گوشت کے علاوہ ماکولات ومشروبات کے احکام
باسمہ تعالی
شعیب عالم
گوشت کے علاوہ ماکولات ومشروبات کے احکام
زندگی آمد برائے بندگی
کھاناپینازندگی کے لیے ہے اورزندگی بندگی کے لیےہے۔ارشاد باری تعالی ہے کہ جن وانس کی پیدائش کا مقصدعبادت ہے۔
ضرورت اورعبادت
کھانا پینا انسان کی ضرورت ہے لیکن اگرانسان اپنی اس طبعی ضرورت کو پوراکرنے میں حلال وحرام کاخیال رکھے تو یہی ضرورت اس کی عبادت بن جاتی ہے۔
بندے کے حق کی برتری
انسان کی غذائی ضرورت كا شريعت كو اس قدرلحاظ ہے كہ جب اسے مردار کے علاوہ كچھ ميسرنہ ہواوربھوک سےجان جانے كا خوف ہوتواسے بقدرضرورت مردار كھانالازم ہے یوں شریعت اپنے حق کے مقابلے میں بندے کی ضرورت کو فوقیت دے دیتی ہے۔
لطیف انسانی جذبات کی رعایت
غذا انسانی ضرورت ہے مگرانسانی طبیعت چاہتی ہے کہ غذا لذید اورمزیدار ہو،پانی شیریں اورخوش گوار ہو،شریعت نےانسان کے ان لطیف جذبات اورباریک احساسات کا بھی بھرپورخیال رکھا ہے چنانچہ غذاؤں میں عمدہ اورمرغوب اشیاء کو حلال کیا ہے جن کو طیبات کہاجاتا ہےتاکہ غذائی ضرورت کے ساتھ ساتھ انسا ن کی فطری جذبات کی رعایت اورجمالیاتی ذوق کی تسکین ہو۔
فلسفہ شریعت سے آگاہی
جن اشیاء کو شریعت نے حلال یا حرام کیا ہے ان کے پس پشت فلسفے کو بھی شریعت نے بیان کردیا ہے جن کو مقاصد شریعت کہا جاتا ہے تاکہ انسان پوری بصیرت کے ساتھ حکم شریعت پر عمل پیراہوسکے۔
حلال وحرام حق شریعت
حلال کاوہ ہے جس کی شریعت نے اجازت دی ہے اورحرام وہ ہے جس سےشریعت نے منع کیاہے۔دونوں صورتوں میں اتھارٹی صرف شریعت کے پا س ہے،اس لیے کوئی انسان نہ اپنی عقل سے کسی چیز کو حلال قراردے سکتا ہے اورنہ اسے حرام کرسکتا ہے،اگر وہ ایسا کرتا ہے تو شریعت کے منصب کو سنبھالتا ہے۔
اباحت اصل ہے
اگر کسی شے کے متعلق حلال یا حرام کی صراحت نہ ہوتوگوشت وغیرہ چند اشیاء کو چھوڑکر وہ حلال سمجھی جائے گی ۔اس کو شریعت کی زبان میں یوں بیان کہا جاتا ہے کہ اصل اشیاء میں اباحت ہے۔
اباحت کے اصل ہونے کا مطلب
اباحت کے اصل ہونے کامطلب یہ ہے کہ اس کے لیے دلیل قائم کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اصل دلیل کا محتاج نہیں ہوتا جب کہ حرمت عارض ہے اورعارض کے لیے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔
حلت کے طرح طہارت بھی اصل ہے
جس طرح اصل اباحت ہے اورحرمت کے لیے دلیل کی ضرورت ہے اسی طرح اصل طہارت ہے اورنجاست کے لیے دلیل کی ضرورت ہے۔اس اصول کی رو سے جب تک کسی شے کی حرمت یا نجاست پر دلیل قائم نہ ہو اس وقت وہ حرام یا نجس نہیں سمجھی جائے گی ۔
حلت وطہارت کے رفع کے لیے دلیل ضرورت
