متن قانونِ ثبوتِ نسب
عائلی قوانین کی دفعہ بندی:
متن قانونِ ثبوتِ نسب (پہلی قسط)
عائلی قوانین میں سے ثبوتِ نسب کے احکام کا دفعہ بند مجموعہ پیش خدمت ہے۔ اختصار کے پیشِ نظردفعات کی تشریحات، متعلقہ مسائل، حوالہ جات، مذاہب اسلامیہ، وطن عزیزاوراسلامی ممالک میں رائج قوانین کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ فقہِ اسلامی کے ابواب میں سے خاص طورپر عائلی قوانین کی صیغہ بندی کی ضرورت اس لیے بھی پیش آئی کہ پاکستان میں مسلم پرسنل لاء (شریعت)اطلاق ایکٹ۱۹۶۲ء مسلمانوں پراُن کے شخصی قوانین کے سلسلے میں شریعت(فقہ اسلامی)کونافذ ٹھہراتا ہے۔ اس ضرورت کو پوراکرنے اور فقہِ اسلامی کو رائج عدالتی اُسلوب میں ڈھالنے کے لیے شخصی قوانین کی دفعہ بندی کی گئی ہے، جو اُمید ہے کہ طلبہ،علماء ،وکلاء اور ججز سمیت عام فقہِ اسلامی سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کے لیے بھی مفید ہوگی۔ فیملی لاء کی دفعہ سازی پر اس سے پہلے جن اہل علم نے کام کیا ہے، ان کاکام اگرچہ وقیع اورقابل قدر ہے، ان کو سبقت کی فضیلت بھی حاصل اور اُمتِ مسلمہ ان کی مشکور ہے۔مگر اللہ پاک کی ذات سے امید ہے کہ یہ کاوش زیادہ دقیق وعمیق اورمفصل وجامع ثابت ہوگی۔ وماذٰلک علی اللّٰہ بعزیز۔ (شعیب عالم)
بابِ اول
متن قانونِ ثبوتِ نسب
(ثبوتِ نسب کے متعلق قرآن وسنت پرمبنی قانون)
تمہید:
ہر گاہ کہ قرینِ مصلحت ہے کہ ثبوتِ نسب سے متعلق قرآن وسنت کے احکامات، اُن پر مبنی فقہی اجتہادات وجزئیات اور جدید تحقیقات کو عصری قوانین کے قالب میں ڈھالا جائے، تاکہ شریعت اور آئین کے اغراض و مقاصد میں سے تحفظِ نسل کا اہم مقصد حاصل کیا جائے، باشندگانِ وطن میں سے ہر ایک کو شناخت وپہچان حاصل ہو، اس کے معاشرتی وقار اور سماجی حیثیت کا تعین ہو، عفت وعصمت کا تحفظ ہو، خاندان کا ادارہ مضبوط ومستحکم ہو، نسلِ انسانی کی بقا اور صحیح النسبی کی صورت میں مملکتِ خداداد کے ہرفرد کو وہ معاشرتی عزت و وقار اور جائز مقام و مرتبہ حاصل ہو، جس کا وہ انسانیت، شریعت اور آئین و قانون کی رو سے مستحق ہے، علی الخصوص تعینِ نسب کی وجہ سے قرابتوں اور رشتوں کی پہچان ہو اور ہر شخص اپنے ذمہ واجب الاداء فرائض اور قابلِ حصول حقوق سے آگاہ ہو، لہٰذا بذریعہ ہٰذا درج ذیل قانون وضع کیا جاتا ہے۔
دفعہ۔1 مختصر عنوان، وسعت اور نفاذ:
الف۔ یہ قانون قانونِ ثبوتِ نسب کہلائے گا ۔
ب۔ اس قانون کا نفاذ اس تاریخ سے ہوگا جو آئین کے تحت مجاز فرد، ادارہ یا ہیئت جیسی صورت ہو، اس کے لیے تجویز کرے ۔
دفعہ۔2تعریفات:
اس قانون میں تاوقتیکہ سیاق و سباق عبارت سے کچھ اور مطلب ومفہوم نہ نکلتاہو، درج ذیل الفاظ کے وہی معنی لیے جائیں گے جو بذریعہ ہٰذا بالترتیب ان کے لیے مقرر کیے گئے ہیں، یعنی:
(1)نکاح
مرد وزن کے مابین مخصوص شرعی شرائط کے تابع وجود میں آنے والے ایک ایسے معاہدے کا نام ہے، جس کے تحت فریقین کے مابین صنفی تعلقات روا، پیداہونے والی اولاد کا نسب درست اور باہم حقوق وفرائض عائد ہوجاتے ہیں۔
(2)نکاحِ صحیح
ایسا نکاح جواپنے تمام ارکان اور ضروری شرائط کی بجا آوری کے ساتھ انجام دیا گیا ہو۔
(3)نکاحِ فاسد
وہ ہے جس میں صحتِ نکاح کی شرائط میں سے کوئی شرط یا شرائط مفقود ہوں، بالفاظِ دیگر جس میں صحتِ نکاح کی کسی شرط یا شرائط کی تعمیل نہ کی گئی ہو۔ قبل الدخول اس کا وہی حکم ہے جو نکاح باطل کا ہے۔
(4)نکاحِ باطل
