مسلم فیملی لاز آرڈیننس1961ء کی دفعہ 8 کا نیا متن
بسم الله الرحمن الرحيم
مسلم فیملی لاز آرڈیننس1961ء کی دفعہ 8 کا نیا متن
ایجنڈا آئٹم نمبر ۵:
دفعہ 8 کی تشکیل جدید:
راقم السطور نے اپنے پچھلے مراسلہ میں تجویز پیش کی تھی کہ مسلم فیملی لاز کی دفعہ 8 کو جامع بنانے کی خاطر اس میں طلاق وخلع کے علاوہ دیگر اسباب فسخ بھی سمونے کی ضرورت ہے۔میں مشکور ہوں کہ کونسل نے میری تجویزکی معقولیت کو تسلیم کیا ،سطور ذیل میں حسب طلب کونسل ان اسباب کو مختصرا بیان کیا جاتا ہے ۔دفعہ مذکورہ کو الف اور باء دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔حصہ اول طلاق اور اس کے ملحقات کے بیان میں ہے اور حصہ ثانی اسباب فسخ پر مشتمل ہے۔
اسباب فسخ بلحاظ عدد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتے ہیں جو تحریر ہذا میں مذکور ہیں مگر راقم نے اپنے آپ کو ان اسباب کے بیان تک محدور رکھا ہے جن کو معتمد اہل افتاء تسلیم کرتے ہیں،مزید یہ کہ اگر جزئیات کا استیعاب واستقصاء کیا جائے تو بھی ان میں اضافہ ممکن ہے۔
ہر سبب کے ساتھ حسب ضرورت بقدر ضرورت بغرض سہولت تشریح بھی ساتھ ذکر کی گئی ہے، حتمی دفعہ کی تشکیل کے وقت تمام تشریحات کو آخر میں یکجا کیا جاسکتا ہے نیز اسباب کو اہمیت وضرورت کے لحاظ سے مقدم یا مؤخر کیا جاسکتا ہے۔
دفعہ 8 طلاق اور دیگر اور اسباب فسخ کا بیان:
الف :۔طلاق اور اس ملحقات کا بیان:
(1) طلاق: شوہر یا اس کے مجاز نمائندے یا عدالت کا، مخصوص صیغہ کے زبانی یا تحریری یا اشارہ کے طور پر استعمال سے، رشتہ زوجیت کو فی الفور یا بالاخر ختم کردینے کو طلاق کہتے ہیں۔
تشریح
اپنے اثر کے لحاظ سے طلاق رجعی یا بائن ہوتی ہے۔اول الذکر میں عدت کے دورانیہ میں شوہر قولا یا فعلا رجوع کے ذریعے بلا مرضی زوجہ رشتہ زوجیت دوبارہ بحال کرسکتا ہے ،مگر ثانی الذکر فوری موثر ہوتی ہے اور رشتہ ازدواج ختم ہوکر زوجہ نکاح سے باہر ہوجاتی ہے البتہ اگر یہ طلاق تیسری طلاق نہ ہو تو زوجین دوران عدت یا جب چاہیں تجدید نکاح کرکے دوبارہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوسکتے ہیں۔
(2)تفویض طلاق : اگر معاہدہ نکاح کے وقت یا اس کےبعد،بیوی کو یا کسی اور کو،شوہر نے اصالۃ یا وکالۃ ،مشروط یا غیرمشروط طورپر حق طلاق تفویض کیا ہو تو بیوی شرائط کے تابع ،اگر کوئی ہوں،حق تفویض کو زیر استعمال لاکر اپنے اوپر طلاق واقع کرسکتی ہے۔
توضیح:اگر شوہر نے حق طلاق تفویض کرتے ہوئے طلاق کا کوئی عدد یا وصف ذکر نہ کیا ہو تو بیو ی کو صرف ایک طلاق رجعی کے ایقاع کاحق ہوگا۔
تشریح
شوہر بلامرضی زوجہ حق طلاق استعمال میں لاسکتا ہے کیونکہ بنیادی طور اس کا حق ہے مگر وہ مجاز ہےکہ قبل یا بعد نکاح یہ اختیار بیوی کو یا کسی تیسرے فرد کوغیر مشروط پر اور کسی مدت کی تعیین کیے بغیر یا مخصوص مدت کے لیے اور کسی خاص واقعہ کےظہور پذیر ہونے کی صورت میں سپرد کردے،اس اختیار کی سپردگی کو شرع اسلامی میں تفویض کہتے ہیں۔تفویض کے بعد بیوی کو یا اس شخص کو جس کو اختیار مفوض کیا گیا ہو ،حق ہوتا ہے کہ وہ شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے مخصوص حالات کے پیش آنے یا خاص واقعہ کے رونما ہونے کی صورت میں اپنے اختیار کو بروئے کار لاکر اپنے اوپرطلاق واقع کردے ۔یہ طلاق اسی طرح موثر ہوتی ہے کہ گویا شوہر نے خود دی ہو اور اس قسم کا اختیار سونپ دینے کے بعد اسے کام میں لانا یا نہ لانا عورت کا اختیاری عمل ہوتا ہے اور اگر شوہر چاہے کہ اسے منسوخ کردے تو وہ اس کا مجاز نہیں ہوتا۔
شرع اسلام میں اس عطائے اختیار کی ممکنہ تین صورتیں ہیں :
§ اختیار :شوہر بیوی سے کہے کہ تو انتخاب کرلے یا اپنے اوپر طلاق واقع کردے۔
§ امر بالید :شوہر بیوی سے کہے کہ تیر امعاملہ تیرے ہاتھ میں ہے۔
§ مشیت : جس میں شوہر کہتا ہے کہ اگر تو چاہتی ہےتو اپنے آپ کو طلاق دے دے۔
(3) خلع : لفظ خلع یا مباراۃ یا ان کے ہم معنی الفاظ کے ذریعے کسی مالی عوض کے بدلے ،جس پر زوجین متفق ہوں ،رشتہ زوجیت ختم کرنے کو خلع کہتے ہیں۔
تشریح
خلع اور طلاق کا فرق یہ ہے کہ طلاق شوہر کا خود اختیاری عمل ہے مگرخلع باہمی رضامندی سے نکاح کی تنسیخ ہے۔
خلع اور طلاق بالمال میں وجہ امتیاز یہ ہے کہ خلع میں خاص الفاظ کا استعمال ضروری ہے ۔ باہمی رضامندی دونوں میں شرط ہے، اس لیے زوجین میں سے کوئی ایک یکطرفہ طور پریا عدالت کی مداخلت سے اس حق کوبروئے کا رنہیں لاسکتا جب تک کہ فریق ثانی کی رضامندی نہ ہو۔
مباراۃ یہ ہے کہ بیوی شوہر کے ذمہ ہر ایسے حق سے دست بردار ہوجائے جو نکاح سے تعلق رکھتا ہو۔
(4)ایلاء: ایلاء یہ ہے کہ شوہر چارماہ یا اس سے زائد یا بلاتعیین مدت بیوی سے مباشرت نہ کرنے کی قسم کھالے یا ازدواجی تعلق کے قیام کی صورت میں اپنے اوپر گراں اور دشوار امر لازم کردے۔
ایلاء کا حکم یہ ہے کہ چار ماہ کی مدت گزرنے سے قبل اگر شوہر نے زن شوئی کا تعلق قائم کرلیا تو اس پر قسم کا کفارہ یا حسب شرط،شرط کی جزا لازم ہوگی اور اگر مدت متذکرہ گزجانے کے باوجود شوہر نے بیوی سے قربت نہ کی تو عدالت سے مرافعہ کیے بغیر بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔
تشریح
