عورت نمازمیں مردوں اورعورتوں کی امام بن سکتی ہے؟
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں:عورت نمازمیں مردوں اورعورتوں کی امام بن سکتی ہے؟سوال کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ امریکہ سے ایک ای میل موصول ہواہے جس میں بتایاگیاہے کہ ایک عورت جمعہ کی نمازکی امامت کررہی ہے اوراس نے اس کے جوازکے حق میں چندحوالے بھی دیئے ہیں۔
۱۔ام ورقہ بنت عبداللہؓجوقرآن کی ماہرتھی اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے انہیں ہدایت تھی کہ وہ اپنے گھرنمازباجماعت کے لئے امامت کرائیں جوکہ عورت اورمردوں پرمشتمل جماعت تھی۔(حوالہ ابوداؤداورابن خزیمہ،جولکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے)
اس لئے بہت سارے لوگ ان کے گھرجمع ہوئے اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے مؤذن مقررفرمایا۔یہ ام ورقہؓان چندلوگوں میں سے ہیں جنہوں نے قرآن کے تحریری نسخہ سے پہلے قرآن کریم سیکھااورزبانی یادکیا۔
۲۔اس حدیث کوبنیادبناتے ہوئے کچھ فقہاء مثلًاالمزنی،ابوثوراورالطبری کی رائے ہے کہ عورت نمازمیں مردوں اورعورتوں کی امامت کرسکتی ہے،حدیث کاحوالہ ابوداؤدمیں کتاب’’عورت بحیثیت امام‘‘اورابن حنبل کی مسند’’کتاب ام ورقہ‘‘میں ہے۔
تمام اہم فقہاء کی رائے اس قصہ’’ام ورقہ‘‘سے متفق ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ آیا’’ام ورقہ‘‘کی یہ صلاحیت کہ وہ امامت کرائیں صرف ان کے لئے مخصوص تھی،یاہرعورت کے لئے اس کااطلاق ہرحال میں ہوتاہے۔
۳۔غزالہ نامی ایک عورت نے کوفہ میں مردوں کی جماعت کی امامت کی،نہ صرف یہ کہ اس نے امامت کی بلکہ دوبڑی سورتوں کی تلاوت بھی کی۔اس نمازمیں بعض حنبلی علماء جوکہ امام احمدبن حنبل کے ماننے والے ہیں اس رائے سے متفق ہیں۔
۴۔ابن تیمیہؒ کہتے ہیں کہ :امام احمدکی رائے کے مطابق مردکے لئے اس چیزکی اجازت ہے کہ عورت جوکہ قرآن کی قاریہ ہورمضان میں اس کی امام بنے،یہی رائے ابن قدامہ کی ہے،المغنی میں جواس چیزکااضافہ کرتے ہیں کہ عورت کے لئے اس چیزکی اجازت ہے کہ وہ تراویح میں مردوں کی امامت کرے اورکھڑی ہوان کے بالکل پیچھے۔
علامہ طبری اس کے آگے بتاتے ہیں کہ:عورت،مردوں اورعورتوں کی مخلوط جماعت کی امام بن سکتی ہے،مسئلہ اس میں یہ ہے کہ عورت کہاں کھڑی ہو؟
ابوثوراس بارے میں کہتے ہیں کہ:اس حدیث کے مطابق جوتمہیں قرآ ن کاماہرملے اسے نمازکاامام بنایاجائے یہ صرف مردوں کے لئے مخصوص نہیں۔
حوالہ جات:
۱۔کتاب الشوکانی مصنف نیل الاوطار(عربی)دارالجبل (بیروت اشاعت ۱۹۷۳ء،ج:۳ص۲۰۱،۲۰۲)
۲:۔ابن تیمیہ الرعدالمراتب العلم(عربی)دارالآفاق البریدۃ بیروت لبنان اشاعت۱۹۸۰ء
۳:۔ابوشقہ الطہریرالمراحلہ المسلمہ،ج:۳ص:۳۱اور۶۰
اخیرمیں ایک سوال یہ ہے کہ قرآن میں عورت کوامام بننے سے نہیں روکاگیا،برائے مہربانی اس مسئلے کاتفصیلی اوربحوالہ جواب عنایت فرمائیں اورجوحوالے دیئے گئے ہیں ان کے بارے میں مفصلًاروشنی ڈالیں۔