جب حلت اورطہارت اصل ہیں تو ان کے رفع کے لیے بھی اتنی ہی قوی اورٹھوس دلیل کی ضرورت ہوگی چنانچہ محض شک اوروہم سے کسی چیز کو حرام یا نجس نہیں قراردیاجاسکےگا۔
بے جاکھود کرید کی ممانعت
بعض لوگ اپنے گمان میں احتیاط اس میں سمجھتےہیں کہ کسی چیز کو حرام قراردے دیا جائے، جب کہ اصول یہ ہے کہ اگرکسی شے کے متعلق دلائل متعارض ہوں تو احتیاط پرعمل ہوگا مگراحتیاط یہ نہیں کہ کسی چیز کو حرام قرار دے دیا جائے بلکہ احتیاط یہ ہے کہ اصل پرعمل کیا جائے اور اصل اباحت اورطہارت ہے۔اگرچہ بحیثیت مسلمان ہمیں محتاط زندگی گزارنی ہےخصوصاغذائی مصنوعات میں بے احتیاطی ہمارےدین اورصحت دونوں کے لیے سخت مضر ہے مگر اس کے باوجود جب تک کوئی دلیل یا ظاہر ی علامت کسی شے کی حرمت یا نجاست کے متعلق موجود نہ ہواس وقت ہمیں زیادہ چھان پھٹک اورگہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
حلال اشیاء
اوپر گزراکہ حلال وہ ہے جس کی شریعت نے اجازت دی ہو۔اس کی مختصروضاحت یہ ہے کہ جمادات سب کے سب حلال اور پاک ہیں البتہ کسی جامد چیز کا اتنی مقدار میں استعمال جائز نہیں جو مسکر ہو یا مضر ہو۔ مضر میں ممانعت کی وجہ ضرر اور مسکر میں سکر ہے اس لیے اگر ضرر اور سکر دور کردیا جائے تو ممانعت بھی نہ رہے گی ۔جو حکم جمادات کا ہے وہی نباتات کا بھی ہے۔
حیوانات میں سے انسان اپنی حرمت کی وجہ سے اور اس کا فضلہ نجاست کی وجہ سے اور خنزیر نجس العین ہونے کی وجہ سے اور کیڑے مکوڑے خبث کی وجہ سے حرام ہیں۔ بحری حیوانات میں سوائے مچھلی کے سب حرام ہیں۔جو مچھلی مرکر پانی کے اوپر الٹی تیرنے لگے جسے سمک طافی کہتے ہیں اس کاکھانا بھی حرام ہے۔
حرام اشیاء
1:۔مچھلی کے علاوہ پانی کے تمام حیوانات اور ان کے اجزاء ،۲:۔کیڑے مکوڑے، ۳:۔خشکی کے وہ تمام جانور جن میں دم سائل نہ ہو، ۴:۔وہ تمام جانور جن کو شرعی ذبح کیاجائے ان کے تمام اعضاء سوائے دم مسفوح کے سب پاک ہوجاتے ہیں، ۵:۔مردار کے بال، ناخن، سینگ، پر، وغیرہ، ۶:۔مردار کی کھال اور اعضاء جلدی، جیسے: مثانہ، اوجھ،پتہ،پوست،سنگدانہ وغیرہ دباغت سے پاک ہوجاتے ہیں، ۷:۔سانپ اور چھپکلی جب کہ بالشت بھر سے چھوٹے ہوں، ۸:۔وہ غیر مسفوح خون جو رگوں ،گوشت یا جلد میں رہ جائے، ۹:۔حلال پرندوں کے فضلات، ۱۰:۔ایسے حیوانات کا فضلہ جس سے احتراز بہت مشکل ہو اور اس میں عموم بلویٰ ہو جیسے: مکھی کی بیٹ اور ریشم کے کیڑے کا فضلہ، ۱۱:۔حلال پرندوں کا لعاب، پسینہ اور میل، ۱۲:۔ انسان کا لعاب، پسینہ، میل، آنسو اور قے قلیل، ۱۳:۔ کیڑوں کا لعاب جن سے گھن نہ آتی ہو، ۱۴:۔ جامد شئے بقدر نشہ، ۱۵:۔ نباتات بقدر نشہ، ۱۶:۔ غیر ماکول زندہ جانور سے الگ کیا ہوا ایسا عضو جس میں حس نہ ہو ، ۱۷:۔ الکحل جوانگور وکھجور کے علاوہ کسی اور شئے سے کشید کیا گیا ہو، ۱۸:۔ عورت کا دودھ علاوہ شیرخوار کے کسی اور کے لیے،اگر شوہر خود شیرخوارگی کی عمر میں ہو اور بیوی کا دودھ پی لے تو حرمت کے ساتھ نکاح کے فسخ کا باعث ہے، ۱۹:۔ ذبح کے بعد جو خون رگوں اور جلد میں رہ جاتا ہے اور دم کبد وطحال کے علاوہ جو خون غیر مسفوح ہو وہ بھی پاک ہے، مگر حلال نہیں۔
ناپاک اشیاء
۱:۔جو جانور شکار کرکے کھاتے رہتے ہیں، ۲:۔جو جانور شرعی طریقہ سے ذبح نہ کیا گیا ہو، ۳:۔حرام شرابیں، ۴:۔زندہ جانور سے جدا کیا ہوا ایسا عضو جس میں حس ہو، ۵:۔مردار سوائے چنداعضاء کے، ۶:۔خنزیر، ۷:۔ ان جانوروں کا دودھ جن کا گوشت کھانا حرام ہے، ۸:۔مردار کا انڈا اگر چہ اُسے ذبح کیا گیا ہو، ۹:۔ حلال جانور کا گندا انڈا جب خون بن جائے ۔
اسباب حرمت
شریعت جن وجوہات کی بناپرکسی چیز کو حرام قراردیتی ہے وہ درج ذیل ہیں :
1۔کرامت2۔نجاست3۔اسکار4۔استخباث5۔اضرار
کرامت
کوئی انسانی عضو یا انسانی عضو سے ماخوذ کو ئی جزء کسی مصنوع میں شامل ہو تو احترام آدمیت کی وجہ سے اس کا استعمال حرام ہے،خواہ وہ انسانی عضو بذات خود پاک ہو یا ناپاک ہو ۔
نجاست
جو چیز گندی اور پلید ہے اس کا کھاناجائز نہیں جیسے پیشاب ،بہتاخون ،پیپ ،جو جانور شرعی طریقہ سے ذبح نہ کیا گیا ہو،حرام شرابیں ،زندہ جانور سے جدا کیا ہوا ایسا عضو جس میں حس ہو،خنزیر،ان جانوروں کا دودھ جن کا گوشت کھانا حرام ہے،مردار کا انڈا اگر چہ اسے ذبح کیا گیا ہو،حلال جانور کا گندا انڈا جب خون بن جائے۔ ہر جانور کی قے کا وہی حکم ہےجو اس کی بیٹ کا ہے ،اگر بیٹ پاک ہے تو قے بھی پاک ہے اوراگر بیٹ نجاست غلیظہ ہے جیسے مرغی تو قے بھی نجاست غلیظہ ہے اوراگر بیٹ نجاست خفیفہ ہے جیسے کوا تو قے بھی نجاست خفیفہ ہے۔جس چیز کے اندر کیڑاریزہ ریزہ ہوگیا ہووہ پاک ہے مگر اس کاخوردنی استعمال جائز نہیں البتہ اس اصول سے ٹڈی مستثنیٰ ہے۔ بڑی دیگ میں اگر مکھی گر جائے تو دیگ ناپاک نہیں ہوتی، مگر مکھی کا کھانا پھر بھی جائز نہیں رہتا۔پھلوں کےاندراگر کیڑے پڑگئے ہوں مگر ان میں روح نہ پڑی ہواورانہیں نکالنامشکل ہوتو پھل کی تبعیت میں انہیں کھاناجائز ہے۔ جس پروڈکٹ میں کارمائن شامل ہواس کاخوردنی استعمال جائز نہ ہوگا کیونکہ کیڑے سےحاصل کردہ رنگ ہے البتہ شیلک کااستعمال جائز ہے کیونکہ کیڑے کے ریزش ہے البتہ شرط ہے کہ قلیل مقدارمیں ہواوراس سے گھن نہ آتی ہے۔
اسکار
