رضاعت سے متعلق قرآن وسنت پرمبنی قانون
شرعی عائلی احکام کی دفعہ بندی:
تمہید:
ہر گاہ کہ قرینِ مصلحت ہے کہ رضاعت سے متعلق قرآن وسنت کے احکامات، فقہی اجتہادات اور عصری تحقیقات کوبغرضِ فرضِ مذہبی ووطنی و سہولتِ فہم ونفاذ ،عصری عدالتی قوانین کے قالب میں ڈھالا جائے، لہٰذا بذریعہ ہذا درج ذیل قانون وضع کیا جاتا ہے ۔
دفعہ۱۔مختصر عنوان ، وسعت اور نفاذ:
الف) یہ قانون’’ قانونِ رضاعت‘‘ کہلائے گا۔
ب) اس قانون کا نفاذ اس تاریخ سے ہوگا جو آئین کے تحت مجاز فرد ، ادارہ یا ہیئت، جیسی صورت ہو، اس کے لیے تجویز کرے ۔
دفعہ۲۔ تعریفات:
اس قانون میں تاوقتیکہ عبارت کے سیاق و سباق سے کچھ اور مطلب ومفہوم نہ نکلتاہو، درج ذیل اصطلاحات کے وہی معنی لیے جائیں گے جو بذریعہ ہٰذا اُن کے لیے بالترتیب مقرر کیے گئے ہیں، یعنی:
۱۔لبنِ فحل:
وہ دودھ جو کسی مرد سے حمل کے سبب عورت کو اُترا ہے۔جو فقہاء زنا کے باعث زانی سے رشتۂ رضاعت کے قیام کے قائل نہیں،ان کے نزدیک لبنِ فحل کی تعریف میں یہ قید بھی ہے کہ حمل زنا کے سبب نہ ہو۔
۲۔باکرہ:
جس کے ساتھ بذریعہ نکاح یا زنا کسی مرد نے صحبت نہ کی ہو ،اگرچہ کھیل کود یا مرض کے سبب اس کی بکارت زائل ہوگئی ہو۔
۳۔مرضعہ:
سگی ماں کے سوا وہ عورت جو بچہ کو دودھ پلائے۔
۴۔رضیع/رضیعہ:
جو بچہ بچی کسی عورت کا دودھ پیئے۔
۵۔سال :
سال سے مرادقمری سال ہے۔
۶۔اللبا:
’’ اللبن النازل أول الولادۃ‘‘ یعنی ولادت کے فوری بعد جو دودھ عورت کو آتا ہے۔ شوافع کے ہاں ’’اللبا‘‘ کا پلانا ماں پر واجب ہے۔
۷۔رضاعت طاری:
نکاح کے بعد رضاعت کا ثابت ہونا۔
۸۔اقرار پر اصرار:
ایسے الفاظ جن سے اقرار کی تاکیدوتائیدکا مفہوم اخذہوتا ہو، جیسے: میں نے حق کہا،سچ کہا وغیرہ (کتب فقہ میں اصرار کی تعریف نہیں بلکہ تمثیلات دی گئی ہیں، مگر مراداس سے تاکید ہی ہے۔)
۹۔اُجرتِ مثل:
کسی عمل کا اتنا معاوضہ جو عام طور پر رائج ومعروف ہو/عرف کے مطابق عمل کا محنتانہ مرادہے۔
۱۰۔اجنبیہ:
عورت جورضیع یا رضیعہ کی سگی ماں نہ ہو۔
۱۱۔اُصول وفروع:
اُصول سے مراد جیسے: باپ، دادا، نانا،ماں، دادی اور نانی وغیرہ ہیں ، خواہ سلسلہ کتنا ہی اوپر چلا جائے اور فروع سے مراد جیسے: بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسہ اور نواسی وغیرہ ہیں ،خواہ سلسلہ کتنا ہی نیچے چلا جائے۔
۱۲۔ زوجہ صغیرہ:
منکوحہ جس کی عمر دوسال سے کم ہو۔
۱۳۔رضاعی باپ:
وہ شخص جس کے حمل کے سبب مرضعہ کا دودھ اُترا ہے۔
۱۴۔ولد الملاعنہ:
وہ بچہ جس کی ولدیت لعان کی کارروائی کے سبب مجاز عدالت نے باپ سے قطع کردی ہو۔
۱۵۔عدت:
نکاح کے آثار کے خاتمے کے لیے شریعت نے عورت کے واسطے جو مدت مقرر کی ہے،اس کا نام ’’عدت ‘‘ ہے۔ یانکاح یا شبہ نکاح کے زوال کے بعد عورت کاایک مدت تک انتظار کرنا ’’عدت‘‘ کہلاتا ہے۔
۱۶۔کبیرہ:
بالغہ مراد ہے۔
۱۷۔آیسہ:
جس کو صغرِ سنی یا کبرِ سنی کی وجہ سے حیض نہ آتا ہویا پاکی کے ایام کی طوالت کی وجہ سے شریعت اس کو بحکمِ آیسہ گردانتی ہو۔
۱۸۔مدخولہ:
جس عورت سے اس کے شوہر نے حقیقی طور پر صحبت کی ہو۔
۱۹۔غیر مدخولہ:
جس عورت سے اس کے شوہر نے حقیقی صحبت نہ کی ہو، اگرچہ خلوتِ صحیحہ ہوچکی ہو۔
۲۰۔بینونت:
رشتۂ نکاح کا منقطع ہونا مراد ہے۔
۲۱۔بینونتِ صغریٰ:
قطعِ زوجیت کی ایسی صورت جس میں بدون حلالہ شرعیہ صرف تجدیدِنکاح سے رشتۂ زوجیت بحال ہوسکتا ہو۔
۲۲۔بینونتِ کبریٰ:
جس میں حلالہ شرعیہ کے بغیر بائنہ سے تجدیدِنکاح ممکن نہ ہو۔
۲۳۔حرمتِ غلیظہ:
بینونتِ کبریٰ کی مترادف اصطلاح ہے۔
۲۴۔رجعت:
عدت کے دوران تجدیدِ نکاح کیے بغیر معتدہ کو لوٹالینا خواہ قولاً ہو یا فعلاً ،اور شوہر نے رجعت پر گواہان قائم کیے ہوں یا نہ کیے ہوں۔
۲۵۔طلاقِ رجعی:
وہ طلاق مراد ہے جس میں رجعت ممکن ہو۔
۲۶۔طلاقِ بائن:
ایسی طلاق جس کے اثر سے رشتۂ ازدواج ختم ہوجائے اورمطلقہ نکاح سے نکل جائے، مگر ازسرِنونکاح سے زوجیت کی بحالی ممکن ہو۔
۲۷۔معتدہ بائنہ:
جو عورت طلاقِ بائن کی عدت میں ہو۔
۲۸۔کامل شہادت:
اس قانون کے مقاصد کے تحت دو مرد یا ایک مرد اور دوعورتوں کی گواہی’’ کا مل شہادت ‘‘ہے۔
دفعہ۳۔رضاعت کی تعریف:
ایک متعین مدت کے اندر خاص شرائط کے تابع بچہ کے پیٹ میں عورت کے دودھ کا پہنچ جانا رضاعت کہلاتا ہے۔
دفعہ۴۔ حرمتِ رضاعت کی شرائط:
حرمتِ رضاعت کے ثبوت کے لیے شرط ہوگاکہ:
- بچہ نے دودھ ہی پیا ہو۔
- دودھ عورت کا ہو۔
- عورت نوسال یا اس سے زائد عمر کی ہو۔
- عورت معلوم ہو۔
- دودھ کابچے کے پیٹ تک پہنچنا یقینی ہو ۔
- دودھ دفعہ۷ کے احکام کے تابع مطلوب شکل میں ہو ۔
- دودھ حلق یا ناک کے راستے پیٹ تک پہنچاہو۔
- دودھ مدتِ رضاعت کے اندر پلایا گیا ہو۔
۱۔شرطِ اول کے تحت :
الف۔دودھ کے علاوہ کسی اورشئے مثلاً خون سے رضاعت کا رشتہ قائم نہیں ہوتا، چنانچہ اگر مدتِ رضاعت میں کسی بچے کو کسی عورت یامرد کا خون چڑھایا گیا تو ازروئے شرع حرمت قائم نہ ہوگی ۔