جوازروئے شرع کالعدم اورسرے سے منعقد ہی نہ ہو۔ نکاحِ باطل نتیجے کے لحاظ سے بے اثر رہتا ہے اور اس سے فریقین کے درمیان کوئی ازدواجی حق قائم نہیں ہوتا۔
(5)شبہ
جو ثابت نہ ہو، مگر ثابت کے مشابہ ہو۔
(6)شبہۃ المحل
جو شبہ‘محل کو حلال قرار دینے والی دلیل کی بنا پر پیدا ہو، وہ’’ شبہۃ المحل’’ ہے۔ اس کو شبۂ ملک، شبۂ مملوک، شبۂ حکمیہ بھی کہتے ہیں، اس کی مثال بیٹے کی باندی سے وطی کرنا ہے۔
(7)شبہۃ العقد
عقد صورۃً موجود ہو، لیکن حقیقۃً موجود نہ ہو، جیسے محارم سے نکاح کرکے وطی کی جائے۔
(8)شبہۃ الفعل
جس شخص پر حرمت اور حلت مشتبہ ہوجائے اور وہ اپنے قصورِ فہم کی بنا پر غیر دلیل کو جواز کی دلیل سمجھ کر ارتکاب کربیٹھے۔ اس قسم کی مثالیں جیسے: طلاق بائن کی عدت میں بیوی سے صحبت کرنا، اسی طرح باپ کی یا زوجہ کی باندی سے جماع یا طلاق بالمال دینے کے بعد مطلقہ سے جماع کرنا، وغیرہ۔
(9)فراش
عورت ایک ہی شخص کے واسطے بچے پیدا کرنے کے لیے متعین ہو۔ نکاحِ صحیح میں ثبوتِ فراش کا مطلب ہے کہ استقرارِحمل کے وقت زن وشومیں زوجیت کا رشتہ قائم تھا، اس لیے عقدِ نکاح سے فراش کا بھی تعین ہوجاتاہے اور حمل کے لیے نقطۂ آغاز بھی قرار پاتا ہے۔
نکاحِ فاسد میں مفتیٰ بہ قول کے مطابق فراش کا تحقق، ’’دخول‘‘ سے ہوتا ہے، اس لیے حمل کی مدت بھی دخول کے بعد محسوب ہوتی ہے۔
(10)ولد الملاعنہ:
وہ بچہ جس کی ولدیت لعان کی کارروائی کے سبب مجاز عدالت نے باپ سے قطع کردی ہو۔
(11)عدت
نکاح کے آثار کے خاتمے کے لیے شریعت نے عورت کے واسطے جو مدت مقرر کی ہے، اس کا نام’’ عدت‘‘ ہے یانکاح یا شبہ نکاح کے زوال کے بعد عورت کاایک مدت تک انتظار کرنا’’عدت‘‘ کہلاتا ہے۔
(12)مراہقہ
قریب البلوغ لڑکی جس سے جماع ممکن ہو۔
(13)مراہق
قریب البلوغ لڑکا، جو بلوغ کی اقل مدت کو پہنچ چکا ہو، مگر بلوغ کی کوئی علامت نہ پائی جاتی ہو۔ بلوغت کی اقل مدت لڑکی کے لیے نو سال، لڑکے کے لیے بارہ سال اور اکثر مدت دونوں کے لیے پندرہ سال ہے۔
(14) کبیرہ
بالغہ لڑکی مراد ہے۔
(15)آیسہ
جس کو صغر سنی یا کبر سنی کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو یا پاکی کے ایام کی طوالت کی وجہ سے، شریعت اس کو بحکمِ آیسہ گردانتی ہو۔
(16) مدخولہ
جس عورت سے اس کے شوہر نے حقیقی طور پر صحبت کی ہو۔
(17)غیر مدخولہ
جس عورت سے اس کے شوہر نے حقیقی صحبت نہ کی ہو، اگرچہ خلوتِ صحیحہ ہوچکی ہو۔
(18)بینونت
رشتۂ نکاح کا منقطع ہونا مراد ہے۔
(19)بینونتِ صغریٰ
قطع زوجیت کی ایسی صورت جس میں بدون حلالۂ شرعیہ صرف تجدیدِنکاح سے رشتۂ زوجیت بحال ہوسکتا ہو۔
(20)بینونتِ کبری
جس میں حلالۂ شرعیہ کے بغیر بائنہ سے تجدیدِنکاح ممکن نہ ہو۔
(21)حرمتِ غلیظہ
بینونتِ کبری کی مترادف اصطلاح ہے۔
(22)رجعت
معتدہ کو لوٹالینا خواہ قولاً ہو یا فعلاً اور شوہر نے رجعت پرگواہان قائم کیے ہوں یا نہ کیے ہوں۔ رجعت معتدہ کے فعل سے بھی ممکن ہے۔
(23)طلاقِ رجعی
وہ طلاق مراد ہے جس میں رجعت ممکن ہو۔
(24)طلاقِ بائن
ایسی طلاق جس کے اثر سے رشتۂ ازدواج ختم ہوجائے اورمطلقہ نکاح سے نکل جائے۔
(25)معتدہ بائنہ
جو عورت طلاقِ بائن کی عدت میں ہو۔
(26)معتدہ رجعیہ
جو عورت طلاقِ رجعی کی عدت میں ہو۔
(27)معتدۃ الوفات
جو عورت شوہر کی وفات کی عدت گزار رہی ہو۔
(28)صریح طلاق
جو طلاق نیت کی محتاج نہ ہو، خواہ صریح ہو یا کنایہ۔
(29)اقرار
کسی دوسرے کے حق کے اپنے ذمہ واجب ہونے کی خبر دینے کو’’ اقرار‘‘ کہتے ہیں۔ جوشخص اقرار کرے اُسے ’’مُقِر ‘‘، جس کے متعلق کسی حق کا اقرار کیا جائے، اسے’’ مُقِر لہٗ‘‘، اور جس حق کا اقرارکیا جائے اُسے ’’مُقِربہٖ‘‘ کہتے ہیں۔