بعض اوقات الفاظ طلاق استعمال کیے بغیر شوہر کا طرز عمل بمنزلہ طلاق کے ہوتا ہے،یہ اس صورت میں ہوتا ہےکہ جب شوہر قسم کھالے کہ وہ اپنی عورت سے تعلق نہ رکھے گا اور قسم کی پابندی میں وہ چار ماہ تک بیوی کے پاس نہیں جاتا تو اس عمل کے نتیجے میں ایک طلاق بائن ہوجاتی ہے۔
ایلاء اس لحاظ سے طلاق رجعی کے مشابہ ہےکہ دوران مدت شوہر کو رجعت کا حق ہوتا ہے مگر اس لحاظ سے فرق ہے کہ ایلاء سے رجوع کی صورت میں کفارہ یمین اور طلاق رجعی سے رجوع کرنےمیں کفارہ تو نہیں مگر شوہر کا ایک حق طلاق ضائع ہوجاتا ہے۔
(5)ظہار: شوہر بیوی کو یا اس کے کسی ایسے جزو کو جس سے کل مرا د ہوتا ہو،اپنی ماں سے یا کسی ایسی عورت سے تشبیہ دے جو ممنوعہ رشتہ کےذیل میں آتی ہو۔ظہار سے رشتہ زوجیت منقطع نہیں ہوتا مگر ازدواجی تعلق تاوقتیکہ شوہر کفارہ ادا نہ کردے ،حرام ہوجاتا ہے۔اگر شوہر ادائیگی کفارہ میں کوتاہی برتے تو بیوی عدالتی طلاق کے لیے درخواست گزار سکتی ہے۔
تشریح
ایلاء کے مقابلے میں ظہار یہ ہےکہ شوہر اپنی ناپسندیدگی کا اس طرح اظہار کرے کہ بیوی کو ماں یا کسی دوسری ایسی عورت سے تشبیہ دے جس سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہو،مگر اس نامناسب طرز عمل کا نتیجہ طلاق نہیں ہے،صرف شوہر پر کفارہ لازم آتا ہے مگر جب شوہر کفارہ بھی ادا نہ کرے تو بیوی عدالتی دادرسی طلب کرسکتی ہے اور عدالت دفع ظلم کی خاطر شوہر کو کفارہ یا طلاق دینے پر مجبور کرے گی۔
(6)لعان: چار گواہیاں جو قسموں سے مؤکد ہوں اورشوہر نےپانچویں گواہی میں اپنے اوپر لعنت بھیجی ہو اور عورت نے اوپر غضب کی بددعا کی ہو۔
تشریح
حلف کے ساتھ مؤکد گواہیوں کو لعان کہتے ہیں۔حاکم مجاز کے روبرو جب لعان کی کاروائی تکمیل تک پہنچ جائے تو حاکم زوجین میں تفریق کردیتا ہے جو طلاق بائن کا اثر رکھتی ہے۔
لعان کا مختصرا تعارف یہ ہے کہ اگر شوہر بیوی پر زنا کا الزام لگائے اور بیوی عدالت میں نالش دائر کرے اور شوہر زنا کا شرعی ثبوت یعنی چار چشم دید گواہ پیش نہ کرسکے تو یا تو اپنے الزام کی صحت کا انکار کرے یا لعان کی کاروائی کرے۔لعان کی کاروائی یہ ہےکہ شوہر چار مرتبہ حلفیہ یہ گواہی دے کہ وہ زنا کا الزام لگانا میں سچا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ مجھ پر خدا کی لعنت ہو ،اگر میں جھوٹا ہوں۔اس کے بعد بیوی سے کہا جائے گا کہ وہ الزام کی صحت کو قبول کرے یا حلفیہ شہادت کےذریعہ بایں الفاظ الزام سےانکار کرے کہ شوہر نے جو الزام لگایا ہے وہ اس میں جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ یوں کہے کہ مجھ پر خدا کا قہر نازل ہواگر میرا شوہر الزام لگانے میں سچاہو۔اس طرح کی کاروائی کی تکمیل کے بعد عدالت فریقین میں علیحدگی کردے گی۔
فسخ وتفریق
تمہید : شوہر کے طلاق دینے یا شوہر کے دیے ہوئے اختیار کو بروئے کار لاکر اپنے اوپر طلاق واقع کرنے کے علاوہ شریعت میں بسااوقات عدالت فیصلہ سے بھی نکاح منسوخ ہوجاتا ہے جسے فرقت ،افتراق،فسخ،انفساخ یا تنسیخ سے تعبیر کرتے ہیں،اگر فرقت کا سبب شوہر کا کوئی عمل ہے تو اس کا اثر طلاق کا سا ہوتا ہے برخلاف اگر عدالتی فیصلہ کی بنیاد عورت کا کوئی عمل ہے تو اس کا نتیجہ فسخ کا ہوتا ہے،دونوں صورتوں کا فرق زیادہ تر مہر ،عدت اور عدد طلاق کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
(7)فساد نکاح کے سبب تفریق: اگر زوجین نکاح فاسد کو برقرار رکھیں اور جدائی اختیار نہ کریں تو عدالت بزور قوت ان میں علیحدگی کرائے گی۔
توضیح : نکاح فاسد وہ ہے جس میں صحت نکاح کی کسی شرط یا شرائط کی تعمیل نہ کی گئی ہو۔
تشریح
فاسد نکاح میں متارکت واجب ہوتی ہے خواہ زوجہ مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ اور دوسرا فریق موجود ہو یا نہ ہو تاہم زوجہ کےمدخولہ ہونے کہ صورت میں زبان علیحدگی کا اظہار ضروری ہے اور غیر مدخولہ ہونے کی صورت میں جدائی کا عزم بھی کافی ہے،حنفیہ کے ایک دوسرے قول بموجب دونوں ہی صورتوں میں زبانی اظہار علیحدگی ضروری ہے۔لیکن اگرزوجین اگر ازخود جدائی اختیار نہ کریں توعدالت بزور قوت ان میں علیحدگی کردیتی ہے کیونکہ نکاح فاسد کا برقرار رکھنا معصیت ہے اور معصیت کا ازالہ عدالت کا فریضہ ہے ۔
(8)خیار بلوغ کے سبب تفریق: نابالغ یا نابالغہ کا نکاح اگر بلوغت کے حصول سے قبل باپ دادا کے علاوہ کسی ولی نے کیا ہو تو بلوغ کے بعد انہیں اختیار ہوتا ہے کہ اسے قائم رکھیں یا منسوخ کردیں،زوجین کا یہ اختیار خیار بلوغ کہلاتا ہے اور اسے خاص شرائط کے تحت عمل میں لاکر عدالت کی مداخلت سے نکاح منسوخ کیا جاسکتا ہے۔لہذا اگر :
الف ۔ باپ ، دادا یا بیٹے کے علاوہ کسی ولی نے،خواہ عدالت یا خلیفہ وقت ہی کیوں نہ ہو، اپنے زیر ولایت کا نکاح کیا
ب ۔ یا زیر ولایت نے از خود اپنا نکاح کیا اور باپ ،دادا یا بیٹے کے علاوہ کسی ولی کی اجازت سے نافذ قرار پایا
ج ۔ یا کسی اجنبی نے زیر ولایت کا نکاح کیا اور باپ ،دادا اور بیٹے کے علاوہ اولیاء نے اجازت دے دی تو بلوغت پر زیر ولایت کو خیار بلوغ حاصل ہوگا،اگر چہ نکاح مہر مثل پر ہو اورکفو میں ہو۔
مگر شرط ہوگا کہ:
1. نکاح اصول وفروع کے علاوہ کسی اور ولی نے کیا ہو یا ان کے علاوہ ولی کی اجازت سے نافذ قرار پایا ہو۔