ب۔ضروری ہے کہ بچے نے دودھ ہی پیا ہو، لہٰذااگرکنواری لڑکی کے پستان سے زرد رنگ کا پانی نکلا اور بچے نے پی لیا تو رضاعت ثابت نہ ہوگی۔ اسی طرح مرض کے سبب جو مواد نکلے خواہ زرد رنگ ہو یا کوئی اور ہو توحرمت ثابت نہ ہوگی، البتہ آیسہ کے پستان سے جو زرد رنگت کا پانی نکلتا ہے وہ دودھ ہی ہے جو کسی سبب سے متغیر ہوگیا ہے، اس لیے اس سے حرمت قائم ہوجائے گی۔
۲۔شرطِ ثانی کے تحت، اگر:
الف :دوودھ عورت کا نہ ہو، بلکہ مرد یا کسی جانور کا ہو تو حرمت قائم نہ ہوگی، لہٰذا جن دوبچوں نے بچپن میں ایک ہی جانور کادودھ پیا ہو اُن میں رضاعت کا رشتہ قائم نہ ہوگا۔
ب۔ عورت خواہ قرابت دار ہو یاکوئی اجنبیہ،مسلمہ یا غیر مسلمہ ،،زندہ ہویا مردہ،حالتِ نوم میں بچہ نے دودھ پیا ہو یا بیداری میں، الغرض مرضعہ عورت ہو، مرد یا جانور کا دودھ پینے سے رضاعت کا ثبوت نہ ہوگا۔
ج۔ خنثیٰ مشکل نے اگر بچے کو دودھ پلادیا اور اس کا عورت ہونا معلوم ہے تو رضاعت ثابت ہے، ورنہ نہیں اور اگر کچھ معلوم نہیں اورعورتیں کہیں کہ اس کا دودھ مثل عورتوں کے ہے تو رضاعت ثابت ہے ۔
د۔ مرضعہ کا کسی کی منکوحہ ہونا ضروری نہیں، چنانچہ باکرہ لڑکی کے دودھ سے بھی حرمت ثابت ہوجائے گی، جب کہ اس کے پستان سے دودھ ہی نکلا ہواور اگر دودھ نہیں بلکہ اس جیسی کوئی چیز نکلی تو رضاعت ثابت نہ ہوگی۔ مزنیہ اور موطوء ۃ بالشبہہ کے دودھ کے متعلق مستقل دفعات قائم کی گئیں ہیں۔
الحاصل : عورت کا دودھ ہی ضروری ہے، بالفرض مرد کے پستان سے دودھ نکل آئے یا بچے ایک ہی جانور کا دودھ پی لیں تو اس سے رضاعت ثابت نہ ہوگی۔
۳۔شرطِ ثالث کے تحت ،اگر:
نوسال سے کم عمر کی بچی نے کسی کو دودھ پلایا تو حرمت ثابت نہ ہوگی، کیونکہ بلوغ کی اقل ترین ممکنہ عمر نو سال ہے۔
۴۔شرطِ رابع کے تحت، اگر:
مرضعہ معلوم نہ ہوگی تو حرمت قائم نہ ہوگی۔
۵۔شرطِ خامس کے تحت :
دودھ خواہ تھوڑا ہویا زیادہ، مگر جب پیٹ تک پہنچنا معلوم ہو تو رضاعت ثابت ہوگی، لہٰذا اگر چھاتی منہ میں دی مگر معلوم نہیں کہ دودھ پیا یا نہیںتو حرمت ثابت نہیں، یوں ہی چھاتی منہ میں دی اور لوگوں کو معلوم ہے ،مگر اب عورت کہتی ہے کہ دودھ نہ تھا اور کسی اور ذریعہ سے معلوم بھی نہیں ہوسکتا کہ دودھ تھا یا نہیں، تو عورت کا کہا مان لیا جائے گا۔
۶۔ شرطِ سادس کے تحت:
دودھ کا خاص شکل میں ہونا ضروری ہے، جس کا مفصل بیان مستقل دفعہ کے تحت آتا ہے۔
۷۔شرطِ سابع کے تحت :
دودھ کا معتاد منفذ سے معدہ میں پہنچنا ضروری ہے، خواہ بچہ نے خودپستان چوسا ہو یا عورت نے منہ میں چھاتی دی ہویا حلق یا ناک میں دودھ ڈالایا ٹپکایا گیاہو، لیکن اگر دودھ آنکھ یا کان میں ٹپکایا گیا یا پیشاب کی نالی یا پائخانہ کے مقام سے داخل کیا گیا یا دماغ یا پیٹ کے زخم میں ڈالا گیا اور اندر پہنچ گیا تو رضاعت ثابت نہیں۔
۸۔شرطِ ثامن کے تحت :
دودھ ایک مخصوص مدت کے اندر پلایا گیا ہو۔ مدت کابیان ایک مستقل دفعہ کے تحت آتا ہے۔
حاشیہ ذیلی دفعہ۴
۱۔مرضعہ معلوم ہو۔ یہ شرط اس وجہ سے اضافہ کی گئی ہے کہ نہر الفائق میں ہے کہ ’’لابد أن تعلم المرضعۃ‘‘ (ج:۱، ص:۱۷۰) مزید یہ کہ بحراورنہر وغیرہ کتب میں بحوالہ خانیہ ہے کہ ایک بچہ کو گاؤں کی اکثر یا اقل عورتوں نے دودھ پلایا اور اب یہ معلوم نہیں کہ خاص کس نے دودھ پلایا ہے اور ان میں سے کوئی شخص اس سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو امام ابوالقاسم الصفار نے فرمایا کہ اگر کوئی علامت اور شہادت نہ ہوتو نکاح جائز ہے۔
۲۔بچہ کو اگر مردہ عورت کا دودھ پلا یا جائے تو اس سے بھی رضاعت ثابت ہوجائے گی، کیونکہ حدیث کی رو سے حرمتِ رضاعت کی علت یہ ہے کہ دودھ میں انسانی جسم کی نشونما کی صلاحیت ہو: ’’الرضاع ما أنبت اللحم وأنشر العظم‘‘او رزندہ عورت کی طرح مردہ عورت کے دودھ میں بھی یہ صلاحیت باقی رہتی ہے۔مزید یہ کہ دودھ ایک جان چیز ہے اور موت وحیات کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ’’اللبن لایموت‘‘ حضرت عمرؓ کا مشہور ارشادہے۔ (جاری ہے)
شرعی عائلی احکام کی دفعہ بندی:
قانونِ رضاعت (آٹھویں قسط)
دفعہ۵۔رضاعت کا حکم:
رضاعت سے وہ تمام رشتے حرام ہوجاتے ہیں جونسب یا مصاہرت کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں، مگر یہ کہ شریعت نے کسی رشتے کو مستثنیٰ کیا ہو،جیسے رضاعی بھائی کی نسبی بہن سے نکاح جائز ہے۔
دفعہ۶۔رضاعت کے سبب حرام ہونے والے رشتوں کی تفصیل :
رضاعت کے سبب رضیع پر درج ذیل رشتے حرام ہوں گے:
- مرضعہ جس کا دودھ پیا ہے۔
الف:مرضعہ کے نسبی اور رضاعی اُصول
ب:مرضعہ کے نسبی اور رضاعی فروع
فروع میں مزید تفصیل یہ ہے کہ مرضعہ کی اولاد خواہ نسبی ہو یا رضاعی اور خواہ اس شوہر سے ہو جس کی صحبت سے مرضعہ کودودھ اُترا ہے،یاکسی دوسرے شوہر سے ہو۔مرضعہ نے انہیں رضیع سے پہلے دودھ پلایا ہو۔مرضعہ نے انہیں رضیع کے بعددودھ پلایا ہو۔مرضعہ نے کسی اور بچے کو دودھ پلایا ہو۔
- مرضعہ کا شوہر جس کی وطی کے سبب مرضعہ کادودھ اُترا ہے، وہ رضیع کا باپ کہلائے گا، اور اس کے درج ذیل رشتہ دار رضیع پر حرام ہوں گے:
الف: نسبی اور رضاعی اُصول