محمدشعیب ملاکراچی
الجواب باسمہ تعالیٰ
قرآن وسنت کے مطابق عورت،مردوں کے لئے امام نہیں بن سکتی۔ائمہ اربعہ سمیت جمہورمحدثین وفقہاء اورمفسرین کایہی مذہب ہے اوراسی پرچودہ صدیوں سے امت کامسلسل اورمتواترعمل چلاآرہاہے۔
زیرنظرتحریرمیں ائمہ اربعہ کے مذاہب اورمحدثین ومفسرین کی آراء ذکرکرنے کے بعدسوال میں ذکرکردہ دلائل کاجائزہ لیاجائے گا۔(انشاء اللہ)
فقہ شافعی:
چونکہ عورت کی امامت کے بارے میں امام ابوثورؒ ،مزنی اورابن جریرطبری نے جمہورامت سے کٹ کرالگ تھلگ راہ اختیارکی ہے اوریہ بزرگان دین امام شافعیؒ سے نسبت رکھتے ہیں اس لئے پہلے امام شافعیؒ کانقطۂ نظرپیش کیاجاتاہے۔
امام شافعیؒ کادوٹوک اورواضح مؤقف ملاحظہ کیجئے۔
فقہ شافعی میں عنوان ہے:’’امامۃ المرأۃ للرجال‘‘:اس کے تحت لکھتے ہیں:
’’ولایجوزان یکون امرأۃ امام رجل فی صلوۃ بحال ابدًا‘‘۔
(کتاب الام ج:۱ص:۶۳،دارالمعرفۃ لبنان)
ترجمہ:’’اورجائزنہیں کبھی بھی کسی صورت میں کہ عورت مردکی امام بنے کسی بھی نمازمیں‘‘۔
فقہ شافعی کے مستندترجمان امام نوویؒ جن کی علمیت اوربزرگی مسلمہ ہے انہوں نے تفصیل سے سلف صالحین کاموقف بیان کیاہے۔لکھتے ہیں:
’’ولایجوزللرجل ان یصلی خلف المرأۃ لماروی جابرؓقال خطبنارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال لاتؤمن المرأۃ رجلًا‘‘
الشرح:وسواء فی منع امامۃ المرأۃ للرجال صلوۃ الفرض والتراویح وسائرالنوافل ھذامذھبناومذھب جماھیرالعلماء من السلف والخلفؒ وحکاہ البہیقی عن فقھاء السبعۃ المدینۃ التابعین وھومذھب مالک وابی حنیفۃ وسفیان واحمدوداؤد،وقال:ابوثوروالمزنی وابن جریرتصح صلوۃ الرجال وراءھاحکاہ عنھم القاضی ابوالطیب والعبدی،وقال الشیخ ابوحامدمذھب الفقھاء کافۃ انہ لاتصح صلاۃ الرجال وراءھاالااباثور‘‘۔
(الجموع شرح المہذب ج:۵ص۲۵۴،دارالفکر)
ترجمہ:اورجائزنہیں مردکے لئے کہ وہ عورت کے پیچھے نمازپڑھے،حضرت جابرؓکی روایت کی بناء پر،وہ فرماتے ہیں کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے ارشادفرمایا:’’عورت ہرگزمردکی امامت نہ کرے‘‘
شرح میں امام نوویؒ لکھتے ہیں کہ:عورت کی امامت مردوں کے لئے ممنوع ہونے میں فرض،تراویح اورتمام نوافل برابرہیں۔ہمارااورجمہورفقہاء کاسلفًااورخلفًایہی مذہب ہے اورامام بہیقیؒ نے بھی مدینے کے سات تابعین فقہاء سے اسی طرح نقل کیا ہے،اوریہی امام مالکؒ ،ابوحنیفہؒ ،سفیانؒ ،احمدؒ اورداؤدؒ کا مذہب ہے،ابوثورؒ اورابن جریرؒ کاکہناہے کہ مردکی نمازعورت کے پیچھے درست ہے،قاضی ابوطیب اورعبدی نے ان سے یہ قول نقل کیاہے۔شیخ ابوحامد(غزالیؒ )کہتے ہیں کہ تمام فقہاء کامذہب یہ ہے کہ مردکی نمازعورت کے پیچھے درست نہیں سوائے ابوثورؒ کے۔
فقہ مالکی