2. اگر بلوغ سے پہلے نابالغ کو نکاح کی اطلاع ہو تو بالغ ہوتے ہی اور اگر بلوغت کے بعد نکاح پر مطلع ہو تو اطلاع ملتے ہی نابالغ بلاتاخیراختیاری کوئی ایسا کلمہ کہہ دے جس سے نکاح کو مسترد کرنا سمجھا جائے۔اگر نابالغ نے سکوت کیایا کسی دوسرے کام یا کلام میں مشغول ہوگیا تو خیار بلوغ باطل اور نکاح نافذ قرار پائےگا۔
3. اگر نابالغ نے خیار بلوغ کے استعمال سے قبل قولا یا فعلا یا حالا نکاح کی رضامندی دے دی ہو تو اسے خیار بلوغ کے استعمال کا حق نہ ہوگا۔
4. خیار بلوغ سے لاعلمی عذر نہ ہوگی،اسی طرح مجلس کے اختتام تک نابالغ کو اختیار نہ ہوگا۔
5. لڑکا یا ثیبہ بالغ ہوجائے تو صرف سکوت یا اختتام مجلس یا تبدیل مجلس سے خیار بلوغ باطل نہ ہوگا جب تک صاف رضا مندی یا کوئی ایسا فعل جو رضا مندی پر دلالت کرے مثلا بوسہ لینا،مہر لینا دینا،صحبت پر راضی ہوجانا نہ پایا جائے۔
6. خیار بلوغ کی شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے طلب واشہاد کرنے کے بعد عدالتی مرافعہ گزاری میں تاخیر مضر نہ ہوگی۔
7. خیار بلوغ کا حق مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کو بھی حاصل ہوگا۔[i1]
درج بالا شرائط کے مطابق حق خیار بلوغ کو استعمال میں لانے کے بعد احکام درج ذیل ہوں گے :
1. خیار بلوغ طلاق نہیں بلکہ فسخ کے حکم میں ہوگا۔بنابرایں:
a. شوہر کے عدد طلاق میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی۔
b. عدت میں دوسری طلاق رجعی ہو یا بائن لاحق نہ ہوگی۔
2. صرف نکاح کو رد کرنے سے نکاح رد نہ ہوگا بلکہ عدالت میں نالش دائر کرکے تنسیخ ضروری ہوگی۔
3. عدالتی تنسیخ سے قبل شوہر کو بیوی سے مجامعت جائز ہوگی۔
4. تنسیخ سے قبل اگر زوجین میں سے کسی کا انتقال،خواہ قبل البلوغ یا بعد البلوغ قبل از تفریق ، ہوگا تو دوسرا اس کا وارث ہوگا اور کل مہر لاز ہوگا۔
5. حق خیار بلوغ کے ثبوت سے قبل تعلقات زن شوئی کا قیام خیار بلوغ کے استعمال سے مانع نہ ہوگا۔ 6 ۔ اگر زوجین نے زن شوئی کا تعلق قائم نہیں کیا ہے تو مہر واجب نہیں اگر چہ فرقت شوہر کی جانب سے ہو اور اگر تعلق قائم ہوگیا ہے تو کل مہر لازم ہے اگر چہ فرقت بیوی کی جانب سے ہو۔
6. اگر خیار بلوغ کے استعمال سے قبل شوہر نے زن شوئی کا تعلق قائم کرلیا ہے تو کامل مہر کی ادائیگی واجب ہوگی اور زن شوئی کا تعلق قائم نہ ہوا ہو تو عورت مہر کے مستحق نہ ہوگی،دونوں صورتوں میں خواہ خیار بلوغ کا استعمال شوہر نے کیا ہو یا بیوی نے،حکم ایک ہی رہے گا۔
7. زوجیت کا تعلق قائم ہوچکاہو تو فسخ کے بعد عدت بھی لازم ہوگی۔
8. خیار بلوغ کے متعلق عدم واقفیت کا عذر قابل قبول عذر نہیں گردانا جائے گا۔
9. لڑکی اگر خیار بلوغ کا حق استعمال کرے مگر شوہر غائب ہو تو بوجہ قضا علی الغائب عدالت تفریق نہ کرے گی[i2] ۔
10. اگر زوجہ خیار بلوغ کا حق استعمال میں لانا چاہے اور شوہر تاحال نابالغ ہو تو شوہر کے والد یا وصی کی موجود گی میں تفریق کردی جائے گی ،اگر وہ زوجہ کے خیار بلوغ کے سقوط کا عذر پیش نہ کرسکیں۔
توضیح 1: مجنون ومعتوہ،مذکر ومؤنث کو افاقہ کے بعد خیار بلوغ حاصل ہوگا۔
توضیح 2: زیر ولایت سے مراد وہ اشخاص ہیں جن پر دوسروں کو ولایت نکاح حاصل ہوتی ہے،ایسے افراددرج ذیل ہیں ،علاوہ ازیں
متذکرۃ الذیل اشخاص کسی دوسرے کے ولی بھی نہیں ہوسکتے ہیں :
الف ۔ نابالغ خواہ :
§ لڑکا ہویا لڑکی
§ سمجھ دار ہویا ناسمجھ
§ لڑکی ہو تو کنواری ہو یاغیر کنواری
§ غیر کنواری ہو تونکاح سے قبل کنوارہ پن زائل ہوچکا ہو یا نکاح کے بعد بوجہ دخول کنواری نہ رہی ہو۔
ب ۔ مجنون،خواہ مذکر ہویا مؤنث،بالغ ہو یا نابالغ،جنون اصلی ہو یا طاری ،اگر طاری ہو تو ایک ماہ تک مسلسل رہا ہو۔
ج ۔ معتوہ،خواہ مذکر ہو یا مؤنث،بالغ ہو یا نابالغ
الف۔جو[i3] [i4] کوئی عاقلہ بالغہ خواہ کنواری ہو یا ثیبہ،اپنے عصبہ بنفسہ ولی کی لاعلمی یا واضح پیشگی اجازت کے بغیر غیر کفو میں نکاح کرے ۔یا کوئی اجنبی عاقلہ بالغہ کا غیر کفو میں نکاح کرے اور عورت اس کی اجازت دےدے۔
تو نکاح سرے منعقد ہی نہ ہوگا اور عقد کے بعد ولی کے اجازت دینے سے بھی منعقد نہیں ہوسکے گا۔جب کہ احناف کے ظاہر الروایہ کے مطابق ولی عصبہ کو بذریعہ عدالت تنسیخ کا حق ہوگا۔
ب :۔جو کوئی عاقلہ بالغہ خواہ کنواری ہو یا ثیبہ اپنے ولی عصبہ بنفسہ کی اجازت کے بغیر مثل سے بہت کم پر نکاح کرے تو ولی مذکور کو بایں معنی اعتراض کا حق ہوگا کہ شوہر مہر مثل کی کمی پوری کرے،بصورت دیگر ولی مذکور کو بذریعہ عدالت نکاح کے فسخ کا اختیار ہوگا۔
ج :۔ شق الف اور ب میں اگر عاقلہ بالغہ کا ولی ہی نہ ہو یا ولی ہو مگر عصبہ نہ ہو یا عصبہ ہو مگر عصبہ بنفسہ ہو یا عصبہ بنفسہ ہو مگر ازروئے شرع بوجہ عدم اہلیت ولایت نہ رکھتا ہو یا ولایت رکھتا ہومگر غیر کفو یا مہر مثل سے کم پر نکاح سے قبل صریح اجازت دے چکا ہو تو نکاح منعقد نافذ ولازم ہوگا۔
تشریح
