26
Muharram

مجوزہ ،بچوں کے نکاح کا قانون

 

مجوزہ ،بچوں کے نکاح کا قانون

 

فہرست

 

دفعہ 1۔تعریفات  : 2

دفعہ2۔ولایت  کی تعریف : 6

دفعہ 3۔ولی  کی تعریف : 6

دفعہ 4۔ولی کی شرائط: 6

دفعہ5۔ولایت کے اسباب: 6

دفعہ 6۔زیر ولایت افرادجو کسی دوسرے کے ولی بھی نہیں ہوسکتے: 7

دفعہ 7۔بقا،عود اور زوال ولایت: 7

دفعہ8۔عصبہ کا حق ولایت اور ان میں ترتیب: 8

دفعہ9۔عصبہ کے علاوہ دیگر  رشتہ داروں کا حق ولایت: 9

دفعہ 10 ۔قرابت داروں کے بعد قاضی کا حق ولایت : 10

دفعہ 11۔علماء اور جماعت مسلمین کا حق ولایت: 11

دفعہ 12۔باپ دادا کا کیا ہوا نکاح: 11

دفعہ 13۔باپ دادا کے علاوہ اولیاء کا نکاح کب لازم ہے: 11

دفعہ14۔قاضی کو نکاح کی ولایت کب حاصل ہے: 11

دفعہ15۔تعدد کی صورت میں ولی کون ہے : 12

دفعہ16۔اولیاء  کے تصرفات کا حکم : 12

دفعہ17 ۔ولی اقرب کا نکاح سے گریز: 12

دفعہ 18۔ولی کی رضامندی کب ثابت ہوگی : 13

 

 

 

دفعہ 19 ۔ولی اقرب  کی غیر موجودگی میں ولی ابعد کا نابالغ کو نکاح میں دینا : 13

دفعہ20 ۔ولی کا صغیرہ کے نکاح کا اقرار: 13

دفعہ20۔ولی کا اپنے ولایت سے کیے ہوئے نکاح سے انکار: 14

دفعہ 21۔غیر مکلف کی ایک سے زائد شادیاں : 14

دفعہ 22۔صغیر کا نکاح میں بھی کفاء ت کا اعتبار ہے: 14

دفعہ22۔متذکرۃ الذیل  افراد کو نکاح نابالغان کا اختیار نہیں : 14

حصہ ثانی:. 16

زیر ولایت  اشخاص کے تصرفات کا حکم. 16

دفعہ23۔نابالغ کا نکاح کب باطل ہے: 16

دفعہ 24۔عقد جس کی اجازت  نہ ہو یا اجازت دینے والا کوئی نہ ہو: 16

دفعہ  25۔نابالغ کا نکاح کب  قابل نفاذہے: 16

دفعہ26۔بلوغت اور عدم بلوغت میں اختلاف کا حکم: 17

دفعہ28 ۔رخصتی کابیان: 17

دفعہ29۔عقد کے وقت  ولایت نہ ہو مگر اجازت کے وقت کے حاصل ہوجائے: 17

 

 

 

 

 

 

 

 

دفعہ 1۔تعریفات  :

قانون ہذا میں درج ذیل الفاظ سےوہ معانی مراد ہوں گے،ذیل میں جن کی تصریح گئی ہے مگر یہ کہ کسی جگہ برعکس معنی کی تصریح ہویاسیاق وسباق عبارت اس سے مخالف ہو ۔

1 ۔ولی اقرب :    وہ شخص کو جس شرعا ولایت حاصل ہو اور کوئی اس سے زیادہ زیر ولایت کے قریب نہ ہو،اگر کوئی اور ہو تو اس کے مساوی یا اس سے بعید ہو۔

2 ۔ولی ابعد :     اقرب کے متصل وہ ولی جس سے قریب یا تو کوئی ولی نہ ہو یا ہو تو اس کے مساوی یا اس سے بعید ہو،مثلا باپ غائب ہو اوردادا،بھائی اور چچا موجود ہوں تو  ولایت جد کو ہے ،جد نہ ہو توبھائیوں کو ہے اور پھر چچا کوہے۔

3 ۔مجنون :                پاگل مراد ہے۔

4 ۔جنون مطبق :       مسلسل اور مستقل جنون جو مفتی بہ قول کے مطابق ایک ماہ تک مسلسل ہو۔جنون اگر زمانہ صغر سے ہی  لاحق ہو اور بلوغ کےبعد بھی قائم  ہو تو زیر  ولایت پر ولی کی ولایت برقراررہتی ہے اور اگر بلوغت کے بعد طاری ہوا ہو تو ولی کی ولایت اس پر لوٹ آتی ہے ۔

5 ۔جنون غیر مطبق : جو ایک ماہ تک مسلسل نہ ہو۔جنون غیر مطبق کی صورت میں  مجنون کسی دوسرے کے زیر ولایت نہیں رہے گا اور اس کے حالت افاقہ کے تصرفات نافذ ہوں گے اور حالت جنون میں اگر اس کے منفعت  یا دفع مضرت کے لیے ضرورت لاحق ہوئی تو  ولی کو اس پر ولایت حاصل ہوجا ئے گی۔

6 ۔معتوہ  :        جس کی گفتگو الجھی ،کام اور اقدام غیر معقول اورسمجھ کم ہو مگر مجنون کی طرح مارتا اور گالیاں نہ بکتا ہو۔

 7 ۔جد :   جد سے مراد جد صحیح ہے جس سے رشتے میں مونث کا واسطہ نہ آتا ہو۔

8 ۔کفو :   جس لڑکے سے نکاح مطلوب ہو اس کے نسب یاکردار یا پیشہ میں لڑکی کی خاندان بہ نسبت کوئی ایسا عیب یا نقص نہ ہو جس کے سبب لڑکی کے اولیاء کو ننگ وعار لاحق ہو،نہ ہی وہ ایسا محتاج ہو کہ اگر لڑکی بالفعل قابل جماع ہو تو نفقہ پر قادر نہ ہو یا کسی قدر مہر  کی ادائیگی اگر ازروئے عرف یا حسب شرط معجل ہو تو اس کی ادائیگی پر قدرت نہ رکھتا ہو۔

9 ۔غبن فاحش :         مہر میں اتنی کمی یا زیادتی جو عام طور پر گوارہ نہ کی جاتی ہو مثلا صغیرہ  کا مہر پچاس ہزار باندھا جائے جب کہ اس کا مہر مثل ایک لاکھ ہو یا صغیر کی زوجہ کے لیے ایک لاکھ مہر مقرر کیا جائے جب کہ زوجہ کا مہر مثل پچاس ہزار ہو۔ایک دوسرےقول کے مطابق مہر میں دسواں حصہ کمی وبیشی غبن فاحش ہے۔

صغیرہ کی طرح صغیر کا بھی کفو میں رشتہ ضروری ہے۔

 

 

 

 

 

 

10 ۔مہر مثل :   عورت کے پدری رشتہ دار عورتوں کا عام طور پر جتنا مہر رائج ہو ،مہرمثل کہلاتا ہے۔

11 ۔معروف بسوئے اختیار :         باپ اور دادا کے لیے اس اصطلاح کا استعمال ہوتا ہے  یعنی وہ   ولایت کے غلط استعمال  میں مشہور ہوں۔باپ یا دادا سوء اختیار میں معروف اس وقت کہلا ئے گا جب وہ اپنے زیر ولایت کا نکاح مہر مثل  میں غبن فاحش کے ساتھ کردے یا غیر کفو  میں کردے اور اس سے پہلے بھی  وہ   اپنے کسی زیر ولایت کے متعلق اس قسم کا خلاف شفقت پدری ،فعل برت چکا ہو،اگر پہلا نکاح خلاف شفقت پدری ہو اور اس سے پہلے وہ کسی غیر مکلف  کا نکاح اس کے صریح مفاد کے خلاف نہ کرچکا ہو تو  وہ اختیار کے غلط استعمال میں معروف نہ کہلائے گا۔

12 ۔فسق: فسق زوال ولایت کا باعث نہیں  مگر جب اس قدر ہو کہ فاسق کو اپنی   عزت وآبرو کی پروا نہ ہو تو نکاح کے نفاذ کے لیے شر ط ہوگا کہ مہر مثل کی رعایت کے ساتھ اور کفو میں ہو،اسی کو کتب فقہ میں یوں تعبیر کیا گیا ہے کہ باپ دادا معروف بسوء الاختیار نہ ہوں۔

13 ۔فاسق متہتک :    جسے اپنی عزت وآبرو کی پروا نہ ہو۔ رجل منهتك ومتهتك ومستهتك لا يبالي أن يهتك ستره،شامی اول کتاب الولی

14 ۔ماجن  :      جسے اپنے کیے اور لوگوں کے کہے کی پرواہ نہ ہو:

15 ۔غیبت منقطعہ :

 غیبت کی تفسیر میں فقہ حنفی میں مختلف اقوال ملتے ہیں:

1 ۔     ولی مدت قصر کی مسافت  پر ہو۔

2 ۔     ولی جہاں ہو وہاں سال بھر میں ایک مرتبہ قافلہ جاتا ہو۔

3 ۔     ولی  ایک ماہ کی مسافت کے بقدر دور ہو۔

4 ۔     ولی مفقود الخبر ہو ۔

5 ۔     ولی بیس منزل دور ہو۔

6 ۔     ولی پچیس منزل دور ہو۔

7۔      ولی کے رائے حاصل کرنے میں دشواری  ہو۔

16 ۔غیبت غیر منقطعہ :

جو غیبت منقطعہ نہ ہو۔

17 ۔عصبہ :۔ جس  کا غیر مکلف سے  بلاواسطہ مونث رشتہ ہو،یا جس کو ذوی الفروض کے ساتھ ان کا بقیہ اور اکیلے ہو تو کل مال ملتا ہے۔

دفعہ2۔ولایت  کی تعریف :

شرعی قدرت ،جس کی بدولت دوسرے پر تصرف کے نفاذ کی قدرت حاصل ہو۔

 

 

 

 

 

 

دفعہ 3۔ولی  کی تعریف :

وہ شخص جو اپنے زیر ولایت کا نکاح اپنی مرضی سے کرسکتا ہو۔

دفعہ 4۔ولی کی شرائط:

ولی  ،خواہ مرد ہو یاعورت،اس کا آزاد ،عاقل،بالغ ہونا شرط ہے۔اگر زیر ولایت مسلم ہوتو ولی کا مسلمان ہونا بھی شرط ہے ،مگر یہ کہ:

الف :  ولی آقا ہو اور زیر ولایت اس کاغلام یا باندی

ب  :   ولی قاضی  ہو یا اس کامجاز نمائندہ ہو۔

توضیح:  مرتد کسی کا ولی نہیں ہوسکتا۔

تشریح

ولایت کے لیے اتحاد دینی شرط ہے بنابرایں:

کافر  دوسرے کافروں کا ولی ہوسکتا ہے مگر مسلمان کا نہیں

مسلمان بھی سوائے درج بالامستثنیات کے کسی کافر کا ولی نہیں ہوسکتا البتہ کافر کواپنے ہم مذہبوں پر ولایت حاصل ہے۔

دفعہ5۔ولایت کے اسباب:

ولایت کے اسباب چار ہیں:

1۔قرابت

2۔ولاء

3۔امامت

4۔ملک

دفعہ 6۔زیر ولایت افرادجو کسی دوسرے کے ولی بھی نہیں ہوسکتے:

الف ۔ نابالغ خواہ :

لڑکا ہویا لڑکی

سمجھ دار ہویا ناسمجھ

لڑکی ہو تو کنواری ہو یاغیر کنواری

غیر کنواری ہو تونکاح سے قبل  کنوارہ  پن زائل ہوچکا ہو یا نکاح کے بعد بوجہ دخول کنواری نہ رہی ہو۔

 

 

 

 

 

 

ب ۔    مجنون،خواہ مذکر ہویا مؤنث،بالغ  ہو یا نابالغ،جنون اصلی ہو یا طاری ،اگر طاری ہو تو ایک ماہ تک مسلسل رہا ہو۔

ج ۔     معتوہ،خواہ مذکر ہو یا مؤنث،بالغ ہو یا نابالغ

تشریح

 درج افراد کا قدر مشترک  غیر مکلف ہونا ہے ۔ غیرمکلف اشخاص خود زیرولایت رہتےہیں اس لیے کسی دوسرے کے ولی نہیں ہوسکتے۔علاوہ ازیں ولایت کی علت حصول مصلحت اور دفع مضرت ہے اور متذکرۃ افراد سے ان مقاصد شرع کا حصول ناممکن ہے۔

دفعہ 7۔بقا،عود اور زوال ولایت:

ولی کی ولایت زائل ہوجائے گی،اگر

۱لف۔نابالغ بالغ ہوجائے ،یا

ب۔مجنون یا معتوہ کو افاقہ ہوجائے،یا

ج۔ولی خود جنون کا شکار ہوجائے ،اگر جنون مطبق نہ ہوصرف حالت جنون کے وقت ولایت زائل ہوگی۔

(۲)اگر باپ مجنون یا معتوہ ہوجائے توبیٹے کواس پر ولایت نفس نہ کہ ولایت حاصل ہوگی۔

(۳) الف۔ولایت لوٹ آئے گی،اگر بیٹابلوغت کے بعدمجنون ہوجائے۔

ب۔ ولی  غیبت منقطعہ کے ساتھ غائب ہو اور پھر لوٹ آئے تو اس کی ولایت بحال اورولی بعید کی زائل ہوجائے گی،مگر ولی بعید کے تصرفات  نافذ قرار پائیں گے۔

  1. نابالغ بالغ  ہوجائے یا
  2. مجنون کوافاقہ ہوجائے اور وہ نابالغ نہ ہو تو ولی کا اختیار ان سے زائل ہوجاتا ہے۔
  3. نابالغ یا مجنون  جنون کی حالت میں بلوغ کو پہنچیں تو زیر ولایت رہیں گے۔
  4. باپ مجنون یا معتوہ ہوجائے تو بیٹے کو اس پر ولایت نفس نہ کہ ولایت  مال حاصل ہوجائے گی۔
  5. ولی  جنون مطبق کا شکار ہوجائے تو ولایت کھودے گا اور اگر کبھی جنون اور کبھی  افاقہ ہوتا ہو توحالت افاقہ کے تصرفات نافذ قرار پائیں گے۔
  6. باپ مجنون ہوجائے تو بیٹے کو اور بیٹا  بلوغ کے بعد مجنون ہوجائے تو باپ کو اس پر دوبارہ ولایت حاصل ہوجائے گی۔
  7. ولی  غیبت منقطعہ کے ساتھ غائب ہو اور پھر لوٹ آئے تو اس کی ولایت بحال اورولی بعید کی زائل ہوجائے گی،مگر ولی بعید کے تصرفات  نافذ قرار پائیں گے۔

 

 

 

 

 

 

دفعہ8۔عصبہ کا حق ولایت اور ان میں ترتیب:

دفعہ 6 میں درج زیر ولایت افراد کے  نکاح کا حق  میراث کی ترتیب کے مطابق حسب ذیل افراد کو ہے:

  1. بیٹا
  2.  پوتا
  3.  پڑپوتا،اگر چہ کئی پشت کا فاصلہ ہو
  4.   باپ
  5.  دادا
  6.   پر دادا، اگرچہ کئی پشت اوپر ہو
  7. سگا بھائی
  8.   باپ شریک بھائی
  9.  سگے بھائی کا لڑکا   یعنی  سگابھتیجا
  10. باپ شریک بھائی کا لڑکا،  یعنی سوتیلا بھتیجا
  11.  سگا چچا
  12.  باپ شریک چچا  ،یعنی  سوتیلا چچا
  13.  سگے چچاکا لڑکا
  14. باپ شریک چچا کا لڑکا، یعنی سوتیلے چچا کا بیٹا
  15. باپ کا حقیقی چچا
  16.  باپ کا پدری چچا
  17. باپ کے حقیقی چچا کا بیٹا
  18. باپ کے سوتیلے چچا کا بیٹا
  19. دادا کا حقیقی چچا
  20. دادا کا پدری چچا

 

 

 

 

 

 

  1. دادا کے حقیقی چچا کا بیٹا
  2. دادا کے سوتیلے چچا کا بیٹا

توضیح  1 :   کسی پاگل عورت کا  باپ اور بیٹا ہے یا دادا اور بیٹا ہے تو اس کا ولی بیٹا ہے،اگر نکاح کرنا چاہیں تو بہتر یہ ہے کہ باپ اس کے بیٹے کو نکاح کرنے کا حکم دے تاکہ بلااختلاف نکاح درست ہوجائے۔

 

 

 

 

 

 

دفعہ9۔عصبہ کے علاوہ دیگر  رشتہ داروں کا حق ولایت:

دفعہ ۔دفعہ ۸ درج افراد نہ ہوں یا اہلیت نہ رکھتے ہوں تو ولایت  نکاح بالترتیب   متذکرۃ الذیل رشتہ داروں کو منتقل ہوجائے گی:

  1. ماں
  2. دادی
  3. نانی
  4. بیٹی
  5. پوتی
  6. نواسی
  7. پسر کی پوتی نواسی
  8. دختر کی پوتی نواسی
  9. نانا
  10. سگی بہن
  11. سوتیلی بہن
  12. ماں کی اولاد جو باپ شریک نہیں
  13. سگی بہن کی اولاد
  14. سوتیلی بہن کی اولاد
  15. ماں کی اولادپھوپھی
  16. ماموں
  17. خالہ
  18. چچا زاد بہن اور پھر اسی ترتیب سے پھوپھی ماموں اور خالہ وغیرہ کی اولاد

توضیح :    نکاح کے باب میں حضانت کے برعکس ذووالارحام کا محرم ہونا شرط نہیں۔

 

 

 

 

 

 

دفعہ 10 ۔قرابت داروں کے بعد قاضی کا حق ولایت :

نسبی ولی نہ ہو تو ولایت:

     سلطان کو  ہےپھر

     اس کے نائب کو پھر

     قاضی کو پھر

اس کے مجاز نمائندہ کو حاصل ہے۔

توضیح  :قاضی کےلیے شرط ہے کہ اسے  نابالغوں کے نکاح کا اختیار دیا گیا ہو،اگر  اس کے پروانہ تقرری میں یہ خدمت تفویض نہ ہو اور اس نے نکاح کردیا اور پھر اسے سلطان کی طرف سے یہ خدمت تفویض ہوئی اور اس نے نکاح کو نافذ کردیا تو نافذ ہوگیا۔

دفعہ 11۔علماء اور جماعت مسلمین کا حق ولایت:

قاضی نہ ہو تو ولایت علاقہ کے علماء کو اور

          اگر علماء متعدد ہوں تو ان میں سے اعلم کو اور

 اگر اہل علم نہ ہوں تو جماعت مسلمین کو حاصل  ہے۔

دفعہ 12۔باپ دادا کا کیا ہوا نکاح:

زیر ولایت  کو اس کے باپ نے یاباپ کی عدم موجودگی یا عدم اہلیت کی وجہ سے دادا نے نکاح میں دیا یا مجنون یا مجنونہ کا نکاح اس کے بیٹے نے کیا  تو نکاح منعقد،صحیح،نافذ ولازم ہے اور بلوغت کے بعد زیر ولایت کو خیار بلوغ بھی حاصل نہیں ،خواہ

نابالغ کو نکاح پسند ہو یا نہ ہو

نابالغہ کنواری ہو یا ثیبہ

مہرمثل نکاح میں باندھا گیا ہو یا اس میں کمی فاحش یا زیادتی فاحشہ کی گئی ہو

نکاح کفو میں ہو یاغیر کفو میں ہو،مگر شرط یہ ہے کہ:

الف ۔ معاہدہ نکاح کے وقت باپ یا دادا نشہ میں نہ ہوں

ب ۔    ولی (باپ ،دادا)اس سے پہلے  کسی زیر ولایت کاغیر کفو میں یا مہر میں کمی غبن فاحش کرنے کی وجہ سے معروف بسوئے الاختیار نہ ہوچکا ہو۔

اگر باپ بوقت نکاح نشہ میں ہو یا معروف بسوئے الاختیار ہو مگر متذکرہ نکاح مہرمثل کے ساتھ یا اس میں معمولی غبن کے ساتھ کیا ہو اور نکاح کفو میں ہو تو نکاح لازم ونافذ  ہے۔

 

 

 

 

 

 

دفعہ 13۔باپ دادا،بیٹا کے علاوہ اولیاء کا نکاح کب لازم ہے:

باپ دادا کے علاوہ کسی ولی نے زیر ولایت  کا نکاح کیا تو نکاح کی صحت کےلیے شرط ہوگاکہ :

 الف ۔ مہر مثل میں کمی فاحش نہ کی ہو

ب ۔    نکاح کفو میں کیا ہو

شرائط بالا میں سے کسی شرط کی فقدان کی وجہ سے نکاح سرے سے منعقد نہ ہوگا۔

دفعہ14۔قاضی کو نکاح کی ولایت کب حاصل ہے:

قاضی کو زیر ولایت  کے نکاح کا حق حاصل ہے جب کہ:

الف ۔ اس کے پروانہ تقرری میں صراحت ہو۔

ب ۔    قاضی سے قریب  زیر ولایت کا ولی نہ ہو

ج ۔     ولی ہو مگر اہلیت نہ رکھتا ہو

د۔       اہلیت رکھتا ہو مگر معقول سبب کے بغیر نکاح سے گریز کررہا ہو

مگر شرط ہوگا کہ قاضی اپنے آپ کے ساتھ یا اپنے اصول وفروع میں سے کسی کے ساتھ زیر ولایت کے نکاح کا مجاز نہ ہوگا۔قاضی کے برخلاف چچا زاد اپنی چچازاد بہن سے خود نکاح کرسکتا ہے اور دیگر اولیا اپنے زیر ولایت کا نکاح اپنے فروع سے کرسکتے ہیں۔

دفعہ15۔تعدد اولیاءکی صورت میں ولی کون ہے :

ولی اگر ایک ہو تو اسے ہی نکاح نابالغ کا اختیار ہے۔

اگر اولیاء ایک سے زیادہ ہو ں اور سب مساوی حیثیت کی ولایت رکھتے  ہوں تو  ایک یا چند کا نکاح نابالغ پر رضامند ہوجانا کافی ہے،دوسروں کو فسخ کا اختیار نہیں

اگر سب مساوی حیثیت نہ رکھتے ہوں تو اقرب کا رضامندہوجانا کافی ہے کیونکہ حقیقت میں وہی ولی ہے۔

 

 

 

 

 

 

دفعہ16۔اولیاء  کے تصرفات کا حکم :

  1. مساوی درجے کے اولیاء میں سے کوئی نابالغ کا نکاح کردے تو نافذ ہے خواہ دوسرا اجازت دے یا مسترد کرے .
  2. اگر یکے بعد دیگرے نکاح کریں تو اول کا نکاح نافذ اور ثانی کا کالعدم ہے۔
  3. اگر دونوں ایک ساتھ نکاح کردیں یا دونوں نکاحوں میں تقدیم وتاخیر معلوم نہ ہو تو دونوں باطل ہیں۔
  4. اسی طرح ولی قریب وبعید نے ایک ساتھ اپنےزیر ولایت کا نکاح کردیایا
  5.  ایک ساتھ تو نہ کیا مگر مقدم موخر کا علم نہیں ہوسکتا تو دونوں نکاح باطل قرار پائیں گے۔
  6. ولی اقرب کے ہوتے ہوئے ولی ابعد نے زیرولایت کا نکاح کیا تو ولی اقرب کی اجازت پر موقوف رہے گا۔لیکن اگر :

الف ۔      ولی اقرب اہلیت نہ رکھتا ہومثلا نابالغ  یامجنون ہو

ب ۔         یااہلیت رکھتا ہو مگرغیبت منقطعہ کے ساتھ غائب ہو تو ولی ابعد کا کیا ہونکاح نافذ قرار پائے گا۔

استثناء :     شق ثالث کی صورت میں اگر نابالغہ ایک نکاح کی تقدیم  کی مدعیہ ہو تو دعوی درست قرار دیا جائے گا۔

تشریح

شق اول کی وجہ یہ ہےکہ ولایت ناقابل تقسیم ہے۔شق ثانی میں نکاح ثانی کے بطلان کی وجہ عدم محل ہے۔شق ثالث میں کوئی وجہ ترجیح نہیں اس لیے ہر دو باطل ہیں۔

دفعہ17 ۔ولی اقرب کا نکاح سے گریز:

ولی اقرب، اگر چہ باپ یا دادا ہو،مگر کسی معقول شرعی عذر کے بغیر نابالغہ کے نکاح سے گریز کررہا ہے مثلا جوڑ کا رشتہ بھی دستیاب ہے اور وہ مہر مثل کی ادائیگی پر بھی آمادہ ہے اور کوئی اس جیسا یا اس سے بہتر  رشتہ دستیاب بھی نہیں ہے  اور دستیاب کفو ولی  اقرب کی رائے کا انتظار نہ کرتا ہوتو عدالت ولی اقرب کی نیابت میں نابالغہ کو نکاح میں دے سکتی ہےاور کوئی اوراس نکاح کی تنسیخ کا بھی مجاز نہ ہوگا،لیکن اگر ولی اقرب کا انکار کسی معقول سبب کے باعث ہے مثلا دستیاب رشتہ کفو نہیں ہے یا مہر مثل کی ادائیگی پر تیار نہیں ہے یا کوئی اور رشتہ ہے جو دستیاب بھی ہے ،کفو بھی ہے اور مہرمثل کی ادائیگی پر پر تیار ہے تو عدالت یا ولی بعید کو نابالغہ کے نکاح کا اختیار نہ ہوگا۔

 

 

 

 

 

 

دفعہ 18۔ولی کی رضامندی کب ثابت ہوگی :

ولی  کی رضامندی دو طرح ثابت ہوگی:

1۔صریحا : مثلا کہہ دے کہ میں راضی ہوں یا میں نے منظور کیا یا نافذ کیا یا اجازت دی یا اس کے مثل کوئی اس طرح کا کلمہ جس سے نکاح کی منظوری دینے کا اظہار ہوتا ہو۔

2۔دلالۃ : مثلا ولی مہر پر قبضہ کرلے یا مہر کا مطالبہ کرے یامنکوحہ کو رخصت کردے وغیرہ مگر ولی کا محض  سکوت رضامندی نہیں،اگرچہ سکوت مجلس نکاح میں ہو

دفعہ 19 ۔ولی اقرب  کی غیر موجودگی میں ولی ابعد کا نابالغ کانکاح کرنا:

(1 ) ولی ابعد نے ولی اقرب کی غیبت  غیر منقطعہ میں زیر ولایت کا نکاح  کردیا تو نکاح ولی اقرب کی اجازت پر موقوف رہے گا،چاہے تو برقرار رکھے یا فسخ کردے۔

(2)گر غیبت منقطعہ ہو  تو نکاح منعقد،لازم ونافذ ہوگا مگر شرط ہوگا کہ:

الف ۔ نکاح کفو میں ہو

ب ۔مہر مثل میں غبن فاحش نہ ہو

ج  ۔ولی اقرب کے جواب آنے تک حاضر کفو  انتظار نہ کرے۔

د۔ کوئی اور خواستگار نکاح ایسا نہ ہو جو ولی کا جواب آنے تک انتظار پر آمادہ  ہو۔

توضیح:ولی اقرب جہاں ہے وہاں اگر اس نے صغیر یا صغیرہ کا نکاح کردیا تو نکاح نافذ ہے ،اگر چہ ولی کی غیبت منقطعہ ہو(ایک دوسری رائے یہ ہےکہ نکاح نافذ نہیں)

دفعہ20 ۔ولی کا صغیرہ کے نکاح کا اقرار:

ولی نابالغہ کے نکاح کا اقرار کرتا ہے تو  گواہان کی شہادت یا بلوغت کے بعد نابالغہ کی تصدیق درکار ہوگی۔

دفعہ20۔ولی کا اپنے ولایت سے کیے ہوئے نکاح سے انکار:

 ولی نے اپنی ولایت سے کفو میں نابالغہ کا نکاح کیا اور پھر اپنے ولی ہونا کا انکار کرتا ہے تو قابل قبول نہیں البتہ اگر ولایت ظاہر نہ ہو تو نکاح درست نہ ہوگا۔

دفعہ 21۔غیر مکلف کی ایک سے زائد شادیاں :

ولی کو زیرولایت کی ایک سے زائد شادیوں کی اجازت نہیں۔

 

 

 

 

 

 

دفعہ 22۔نابالغ کے نکاح میں بھی کفاء ت کا اعتبار ہے:

باپ دادا کے علاوہ کسی ولی کو صغیرہ کی طرح   صغیر کا نکاح بھی غیر کفو میں کرنا درست نہیں۔

دفعہ22۔مندرجہ ذیل افراد کو نکاح نابالغان کا اختیار نہیں :

 الف ۔ وصی  کو،چاہے غیر مکلف کےباپ نے اسے وصیت کی ہو یا نہ ہو کی ہو، اور خواہ  باپ نے اپنے حین حیات ہی کسی کو متعین کیا ہو یا نہ کیا ہو،

ب ۔    پرورش کنندہ کو

  ج ۔   متبنی  کو

  د ۔    لاوارث بچے کے پالنے والے کو،  مگر یہ کہ ان میں سے  کسی کو ازروئے قرابت  ولایت حاصل ہو۔

تشریح

باپ یا دادا نے کسی کو وصیت کی کہ میرے بعد نابالغ کا نکاح کردینا  تو  وصیت کی رو سے وہ نکاح نابالغ کا مجاز نہ ہوگا  البتہ اگر وہ قریب کا رشتہ دار ہے  اور ولایت کی ترتیب کے مطابق   اسے استحقاق حاصل ہے تو پھر بحیثیت ولی وہ  مجاز ہوگا کیونکہ اب وہ ولی بھی ہے،اسی طرح پرورش کنندہ کو اگر ازروئے قرابت ولایت حاصل نہ ہو تو محض حضانت کی بنا پر اسے نکاح نابالغ کا اختیار نہ ہوگا۔یہی حکم اس شخص کا بھی ہے جو کسی لاوارث بچے کو پالتا ہے یا کسی بچے کو متبنی بنالیتا ہے۔

 

 

 

 

 

 

حصہ ثانی

زیر ولایت  اشخاص کے تصرفات کا حکم

دفعہ23۔نابالغ کا نکاح کب باطل ہے:

1۔نابالغ نے خود نکاح کیا ہو اور ولی نے رد کردیا ہو

2۔نابالغ نے نکاح کیا ہواور دفعہ 11،10،9،8کے احکام کے تحت کوئی اس کی اجازت دینے والا نہ ہو

3۔قانون ہذا کے تحت نکاح  نابالغ موقوف ٹھہرتا ہو اور نکاح کے نفاذسے قبل زوجین  میں سے کسی ایک کا انتقال ہوجائے،مثلا:ایک شخص نہ خود بالغ ہونہ نکاح ولی کی اجازت سے ہوا ہونہ ولی نے بعد از نکاح صراحۃ یا دلالۃ اجازت دی ہونہ خود نابالغ نے بلوغ کے بعد اجازت دی ہو اور نابالغ کا انتقال ہوجائے۔

4۔باپ ، دادا  اور بیٹے کے علاوہ کسی اور ولی نے نابالغ کا نکاح غیر کفو میں یا مہر میں غبن  فاحش کے ساتھ کیا ہو

5۔باپ یا دادا نے نابالغ کا نکاح کیا ہو مگر بحالت نشہ کیا ہو یا معروف بسوئے الاختیار ہوں اور مہر میں کمی فاحش ہو یا غیر کفو میں نکاح کیا ہو۔

6۔بلوغ کو پہنچے کے بعد نابالغ نے خود نکاح کو مسترد کیا ہو اور اس سے قبل ولی نے  اور بلوغت کو پہنچنے کے بعد خود نابالغ نے نکاح کی اجازت  نہ دی  ہو۔

دفعہ 24۔عقد جس کی اجازت  نہ ہو یا اجازت دینے والا کوئی نہ ہو:

 الف ۔ہر ایسا عقد جس کی ازروئے شرع  اجازت نہ دی  جاسکتی ہو

 ب  ۔یا جس کی اجازت دی جاسکتی ہو مگر اجازت دینے والا کوئی نہ ہو تو وہ باطل  ہے،بنا برایں:

نابالغہ کا کوئی ولی ہے اور نہ اس مقام پر  کوئی قاضی ہے  اور اس نے نکاح کرلیا تونکاح بلوغت کے حصول پر اس کی اجازت پر موقوف رہے گا کیونکہ سلطان اس کی اجازت دے سکتا ہے،لیکن اگر مقام عقد پر سلطان کی عمل داری بھی نہ ہو  مثلا سمندر یا جنگل یا صحراء ہو جو کسی کے زیر ولایت نہ ہو،تو عقد باطل قرار پائے گا۔

 

 

 

 

 

 

دفعہ  25۔نابالغ کا نکاح کب  قابل نفاذہے:

 الف  ۔         ولی نے نکاح کیا ہو

 ب ۔   سمجھ دار نابالغٖ نے خود نکاح کیا ہو یا کسی اور  نے کیا ہو مگر ولی نے اجازت دے دی ہو

 ج۔     سمجھ دار نابالغ نے نکاح کیا ہواورولی نے مسترد کیا ہو نہ اجازت دی ہو اور بلوغ کو پہنچے کے بعد نابالغ نے اس کی اجازت دے دی ہو۔

توضیح  :جو حکم سمجھدار نابالغ کا ہے وہی  معتوہ اورایسے مجنون کا ہے جس کا جنون مسلسل نہ ہو اور اس نے حالت افاقہ میں نکاح کیا ہو۔

تشریح

پسر یا دختر بلارضامندی اپنے شرعی ولی کے نکاح نہٰں کرسکتے  مگر جو نابالغ سمجھ دار ہواس کا نکاح بالکل کالعدم نہیں بلکہ اس کا جواز مانند دیگر معاہدات کے جو کسی نابالغ نے کیے ہوں، ولی کی اجازت پر موقوف رہتا ہے یا اس شخص کی اجازت پر، جو بجائے ولی کے ہوتا ہے۔معتوہ بمنزلہ صبی عاقل کے ہوتا ہے اور جنون اگر مسلسل ہو تو صبی غیر عاقل کے حکم میں ہے اور مسلسل نہ ہو تو حالت افاقہ کے تصرفات مثل عاقل نافذ ہیں بشرطیکہ نابالغ نہ ہو۔

الحاصل ناسمجھ نابالغ کے تصرفات ،خواہ مفید ہوں یا غیر مفید، سب باطل ہیں اور سمجھدار کے فائدہ مند تصرفات جیسے قبول  ہبہ وغیرہ نافذ ہیں ۔معتوہ صبی ممیز کے حکم میں ہے اور جنون اگر مسلسل ہو تو مجنون ،صبی غیر ممیزکے حکم میں ہے اور اگرمسلسل نہ ہو تو حالت افاقہ کے تصرفات ایک عاقل شخص کی طرح نافذ ہیں۔لہذا

1۔نابالغ حصول بلوغت کے بعداپنے نکاح کو نافذ کرنے کا مجاز ہے۔

2۔نابالغ کے ازخود کیے ہوانکاح کو اگر مجاز ولی نے منظور یا مسترد نہ کیا ہو توبعد ازبلوغت نابالغ کو اس کے رد یا نفاذ کا اختیار ہوگا۔

3۔۔نابالغ ممیزنے از خود یا فضولی نے اس کا نکاح کیا  تونکاح  ولی کی اجازت پر موقوف رہے گا۔اگر ولی نے اجازت دی تو نکاح نافذ  اور اگر رد کیا تو نکاح کالعدم اور اگر نابالغ کی زمانہ نابالغی تک نہ اجازت دی اور نہ رد کیا بلکہ سکوت کیا یا اسے نکاح کی اطلاع ہی نہ ہوئی اور نابالغ بلوغ کو پہنچ گیا تو اگر نابالغ نے قولا یا فعلا یا حالا نکاح کو منظور کیا تو نکاح نافذ ہےاور اگر رد کردیا تو نکاح باطل ہے،مگر محض بلوغت سے جب کہ نکاح کو مسترد نہ کرے نکاح رد نہ ہوگا۔

دفعہ ہذا پر مبنی ہندیہ کا جزئیہ ہے  کہ نابالغ نےبالغہ سے نکاح کیا اورپھر غائب ہوگیا اور عورت نے دوسرا نکاح کرلیا تو اگر نابالغ نے بلوغ کے بعد اس نکاح کو نافذ کردیا تھا اور عورت نے اس کے بعد دوسرا نکاح کیا تو عورت کا نکاح باطل ہے اور اگر نابالغ کے جائز کرنے سے قبل اس نے دوسرا نکاح کیا تو یہ دوسرا نکاح درست ہے۔

 

 

 

 

 

 

دفعہ26۔بلوغت اور عدم بلوغت میں اختلاف کا حکم:

لڑکی بلوغت کا دعوی کرکے ولی کے نکاح کو مسترد کرتی ہو اور لڑکی کاشوہر یا ولی اس کا نابالغہ ہونا بیان کرتے ہیں تو اگر لڑکی کی عمر نوبرس ہو اور مراہقہ ہو تو اس کا دعوی معتبر ہے،اگر جانبین گواہان پیش کریں توبلوغ کے گواہوں کو ترجیح ہوگی۔

دفعہ27۔نابالغہ سے تعلقات زن شوئی:

نابالغہ کی صحت  جسمانی اگر ایسی ہے کہ جماع کے قابل ہے اور مرض کا اندیشہ نہیں  تو اس سے جماع جائز ہے ،اگر چہ اس کی عمر نوسال سے کم ہی کیوں نہ ہواور اگر وہ  بوجہ لاغری وکمزوری جماع کا تحمل نہ کرسکتی ہواور بیماری کا خدشہ ہو تو اس سے تعلق زن شوئی کا قیام ناجائز ہے ،اگر چہ اس کی عمرزیادہ ہو۔

دفعہ28 ۔رخصتی کابیان:

شوہر مہر کی ادائیگی کرچکا ہے اور بیوی کی رخصتی چاہتا ہے، جب  کہ بیوی کا باپ کہتا ہے کہ اس کی دختر ابھی چھوٹی ہے اور مردوں کے قابل اور جماع کا تحمل نہیں کرسکتی تو اگر بیو ی  گھر سے نکلا کرتی ہے تو  عدالت  نزاع کے تصفیہ کے لیے اسےحاضر عدالت کرے گی تاکہ اس کی    صحت جسمانی کا جائزہ لیا جاسکے،اگر بیوی پر دہ نشین ہو تو عدالت قابل اعتبار عورتوں کو  اس کی صحت جسمانی کی رپورٹ دینے کے لیے مقرر کرے گی۔

تشریح

کونسل کی سفارش یہ ہے کہ نابالغہ کا نکاح درست مگر رخصتی درست نہیں

دفعہ29۔عقد کے وقت  ولایت نہ ہو مگر اجازت کے وقت کے حاصل ہوجائے:

اگر کسی شخص نے نابالغ کانکاح کیا اور اس وقت اسے نابالغ پر ولایت حاصل نہ تھی ،مگر پھر اجازت کے مرحلہ کے وقت اسے ولایت حاصل ہوگئی اور اس نے نکاح کی اجازت دے دی تونکاح نافذ ہوگا،مثلا

باپ نے اپنےبالغ بیٹے کا نکاح کیا اور بیٹےنے ابھی اجازت نہ دی تھی کہ بیٹا مجنون ہوگیا اور باپ نے اجازت دے دی تو نکاح نافذ ہوگیا۔

اسی طرح ولی اقرب کے موجودگی میں ولی ابعد نے نکاح کیا اور پھر ولی اقرب غائب ہوگیا یہاں تک کہ ولایت  ولی ابعد کو منتقل ہوگئی تو انتقال ولایت کے بعد اجازت دینے سے نکاح نافذ ہوسکتا ہے۔

 

 

 

 

 

 

حوالہ جات

دفعہ 1۔تعریفات  :

اصطلاح اول وثانی کے لیے ملاحظہ کیجیے:

حاشية رد المختار على الدر المختار - (3 / 81

 المراد بالأبعد من يلي الغائب في القرب كما عبر به في كافي الحاكم وعليه فلو كان الغائب أباها ولها جد وعم فالولاية للجد لا للعم

  قال في الاختيار ولا تنتقل إلى السلطان لأن السلطان ولي من لا ولي له وهذه لها أولياء إذ الكلام فيه اه

اصطلاح ۵،۴،۳

۔الفتاوى الهندية - (7 / 23)

وإذا جن الولي جنونا مطبقا تزول ولايته ، وإن كان يجن ويفيق ؛ لا تزول ولايته وتنفذ تصرفاته في حالة الإفاقة ، كذا في الذخيرة .وقدر الإمام الإطباق في رواية بشهر وبه يفتى ، كذا في الوجيز للكردري وهكذا في البحر الرائقوإذا بلغ الابن معتوها أو مجنونا تبقى ولاية الأب عليه في ماله ونفسه ، كذا في فتاوى قاضي خان

ردالمحتار3/77

ومقتضى النظر أن الكفء الخاطب إذا فات بانتظار إفاقته تزوج موليته وإن لم يكن مطبقا وإلا انتظر على ما اختاره المتأخرون في غيبة لولي الأقرب على ما سنذكره

حاشية رد المختار على الدر المختار - (3 / 83

قوله ( وولي المجنونة والمجنون ) أي جنونا مطبقا وهو شهر كما مر وتقدم أيضا أن المعتوه كذلك

 قوله ( ولو عارضا ) أو ولو كان جنونهما عارضا بعد البلوغ خلافا لزفر

 قوله ( اتفاقا ) أي بخلاف الولاية في النكاح ففيها خلاف محمد فهي عنده للأب أيضا وعندهما للابن

وأشار المصنف إلى أن للولي إنكاح المجنون والمجنونة إذا كان الجنون مطبقا فالمراد أن للولي إنكاح غير المكلفة جبرا

 قال في الولوالجية الرجل إذا كان يجن ويفيق هل يثبت للغير ولاية عليه في حال جنونه إن كان يجن يوما أو يومين أو أقل من ذلك لا تثبت لأنه لا يمكن الاحتراز عنه  

9 ۔غبن فاحش :

حاشية رد المختار على الدر المختار - (3 / 66)

قوله ( ولو بغبن فاحش ) هو ما لا يتغابن الناس فيه أي لا يتحملون الغبن فيه احترازا عن الغبن اليسير وهو ما يتغابنون فيه أي يتحملونه  قال في الجوهرة والذي يتغابن فيه الناس ما دون نصف المهر كذا قاله شيخنا موفق الدين  وقيل ما دون العشر اه  فعلى الأول الغبن الفاحش هو النصف فما فوقه وعلى الثاني العشر فما فوقه  تأمل

قوله ( أو زوجها بغير كفء ) بأن زوج ابنه أمة أو ابنته عبدا وهذا عند الإمام  وقالا لا يجوز أن يزوجها غير كفء ولا يجوز الحط ولا الزيادة إلا بما يتغابن الناس  ح عن المنح  ولا ينبغي ذكر المثال الأول لأن الكفاءة غير معتبرة في جانب المرأة للرجل  أفاده في الشرنبلالية ونحوه في ط

11 ۔معروف بسوئے اختیار :

حاشية رد المختار على الدر المختار – (3 / 67)

والحاصل أن المانع هو كون الأب مشهورا بسوء الاختيار قبل العقد فإذا لم يكن مشهورا بذلك ثم زوج بنته من فاسق صح وإن تحقق بذلك أنه سيىء الاختيار واشتهر به عند الناس فلو زوج بنتا أخرى من فاسق لم يصح الثاني لأنه كان مشهورا بسوء الاختيار قبله بخلاف العقد الأول لعدم وجود المانع قبله ولو كان المانع مجرد تحقق سوء الاختيار بدون الاشتهار لزم إحالة المسألة أعني قولهم ولزم النكاح ولو بغبن فاحش أو بغير كفء إن كان الولي أبا أو جدا

حاشية رد المختار على الدر المختار - (3 / 67)

وكذا السكران لو زوج من غير الكفء كما في الخانية وبه علم أن المراد بالأب من ليس بسكران ولا عرف بسوء الاختيار اه

 قلت ومقتضى التعليل أن السكران أو المعروف بسوء الاختيار لو زوجها من كفء بمهر المثل صح لعدم الضرر المحض ومعنى قوله والظاهر من حال الصاحي أنه يتأمل أي أنه لوفور شفقته بالأبوة لا يزوج بنته من غير كفء أو بغبن فاحش إلا لمصلحة يزيد على هذا الضرر كعلمه بحسن العشرة معها وقلة الأذى ونحو ذلك وهذا مفقود في السكران وسيىء الاختيار إذا خالف لظهور عدم رأيه وسوء اختياره في ذلك

 قوله ( أي غير الأب وأبيه ) الأولى أن يزيد والابن والمولى لما مر

 

12 ۔فسق:

الفسق لا يمنع الولاية ، كذا في فتاوى قاضي خان

الدر المختار(3 / 54)

 وشرعا ( البالغ العاقل الوارث ) ولو فاسقا على المذهب ما لم يكن متهتكا

رد المختار على الدر المختار - (3 / 54)

 قوله ( ما لم يكن متهتكا ) في القاموس رجل منهتك ومتهتك ومستهتك لا يبالي أن يهتك ستره اه قال في الفتح عقب ما نقلنا عنه آنفا نعم إذا كان متهتكا لا ينفذ تزويجه إياها بنقص عن مهر المثل ومن غير كفء وسيأتي هذا اه

 وحاصله أن الفسق وإن كان لا يسلب الأهلية عندنا لكن إذا كان الأب متهتكا لا ينفذ تزويجه إلا بشرط المصلحة ومثله ما سيأتي من قول المصنف ولزم ولو بغبن فاحش أو بغير كفء إن كان الولي أبا أو جدا لم يعرف منهما سوء الاختيار وإن عرف لا اه  وبه ظهر أن الفاسق المتهتك وهو بمعنى سيىء الاختيار لا تسقط ولايته مطلقا لأنه لو زوج من كفء بمهر المثل صح كما سيأتي بيانه

13 ۔فاسق متہتک :

رجل منهتك ومتهتك ومستهتك لا يبالي أن يهتك ستره،شامی اول کتاب الولی

14 ۔ماجن  :     

حاشية رد المختار على ا لدر المختار - (3 / 66)

 وفي المغرب الماجن الذي لا يبالي ما يصنع وما قيل له ومصدره المجون والمجانة اسم منه والفعل من باب طلب اهالماجن الذی لایبالی ما یصنع وماقیل لہ۔شامی باب الولی،مقولہ:11610،طبع جدید دمشق۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (3 / 133)

وقيد بالكفر لأن الفسق لا يسلب الأهلية عندنا على المشهور وهو المذكور في المنظومة وعن الشافعي اختلاف فيه أما المستور فله الولاية بلا خلاف فما في الجوامع أن الأب إذا كان فاسقا للقاضي أن يزوج الصغيرة من كفء غير معروف نعم إذا كان متهتكا لا ينفذ تزويجه إياها بنقص عن مهر المثل ومن غير كفء وسيأتي هذا  كذا في فتح القدير

15 ۔غیبت منقطعہ وغیر منقطعہ:

جو غیبت منقطعہ نہ ہو۔

الفتاوى الهندية - (7 / 27)

وإن زوج الصغير أو الصغيرة أبعد الأولياء فإن كان الأقرب حاضرا وهو من أهل الولاية توقف نكاح الأبعد على إجازته ، وإن لم يكن من أهل الولاية بأن كان صغيرا أو كان كبيرا مجنونا جاز ، وإن كان الأقرب غائبا غيبة منقطعة ؛ جاز نكاح الأبعد ، كذا في المحيطالفتاوى الهندية - (7 / 28)ثم قدر الغيبة بمسافة القصر وهو اختيار أكثر المتأخرين وعليه الفتوى .وقال شمس الأئمة السرخسي ومحمد بن الفضل الأصح أنه مقدر بفوات الكفء الحاضر الخاطب إلى استطلاع رأيه وهذا أحسن ، كذا في التبيين .وعليه الفتوى ، كذا في جواهر الأخلاطي .حتى لو كان مختفيا في البلدة لا يوقف عليه يكون غيبة منقطعة ، كذا في شرح مجمع البحرين .فإن كان الأقرب جوالا لا يوقف على أثره أو كان مفقودا لا يعرف مكانه أو مختفيا في البلد لا يوقف عليه قال القاضي الإمام أبو الحسن علي السغدي : يكون هو بمنزلة الغائب غيبة منقطعة فإن كان زوجها الأبعد ثم ظهر أنه كان مختفيا في المصر جاز نكاح الأبعد ، كذا في فتاوى قاضي خان .

واختلف مشايخنا في ولاية الأقرب أنها تزول بالغيبة أم بقيت ؟ .

قال بعضهم : إنها باقية إلا أنه حدث للأبعد ولاية بغيبة الأقرب فتصير كأن لها وليين مستويين في الدرجة كالأخوين والعمين ، وقال بعضهم : تزول ولايته وتنتقل إلى الأبعد وهو الأصح ، كذا في البدائع .

