8
Dhil Hijja

الفاظِ طلاق : احتیاط اور تفہیم

باسمہ تعالیٰ

 

الفاظِ طلاق کے احکام

 

نکاح فطرت ہے،فطرت  ہے تو طبیعت  ہے،طبیعت ہے تو ضرورت ہے،ضرورت ہے تو شریعت ہےاورشریعت ہے توعبادت ہے۔عبادت ہے تو اس  کاطریقہ مقرر ہے، اس لیے اسے مرضی کے مطابق نہیں، بلکہ شریعت کی منشا کے مطابق انجام دیا جائے گا۔

عبادت ہے تو بڑے عبادت گزاروں نے اسے ضرورانجام دیا ہوگا ،چنانچہ نکاح، انبیاء کا اسوہ اورصلحاء کا طریقہ ہے۔

عبادت ہے تو اس سے تزکیہ نفس کا مقصد ضرورحاصل ہوگا ،چنانچہ نکاح، نگاہوں کو پاک ،خیالات کو پاکیزہ ، جذبات کی تسکین اورایمان کی تکمیل کرتا ہے۔

عبادت  ہے تو اس  کے پس پشت انسانیت کی فلاح کا مقصد ضرور پیش نظر ہوگا،چنانچہ نوع انسانی کی بقاء،نفس پر ضبط،شہوت پرکنٹرول،اخلاق کو سنوارنے،فواحش سے بچنے اورپاکدامنی کے حصول کے لیے نکاح سے بڑھ کرکوئی نسخہ نہیں،اسی  شریفانہ طریقے سے توالد وتناسل کا سلسلہ جاری ر ہتا ہے،اسی سے نام اورکام باقی رہتا ہے،اسی سے مردوعورت کے تعلقات جائز،اولاد کانسب درست  اور باہم حقوق وفرائض پیداہوتے ہیں  اور اسی  سے خانگی نظام کی اصلاح ہوتی ہے ،جس پر تمام ہیئت اجتماعی کی درستگی کا انحصار ہے۔

عبادت کےساتھ نکاح ایک سماجی معاہدہ بھی ہے۔معاہدہ دوطرفہ عمل ہوتا ہے جوباہمی رضامندی سےتشکیل پاتا ہے،باہمی رضامندی کا اظہار الفاظ سے ہوتا ہے، اس لیے ہر معاہدے  کی طرح نکاح کا معاہدہ بھی الفاظ سے وجود میں آتا ہے،چنانچہ رضامندی کے دوبول ہوتے ہیں جو سماعت سے ٹکراکرختم اور ہوا میں اڑ کر تحلیل ہوجاتے ہیں ،مگر کہنے والوں کو ایک بندھن میں باندھ دیتے ہیں ۔

ایسا مقدس بندھن جومعنوی پہلو سے فولادسے زیادہ سخت ،شہد سے زیادہ میٹھا،ہر قسم کے مادی تعلقات سے زیادہ مضبوط،دوررس اثرات کا حامل  اوران گنت فوائد پر مشتمل ہوتاہے۔

نکاح جس قدرفوائد پر مشتمل ہے ،اس کاٹوٹنا اتنا ہی مضر ہے ۔دوخاندانوں میں محبت ،نفرت سے اور الفت عداوت سے بدل جاتی ہے۔خاندانی نظام  کی بنیادی اکائی منہدم ہوجاتی ہے، خانگی نظام متزلزل ہوجاتا ہے،بچوں کامستقبل، تاریک اور زوجین کامعاشرتی وقار سب دریابرد ہوجاتا ہے،اسی وجہ سے طلاق کو'' ابغض المباحات'' کہاگیا ہے۔جولوگ عجلت میں اس کااستعمال کرتے ہیں اور اس کے ذریعے اپنے جوش انتقام کو تسکین دیتے ہیں، وہ جہالت کا شکار ، عنداللہ مجرم اور سخت غلطی پر ہیں۔

نکاح سے زیادہ حساس،باریک اورنازک  معاملہ ایمان کا ہے ،مگرلوگ اس کے بارے میں کس قدرمحتاط واقع ہوئے ہیں!؟ ،زمانے کے نبض شناس  بہت پہلے مرض کی تشخیص اور اس کے ساتھ نسخہ تجویز کرچکے ہیں۔