عاقلہ وبالغہ اگر غیر کفو میں نکاح کرے تو ظاہر الروایہ کے مطابق نکاح منعقد ہوجاتا ہے البتہ ولی کو بذریعہ عدالت تنسیخ کا حق ہوتا ہے اور جب تک عدالت سے تنسیخ کی ڈگری حاصل نہ کرلی جائے نکاح درست ومنعقد رہتا ہے بنابرایں اگر عقد کے بعد اور تنسیخ سے قبل زوجین میں سے کوئی فوت ہوجائے تو دوسرا اس کا وارث ہوگا،اور بذریعہ قضا تنسیخ تفریق ہوگی لہذا شوہر کے عدد طلاق میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی،زوجین میں زن شوئی کے تعلقات کے قیام سے قبل اگر تنسیخ ہوجائے تو مہر واجب نہ ہوگا اور ازدواجی تعلق کے قیام یا خلوت کے بعد مہر مقرر ہ کی ادائیگی واجب ہوگی،عورت عدت کا دورانیہ بھی مکمل کرے گی تاہم وہ عدت کا نفقہ پانے کی مستحق نہ ہوگی۔ عورت کو چاہیے کہ تاوقتیکہ ولی اپنی رضامندی نہ دے دے اس وقت تک شوہر کو اپنے اوپر جماع کے لیے قدرت نہ دے کیونکہ اگر ولی نے رضامندی نہ دی تو وطی بالشبہہ ہوجائے گی۔اس قول کے مطابق ولی کا سکوت رضامندی کی دلیل نہ ہوگا البتہ اگر ولی کا سکوت دراز ہوجائے اور عورت کے ہاں بچہ کی ولادت ہوجائے،اگر عورت کو حمل ظاہر ہوجائے تو وہ بھی ولادت ہی کے حکم میں ہے۔
دوسرے قول کے مطابق بلااجازت ولی غیر کفو میں نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا۔یہ قول امام اعظم سے حسن بن زیاد کی روایت ہے اور شمس الائمہ نے اسے اقرب الی الاحتیاط کہا ہے اور متون میں بوجہ فساد زمانہ اسی کو اختیار کیا ہے،اس قول پر ھو المختار للفتوی کی علامت فتوی بھی ہے،پہلا قول اگر چہ ظاہر الروایہ ہے اور کثیر مشایخ نے اسے فتوی کے لیے اختیار کیا ہے مگر قول ثانی کے متعلق تصریح ہے کہ یہی فتوی کے لیے متعین ہے۔
قول مفتی بہ کے مطابق اگر ولی کو نکاح سے پیشتر شوہر کے غیر کفو کا علم نہ ہو یا علم ہو مگراس نے صریح رضامندی نہ ہو تو مجرد اس کے سکوت کو اجازت نہ سمجھا جائےگااور اگر وہ نکاح کے اجازت دے تو عقد لغو ہے کیونکہ عقد قابل ابطال نہیں بلکہ باطل ہے اور باطل کی درستگی اجازت سے نہیں ہوسکتی۔
اگر کسی عورت کا ولی ہی نہ ہو یا ولی ہو مگر عصبہ بنفسہ نہ ہو یا عصبہ بنفسہ ہو مگر ولایت نہ رکھتا ہو تو غیر کفو میں نکاح بایں وجہ منعقد نافذ اور لازم ہے کہ غیر کفو میں نکاح کا عدم انعقاد اس وجہ سے ہے کہ اولیاء کے لیے باعث ننگ وعار ہوتا ہے مگر جب ولی ہی نہ ہو یا ہو مگر عصبہ نہ ہو تو عدم انعقاد کی علت لحوق عار موجود نہیں ہوتی بنابرایں نکاح بھی نہ صرف منعقد بلکہ لازم ہوتا ہے۔بہر حال بصورت عدم ولی کفاء ت عورت کا حق ہے اور وہ غیر کفو میں نکاح پر راضی ہے اور اگر ولی ہو مگر قبل از نکاح صریح اجازت دے دے تو وہ بھی اپنے حق کے سقوط پر رضامند ہے۔
مہر مثل میں کمی فاحش کی صورت میں اولیاء کو اعتراض کا حق ہوگا کیونکہ زیادتی مہر فخر کا باعث اور مہر مثل سے کمی فاحش موجب ننگ ہے مگر ولی اگر عصبہ بنفسہ نہ ہو تو اسے اعتراض کا حق نہ ہوگا کیونکہ دور کے اولیاء کے لیے مہر میں کمی باعث ننگ نہیں ہوتی۔اگر ولی غائب ہو مگر غیبت منقطعہ نہ ہو تو وہ بمنزلہ ولی حاضر کے گرداناجائے گا اور عورت کو اس کی صریح رضا کے بغیر غیر کفو میں نکاح کا حق نہ ہوگا۔
(10)ولی کو تجدید نکاح سے جدید حق اعتراض ہوگا: بائنہ نے شوہر سے تجدید نکاح کیا یا مطلقہ ثلاث نے بغرض تحلیل یا بنیت دوام کسی سے نکاح کیا اور ولی :
شوہر کا غیر کفو ہونا نہ جانتا ہو اور اجازت دے دے یا ؛
اجازت دے دے مگر شوہر کا غیر کفو ہونا نہ جانتا ہو یا
نہ اجازت دے اور ہی شوہر کا غیر کفو ہونا جانتا ہو
تو تینوں صورتوں میں نکاح منعقد نہ ہوگا اور مطلقہ ثلاثہ شوہر سابق کے لیے حلال نہ ہوگی البتہ اگر ولی
شوہر کا غیر کفو ہونا جانتا بھی ہو اور رضامندی بھی دے دے تو نکاح منعقد ہو جائے گا۔
تشریح
دفعہ ہذا کی بنیادروایت حسن پر ہے جب کہ ظاہر الروایہ کے مطابق نکاح بذریعہ عدالت لائق تنسیخ ہوگا۔دفعہ ہذا کے پس پشت فقہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ عاقلہ بالغہ کے نکاح کرنے سےولی کا حق ختم نہیں ہوجاتا بلکہ جب بھی متذکرہ عورت نکاح جدید کرے گی تو ولی کا حق پیدا ہوجائے گا یہاں تک کہ اگر مطلقہ بائنہ ہو اورزوجین مل کے باہمی رضامندی سے تجدید نکاح کریں اور شوہر کفو نہ ہوتو نکاح منعقد نہ ہوگا اور نکاح اول پر رضامندی نکاح ثانی رضامندی نہ سمجھی جائے گی۔اسی طرح اگر مطلقہ ثلاث حلالہ کی غرض سے غیر کفو میں میں نکاح کرے تونکاح منعقد نہ ہوگا اور مطلقہ شوہر اول کے لیے حلال نہ ہوگی۔
(11)ولی اقرب کی غیر موجودگی میں ولی ابعد کا نابالغ کو نکاح میں دینا :
(1 ) ولی ابعد نے ولی اقرب کی غیبت غیر منقطعہ میں زیر ولایت کا نکاح کردیا تو نکاح ولی اقرب کی اجازت پر موقوف رہے گا،چاہے تو برقرار رکھے یا فسخ کردے۔
(2)گر غیبت منقطعہ ہو تو نکاح منعقد،لازم ونافذ ہوگا مگر شرط ہوگا کہ:
الف ۔ نکاح کفو میں ہو
ب ۔مہر مثل میں غبن فاحش نہ ہو
ج ۔ولی اقرب کے جواب آنے تک حاضر کفو انتظار نہ کرے۔
د۔ کوئی اور خواستگار نکاح ایسا نہ ہو جو ولی کا جواب آنے تک انتظار پر آمادہ ہو[i5] ۔
(12)شوہر کا ترک اسلام :
جوکوئی شخص مرتد ہوجائے تو:
(1) اس کا نکاح فی الفور فسخ ہوجائے گا
(2) فسخ نکاح کے لیے عدالتی حکم کی ضرورت نہ ہوگی
(3) اگر بیوی مدخولہ ہو تو فسخ کے لیے عدت گزرنے کی ضرورت بھی نہ ہوگی
(4) طلاق کے عدد میں کوئی کمی نہ ہوگی۔
(5) اگر بیوی مدخولہ ہو یا خلوت صحیحہ ہوچکی ہو تو اس کے ذمہ :
الف ۔ بیوی کو کامل مہردینا واجب ہوگا
ب ۔ بیوی پر عدت واجب ہوگی
ج۔ بیوی کی عدت کا نفقہ دینا بھی واجب ہوگا۔
د۔ مرتد پر بیوی کا سکنی بھی واجب ہوگا۔
(6) اگر دخول یا خلوت صحیحہ نہ ہوئی ہوتو:
الف۔ اگر مہر مسمی ہوتو نصف مہر کی ادائیگی لازم ہوگی
ب۔ اگر مہر مسمی نہ ہو تو متعہ واجب ہوگا۔