علامہ ابن رشدقرطبیؒ جونقل مذاہب میں انتہائی معتمدہیں اوران کی کتاب ’’بدایۃ المجتہد‘‘مختلف مکاتب فکرکی قانونی آراء کالب لباب ہے اورائمہ دین کے درمیان مابہ الاتفاق اورمابہ الاختلاف کاذکران کی کتاب کی خاص خصوصیت ہے،امام موصوف اپنی کتاب ’’بدایۃ المجتہد‘‘میں لکھتے ہیں:
’’اختلفوافی امامۃ المرأۃ:فالجمہورعلی انہ لایجوزان تؤم الرجال،واختلفوافی امامتھا،فاجازذالک الشافعی،ومنع ذالک مالک،وشذابوثوروالطبری،
فاجازاامامتھاعلی الاطلاق ،وانمااتفق الجمہورعلی منعھاان تؤم الرجال،لانہ لوکان جائزًالنقل عن الصدرالاول،ولانہ ایضًالماکانت سنتھن فی الصلوۃ التاخیرعن الرجال علم انہ لیس یجوزلھن التقدم علیھم،لقولہ علیہ السلام’’اخروھن من حیث اخرھن اللہ‘‘
۔ (بدایۃ المجتھدج:۲ص:۲۸۹بیروت)
علامہ ابن رشدؒ کے کلام سے دوباتیں معلوم ہوئیں:
۱۔۔۔عورت کامردوں کے لئے امام بنناخیرالقرون سے ثابت نہیں،جبکہ خیرالقرون کے بعدکسی زمانے کاعمل ہمارے لئے حجت نہیں،اس لئے کہ فہم صرف صحابہ اورتابعین کامعتبرہے،یہ حضرات نبوت کے رنگ میں رنگین تھے،اتباع سنت ان کی اداؤں سے ٹپکتی تھی،نصوص کی تہہ تک پہنچ اورمزاج شریعت کی پہچان ان حضرات کاخاص طرۂ امتیازتھا،یہی وجہ ہے کہ ان کی اتباع میں امت نے بحیثیت مجموعی کبھی بھی عورت کی امامت مردوں کے لئے جائزنہیں سمجھی،جس طرح امت کاکسی حدیث کوعمل کے لئے قبول کرنایامجتہدکاحدیث سے استدلال کرلینااس کی صحت کی علامت ہے،اسی طرح ایک مدت گزرجانے کے بعدامت کاکسی حدیث پرعمل نہ کرنااس میں کسی علت قادحہ کی نشاندہی کرتاہے۔
۲۔۔۔دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ عورت کے امام بننے میں حدیث کی مخالفت ہے۔
ائمہ مجتہدین کایہ خاص وصف ہے کہ حدیث سے استنباطِ احکام کے وقت احادیث کاذخیرہ ان کے پیش نظررہتاہے،سلف صالحین کے طرزِعمل اورفتاویٰ پران کی گہری نگاہ ہوتی ہے۔دین کے اصول وکلیات،عمومی قواعداورمنشاء ومزاج سے خوب واقف ہوتے ہیں۔۔اس لئے ہرروایت کواس کی حیثیت کے مطابق رتبہ دیتے ہیں،ورنہ روایات کاپس منظر،پیش نظر اورتہہ منظرسمجھے بغیرروایت کادرجہ نظراندازکرکے اوردیگرہدایات سے صرف نظرکرنے کالازمی نتیجہ احکام میں تصادم اورٹکراؤکی صورت میں نکلتاہے۔
حضرت ام ورقہؓ کوامامت کی جواجازت ملی تھی وہ ایک خاص محدودومقیداجازت تھی،جس کی تفصیل آگے آئے گی(انشاء اللہ)فقہ مالکی کی مستندکتاب’’مواہب الجلیل‘‘میں ہے:
’’وبطلت باقتداء بمن بان کافرًااوامرأۃ،ھوالفتوی مالک فی المدونۃ قال لاتؤم المرأۃ‘‘ (ص:۲۶۰،احیاء التراث)
ترجمہ:اس شخص کی اقتداء میں نمازباطل ہے جس کاکافرہونایاعورت ہوناظاہرہوجائے یہ امام مالکؒ کے فتوی کی بناء پرہے جومدونہ میں ہے کہ’’عورت امام نہ بنے‘‘
فقہ حنفی
احناف کے نزدیک متقدمین ومتاخرین سب فقہاء کااس پراتفاق ہے کہ مردکی نمازعورت کے پیچھے باطل ہے،بلکہ صرف عورتوں کی جماعت بھی مکروہ تحریمی ہے۔