فتاوی کی معروف کتاب ''شامی'' میں'' تبیین المحارم'' کے حوالے سے ہے کہ احتیاط  یہ ہے کہ عام  آدمی ہرروز اپنے ایمان کی اور  مہینے میں   ایک دومرتبہ  اپنے نکاح کی تجدید کرلیاکریں ،کیونکہ غلطی   مرد سے نہ سہی، مگر عورتوں سے بہت زیادہ ہوجایا کرتی ہیں :

''والاحتياط أن يجدد الجاهل إيمانه كل يوم،ويجدد نكاح امرأته عند شاهدين في كل شهر مرة أو مرتين، إذ الخطأ وإن لم يصدر من الرجل فهو من النساء كثير.'' (1/ 42،دار الفكر-بيروت، الطبعة: الثانية، 1412هـ - 1992م)

یہ اس زمانے کی بات ہے جو دینی شعور ،خوف خدا اور فکرآخرت کے اعتبارسے بہرحال اچھاتھا،مسلمان دینی مسائل سے آج کے مقابلے میں زیادہ  بہتر واقفیت رکھتے تھے،شریعت رواج میں تھی، اس لیے مکتب اورکتاب کے بغیر محض ماحول کی برکت سے لوگ بہت کچھ دینی مسائل جان جایاکرتے تھے۔اس کے ساتھ معاشرے پر اسلامی  رنگ اور روحانیت کی چھاپ غالب تھی  اور ا س کی عمومی فضادینی اور مذہبی تھی،ان وجوہ کی بناء پر شریعت پر عمل آسان تھا اور معاشرے سے کٹ کر چلنا دشوار،اورجمہورکی مخالفت میں قدم اٹھانامشکل تھا۔

اب جب کہ ماحول نہ  رہا تو بدیہی مسائل ،نظری  اورآسان ،اعمال مشکل ہوگئے۔معاشرتی روک ختم ہواتو دبی برائیوں کو ابھرنے اور شرکو سراٹھانے کاموقع مل گیا۔روشنی  کمزورپڑنے لگتی ہے  تو اندھیروں کے حوصلے بڑھنے لگتے ہیں اورظلمتیں راج کرنے لگتی ہیں۔آفتاب نبوت سے دوری بڑھتی جارہی ہے تو قلوب میں ایمان کی حرارت اورسینوں میں اس کی تمازت ماند پڑتی جارہی ہے۔آج ایمان کی وہ قوت ،اعمال کاوہ جوش وجذبہ  اوراخلاق کی وہ کیفیت نہ رہی جو کبھی ہواکرتی تھی۔خداکا خوف اورآخرت کا دھیان کم ہواتو نتیجہ  یہ  نکلا کی نفس کی لگامیں کمزور اور زبان پر گرفت ڈھیلی پڑگئی،  چنانچہ آج کھلی آنکھوں مشاہدہ ہوتا ہے کہ نگاہیں آوارہ اور زبانیں بے قابو ہیں،لوگ اناپ شناپ بولتے رہتے ہیں، جس سے ایمان  سلب ہونے ، اعمال غارت ہونے  اورنکاح ٹوٹنے کاخطرہ لگارہتا ہے۔

ایمان کی طرح نکاح کا معاملہ بھی  اہمیت میں کچھ کم نہیں ،دونوں میں اس لحاظ سے بڑاجوڑ بھی ہے کہ آخرت میں بھی یہ دونوں باقی رہیں گے۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت  کو ایمان کی طرح   نکاح  کی بقاء بھی  مطلوب ہے۔اسی وجہ سے ابلیس لعین کو سب سے زیادہ خوشی اسی کے ٹوٹنے سے ہوتی ہے ،مگر مسلمان ہیں جو اس لعین کو خوشیاں منانے اور بغلیں بجانے کاموقع فراہم کرتے رہتے ہیں ،اگر یقین نہ آئے تو کسی خاندان کے اندرون خانہ جھانک کر دیکھیے:

''دومیاں بیوی ہیں اور دونوں  نیک طینت،خوب صورت اور خوب سیرت ہیں،معاشی طورپر خوش حال اور اولاد کی نعمت سے مالامال ہیں۔غرض ہنستابستا گھرانہ  اوردنیا میں جنت کا نمونہ ہے،مگر دوبرتن  ساتھ رکھے ہوئے تو کھنکنے کی آواز آہی جاتی ہے،میاں بیوی بھی ایک اورنیک سہی ،مگرمختلف طبیعتو ں اورمتضادخواہشات کے مالک ہوتے ہیں،اس لیےان کے مابین بھی  نوک جھونک اور توتکرار ہوہی جاتی ہے،شیطان اسے مزید بڑھا ،بڑھکا بلکہ دہکا دیتا ہے،نتیجۃََ''الشر مبدہ  اصغرہ ''کا مقولہ صادق آجاتا ہے۔معمولی بات سے شروع ہونےوالا جھگڑا جب شدت اختیار کرنے لگتا ہے تو شوہر، ضبط نفس کھونے لگتا ہے،بیوی  بھی جب غصے سے مغلوب ہوجاتی ہےتو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے لگتی ہے،بات گالم گلوچ  تک جاپہنچتی ہے اور کبھی مارپیٹ کی نوبت بھی آجاتی ہے۔شوہر تنگ آکر طلاق کی دھمکی دیتا ہے تو بیوی اسے دھمکی پر عمل کرنے کا کہتی ہے۔جب وہ کہتا ہے کہ میں طلاق دے دوں گاتو اسے جواب ملتا ہے کہ طلاق تو ہوتی ہی دینے کے لیے ہے،اس لیے دے ڈالو،یہ سن کر شوہر کاپارہ مزید چڑھ جاتا ہے اوروہ طلاق دے ڈالتا ہے مگر دے کر بھی نہ شوہر کا غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے اور نہ ہی بیوی کی تسلی ہوتی ہے، اس لیے وہ سنتے ہی جواب دیتی ہے کہ جب ایک دے دی  ہے تو اب بقیہ بھی دے ڈالو تاکہ معاملہ بالکل ہی ختم ہوجائے ،چنانچہ شوہر بقیہ دو بھی  دے ڈالتا ہے۔یوں گھرانہ اجڑ اورآشیانہ تنکاتنکا بکھرجاتا ہے جس کاخمیازہ نسلیں بھگتتی ہیں۔''

مقصد طلاق کی مذمت بیان کرنا نہیں ہے ،کیونکہ وہ تو فی نفسہ ایک نعمت ہے اور اگر آخری چارہ کار کے طورپر شوہر اس حق کو استعمال میں لائے ،جبکہ صلح وصفائی کی تمام کوششیں ناکام ہوگئی ہوں تو وہ کسی لعنت وملامت کا مستحق نہیں ہے، بلکہ سلیقے اور طریقے سے اس رشتے کو ختم کرنے کاپابند ہے،”فامساک بمعروف اوتسریح باحسان '' کی قرآنی تعلیم اسی موقع کے لیے ہے۔عیسائی تصور ِنکاح کی طرح اسلام میں نکاح کوئی ایساآسمانی اوراٹوٹ رشتہ نہیں ہے  جس کو بندے وجود میں تو لاسکتے ہوں ،مگر اس کوختم کرنے پر قدرت نہ رکھتے ہوں۔

مقصد ان لوگوں کی مذمت بیان کرنا ہے جو بے ضرورت  یا  عجلت میں طلاق دیتے ہیں، یا طلاق  کے ذریعے اپنے جوشِ انتقام کی تسکین کرتے ہیں ،یا طلاق دے دیتے ہیں، مگراس  کے باوجود رشتہ زوجیت برقراررکھتے ہیں، یا  بے دھیانی میں طلاق کے الفاظ استعمال کرلیتے ہیں،  حالانکہ جب  نکاح نہ  رہے تو تعلقات گناہ اور اولاد ناجائز رہتی ہے۔طبرانی کی  روایت کے مطابق لوگ آخری زمانے میں اپنی بیویوں سے زنا کریں گے۔جس کی صورت یہی ہوگی کہ یا طلاق کے بعد بیویوں کے قریب جائیں گے یا طلاق دے چکے ہوں، مگر اس سے غافل ہوں گے۔

اوپر کی سطور میں  بطور تمثیل میاں بیوی کے درمیان جس  جھگڑے کا ذکر ہوا،اس میں شوہر نے  طلاق کا صریح لفظ استعمال کیا ،جس سے طلاق کا وقوع  ہر خاص وعام جانتا ہےاور  فقہ کے طالب علم کے لیے بھی اس کاحکم بتانا آسان ہے ،کیونکہ صریح تو اپنی وضاحت آپ ہوتا ہے جیسے ،''آفتاب آمد دلیل آفتاب'' مگر اسی   نوک جھونک کے ماحول میں جب بیوی طلاق بھی مانگ رہی ہو،اگر شوہر درج ذیل الفاظ استعمال کرے :