(30)بینہ
کسی معاملے کے ثبوت کے ذریعہ کو ’’بینہ ‘‘کہتے ہیں۔
(31)لعان
ایسی چار گواہیاں جوقسموں سے مؤکد ہوں، شوہر نے اپنی پانچویں گواہی میں اپنے اوپر لعنت بھیجی ہواور عورت نے اپنے اوپرغضب کی بددعا کی ہو، شوہر کے حق میں یہ گواہیاں حدِ قذف کے قائم مقام ہیں اور بیوی کے حق میں حدِ زنا کے قائم مقام ہیں۔
(32)ولد الزنا
زنا کے سبب جس بچہ کی ولادت ہو ئی ہو۔
(33)مجہول النسب
جس شخص کا نسب معلوم نہ ہو، مگرضروری نہیں کہ وہ ولد الزنا بھی ہو۔
(34)قابلہ
دائی/جنائی
(35)کامل شہادت
دو مرد یا ایک مرد اور دوعورتوں کی گواہی’’ کا مل شہادت ‘‘ہے۔
(36)مرض الموت
ایسا مرض جس میں موت کا گمان غالب ہو اور سال گزرنے سے قبل مریض کی موت واقع ہوجائے، طویل المدت امراض اس وقت مرض الموت شمار ہوں گے جب ان کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو۔
(37)متارکت
نکاحِ فاسد میں زوجین کا یا دونوں میں سے کسی ایک کا دوسرے سے جدا ہونا مراد ہے، اگرچہ جدائی دوسرے فریق کی غیر موجودگی میں ہو، اور خواہ زوجہ مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ، تاہم مدخولہ ہونے کی صورت میں زبان سے علیحدگی کا اظہار ضروری ہے اور غیر مدخولہ ہونے کی صورت میں علیحدگی کا عز م بھی کافی ہے۔ ایک دوسرے قول کے مطابق زوجہ خواہ مدخولہ ہو یا غیرمدخولہ، دونوں ہی صورتوں میں زبان سے جدائی کا اعلان ضروری ہے ۔
(38)تفریق
مجاز عدالت کا نکاحِ فاسد کی صورت میں ’’زوجین کے درمیان علیحدگی کردینا‘‘ مراد ہے۔
(39)باکرہ
جس کے ساتھ بذریعہ نکاح یا زنا کسی مرد نے صحبت نہ کی ہو، اگرچہ کھیل کود یا مرض کے سبب اس کی بکارت زائل ہوگئی ہو۔
دفعہ۔3نسب کی تعریف:
نسب اس شرعی تعلق کا نام ہے جو قرابت کے سبب والدین یا دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ قائم ہوجاتا ہے۔
دفعہ۔4نسب کے نتائج واثرات:
قیامِ نسب کے ساتھ ہی فریقین پرحقوق وذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں، جن میں وراثت ولایت، حضانت، رضاعت، کفالت اورقرابت وغیرہ کے حقوق وفرائض شامل ہیں ۔
دفعہ۔5 نسب کے مراتب:
(1) نکاح صحیح میں نومولود کا نسب بغیر دعوی کے ثابت ہوگا اور بجز لعان کے نفی سے منتفی بھی نہ ہوگا۔
(2) نکاحِ فاسد میں لعان کے طریقے سے بھی نسب کی نفی ممکن نہیں، یہی حکم اُمِ ولد کا بھی ہے، البتہ محض نفی سے نسب منتفی ہوجائے گا۔
(3) باندی سے نسب بدون دعویٰ کے ثابت نہ ہوگا۔
دفعہ۔6 نسب کی تحویل وتنسیخ:
نسب، بعد ازثبوت، ناقابلِ انتقال وابطال اور ناقابلِ تحویل وتنسیخ ہے۔
دفعہ۔7نسب کا جھوٹا دعویٰ، اقرار یا انکار:
نسب کا جھوٹا دعویٰ، اقرار یا انکار ازروئے شرع حرام ہے۔
بابِ دوم
ثبوتِ نسب
فصلِ اول :مادری نسب
دفعہ۔8مادری نسب کا قیام :
مادری نسب کے قیام کا انحصار محض کسی عورت سے ثبوتِ ولادت پر ہے۔
توضیح: مادری نسب وہ ہے جو فقط ماں سے ثابت ہو۔
فصل دوم:پدری نسب
دفعہ۔9حمل کی مدت:
حمل کی اقل مدت چھ ماہ، غالب مدت نو ماہ اور اکثر مدت دو سال ہے۔
دفعہ۔10ثبوتِ نسب کے ذرائع:
ثبوتِ نسب کے ذرائع تین ہیں:
(1) نکاح
(2) بینہ
(3) اقرار
توضیح : نکاح خواہ صحیح ہو یا فاسد، مگر باطل نہ ہونا چاہیے۔
باب سوم
نکاحِ صحیح وفاسدکی صورت میں ثبوتِ نسب
فصل اول:نکاح صحیح
دفعہ۔11 نکاحِ صحیح کی صورت میں ثبوتِ نسب:
(1) جو بچہ جائز زوجیت کے زمانہ میں تولد ہو، وہ صحیح النسب قرار پائے گا، اگر چہ باپ اس کے نسب کا اقرار یا اعتراف نہ کرے یا خاموش رہے، بہ شرط یہ کہ:
الف۔ بچہ نکاح سے چھ ماہ یا اس سے زائد مدت میں تولد ہواہو۔
ب ۔ بچہ کو شوہر سے قرار دینا ممکن ہوبایں طور کہ وہ بالغ یا مراہق ہو۔
ج۔ زوجین کا ملاپ متصور ہو۔
درج بالا شرائط کی موجودگی میں نسب سے انکار بجز لعان کے کسی اور صورت میں ممکن نہ ہوگا۔
(2) جو بچہ نکاح سے چھ ماہ کے اندر پیدا ہو، وہ ثابت النسب نہیں قرار پائے گا، مگر یہ کہ زنا کی صراحت کیے بغیر شوہر اس کے نسب کا دعویٰ کرے۔
دفعہ۔12معتدہ رجعیہ سے ثبوتِ نسب:
(1) جو عورت طلاقِ رجعی کی عدت میں ہو، خواہ عدت حیض سے ہو یا مہینوں سے، بہ شرط یہ کہ:
الف۔ مراہقہ نہ ہو ۔
ب۔ عدت گزرنے کا اقرار نہ کرتی ہو۔
اگر طلاق کے بعد دوسال یا اس سے زیادہ مدت گزرنے کے بعدبچہ جنم دے تو:
نسب ثابت سمجھا جائے گا، خواہ دوسال سے مدت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو، اور بچہ کی ولادت اس امر کا ثبوت ہوگا کہ شوہر رجوع کرچکا ہے۔
اگر طلاق کے بعد دوسال کے اندر بچہ کو جنم دے تو نسب ثابت ہوگا، تاہم ولادت سے عدت اختتام پذیر ہوجائے گی۔
(2) مطلقہ رجعیہ کبیرہ اگر عدت گزرنے کا اقرار کرتی ہے اورمدت بھی اس لائق ہے، تو ثبوتِ نسب کے واسطے لازم ہوگا کہ :
ولادت اقرار کے بعد چھ ماہ سے پیشتر مگرطلاق کے بعد دو سال کے اندر ہو، بنا برایں:
جوبچہ اقرار کے چھ ماہ بعد پیدا ہو وہ ثابت النسب نہیں کہلائے گا خواہ: بچے کی ولادت طلاق کے چھ ماہ کے اندر ہوئی ہو، یا چھ ماہ سے زیادہ اور دوسال کے اندر ہوئی ہو، یا دوسال یا اس سے زیادہ مدت میں ولادت ہوئی ہو۔
شرط: عدت گزرنے کا اقرار دوشرطوں کی رعایت سے قابل قبول ہوگا:
الف۔ مدت اس لائق ہو کہ اس میں عدت گزرسکتی ہو۔
ب۔ اقرار عدت گزرنے کے فوراً بعد ہو۔
توضیح: عدت کی اقل مدت حضرت امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک اُنتالیس یوم اور صاحبینؒ کے نزدیک ساٹھ یوم ہے۔ (جاری ہے)
شرعی عائلی احکام کی دفعہ بندی:
متن قانونِ ثبوتِ نسب (دوسری قسط)
فصلِ دوم: نکاحِ فاسد
دفعہ۱۲۔ نکاحِ فاسد کی صورت میں ثبوتِ نسب:
(1) نکاحِ فاسد میں متارکت یا تفریق سے پہلے جو اولاد پید ا ہو وہ شوہر کے اقرار یا تصدیق کے بغیر بھی صحیح النسب قرار پائے گی اور لعان سے بھی ان کا نسب منتفی نہ ہوگا ، مگر شرط یہ ہے کہ:
الف۔ دخول کے بعد اقل مدتِ حمل گزر چکی ہو۔
ب۔ شوہر بالغ یا مراہق ہو۔
ج ۔ زوجین میں عدم یکجائی کا ثبوت نہ ہو۔
دخول کے بعد چھ ماہ سے کم مدت میں ولادت کی صورت میں نومولود ثابت النسب نہیں قرار پائے گا،اگر چہ عقد کے بعد چھ ماہ گزرچکے ہوں ، ماسوا اس صورت کے کہ شوہر دعوائے نسب کرے،مگر شرط ہوگا کہ زنا کی تصریح نہ کرے۔
(2) جو اولاد نکاح کی تنسیخ بذریعہ متارکت یا تفریق کے بعد اکثر مدتِ حمل کے اندر پیدا ہو، وہ صحیح النسب کہلائے گی۔
فصلِ سوم:شبہ
دفعہ۱۳۔ شبہ کی صورت میں ثبوتِ نسب
جو بچہ محل یا عقد کے شبہ میں وطی کے نتیجے میں پیدا ہو وہ واطی سے ثابت النسب کہلائے گا، جب کہ واطی اس کے نسب کا دعویٰ کرے۔
اگر وطی فعل کے شبہ کی بنا پر ہو تو اولادغیر صحیح النسب کہلائے گی، مگر یہ کہ کوئی شبِ زفاف میں اپنی حقیقی زوجہ کے گمان میں کسی اجنبیہ سے وطی کرلے، جب کہ اسے باور کرایا گیا ہوکہ وہ اس کی حقیقی زوجہ ہے۔
بابِ چہارم
ثبوتِ نسب درصورتِ تفریق
دفعہ۱۴۔معتدہ جو عدت گزرنے کا اقرار کرتی ہو:
معتدہ جو عدت گزرنے کا اقرار کرتی ہو،خواہ:
مطلقہ مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ
مراہقہ ہو یا کبیرہ
عدت نکاح صحیح کی ہو یا فاسدکی
عدت طلاق کی ہو یا وفات کی یا کسی دیگرشرعی سبب تنسیخ کی بنا پر ہو
اگر طلاق کی عدت ہو تو طلاقِ رجعی ہویا بائن
اگر طلاق بائن ہو توبینونتِ صغریٰ ہو یا کبریٰ
اگر طلاق یا وفات یا تنسیخ جیسی صورت ہو،کے بعدچھ ماہ کے اندر بچہ پیدا ہوتو نومولود ثابت النسب کہلائے گا،مگر شرط ہوگاکہ:
الف : مدت اس قدر ہو کہ جس میں عدت گزرسکتی ہو۔
ب: عدت گزرنے کا اقرار فوری ہو۔
استثناء : آیسہ اگر عدت گزرنے کا اقرار کرے اور پھر دوسال سے کم مدت میں بچہ کو جنم دے تو نومولود کانسب ثابت ہوگا۔
دفعہ۱۵۔معتدہ بائنہ سے ثبوتِ نسب:
(1) انقطاعِ زوجیت کے بعد، ثبوتِ نسب درج ذیل شرائط کے ساتھ مشروط ہوگا:
الف۔ بچہ دوسال یا اس سے کم مدت میں تولد ہوا ہو ۔
ب ۔ عورت مدخولہ ہو۔
ج۔ معتدہ عدت گزرنے کا اقرار نہ کرتی ہو۔
استثناء : جڑواں بچوں کی پیدائش کی صورت میں اگر ایک بچہ مدتِ حمل کے اندر پیدا ہو تودونوں بچے ثابت النسب کہلائیں گے۔
دوسال سے زائد مدت میں ولادت سے بچہ ثابت النسب نہیں کہلائے گا،مگر یہ کہ شوہر نسب کا دعویٰ کرے ، بہ شرط یہ کہ زنا کی تصریح نہ کرے،عورت کی تصدیق کی ضرورت نہ ہوگی۔
(2) معتدہ عدت گزرنے کا اقرار کرتی ہے تو :
قطعِ زوجیت کے چھ ماہ سے کم مدت میں ولادت کی صورت میں بچہ کا نسب باپ سے قائم ہوگا۔
چھ ماہ یا اس سے زائدمدت کی صورت میں جوازِ نسب قائم نہ سمجھا جائے گا،خواہ ولادت :
الف ۔ انقطاعِ نکاح کے دوسال کے اندر ہو۔
ب۔ دوسال سے کم مدت میں ہو۔
ج۔ چھ ماہ کی مدت میں ہو۔
دفعہ۱۶۔بیوہ سے ثبوتِ نسب:
(1) بیوہ ،بہ شرط یہ کہ :
الف۔ مراہقہ نہ ہو۔
ب۔ عدتِ وفات گزرنے کا اقرار نہ کرتی ہو۔
اگر شوہر کی تاریخ وفات کے بعددوسال کے اندر بچہ جنم دے تو بچہ صحیح النسب کہلائے گا۔
اگربیوہ شوہر کی وفات کے بعد دوسال سے زائد مدت میں بچہ جنم دے تووہ ثابت النسب نہیں کہلائے گا، مگر یہ کہ میت کے ورثاء نسب کا دعوی کریں۔
(2) بیوہ عدت گزرنے کااقرار کرتی ہو تو ثبوتِ نسب کے لیے لازم ہے کہ :
الف۔ بچہ اقرار کے بعد چھ ماہ کے اندر پیدا ہو۔
ب۔ شوہر کی تاریخ وفات سے دوسال کے اندر پیدا ہو،بنابرایں:
اگر اقرار کے پورے چھ ماہ بعدیاچھ ماہ سے زیادہ مدت میں بچہ کی پیدائش ہوئی تو جوازِ نسب قائم نہ ہوگا،خواہ،ولادت :
وفات کے بعد دوسال کے اندر ہو۔
کامل دو سال میں ہو۔
دوسال سے زائد مدت میں ہو۔
توضیح: شق اول کی ذیلی شق ب میں اگر نسب کی تصدیق کرنے والے ورثاء اہل شہادت ہوں تو نسب تمام لوگوں کے حق میں ثابت سمجھا جائے گا،اگر اہلِ شہادت نہ ہوں توصرف مقرین کے حق میں نسب ثابت ہوگا۔
دفعہ۱۷۔مراہقہ سے ثبو تِ نسب:
(1) مراہقہ اگر مدخولہ نہ ہو تو:
الف ۔ چھ ماہ سے کم مدت میں ولادت سے بچہ ثابت النسب ہوگا۔
ب ۔ چھ ماہ یااس سے زیادہ مدت میں ولادت کی صورت میں بچہ ثابت النسب نہیں ہوگا۔
(2) مراہقہ اگر مدخولہ ہو اور عدت گزرنے کا اقرار کرے تو :
الف۔ اقرار کے بعد چھ ماہ کے اندر پیدا ہونے والا بچہ ثابت النسب ہے۔
ب۔ چھ ماہ یا اس سے زائد میں پید اہونے والا بچہ ثابت النسب نہیں ہے۔
(3) مراہقہ اگر عدت گزرنے کا اقرار نہ کرتی ہو تو:
الف۔ اگر حمل کا دعویٰ ہو تو کبیرہ کا حکم رکھتی ہے۔
ب۔ اگر حمل کا دعویٰ نہ ہو تو طلاق کے بعد نوماہ سے پہلے بچہ پیدا ہو تو ثابت النسب ہے ، ورنہ نہیں۔
امام ابو یوسفؒ کے نزدیک طلاقِ بائن کی صورت میں دوسال تک اور رجعی کی صورت میں ستائیس مہینے تک بچہ ثابت النسب کہلا ئے گا۔
فصلِ دوم