علامہ شامیؒ جوحنفی فقہاء وعلماء میں ممتازہیں اورمتاخرین میں افضل مانے گئے ہیں،لکھتے ہیں کہ:
’’کراہت ہراس نمازمیں ہے جس میں مردوں کی جماعت مشروع ہو‘‘
ان کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
’’وقولہ ولوفی التراویح افادان الکراھۃ فی کل تشرع فیہ جماعۃ الرجال‘‘
(فتاوی شامی ج:۱ص:۵۶۵،ایچ ایم سعید)
فقہ حنبلی
علامہ ابن قدامہ ’’المغنی‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’مسألۃ:وان صلی خلف مشرک اوامرأۃ اوخنثی مشکل اعادالصلاۃ‘‘
(ص:۳۴،دارالفکر)
ترجمہ:اگرنمازپڑھی مشرک کے پیچھے یاعورت کے پیچھے یاخنثی مشکل کے پیچھے تونمازلوٹائے‘‘
ابن قدامہ کی طرف یہ نسبت غلط ہے(جیساکہ سوال میں کی گئی ہے)کہ وہ تراویح میں عورت کے امام بننے کوجائزکہتے ہیں،بلکہ جن بعض حنابلہ نے تراویح میں عورت کے امام بننے کوجائزکہاہے،ابن قدامہ نے ان کابھی ردکیاہے،علّامہ کی گفتگوملاحظہ ہو:
’’ولناقول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لاتومن المرأۃ رجلًاولانھالاتوذن للرجال فلم یجزان تؤمھم کالمجنون،وحدیث ام ورقۃ انمااذن لھاان تؤم نساء اھل دارھا،کذالک رواہ الدارقطنی،وھذہ زیادۃ یجب قبولھا،ولولم یذکرذالک لتعین حمل الخبرعلیہ،لانہ اذن لھاان توم فی الفرائض بدلیل انہ جعل لھامؤذنا،والأذان انمایشرع فی الفرائض،ولاخلاف انھالاتؤمھم فی الفرائض،ولان تخصیص ذالک بالتراویح،واشتراط تاخرھاتحکم یخالف الاصول بغیردلیل،فلایجوزالمصیرالیہ،
ولوقدرثبوت ذالک لام ورقۃ لکان خاصابھابدلیل انہ لایشرع لغیرھامن النساء اذان ولااقامۃ فتختص بالامامۃ لاختصاصھابالاذان والاقامۃ‘‘۔
ترجمہ:ہماری دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشادہے کہ:عورت مردکیلئے امام نہ بنے،(اوردوسری یہ دلیل)کہ عورت مردوں کے لئے اذان نہیں دے سکتی،جیساکہ مجنون۔(رہی)حدیث ام ورقہؓتوحضورعلیہ السلام نے ان کواجازت دی تھی کہ اپنے گھرکی خواتین کی امامت کرلیاکریں اسی طرح دارقطنی نے روایت کیاہے،اوران زائدالفاظ(نساء اھل دارھا)کاقبول کرناواجب ہے۔اگردارقطنی یہ زائدالفاظ نقل نہ بھی کرتے توبھی روایت کی یہی توجیہ متعین تھی،اس لئے کہ حضورعلیہ السلام نے ام ورقہؓکوفرائض میں امامت کی اجازت دی تھی جس کی دلیل یہ ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے مؤذن مقررکیاتھااوراذان کی مشروعیت صرف فرض نمازوں کے لئے ہے،جب کہ ائمہ دین کے درمیان یہ بات اختلافی نہیں کہ عورت فرض نمازوں میں مردوں کی امامت نہیں کرسکتی،پس روایت کوتراویح کے ساتھ خاص کرنااورعورت کامردوں کے پیچھے کھڑے ہونے کی شرط لگانابلادلیل اورخلاف اصول فیصلہ ہے۔لہذااس پراعتمادجائزنہیں ہے۔اوراگرام ورقہؓ کے متعلق مردوں کی جماعت کراناثابت مان بھی لیاجائے تویہ ان کی خصوصیت تھی جس کی دلیل یہ ہے کہ کسی اورعورت کااذان واقامت کہناجائزنہیں،پس اذان واقامت کی طرح امامت کرنابھی ان کی خصوصیت تھی‘‘۔
