سے نشہ پیدا ہو۔مزید تفصیل کےلیے منسلکہ فائل ملاحظہ کیجیے۔
فقہ حنبلی
فقہ حنبلی میں بھی عنبر کی حقیقت کے متعلق وہی اقوال منقول ہیں جن کا ماقبل میں تذکرہ ہوچکا ہے۔مستندحنبلی کتابوں کارجحان اس طرف ہے کہ عنبر سمندری جڑی بوٹی ہے جو مختلف ذرائع سے انسان کو حاصل ہوتی ہے ۔اگر چہ اس کا خوردنی استعمال بھی ہوتا ہے مگر اصل میں خوشبودار مادہ ہے اور خوشبو کے مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔عنبر کو فقہ حنبلی میں پاک لکھا ہے،لیکن پاک ہونے کے ساتھ حلال بھی ہے کیونکہ حنابلہ کے نزدیک ہر پاک چیز حلال ہے جب تک ضرررساں یا نشہ آور نہ ہو۔اس لیے پاک وحلال ہونے کی وجہ سے اس کا خارجی اورداخلی استعمال جائز ہے۔
حاصل کلام
المختصر عنبر پاک وحلال ہے اس وجہ سے اس کاخارجیاستعمال (External use in Cosmetics and personal care products )چاروں مذاہب کی رو سے جائز ہے جب کہاسکااندرونیاستعمال (Oral use) اتنیمقدارمیںجائز ہے جس سے نشہ نہ ہو اور انسانی صحتکےلیےمضرنہہو۔
لہٰذماکولات (Edibles) ،مشروبات (Beverages) ،ادویات(Pharmaceuticals)اورآرائش وزیبائش کی اشیاء (Cosmetics) میںعنبرکااستعمالجائز ہےاوراگرعنبرسےکوئینئیچیز،کوئینیاذائقہ (Flavor/Essence) وغیرہتیارکیاجاتا ہے تووہبھیحلالہے۔
حواشی وحوالہ جات
۱۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔عنبرکااستعمال حسن کے استعارہ کے طورپر بھی ہوتا ہے چنانچہ خوب صورت لہجے کے شاعر فیض احمد فیض نے اپنی ایک نازک احساسات پر مبنی نظم کا عنوان ’’حبیب عنبر دست‘‘رکھا ہے۔ عنبر کاانگریزی نامAmbergris’’ایمبر گرس ‘‘ ہے دیگرنام:AmbraGrasea ہے۔
عربوں میں بطور نام اس لفظ کا استعمال کافی قدیم ہے،اس لیے حدیث کے راویوں کی چھان بین کرتے وقت عنبر نام کے کئی راویوں کا تذکرہ ملتا ہے جیسے احمد بن عنبر البصری ،ابوزبید عنبروغیرہ،عنبر کےساتھ بطور لاحقہ ’’ین ‘‘کے اضافہ سے عنبرین بنا ہے جو بطور اسم اور صفت دونوں طرح استعمال ہوتا ہے جیسے زلف عنبریں ،خط عنبریں ،وغیرہ
۲۔ باء سے پہلے نون آتا ہے تو اسے میم سے بدل دیتے ہیں:
قد أبدلت من النون الساكنة إذا وقعت قبل الباء نحو عنبر وشنباء هي في اللفظ ميم وفي الخط نون
أصول النحو العربي - (2 / 328)
بعض نے اسے فنعل کے وزن پر قراردیا ہے:
العَنْبَرُ كجَعْفَرٍ۔۔۔ووزنه فَعْلَلَ۔۔۔۔ فقال في المِصْباح : العَنْبَرُ فَنْعَل۔۔۔ وجَمْعَهُ ابنُ جِنِّى على عَنابِرَ .۔۔
تاج العروس من جواهر القاموس - (13 / 147)
۳۔ ع ن ب ر العَنْبَرُ من الطِّيب معرُوف
تاج العروس من جواهر القاموس - (13 / 147)
والعنبر من الطيب معروف
المحكم والمحيط الأعظم - (2 / 468)
أختلف في العنبر فقال الشافعي في كتاب السلم من الأم أخبرني عدد ممن أثق بخبره أنه نبات يخلقه الله في جنبات البحر قال وقيل أنه يأكله حوت فيموت فيلقيه البحر فيؤخذ فيشق بطنه فيخرج منه۔) فتح الباری 3/362)