ب: نسبی اور رضاعی فروع
ج: اولاد، خواہ وطی نکاحِ صحیح کے ذریعے ہویا فاسد کے ذریعے ۔
- مرضعہ کے شوہر کی اولادخواہ، مرضعہ سے ہو، مرضعہ کے علاوہ کسی اور سے ہو، مرضعہ نے انہیں رضیع سے پہلے دودھ پلایا ہویا بعد میں پلایا ہو، شوہر کی نسبی اولاد ہو یا رضاعی اولاد ہو۔ سب رضیع مذکور کے بہن بھائی ہوں گے۔ بنا برایں ان کی اولاد رضیع مذکور کی بھائی بہن کی اولاد ہوگی، مرضعہ کے شوہر کا بھائی رضیع مذکور کا چچا کہلائے گا اور مرضعہ کے شوہر کی بہن رضیع کی پھوپھی ہوگی، مرضعہ کا بھائی رضیع کا ماموں ہوگا، مرضعہ کی بہن رضیع کی خالہ ہوگی۔ ایسے ہی دادا دادی، نانا نانی میں سمجھنا چاہیے۔
توضیح:۱- رضاعی باپ جس کی وطی کے سبب مرضعہ کا دودھ اُترا ہے خواہ وطی نکاحِ صحیح کے سبب ہو یا فاسد کے، البتہ اگر وطی بالشبہہ ہو توآمدہ دفعہ کے احکام لاگو ہوں گے۔
توضیح :۲- دفعہ ہذا اِن دو اُصولوں پر بنا ہے کہ :
۱۔ عورت کی جانب سے اصل یہ ہے کہ بچے نے اس کا دودھ پیا ہو، خواہ کسی زمانے میں پیا ہو اور اس دودھ کا سبب خواہ اس کا موجودہ یا سابقہ شوہر ہو یا زانی ہویا واطی بالشبہۃ ہو۔
۲۔ مرد کی جانب سے اصل یہ ہے کہ اس کی اولاد ہو یا دودھ اس کی وطی کے سبب ہو۔
دفعہ۷۔زنا کے سبب اُترنے والے دودھ سے حرمتِ رضاعت
مزنیہ نے جس کو دودھ پلایا وہ رضیع، زانی اور اس کے اُصول وفروع پر حرام ہوگا۔
توضیح :دوسرا قول یہ ہے کہ حرمت صر ف مزنیہ سے ثابت ہوگی، یعنی رضیع کا صرف مرضعہ کے ساتھ رشتۂ رضاعت قائم ہوگا، زانی سے نہیں ، مگر راجح اور قوی پہلا قول ہے۔ خود زانی پر رضیعہ بالاتفاق حرام ہوگی، کیونکہ وہ مزنیہ کی اولاد ہے اور مزنیہ کے فروع زانی پر حرام ہوتے ہیں۔
دفعہ ۸۔وطی بالشبہہ سے ثبوت حرمتِ رضاعت
قانون ثبوتِ نسب کے احکام کے تحت جہاں مرد سے ثبوتِ نسب ہوگا، وہاں رضیع اور مرد کے درمیان رضاعت کا رشتہ بھی قائم ہوگا اور جہاں مرد سے ثبوتِ نسب نہ ہو، وہاں صرف عورت سے رشتۂ رضاعت قائم ہوگا۔
تمثیل: زید نے ہندہ سے وطی بالشبہہ کی اورہندہ کو حمل ٹھہرگیا اور بچہ متولد ہوگیا، پھر ہندہ نے بکر سے نکاح کیا اور ایک لڑکی فاطمہ کو دودھ پلادیا تو فاطمہ زید کی رضاعی بیٹی ہوگی، نہ کہ بکر کی اور بکر کے لیے حلال ہوگی،کیونکہ ہندہ کا دودھ زید کی صحبت کی وجہ سے اُترا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ قانونِ نسب کے قواعد کے تحت زید سے فاطمہ کا نسب ثابت ہو ،اگر نسب ثابت نہ ہو تو زید کے ساتھ اس بچی کا رشتۂ رضاعت ثابت نہ ہوگا۔
دفعہ۹۔سابقہ شوہرسے دودھ کاانقطاع کب ہوگا:
جب مطلقہ، جس کا شوہر سے دودھ بھی ہے،بعد از انقضاء عدت کسی اور شخص سے نکاح کرے، تو اگر:
- شوہرِ ثانی سے بچہ مولود ہوا تو بالاجماع دودھ شوہر اول سے منقطع سمجھا جائے گا۔
- اگر شوہرِ ثانی سے حاملہ ہی نہیں ہوئی تو بالاتفاق دودھ شوہر اول سے سمجھا جائے گا۔
- اگر شوہرِ ثانی سے صرف حاملہ ہوئی،بچہ پیدا نہیں ہوا تو بھی دودھ صرف شوہرِ اول سے سمجھا جائے گا،خواہ حمل کے سبب دودھ زیادہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔
دفعہ۱۰۔ بچے جنہوں نے ایک ہی عورت کادودھ پیا ہو:
جن بچوں نے کسی ایک ہی عورت کا دودھ پیا ہو، خواہ:
ایک وقت میں یا مختلف اوقات میں، اورعورت کادودھ ایک ہی شوہر سے ہو یا دو سے ہو یا شوہر سے نہ ہو، ایسے بچے:
- رضاعی بھائی بہن ہوں گے،اگر ایک لڑکااور دوسری لڑکی ہو۔
- دونوں رضاعی بھائی ہوں گے ،اگر دونوں لڑکے ہوں۔
- دونوں رضاعی بہنیں ہوں گی، اگر دونوں لڑکیا ں ہوں۔
بنابرایں:
الف۔ دونوں کاآپس میں نکاح ناجائز ہوگا۔
ب۔ ایک دوسرے کی اولاد سے نکاح ناجائز ہوگا، کیونکہ وہ ماموں اور بھانجی یا بھتیجے اور پھوپھی کا نکاح ہوگا۔
ج۔ مرضعہ کی ماں سے رضیع کا نکاح ناجائز ہوگا، کیونکہ نانی اور نواسے کا رشتہ قائم ہوگا۔
د۔ مرضعہ کے باپ سے نکاح ناجائز ہوگا، کیونکہ نواسی اور نانا کا نکاح ہوگا۔
ح۔ رضیع کی اولاد اور اولاد در اولاد کے لیے بھی مرضعہ سے نکاح حرام ہوگا، جیساکہ نسب میں حرام ہوتا ہے۔
و۔ مرضعہ کے بھائی اور بہنوں سے رضیع کا نکاح حرام ہوگا، کیونکہ وہ بالترتیب ماموں اور خالائیں ہوں گی۔ البتہ مرضعہ کے بھائی بہنوں کی اولادسے رضیع کا نکاح جائز ہوگا، کیونکہ وہ رضیع کی ماموں زاد یا پھوپھی زاد ہوں گی اور ان سے نسب میں بھی نکاح جائز ہے۔
توضیح: اجنبیہ سے مراد اس دفعہ کے تحت وہ عورت ہے جو ان بچوں میں سے کسی کی سگی ماں نہ ہو۔
دفعہ۱۱۔باکرہ مطلقہ غیر مدخولہ کی رضاعی بیٹی سے نکاح :
باکرہ کو دخول سے قبل طلاق دی تو اس کی رضاعی بیٹی سے نکاح کرسکتاہے اور اگر بعد ازدخول طلاق دی تو نہیں کرسکتاہے۔
توضیح:باکرہ سے مرادوہ عورت جس سے جائز یا ناجائز طورپر کسی نے صحبت نہ کی ہو، اگر چہ اس کی بکارت بوجہ کھیل کود یامرض کے زائل ہوچکی ہو۔ قبل از دخول بایں وجہ طلاق دہندہ شوہر نکاح کرسکتا ہے کہ دودھ اس کی وطی کے سبب نہیں اور بعدازدخول نکاح کی حرمت بایں وجہ ہے کہ وہ لڑکی اس کی ربیبہ ہے۔ (جاری ہے)
شرعی عائلی احکام کی دفعہ بندی:
قانونِ رضاعت (نویں قسط)
دفعہ۱۲۔حرمتِ رضاعت سے مستثنیٰ رشتوں کا بیان
درج ذیل رشتے رضاعت کے سبب حرام نہیں ہوں گے:
الف۔ مرد کے لیے بواسطہ مرد نو حلال رضاعی رشتے اور ان کی ستائیس صورتیں:
۱۔ نسبی بھائی کی نسبی ماں حرام ہے، کیونکہ وہ یا تو حقیقی ماں ہوگی یا والد کی منکوحہ ہوگی، مگر
- رضاعی بھائی کی نسبی ماں
- نسبی بھائی کی رضاعی ماں
- اور رضاعی بھائی کی رضاعی ماں، بشرطیکہ اس کادودھ نہ پیا ہو،حلال ہے۔
۲۔نسبی بیٹے کی نسبی بہن حرام ہے کیونکہ وہ یا تو بیٹی ہوگی یا ربیبہ ہوگی،مگر
- رضاعی بیٹے کی نسبی بہن
- نسبی بیٹے کی رضاعی بہن
- اوررضاعی بیٹے کی رضاعی بہن،حلال ہے۔
۳۔نسبی بیٹے کی نسبی جدۃ (نانی یا دادی) حرام ہے، کیونکہ دادی ہونے کی صورت میں ماں ہے اور نانی ہونے کی صورت میں ساس ہے،مگر
- رضاعی بیٹے کی نسبی جدۃ
- نسبی بیٹے کی رضاعی جدۃ
- اوررضاعی بیٹے کی رضاعی جدۃ ،حلال ہے۔
۴۔نسبی چچا کی نسبی ماں حرام ہے کیونکہ وہ یا تو دادی ہوگی یا دادا کی منکوحہ،مگر
- رضاعی چچا کی نسبی ماں
- نسبی چچا کی رضاعی ماں
- اور رضاعی چچا کی رضاعی ماں ،حلال ہے۔
۵۔نسبی ماموں کی نسبی ماں حرام ہے کیونکہ وہ یا تو نانی ہوگی یا نانا کی منکوحہ ہوگی،مگر
- رضاعی ماموں کی نسبی ماں
- نسبی ماموں کی رضاعی ماں
- اوررضاعی ماموں کی رضاعی ماں
۶۔نسبی بیٹے کی نسبی پھوپھی حرام ہے کیونکہ وہ بہن ہے،مگر
- رضاعی بیٹے کی نسبی پھوپھی
- نسبی بیٹے کی رضاعی پھوپھی
- اوررضاعی بیٹے کی رضاعی پھوپھی، حلال ہے۔
۷۔بیٹے کی نسبی پھوپھی کی نسبی بیٹی حرام ہے، کیونکہ وہ بھانجی ہے،مگر
- بیٹے کی رضاعی پھوپھی کی نسبی بیٹی
- بیٹے کی نسبی پھوپھی کی رضاعی بیٹی
- بیٹے کی رضاعی پھوپھی کی رضاعی بیٹی ،حلال ہے۔
۸۔بیٹے کی نسبی بہن کی نسبی بیٹی حرام ہے کیونکہ وہ نواسی ہوگی یا ربیبہ کی بیٹی،مگر
- بیٹے کی رضاعی بہن کی نسبی بیٹی
- بیٹے کی نسبی بہن کی رضاعی بیٹی
- اوربیٹے کی رضاعی بہن کی رضاعی بیٹی حلال ہے۔
۹۔بیٹے کی نسبی اولاد کی نسبی ماں سے نکاح حرام ہے کیونکہ وہ بہو ہوگی،مگر
- بیٹے کی رضاعی اولاد کی نسبی ماں
- بیٹے کی نسبی اولاد کی رضاعی ماں
- اوربیٹے کی رضاعی اولاد کی رضاعی ماں ،حلال ہے۔
ب۔مرد کے لیے بواسطہ عورت نوحلال رضاعی رشتے اوران کی ستائیس صورتیں:
۱۰۔نسبی بہن کی نسبی ماں حرام ہے کیونکہ وہ یا تو حقیقی ماں ہوگاوی یا والد کی منکوحہ ہوگی،مگر
- رضاعی بہن کی نسبی ماں
- نسبی بہن کی رضاعی ما ں
- اوررضاعی بہن کی وہ رضاعی ماں جس کا دودھ نہیں پیا ہے، حلال ہے۔
۱۱۔نسبی بیٹی کی نسبی بہن حرام ہے کیونکہ وہ یا تو بیٹی ہوگی یا ربیبہ ہوگی،مگر
- رضاعی بیٹی کی نسبی بہن
- نسبی بیٹی کی رضاعی بہن
- اوررضاعی بیٹی کی رضاعی بہن ،حلال ہے۔
۱۲۔نسبی بیٹی کی نسبی جدۃ (نانی یا دادی) سے حرام ہے کہ دادی ہونے کی صورت میں ماں اور نانی ہونے کی صورت میں ساس ہوگی،مگر
- رضاعی بیٹی کی نسبی جدۃ
- نسبی بیٹی کی رضاعی جدۃ
- اوررضاعی بیٹی کی رضاعی جدۃ ،حلال ہے۔
۱۳۔نسبی پھوپھی کی نسبی ماں حرام ہے کیونکہ وہ یا تو دادی ہوگی یا دادا کی منکوحہ،مگر
- رضاعی پھوپھی کی نسبی ماں
- نسبی پھوپھی کی رضاعی ماں
- اوررضاعی پھوپھی کی رضاعی ماں ،حلال ہے۔
۱۴۔نسبی خالہ کی نسبی ماں حرام ہے کیونکہ وہ یا تو نانی ہوگی یا نانا کی منکوحہ،مگر
- رضاعی خالہ کی نسبی ماں
- نسبی خالہ کی رضاعی ماں
- اوررضاعی خالہ کی رضاعی ماں ، حلال ہے۔
۱۵۔نسبی بیٹی کی نسبی پھوپھی حرام ہے کیونکہ بہن ہے،مگر
- رضاعی بیٹی کی نسبی پھوپھی
- نسبی بیٹی کی رضاعی پھوپھی
- اوررضاعی بیٹی کی رضاعی پھوپھی ،حلال ہے۔
۱۶۔بیٹی کی نسبی پھوپھی کی نسبی بیٹی سے نکاح حرام ہے کیونکہ وہ بھانجی ہے،مگر
- بیٹی کی رضاعی پھوپھی کی نسبی بیٹی
- بیٹی کی نسبی پھوپھی کی رضاعی بیٹی
- اوربیٹی کی رضاعی پھوپھی کی رضاعی بیٹی، حلال ہے۔
۱۷۔بیٹی کی نسبی بہن کی نسبی بیٹی سے نکاح حرام ہے کیونکہ وہ نواسی ہوگی یا ربیبہ کی بیٹی،مگر
- بیٹی کی رضاعی بہن کی نسبی بیٹی
- بیٹی کی نسبی بہن کی رضاعی بیٹی
- بیٹی کی رضاعی بہن کی رضاعی بیٹی ،حلال ہے۔
۱۸۔اوربیٹی کی نسبی اولاد کی نسبی ماں سے نکاح حرام ہے کیونکہ وہ بیٹی ہوگی،مگر
- بیٹی کی رضاعی اولاد کی نسبی ماں
- بیٹی کی نسبی اولاد کی رضاعی ماں
- اوربیٹی کی رضاعی اولاد کی رضاعی ماں ،حلال ہے۔
ج۔عورت کے لیے بواسطہ مرد نو حلال رضاعی رشتے اوران کی ستائیس صورتیں:
۱۹۔نسبی بھائی کانسبی باپ حرام ہے کیونکہ وہ باپ ہوگا یا ماں کا شوہر،مگر
- رضاعی بھائی کانسبی باپ
- نسبی بھائی کا رضاعی باپ
- اوررضاعی بھائی کا رضائی باپ ،حلال ہے۔
۲۰۔نسبی بیٹے کا نسبی بھائی حرام ہے کیونکہ وہ بیٹا ہوگا،مگر
- رضاعی بیٹے کا نسبی بھائی
- نسبی بیٹے کا رضاعی بھائی
- اوررضاعی بیٹے کا رضاعی بھائی ،حلال ہے۔
۲۱۔نسبی بیٹے کے نسبی جد (دادا، نانا) حرام ہے کیونکہ وہ باپ ہوگا یا سسر،مگر
- رضاعی بیٹے کا نسبی جد
- نسبی بیٹے کا رضاعی جد
- اوررضاعی بیٹے کا رضاعی جد،حلال ہے۔