ج۔ بیوی پر عدت اور مرتد پر اس کا نفقہ وسکنی واجب نہ ہوگا
ھ۔ شوہر نے دوران ردت بیوی کو طلاق د ی تو بیوی کو اس سے وراثت ملے گی۔
تشریح
ارتداد زوج شیخین کے نزدیک فسخ ہے کیونکہ اسے طلاق قرار دینا بایں وجہ مشکل ہے کہ ردت عصمت کے منافی ہونے کی وجہ سے نکاح کے منافی ہے اور طلاق نکاح چاہتا ہے، جب کہ امام محمد کے نزدیک ردت بحکم طلاق ہے۔
طلاق کے عدد میں کمی نہ ہونے کا نتیجہ بایں صورت ظاہر ہوگا کہ اگر مرتد باربار ارتداد کا ارتکاب کرے اور پھر تجدید اسلام کے ساتھ تجدید نکاح کرے تو جائز ہے اور امام محمد کے نزدیک تین مرتبہ ارتداد کے بعد بیوی مغلظہ ہوجائے گی۔
الف ۔ اگر بیوی مدخولہ ہے تو کامل مہر واجب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ دخول سے مہر متاکد ہوچکا ہے۔
ب۔ عدت کا وجوب بھی مدخولہ ہونے کی بنا پر ہے۔
ج۔ عدت کا نفقہ بھی واجب ہے کیونکہ تعدی شوہر کی جانب سے ہے۔
د۔ اگر مدخولہ ہے تو بیوی کو دوران عدت رہائش کی فراہمی بھی مرتدپر واجب ہے ۔
ھ۔ رددت ،مرض الموت کے حکم میں ہےکیونکہ اسے قتل کردیا جاتا ہے اور مرض الموت میں طلاق دینے سے بیوی کاحق وراثت ختم نہیں ہوتا ۔
الحاصل : ا گر کسی عورت کا شوہر مرتد ہوجائے تو باجماع ائمہ اربعہ اور باتفاق جمہور فقہاء اس کانکاح خود بخود فسخ ہوجاتا ہے،قضاء قاضی اور حکم حاکم کی ضرورت نہیں۔
اگر شوہر کا ارتداد دخول یا خلوت صحیحہ سے قبل ہو تو نصف مہر خاوند کے ذمہ ہے اور عورت پر عدت واجب نہیں اور اگر خلوت صحیحہ کے بعد شوہر مرتد ہوا ہے تو شوہر پر مہر لازم ہے نیز اس مرتد پر بیوی کی عدت کا نفقہ بھی واجب ہے۔
(13)زوجین میں سے کوئی ایک مسلمان ہوجائے اور دوسرا کفر پر قائم رہے: اگر نکاح کے بعد زوجین ایک ساتھ اسلام یا کفر اختیار کرلیں تو نکاح برقرار رہے گا،لیکن ؛
اگر زوجین میں سے کوئی ایک مسلمان ہوجائے تو اگر :
شوہر مسلمان ہوجائے اور بیوی کفر پر رہے تو اگر
الف ۔ بیوی کتابیہ ہو تو نکاح حسب سابق برقرار رہے گا
ب ۔ اگر بیوی اہل کتاب کے ایک مذہب کو چھوڑ کر ددوسرا مذہب اختیار کرلے مثلا یہودیت سے نصرانیت اختیار کرلے تو بھی نکاح پر اثر نہیں پڑے گا۔
ج ۔ اگر بیوی کفر سے مذہب اہل کتاب اختیار کرلے تو بھی نکاح برقرار رہے گا۔
د ۔ اگر بیوی کتابیہ ہو اور اس نے مذہب اہل کفر اختیار کرلیا مثلا یہودیہ تھی اور اب مجوسیہ ہوگئی ہے تو نکاح ٹوٹ جائے گا۔
ھ ۔ اگر بیوی کافرہ ہو تو احکام درج ذیل ہوں گے:
اگر واقعہ دارالاسلام کا ہےتو اس پر عرض اسلام کیا جائے گا:
اگر بیوی مسلمان ہوجائے تو نکاح قائم رہے گا۔
اگر بیوی انکار کرے یا سکوت اختیارکرے تو نکاح فسخ کردیا جائے گا۔
اگر واقعہ دارالحرب کا ہے تو تین حیض کا گزرنا ہی اسلام سے انکار کے قائم مقام ہو کر نکاح فسخ ہوجائے گا۔اگر بوجہ صغر سنی یا کبر سنی عورت کو حیض نہ آتا ہو تو تین مہینے اس کے قائم مقام ہوں گے۔
بیوی کےاسلام سے انکار کی صورت میں فرقت بہر صورت فسخ کے حکم میں ہوگی۔
اگر مدخولہ ہے تو کل مہر کی اور اگر غیر مدخولہ ہے تو سرے سے مہر کی مستحق نہ ہوگی۔
اگر بیوی مسلمان ہوجائے اورشوہر کفر پر قائم رہے ،خواہ شوہر کتابی ہو یا نہ ہو،تو
الف ۔ اگر واقعہ دارالاسلام کا ہے تو شوہر پر اسلام پیش کیا جائے گا
اگر وہ اسلام قبول کرے تو نکاح بحالہ رہے گااور اگر انکار کرے یا سکوت کرے تو عدالت ان میں تفریق کردے گی اور تفریق بحکم طلاق ہوگی۔
ب۔ اگر واقعہ دارالحرب کا ہے تو بیوی پر تین حیض کا گزرنا ہی شوہر کے انکار اسلام کے قائم مقام ہوجائے گا اوربیوی بائنہ ہوجائے گی۔
توضیح1: بائنہ سے مراد یہ ہے کہ نکاح ٹوٹ جائے گا اور بیوی نکاح سے خارج ہوکر آزاد ہوجائے گی۔
توضیح2: سکوت کی صورت میں بہتر یہ ہے کہ تین بار اسلام پیش کیا جائے۔
توضیح3: زوجین میں سے جو فریق قبول اسلام نہ کرے اگر وہ ناسمجھ بچہ یا بچی ہو تو انتظار کیا جائے گا تاکہ وہ شعور حاصل کرلےاور اس کے بعد بلوغت کا انتظار کیے بغیر اس پر عرض اسلام کیا جائے گا اور بصورت انکار فوری طور پر فسخ نکاح کردیا جائے گا۔اگر متذکرہ فریق مجنون ہوتو اس کےوالدین پر عرض اسلام کیا جائے گا اور دونوں کے یا کسی ایک کے عدم قبول اسلام کی صورت میں تفریق کردی جائے گی۔
تشریح
نکاح کےبعد اگر زوجین یا کسی ایک کامذہب بدل جائے تو اس کی چار احتمالی صورتیں ہیں:
پہلی صورت:
دونوں کافر تھے اور پھر دونوں ساتھ مسلمان ہوگئے۔
دوسری صورت:
دونوں مسلمان تھے پھر معاذاللہ دونوں کافر ہوگئے۔
دونوں صورتوں میں نکاح بعینہ قائم رہتا ہے اور اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔
تیسری صورت:
بعداز نکاح اختلاف مذہب ودین کی تیسری صورت یہ ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک مسلمان ہوجائے اور دوسرا بدستور کفر پر برقرار رہے،اس کی دوصورتیں ہیں:
الف۔ ایک یہ کہ مرد مسلمان ہوجائے اور عورت کفر پر قائم رہے۔اس کاحکم یہ ہے کہ اگر عورت کتابیہ ہے تو نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑےگا اگر چہ وہ اہل کتاب کا ایک مذہب چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کرلے مثلا یہودیہ سے نصرانیہ ہوجائے یا برعکس صورت ہو۔اسی طرح اگر ایسا ہو کہ جس وقت مرد مسلمان ہوجائے اسی وقت کافرہ بیوی اہل کتاب کا مذہب قبول کرلے تو اس صورت میں بھی نکاح کوئی اثر نہیں پڑے گا البتہ اگر اس کا عکس ہوا کہ اسلام زوج کے بعد اس نے مجوسیت وغیرہ اختیار کرلی تو نکاح ٹوٹ جائےگا۔