''میری تم سے توبہ ،میں تمہیں نہیں چاہتا ،پسند نہیں کرتا،رغبت نہیں رکھتا،امید نہیں رکھتا،الگ کرنا چاہتا ہوں وغیرہ تو طلاق کی نیت کے باوجود طلاق نہیں ہوتی ۔اس طرح کے الفاظ کے  استعمال کے بعد لوگ پریشان ہوتےہیں کہ خدانخواستہ طلاق ہوگئی ہے۔''

 اگر شوہر طلاق کی نیت سے ان جملوں میں سے کسی کا استعمال کرے تو طلاق ہوجاتی ہے:

   ''بساتا نہیں،اپنابندوبست کرلو،میری بہن کی طرح ہے،آج سے میری بیوی نہیں ہو،تعلق نہیں،میرے اورتمہارے درمیان نکاح نہیں ہے،جاؤ چلی جاؤ،جہنم میں جاؤ،میرا تیرا کوئی رشتہ نہیں ،تجھ سے کوئی واسطہ نہیں ،وغیرہ ۔''

جب کہ بحالت غصہ اورطلاق  کی گفتگو کے وقت ان الفاظ سے بلانیت طلاق ہوجاتی ہے:

''اپنا دوسرا انتظام کرلو،میری طرف سے صاف جواب ہے،جس سے چاہو نکاح کرلو،نکاح فسخ کرتا ہوں،میری طرف سے فیصلہ ہے،وغیرہ۔''

اس قسم کے الفاظ میں عموما شوہرکا بیان یہ ہوتا ہے کہ اس کی نیت طلا ق کی نہیں تھی ،حالانکہ قرینے کی موجودگی میں طلاق ہوجاتی ہے۔اس کے علاوہ  آزاد ،حرام  اورچھوڑدیا وغیرہ'' کے الفاظ ایسے ہیں جن سے نیت کے بغیر بھی طلاق ہوجاتی ہے۔

ان مثالوں سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ کنائی الفاظ کے احکام مختلف بھی ہیں اورمشکل بھی ہیں۔دراصل الفاظ ِکنایہ  سے طلاق کا وقوع شوہر کی نیت پر موقوف ہوتاہے۔اگر شوہر کی نیت طلاق کی ہے  تو طلاق واقعہوجاتی  ہے،یااگر کنایہ کا استعمال عرف میں طلاق کے لیے ہو توبھی  طلاق واقع  ہے ،کیونکہ عرف نیت کے قائم مقام ہوتاہے ،لیکن اگر نیت اورعرف میں سے کچھ نہ ہوتوپھر کنایات کی نوصورتوں میں سے صرف تین میں بغیر نیت کےطلاق واقع ہوتی ہے،وہ تین صورتیں درج ذیل ہیں :

۱:۔حالت مذاکرہ  ہواور سب  وشتم کے الفاظ ہوں۔

۲:۔حالت  مذاکرہ ہواورجواب کے الفاظ ہوں ۔

۳:۔حالت  غضب  ہواورجواب کے الفاظ ہوں  ۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ تمام ہی کنایات  سے  نیت کی موجودگی میں طلاق کا ہونا ایک مسلم اصول ہے،اسی طرح عرف  ہوتو کنایہ صریح ہے اور صریح میں بھی نیت کی ضرورت نہیں  ہوتی ہے، لیکن نیت  یا عرف نہ ہو توپھر شوہر کی نیت کو جانچا جاتا ہے ۔

شوہر کی نیت   جانچنے کا ذریعہ ''قرینہ'' ہےاورقرینہ بول یا  ماحول ہے۔''بول ''سے مراد وہ   لفظ ہے جو شوہر نے استعمال کیا ہے اورماحول سے مقصود وہ صورت حال ہے جس میں لفظ استعمال کیا گیا ہے،بالفاظ دیگرشوہر نے کیاکہا ہے؟ اورکس موقع پر کہا ہے؟،دونوں پہلوؤں کو دیکھنا ضروری ہے۔فقہاء لکھتے ہیں کہ ماحول  تین قسم کا ہوتا ہے :