۲۲۔نسبی چچا کا نسبی باپ دادا ہونے کی بناء پرحرام ہے،مگر
- رضاعی چچا کا نسبی باپ
- نسبی چچا کارضاعی باپ
- اوررضاعی چچا کا رضاعی باپ، حلال ہے۔
۲۳۔نسبی ماموں کا نسبی باپ حرام ہے کہ نانا ہے،مگر
- رضاعی ماموں کا نسبی باپ
- نسبی ماموں کارضاعی باپ
- اوررضاعی ماموں کا رضاعی باپ، حلال ہے۔
۲۴۔نسبی بیٹے کا نسبی ماموں حرام ہیکیونکہ وہ بھائی ہے،مگر
- رضاعی بیٹے کا نسبی ماموں
- نسبی بیٹے کا رضاعی ماموں
- رضاعی بیٹے کا رضاعی ماموں ،حلال ہے۔
۲۵۔بیٹے کی نسبی خالہ کا نسبی بیٹا ،حرام ہے کیونکہ بھانجا ہوگا،مگر
- بیٹے کی رضاعی خالہ کا نسبی بیٹا
- بیٹے کی نسبی خالہ کا رضاعی بیٹا
- اوربیٹے کی رضاعی خالہ کا رضاعی بیٹا، حلال ہے۔
۲۶۔بیٹے کی نسبی بہن کا نسبی بیٹا حرام ہے کیونکہ نواسا ہے،مگر
- بیٹے کی رضاعی بہن کانسبی بیٹا
- بیٹے کی نسبی بہن کارضاعی بیٹا
- اوربیٹے کی رضاعی بہن کا رضاعی بیٹا، حلال ہے۔
۲۷۔بیٹے کے نسبی بیٹے کانسبی بیٹا،پڑپوتا ہے،اورحرام ہے ،مگر
- بیٹے کے رضاعی بیٹے کا نسبی بیٹا
- بیٹے کے نسبی بیٹے کا رضاعی بیٹا
- اوربیٹے کے رضاعی بیٹے کا رضاعی بیٹا، حلال ہے۔
د۔عورت کے لیے بواسطہ عورت نو حلال رضاعی رشتیاوران کی ستائیس صورتیں:
۲۸۔نسبی بہن کا نسبی باپ،باپ ہوتا ہے یا ماں کا شوہر ،اوربہردوصورت حرام ہے،مگر
- رضاعی بہن کا نسبی باپ
- نسبی بہن کارضاعی باپ
- اوررضاعی بہن کا رضائی باپ، حلال ہے۔
۲۹۔نسبی بیٹی کانسبی بھائی،حرام ہے کیونکہ بیٹا ہے،مگر
- رضاعی بیٹی کا نسبی بھائی
- نسبی بیٹی کارضاعی بھائی
- اوررضاعی بیٹی کا رضاعی بھائی، حلال ہے۔
۳۰۔نسبی بیٹی کانسبی جد (دادا، نانا) حرام ہے کیونکہ وہ باپ ہوگا یا سسر ہوگا،مگر
- رضاعی بیٹی کا نسبی جد
- نسبی بیٹی کا رضاعی جد
- اوررضاعی بیٹی کا رضاعی جد، حلال ہے۔
۳۱۔نسبی پھوپھی کانسبی باپ ،دادا ہونے کی بناء پر حرام ہے،مگر
- رضاعی پھوپھی کا نسبی باپ
- نسبی پھوپھی کا رضاعی باپ
- اوررضاعی پھوپھی کا رضاعی باپ ،حلال ہے۔
۳۲۔نسبی خالہ کا نسبی باپ حرام ہے کیونکہ وہ نانا ہے،مگر
- رضاعی خالہ کا نسبی باپ
- نسبی خالہ کا رضاعی باپ
- اوررضاعی خالہ کا رضاعی باپ ،حلال ہے۔
۳۳۔نسبی بیٹی کا نسبی ماموں حرام ہے کیونکہ بھائی ہے،مگر
- رضاعی بیٹی کا نسبی ماموں
- نسبی بیٹی کارضاعی ماموں
- اوررضاعی بیٹی کا رضاعی ماموں، حلال ہے۔
۳۴۔بیٹی کی نسبی خالہ کا نسبی بیٹا ،بھانجا ہونے کی بناء پر حرام ہے،مگر
- بیٹی کی رضاعی خالہ کانسبی بیٹا
- بیٹی کی نسبی خالہ کا رضاعی بیٹا
- اوربیٹی کی رضاعی خالہ کا رضاعی بیٹا، حلال ہے۔
۳۵۔بیٹی کی نسبی بہن کا نسبی بیٹا، نواسا ہے اورحرام ہے،مگر
- بیٹی کی رضاعی بہن کا نسبی بیٹا
- بیٹی کی نسبی بہن کا رضاعی بیٹا
- اوربیٹی کی رضاعی بہن کا رضاعی بیٹا، حلال ہے۔
۳۶۔بیٹی کے نسبی بیٹے کا نسبی بیٹا، پر نواسا ہونے کی بناء پر حرام ہے،مگر
- بیٹی کے رضاعی بیٹے کا نسبی بیٹا
- بیٹی کے نسبی بیٹے کا رضاعی بیٹا
- اوربیٹی کے رضاعی بیٹے کا رضاعی بیٹا، حلال ہے۔
مدتِ رضاعت سے متعلق احکام
دفعہ۱۳۔رضاعت کی مدت
رضاعت کی مدت دو سال ہے۔
توضیح:اگر بچہ کا دودھ چھڑا دیا گیا ہوپھر کوئی عورت اسے مذکورہ مدت کے اندردودھ پلائے تو بھی متذکرہ عورت سے رضاعت کا رشتہ قائم ہوجائے گا۔
دفعہ۱۴۔مدت رضاعت سے کم یا زائد دودھ پلانے کا حکم
- دوسال سے کم مدت میں دودھ چھڑانا جائز ہے بشرطیکہ:
الف ۔والدین اس پر متفق ہوں۔
ب۔بچہ کے لیے ضرر کاباعث نہ ہو۔
- بچہ کی مصلحت متقاضی ہو تو دوسال سے زائد مدت بھی دودھ پلانا جائز ہے ،مگر زائد مدت چھ ماہ سے زیادہ نہ ہونی چاہیے۔
دفعہ۱۵ ۔مدتِ رضاعت کے بعد کے احکام
- مدت رضاعت کے بعد کے احکام درج ذ یل ہوں گے:
- ماں پر ازروئے دیانت بھی رضاعت کا وجوب باقی نہیں رہے گا۔
- ماں و اجرت کا استحقاق نہیں رہے گا۔
- دفعہ ۳ اور۵ کے مجموعی احکام کے پیش نظر رضاعت جائز نہ ہوگی۔
- رضاعت سے حرمت کارشتہ قائم نہ ہوگا ،اگر چہ رضاعت حرام ہوگی۔
- بچے کے باپ کو ماں پر رضاعت کے لیے جبر کا اختیار نہیں رہے گا اور نہ ہی عدالت اسے رضاعت کے لیے مجبور کرسکے گی، اگرچہ ازروئے قضا مدت رضاعت میں اس پر رضاعت واجب رہی ہو۔
- بچہ کا باپ ماں کو رضاعت سے روکنے کا مجاز ہوگا ۔علاج کی غرض سے بھی بچے کو دودھ پلانا جائز نہ ہوگا ،مگر یہ کہ:
الف۔ ماہر ، دین دار وتجربہ کار طبیب اسے علاج کی غرض سے ضروری تجویز کرے۔
ب۔ شفا کے حصول کا یقین یاظن غالب ہو۔
ج۔ دودھ کے علاوہ کوئی اور جائز متبادل نہ ہو۔ (جاری ہے)
شرعی عائلی احکام کی دفعہ بندی:
قانونِ رضاعت (دسویں قسط)
دودھ سے متعلق احکام
دفعہ۱۶۔ دودھ کی مختلف شکلیں اور ان کے احکام
دودھ کی مختلف شکلوں کے متعلق احکام درج ذیل ہوں گے:
- دودھ کی ماہیت تبدیل ہوگئی تو حرمتِ رضاعت کا تحقق نہ ہوگا۔
- دو یا زائد عورتوں کامخلوط دودھ بچہ نے پیا تو غالب اور مغلوب کا لحاظ کیے بغیر ہر ایک سے حرمت ثابت ہوگی۔
- اگر دوعورتوں کا دودھ مقدار میں برابر ہو تو بالاتفاق دونوں سے حرمت ثابت ہوگی۔