فلو زوجها حيث هو لا رواية فيه وينبغي أن لا يجوز لانقطاع ولايته ، كذا في محيط السرخسي ، وإن زوجها الأقرب حيث هواختلفوا فيه والظاهر هو الجواز ، كذا في فتاوى قاضي خان والظهيرية

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (3 / 135)

واختلف في حد الغيبة فذهب أكثر المتأخرين إلى أنها مقدرة بمسافة القصر لأنه ليس لأقصاها غاية فاعتبر بأدنى مدة السفر واختاره المصنف وعليه الفتوى كما في التبيين واختار أكثر المشايخ كما في النهاية أنها مقدرة بفوت الكفء الخاطب باستطلاع رأيه وصححه ابن الفضل وفي الهداية وهذا أقرب إلى الفقه لأنه لا نظر في إبقاء ولايته حينئذ وفي المجتبى والمبسوط والذخيرة وهو الأصح  وفي الخلاصة وبه كان يفتي الشيخ الإمام الأستاذ وفي فتح القدير ولا تعارض بين أكثر المتأخرين وأكثرالمشايخ ا هـ  وهنا أقوال أخر لكنها ضعيفة  والحاصل أن التصحيح قد اختلف والأحسن الإفتاء بما عليه أكثر المشايخ وعليه فرع قاضيخان في شرحه أنه لو كان مختفيا بالمدينة بحيث لا يوقف عليه تكون غيبة منقطعة وهذا حسن ( ( ( أحسن ) ) ) لأنه النظر ويتفرع على ما في المختصر أنه لا يزوج الأبعد إذا كان الأقرب بالمدينة مختفيا

17 ۔عصبہ :۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (3 / 127)

وفسر المصنف رحمه الله الولي بالعصبة وسيأتي في الفرائض أنه من أخذ الكل إذا انفرد والباقي مع ذي سهم وهو عند الإطلاق منصرف إلى العصبة بنفسه وهو ذكر يتصل بلا توسط أنثى أي يتصل إلى غير المكلف ولا يقال هنا إلى الميت فلا يرد العصبة بالغير كالبنت تصير عصبة بالابن فلا ولاية لها على أمها المجنونة وكذا لا يرد العصبة مع الغير كالأخوات مع البنات

حاشية رد المختار على الدر المختار - (3 / 76

قوله ( العصبة بنفسه ) خرج به العصبة بالغير كالبنت تصير عصبة بالابن ولا ولاية لها على أمها المجنونة وكذا العصبة مع الغير كالأخوات مع البنات ولا ولاية للأخت على أختها المجنونة كما في المنح والبحر  والمراد خروجهما من رتبة التقديم وإلا فلهما ولاية في الجملة يدل عليه قول المصنف بعد فإن لهم يكن عصبة الخ

 والحاصل أن ولاية من ذكر بالرحم لا بالتعصيب وإن كانت في حال عصوبتها كالبنت مع الابن الصغير فإنها تزوج أمها المجنونة بالرحم لا بكونها عصبة مع الابنقوله ( وهو من يتصل بالميت ) الضمير للعصبة المذكور المراد به المعهود في باب الإرث بقرينة قوله على ترتيب الإرث والحجب فيكون تعريفه ما عرفوه به في باب الإرث  فلا يرد ما قيل إنه لا ميت هنا فالأولى أن يقال وهو من يتصل بغير المكلف فافهم هذا وفي النهر هو من يأخذ كل المال إذا انفرد والباقي مع ذي سهم وهذا أولى من تعريفه بذكر يتصل بلا واسطة أنثى إذ المعتقة لها ولاية الإنكاح على معتقها الصغير حيث لا أقرب منها اه

ادفعہ2۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (3 / 117)

 باب الأولياء والأكفاء  شروع في بيان ما ليس بشرط لصحة النكاح عندنا وهو الولي  وله معنى لغوي وفقهي وأصولي  فالولي في اللغة خلاف العدو والولاية بالكسر السلطان والولاية النصرة  وقال سيبوية الولاية بالفتح المصدر والولاية بالكسر الاسم مثل الإمارة والنقابة لأنه اسم لما توليته وقمت به فإذا أرادوا المصدر فتحوا  كذا في الصحاح  وفي الفقه البالغ العاقل الوارث فخرج الصبي والمعتوه والكافر على المسلمة  وفي أصول الدين هو العارف بالله تعالى وبأسمائه وصفاته حسبما يمكن المواظب على الطاعات المجتنب عن المعاصي الغير المنهمك في الشهوات واللذات كما في شرح العقائد والولاية في الفقه تنفيذ القول على الغير شاء أو أبى وهي في النكاح نوعان ولاية ندب واستحباب وهي الولاية على العاقلة البالغة بكرا كانت أو ثيبا وولاية إجبار وهي الولاية على الصغيرة ( ( ( الصغير ) ) ) بكرا كانت أو ثيبا وكذا الكبيرة المعتوهة والمرقوقة

تقریرات میں ہے کہ ولایت دراصل ایک صفت ہے اور تنفیذ القول اس کا اثر ہے۔لکنھا فی التحقیق صفۃ تقوم بشخص والتقیید المذکور اثرھا۔

دفعہ 3۔ولی  کی تعریف :

حاشية رد المختار على الدر المختار - (3 / 54)

 قوله ( الوارث ) كذا في الفتح وغيره  قال الرملي وذكره مما لا ينبغي إذ الحاكم ولي وليس بوارث اه  قلت وكذا سيد العبد فالتعريف خاص بالولي من جهة القرابةقوله ( والولاية الخ ) بفتح الواو وما ذكره تعريفها الفقهي كما في البحر وإلا فمعناها اللغوي المحبة والنصرة كما في المغرب لكن ما ذكره تعريف لأحد نوعيها وهو ولاية الإجبار بقرينة قوله وهي هنا نوعان وأفاد أن المذكور في المتن غيرخاص بهذا الباب بل منه ولاية الوصي وقيم الوقف وولاية وجوب صدقة الفطر بناء على أن المراد بتنفيذ القول ما يكون في النفس أو في المال أو فيهما معا والمراد في هذا الباب ما يشمل الأول والثالث دون الثاني  قوله ( تثبت ) أي الولاية المذكورة والمراد هنا ولاية الإجبار في هذا الباب فقط ففيه شبهة الاستخدام وإلا فالولاية المعرفة أعم كما علمت وحيث كانت أعم فليس المراد بها الثابتة لخصوص الولي المعروف بالبالغ العاقل الوارث حتى يرد أنه ليس في الملك والإمامة إرث وحينئذ فلا حاجة إلى التكلف في الجواب بأن المراد بالإرث المأخوذ في تعريف الولي هو أخذ المال بعد الموت من باب عموم المجاز فالإمام يأخذ مال من لا وارث له ليضعه في بيت المال والولي يأخذ كسب عبده المأذون في التجارة بعد موته وإن لم يكن ذلك إرثا حقيقة فإنه كما قال ط لا دليل على هذا المجاز والتعريف يصان عن مثل هذا فافهم

دفعہ 4۔ولی کی شرائط:

الفتاوى الهندية - (7 / 22

ولا ولاية لصغير ولا مجنون ولا لكافر على مسلم ومسلمة ، كذا في الحاوي .ولا لمسلم على كافر وكافرة ، كذا في المضمراتقالوا : وينبغي أن يقال : إلا أن يكون المسلم سيد أمة كافرة أو سلطانا ، كذا في البحر الرائق .وللكافر ولاية على مثله ، كذا في التبيين .ولا ولاية للمرتد على أحد لا على مسلم ولا على كافر ولا على مرتد مثله ، كذا في البدائع

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (3 / 132)

( ولا ولاية لصغير وعبد ومجنون ) لأنه لا ولاية لهم على أنفسهم فأولى أن لا يثبت على غيرهم ولأن هذه ولاية نظرية ولا نظر في التفويض إلى هؤلاء  أطلق في العبد فشمل المكاتب فلا ولاية له على ولده كذا في المحيط  لكن للمكاتب ولاية في تزويج أمته كما عرف  وأراد بالمجنون المطبق وهو شهر وعليه الفتوى

 وفي فتح القدير لا يحتاج إلى تقييده به لأنه لا يزوج حال جنونه مطبقا أو غير مطبق ويزوج حالة إفاقته عن جنون مطبق أو غير مطبق لكن المعنى أنه إذا كان مطبقا تسلب ولايته فتزوج ولا ينتظر إفاقته وغير المطبق الولاية ثابتة له فلا تزوج وتنتظر إفاقته كالنائم  ومقتضى النظر أن الكفء الخاطب إن فات بانتظار إفاقته تزوج وإن لم يكن مطبقا وإلا انتظر على ما اختاره المتأخرون في غيبة الولي الأقرب ا هـ قوله ( ولا لكافر على مسلم ) لقوله تعالى { ولن يجعل الله للكافرين على المؤمنين سبيلا } النساء 141 ولهذا لا تقبل شهادته عليه ولا يتوارثان  قيد بالمسلم لأن للكافر ولاية على ولده الكافر لقوله تعالى { والذين كفروا بعضهم أولياء بعض } الأنفال 73 ولهذا تقبل شهادتهم على بعضهم ويجري بينهما التوارث وكما لا تثبت الولاية لكافر على مسلم كذلك لا تثبت لمسلم على كافرة أعني ولاية التزويج بالقرابة وولاية التصرف في المال قالوا وينبغي أن يقال إلا أن يكون المسلم سيد أمة كافرة أو سلطانا

 قال السروجي لم أرهذا الاستثناء في كتب أصحابنا وإنما هو منسوب إلى الشافعي ومالك  قال في المعراج وينبغي أن يكون مرادا ورأيت في موضع معزوا إلى المبسوط الولاية بالسبب العام تثبت للمسلم على الكافر كولاية السلطنة والشهادة فقد ذكر معنى ذلك الاستثناء ا هـ

 

دفعہ5۔ولایت کے اسباب:

حاشية رد المختار على الدر المختار - (3 / 55) قوله ( قرابة ) دخل فيها العصبات والأرحام قوله ( وملك ) أي ملك السيد لعبده أو أمته  قوله ( وولاء ) أي ولاء العتاقة والموالاة كما سيأتي  قوله ( وإمامة ) دخل فيها القاضي المأذون بالتزويج لأنه نائب عن الإمام  قوله ( شاء أو أبى ) احترز به عن ولاية الوكيل

الفتاوى الهندية - (7 / 19)

تثبت الولاية بأسباب أربعة بالقرابة والولاء والإمامة والملك ، كذا في البحر الرائق .

دفعہ 6۔زیر ولایت افرادجو کسی دوسرے کے ولی بھی نہیں ہوسکتے:

حاشية رد المختار على الدر المختار - (3 / 77

 وبالتكليف عن الصغيرة والمجنونة فلا يزوج في حال جنونه مطبقا أو غير مطبق ويزوج حال إفاقته عن المجنون بقسميه لكن إن كان مطبقا تسلب ولايته فلا تنتظر إفاقته وغير المطبق الولاية ثابتة له فتنتظر إفاقته كالنائم ومقتضى النظر أن الكفء الخاطب إذا فات بانتظار إفاقته تزوج موليته وإن لم يكن مطبقا وإلا انتظر على ما اختاره المتأخرون في غيبة لولي الأقرب على ما سنذكره

 فتح وتبعه في البحر والنهر والمطبق شهر وعليه الفوی

دفعہ 7۔بقا،عود اور زوال ولایت:

۔الفتاوى الهندية - (7 / 23)

وإذا جن الولي جنونا مطبقا تزول ولايته ، وإن كان يجن ويفيق ؛ لا تزول ولايته وتنفذ تصرفاته في حالة الإفاقة ، كذا في الذخيرة .وقدر الإمام الإطباق في رواية بشهر وبه يفتى ، كذا في الوجيز للكردري وهكذا في البحر الرائقوإذا بلغ الابن معتوها أو مجنونا تبقى ولاية الأب عليه في ماله ونفسه ، كذا في فتاوى قاضي خان .وفي فتاوى أبي الليث رجل زوج ابنه الكبير امرأة فلم يجز حتى جن جنونا مطبقا فأجاز الأب ذلك النكاح ؛ يجوز .وذكر الفقيه أبو بكر في غير هذه الصورة خلافا فقال : الابن إذا بلغ عاقلا ثم جن أو عته فعلى قول أبي يوسف رحمه الله تعالى لا تعود ولاية الأب قياسا حتى لو تصرف في ماله أو زوجه امرأة لا يجوز بل تعود الولاية إلى القاضي وعلى قول محمد رحمه الله تعالى الولاية إلى الأب استحسانا قال الفقيه أبو بكر الميداني : تعود ولاية الأب عند علمائنا الثلاثة ، كذا في الذخيرة والأب إذا جن أو عته ؛ لا تثبت للابن الولاية في ماله وفي حق التزويج تثبت عند أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى - ، كذا في الوجيز للكردري .وهو الصحيح هكذا في الغياثية

دفعہ8۔عصبہ کا حق ولایت اور ان میں ترتیب:

لبحر الرائق شرح كنز الدقائق - (3 / 127)

وأفاد بقوله بترتيب الإرث أن الأحق الابن وابنه وإن سفل ولا يتأتى إلا في المعتوهة على قولهما خلافا لمحمد كما سيأتي