۴۔ أجود أنواع العنبر هو الأشهب القوي ثم الأزرق ثم الأصفر وأقل الأنواع جودة هو الأسود.والعنبر مادة رمادية أو بيضاء أو صفراء أو سوداء يستخدم في تحضير وتصنيع أفضل وأغلى أنواع العطور
۵۔ قيل أنه نبت ينبت في البحر بمنزلة الحشيش في البر ، وقيل : إنه شجرة تتكسر فيصيبها الموج فيلقيها على الساحل ، وليس في الأشجار شيء ، وقيل : إنه خثى دابة في البحر ، وليس في أخثاء الدواب شيء
(المبسوط للسرخسي 3 / 357)
الْعَنْبَرَ خَثَى دَابَّةٍ فِي الْبَحْرِ وَقِيلَ أَنَّهُ يَنْبُتُ فِي الْبَحْرِ بِمَنْزِلَةِ الْحَشِيشِ وَقِيلَ إنَّهُ شَجَر
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق - (3 / 433
العَنْبَرُ فَنْعَل : طِيبٌ مَعْرُوفٌ . وقد وقع فيه اختِلافٌ كثير . فقيل : هو رَوْثُ دابَّة بَحْريّة ، ومثلُه في التَّوْشِيح ،قال : العَنْبَرُ سَمَكَةٌ كبيرةٌ ، والمَشْمُوم رَجِيعُهَا ، قيل : يُوجَدُ في بَطْنها . أَو هو نَبْعُ عَين فيه ، أَي في البَحْر ، يكون جَمَاجمَ ، أَكبرُها وَزْنُ أَلفِ مِثْقال ، قاله صاحِبُ المِنْهَاج . وقال ابنُ سَعِيد : تَكلَّمُوا في أَصْل العَنْبَرِ ، فذَكَرَ بعضُهم أَنّه عُيُونٌ تَنْبُعُ في قَعْرِ البحرِ يصيرُ منها ما تَبْلَعُه الدَّوابُّ وتَقْذِفُه ، ومنهم من قال : إِنّه نَباتٌ في قَعْرِ البَحْر قاله الحِجاريّ ، ونَقَلَه المَقَّرِيّ في نَفْح الطِّيب . وقيل : الأَصَحُّ أَنَّه شَمعُ عَسَلٍ ببلادِ الهِنْد يَجْمُد ويَنْزِلُ البَحْرَ ، ومَرْعَى نَحْلِه من الزُّهور الطَّيِّبَة يَكْتَسِب طِيبَه منها ، وليس نَباتاً ولا رَوْثَ دابَّة بَحْرِيَّة
تاج العروس من جواهر القاموس - (13 / 147)
۶۔ وقال الزَّمَخْشَرِيّ : العَنْبَرُ يأْتي طُفَاوَةً على الماءِ لا يَدْرِي أَحدٌ مَعْدِنَه ، يقذِفُه البحر إلى البَرِّ ، فلا يأْكلُ منه شئٌ إِلاّ ماتَ ، ولا يَنْقُرُه طائرٌ إِلاّ بَقِيَ مِنْقَارُه فِيه ، ولا يَقَع عليه إِلاّ نَصَلَتْ أَظْفَارُه ، والبَحريُّون والعَطّارُون رُبَّمَا وَجَدُوا فيه المَنَاقِيرَ ، والظُّفرَ .
تاج العروس من جواهر القاموس - (13 / 147)
۷۔ وَأَمَّا الْكَلَام عَلَى الزَّعْفَرَان وَالْعَنْبَر خُصُوصًا عَلَى طَرِيق الطِّبّ فَأَقُول : إِنَّ كَيْفِيَّات الْأَدْوِيَة وَأَفْعَالهَا وَخَوَاصّهَا لَا تَثْبُت عَلَى بَدَن الْإِنْسَان بِبُرْهَانٍ إِنِّيّ وَلَا بِبُرْهَانٍ لَمِّيّ بَلْ تَثْبُت أَفْعَالهَا وَخَوَاصّهَا بِالتَّجَارِبِ ، وَقَدْ ثَبَتَ بِالتَّجْرِبَةِ أَنَّ الْعَنْبَر يُقَوِّي الْحَوَاسّقَالَ الشَّيْخ فِي الْقَانُون : عَنْبَر يَنْفَع الدِّمَاغ وَالْحَوَاسّ وَيَنْفَع الْقَلْب جِدًّا . اِنْتَهَى مُخْتَصَرًا .