- اگر دودھ کو کسی جامد غذائی جنس کے ساتھ ملاکر پلایا گیا تو حرمت ثابت نہ ہوگی، خواہ دودھ کو پکایا گیا ہو، نہ پکا یا گیا ہو اور دودھ کی مقدار کم ہو یا زیادہ۔
- اگر دودھ کسی دوسری عورت کے دودھ کے علاوہ کسی مائع چیز کے ساتھ ملاکر پلایا گیا تو غالب کا اعتبار ہوگا۔
دفعہ۱۷۔حرمتِ رضاعت کے ثبوت کے لیے دودھ کی مقدار
حرمتِ رضاعت اتنی مقدار دودھ پینے سے ثابت ہوجائے گی جس مقدار کا حلق سے اُتر کر پیٹ میں پہنچنا یقینی ہو۔
رضاعت بحیثیت حق
دفعہ۱۸۔رضاعت نومولود کا بنیادی حق
رضاعت نومولود کا بنیادی حق ہے۔
دفعہ۱۹۔مدتِ رضاعت کی تکمیل
کوئی معقول عذر مانع نہ ہو تو بچہ کا حق ہے کہ اسے کامل دوسال دودھ پلایا جائے۔
دفعہ۲۰۔ ماں کا حقِ رضاعت سب سے فائق ہے
رضاعت کا اولین حق ماں کو ہے، خواہ وہ بچے کے باپ کی زوجیت میں ہو، یا عدت گزار رہی ہو، یا عدت گزارنے کے بعداجنبیہ بن چکی ہو، اگر عدت میں ہو تو عدت طلاق کی ہو یا وفات کی ،اگر طلاق کی ہو تو طلاقِ رجعی ہو یا بائن ،اگر بائن ہو توبینونتِ صغریٰ ہو یا کبریٰ ،مسلمہ ہو یا غیر، دارالاسلام میں ہو یا دارالحرب میں ، آیسہ ہو یا ثیبہ، مگر شرط یہ ہے کہ:
الف۔رضاعت میں رغبت اوراس پرقدرت رکھتی ہو۔
ب۔بلامعاوضہ رضاعت پر رضامند ہو۔
ج۔اگر رضاعت پر اُجرت طلب کرتی ہو تو اجنبی عورت سے زیادہ معاوضہ کا تقاضا نہ کرتی ہو۔
د۔ماں کا دودھ رضیع کے لیے مضر نہ ہو۔
دفعہ۲۱ ۔رضاکار عورت کا حق کب مقدم ہے ؟
ماں رضاکارانہ رضاعت پر یا اجنبیہ سے کم اُجرت پر آمادہ ہو تو اس کاحقِ رضاعت بالاتفاق مقدم ہے، لیکن اگر ماں اُجرت طلب کرتی ہواور کوئی عورت رضاکارانہ رضاعت پر آمادہ ہویاماں سے کم اُجرت مانگتی ہوتوحنابلہ اور مالکیہ کے نزدیک ماں اُجرتِ مثل پر اجنبیہ سے مقدم ہے اور حنفیہ وشافعیہ کے نزدیک اجنبیہ مقدم ہے۔
رضاعت بحیثیت ذمہ داری
دفعہ۲۲۔ماں پر دودھ پلانا کب لازم ہے؟
ماں پر از روئے قضا دودھ پلانا لازم نہیں، مگر جب:
۱۔ ماں کے علاوہ کوئی اورمرضعہ نہ ہویا ہو مگر رضاعت پرآمادہ نہ ہو۔
۲۔مرضعہ رضاعت پر آمادہ ہو، مگر بچہ اس کا دودھ نہ پیتا ہو۔
۳۔بچہ دودھ پیتا ہو،مگر مرضعہ اُجرت طلب کرتی ہواور بچہ اور اس کا والد مفلس ہوں۔
توضیح: ماں پر رضاعت کا وجوبِ استحقاق اُجرت کے منافی نہیں۔
دفعہ۲۳۔جن صورتوں میں ماں پر رضاعت کا وجوب نہیں
۱۔ماں کا دودھ ہی نہ ہو۔
۲۔دودھ ہو مگر قلیل کالمعدوم ہو۔
۳۔رضاعت خود ماں کے لیے بوجہ مرض یا ضعف ‘مضرت کا باعث ہویا ماں کسی اورمعقول وجہ سے رضاعت سے معذور ہو۔
۴۔بچہ ماں کا دودھ پیتا نہ ہو۔
۵۔ماں کا دودھ بچے کے لیے ضرر کا باعث ہو۔
۶۔ماں کا دودھ بچے کو موافق نہ آتا ہو ۔
۷۔کوئی دوسری عورت رضاعت پر آمادہ ہو اور بچہ بھی اس کا دودھ پیتا ہو۔
۸۔دوسری عورت اُجرت طلب کرتی ہومگربچہ کے پاس مال ہویا بچہ فقیر ہو مگر باپ اَنَّا کے اخراجات اٹھا سکتاہو۔
۹۔ ماں کو بالجبر حقِ رضاعت سے محروم کردیا گیا ہو۔
۱۰۔بچہ کی مدتِ رضاعت گزرچکی ہو۔
دفعہ۲۴۔یتیم کے لیے رضاعت کا انتظام کس کی ذمہ داری ہے؟
یتیم کے لیے رضاعت کا انتظام اس شخص یا اشخاص پر ہے جو اس کے جائز وارث اور محرم ہوں۔
توضیح: یتیم کے نان ونفقہ کی ذمہ داری بھی دفعہ بالامیں مذکور اشخاص پر عائد ہوگی۔
توضیح: ایک سے زائد محرم ورثا ء ہونے کی صورت میں ہر ایک پراپنے حصۂ وراثت کے بقدر رضاعت کے اخراجات کی ذمہ داری عائد ہوگی۔
اُجرت کے احکام
دفعہ۲۵۔ ماں کب اُجرت کی مستحق نہیں؟
- ماں اپنے بچے کو دودھ پلانے پر اُجرت کی مستحق نہیں ،اگر:
بچے کے باپ کے نکاح میں ہو
یا طلاقِ رجعی کی عدت میں ہو
- ماں اپنے بچے کو دودھ پلانے پر اُجرت کی مستحق ہوگی،اگر:
طلاقِ بائن کی عدت میں ہو، یاعدتِ وفات میں ہو،یاعدت گزار چکی ہو، خواہ عدت طلاقِ رجعی کی ہو،طلاقِ بائن کی ہویاوفات کی ہو۔
توضیح: طلاقِ بائن کی صورت میں بینونتِ صغریٰ وکبریٰ کا حکم یکساں ہے۔
استثناء: بیوی اپنے شوہر کے بچے کو دودھ پلانے پر اُجرت طلب کرنے کا حق رکھتی ہے، اگرچہ شوہر کی منکوحہ یا معتدہ ہو۔
دفعہ۲۶۔ ماں کب بلامعاہدہ رضاعت پر اُجرت کی مستحق ہے
جن صورتوں میں ماں کو اُجرت کا استحقاق رہتا ہے، ان صورتوں میں ماں بوجہ رضاعت اُجرت کی مستحق ہوگی، اگرچہ رضیع کے ولی یا وصی سے اُجرت کا کوئی معاہدہ نہ ہوا ہو،اور درصورتِ تنازع عدالت ماں کے حق میں اُجرتِ مثل کی ڈگری جاری کرے گی، اگر اُجرت پہلے سے طے شدہ نہ ہو۔
شرط۱۔ مگر لازم ہوگا کہ اُجرت کے معاملے میں رضاعت کی مدت صرف دوسال ہوگی۔
شرط۲۔ مزید شرط ہوگا کہ اُجرت کا استحاق تاریخِ رضاعت سے ہوگا۔
دفعہ۲۷۔ اُجرت کا حکم
اُجرتِ رضاعت مثلِ دَین‘ ادائیگی یا معافی سے ہی معاف ہوسکتی ہے۔ بنا برایں:
اگر مستحق کو اُجرت وصول نہ ہواور اس نے اپنا حق معاف بھی نہ کیا ہو اور ادائیگی سے قبل مدیون کا انتقال ہوجائے تو اُجرت بحکمِ دَین متوفی مدیون کے مال سے تقسیمِ ترکہ سے قبل منہا کی جائے گی اور اگر دائن کا انتقال ہوجائے تو دَین اس کا ترکہ شمار ہوگا جو حسبِ حصصِ شرعی اس کے ورثاء میں تقسیم ہوگا۔