حنابلہ کی دیگرکتابوں میں بھی عورت کی امامت کوناجائزلکھاہے۔علامہ مرداویؒ لکھتے ہیں:
’’قولہ ولاتصح امامۃ المرأۃ للرجل ھذاالمذھب مطلقًا،قال فی المستوعب ھذایصح من المذاھب‘‘۔
(الانصاف للمرداوی ج:۲ص:۲۶۳،بیروت)
مزیدتفصیل کے لئے الکافی ج:۱ص:۱۸۳،وغیرہ ملاحظہ کیجئے۔
مفسرین کرام کے اقوال:
فقہاء ومحدثین کی طرح مفسرین کے نزدیک بھی عورت کاامام بنناجائزنہیں،امام رازی تفسیرکبیرمیں آیت شریفہ...’’الرجال قوامون علی النساء‘‘کے تحت لکھتے ہیں:
’’وان منھم الانبیاء والعلماء فی الامامۃ الکبری والصغری والجہادوالاذان والخطبۃ والاعتکاف والشھادۃ فی الحدودوالقصاص بالاتفاق‘‘
ترجمہ:مردوں ہی میں نبی اوربیشترعلماء ہوتے ہیں اوردرج ذیل مناصب بالاتفاق مردوں سے مخصوص ہیں،امامت کبریٰ(خلافت)اورصغری(امامت)جہاد،اذان،خطبہ،اعتکاف اورحدودوقصاص میں شہادت‘‘
تفسیرروح المعانی میں علامہ آلوسیؒ لکھتے ہیں:
’’ولذاخصوابالرسالۃ والنبوۃ علی الاشھروبالامامۃ الکبریٰ والصغریٰ واقامۃ الشعائرکالاذان والاقامۃ والخطبۃ الجمعۃ‘‘
(ج:۵ص:۲۳)
ترجمہ:اسی بناء پرمردوں کومخصوص کیاگیارسالت ونبوت کے ساتھ،امامت کبری وصغری کے ساتھ اوراسلامی شعائرمثلًا:اذان،اقامت اورخطبہ جمعہ کے ساتھ وغیرہ۔
مزیدتفصیل کے لئے بحرمحیط ج:۳ص:۲۳۹۔مظہری ج:۲ص:۹۸۔حاشیہ شیخ زادہ علی تفسیرالبیضاوی ج:۳ص:۳۱۴۔اللباب ج:۶ص:۳۶۰کامطالعہ کیجئے۔
تمام کے تمام مفسرین اس بات پرمتفق ہیں کہ عورت جس طرح اپنی فطری ونسوانی ساخت کی وجہ سے نبی اوررسول نہیں بن سکتی،اسی طرح مسجدمیں اذان واقامت نہیں کہہ سکتی،جمعہ وعیدین کاخطبہ نہیں دے سکتی،اورنہ ہی مردوں کے لئے امام بن سکتی ہے۔
اب تک جوکچھ بیان ہوا اس کاخلاصہ یہ ہے کہ عہدصحابہ سے لے کرآج تک امت کامتواتراورمتوارث اورمسلسل عمل یہ ہے کہ عورت مردکے لئے امام نہیں بن سکتی،تمام علماء فقہاء ومحدثین اورمفسرین اس بات پرمتفق ہیں،امام ابوثورؒ اورابن جریرطبریؒ کااس مسئلہ میں اختلاف امت کے اتفاق کے سامنے کوئی اہمیت وقیمت نہیں رکھتا۔
علامہ عبدالعزیزفرہارویؒ نے حکمران اورامام کے لئے مردہونے پراجماع نقل کیاہے:
’’قداجمع الامۃ علی نصبھاحتی فی الامامۃ الصغری‘‘
(نبراس شرح عقائد:۳۲۱،امدادیہ ملتان)
ترجمہ:’’امت کااجماع ہے کہ عورت کوامام بناناصحیح نہیں‘‘۔
اعلاء السنن،بذل المجہود،تحفۃ المنہاج،المجموع وغیرہ میں بھی اجماعًاعورت کی امامت کوناجائزکہاگیاہے۔
’’تحفۃ المنہاج‘‘ میں ہے:
’’یبطل اجماعًاالاماشذکالمزنی‘‘
(بحوالہ تعلیقات شیخ زکریاعلی بذل المجہودج:۱ص:۳۳۱)
’’بذل المجہود‘‘میں ہے:
’’فقول القائلین بالجوازمحجوج باجماع من قبلہ‘‘
(ج:۱ص:۳۳۱)
’’اعلاء السنن ‘‘میں ہے:
’’واجمعواعلی ذالک کماقدمناعن رحمۃ الامۃ انہ لاتصح امامۃ المرأۃ للرجال فی الفرائض بالاتفاق‘‘
(ج:۱:۲۲۲)
