عورتوں کی تعلیم اور طریقہ کار

بسم اللہ الرحمن الرحیم
زیربحث عورتوں کی تعلیم کے مسئلہ میں دوپہلواجاگرکرنے ہیں:
۱۔عورتوں کوتعلیم دینی چاہیے یانہیں؟
۲۔عورتوں کوتعلیم دینےکی کیاصورت اورکیاطریقہ ہوناچاہیے؟
پہلاپہلو
خواتین کی تعلیم شریعت کی نگاہ میں :
اسلامی احکام کاخطاب جس طرح مردوں کوہے اسی طرح عورتوں کوبھی ہے،بلکہ بعض احکام خواتین کے ساتھ ہی مخصوص ہیں،ان حکام کی بجاآوری کے لیے علم کی ضرورت ہے ،اورحصول علم اسلام کے فرائض میں سے ہے ،تحصیل علم کی فرضیت کاخطاب اورآیات قرآنیہ میں غوروفکرکاحکم مرداورعورت دونوں کے لیے ہے،چونکہ علم حیات انسانی کے لوازم میں سے ہے اس لیے اس روشنی کاحصول کسی ایک صنف پرمنحصر نہیں ہے۔کوئی بھی انسان مردہویاعورت جوعلم سے بہرہ مندنہیں وہ حقیقتاً حیات انسانی سے محروم ہے اسی بناء پراہل علم کوزندہ اورجاہل کومردہ کہاگیاہے۔
صاحب شریعت رسول اللہ ﷺ کے اقوال اورآپ کے افعال سے صاف ظاہرہے کہ صنف اناث کے لیے تعلیم کاحصول ضروری ہے،حدیث نبوی ’’طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ومسلمۃ‘‘،لفظ مسلمۃ جواکثرروایتوں میں موجودنہیں اگراسے صحیح تسلیم نہ کیاجائے تب بھی ’’لفظ مسلم‘‘سےمرادہرصاحب اسلام ہے چاہے مردہویاعورت،جیساکہ شریعت کے عمومی احکام میں مخاطب مردووں کوکیاگیاہے لیکن عموم میں عورتیں بھی شامل ہیں۔بعض صحابیات نے رسول کریمﷺسے شکوہ کیاکہ ہمارے مقابلے میں مردوں نے آپ کوگھیرلیاہے ،ہمیں بھی آپ ایک دن عطافرمایئے،آپ ﷺنے ان کی درخواست قبول فرمائی اورایک صحابیہ کے مکان میں عورتوں کے لیے مخصوص اجتماع ہواجس میں مربی اعظمﷺنے انہیں احکام شریعت کی تعلیم دی۔
اسی طرح ایک عیدکے موقعہ پرآپ ﷺنے مردوں سے خطاب فرمایاپھرخیال ہواکہ یہ خطاب عورتوں نے نہیں سناہوگاچنانچہ آپ خودبنفس نفیس عورتوں کے اجتماع کے قریب تشریف لے گیے اوردوبارہ خطبہ ارشادفرمایا۔
مذکورہ بالاارشادنبوی اور ان دونوں واقعات سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ شریعت میں خواتین کے تعلیم کے سلسلہ میں کوئی ممانعت یاحرمت نہیں،البتہ جو علوم ضروری ہیں ان کی تحصیل بھی فرضیت کے درجہ میں ہوگی اورجن علوم کی حیثیت استحباب یامباح ہونے کی ہے ان کی تحصیل کاحکم بھی اسی درجہ کاہوگا۔اس تفصیل سے واضح ہوگیاکہ شریعت نے نہ عورتوں کی تعلیم پرپابندی عائد کی ہے اورنہ ہی عورتوں کوکسی ایسی خدمت کے بجالانے سے منع کیاہے جس میں پردہ کی محافظت ہواوروہ شریعت کی روح کے منافی بھی نہ ہو۔
اسلام بنیادی طورپرعلم وتحقیق اورعصری علوم کاحامی ہے نہ کہ مخالف،عصری علوم زیادہ ترفائدہ منداورنفع بخش بھی ہیں،اوران کے ذریعہ انسانیت کی خدمت بجالائی جاتی ہے،اس لیے عصری علوم جونافع ہوں اگرشرعی حدودکی رعایت کے ساتھ مسلمان لڑکیاں حاصل کریں توکچھ حرج نہیں۔اورانسانی زندگی کے کئی شعبے ایسے ہیں جہاں صرف خواتین ہی کی ضرورت پڑتی ہے ،اورظاہرہے کہ اگرخواتین کی تعلیم پرپابندی ہوتوان شعبوں کے خلاء کوکون پُرکرے گا؟مثلاًمیڈیکل کے شعبہ کے لحاظ سے اورنسوانی امراض کی صورت میں خواتین مردڈاکٹروں کے سامنے بے پردگی کاشکارہوتی ہیں،بلکہ بسااوقات ناخوشگوارواقعات بھی پیش آجاتے ہیں ،لڑکیاں شرعی دائرہ میں رہتے ہوئے یہ تعلیم حاصل کریں اورانسانیت کی خدمت سرانجام دیں تویہ نوبت نہیں آئے گی۔
