عائلی موضوعات پر کام کی ضرورت
مضمون نگار:شعیب عالم
عائلی موضوعات پر کام کی ضرورت
پاکستان میں اس وقت جو عائلی قوانین نافذ ہیں ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جو برطانوی عہد حکومت کی یادگار ہیں جیسے:
۱۔ گارڈین ایند وارڈ زایکٹ ۱۸۹۰ء
۲۔ امتناع ازدواج طفل کا قانون ۱۹۲۹ء
۳۔ طلاق ایکٹ۱۸۶۹ء
۴۔ پنجاب کورٹ آف وارڈز ایکٹ ۱۹۰۳ء
۵۔ شمال مغربی سرحدی صوبہ کاقانون اطلاق شخصی (شریعت)مسلمانان ۱۹۳۵ء
۶۔ قانون اطلاق شریعت ۱۹۳۷ء
۷۔ قانون انفساخ ازدواج مسلمانان ۱۹۳۹ء
برطانوی عہدمیں قوانین کے نفاذ کا طریقہ کار یہ تھا کہ چارٹرز،لیٹرز،ایکٹس،آرڈیننسز،آرڈرز،ریگولیشنز،رولز،بائی لاز اور اسی نوعیت اورطرز کی دیگر قانونی دستاویزات کے ذریعے قوانین نافذ کیے جاتے تھے۔جب پاکستان وجود میں آیا تو قانون آزادی ہند میں اور دوسرے چند ایکٹس اور آرڈرز وغیرہ میں ان تمام موجودہ قوانین کو اس وقت تک جاری رکھنے کی اجازت دی گئی جب تک انہیں تبدیل یامنسوخ نہ کردیا جائے۔
پاکستان بننے کے بعدجوعائلی قوانین یہاں نافذ ہوئے ،ان میں سے درج ذیل قوانین اہم ہیں:
۱۔ مسلم عائلی قوانین کا آرڈیننس۱۹۶۱ء
۲۔ مسلم عائلی قوانین کے آرڈیننس ۱۹۶۱ء کے تحت قواعد
۳۔ مسلم فیملی لاء(شریعت) کے نفاذ کا قانون
۴۔ عائلی عدالتوں کاقانون ۱۹۶۴ء
۵۔ عائلی عدالتوں کے قواعد ۱۹۶۵ء
۶۔ جہیز اورتحائف عروسی پر (پابندی) کا قانون ۱۹۷۶ء
۷۔ جہیز اورتحائف عروسی پر (پابند) کے قواعد۱۹۷۶ء
۸۔ پنجاب مسلم فیملی لاءکے نفاذ کا آرڈیننس ۱۹۷۲ء
۹۔ پنجاب مسلم فیملی لاء کے نفاذ کا قانون ۱۹۷۵ء
۱۰۔ پنجاب وقف املاک آرڈیننس ۱۹۷۹
ان قوانین میں جو قانون سب سے زیادہ متنازع ہے اورجس کی کئی دفعات قرآن وسنت کے صریح احکام کے خلاف ہیں وہ مسلم عائلی قوانین کا آرڈیننس۱۹۶۱ء ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ قانون اپنے نفاذ کی تاریخ سے لے کر آج تک شدید تنقید کی زد میں ہے۔اس قانون کی دفعہ ۵ میں شادیوں کی رجسٹریشن کو ضروری قرار دیا گیا ہے جب کہ اسی قانون کے نفاذ کے لیے ۱۹۶۱ء ہی میں جو قواعد نافذ کیے گیے ہیں ان قواعد کی دفعہ ۸ میں نکاح خواہ ،نکاح نامہ ،اس کا طریقہ کار اورمتعلقہ تفصیلات دی گئی ہیں اور آخر میں نکاح فارم کا نمونہ فارم نمبر ۲ کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ یونین کونسل نکاح رجسٹراروں کاتقررکرتی ہے۔انہیں نکاح نامے اور ایک مہر ''نکاح رجسٹرار '' کی فراہم کرتی ہے۔ ہرنکاح نامے کی چارنقول ہوتی ہیں،نکاح خواہ ،نکاح کے چاروں پرتوں پر زوجین ،گواہان اور وکیل وغیرہ کے دستخط لیتا ہے اور اپنادستخط اور مہر ثبت کرکے ایک نقل اپنے پاس اور دوسری اورتیسری نقل دولہا اوردولہن کو اور چوتھی نقل یونین کونسل کوبغرض ریکارڈ بھیج دیتا ہے۔
ہمارے عزیزمفتی عبدالقیوم صاحب کا مقالہ اسی نکاح نامہ کے متعلق ہے۔نکاح کے کئی پہلو ہیں ۔ایک پہلو اس کا دیوانی ہے۔اس پہلو سے وہ ایک سماجی معاہدہ ہے اور اس کا تعلق معاملات سے ہے مگر اس کے ساتھ نکاح ایک مذہبی معاملہ بھی ہے ۔اس رخ کو مدنظر رکھتے ہوئے نکاح کی اہمیت اور مقاصد کو مقالے میں جگہ دی گئی ہے ۔معاہداتی پہلو کی وجہ سے نکاح کا تعلق چونکہ معاملات میں سے ہے اور معاملات میں عائلی معاملات سے ہے، اس لیے عزیز موصوف نے تقسیم ہند سے پہلے اوربعد میں عائلی قوانین کی تاریخ پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔اس کے بعدنکاح نامہ فارم کے مندرجات پر شرعی بحث کی گئی ہے۔