 ثم الأب ثم الجد أبوه ثم الأخ الشقيق ثم لأب ( ( ( الأب ) ) )

 وذكر الكرخي أن الأخ والجد يشتركان ( ( ( يشاركان ) ) ) في الولاية عندهما وعند أبي حنيفة يقدم الجد كما هو الخلاف في الميراث والأصح أن الجد أولى بالتزويج اتفاقا وأما الأخ لأم فليس منهم

 ثم ابن الأخ الشقيق ثم ابن الأخ لأب ثم العم الشقيق ثم لأب ثم ابن العم الشقيق ثم ابن العم لأب ثم أعمام الأب كذلك الشقيق ثم لأب ثم أبناء عم الأب الشقيق ثم أبناؤه لأب ثم عم الجد الشقيق ثم عم الجد لأب ثم أبناء عم الجد الشقيق ثم أبناؤه لأب وإن سفلوا كل هؤلاء تثبت لهم ولاية الإجبار على البنت والذكر في حال صغرهما وحال كبرهما إذاجنا

دفعہ9۔عصبہ کے علاوہ دیگر  رشتہ داروں کا حق ولایت:

(قولہ یدفع الی ذوی الارحام عند ابی حنیفہ کاخ من ام)افاد ان المراد من ذوی الارحام ھنا غیر ذوی الارحام المذکور ین فی الفرائض فان ذا الرحم فی الفرائض کل قریب لیس بذی سہم ولاعصبۃ فالاخ من ا لام من ذوی الارحام لانہ صاحب سہم واما ذو الرحم ھنا فالمراد بہ کل قریب ذی رحم محرم من المحضون وغیر عصبۃ فان کلا من ممن ذکرہ الشارح من الاخ للام والعم من م والخال قریب ذورحم محرم من المحضون وھو غیر عصبۃ لہ وانما فسرنا ذاالرحم ھنا بما ذکرنا ہ بدلالۃ التمثیل ولانا لو اجرینا قولہ یدفع الی ذوی الارحام علی اطلاقہ لیشمل من کان ذارحم من النساء ولم یکن محرما لتناقض مع قولہ سابقا ولاحق لبنات العمۃ والخالۃ فی الحضانۃ لانھن غیر محرم فان قولہ ولا حق لبنات العمۃ نکرۃ فی سیاق النفی فتعم فلا یکون لبنات العمۃ والخالۃ فی الحضانۃ حق فی حالۃ ما من الحالات والتعلیل المذکور وھو قولہ لانھن غیر محرم یفید ان حق الحضانۃ لایستحقہ من لانساء لامن اتصفت بالمحرمیۃ بخلاف ولایۃ الانکاح فانھا لاتفید بحرمیۃ وقد ذکر فی البزازیۃ ان بنت العمۃ لھا ولایۃ الانکاح،والحاصل ان ولایۃ الانکاح منوطۃ بالرحمیۃ فقط وحق الحضانۃ منوط بالرحمیۃ مع المحرمیۃ ھذا ماظھر لکاتبہ حال المطالعۃ واللہ اعلم بالصواب۔حاشیۃ الشلبی علی التبیین ۳؍۳۸ط:بولاق مصر

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (3 / 133)

قوله ( وإن لم يكن عصبة فالولاية للأم ثم للأخت لأب وأم ثم لأب ثم لولد الأم ثم لذوي الأرحام ثم للحاكم ) وهذا عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى وعندهما ليس لغير العصبات من الأقارب ولاية وإنما الولاية للحاكم بعد العصبات لحديث الإنكاح إلى العصبات ولأبي حنيفة رضي الله عنه أن الولاية نظرية والنظر يتحقق بالتفويض إلى من هو المختص بالقرابة الباعثة على الشفقة  وقد اختلفوا في قول أبي يوسف ففي الهداية الأشهر أنه مع محمد وفي الكافي الجمهور أنه مع أبي حنيفة وفي التبي والجوهرة والمجتبى والذخيرة الأصح أنه مع أبي حنيفة وفي تهذيب القلانسي وروى ابن زياد عن أبي حنيفة وهو قولهما لا يليه إلا العصبات وعليه الفتوى ا هـ  وهو غريب لمخالفته المتون الموضوعة لبيان الفتوى ولم يذكر المصنف بعد الأم البنت لأن خاص بالمجنون والمجنونة فبعد الأم البنت ثم بنت الابن ثم بنت ابن الابن ثم بنت بنت البنت

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (3 / 133)

وأفاده المصنف رحمه الله بتقديم الأم على الأخت تضعيف ما نقله في المستصفي عن شيخ الإسلام خواهر زاده رحمه الله ونقله في التجنيس عن عمر النسفي رحمه الله من أن الأخت الشقيقة أولى من الأم لأنها من قبل الأب ووجه ضعفه أن الأم أقرب منها وصرح في الخلاصة بأنه يفتي بتقديم الأم على الأخت وسيأتي في آخر المختصر أن ذا الرحم قريب ليس بذي سهم ولا عصبة وأن ترتيبهم كترتيب العصبات فتقدم العمات ثم الأخوال ثم الخالات ثم بنات الأعمام ثم بنات العمات كترتيب الإرث وهو قول الأكثر  وظاهر كلام المصنف أن الجد الفاسد مؤخر عن الأخت لأنه من ذوي الأرحام وذكر المصنف في المستصفى أن الجد الفاسد أولى من الأخت عند أبي حنيفة وعند أبي يوسف الولاية لهما كما في الميراث وفي فتح القدير وقياس ما صح في الجد والأخ من تقدم الجد تقدم الجد الفاسد على الأخت ا هـ  فثبت بهذا أن المذهب أن الجد الفاسد بعد الأم قبل الأخت وفي القنية أم الأب أولى في التزويج من الأم

 

دفعہ 10 ۔قرابت داروں کے بعد قاضی کا حق ولایت :

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (3 / 134)

وأطلق في الحاكم فشمل الإمام والقاضي لكن قالوا إن القاضي إنما يملك ذلك إذا كان ذلك في عهده ومنشوره فإن لم يكن ذلك في عهده لم يكن وليا  كذا في الظهيرية وغيرها  وفي المجتبى ما يفيد أن لنائب القاضي ولاية التزويج حيث كان القاضي كتب له في منشوره ذلك فإنه قال ثم السلطان ثم القاضي ونوابه إذا اشترط في عهده تزويج الصغار والصغائر وإلا فلا ا هـ  بناء على هذا الشرط إنما هو في حق القاضي دون نوابه ويحتمل أن يكون شرطا فيهما فإذا كتب في منشور قاضي القضاة فإن كان ذلك في عهد نائبه منه ملكه النائب وإلا فلا ولم أر فيه منقولا صريحا  وفي الظهيرية فإن زوجها القاضي ولم يأذن له السلطان ثم أذن له بذلك فأجاز القاضي ذلك جاز استحسانا وفي غاية البيان ولو زوج القاضي الصغيرة من ابنه كان باطلا

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (3 / 79

ثم للسلطان ثم لقاض نص له عليه في منشوره ) ثم لنوابه إن فوض له ذلك وإلا لا

حاشية رد المختار على الدر المختار - (3 / 79

 قوله ( نص له عليه في منشوره ) أي على تزويج الصغار والمنشور ما كتب فيه السلطان إني جعلت فلانا قاضيا ببلدة كذا وإنما سمي به لأن القاضي ينشره وقت قراءته على الناس  قهستاني

 وسنذكر في مسألة عضل الأقرب أنه تثبت الولاية فيها للقاضي وإن لم يكن في منشوره أي لأن ثبوت الولاية له فيها بطريق النيابة عن الأب أو الجد الفاضل دفعا لظلمه فيحمل ما هنا على ما إذا ثبتت له الولاية لا بطريق النيابة

 تأمل  قوله ( أن فوض له ذلك وإلا فلا ) أي وإن لم يفوض للقاضي التزويج فليس لنائبه ذلك لما في المجتبى ثم للقاضي ونوابه إذا شرط في عهده تزويج الصغار والصغائر وإلا فلا اه

 قال في البحر هذا بناء على أن هذا الشرط إنما هو في حق القاضي دون نوابه ويحتمل أن يكون شرطا فيهما فإذا كتب في منشور قاضي القضاة فإن كان ذلك في عقد نائبه منه ملكه النائب وإلا فلا ولم أر فيه منقولا صريحا اه

 وحاصله أن القاضي إذا كان مأذونا بالتزويج فهل يكفي ذلك لنائبه أم لا بد أن ينص القاضي لنائبه على الإذن وعبارة المجتبى محتملة والمتبادر منها الأول وما في النهر من أن ما في المجتبى لا يفيد عدم اشتراط تفويض الأصيل للنائب كما توهمه في البحر رده الرملي بأن كيف لا يفيد مع إطلاقه في نوابه والمطلق يجري على إطلاقه ووجهه أنه لما فوض لهم ما له ولايته التي من جملتها التزويج صار ذلك من جملة ما فوض إليهم وقد تقرر أنهم نواب السلطان حيث أذن له بالاستنابة عنه فيما فوضه إليه اه فافهم

 قلت لكن قال في أنفع الوسائل الظاهر أن النائب الذي لم ينص له القاضي على تزويج الصغائر لا يملكه لأنه إن كان فوض إليه الحكم بين الناس فهذا مخصوص بالرافعات فلا يتعدى إلى التزويج وكذا لو قال استنبتك في الحكم أما لو قال له استنبتك في جميع ما فوض إلى السلطان فيملكه حيث عمم له اه ثم استظهر في أنفع الوسائل أنه إذا ملك التزويج ليس له أن يأذن به لغيره لأنه بمنزلة الوكيل عن القاضي وليس للوكايل أن يوكل إلا بإذن اه قوله ( وليس للوصي ) أي وصي الصغير والصغيرة بحر واليتيم بوزن فعيل يشملهما

 

دفعہ 11۔علماء اور جماعت مسلمین کا حق ولایت:

حاشية رد المختار على الدر المختار - (3 / 67)

ثم قال وكذا السكران لو زوج من غير الكفء كما في الخانية وبه علم أن المراد بالأب من ليس بسكران ولا عرف بسوء الاختيار اه  قلت ومقتضى التعليل أن السكران أو المعروف بسوء الاختيار لو زوجها من كفء بمهر المثل صح لعدم الضرر المحض ومعنى قوله والظاهر من حال الصاحي أنه يتأمل أي أنه لوفور شفقته بالأبوة لا يزوج بنته من غير كفء أو بغبن فاحش إلا لمصلحة يزيد على هذا الضرر كعلمه بحسن العشرة معها وقلة الأذى ونحو ذلك وهذا مفقود في السكران وسيىء الاختيار إذا خالف لظهور عدم رأيه وسوء اختياره في ذلك سوء اختیار

قوله ( وإن عرف لا يصح النكاح ) استشكل ذلك في فتحر القدير بما في النوازل لو زوج بنته الصغيرة ممن ينكر أنه يشرب المسكر فإذا هو مدمن له وقالت لا أرضى بالنكاح أي ما بعد ما كبرت إن لم يكن يعرفه الأب بشربه وكان غلبة أهل بيته صاحلين فالنكاح باطل لأنه إنما زوج على ظن أنه كفء اه  قال إذ يقتضي أنه لو عرف الأب بشربه فالنكاح نافذ مع أن من زوج بنته الصغيرة القابلة للتخلق بالخير والشر ممن يعلم أنه شريب فاسق فسوء اختياره ظاهر  ثم أجاب بأنه لا يلزم من تحقق سوء اختياره بذلك أن يكون معروفا به فلا يلزم بطلان النكاح عند تحقق سوء الاختيار مع أنه لم يتحقق للناس كونه معروفا بمثل ذلك اه

 والحاصل أن المانع هو كون الأب مشهورا بسوء الاختيار قبل العقد فإذا لم يكن مشهورا بذلك ثم زوج بنته من فاسق صح وإن تحقق بذلك أنه سيىء الاختيار واشتهر به عند الناس فلو زوج بنتا أخرى من فاسق لم يصح الثاني لأنه كان مشهورا بسوء الاختيار قبله بخلاف العقد الأول لعدم وجود المانع قبله ولو كان المانع مجرد تحقق سوء الاختيار بدون الاشتهار لزم إحالة المسألة أعني قولهم ولزم النكاح ولو بغبن فاحش أو بغير كفء إن كان الولي أبا أو جدا

وكذا السكران لو زوج من غير الكفء كما في الخانية وبه علم أن المراد بالأب من ليس بسكران ولا عرف بسوء الاختيار اه