دوسراپہلو
عورتوں کی تعلیم کے سلسلہ میں کیاطریقہ اختیارکیاجائے اورکیاصورت اختیارکرنی چاہیے؟
اس سلسلہ میں سب سے اہم چیزصنف نازک کے لیے جداتعلیمی اداروں کاقیام اوراختلاط سے دوررکھناہے،ناجائزاختلاط کافتنہ بہت بڑافتنہ ہےاوراس کے نتائج بھی تباہ کن ثابت ہوتے ہیں،ہم اپنے معاشرے میں اس فتنہ کی وجہ سے رونماہونے والے اذیت ناک مسائل اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ،اسی اختلاط کی بناء پراوراس کی وجہ سے رونماہونے والے واقعات کوسامنے رکھتے ہوئے کچھ لوگ صنف نازک کی تعلیم سے مایوس ہوکرمحتاط پہلواختیاکرتے ہیں،اس لیے اولاً خواتین کی عصری تعلیم کے لیے اختلاط کے ماحول کوختم کیاجائے ،خواتین کے تعلیمی اداروں کاقیام ،خواتین کاوہاں جاکرتعلیم حاصل کرنا،اورانہیں مناسب علوم وفنون سکھانایہ تمام اموربلاشبہ مستحسن ہیں۔مگراختلاط کی بناء پریہ تعلیم والدین کے لیے بسااوقات رسوائی کاباعث بن جاتی ہے۔قرآن کریم کی آیات کے علاوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عورتوں کومردوں کے اجتماعات میں شریک ہونے سے منع فرمایاہے،یہاں تک کہ روایات میں ارشادفرمایاعورت کاکوٹھڑی میں نمازپڑھنا دلان میں نمازپڑھنے سے بہترہے اوردلان کی نمازصحن کی نمازسے اورگھرکے صحن کی نمازمسجدمحلہ کی نمازسے اوراورمسجدمحلہ کی نمازمسجدجامع کی نمازسے بہترہے،نیزاحادیث مبارکہ میں عورتوں کوجنازے کے ساتھ جانے سے بھی منع فرمایاگیاہے۔بلکہ مطلقاً عورتوں کاگھروں سے بلاضرورت نکلنااچھانہیں سمجھاگیا۔
اس لیے مندرجہ ذیل تجاویزدی جاتی ہیں کہ :
1۔لڑکیوں کے تعلیمی ادارے صرف لڑکیوں کے لیے مخصوص ہونے چاہئیں۔یعنی مخلوط نظام کویکسرختم کیاجائے،آٹھ نوسال کی عمرتک ابتدائی درجات کی تعلیم میں تعلیم گاہ کااشتراک رکھاجاسکتاہے،لیکن جب بچوں میں سمجھ بوجھ آجائے اوروہ صنفی جذبات کی پہچان کرنے لگ جائیں،توایک ساتھ ان کی تعلیم آگ اوربارودکوایک ساتھ جمع کرنے کی مانندہے،
2۔لڑکیوں کے لیے ان اداروں میں جمع ہونے اورآمدورفت کے لیے ایسے طریقے اختیاکریے جائیں کہ کسی فتنے اورپریشانی کااحتمال باقی نہ رہے۔
3۔عورتوں کی تعلیم کے لیے مردانہ استادوں کی بجائے نیک کردار خواتین اساتذہ کاتقررکیاجائے اوراگرجہاں کہیں خواتین اساتذہ میسرنہ ہوں تومجبوراً نیک صالح اورقابل اعتمادمردوں کومتعین کیاجائے اوران کے احوال کی نگرانی بھی ہو۔