۱۔حالت رضا

۲۔حالت غضب

۳۔حالت مذاکرہ

بول  یعنی الفاظ بھی تین قسم  کے ہیں:

۱۔رد کے الفاظ

۲۔سب وشتم کے الفاظ

۳۔جواب کے الفاظ

اس طرح کل نو صورتیں بن جاتی ہیں، جو درج ذیل نقشے میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں:

نقشہ نمبر(۱)

 

رد کے الفاظ

سب  وشتم کے الفاظ

جواب کے الفاظ

حالت رضا

1

2

3

نیت ضروری ہے

نیت ضروری ہے

نیت ضروری ہے

حالت غضب

4

5

6

نیت ضروری ہے

نیت ضروری ہے

نیت ضروری نہیں ہے

حالت مذاکرہ

7

8

9

نیت ضروری ہے

نیت ضروری نہیں ہے

نیت ضروری نہیں ہے

 

اسی نقشہ کو اس طرح  پلٹ دیاجائے کہ الفاظ اورحالات کی جگہیں ایک دوسرے سے بدل دی جائیں   توپھر بھی صورتیں برقرار رہتی ہیں،مثلا:

نقشہ نمبر۲

 

حالت رضا

حالت غضب

حالت مذاکرہ

رد کے الفاظ

1

2

3

نیت ضروری ہے

نیت ضروری ہے

نیت ضروری ہے

سب وشتم کے الفاظ

4

5

6

نیت ضروری ہے

نیت ضروری ہے

نیت ضروری نہیں ہے

جواب کے الفاظ

7

8

9

نیت ضروری ہے

نیت ضروری نہیں ہے

نیت ضروری نہیں ہے

 

 

اس  تفصیل کاحاصل یہ ہے کہ :

۱۔حالت رضا میں تینوں قسم کے الفاظ میں نیت کی ضرورت ہے اور رد کے الفاظ میں تینوں حالات میں نیت ضروری ہے۔

۲۔حالت غضب میں شروع کے دونوں قسم کے الفاظ میں نیت کی ضرورت ہے اور سب وشتم کے الفاظ میں شروع کے دو حالات میں نیت کی ضرورت ہے۔

۳۔حالت مذاکرہ میں صرف رد کےالفاظ میں نیت کی ضرورت اور جواب کے الفاظ میں صرف حالت رضا میں نیت کی ضرورت ہے۔

رد کے الفاظ میں ماحول کواور خوشی کے ماحول میں الفاظ کو دیکھنے کی ضرورت  ہی نہیں ہے،اس طرح ایک سے لے کر پانچ تک  یہ کل پانچ صورتیں    بن گئیں ، جن میں نیت کی ضرورت ہے۔چھٹی صورت یہ ہے کہ  حالت مذاکرہ ہو اوررد کے الفاظ ہوں۔

ان چھ صورتوں میں بلانیت یا عرف  طلاق واقع نہیں ہوتی ہے،البتہ شوہر نیت کا انکار کرے تو اس سے حلف لیا جاتا ہے کیونکہ ہر  کنایہ میں طلاق کا احتمال ہوتا ہے۔باقی تین صورتوں میں بلانیت بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے ،جو درج ذیل ہیں:

۱۔سب  وشتم کے الفاظ ہوں اورحالت مذاکرہ  ہو۔

۲۔جواب کے الفاظ ہوں اورحالت  مذاکرہ ہو۔

۳۔جواب کے الفاظ ہوں اورحالت  غضب  ہو۔

گویا  نوحالتوں میں سےصرف تین صورتیں ایسی  ہیں  جن میں نیت اورعرف کے بغیر  بھی کنایہ سے طلاق ہوجاتی ہے۔

لہذا ہم کنایات کے بارے میں ،بلکہ تمام الفاظِ طلاق کے بارے میں  ایک اصول کے طور پر کہہ سکتے ہیں کہ کسی لفظ سے طلاق اس وقت ہوتی ہے کہ:

۱۔جب  نیت طلاق کی ہو،یا

۲۔کوئی لفظ صریح ہوخواہ رجعی ہو یابائن  ،یا

۳۔۔۔۔جب حالت  مذاکرہ  میں سب وشتم  یا جواب کے الفاظ ہوں ،یا

۴۔۔۔۔حالت غضب میں جواب کے الفاظ ہوں۔

کنایہ کے متعلق ایک آخری  حل طلب امریہ  رہ جاتا ہے کہ بول اور ماحول سے فقہاء کی منشاء کیا ہے؟دراصل   فقہاء نے ایسےاصول دے دیے ہیں کہ ان پر پرکھ کر طلاق کے وقوع اورعدم وقوع کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے،اوروہ اصول دو ہیں  :

۱۔ایک یہ کہ  لفظ کا معنی طلا ق کا ہو۔

۲۔دوسرے یہ کہ وہ طلاق کے لیے استعمال ہواہو۔

کبھی  لفظ کا معنی اچھا ہوتا ہے ،مگر اس کا استعمال مذموم مقصد کے لیے ہوتا ہے اورکبھی اس کے برعکس ہوتا ہے۔فقہاء چاہتے ہیں کہ طلاق کی گنجائش رکھنے والا لفظ لازما طلاق کے لیے ہی استعمال ہوا ہو۔ 

دراصل "بول'' سے لغت مراد ہے اور "دلالت حال'' سے استعمال مراد ہے۔فقہاء کا مقصدیہ ہے کہ صرف لغوی معنی پرمدارنہیں ،بلکہ لفظ کے استعمال کو بھی دیکھنا ضروری ہے اور صرف  استعمال  پر بھی انحصار درست نہیں ،بلکہ لفظ میں بھی طلاق کی صلاحیت ہونا چاہیے۔اس طرح ان دواصولوں  کےبیان سے فقہاء نے کنایہ کے متعلق ایک میزان  اورکسوٹی فراہم کردی ہے،جس پر جانچ کر کسی بھی زبان  کے کسی بھی لفظ کو پرکھا جاسکتا ہے۔

اس طرح کے اصول   منقح شکل میں سامنے ہوں تو فہم  اور ضبط میں  سہولت  رہتی ہے ،جزئیات بھی منتشر نہیں  معلوم  ہوتیں اورسب سے بڑھ کر متعلقہ باب سے مربوط اوردرست واقفیت  حاصل ہوجاتی ہے،  ورنہ تو جزئیات     بکھری  اینٹوں کامجموعہ ہوتی ہیں  جو عمارت کہلانے کی مستحق  نہیں ہوتی۔

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جزئیات  قدروقیمت نہیں رکھتیں ۔فقہ اسلامی اور خصوصا فقہ حنفی میں جزئیات سے مفر نہیں ، کیونکہ انہی کے ذریعے سے کچھ سے بہت کچھ کی جانب  اورجزء سے کل کی طرف سفر ہوتا ہے ،انہی سے اصول کی صحت معلوم ہوتی ہے،ان ہی کے قدرمشترک کا نام کلیات ہے،فقہ  کی وسعت بھی ان ہی کے بدولت ہے اورفقہ غیرفقیہ  افراد کے  ہاتھوں دست وبرد  سے بھی ان ہی کےذریعے محفوظ ہے،ان وجوہ سے جزئیات کا بیان ضروری ہے۔

اللہ پاک ہماری جامعہ  بنوری ٹاؤن کے فاضل اور فقہ اورحدیث کے متخصص مولانا نوازیوسف زئی  صاحب کو جزائے خیر دے کہ انہوں نے  اس کتاب '' الفاظِ طلاق کے احکام '' میں بڑی تعداد میں طلاق کے الفاظ کوجمع کردیا ہے، جو دراصل طلاق کے متعلق جزئیات ہی ہیں۔ جب  اس قدر الفاظ نظر کے سامنے ہوں گے تو ذہین نگاہ  ان   کے ذریعے وہ کچھ تلاش کرلے گی جو لکھا ہوا  نہیں ہے۔علماء کرام  اور فقہ کے طلباء  کو بھی اس سے سہولت رہے گی، کیونکہ ہماری معلومات کے مطابق   اردوزبان میں الفاظ کا اتنا بڑا ذخیرہ ،یکجا دستیاب  نہیں ہے۔

عزیز موصوف نے ہرلفظ کے ساتھ پہلے اردوحوالہ درج کیا ہے اورپھر حاشیے میں عربی کتب سے اس کی تخریج کی  ہے جس سے مواد باحوالہ ہوگیا ہے۔کسی لفظ کے متعلق اکابر کا اختلاف رہا ہے تو اسے بھی واضح کردیا ہے۔بعض الفاظ ایسے ہیں کہ ان  کے متعلق  دستیاب تمام ہی مواد جمع کردیا ہے جیسے لفظ آزاد،ایک دو تین  اور تجھ کو رکھوں تواپنی ماں بہن کو رکھوں وغیرہ