اگر عورت کتابیہ نہ ہو یعنی ہندو یا مجوسیہ ہو تو اس بارے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر یہ واقعہ دارالاسلام کا ہے تو عدالت اس پر اسلام پیش کرے گی کہ وہ ابھی اسلام قبول کرلے اور اگر اس نے اسلام قبول کرلیا تو نکاح بحالہ رہے گا اور اگر وہ اسلام لانے سے انکار کردے یا سکوت اختیار کرے تو نکاح فورا فسخ کردیا جائےگا اور اگر یہ واقعہ دارالحرب کا ہے تو وہاں عورت پر تین حیض کا گزرناجانا ہی اسلام سےانکار کردینے کے قائم مقام ہوجاتا ہے یعنی اگر عورت مسلمان نہ ہو اور اسی حالت پر تین حیض گزرجائیں تو نکاح خود بخود فسخ ہوجائے گا۔
دوسرا جزو یہ ہے کہ عورت مسلمان ہوجائے اور شوہر کفر پر باقی رہے تو خواہ یہ کافر کتابی ہو یاغیر کتابی ہر حال میں اس کاحکم یہ ہےکہ اگر :
واقعہ دارالاسلام کا ہے تو عدالت اس پر اسلام پیش کرے ،اگر وہ مسلمان ہوجائے تو نکاح برقرار رہے گا اور اگر اسلام قبول کرنے سے انکار کردے یا سکوت کرے تو عدالت ان دونوں میں تفریق کردے گی۔
اگر واقعہ دارالحرب کا ہے تو عورت پر تین حیض گزرجانا ہی انکار اسلام کے قائم مقام ہوجائےگا اور تین حیض کے بعد عورت بائنہ ہوجائے گی۔
چوتھی صورت :
اختلاف مذہب بعد ازنکاح کی چوتھی صورت یہ ہے کہ زوجین میں سے کوئی ایک معاذاللہ اسلام چھوڑ کرکفر اختیار کرلے،اس صورت کا بیان مرتد کے احکام میں بالتفصیل آئے گا۔
(14)بصورت قبول اسلام ،زوجیت کے برقرار رہنے کے لیے لازمی شرط: قبول اسلام کے بعد زوجیت کے برقرار رہنے کے لیے شرط ہے کہ زوجین کے درمیان کوئی ایسا سبب حرمت نہ پایا جاتا ہے جس کا تعلق محل کے ساتھ ہو،بصورت دیگر عدالت زوجین کے درمیان تفریق کردے گی۔
تشریح
اگر زوجین قریبی قرابت دار ہوں مثلا بھائی بہن ہو ں یا چچا یا بھتیجی کا رشتہ ان میں پایا جاتا ہو ،تو ان کے درمیان علیحدگی کردی جائے گی کیونکہ بہن اوربھتیجی ازروئے شریعت اسلام نکاح کا محل نہیں۔
(15)ایک ساتھ ارتداد واسلام:
(1) اگر زوجین ایک ساتھ مرتد اور پھر ایک ساتھ اسلام لائیں تو نکاح برقرار رہے گا
(2) اگر ایک ساتھ اسلام نہ لائیں تو نکاح فسخ ہوجائے گا
(3) اگر تقدیم وتاخیر معلوم نہ ہو تو نکاح باقی قرار دیا جائے گا۔
(16)مسلمان اپنی عیسائی منکوحہ سمیت مرتد ہوجائے :ایک مسلمان جس کی منکوحہ ایک عیسائیہ ہے پھر دونوں یہودیت اختیار کرلیتے ہیں تو نکاح فسخ ہوجائے گا۔
(17)اختلاف دار بھی فسخ کا باعث بنتا ہے: اختلاف دار جب کہ حقیقی اورحکمی دونوں طرح ہو تو فسخ نکاح کا باعث ہے۔
بنا برایں :درج ذیل صورتوں میں نکاح فسخ ہوجائے گا:
الف ۔ زوجین میں سے ایک دارالاسلام میں آکر رہنے لگااور دوسرا دارالحرب میں رہا توعورت نکاح سے باہر ہوگئی
مثلاکوئی ایک:
مسلمان ہو کر
یاذمی ہوکر
یا یہاں آکر مسلمان ہوا
یا ذمی ہوا
زوجین میں سے کوئی ایک قید کرکے دارالحرب سے لایا گیا
حربی امن لےکر یہاں آیا اورپھر ذمی ہوگیا
جب کہ درج صورتیں فسخ نکاح کا سبب نہیں:
اگر وونوں ساتھ قید کرکے لائے گئے
یا دونوں مسلمان ہوکر
یا ذمی ہوکر وہاں سے آئے
یا یہاں آکر مسلمان یا ذمی ہوئے
یاحربی امن لےکر دارالاسلام آیا
یا مسلمان یا ذمی امان لے کر دارالحرب گیا
توضیح: اختلاف دار حقیقۃ کا مطلب یہ ہےکہ دو ملک شخصی طور پر الگ الگ ہوںجب کہ حکما کا مطلب یہ ہے کہ وہاں داخل ہونے والا واپس جانے کا اراردہ نہ رکھتا ہو بلکہ وہاں ٹھہرنے اور قرار کا ارادہ ہو۔
توضیح: اگر شوہر دارالحرب سے دارالاسلام نکل آئے تو بیوی پر بالاتفاق عدت نہیں کیونکہ وہ حربیہ ہے اور اگر بیوی نکل آئے توامام صاحب کے نزدیک اس پر عدت واجب نہیں اور صاحبین کے نزدیک عدت واجب ہے۔
شوہر کے دارالاسلام نکل آنے کے بعداس کے لیے اس حربیہ کے علاوہ چار عورتیں نکاح میں رکھنے کی اور اس حربیہ منکوحہ کی بہن سے نکاح کی اجازت ہے۔
(18)جوعورت قید کرکے دارالحرب سے لائی گئی: منکوحہ عورت اگر شوہر کے بغیر دارالحرب سے قید کرکے دارالاسلام لائی گئی تو عدت گزارے بغیر اس سے نکاح جائز ہے۔
(19)مہاجرہ کا حکم : جو کوئی عورت دارالحرب سے ہجرت کرکے دارالاسلام میں داخل ہوئی خواہ
مسلمان ہو کر
یا ذمیہ ہوکر
یا یہاں آکر مسلمان ہوئی
یا ذمیہ ہوئی
تو اگر حاملہ نہ ہوتوعدت کا دوارنیہ گزارے اور اگر حاملہ ہو تو اس وجہ سے کہ عورت کا رحم مشغول ہے،وضع حمل کے بعد اس سے نکاح جائز ہے۔
تشریح
نکاح کا جواز بایں وجہ ہے کہ تباین دار سے اس کا نکاح فسخ ہوچکا ہے جیسا کہ احناف کا مذہب ہے اور اس پر عدت کا دورانیہ گزارنا بھی لازم نہیں کہ نص قرآنی نے اسے عدت گزارے بغیر حلال قرار دیا ہے۔ صاحبین کے نزدیک مہاجرہ پر عدت گزارنا لازم ہے کیونکہ دارالاسلام پہنچنے کے بعد دارالاسلام کے احکام اس پر لاگو ہوں گےجب کہ امام صاحب نے نزدیک ایک تو قرآن کریم نے مطلقا اس سے نکاح جائز قرار دیا ہے ،مزید یہ کہ شوہر کے حق کی وجہ سے اس پر عدت لازم قرار نہیں دی جاسکتی کیونکہ تبدیلی مذہب اور تباین دار کی وجہ سے کافر شوہر کا اس پر کوئی حق باقی نہ رہاہے۔
حاملہ کے ساتھ وضع حمل کے بعد نکاح کا جواز بوجہ عدت نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ عورت کا رحم حق غیر کی وجہ سے مشغول ہے۔