اجرت بچے یا اس کے والد کے متروکہ مال سے وضع کی جائے گی، اگر بچہ یا اس کا باپ ادائیگی سے قبل وفات کرجائے اور اُجرت دودھ پلانے والی کا ترکہ شمار ہوگی، اگر وہ وصولی سے قبل انتقال کرجائے۔
دفعہ۲۸۔ اُجرتِ رضاعت کس کے ذمہ لازم ہے؟
الف۔ رضاعت کی اجرت بچہ کے مال میں سے محسوب ہوگی۔
ب۔اگر بچہ کا مال نہ ہوتو باپ پر ادائیگی لازم ہوگی۔
ج۔اگر باپ نہ ہو تو جس پر نفقہ کا وجوب ہو اس پر لازم ہوگی۔
توضیح: اُجرت کی مقدار کے سلسلے میں باہمی قراداد کے مطابق عمل درآمدہوگا اور کسی مقدار پر عدمِ اتفاق کی صورت میں اُجرتِ مثل لازم ہوگی جس کی تعیین عدالت کے سپرد ہوگی۔
دفعہ۲۹۔ اُجرت پر مصالحت کا حکم
اُجرت پر مصالحت جائز ہے، بشرطیکہ دفعہ کے تحت ماں اُجرت کی مستحق ٹھہرتی ہو۔
اَنَّا سے متعلق احکام
دفعہ۳۰۔ باپ پر اَنَّا کا انتظام کب لازم ہوگا؟
دفعہ کے احکام کے تابع جب ماں پرازروئے شرع رضاعت لازم نہ ہو اور وہ رضاعت پر رضامند بھی نہ ہو تو بچے کے باپ پر لازم ہے کہ بچے کے لیے اَنَّا کاانتظام کرے۔
دفعہ۳۱۔ ماں کے سوا دوسری عورت کا دودھ پلوانے کا حکم
باپ اگر کسی معقول مصلحت کے تحت ماں کے علاوہ کسی اور عورت سے اپنے بچے کو دودھ پلوانا چاہے تو اس کا مجاز ہے۔
دفعہ۳۲۔ اَنَّا کو مدتِ اجارہ ختم ہونے کے بعد اجارہ جاری رکھنے پر مجبور کرنا
اَنَّا کو مدتِ اجارہ کے اختتام کے بعد بھی رضاعت پر مجبور کیا جائے گا ،اگر بچہ کسی اور عورت کا دودھ نہ پیتا ہو،البتہ وہ ماں کے پاس بچہ کو دودھ پلانے کی پابند نہ ہوگی، اگر اجارہ میں اس طرح کی شرط عائد نہ کی گئی ہو۔
دفعہ۳۳ ۔ مقامِ رضاعت
مرضعہ مقامِ حضانت پر رضاعت کی پابند ہوگی، مگر وہاںسکونت کی پابند نہ ہوگی، الایہ کہ معاہدۂ رضاعت میں شرط ٹھہرا یا گیا ہو اور درصورتِ اختلاف کسی معاہدہ کی عدم موجودگی میں مقامِ رضاعت کے سلسلے میں حسبِ عرف ورواج عمل درآمد ہوگا۔ (جاری ہے)
شرعی عائلی احکام کی دفعہ بندی:
قانونِ رضاعت (گیارہویں قسط)
ثبوتِ رضاعت
دفعہ۳۴ ۔ثبوتِ رضاعت بذریعہ شہادت:
رضاعت کاثبوت دو مردوں یا ایک مرد اور دوعورتوں کی شہادت سے ہوگا، اگرچہ کوئی ایک عورت خود مرضعہ ہی کیوں نہ ہو، مگر شرط ہوگا کہ گواہ عادل ہوں ، عاقل ہوں، بالغ ہوں، آزاد ہوں۔
درج بالا معیارِ شہادت کے مطابق ثبوتِ رضاعت ہونے کے بعد احکام درج ذیل ہوں گے:
۱۔بحکم نکاحِ فاسد، زوجین میں متارکت یا تفریق لازم ہوگی۔
۲۔ بیوی مہر کی مستحق نہ ہوگی، اگر وہ غیر مدخولہ ہو۔
۳۔ مہرِ مثل اور مقررہ مہر میں سے کم تر کی مستحق ہوگی، اگر مدخولہ ہو۔
بہر دوصورت شوہر پر عدت کا خرچہ اور رہائش فراہم کرنا لازم نہ ہوگا۔
توضیح۱۔ درصورتِ متارکت اگر زوجہ غیرمدخولہ ہے تو صرف علیحدگی کافی ہے اور زبان سے کہہ دینا لازم ہے اگر وہ مدخولہ ہے۔
توضیح۲۔ اگر عدالت نے فقط مرضعہ کی شہادت پر زوجین میں تفریق کا فیصلہ جاری کردیا تو کالعدم قرار پائے گا۔
توضیح۳۔ درج بالا نصابِ شہادت اگر زوجہ کے پاس گزرے تواسے شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہ ہوگا۔
درج بالانصابِ شہادت مکمل نہ ہونے کی صورت میں ثبوتِ رضاعت نہ ہوگا، خواہ گواہ ثقہ ہوں یا غیر ثقہ، رضاعت طاری ہو یا نہ ہو، شہادت قبل العقد ہو یا بعد العقد ہو، گواہ صرف مرد یا صرف عورتیں ہوں یا مخلوط ہوں، مگر از روئے احتیاط افضل یہ ہوگا کہ زوجین مفارقت اختیار کرلیں اور اگر زوجین میں یکجائی نہ ہوئی ہو تو شوہر کے لیے افضل یہ ہے کہ نصف مہر ادا کرے اوریکجائی ہوچکی ہو تو پورا مہر ادا کرے اورعد ت کا خرچ اور رہائش بھی فراہم کرے اور زوجہ کے لیے افضل یہ ہے کہ عدمِ یکجائی کی صورت میں کچھ مہر نہ لے اور بصورتِ یکجائی مہرِمثل اور مقررہ مہر میں سے اقل ترین وصول کرے اور نفقہ وسکنیٰ قبول نہ کرے۔
دفعہ۳۵۔اقرار سے ثبوتِ رضاعت
- جو کوئی مرد کسی عورت کے متعلق نکاح سے قبل یا بعد رشتۂ رضاعت کا اقرار کرے اور پھر اس سے رجوع کرے تو رجوع درست ہے۔ اگر اقرار پر اصرار کرے اور پھر رجوع کرے تو رجوع درست نہ ہوگا اور:
(الف) اسے متذکرہ عورت سے نکاح سے روک دیا جائے گا، اگر نکاح نہیں ہوا ہے۔
(ب)اگر نکاح ہوچکا ہے تو اس پر متارکت واجب ہوگی، خواہ بیوی تصدیق کرے یا تکذیب، البتہ بصورتِ تکذیب اگر بیوی مدخولہ نہیں تو شوہر پر نصف مہر واجب ہوگا اور اگر مدخولہ ہے تو کل مہر اور عدت کا نفقہ اور سکنیٰ فراہم کرنا لازم ہوگا۔
(ج) اگر بیوی تصدیق کرے تو اگر غیر مدخولہ ہے تو مہر کی مستحق نہیں اور اگر مدخولہ ہے تو کل مہر کی مستحق ہے، البتہ عدت کاخرچ پانے کی مستحق نہیں۔
- گر کوئی عورت کسی مرد کے متعلق رشتۂ رضاعت کا اقرار کرے تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا، خواہ:
اقرارِ نکاح سے پہلے ہو یا بعد میں ہو۔
عورت اقرار پر اصرار کرے یا نہ کرے، البتہ اگر شوہر تصدیق کرے تو اس پر متارکت واجب ہوگی، بصورتِ دیگر قاضی تفریق کردے گا۔