قرآن کریم کی آیت کریمہ’’الرجال قوامون علی النساء‘‘اور’’ولاتتمنوامافضل اللہ بہ بعضکم علی بعض‘‘اوراحادیث مبارکہ’’اخرجوھن من حیث اخرجھن اللہ‘‘اور’’ولاتؤمن المرأۃ رجلًا‘‘وغیرہ اسی طرح دیگرعمومی وکلی ہدایات علماء کے اجماع کے لئے سندکی حیثیت رکھتی ہیں۔
اجماع کے ثبوت کے بعداس حدیث کی سندپربحث ہی ختم ہوجاتی ہے کہ عورت کامردوں کی امامت کرناجائزہے،اس لئے کہ اجماع کافائدہ یہ ہے کہ حکم قطعی ہوجاتاہے اورحدیث کی سندسے بحث ختم ہوجاتی ہے،اوراجماع سے ثابت شدہ حکم کی مخالفت حرام ہوجاتی ہے۔جیساکہ’’شرح المنار‘‘میں ہے:
’’وفائدۃ الاجماع بعدوجودالسندسقوط البحث عن الدلیل وحرمۃ المخالفۃ وضرورتہ کون الحکم قطعیًا‘‘۔
(شرح المنارج:۲ص:۷۴۵)
اورامام فخرالاسلام بزدوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ومن انکرالاجماع فقدابطل الدین کلہ،لان مداراصول الدین کلھاالی اجماع المسلمین‘‘
(اصول بزدوی ص:۲۴۷)
ترجمہ:جس شخص نے اجماع کاانکارکیااس نے پورے دین کوباطل کردیا،کیونکہ دین کے تمام اصول کامدارومرجع مسلمانوں کااجماع ہی ہے۔
حدیث ام ورقہؓ:
حدیث سے استنباط کے وقت اس کے تمام طرق کوسامنے رکھناضروری ہے،ام ورقہؓ کے قصے میں خزیمہ نے ’’اھل دارھافی الفریضۃ‘‘جبکہ دارقطنی نے ’’نساء اھل دارھا‘‘(یعنی اپنے گھرکی خواتین)کے الفاظ نقل کئے ہیں
اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ ایک محدود،مقید،مشروط اورمخصوص اجازت تھی،جس کوعمومی شکل دیناجائزنہیں،یہی وجہ ہے کہ ام ورقہؓ کودی گئی اجازت کوامت نے کبھی عام اجازت نہیں سمجھابلکہ ام ورقہؓ خصوصیت ہونے پرامت نے اپنے طرزِعمل سے اس حدیث کومتروک سمجھاہے اورامت کاایک طویل زمانے تک کسی حدیث پرعمل نہ کرنااس میں علت قادحہ کی علامت ہے جیساکہ مقالات کوثری میں ہے:
’’ترک العمل بالحدیث مدی القرون علۃ قادحہ فیہ عندکثرمن العل النقد‘‘
(مقالات کوثری)
جبکہ دوسری طرف جن احادیث سے عورت کی امامت ناجائزثابت ہوتی ہے،ان کے مضامین پرامت کااجماع ہے اورامت جب بالاتفاق کسی حدیث کوعمل کے لئے قبول کرلیتی ہے تووہ عمل کے لئے حجت قاطعہ بن جاتی ہے اوراسے تواترکادرجہ حاصل ہوجاتاہے چاہے وہ خبرواحدہی کیوں نہ ہو۔
امام ابوبکرجصاص’’احکام القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’قداستعملت الامۃ ھذین الحدیثین فی نقصان العدۃ وان کان ورودہ من طریق الاحادفصارفی حین التواترلان ماتلقاہ الناس من اخبارالآحادفھوعندنافی معنی التواترلمابینافی الموضع‘‘
(ج:۱ص:۳۸۶)
محترمہ نے اس حدیث پراپنی خواہش کارندہ چلایاہے،ام ورقہؓ کے قصے میں حدیث کی کسی کتاب میں نہیں کہ انہوں نے مردوں وعورتوں پرمشتمل جماعت کی امامت کی اوربہت سارے لوگ ان کے گھرپرجمع ہوئے۔