دفعہ۱۸۔ثبوتِ نسب و ولادت اور تعیینِ ولادت میں اختلاف:
(1) زمانۂ زوجیت کے قیام کی حالت میں شوہر:
الف۔ نسب کی تصدیق کرے ،یا
ب۔ سکوت برتے
بہردو صورت نسب ثابت ہے۔
اگر شوہرنسب کا انکار کرے تو:
الف۔ نکاح صحیح کی صورت میں بجزلعان، نسب کی نفی کا اور کوئی طریقہ نہیں۔
ب۔ نکاحِ فاسد کی صورت میں انکارِ نسب کے لیے لعان کا عمل بھی مؤثر نہیں۔
(2) حالتِ قیامِ نکاح میں اگر شوہربچہ کی ولادت کا انکار کرے تو ایک:
الف۔ آزاد
ب۔ عاقلہ
ج۔ بالغہ
د۔ مسلمان
عورت کی گواہی ،خواہ:
دایہ ہو یا کوئی اور ہو ،یا
ایک ایسے عادل مرد کی گواہی جس نے بوقتِ ولادت دانستہ نگاہ نہ ڈالی ہو، ثبوتِ ولادت کے واسطے کافی ہے۔
(3) معتدہ رجعیہ اگر:
عدت کے اختتام پذیر ہونے کی مدعیہ نہ ہو، اور
دو سال سے زائد مدت میں بچہ جنم دے، اور
شوہر بچہ کی ولادت کاانکار کرے تو ذیلی شق ۲کے احکام کے بموجب عمل درآمد ہوگا۔
(4) انقطاعِ زوجیت کی صورت میں خواہ انقطاع :
الف۔ طلاق بائن کی وجہ سے ہو،یا
ب۔ شوہر کی وفات کی وجہ سے ہو،یا
ج۔ کسی اور شرعی سبب فسخ کی بنا پر ہو۔
اگر معتدہ مدتِ حمل میں ولادت کی مدعیہ ہو اور شوہر یا اس کے ورثاء منکر ہوں، تو ثبوتِ ولادت کے واسطے امام اعظم ابوحنیفہؒ کے نزدیک کامل شہادت درکار ہوگی، مگر یہ کہ:
شوہر نے حمل کا اعتراف کیا ہو،یا
حمل کا ہونا بالکل واضح ہو۔
(5) اگر شوہر نومولودکی ولادت کا معترف مگر تعیین اورشناخت میں اختلاف کرے تو ایک:
الف۔ آزاد
ب۔ عاقلہ
ج۔ بالغہ
عورت کی گواہی درکار ہوگی،جب کہ صاحبین کے نزدیک درج بالا تمام صورتوں میں ایک عورت کی یا ایک مرد کی جس نے دانستہ نگاہ نہ ڈالی ہو‘ کافی ہے۔
توضیح: ظہور حمل سے مراد یہ ہے کہ حاملہ چھ ماہ سے قبل بچہ جن دے،دوسرا قول یہ ہے کہ حمل کی علامات اس قدر ظاہر ہوں کہ اس سے حمل کا غلبۂ ظن ہوجائے۔
بابِ پنجم
اقرار
فصلِ اول:براہِ راست اقرار
دفعہ۱۹۔مرد کی طرف سے اقرارِ ولدیت:
(1) کسی مرد کی طرف سے اقرار ِ ولدیت سے قیامِ نسب متذکرہ ذیل شرائط کے ساتھ مشروط ہوگا:
الف۔ فریقین کے عمریں ایسی ہوں کہ اقرار کنندہ مقرلہٗ کا باپ ہوسکتاہو۔
ب۔ مقرلہٗ مجہول النسب ہو۔
ج۔ ولدیت کا اقرار زنا کی تصریح کے ساتھ نہ ہو۔
د۔ اقرارکو مقرلہٗ نے مسترد نہ کیا ہو،جب کہ وہ (جمہور کے نزدیک) عاقل وبالغ اوراحناف کے نزدیک سمجھ دار ہو۔
ھ۔ اقرارِنسب متنازع نہ ہو،مثلاً: کوئی اورشخص بھی مقر لہٗ کے نسب کا مدعی نہ ہو۔
و۔ مقر لہ حیات ہو،مگریہ کہ اس کی کوئی اولاد ہو تو فوت شدہ شخص کے متعلق بھی اقرارِ ولدیت درست ہوگا۔
ز۔ کوئی ایسا منفی قرینہ قائم نہ ہوجس کی بنا پر مقرلہٗ، مقر کی جائز اولاد نہ ہوسکتا ہو۔
شرائط بالاکی موجودگی میں جواز نسب قائم ہوگا، خواہ
مقرلہ لڑکا ہویا لڑکی، اور خواہ
مقر مرضِ وفات کے اندر ہی مبتلا کیوں نہ ہو
اقرارِ ولدیت کے اثر سے فریقین کے درمیان شرعی حقوق اور ذمہ داریاں پیدا ہوں گی۔
مقرلہٗ مقر کے ورثاء کے ساتھ وراثت میں شریک ہوگا، اگر چہ مقرکے ورثاء مقر لہٗ کے نسب کاانکار کریں ۔
مقرلہٗ مقر کے باپ سے بھی حصہ رسدی کا مستحق ہوگا، اگرچہ وہ مقرلہ کے نسب کاانکار کرتاہو۔
(2) اگر کوئی عورت مقر کی وفات کے بعد بایں طور مدعیہ ہوکہ وہ مقر کی زوجہ ہے اورمقر لہٗ مقر سے اس کی جائز اولاد ہے تو شرائط ذیل کی موجودگی میں وہ بھی مقر کی وارثہ قرار پائے گی:
الف۔ مدعیہ کا مقرلہٗ کی ماں ہونا مشہورومعروف ہو۔
ب۔ مدعیہ کا مسلمان ہونامشہور ومعروف ہو۔
ج۔ مدعیہ اصلاً آزاد ہو یا مقرلہٗ کی ولادت سے دوسال پیشتر آزاد ہوچکی ہو۔