اسکار سے مراد یہ ہےکہ کوئی چیز نشہ آور ہو۔ جواشیاء نشہ آور ہیں، وہ دوقسم پر ہیں:1:۔سیال2:۔غیرسیال ،جو سیال ہیں،ان کی پھر دو قسمیں ہیں:۱:۔چار حرام شرابیں۲:۔چار حرام شرابوں کے علاوہ اور شرابیں۔جو چار شرابیں حرام ہیں وہ نجس بھی ہیں اور حرام بھی ہیں اور اس کے علاوہ جو دیگر شرابیں ہیں،وہ پاک ہیں۔جو خشک اشیاء ہیں اور نشہ آورہیں، جیسے: افیون اور بھنگ وغیرہ وہ پاک ہیں اور نشہ سے کم مقدار ان کااستعمال جائز ہے۔الکحل اگر انگوریا کھجور سے کشید کردہ نہ ہوتو پاک ہے اوراتنی مقداراس کا استعمال جائز ہو جو نشے کی حدتک نہ ہو۔جو گیس الکحل سے کشید کی جاتی ہے وہ بھی پاک ہے کیونکہ ایک تو وہ چارحرام شرابوں میں سے کسی ایک سے کشید نہیں جاتی اوردوسرے یہ کہ فقہاء نے نجاست کے دھویں پاک قراردیا ہے۔ مائع اشیاء جیسے تیل،شہد اور شراب کی تہہ میں جو تلچھٹ رہ جاتی ہے جسے دردی کہتے ہیں،یہ عام شرابوں کی طرح حرام اورنجس ہےاوراس سے فائدہ اٹھانا ناجائز وحرام ہے اور جس پروڈکٹ میں دردی خمر شامل ہو اس کا استعمال جائز نہیں ۔
خبث
کبھی کوئی شے خبث کی وجہ سے حرام ہوتی ہے۔خبث کا مطلب ہے جن سے ایک سلیم الطبع انسان کوگھن آتی ہو۔جملہ حشرات الارض اس علت کی بنا پر حرام ہیں کہ ان میں خبث ہوتا ہے۔ خبیث ہونے کے ساتھ کوئی شئ پاک بھی ہوسکتی ہے جیسا کہ مچھلی کے علاوہ دیگر دریائی جانوروں میں خبث ہے مگر وہ پاک بھی ہیں۔پاک ہونے کی وجہ سے ان کا خارجی استعمال جائز ہے اور حلال نہ ہونے کی وجہ سے ان کاکھانا جائز نہیں۔الغرض خبث اور حلت جمع نہیں ہوسکتے مگر خبث اور طہارت جمع ہوسکتےہیں۔جس چیز کے اندر کیڑاریزہ ریزہ ہوگیا ہووہ پاک ہے مگر اس کاخوردنی استعمال جائز نہیں البتہ اس اصول سے ٹڈی مستثنیٰ ہے۔ بڑی دیگ میں اگر مکھی گر جائے تو دیگ ناپاک نہیں ہوتی، مگر مکھی کا کھانا پھر بھی جائز نہیں رہتا۔پھلوں کےاندراگر کیڑے پڑگئے ہوں مگر ان میں روح نہ پڑی ہواورانہیں نکالنامشکل ہوتو پھل کی تبعیت میں انہیں کھاناجائز ہے۔ جس پروڈکٹ میں کارمائن شامل ہواس کاخوردنی استعمال جائز نہ ہوگا کیونکہ کیڑے سےحاصل کردہ رنگ ہے البتہ شیلک کااستعمال جائز ہے کیونکہ کیڑے کے ریزش ہے البتہ شرط ہے کہ قلیل مقدارمیں ہواوراس سے گھن نہ آتی ہے۔
مضرت
آخری اصول جس کی وجہ سے کوئی چیز حرام ہوتی ہے وہ مضرت ہے۔مضرت سے مراد ان کانقصان دہ اورضرررساں ہونا ہے۔ ضرر رساں اشیاء میں اصل حرمت ہے۔ضررسے مراد یہ یہ ہے کہ دین ،عقل ،مال اور نسل کے لیے نقصان دہ ہو۔اگر مضر اشیاء کا ضرر دور کردیا جائے تو وہ حرام بھی نہیں رہتی ،مگرجن چیزوں کو شریعت نے صراحت کے ساتھ حرام کردیا ہے وہ حرام ہی رہیں گی خواہ اس کے استعمال سے ظاہری اور فوری نقصان ہو یا نہ ہو۔