4۔نیزلڑکیوں کے نصاب تعلیم کابھی جائزہ لیاجائے،نصاب میں غیرضروری ،اخلاقیات اورتہذیب کے خلاف موادکوخارج کیاجائے،نیزجوچیزیں مشترکہ ہیں انہیں نصاب میں یکسان رکھاجائے مثلاً زبان وادب،تاریخ ،معلومات عامہ،جغرافیہ،ریاضی،سائنس اورسماجی علوم،لیکن بعض مضامین نصاب کے ایسے ہیں جن میں لڑکے اورلڑکیوں کے درمیان فرق کرناہوگا:مثلاًانجینئرنگ کے شعبے،عسکری تعلیم اورٹیکنکل تعلیم وغیرہ۔نصاب میں عصری علوم کے ساتھ ساتھ دینی کتب بھی شامل کی جائیں جن سے خواتین کوبنیادی دینی مسائل سے آگاہی اوردین سے متعلق معلومات حاصل سے ہوسکیں۔چندایسے دینی رسائل شامل کیے جائیں جس سے عقائد،طہارت،احکام روزہ نماز،نکاح وطلاق سے آگاہی حاصل ہو،بہشتی زیوراس سلسلہ میں مفیداورعام فہم ہے اورخواتین کی دینی ضرورت کے لیے کفایت کرنے والی ہے۔
5۔عورتوں کے لیے ایسے علوم وفنون کااہتمام کیاجائے جن کی معاشرے کوضرورت ہے ،ایسے فنون سے احترازبرتاجائے جوشریعت کے مخالف ہوں اورجن سے بے راہ روی عام ہوتی ہوجیسے رقص وسرود وموسیقی کی تعلیم وغیرہ۔
6۔''امراض نسواں''زمانےسے طب کامستقل موضوع رہاہے ،یہ لڑکیوں کے لیے نہایت ضروری ہے جیساکہ سابق میں ذکرکیاگیا ،اسے اہمیت کے ساتھ توجہ دی جائے،نیزلڑکیوں کی تعلیم میں امورخانہ داری کی تربیت بھی شامل کی جائے کیونکہ اس کاتعلق ان کی معاشرتی زندگی سے ہے،سلائی،کڑھائی،پکوان کے مختلف اصول اوربچوں کی پرورش وتربیت کے طریقے بھی ان کے نصاب تعلیم کاحصہ ہونے چاہئیں۔ازدواجی زندگی کو بہتربنانے اورغیرمتوقع صورت حال میں لڑکیوں کے لیے اپنی کفالت کے یہ آج بھی بہترین وسائل ہیں۔
اگرتعلیمی نصاب پرغورنہ کیاگیااورخامیاں دورکرکے صنف نازک کے مناسب حال مضامین شامل نہ کیے گئے اوردونوں صنفوں کے ایک ہی قسم کے مضامین پڑھائے جانے لگے توجہاں یہ طریقہ تعلیم انسانی معاشرے پرمنفی اثرڈالے گا وہیں عورت کے عورت پن کے رخصت ہونے کابھی انتہائی منحوس سبب ہوگا،لہذا صنف نازک کی فطری نزاکت کے لیے یہی زیب دیتاہے کہ اسے وہی علوم پڑھائے جائیں جواسے زمرہ نسواں ہی میں رکھے۔
مناسب نصاب تعلیم اورمخلوط تعلیم سے احترازپر اس لیے زوردیاگیاکہ مغربی نظام تعلیم اوردرسگاہوں کے مخلوط ماحول نے معاشرے سے اسلامی روح کونکال دیاہے،آج سے سالہاسال قبل بیسویں صدی کےعظیم مفکروفلسفی،عصری تعلیم گاہ سے استفادہ کرنے والے عظیم شاعراورمغربی نظام تعلیم کاانتہائی قریب سے عمیق مطالعہ کرنے والے علامہ اقبال مرحوم نے بھی اس نظام پرکافی بے چینی اوراضطراب کااظہارکیاتھا،ان کے نزدیک اس تعلیم کے پروزورنعرے کامقصد مشرقی خاتون کوبھی یورپی عورت کی طرح بے حیائی اورعصمت باختگی پرمجبورکرناتھا،اس لیے انہوں نے اپنے اشعار میں جابجامخلوط سوسائٹی اورمخلوط طریقہ تعلیم کے تئیں انتہائی نفرت وبیزاری کااظہارکیاتھا۔ضرب کلیم میں لکھا ہے:
''جس علم کی تاثیرسے زن ہوتی ہے نازن کہتے ہیں اسی کوارباب نظرموت
بیگانہ رہے دیں سے اگرمدرسہء زن ہے عشق ومحبت کے لیے علم وہنرموت
خواتین کوتعلیم دی جائے،اسلامی قطعاًاس کی مخالفت نہیں کرتا،بلکہ حوصلہ افزائی کے ساتھ ترغیب دیتاہے اورتاکیدکرتاہے جیساکہ سابق میں ذکرکیاجاچکا،لیکن یہ ملحوظ رہے کہ ان کی تعلیم اورطریقہ وہی ہوجوان کی فطرت ،ان کی لیاقت اوران کی قوت ِ فکروادراک کے مناسب ہو اوران کی عفت وعصمت اورپاکدامنی میں ممدومعاون ہو،نہ کہ ایسی تعلیم جوانہیں زمرہء نسواں سے ہی خارج کردے۔