یہی ان کے مقالے کا بنیادی اورمرکزی موضوع ہے اوراسی وجہ سے مقالے کایہ باب سب سے طویل ہے۔ اس باب میں موصوف کی کوشش رہی ہے کہ نکاح نامہ کے ہر کالم سے متعلق جو شرعی تفصیلات ہیں وہ سب قارئین کے سامنے آجائیں ۔جو تفصیلات انہوں نے جمع کی ہیں وہ کتب فتاوی کے حوالے سے ہیں ۔دوران بحث اگررائج الوقت کوئی قانون انہیں شریعت کے خلاف معلوم ہوا ہے تو اس پر بھی انہوں نے بحث کی ہے اوراس کاغیر شرعی ہونا واضح کیا ہے۔
مجھے ذاتی طورپر بھی عائلی موضوعات سے دلچسپی ہے اور میرے خیال میں تین وجوہ ایسی ہیں جن کی بناء پر اہل علم کو اس میدان کو اپنی دلچسپی کا موضوع بنانا چاہیے۔بڑی وجہ تو یہی ہے کہ قرآن کریم نے اسے اہمیت دی ہے۔ قرآن کریم میں احکام کے متعلق جو آیات ہیں ان میں اکثر کا تعلق عائلی معاملات سے ہے۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن پاک کی نظرمیں یہ موضوع اہمیت کاحامل ہے۔جسے قرآن کریم اہمیت دے اہل علم کو بھی اسے اہم سمجھناچاہیے۔
دوسری وجہ تاریخی ہے۔عام طورپریہ سمجھاجاتا ہے کہ عائلی قوانین کے بارے میں ہمارے بزرگوں کی جدوجہداس وقت شروع ہوئی جب ساٹھ کی دہائی میں عائلی قوانین نافذ کیے گیے اور اس سے پہلے اگر ہمارے اکابر کے کام کا کوئی عملی نمونہ ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ ''حیلہ ناجزہ '' ہے۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس دورمغلوبیت میں انگریز سے آزادی کا مقصد ہی اپنے نظام تعلیم ،نظام سیاست،نظام معیشت اورنظام قانون کا احیاء تھا۔اگر یہ شعبے زندہ نہ ہوں تو آزادی کا خواب ایک خواب ہی رہتا ہے اورآزادی بے معنی ہوجاتی ہے بلکہ غلامی ہی رہتی ہے۔ان شعبہ جات میں سے قانون کےبارے میں اورخاص طورپرعائلی قوانین کے بارے میں ہمارے بزرگوں کی فکرمندی اور حساسیت کااندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد جنگ انگریز کا اقتدار مستحکم ہوگیا اوردس سال بعددارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی گئی تو بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا قاسم ناناتوی علیہ الرحمہ نے سے سب پرسنل لاء کے تحفظ کی فکر کی اور دارالعلوم دیوبند میں غیر رسمی طورپرعہدہ قضاءقائم کیا اوردارالعلوم کے صدر مدرس حضرت مولانا یعقوب نانوتوی رحمہ اللہ کوقاضی مقررفرمایا۔
اس نظام کی برکت سے برسہابرس کے الجھے ہوئے اورپیچیدہ مسائل منٹوں میں حل ہونے لگے مگرانگریز اس متوازی نظام کو کیسے گوارہ کرسکتا تھا چنانچہ ان لوگوں کو اس نظام کے خاتمے کے لیے آگے بڑھایاگیا جو شکل وصورت کے اعتبار سے مسلمان تھے مگر ان میں روح انگریز کی کام کررہی تھی ۔اس کے ساتھ وہ تمام حربے استعمال کیے گیے جو ایک جابر اورقابض قوت استعمال کرتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان حضرات کے دور کے ساتھ یہ نظام بھی ختم ہوگیا۔
بیسویں صدی کی ابتدا میں سیاسی بیداری کی لہر ہندوستان میں پیدا ہوچکی تھی ۔ کانگریس اور لیگ جیسی سیاسی جماعتوں نے بھی جنم لے لیاتھا۔۱۹۱۶ء میں ان دوجماعتوں نے متفقہ طورپرانگریز کے سامنے اپنے مطالبات پیش کیے مگر مذہبی مطالبات کو نظرانداز کردیا یا ان کو اہمیت نہیں دی اورنہ ہی ان کوبروئے کارلانے کا منصوبہ پیش کیاگیا۔ان حالات میں علمائےدیوبند نےاس مسئلے کو اٹھایا،عائلی مسائل کی ایک فہرست بنائی اوردس دفعات پر مشتمل میمورنڈم تیار کرکےوزیر ہند کو پیش کیا اور ساتھ ہی وضاحت سے کہہ دیا کہ اگر گورنمنٹ نے عائلی مسائل کے متعلق کوئی ایکٹ وضع کیا تو وہ مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہ ہوگا۔اس میمورنڈم میں بنیادی مطالبات دو تھے ۔ایک یہ کہ ہندوستان میں پرسنل لاء کے اجراء کے لیے محکمہ قضا قائم کیا جائے اور دوسرایہ کہ مسلمانوں کے مذہبی شعائر کی حفاظت اورنگرانی کےلیے شیخ الاسلام کا عہدہ قائم کیا جائے۔