 قلت ومقتضى التعليل أن السكران أو المعروف بسوء الاختيار لو زوجها من كفء بمهر المثل صح لعدم الضرر المحض ومعنى قوله والظاهر من حال الصاحي أنه يتأمل أي أنه لوفور شفقته بالأبوة لا يزوج بنته من غير كفء أو بغبن فاحش إلا لمصلحة يزيد على هذا الضرر كعلمه بحسن العشرة معها وقلة الأذى ونحو ذلك وهذا مفقود في السكران وسيىء الاختيار إذا خالف لظهور عدم رأيه وسوء اختياره في ذلك

 قوله ( أي غير الأب وأبيه ) الأولى أن يزيد والابن والمولى لما مر

دفعہ 13۔باپ دادا،بیٹا کے علاوہ اولیاء کا نکاح کب لازم ہے:

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (3 / 66)

 ولزم النكاح ولو بغبن فاحش ) بنقص مهرها وزيادة مهره ( أو ) زوجها ( بغير كفء إن كان الولي ) المزوج بنفسه بغبن ( أبا أو جدا ) وكذا المولى وابن المجنونة ( لم يعرف منهما سوء الاختيار ) مجانة وفسقا( وإن عرف لا ) يصح النكاح اتفاقا وكذا لو كان سكران فزوجها من فاسق أو شرير أو فقير أو ذي حرفة دنيئة لظهور سوء اختياره فلا تعارضه شفقته المظنونة

 بحر ( وإن كان المزوج غيرهما ) أي غير الأب وأبيه ولو الأم أو القاضي

أو وكيل الأب لكن في النهر بحثا لو عين لوكيله القدر صح ( لا يصح ) النكاح ( من غير كفء أو بغبن فاحش ) أصلا ) وما في صدر الشريعة صح ولهما فسخه وهم ( وإن كان من كفء وبمهر المثل صح و ) لكن ( لهما ) أي لصغير وصغيرة وملحق بهما ( خيار الفسخ ) ولو بعد الدخول ( بالبلوغ أو العلم بالنكاح بعده ) لقصور الشفقة

القاضي إذا زوج صغيرة من نفسه فهو نكاح بغير ولي ؛ لأنه رعية في حق نفسه ، وإنما الحق للذي هو فوقه وهو الوالي وهو في حق نفسه أيضا رعية وكذلك الخليفة في حق نفسه رعية ، كذا في المحيط .ويجوز لابن العم أن يزوج ابنة عمه من نفسه ، كذا في الحاوي والقاضي إذا زوج الصغيرة من ابنه لا يجوز بخلاف سائر الأولياء ، كذا في التجنيس والمزيد .

الفتاوى الهندية - (7 / 20

القاضي إنما يملك إنكاح من يحتاج إلى الولي إذا كان ذلك في عهده ومنشوره ، وإن لم يكن ذلك في عهده لم يكن وليا فإن زوجها القاضي ولم يأذن السلطان له بذلك ثم أذن له بذلك فأجاز القاضي ذلك النكاح ؛ جاز استحسانا ، كذا في فتاوى قاضي خان وهو الصحيح ، كذا في محيط السرخسي

 البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (3 / 128)

إذا كان أحدهما أقرب من الآخر فلا ولاية للأبعد مع الأقرب إلا إذا غاب غيبة منقطعة فنكاح الأبعد يجوز إذا وقع قبل عقد الأقرب

دفعہ15۔تعدد اولیاءکی صورت میں ولی کون ہے :

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (3 / 128)

إذا كان أحدهما أقرب من الآخر فلا ولاية للأبعد مع الأقرب إلا إذا غاب غيبة منقطعة فنكاح الأبعد يجوز إذا وقع قبل عقد الأقرب

الفتاوى الهندية - (7 / 26

وإذا اجتمع للصغير والصغيرة وليان مستويان كالأخوين والعمين فأيهما زوج جاز عندنا ، كذا في فتاوى قاضي خان .سواء أجاز الآخر أو فسخ بخلاف الجارية بين الاثنين زوجها أحدهما لا يجوز إلا بإجازة الآخر قال في الفتاوى : والجارية بين الاثنين إذا جاءت بولد فادعياه حتى ثبت النسب من كل واحد منهما ينفرد كل واحد منهما بالتزويج ، كذا في السراج الوهاج .زوجاها على التعاقب جاز الأول دون الثاني ، وإن زوجها كل واحد منهما من رجل آخر فوقعا معا أو لا يعلم أيهما أول ؛ بطل العقدان ، كذا في فتاوى قاضي خان

 

دفعہ16۔اولیاء  کے تصرفات کا حکم :

الفتاوى الهندية - (7 / 30)

فإن وقع عقد الأقرب والأبعد معا فلا يجوز كلاهما وكذلك إذا كان لا يدرى السابق من اللاحق هكذا في شرح الطحاوي .

 فإن زوج كل واحد من الوليين رجلا على حدة فالأول يجوز والآخر لا يجوز وإن وقعا معا ساعة واحدة لا يجوز كلاهما ولا واحد منهما وإن كان أحدهما قبل الآخر ولا يدري السابق من اللاحق

فكذلك لا يجوز لأنه لو جاز جاز بالتحري والتحري في الفروج حرام

حاشية رد المختار على الدر المختار - (3 / 81

قوله ( فإن لم يدر ) ينبغي أنها لو بلغت وادعت أن أحدهما هو الأول يقبل لما في الفتح ولو زوجها أبوها وهي بكر بالغة بأمرها وزوجت هي نفسها من آخر فإيهما قالت هو الأول فالقول لها وهو الزوج لأنها أقرت بملك النكاح له على نفسها وإقرارها حجة تامة عليها وإن قالت لا أدري الأول ولا يعلم من غيرها فرق بينهما وكذا لو زوجها وليان بأمرها اه

الفتاوى الهندية - (7 / 26

وإذا اجتمع للصغير والصغيرة وليان مستويان كالأخوين والعمين فأيهما زوج جاز عندنا ، كذا في فتاوى قاضي خان .سواء أجاز الآخر أو فسخ بخلاف الجارية بين الاثنين زوجها أحدهما لا يجوز إلا بإجازة الآخر قال في الفتاوى : والجارية بين الاثنين إذا جاءت بولد فادعياه حتى ثبت النسب من كل واحد منهما ينفرد كل واحد منهما بالتزويج ، كذا في السراج الوهاج .زوجاها على التعاقب جاز الأول دون الثاني ، وإن زوجها كل واحد منهما من رجل آخر فوقعا معا أو لا يعلم أيهما أول ؛ بطل العقدان ، كذا في فتاوى قاضي خان

دفعہ17 ۔ولی اقرب کا نکاح سے گریز:

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (3 / 136)

 لكن ما المراد بالعضل فيحتمل أن يمتنع من تزويجها مطلقا ويحتمل أن يكون أعم من الأول ومن أن يمتنع من تزويجها من هذا الخاطب الكفء ليزوجها من كفء غيره وهو الظاهر ولم أره صريحا

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (3 / 136)

وقيد بالغيبة لأن الأقرب إذا عضلها يثبت للأبعد ولاية التزويج بالإجماع  كذا في الخلاصة  وبه اندفع ما ذكره السروجي من أنه تثبت للقاضي وقيد بالتزويج لأنه ليس للأبعد التصرف في المال وهو للأقرب لأن رأيه منتفع به في مالها بأن ينقل إليه ليتصرف في مالها  كذا في المحيط  قالوا وإذا خطبها كفء وعضلها الولي تثبت الولاية للقاضي نيابة عن العاضل فله التزويج وإن لم يكن في منشوره لكن ما المراد بالعضل فيحتمل أن يمتنع من تزويجها مطلقا ويحتمل أن يكون أعم من الأول ومن أن يمتنع من تزويجها من هذا الخاطب الكفء ليزوجها من كفء غيره وهو الظاهر ولم أره صريحا

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (3 / 136)

 

دفعہ 18۔ولی کی رضامندی کب ثابت ہوگی :

حاشية رد المختار على الدر المختار - (3 / 81

 أن البالغة لو زوجت نفسها غير كفء فللولي الاعتراض ما لم يرض صريحا أو دلالة كقبض المهر ونحوه فلم يجعلوا سكوته إجازة والظاهر أن سكوته هنا كذلك فلا يكون سكوته إجازة لنكاح الأبعد وإن كان حاضرا في مجلس العقد ما لم يرض صريحا أو دلالة

دفعہ 19 ۔ولی اقرب  کی غیر موجودگی میں ولی ابعد کا نابالغ کانکاح کرنا:

 فلو زوجها حيث هو لا رواية فيه وينبغي أن لا يجوز لانقطاع ولايته ، كذا في محيط السرخسي ، وإن زوجها الأقرب حيث هواختلفوا فيه والظاهر هو الجواز ، كذا في فتاوى قاضي خان والظهيرية

دفعہ20 ۔ولی کا صغیرہ کے نکاح کا اقرار:

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (3 / 127)

 وقيد المصنف بالإنكاح لأن الولي إذا أقر بالنكاح على الصغيرة لم يجز إلا بشهود أو بتصديقها بعد البلوغ عند أبي حنيفة رضي الله عنه وقالا يصدق

حاشية رد المختار على الدر المختار - (3 / 65)

قيد بالإنكاح لأن إقراره به عليهما لا يصح إلا بشهودأو بتصديقهما بعد البلوغ كما سيذكره المصنف آخر الباب ولو قال وللولي إنكاح غير المكلف والرقيق لشمل المعتوه ونحوه

ولو أقر ولي صغير أو صغيرة أو ) أقر ( وكيل رجل أو امرأة أو مولى لعبد النكاح لم ينفذ ) لأنه إقرار على الغير بخلاف مولى الأمة حيث ينفذ إجماعا لأن منافع بضعها ملكه ( إلا أن يشهد الشهود على النكاح ) بأن ينصب القاضي خصما عن الصغير حتى ينكر فتقام البينة عليه ( أو يدرك الصغير أو الصغيرة فيصدقه ) أي الولي المقر

حاشية رد المختار على الدر المختار - (3 / 83

 قوله( ولو أقر الخ ) قال الحاكم الشهيد في الكافي الجامع لكتب ظاهر الرواية وإذا أقر الأب أو غيره من الأولياء على الصغير أو الصغيرة بالنكاح أمس لم يصدق على ذلك إلا بشهود أو تصديق منهما بعد الإدراك في قول أبي حنيفة۔۔۔

 وقال أبو يوسف ومحمد الإقرار من هؤلاء في جميع ذلك جائز وكذلك إقرار الوكيل على موكله على هذا الاختلاف اه

 ونقل في الفتح عن المصفى عن أستاذه الشيخ حميد الدين أن الخلاف فيما إذا أقر الولي في صغرهما وإليه أشار في المبسوط وغيره قال وهو الصحيح وقيل فيما إذا بلغها وأنكرا فأقر الولي أما لو أقر في صغرهما يصح اتفاقا واستظهره في الفتح وقد علمت أن الأول ظاهر الرواية وأنه الصحيح

 

دفعہ20۔ولی کا اپنے ولایت سے کیے ہوئے نکاح سے انکار:

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (3 / 128)

 وفي الظهيرية صغيرة زوجها وليها من كفء ثم قال لست أنا بولي لا يصدق ولكن ينظر إن كانت ولايته ظاهرة جاز النكاح وإلا فلا اه

دفعہ 21۔غیر مکلف کی ایک سے زائد شادیاں :

الدر المختار3 / 84

 فرع هل لولي مجنون ومعتوه تزويجه  أكثر من واحدة لم أره ومنعه الشافعي وجوزه في الصبي للحاجة

حاشية رد المختار على الدر المختار - (3 / 84

 قوله ( هل لولي مجنون الخ ) البحث لصاحب النهر والظاهر أن الصبي في حكم من ذكر ط  قوله ( ومنعه الشافعي ) لاندفاع الضرورة بالواحدة   قوله ( وجوزه ) أي تزويج أكثر من واحدة

وفی فقہ الحانبلۃ ان ابا بکر قال لیس للاب تزویج البالغ المعتوہ بحال،ویر القاضی جواز تزویجہ عند الحاجۃ کاشافعی اما المجنونۃ فیری انہ لا یزوجھا الاالحاکم ورای ابن حزم فی المجنون والمجنونۃ الکبیرین ناہ لایزوجھما احد لااب ولاغیرہ۔زرقاوی

دفعہ 22۔نابالغ کے نکاح میں بھی کفاء ت کا اعتبار ہے:

حاشية رد المختار على الدر المختار - (3 / 68)

 مطلب مهم هل للعصبة تزويج الصغير امرأة غير كفء له  تنبيه ذكر في شرح المجمع أن تزويج الأب الصغير والصغيرة من غير كفء أو بغبن فاحش جائز عنده لا عندهما ثم قال وفي المحيط الوكيل بالنكاح إذا زاد أو نقص عن مهر المثل فعلى هذا الاختلاف اه