وَفِي التَّذْكِرَة لِلشَّيْخِ دَاوُدَ : عَنْبَر يَنْفَع سَائِر أَمْرَاض الدِّمَاغ الْبَارِدَة طَبْعًا وَغَيْرهَا خَاصِّيَّة وَمِنْ الْجُنُون وَالشَّقِيقَة وَالنَّزَلَات وَأَمْرَاض الْأُذُن وَالْأَنْف وَعِلَل الصَّدْر وَالسُّعَال شَمًّا وَأَكْلًا وَكَيْف كَانَ فَهُوَ أَجَلّ الْمُفْرَدَات فِي كُلّ مَا ذُكِرَ شَدِيدُ التَّفْرِيحِ خُصُوصًا بِمِثْلِهِ بَنَفْسَجٌ وَنِصْفُهُ صَمْغٌ أَوْ فِي الشَّرَاب مُفْرَدًا ، وَيُقَوِّي الْحَوَاسّ وَيَحْفَظ الْأَرْوَاح اِنْتَهَى مُخْتَصَرًا .
عون المعبود شرح سنن أبي داود (مراجع) - (9 / 598)
۸۔
مَا يَجِبُ فِي مَعَادِنِ الْبَحْرِ اخْتَلَفَ الْفُقَهَاءُ فِيمَا يَجِبُ فِي مَعَادِنِ الْبَحْرِ .
فَذَهَبَ الْمَالِكِيَّةُ وَالشَّافِعِيَّةُ وَأَبُو حَنِيفَةَ وَمُحَمَّدٌ مِنَ الْحَنَفِيَّةِ وَبَعْضُ الْحَنَابِلَةِ إِلَى أَنَّهُ لاَ يَجِبُ فِي مَعَادِنِ الْبَحْرِ شَيْءٌ لِمَا رُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ قَال فِي الْعَنْبَرِ أَنَّهُ دَسَرَهُ ( أَلْقَاهُ ) الْبَحْرُ فَلاَ شَيْءَ فِيهِ ، فَهَذَا النَّصُّ صَرِيحٌ فِي أَنَّ الْعَنْبَرَ لاَ شَيْءَ فِيهِ ، وَالْعَنْبَرُ مُسْتَخْرَجٌ مِنَ الْبَحْرِ فَكَذَلِكَ غَيْرُهُ مِنْ مَعَادِنِ الْبَحْرِ لاَ شَيْءَ فِيهِ إِذْ لاَ فَرْقَ بَيْنَ مَعْدِنٍ وَآخَرَ مِنْ مَعَادِنِ الْبَحْرِ ، وَبِهِ قَال عَطَاءٌ وَالثَّوْرِيُّ وَابْنُ أَبِي لَيْلَى وَالْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ وَأَبُو ثَوْرٍ وَلأَِنَّ الْعَنْبَرَ كَانَ يَخْرُجُ عَلَى عَهْدِ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخُلَفَائِهِ فَلَمْ يَأْتِ فِيهِ سُنَّةٌ عَنْهُ وَلاَ عَنْهُمْ مِنْ وَجْهٍ يَصِحُّ . وَلأَِنَّ الأَْصْل عَدَمُ وُجُوبِ شَيْءٍ فِيهِ مَا لَمْ يَرِدْ بِهِ نَصٌّ وَلأَِنَّهُ عَفْوٌ قِيَاسًا عَلَى الْعَفْوِ مِنْ صَدَقَةِ الْخَيْل .
وَذَهَبَ بَعْضُ الْحَنَابِلَةِ وَأَبُو يُوسُفَ مِنَ الْحَنَفِيَّةِ إِلَى وُجُوبِ الْخُمُسِ فِي مَعَادِنِ الْبَحْرِ ، وَبِهِ قَال الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، لِمَا رُوِيَ عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَسْأَلُهُ عَنْ عَنْبَرٍ وُجِدَ عَلَى السَّاحِل فَكَتَبَ إِلَيْهِ فِي جَوَابِهِ أَنَّهُ مَال اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَفِيهِ الْخُمُسُ .
وَلأَِنَّهُ نَمَاءٌ يَتَكَامَل عَاجِلاً فَاقْتَضَى أَنْ يَجِبَ فِيهِ الْخُمُسُ كَالرِّكَازِ ، وَلأَِنَّ الأَْمْوَال الْمُسْتَفَادَةَ نَوْعَانِ مِنْ بَرٍّ وَبَحْرٍ ، فَلَمَّا وَجَبَتْ زَكَاةُ مَا اسْتُفِيدَ مِنَ الْبَرِّ اقْتَضَى أَنْ تَجِبَ زَكَاةُ مَا اسْتُفِيدَ مِنَ الْبَحْرِ .
الموسوعة الفقهية الكويتية - (38 / 200)