- جو کوئی مرد وعورت نکاح سے قبل یا بعد باہم رشتۂ رضاعت کا اقرار کریں اور پھر اس سے رجوع کریں تو درست ہے اور باہم نکاح جائز ہے، تاہم اگر مرد اقرار پر اصرار کرے تو اسے متذکرہ عورت سے نکاح سے روک دیا جائے اور اگر نکاح ہوچکا ہے تو متارکت یا تفریق واجب ہوگی۔
توضیح: اقرار کا مطلب یہ ہے کہ مرد یوں کہے کہ میری بیوی میری رضاعی بیٹی یارضاعی ماں بہن ہے۔
اصرار کا مطلب اقرار کا تکرار نہیں، بلکہ اس طرح کے کلمات ہیں کہ یہ بات ٹھیک ہے، سچ ہے، صحیح ہے، حق وہی ہے جو میں نے کہہ دیا، یا اس سے ہم معنی کوئی اور کلمات کہے۔
اقرار سے رجوع یہ ہے کہ مجھے وہم ہوگیا، مجھ سے غلطی ہوئی، مجھ سے خطا ہوئی ، میں بھول گیا، میں نے جھوٹ بولا۔
دفعہ۳۶۔ زوجین کا ثبوتِ رضاعت کی تصدیق یا تکذیب کرنا:
اگر کوئی عورت مدعیہ ہو کہ اس نے زوجین کو دودھ پلایا ہے تو زوجین:
- تصدیق کریں گے، یا
- تکذیب کریں گے، یا
- صرف شوہر تصدیق کرے گا، یا
- صرف زوجہ تصدیق کرے گی۔
پہلی اور تیسری صورت میں بوجہ فسادِ نکاح زوجین پر متارکت یا تفریق واجب ہوگی۔
دوسری صورت میں ازروئے قضا نکاح برقرار رہے گا، تاہم خبر کے صدق کا احتمال غالب ہو تو علیحدگی افضل ہے۔ مؤخر الذکر صورت میں بھی نکاح قائم رہے گا، مگر زوجہ اپنے زوج سے حلف لے سکے گی۔
رضاعتِ طاری
دفعہ۳۷۔ رضاعتِ طاری کاحکم:
ایک شخص کی بڑی بیوی نے اپنی سوکن کو مدتِ رضاعت میں دودھ پلادیا تواحکام درج ذیل ہوں گے:
- دونوں بیویاں اپنے شوہر پر حرام ہوجائیں گی۔
- بڑی بیوی کی حرمت دائمی ہوگی۔
- اگر بڑی بیوی مدخولہ ہو تو پورے مہر کی مستحق ہوگی۔
- اگربڑی بیوی مدخولہ نہ ہوتواگر:
الف: اس نے اپنی رضا واختیار سے دودھ پلایا ہو تو مہر کی مستحق نہ ہوگی۔
ب:اگر بڑی نے اپنی رضا واختیار سے دودھ نہیں پلایا، بلکہ اس پر جبر کیا گیا تھا، یاوہ مجنونہ اور مخبوط الحواس تھی یاحالتِ نیند میں چھوٹی نے اس کا دودھ پیا یاکسی نے بڑی کا دودھ لے کر بڑی کی ترغیب وتحریض کے بغیرچھوٹی کو پلادیا تو بڑی بیوی نصف مہر کی مستحق ہوگی۔
- چھوٹی بیوی ہمیشہ کے لیے شوہر پر حرام ہوگی ، اگر بڑی بیوی کا دودھ شوہر سے ہو۔
- اگر دودھ کسی اور شخص سے ہو، مگر شوہر بڑی بیوی سے دخول کرچکا ہو توبھی چھوٹی بیوی ہمیشہ کے لیے شوہر پر حرام ہوگی۔
- اگر بڑی بیوی مدخولہ نہ ہو تو:
الف۔ شوہر کو چھوٹی بیوی سے دوبارہ نکاح جائز ہوگا۔
ب۔ چھوٹی بیوی بہرصورت نصف مہر کی مستحق ہوگی، خواہ بڑی بیوی مدخولہ ہو یا نہ ہو۔
- شوہر چھوٹی بیوی کو دئیے ہوئے مہر کا تاوان بڑی بیوی سے وصول کرنے کا مجاز ہوگا بشرطیکہ :
الف:بڑی بیوی عاقلہ ہو۔
ب۔اس نے اپنے اختیار سے دودھ پلایا ہو۔
ج۔ اس نے بدنیتی سے، یعنی نکاح فاسد کرنے کی نیت سے اپنی سوکن کو دودھ پلایا ہو۔
د۔ اس نے بیداری کی حالت میں دودھ پلایا ہو۔
ھ ۔اسے معلوم ہو کہ رضیعہ اس کی سوکن ہے اور دودھ پلانے سے نکاح فاسد ہوجاتا ہے۔
و۔ سوکن کی بھوک مٹانے یا جان بچانے کی نیت سے دودھ نہ پلایا ہو۔
دفعہ۳۸۔کوئی عورت کسی کی بیویوں کو دودھ پلادے:
کسی اجنبی عورت نے کسی شخص کی دو بیویوں کو ایک وقت یا مختلف اوقات میں دودھ پلایا تو دونوں شوہر پر حرام ہوجائیں گی، مگر بعد از متارکت کسی ایک سے دوبارہ نکاح جائز ہوگا۔
عمومی احکام
دفعہ۳۹۔ بلا اجازتِ شوہر اپنے بچوں کو دودھ پلانا:
بیوی اپنے موجودہ شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے اس بچہ یا بچوں کو دودھ پلاسکتی ہے جو موجودہ شوہر سے متولد نہیں۔
توضیح: بیوی کی اولاد خواہ ایک شوہر سے ہو یا ایک سے زائد سے ہوں۔
دفعہ۴۰ ۔ بیوی کا کسی دوسرے کے بچے کو دودھ پلانا:
- اگر بیوی نے نکاح سے قبل کسی بچے کو دودھ پلانے کا معاہدہ کیا ہے تو شوہر معاہدہ ختم کرنے یا بیوی کو معاہدے کی تعمیل سے روکنے کا مجاز نہیں۔
- اگر بیوی نے بحالتِ ازدواج برضائے شوہر دودھ پلانے کا معاہدہ کیا ہے تو بھی معاہدے کی پاسداری لازم ہے۔
- اگر بعد از نکاح بلااجازتِ شوہر معاہدہ کیا ہے تو معاہدہ درست نہیں اور شوہر کو فسخِ معاہدہ کا حق حاصل ہے۔
دفعہ۴۱۔ بیوی کا دودھ پینا حرام مگر باعثِ حرمت نہیں:
بیوی کا دودھ پینا ازروئے شرع حرام ہے، تاہم نکاح میں جب کہ شوہر مدتِ رضاعت میں نہ ہو، کسی خلل یا فساد کا باعث نہ ہے۔
دفعہ۴۲۔ بچوں کو فاسقہ یا بے وقوف عورتوں کا دودھ پلانا:
بچے کو غیر مسلمہ یا فاسقہ وفاجرہ یا بیوقوف عورت کا دودھ پلانا مکروہ ہے، تاہم اس سے حرمتِ رضاعت ثابت ہوگی۔
دفعہ۴۳۔ مصنوعی سبب سے اُترنے والے دودھ کا حکم :
دودھ اگر ولادت کے سبب نہ ہو، بلکہ مصنوعی سبب مثلاً: دوا ، انجکشن وغیرہ کے سبب سے اُترآیا ہو توصرف اسی عورت سے حرمتِ رضاعت کے قیام کا باعث ہوگا۔
دفعہ۴۴۔ خون سے حرمتِ رضاعت ثابت نہ ہوگی:
رضاعت کی مدت میں بچے کوکسی عورت کا خون دینے سے اس عورت کے ساتھ رضاعت کا رشتہ ثابت نہ ہوگا۔
دفعہ۴۵۔ دودھ کو مصنوعی طریقے سے بدل دینے کا حکم:
عورت کا دودھ اگر دہی یا کریم یاپنیر وغیرہ بناکر بچہ کو کھلادیا جائے تو رضاعت ثابت نہ ہوگی۔
دفعہ۴۷۔ دودھ بینک کا قیام:
دودھ بینک کا قیام ازروئے شرع ناجائز ہے۔ (جاری ہے)