 وهذا خلاف ما ذكره الشارح تبعا لما في البحر عن القنية

 وقد يجاب بأن الوكيل في عبارة شرح المجمع ليس المراد به وكيل الأب بل وكيل الزوج أو الزوجة البالغين بقرينة ما في البدائع حيث ذكر الخلاف السابق ثم قال وعلى هذا الخلاف التوكيل بأن وكل رجل رجلا بأن يزوجه امرأة فزوجه بأكثر من مهر مثلها مقدار ما لا يتغابن الناس في مثله أو وكلت امرأة رجلا بأن يزوجها من رجل فزوجها بدون صداق مثلها أو من غير كفء اه

 وقدمناه أيضا عن البزازية وعليه فلا منافاة فتدبر

 قوله ( لا يصح النكاح من غير كفء ) مثله قول الكنز ولو زوج طفلة غير كفء أو بغبن فاحش صح ولا يجز ذلك لغير الأب والجد ومقتضاه أن الأخ لو زوج أخاه الصغير امرأة أدنى منه لا يصح وفيه ما مر عن الشرنبلالية من أن الكفاءة لا تعتبر للزوج كما سيأتي في بابها أيضا

 وقدمنا أن الشارح أشار إلى ذلك أيضا وقد راجعت كثيرا فلم أر شيئا صريحا في ذلك نعم رأيت في البدائع مثل ما في الكنز حيث قال وأما إنكاح الأب والجد الصغير الصغيرة فالكفاءة فيه ليست بشرط عند أبي حنيفة لصدوره ممن له كمال النظر لكمال الشفقة بخلاف إنكاح الأخ والعم من غير كفء فإنه لا يجوز بالإجماع لأنه ضرر محض اه

 فقوله بخلاف الخ ظاهر في رجوعه إلى كل من الصغير والصغيرة وعلى هذا فمعنى عدم اعتبار الكفاءة للزوج أن الرجل لو زوج نفسه من امرأة أدنى منه ليس لعصباته حق الاعتراض بخلاف الزوجة وبخلاف الصغيرين إذا زوجهما غير الأب والجد هذا ما ظهر لي وسنذكر في أول باب الكفاءة ما يؤيده والله أعلم

 

دفعہ22۔مندرجہ ذیل افراد کو نکاح نابالغان کا اختیار نہیں :

حاشية رد المختار على الدر المختار - (3 / 55) - (3 / 68)

سواء أوصى إليه الأب بذلك أم لا وفي رواية يجوز وكذا سواء عين له الموصي رجلا في حياته أو لا خلافا لما في فتح القدير كما سيأتيقوله ( لو عين لوكيله القدر ) أي الذي هو غبن فاحش  نهر  وكذا لو عين له رجلا غير كفء كما بحثه العلامة المقدسي

الفتاوى الهندية - (7 / 22)

الوصي لا ولاية له في إنكاح الصغير والصغيرة سواء أوصى إليه الأب أو لم يوص إلا إذا كان الوصي وليهما فحينئذ يملك الإنكاح بحكم الولاية لا بحكم الوصاية ، كذا في المحيط .ولو كان الصغير والصغيرة في حجر رجل يعولهما كالملتقط ونحوه فإنه لا يملك تزويجهما ، كذا في فتاوى قاضي خان .

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (3 / 135)

وأشار المصنف إلى أن وصي الصغير والصغيرة إذا لم يكن قريبا ولا حاكما فإنه ليس له ولاية التزويج سواء كان أوصى إليه الأب في ذلك أو لم يوص  وروى هشام عن أبي حنيفة إن أوصى إليه الأب جاز له  كذا في الخانية والظهيرية وبه علم أن ما في التبيين من أنه ليس له ذلك إلا أن يفوض إليه الموصي ذلك رواية هشام وهي ضعيفة واستثنى في فتح القدير ما إذا كان الموصي عين رجلا في حياته للتزويج فيزوجها الوصي كما لو وكل في حياته بتزويجها ا هـ

 وفيه نظر لأنه إن زوجها من المعين قبل موت الموصي فليس الكلام فيه لأنه ليس بوصي وإنما هو وكيل وإن كان بعد موته فقد بطلت الوكالة بموته وانقطعت ولايته فانتقلت الولاية للحاكم عند عدم قريب  وفي الظهيرية ومن يعول صغيرا أو صغيرة لا يملك تزويجهما

دفعہ23۔نابالغ کا نکاح کب باطل ہے:

الفتاوى الهندية - (7 / 33)

سئل القاضي بديع الدين عن صغيرة زوجت نفسها من كفء ولا ولي لها ولا قاضي في ذلك الموضع قال : ينعقد ويتوقف على إجازتها بعد بلوغها ، كذا في التتارخانية

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (3 / 134)

صغيرة زوجت نفسها ولا ولي لها ولا قاضي في ذلك الموضع قال يتوقف وينفذ بإجازتها بعد بلوغها ا هـ  مع أنهم قالوا كل عقد لا مجيز له حال صدوره فهو باطل لا يتوقف ولعل التوقف فيه باعتبار أن مجيزه السلطان كما لا يخفى  وفي النوازل والذخيرة امرأة جاءت إلى قاض

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (3 / 80

 صغيرة زوجت نفسها ولا ولي ولا حاكم ثمة توقف ونفذ بإجازتها بعد بلوغها لأنه له مجيزا وهو السلطان

حاشية رد المختار على الدر المختار - (3 / 80

قوله ( ولا حاكم ثمة ) أي في موضع العقد  توقف الخ هذا قول بعض المتأخرين ففي أحكام الصغار فإن كانت في موضع لم يكن فيه قاض إن كان ذلك الموضع تحت ولاية قاضي تلك البلدة ينعقد ويتوقف على إجازة ذلك القاضي وإلا فلا ينعقد

 وقال بعض المتأخرين ينعقد ويتوقف على إجازتها بعد البلوغ اه  واستشكله في البحر بأنهم قالوا كل عقد لا مجيز له حال صدوره فهو باطل لا يتوقف

 ثم قال التوقف فيه باعتبار أن مجيزه السلطان كما لا يخفى اه وهذا مبني على كفاية كون ذلك المكان تحت ولاية السلطان وإن لم يكن تحت ولاية قاض وعليه فبطلان العقد يتصور فيما إذا كان في دار الحرب أو البحر أو المفازة ونحو ذلك بخلاف القرى والأمصار ويدل عليه ما في الفتح في فصل الوكالة بالنكاح حيث قال وما لا مجيز له أي ما ليس له من يقدر على الإجازة يبطل كما إذا كانت تحته حرة فزوجه الفضولي أمة أو أخت امرأته أو خامسة أو زوجه معتدة أو مجنونة أو صغيرة يتيمة في دار الحرب أو إذا لم يكن سلطان ولا قاض لعدم من يقدر على الإمضاء حالة العقد فوقع باطلا اه

 .

دفعہ27۔نابالغہ سے تعلقات زن شوئی:

نابالغہ کی صحت  جسمانی اگر ایسی ہے کہ جماع کے قابل ہے اور مرض کا اندیشہ نہیں  تو اس سے جماع جائز ہے ،اگر چہ اس کی عمر نوسال سے کم ہی کیوں نہ ہواور اگر وہ  بوجہ لاغری وکمزوری جماع کا تحمل نہ کرسکتی ہواور بیماری کا خدشہ ہو تو اس سے تعلق زن شوئی کا قیام ناجائز ہے ،اگر چہ اس کی عمرزیادہ ہو۔

الفتاوى الهندية - (7 / 38)

واختلفوا في وقت الدخول بالصغيرة فقيل لا يدخل بها ما لم تبلغ وقيل يدخل بها إذا بلغت تسع سنين ، كذا في البحر الرائق وأكثر المشايخ على أنه لا عبرة للسن في هذا الباب وإنما العبرة للطاقة إن كانت ضخمة سمينة تطيق الرجال ولا يخاف عليها المرض من ذلك ؛ كان للزوج أن يدخل بها ، وإن لم تبلغ تسع سنين ، وإن كانت نحيفة مهزولة لا تطيق الجماع ويخاف عليها المرض لا يحل للزوج أن يدخل بها ، وإن كبر سنها وهو الصحيح

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (3 / 128)

واختلفوا في وقت الدخول بالصغيرة فقيل لا يدخل بها ما لم تبلغ وقيل يدخل بها إذا بلغت تسع سنين وقيل إن كانت سمينة جسيمة تطيق الجماع يدخل بها وإلا فلاتتمة ليس لغير الأب والجد أن يسلم الصغيرة قبل قبض ما تعورف قبضه من المهر ولو سلمها الأب له أن يمنعها  أفاده ط  وتمامه في البحر  قلت وليس له تسليمها للدخول بها قبل إطاقة الوطء ولا عبرة للسن كما سيدكره الشارح في آخر باب المهر

 

دفعہ28 ۔رخصتی کابیان:

الفتاوى الهندية - (7 / 38)

وإذا نقد الزوج المهر وطلب من القاضي أن يأمر أبا المرأة بتسليم المرأة فقال أبوها : إنها صغيرة لا تصلح للرجال ولا تطيق الجماع وقال الزوج بل هي تصلح وتطيق ينظر إن كانت ممن تخرج أخرجها وأحضرها وينظر إليها فإن صلحت للرجال أمر بدفعها إلى الزوج ، وإن لم تصلح لم يأمره ، وإن كانت ممن لا تخرج أمر من يثق بهن من النساء أن ينظرن إليها فإن قلن : إنها تطيق الجماع وتحتمل الرجال أمر الأب بدفعها إلى الزوج ، وإن قلن : لا تحتمل الرجال لا يؤمر بتسليمها إلى الزوج ، كذا في المحيط . قال بعضهم : إنها باقية إلا أنه حدث للأبعد ولاية بغيبة الأقرب فتصير كأن لها وليين مستويين في الدرجة كالأخوين والعمين ، وقال بعضهم : تزول ولايته وتنتقل إلى الأبعد وهو الأصح ، كذا في البدائع .

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (3 / 128)

وفي الخلاصة صغيرة زوجت فذهبت إلى بيت زوجها بدون أخذ المهر فلمن هو أحق بإمساكها قبل التزويج أن يمنعها حتى يأخذ من له حق أخذ جميع المهر وغير الأب إذا زوج الصغيرة وسلمها إلى الزوج قبل قبض جميع الصداق فالتسليم فاسد وترد إلى بيتها

 قال رحمه الله هذا في عرفهم أما في مما زماننا فتسليم جميع الصداق ليس بلازم والأب إذا سلم البنت إليه قبل القبض له أن يمنعها بخلاف ما لو باع مال الصغير وسلم قبل قبض الثمن فإنه لا يسترد اه  والفرق أن حقوق النقد في الأموال راجعة إليه بخلاف النكاح ولذا ملك الإبراء عن الثمن ويضمن ولا يصح الإبراء عن المهر من الولي

دفعہ29۔عقد کے وقت  ولایت نہ ہو مگر اجازت کے وقت کے حاصل ہوجائے:

ولو زوجها الأبعد حل قيام الأقرب حتى توقف على إجازة الأقرب ثم غاب الأقرب وتحولت الولاية إلى الأبعد لا يجوز ذلك النكاح الذي باشره الأبعد إلا بإجازة منه بعد تحول الولاية إليه هكذا في الظهيرية .واختلف مشايخنا في ولاية الأقرب أنها تزول بالغيبة أم بقيت ؟ .

قال بعضهم : إنها باقية إلا أنه حدث للأبعد ولاية بغيبة الأقرب فتصير كأن لها وليين مستويين في الدرجة كالأخوين والعمين ، وقال بعضهم : تزول ولايته وتنتقل إلى الأبعد وهو الأصح ، كذا في البدائع .

الفتاوى الهندية - (7 / 24

وفي فتاوى أبي الليث رجل زوج ابنه الكبير امرأة فلم يجز حتى جن جنونا مطبقا فأجاز الأب ذلك النكاح ؛ يجوز .وذكر الفقيه أبو بكر في غير هذه الصورة خلافا فقال : الابن إذا بلغ عاقلا ثم جن أو عته فعلى قول أبي يوسف رحمه الله تعالى لا تعود ولاية الأب قياسا حتى لو تصرف في ماله أو زوجه امرأة لا يجوز بل تعود الولاية إلى القاضي وعلى قول محمد رحمه الله تعالى الولاية إلى الأب استحسانا قال الفقيه أبو بكر الميداني : تعود ولاية الأب عند علمائنا الثلاثة ، كذا في الذخيرة