جن الفاظ  کے متعلق رجعی اوربائن کااختلاف رہا ہے  ان کے متعلق دونوں ہی آراء  ذکر کردی ہیں ۔ ایسے الفاظ کو حذف  کردیا گیا ہے جویا تو غیر معروف اردو فتاوی میں مذکور تھے یا عربی فتاوی میں مذکور ہیں   مگر آج کاعرف ان کے خلاف ہے  اور ان کا ذکر تشویش کا باعث  بن سکتا ہے۔جوالفاظ غیر مطبوع  فتاوی میں   مذکور  ہیں وہ بھی حذف کیے گئے ہیں کیونکہ  غیر مطبوع ہونے کی وجہ سے ان تک رسائی   ہر ایک کے لیے مشکل  ہے۔

آج کل کا رجحان یہ ہے کہ اشخاص کے بجائے ادارہ جاتی  رائے کو اہمیت دی جاتی ہے،اس لیے  اگلی طباعت میں اگراختلافی  الفاظ کے متعلق ملک کے مشہور دارالافتاؤں  کی آراء لے کرہوبہو کتاب میں درج کردی جائیں  توکتاب کی نافعیت  میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔

آخر میں ایک اہم گزارش یہ ہے  کہ طلاق کے جو الفاظ  کتاب میں ذکر کیے گیے ہیں  وہ مختصر،سیدھے سادھے اوردوٹوک جملے ہیں ۔اگر شوہر اسی قدر جملوں پر اکتفاء کرے تو کتاب سے رہنمائی لے کر جواب  دینے میں حرج نہیں ہے، مگر عموما  شوہر کی گفتگو طویل ہوتی ہے  جس میں مقصودی جملے کی تلاش  بسااوقات  بھوسے میں سوئی کی تلاش کی مانند ہوتی ہے ، پھراگرمقصودی جملہ ذومعنی ہو تو مشکل دوہری ہوجاتی ہے ،کیونکہ کنایہ خود ذومعنی ہوتا ہے اور ذومعنی جملے میں استعمال سے اس کاحل  مزیدمشکل ہوجاتا ہے،یہ مشکل اس  وقت شدیدتر ہوجاتی ہے جب شوہر ایک ہی جملے میں ایک سے زائد طلاق کے الفاظ استعمال کرتاہے  مثلا :

"طلاق دے کر آزاد کرتا ہوں"

یہ دراصل دوجملے ہیں :

''طلاق دیتا ہوں اورآزاد کرتا ہوں۔''

شوہر نے دو جملوں کو لفظ''اور''  کے ساتھ ملانے کے بجائے جملہ حالیہ معطوفہ استعمال کرکے ملادیا ہے اور اس کایہ استعمال فصیح بھی ہے،اس جملے میں بظاہر دوطلاقیں واقع ہونی چاہیئں مگر حقیقت میں ایک طلاق واقع ہے۔

اسی طرح اگر شوہر کہتا ہے کہ'' جا تجھے طلاق ہے'' تواس میں ''جا" کو الگ سے  طلاق کا لفظ شمار کرنے کی ضرورت نہیں ہے،یہ ایسا ہی ہے  جیساکہ کہتے ہیں کہ'' چل دور ہو،آئیے تشریف رکھئے،جاؤ جاکر سو  ، رہو۔''ان مثالوں میں'' چل،آئیے اورجاؤ سے کوئی غرض متعلق نہیں ہے ،بلکہ مطلوبہ جملے''  دور ہو،تشریف رکھیے وغیرہ ہیں۔

ان مثالوں  کے  تذکرہ  سے مقصد یہ ہے کہ  کتاب    کے باوجود شخصیات   سے استفادہ کی ضرورت  باقی رہتی ہے۔حق تعالی شانہ  سے دعا   ہے کہ عزیز مؤلف  کی اس کاوش کو قبول فرمائے۔وصلی اللہ علی النبی الامی الکریم وعلی اٰلہ وصحبہ اجمعین۔

شعیب عالم

استاذو مفتی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

۲۸ شوال ۱۴۴۲ھ