اس کے بعد جب ۱۹۲۹ء میں مسلم اوقاف کی تنظیم کا مسئلہ اٹھا تو علمائے دیوبند نےسرکاری وقف بل کے مسودے کا شرعی جائزہ لیا اور ساتھ ہی اپنی جانب سے ایک مسودہ بنام ''الانصاف فی قانون الاوقاف ''پیش کیا جس پرتمام اکابر علمائے دیوبند کے دستخط تھے۔
پھر۱۹۳۰ء میں ساردا ایکٹ کا مسئلہ اٹھاجس میں نابالغی کی شادی کوختم کرنے کا منصوبہ پیش کیا گیا ۔علمائے دیوبند نے اس پر مقالے لکھے اور حضرت حکیم الامت نے ایک مستقل رسالہ اس بل کے محرکات اورپیش کردہ اعتراضات کے حل میں تالیف فرمایا۔
برطانیہ کے دور میں ہی عائلی مسائل کو شرعی قوانین کی روشنی میں فیصل کرنے کے لیے حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد رحمہ اللہ نے بہار میں امارت شرعیہ قائم فرمائی جو آج تک قائم ہے اور خوب پھیل چکی ہے۔
اس کے بعد۱۹۴۷ء سے قبل مظلوم عورتوں کو خاوندوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے علمائے دیوبندنے فتاوی اور مضامین لکھے اور حضرت مولانااشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے رسالہ الحیلۃ الناجزہ شائع کرایا۔ اسی رسالے کی روشنی میں دارالعلوم دیوبند میں علماء کی ایک کمیٹی قائم کی گئی جس نے فیصلے کرکے سینکڑوں عورتو ں کو رہائی دلائی اورخاص طورپر ان عورتوں کی مشکلات کا حل پیش کیا جن کے خاوند انہیں چھوڑ کرپاکستان ہجرت کرگئے تھے۔۔۱۹۴۷ء کے بعد ہندوستان میں تنسیخ زمیندارہ کا معاملہ اٹھا جس کا اثر اوقاف کی زمینوں پر پڑنا تھا جو مسلم پرسنل کا ایک مستقل جز ء ہے۔علمائے دیوبند نے اس سلسلے میں ضروری علمی اورعملی جدوجہد کی۔(اکابر دیوبند کی جدوجہد کے لیے ملاحظہ کیجیے:''مجموعہ رسائل حکیم الإسلام ،مسلم پرسنل لاء کے شرعی أصول جلد۳)
عائلی موضوع پرکام کی ضرورت ہے،اس کی تیسری وجہ وہ قوانین ہیں جو بڑی تیزی سے نافذ کیے جارہے ہیں اورہمارے عائلی نظریات اورنظام کو مجروح کرتے ہیں ۔اسلام ایک روحانی تہذیب کا علمبردار ہے اور روحانی تہذیب نظریات کا تحفظ کرتی ہے۔ہماری بنیاد ایک نظریے پر ہے اورجس قوم کی بنیاد نظریے پر ہو،اسے جان سے زیادہ نظریے کا تحفظ کرنا ہوتا ہے ۔آج بدقسمتی سے کسی قانون کو محض قانون جان کر نظرانداز کردیا جاتا ہے حالانکہ قانون صرف ایک انتظامی ضابطہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے افکار اورتصورحیات کا نظریہ کارفرما ہوتا ہے۔عائلی موضوعات پر جو قوانین نافذ ہوئے ہیں وہ تو قوانین بھی نہیں بلکہ پوری تہذیب ہیں ۔ان قوانین کو اپنانے کے بعد ہم اسی تہذیب میں ڈھلنا شروع ہوجائیں گے کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ہم کسی تہذیب کو لیں اور اس کی روح سے بچ سکیں۔
ان تین وجوہ سے عائلی موضوعات پر کام وقت کی ضرورت ہے۔ ۔مقالہ نگار نے یہی خدمت انجام دی ہے،اس لیے شکریے اورداد وتحسین کے مستحق ہیں۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں خلوص نیت اور اس خدمت کو شرف قبولیت نصیب فرمائے۔