اگر مقر کے ورثاء انکار کریں کہ مدعیہ :
مقرکی زوجہ نہ ہے، یا
مقرلہٗ کی والدہ نہ ہے ،یا
مقر کی وفات کے وقت وہ مسلمان نہ تھی
تو مدعیہ مقر کی وارثہ نہیں قرار پائے گی، یہی حکم اس صورت میں بھی ہے جب کہ :
مدعیہ کا آزادہونا، یا
مقرلہ کی ماں ہونا، یا
مسلمان ہونا معلوم نہ ہو، اگر چہ مقر کا کوئی وارث اختلاف نہ کرتا ہو، مگر یہ کہ مدعیہ شہادت کے ساتھ امر متنازع ثابت کردے۔
استثناء : ولد الملاعنہ کا دعویٰ نسب اور ملاعن کے علاوہ کسی اور کے ساتھ اس کے نسب کا الحاق جائز نہ ہوگا۔
توضیح: ولد الملاعنہ کا استثناء شق۱ کی ذیلی شق ب سے ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ملاعن کے حینِ حیات امکان رہتا ہے کہ وہ اپنے قول سے رجوع کرتے ہوئے اپنے اس دعوی کو جھٹلادے کہ بچہ اس کانہیں ہے۔
دفعہ۲۰۔عورت کی طرف سے اقرارِ ولدیت:
(1) اگر کوئی عورت جو نہ کسی کی منکوحہ ہو اورنہ معتدہ،اور کسی کے متعلق اقرارِ ولدیت کرے تو شرط ہوگاکہ:
الف۔ فریقین کے عمریں ایسی ہوں کہ اقرار کنندہ عورت مقرلہٗ کی ماں ہوسکتی ہو۔
ب۔ مقرلہٗ کا مادری نسب مجہول ہو۔
ج۔ ولدیت کا اقرار زنا کی تصریح کے ساتھ نہ ہو۔
د۔ اقرارکو مقرلہٗ نے قبول کیا ہو ،بہ شرط یہ کہ وہ تصدیق کا اہل ہو، مثلاً ممیز ہو، اگر مقرلہٗ تصدیق کا اہل نہ ہوتو پھر تصدیق شرط نہ ہوگی۔
ھ۔ اقرارِ نسب متنازع نہ ہو،مثلاً: کوئی اورعورت مقر لہٗ کی ماں ہونے کی دعوی دار نہ ہو۔
و۔ کوئی ایسا منفی قرینہ قائم نہ ہوجس کی بنا پر مقرلہٗ، مقر کی جائز اولاد نہ ہوسکتا ہو۔
(2) الف : جو کوئی عورت کسی کی منکوحہ ہو اوراقرار کرے کہ کوئی بچہ اس کے شوہر سے اس کی جائز اولاد ہے اور شوہر تصدیق کرے تومقرلہٗ کا نسب مدعیہ اور اس کے شوہر دونوں سے قائم سمجھا جائے گا،اگرشوہر انکار کرے تو شہادت کی اہلیت رکھنے والی ایک عورت کی گواہی،خواہ دایہ ہو یا کوئی اور،یا ایک عادل مرد کی گواہی کافی ہوگی۔
ب : یہ حکم اس صورت میں بھی ہے کہ جب کوئی عورت طلاقِ رجعی کی عدت میں ہو اوراکثر مدتِ حمل گزرنے کے بعد بچے کو جنم دے ۔
(3) اگر کوئی عورت کسی کی منکوحہ ہو اور اقرار کرے کہ کوئی بچہ اس کے شوہر کے علاوہ کسی اور سے اس کی اولاد ہے تو شق۲کے احکام کے تحت عمل درآمد ہوگا، تاہم شوہر کی تصدیق کی ضرورت نہ ہوگی۔
(4) جو کوئی عورت قطعِ زوجیت کے بعد کسی بچے کے متعلق اقرارِ ولدیت کرے توامام ابوحنیفہؒ کے نزدیک کامل گواہی درکار ہوگی ،جب کہ صاحبینؒ کے نزدیک شہادت کی اہلیت رکھنے والی ایک عورت کی گواہی کافی ہوگی۔
توضیح(1) شق۲ میں مذکور انقطاعِ زوجیت خواہ بوجہ طلاقِ بائن ہو یا بسبب وفاتِ شوہر ہو یا کسی اور شرعی سببِ تنسیخ کی بنا پر ہو۔
توضیح(2) شق۲کی ذیلی شق ب کا حکم مثلِ منکوحہ اس لیے ہے کہ احناف کے نزدیک اگر معتدہ رجعیہ اکثر مدتِ حمل کے بعد بچہ جنم دے اور وہ عدت گزرنے کا اقرار نہ کرتی ہو تو ولادتِ رجعت کہلاتی ہے،اس لیے یہ عورت بمنزلہ منکوحہ کے ہے اور منکوحہ اپنا دعویٰ ایک عورت کی شہادت سے ثابت کرسکتی ہے۔
دفعہ۲۱۔پدری اور مادری رشتہ کااقرار:
جو کوئی مجہول النسب لڑکا یا لڑکی ،کسی مرد کے متعلق اپنے باپ ہونے کا اقرار کرے،او ر :
(1) ظاہری حالات وواقعات سے اقرار کی تکذیب نہ ہوتی ہو
(2) اقرار کنندہ کا باپ معروف نہ ہو
(3) اقرارکنندہ زنا کے سبب اس مرد کو اپنا باپ قرار نہ دیتاہو
(4) کوئی منفی قرینہ اقرار کی تکذیب پر قائم نہ ہو
(5) اوروہ مرد جس کے متعلق اقرار کیا گیا ہے،تصدیق کرتاہو