یہ من گھڑت افسانہ ام ورقہؓ پرصریح بہتان ہے،اس بہتان کامقصدام ورقہؓ کے لئے محلہ کی امامت ثابت کرکے اپنے غلط نظریہ کوشریعت کالبادہ پہناناہے۔جھوٹ بولناویسے بھی گناہ کبیر ہ ہے لیکن اپنے جھوٹ کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنااپنے ہاتھوں اپناٹھکانہ جہنم میں بناناہے۔
امام ابوثورؒ اورابن جریرطبریؒ کے شاذاقوال پرعمل کرنادرست نہیں،اس لئے کہ یہ حضرات ائمہ اربعہ کی طرح اجتہادی ملکہ نہیں رکھتے تھے،امام ابی ثورؒ کے بارے میں ابوحاتم کاکہناہے کہ:
’’یتکلم فی الرای فیخطی ویصیب‘‘
(الاعلام للزرکلی ج:۱ص:۳۷)
ترجمہ:کہ وہ اپنی رائے سے کلام کرتے ہیں کبھی کلام میں خطااورکبھی درست ہوتاہے۔
عورت کی امامت کے بارے میں جمہورامت نے ان کے اجتہادکوخطاقراردیاہے،اورابن جریرطبری خودایک فرقے کے بانی تھے،اپنے باپ کی نسبت سے ان کے متبعین جریریہ یاطبریہ کہلاتے تھے،لیکن رفتہ رفتہ ان کامذہب مٹ گیااوران کے پیروختم ہوگئے،اب کسی علاقے میں ان کامذہب معمول بہانہیں رہا،اس لئے ابن جریرطبری کے مذہب پرعمل جائزنہیں۔فتح القدیرمیں ہے:
’’انعقدالاجماع علی عدم العمل بالمذاہب المخالفۃ للأئمۃ الاربعۃ‘‘
علامہ ابن حجرمکی ’’فتح المبین شرح اربعین‘‘ میں لکھتے ہیں:
امافی زماننافقال أئمتنالایجوزتقلیدغیرالأئمۃ الاربعۃ الشافعی ومالک وابی حنیفۃ واحمدبن حنبل‘‘۔
نصوص میں تعارض کے وقت ائمہ کے اپنے اپنے اصول ہوتے ہیں،امام احمدبن حنبل کے نزدیک اصح،صحیح،حسن اورمعمولی ضعف رکھنے والی ہرقس کی روایت پرعمل کرناجائزہے،اس لئے بسااوقات ایک ہی مسئلہ میں ان سے کئی کئی روایات مروی ہوتی ہیں۔
ائمہ کے اصولوں کے بارے میں نفیس بحث معارف السنن ج:۱ص:۱۰۲میں ہے،حضرت بنوریؒ لکھتے ہیں:
صاحب مذہب سے متعدداقوال منقول ہوں توکسی ایک قول کوترجیح دینے کے متعدداصول ہیں،اگراقوال صحیح اورضعیف پرمشتمل ہوں توصحیح قول کولیاجائے گا،اگرتمام اقوال صحیح ہوں اورسب صحت میں برابرہوں توآخری قول لیاجائے گا۔
اس کے علاوہ ایک عام اصول یہ ہے کہ جس قول کوعام فقہاء نے اختیارکیاہواسی پرعمل واجب ہے،تاکہ جمہورکی مخالفت لازم نہ آئے۔حنابلہ کامشہوراورصحیح مذہب یہ ہے کہ عورت کامردوں کے لئے امام بنناناجائزہے۔’’الانصاف‘‘ جس میں مذہب حنبلی کے صحیح اورراجح اقوال کوذکرکیاگیاہے،مذکورہ کتاب میں تقریبًاپندرہ کتابوں کے حوالے سے عورت کے امام بننے کوناجائزکہاگیاہے۔الانصاف کی عبارت ملاحظہ کیجئے:
’’قولہ(ولاتصح امامۃ المرأۃ للرجال)ھذاالمذہب مطلقًاقال فی المستوعب ھذایصح من المذہب،ونصرہ المصنف واختارابوالخطاب وابن عبدوس فی تذکرتہ وجزم بہ فی الکافی،والمحرر،الوجیز،والمنور،والمنتخب،وتجریدالعنایۃ،
والافادات وقدمہ فی الفروع والرعایتین والمحاربین والنظم ومجمع البحرین والشرع الفائق،وادراک الغایۃ وغیرہم۔۔۔۔۔الخ
(الانصاف ج:۱ص:۲۳۶)
ابن قدامہ حنبلیؒ بھی عورت کے امام بننے کوناجائزکہتے ہیں،جس کی تفصیل گزرچکی ہے،ان کی طرف جوازکی نسبت کرناصریح غلط بیانی اوردھوکہ دہی ہے۔
غزالہ کاقصہ