یہ بھی ضروری نہیں کوئی شی بہرصورت مضر ہو بلکہ عام طبائع کے لیے اس کا مضر ہونا کافی ہے اور ضرر کا بھی صرف غلبہ ظن ضروری ہے ۔یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شی ایک شخص کے لیے مضر ہونے کی بنا پر حرام ہو اور دوسرے کے لیے مضر نہ ہونے کی بنا پر حرام نہ ہواور جو اشیاء مفید اور مضر دونوں پہلو رکھتی ہوں ان میں غالب کا اعتبار ہوگا۔
اسباب حرمت کے مابین نسبت
جو چیز ناپاک ہے اس کا کھانا حرام ہے، مگر جو پاک ہے ضروری نہیں کہ اس کا کھانا حلال ہو جیسے: مچھلی کے علاوہ سمندری اشیاء اور زہر بقدرغیر مضر، مٹی اور کیڑے مکوڑے وغیرہ پاک ہیں، مگر حلال نہیں۔ ہرنجس حرام ہے مگر ہر حرام نجس نہیں، جیسے پیشاب نجس بھی ہے اور حرام بھی، مگردم غیر مسفوح حرام ہے مگر نجس نہیں۔
مرکبات کاحکم
نجس اور غیر نجس مل جائیں تو وہ نجس ہوتے ہیں ۔ اگر نجاست غالب ہوتو اس کا حکم نجس العین کا ہےاور اگر نجاست مغلوب ہو تو وہ نجس تو ہے مگر خارجی استعمال اس کا جائز ہے۔اگر مضر اور غیر مضر مل جائیں اور ضرر جاتا رہے یا خبیث اورغیرخبیث مل جائیں اور خبث جاتا رہے تو ضرر اور خبث کی بنا پر پائی جانے والی حرمت بھی ختم ہوجاتی ہے۔اگرمضر کا ضرر،مسکر کا سکر اور خبیث کا خبث دور ہوجائے تو حرمت بھی دور ہوجاتی ہے۔نجس چیز اگر نجس العین ہے تو سوائے تبدیل ماہیت کے طہارت کا اور کوئی طریقہ نہیں اور اگر متنجس ہے توانقلاب ماہیت سے بھی پاک ہوسکتا ہے اور نجاست کے اجزاء الگ کرنے سے بھی پاک ہوسکتا ہے۔
قلیل حرام پر مشتمل غذائی مصنوعات کاحکم
بعض ملکی یا غیرملکی غذائی مصنوعات میں قلیل مقدار میں کوئی ناجائز عنصر یا جزء بھی شامل ہوتاہے، مگر وہ جزء مقدار میں اتنا کم ہوتا ہے کہ پورے پروڈکٹ کے مقابلے اس کی نسبت نہ ہونے کی برابر ہوتی ہے، ایسی مصنوعات کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اگر کوئی شئ مضرت یا خبث کی وجہ سے حرام ہو مگر مجموعے میں جاکر اس کا خبث دور ہوجائے اور مضرت نہ رہے تو اس کا استعمال جائز ہوگا۔اگر کسی چیز میں چار حرام شرابوں میں سے کوئی ایک شامل ہو تو وہ پروڈکٹ نجس ہونے کی بنا پر حرام ہے، اگر چہ اس میں نشہ نہ ہو۔اگر پروڈکٹ میں انسان کاکوئی جزء یا اس سے ماخوذ کوئی جزءشامل ہے یا کوئی نجس شئ شامل ہے تو اس کا داخلی استعمال جائز نہیں۔اگر تبدیل ماہیت کی وجہ سے حرام تبدیل ہوگیاہو تو اس کااستعمال جائز ہے ،اگر چہ صانع کے لیے بالقصدکوئی حرام چیز کسی مصنوع میں شامل کرنا جائز نہیں۔([1])
غیر شرعی نام یا شکل والے مصنوعات