تو مقر اور مقرلہٗ کے مابین پدری اور فرزندی کا رشتہ ثابت قرار پائے گا اور اس رشتے کے حقوق وفرائض دونوں پر عائد ہوں گے۔
اگرمقر لہٗ انکار کرے تو اقرار کے ثبوت کے لیے کامل شہادت درکار ہوگی اور اگر مقر شہادت گزارنے سے قاصر رہے تو مقر لہٗ کا انکار حلف کے ساتھ معتبر ہوگا۔
یہی حکم اس صورت میں بھی ہے کہ جب کوئی لڑکا یا لڑکی کسی عورت کے متعلق مادری رشتہ کااقرار کرے۔
فصل دوم:بالواسطہ اقرار
دفعہ۲۲۔ اُخوت کا اقرار:
جو کوئی عاقل وبالغ شخص اپنے والد کی وفات کے بعد کسی مجہول النسب شخص کے متعلق اپنے بھائی ہونے کا اقرار کرے اورمیت کے دیگر ورثاء انکار کریں تو اقرار کا اثر صرف مقر کی ذات تک محدود رہے گا اور مقرلہٗ، مقر کے حصۂ وراثت میں نصف حصے کا مستحق ہوگا۔
شرط: پدری اور مادری رشتہ کے اقرار کی جو شرائط ہیں ،وہ لاگو ہیں۔ (جاری ہے)
شرعی عائلی احکام کی دفعہ بندی:
متن قانونِ ثبوتِ نسب (تیسری قسط)
باب ِششم
بینہ
دفعہ۲۳۔ثبوت نسب بذریعہ بینہ:
- پدری،مادری،فرزندی اور برادرانہ قرابت کو دوعادل مردوں یا ایک عادل مرد اور دو عادل عورتوں کی شہادت سے ثابت کیا جاسکتا ہے۔
- پدری رشتہ کو کسی دوسرے حق کے ضمن میں شامل کیے بغیر براہ راست ثابت کیا جاسکتا ہے،جب کہ مدعی علیہ حیات اور حاضرہو۔
اگر مدعی علیہ حیات نہ ہو تو قرابت کا اثبات کسی دوسرے حق کے ضمن شامل کیے بغیر ممکن نہیں۔
- اخوت اور عمومت وغیرہ دور کی قرابتوں کو بہر صورت کسی دوسرے حق کے ضمن میں ثابت کیے جانا ضروری ہے۔
دفعہ۲۴۔شہادت کے ذریعہ نقض نسب:
ثبوتِ نسب اگر بذریعہ بینہ ہو اور مجاز عدالت اس کی ڈگری بھی صادر کرچکی ہوتوبھی مخالف شہادت کے ذریعے اس کا نقض جائز ہے ۔
دفعہ۲۵۔تسامع کی بنا پر شہادتِ نسب:
اگر کسی کا نسب عام لوگوں میں مشہور ومعروف ہو تو اس کے نسب کی گواہی دینا جائز ہے۔
بابِ ہفتم
عمومی احکام
دفعہ۲۶۔زناسے عدم ثبوتِ نسب:
زنا سے ثبوت نسب نہ ہوگا ،اگرچہ مرد وعورت اس کا اقرار کرتے ہوں،مگر یہ کہ زانی زنا کی تصریح کیے بغیر نسب کا دعوی کرے۔
دفعہ۲۷۔حاملہ مزنیہ سے ثبوتِ نسب:
- کسی عورت کو زنا سے حمل قرار پائے اور پھر زانی اسی مزنیہ سے نکاح کرے اور نکاح سے چھ ماہ یا اس سے زیادہ مدت میں بچہ تولد ہوتو وہ ثابت النسب قرار پائے گا اور شوہر کو نسب کی نفی کا حق نہ ہوگا۔
- اگر بچے کی ولادت نکاح کے بعد چھ ماہ سے پیشتر ہوتوشوہر سے اس کا نسب ثابت نہیں قرار پائیگا بجز یہ کہ شوہر ثبوت نسب کا دعوی کرے اور یہ صراحت نہ کرے کہ بچہ زنا کے تعلق کے باعث کے تولد ہوا ہے۔
دفعہ۲۸۔نامعلوم النسب اور ولد الزنا مترادف تعبیریں نہیں:
جو شخص ثابت النسب نہ ہو،ضروری نہیں کہ وہ ولد الزنا ہو۔
دفعہ۲۹۔متبنّٰی کی تعریف:
کوئی معروف النسب یا مجہول النسب شخص جس کو اس کے حقیقی والد کے علاوہ کسی اور نے حقیقی اولاد کی طرح بنالیا ہو،متبنّٰی کہلاتا ہے۔
دفعہ۳۰۔متبنّٰی کا حکم:
متبنّٰی کو حقیقی اولاد کا درجہ دیناازروئے شرع باطل ہے، لہٰذا متبنّٰی اور متبنِی کے ایک دوسرے پر پدری اور فرزندی کے حقوق وفرائض واجب نہ ہوں گے اور دونوں کا تبنِّیت سے قبل کا رشتہ برقرار رہے گا۔
دفعہ۳۱۔ثبوتِ نسب میں قبضہ اور بینہ میں سے کون سا مقدم ہے:
الف۔ ایک شخص اپنے زیرِ تحویل بچے کے نسب کا مدعی ہے، مگر دوسرا شہادت قائم کرلیتا ہے تو دوسرے کا حق برترہے ۔
ب۔ اگر دونوں گواہ قائم کرلیں تو قابض کا حق مقدم ہے ۔
ج۔ اگر ایک کہے کہ فلاں عورت سے میرا بیٹا ہے اور دوسرا کہے کہ میرا بیٹا ہے تو اول الذکر کا حق فائق ہے۔ (جاری ہے)