(20)زوجین میں سےکوئی ایک دارالحرب سے نکل آئے: مسلمان یا ذمی نے حربیہ سے دارالحرب میں نکاح کیا اور پھر عورت اپنے شوہر سے قبل وہاں سے دارالاسلام نکل آئی تو نکاح برقرار رہے گا لیکن اگر شوہر پہلےنکل آئے تو نکاح جاتا رہے گا۔
تشریح
شوہر کے خروج کی صورت میں حقیقی اور حکمی اور ہر دولحاظ سے اختلاف دار پایا گیا اوربیوی کے خروج کی صورت میں چونکہ شوہر دارالاسلام کا رہائشی اور بیوی رہائش میں شوہر کے تابع ہوتی ہے اس لیےدارالاسلام آتے ہی بیوی ذمیہ ہوگئی اور اختلاف دار اپنی دونوں شرطوں کے ساتھ نہیں پایاگیا ۔
(21)نابالغ غیر مسلم اسلام قبول کرلے تو ازدواجی زندگی کا حکم : زوجین نابالغ ہوں اور کوئی ایک مسلمان ہوجائے تو دوسرے پر اسلام پیش کیا جائے گا،اگر انکار کرے یا سکوت کرے تومثل بالغ ان کے درمیان تفریق کردی جائے گی اور اگر نابالغ غیر ممیز ہو تو اس کے شعور آنے تک انتظار کیا جائے گااور پھر اسلام پیش کیا جائے گالیکن اگر نابالغ یا نابالغہ مجنون ہوتوانتظار کیے بغیر اس کے والدین پر اسلام پیش کیاجائےگا اگر کوئی ایک بھی مسلمان ہوجائے تو بچہ اس کے تابع ہوکر مسلمان قرار پائے گا اور اگر والدین میں سے کوئی ایک بھی مسلمان نہ ہو تو تفریق کردی جائے اور اگر والدین نے ہوں تو عدالت کسی کو اس کے باپ کا وصی قرار دے کر عرض اسلام کرے گی۔
توضیح1: تفریق اصح قول کے مطابق بحکم طلاق ہوگی۔
توضیح2: مجنون سے مراد جس کا جنون اصلی ہو ،اور اگر وہ پہلے مسلمان تھا اور پھر مجنون ہوا تو وہ مسلمان ہی ہے اگر چہ اس کے والدین کافر ہوں۔
توضیح3: مجنون خواہ بالغ ہو یا نابالغ ،حکم ایک ہی ہے۔
(22)مرتد کی اولاد کے احکام : مرتد والدین کی جو اولاد حالت ردت میں پیدا ہوگی وہ بھی مرتد متصور ہوگی۔
اگر اولاد بالغ ہو تو وہ والدین کے ارتداد سے مرتد شمار نہ ہوگی
اگر اولاد نابالغ ہو اور والدین مرتد ہوجائیں اور نابالغ کو لے کر دارالحرب فرار ہوجائیں
تو نابالغ مرتد متصور ہوگا۔
تشریح
مرتد اور مرتدہ کے احکام ماقبل میں بیان ہوچکے ہیں،دفعہ ہذا سے مقصود نابالغ مرتد کے احکام ہیں۔
(23)والدین کے ارتداد سے اولاد کا عدم ارتداد: والدین کے ارتداد سے اولاد اس وقت تک مرتد متصور نہ ہو گی جب تک اسے لے دارالحرب نہ لے چلے جائیں۔
اگر والدین میں سے ایک مرگیا خواہ اسلام یا ارتداد کی حالت میں تو اولاد مرتد شمار نہ ہوگی ،اگر چہ دوسرا مرتدہوکر اولاد کو دارالحرب لے جائے۔
تشریح
مسلمان کا نکاح ایک نابالغہ سے ہوا پھر نابالغہ کے والدین جو مسلمان تھے مرتد ہوگئے تو لڑکی نکاح سے باہر نہ ہوگی کیونکہ دارالحرب لے جانا نہ پایاگیا۔ لیکن
اگر والدین مرتد ہوکر لڑکی کو دارالحرب لے کر چلے گئے تو اب باہر ہوگئی کیونکہ اب شرط کا تحقق ہوگیا۔
اگر والدین میں سے کوئی ایک حالت اسلام میں مرچکا ہے یا مرتد ہونے کی حالت میں مرا پھر دوسرا مرتد ہوکر لڑکی کو دارالحرب لے گیا تو بھی منکوحہ نکاح سے باہر نہ ہوگی۔
زوجین میں سے کوئی مسلمان ہوجائے تواحکام کا حاصل درج ذیل ہے؛
عورت مسلمان ہوئی تو
شوہر پر عرض اسلام ہوگا
انکار یا سکوت پر تفریق کردی جائے گی
تفریق طلاق ہوگی
یعنی بعد از اسلام دوطلاقوں کا مالک ہوگا
طلاق ،طلاق بائن ہوگی۔اس کے بعد رجعت کا حق نہیں ہوگابلکہ تجدید نکاح ہوگا
دخول ہوچکا ہو تو عدت واجب ہوگی
نفقہ واجب ہوگا
پورا مہرادا کرنا ہوگا
قبل دخول نصف مہرواجب اور عدت نہیں
شوہر مسلمان ہوا تو
بیوی پر عرض اسلام کیا جائے گا
اگر بیوی نے قبول اسلام سے انکار کیا توتفریق کی جائے گی
تفریق فسخ نکاح ہوگی کیونکہ اس سے طلاق نہیں ہوسکتی
بیوی مدخولہ ہوتو کل مہر کی مستحق ہوگی ،غیر مدخولہ ہونے کی صورت میں مہر کی مستحق نہ ہوگی۔
(24)فرقت بہ سبب ثبوت حرمت مصاہرت:
حرمت مصاہر ت کے شرعی ثبوت کے بعد اگر:
شوہر تصدیق کرتا ہے یا
شوہر انکار کرتا ہے مگر بیوی عدالت کے روبرو بذریعہ گواہان حرمت کا ثبوت پیش کردیتا ہے تو دائمی حرمت ثابت ہوجائے گا اور شوہر پر متارکت واجب ہوگی ،اگر شوہر اس کے باوجود متارکت سے گریز کرے تو عدالت زوجین میں تفریق کردے گی اور عدالتی فیصلہ ظاہرا وباطنا ہر دو طرح نافذ ہوگا۔
اگر شوہر ثبوت کا انکار کرے اور بیوی مجاز عدالت میں بذریعہ گواہان اپنا دعوی ثابت کرنے سے قاصر رہے تو مقدمہ خارج کردیا جائےگا۔
(25)صغیر کے نکاح میں بھی کفاء ت کا اعتبار ہے:
باپ دادا کے علاوہ کسی ولی کو صغیرہ کی طرح صغیر کا نکاح بھی غیر کفو میں کرنا درست نہیں۔
تشریح
کفاء ت کا اعتبار زوجہ کی طرف سے ہوتا ہے مگراولیاء کی بحث میں زوج کی طرف سے بھی اس کا لحاظ ضروری ہے،بنابرایں اگر باپ دادا نے صغیر یا صغیر ہ کا نکاح غیر کفو میں کیا اور وہ نشہ میں نہ ہوں اور سوء اختیار میں مشہور نہ ہوں تو نکاح نافذ ہے لیکن باپ دادا کے علاوہ کوئی ولی صغیریا صغیرہ کا غیر کفو میں نکاح کا مجاز نہیں۔اگر چہ صغیر کی طرف سے کفاءت کے لحاظ میں فقہاء کا کلام ہے مگر شامی کا واضح رجحان یہ ہے کہ کفاءت کا اعتبار ہے۔ذیل میں خط کشیدہ عبارت سے شامی کا فیصلہ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
(26)نکاح جو کفاءت کی شرط پر ہو اور پھر اس کے خلاف ظاہر ہوجائے:
ولی نے عاقلہ بالغہ کا نکاح اس کی پیشگی اجازت سے کیا اور کفاءت کو بطور شرط کے قرار دیا یا شوہر نے اپنا کفو ہونا ظاہر کیا اور نکاح کے بعد اس کا غیر کفو ہونا ظاہر ہوگیا تو لڑکی اور ولی دونوں کو خیار کفاءت حاصل ہوگا اور نکاح بذریعہ عدالت لائق تنسیخ ہوگا۔
(27)جماع پر عدم قدرت کے سبب تفریق :
اگر شوہر وظیفہ زوجیت کی ادائیگی پر قدرت نہ رکھتا ہو بایں وجہ کہ اس کا عضو تناسل ہی نہ ہو یا ہو مگر بہت چھوٹا مثل نہ ہونے کے ہو یا کسی حادثہ کے سبب قطع ہو گیا ہو اور بیوی عدالت میں نالش کرے تو عدالت فی الفور تفریق کردے گی۔
ب :۔اگر شوہر کا عضو مخصوص موجود ہو مگر کسی مرض یا ضعف یا کبر سنی یا سحر وغیرہ کے سبب وہ جما ع پر قدرت نہ رکھتا ہو اور بیوی عدالت میں مرافعہ کرے تو عدالت شوہر کو بغرض علاج ومعالجہ ایک سال کی مہلت دے گی ،اگر شوہر اس عرصہ میں عدالت کی تسلی کرانے میں کامیاب نہ ہوسکتا تو تفریق کردی جائے گی۔مگر تنسیخ کے لیے شرط ہو گا کہ :
نکاح سے پیشتر عورت کو شوہر کی نامردی کا علم نہ ہو
نکاح کے بعد شوہر نے ایک مرتبہ بھی بیوی سے جماع نہ کیا ہو
عورت کو علم ہونے پر اس نے شوہر کے ساتھ گزربسر کرنے کی تصریح نہ کی ہو
سال بھر کی مدت گزرنے پر جب عدالت عورت کو اختیار دے تو عورت اسی مجلس میں تفریق کو اختیار کرلے۔
(28)شوہر مخبوط الحواس ہو:
اگر شوہر مستقل مجنون ہو تو عدالت بیوی کی طلب پر فی الفور نکاح فسخ کردے گی اور اگر جنون حادث ہو تو عدالت اسے بغرض علاج ایک سال کی مہلت دے گی اور افاقہ نہ ہونے کے بعد بیوی کے مطالبہ نکاح فسخ کردے گی۔ تفصیل کےلیے دفعہ بالا ملاحظہ کیجیے : عنین،مجبوب،مجنون ،جذام اور برص ،ان پانچ عیوب کی بناء پر بیوی کو حق تفریق حاصل ہے،ان میں سے اولین دو حنفیہ کے نزدیک اتفاقی ہیں اور آخری دو امام محمد کی رائے کے مطابق باعث تفریق ہیں۔بعض نے امام محمد کے قول کی بنا پر ہر متعدی،موذی اور نفرت انگیز مرض کی بنا پر بیوی کو حق تفریق دیا ہے۔
(29)شوہر کی غلط بیانی ظاہر ہونے پر بیوی کا حق فسخ :
اگر شوہر نے اپنے مسلک یا حسب ونسب یا ادائیگی مہر ونان ونفقہ کے بارے میں غلط بیانی اور دھوکہ دہی سے کام لے کر عورت کو نکاح پر راضی کرلیا تو بیوی کو بذیعہ عدالت تنسیخ نکاح کا حق ہوگا۔ملاحظہ فرمائیں :در مع رد،باب العنین:2/822،823
(30)باوجود استطاعت عدم ادائیگی نان ونفقہ :
اگر شوہر باوجود قدرت زوجہ کا نفقہ ادا نہ کرتا ہواور زوجہ عزت وآبرو کے تحفظ کے ساتھ خود اپنے نفقہ کا انتظام نہ کرسکتی ہو اور کوئی شخص بھی نفقہ کی کفالت کے لیے تیار نہ ہو ،یا بدقت نفقہ کا بندوبست ہوسکتا ہو مگر شوہر سے علیحدہ رہنے میں ابتلائے معصیت کا قوی اندیشہ ہو اور شوہر خلع یا طلاق دینے پر بھی آمادہ نہ ہو تو زوجہ تفریق کے لیے عدالت میں درخواست گزار سکتی ہے۔اگر بعد از تحقیق عدالت کو اطمینان ہو اگر عورت اپنے دعوی میں سچی ہے تو شوہر کو ادائیگی حقوق پر مجبور کرے ،اگر شوہر پر بھی غفلت برتے تو عدالت ان میں تفریق کردے ،یہ تفریق بحکم طلاق رجعی ہوگی۔
(31)مفقود الخبر شوہر کی زوجہ کا حکم:
وہ شخص جو غائب ہو اور اس کی موت وحیات کا علم نہ ہو ایسے شخص کی بیوی کو مقررہ شرائط کے تحت عدالت کےذریعہ نکاح کی تنسیخ کا حق ہے۔
تشریح
جس عورت کا شوہر اس طرح لاپتہ ہو کہ اس کے زندہ یا مردہ ہونے کا کوئی علم نہ ہو اور بیوی کے خرچ اور گزر بسر کا انتظام نہ ہوسکتا ہو یا بدون شوہر بیٹھے رہنے سے ابتلائے معصیت کا قوی اندیشہ ہوتو وہ عدالت سے مرافعہ کرے اور بینہ شرعیہ سے اس غائب سے اپنا نکاح ثابت کرے اور پھر شہادت کےذریعہ اس کا غائب ہونا ثابت کرے،بعد ازیں عدالت خود تحقیق وتفتیش کرے اور جب تلاش سے مایوسی ہوجائے تو عورت چار سال انتظار کا حکم کرے،مدت مذکورہ میں بھی اگر غائب کا پتہ نہ چلے تو اختتام مدت کے بعد اسے مردہ متصور کیا جائے گا اور عورت عدت وفات گزارنے کے بعد نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔
چار سال انتظار کی ابتدا اس وقت سے ہوگی جب عدالت کو غائب کے شخص کے انتظار سے مایوسی ہوجائے۔
بہتر ہے کہ چار سال گرزنے کے بعد عدالت سے مفقود کا حکم بالموت حاصل کرلیا جائے۔
اگر عورت کے نفقہ کا انتظام نہ ہو اور کوئی کفالت کرنے والا بھی نہ ہو اور عورت خود بھی محنت ومشقت کے ساتھ عفت وعصمت کی زندگی گزارنے کے قابل نہ ہو تو ایک ماہ صبر وانتظار کے بعد تنسیخ نکاح کے دعوی دائر کرسکتی ہے۔تفصیل کے حیلہ ناجزہ ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
(32)شوہر کا غائب غیر مفقود ہونا
جس شخص زندہ ہونا معلوم ہو مگر پتہ معلوم نہ ہو یا پتہ بھی معلوم نہ ہو اور نہ وہ خود حاضر ہوتا ہو اور نہ ہی بیوی کو پاس بلاتا ہو اور نہ نفقہ ادا کرتا ہو اور عورت سخت تنگی میں مبتلا ہو تو وہ عدالت میں تفریق کے لیے درخواست دائر کرسکتی ہے۔بیوی کےذمہ لازم ہوگا کہ وہ عدالت میں غیر حاضر سے اپنا نکاح اور اس کے ذمہ نفقہ کا وجوب شہادت سے ثابت کرے اور اس پر حلف بھی اٹھائے،اس کے بعد عدالت شرعی ضابطہ جاتی کاروائی کی رعایت رکھتے ہوئے شوہر کو حقوق کی ادائیگی یا طلاق کا حکم دے،اگراس کے باوجود بھی شوہر بیوی کی شکایت رفع نہ کرے تو عدالت بیوی کو مزید ایک ماہ انتظار کا حکم دے اور اس کے بعد بیوی کے دوبارہ رجوع پر اسے شوہر کی زوجیت سے الگ کردے۔یہ تفرق طلاق رجعی شمار ہوگی۔