ایسے حلال پروڈکٹ کوحلال تصدیقی شہادت فراہم نہیں کی جانے چاہیے جس کانام غیر شرعی ہوجیسے ہاٹ ڈاگ یا جو صلیب ،بت یا جان دار کی شکل میں ہو۔
داخلی اور خارجی استعمال
شریعت اشیاء کے داخلی اور خارجی استعمال میں فرق کرتی ہے۔۱:۔نجس کا داخلی اور خارجی استعمال ناجائز ہے۔۲:۔متنجس کا خارجاً استعمال جائز ہے، بشرطیکہ نجاست غالب نہ ہواور اگر نجاست کا غلبہ ہو تو وہ نجس العین کے حکم میں ہے۔۳:۔ جو چیز سیال نہ ہو اور نشہ آور ہو، جیسے افیون اور بھنگ وغیرہ ان کی اتنا مقدار کھالینا جو نشہ نہ کرے اور مقصد لہو ولعب نہ ہوجائز ہے اور اس دوا کا لگانا بھی جائز ہے جس میں یہ چیزیں شامل ہوں اور اتنا کھانا کہ نشہ ہوجائے حرام ہے۔۴:۔چارحرام شرابوں کے علاوہ اور شرابوں کا خارجی استعمال جائز ہے اور داخلی استعمال بھی کسی معتد بہ غرض کے لیے جائز ہے۔۵:۔جمادات اور نباتات کا خارجی استعمال جائز ہے۔۶:۔حشرات الارض کا خارجی استعمال جائز ہے۔۷:۔ غیر ماکول اللحم جانور بھی اگر ذبح کردیا جائے تو پاک ہوجانے کی وجہ سے اس کا خارجی استعمال جائز ہوجاتا ہے، البتہ خنزیر اس قاعدہ سے مستثنیٰ ہے۔ ایک ضمنی اختلاف یہ بھی ہے کہ ذبح سے مراد ذبح شرعی ہے یا مطلق ذبح کافی ہے۔۸:۔ مردار کے بعض اعضاء جیسے بال،ہڈی،ناخن وغیرہ کا بھی بیرونی استعمال جائز ہے، اسی طرح مردار کی کھال اور آنتوں اور جھلیوں وغیرہ کا دباغت کے بعد خارجی استعمال جائز ہے۔۹:۔ حلال جانور اگر مرجائے تو اس کے تھنوں کا دودھ پاک اور حلال ہے۔۱۰:۔ حرام جانور جو دم سائل رکھتا ہو وہ اگر چہ ذبح سے پاک ہوجاتا ہے، مگر اس کا انڈا پھر بھی ناپاک رہتا ہے۔اسی طرح ذبح کے مقام پر جو خون لگا رہ جاتا ہے وہ بھی دم مسفوح ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔
غیر مسلموں کی خشک خوردنی اشیاء اوربرتنوں کاحکم
ذبیحہ تو صرف مسلمان اور کتابی کا حلال ہے، مگرذبیحہ کے علاوہ اور خشک خوردنی اشیاء مثلاً: پھل فروٹ،اجناس وغیرہ ہر کافر ومشرک کے ہاتھ کے جائز وحلال ہیں۔جن اشیاء میں صنعت کی ضرورت پڑتی ہے، ان میں چونکہ ان کے ہاتھ اور برتن کا استعمال ہوتا ہے، اس لیے بلاضرورت شدیدہ استعمال نہ کرے، البتہ اگر طہارت کا اورکسی حرام چیز کی عدم شمولیت کا یقین ہو تو پھر استعمال میں حرج نہیں۔
عموم بلوی ٰ
عموم بلویٰ جس طرح طہارت اور نجاست میں باعث تخفیف ہے، اسی طرح حلت وحرمت میں بھی باعث تخفیف ہے پھلوں کی بیع اورمخابرہ کے مسئلہ میں اسی عموم بلوی کی وجہ سے جواز کا فتوی دیاجاتا ہے۔
افواہوں کاحکم
بے بنیاد خبروں ،جھوٹی افواہوں،غیر مصدقہ اطلاعات اور محض عوامی شہرت کا کوئی اعتبار نہیں، جب کہ پس پشت کوئی سند اور دلیل نہ ہو۔