یہ عورت خارجیہ تھی اورخوارج کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے کہ:
یہ دین اسلام سے ایسے صاف نکل جائیں گے جس طرح تیرشکارسے صاف نکل جاتاہے،اوریہ بدترین مخلوق ہوں گے‘‘
غزالہ اوراس کاشوہرشبیب خارجی بغاوت کے جرم میں حجاج کے ہاتھوں مارے گئے،مرنے سے پہلے غزالہ نے حجاج سے بدلہ لینے اوراسے ذلیل کرنے کے لئے کوفہ کی جامع مسجدمیں نمازپڑھنے کی نذرمانی تھی،ایک معرکہ میں وقتی غلبہ پاکریہ رات کے وقت چھپ کرکرفہ میں داخل ہوئی اورفجرکی نمازمیں دوبڑی سورتوں کی تلاوت کرکے اس نے اپنی منت پوری کی۔تفصیلی واقعہ ’’الفرق بین الفرق،الکامل للمبرداورمختارالاغانی‘‘ میں موجودہے۔
غزالہ نے نمازپڑھی یاخطبہ دیا؟اس بارے میں مؤرخین کے بیانات مختلف ہیں،لیکن تمام تواریخ نمازپڑھنے پرمتفق ہیں،لیکن اس کانمازپڑھاناکسی مستندتاریخ سے ثابت نہیں،یوں خودبخودمحترمہ کی دلیل زمین بوس ہوجاتی ہے۔افسوس کہ غیروں کومقتداوپیشوامان کربھی محترمہ کاشوق امامت پورانہیں ہوتا،
اگرغزالہ کاجماعت کراناثابت ہوبھی جائے پھربھی یہ دلیل انتہائی کھوکھلی ہے،ادنی تامل سے اس استدلال کے تمام پرزے ڈھیلے معلوم ہوتے ہیں،دین کاادنی طالب علم بھی جانتا ہے کہ دلائل شرعیہ صرف چارہیں۔
۱۔قرآن حکیم
۲۔سنت مبارکہ
۳۔اجماع مت اور
۴۔فقہاء ومجتہدین کااستنباط
اس کے علاوہ کسی اورچیزسے احکام کاثبوت نہیں ہوتا۔
مؤرخ کامقصدزمانے کے معاشی،معاشرتی،سیاسی وعسکری حالات وواقعات کواگلی نسلوں کے لئے محفوظ کرناہوتاہے۔واقعات کے حسن وقبح اوراچھائی وبرائی سے اسے کوئی بحث نہیں ہوتی۔خودامام ابن جریرطبریؒ جوتاریخ کے چارستونوں میں سے ایک ہیں،اپنی تاریخ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’کہ جوروایت جس شکل میں ہمیں پہنچی ہم نے جوں کی توں بیان کردی،واقعات سے استدلال واستخراج احکام ہمارامقصودنہیں‘‘
اس لئے تاریخ کودلیل شرعی کے طورپرپیش نہیں کیاجاسکتااورتاریخ بھی اپنوں کی نہیں غیروں کی۔
واقعی گندی مکھی صاف ستھرے جسم کوچھوڑکرپیپ بھرے زخم پربھنبھناتی ہے ۔محترمہ بھی سلف صالحین کی پاکیزہ اورمعطرزندگیوں کوچھوڑکرخارجی وباغی عورت کے سیاہ کارنامے بطوردلیل پیش کرتی ہیں۔اگرہراچھے اوربرے کی تقلیدکرنی ہے توغزالہ سے پہلے سجاح نامی عورت نے نبوت کادعوی کیاتھا،کیامحترمہ کااگلاقدم دعوی نبوت ہوگا؟
حقیقت یہ ہے کہ غزالہ نے جوکچھ کیابراکیا۔لیکن برائی کوجوازکی دلیل نہیں بنایاجاسکتا۔جرم کی خلاف ورزی کے بعدبھی جرم جرم ہی رہتاہے،خودمسلمانوں میں بہت سے جرائم پھیل گئے ہیں،لیکن اس کی بناء پرچوری چکاری،ڈکیتی ورہزنی کوجائزنہیں کہاجاسکتا۔
غزالہ نے اسلام اورمسلمانوں کوذلیل کرنے کے لئے نمازکی منت مانی تھی،محترمہ بھی اپنی پیشروکی اقتداء میں مسلمانوں کامذاق اڑارہی ہیں،اہل علم کی خدمت میں عرض ہے کہ جرائم واضح ثابت ہوں تومقدمہ چلانے کی ضرورت نہیں رہتی،کمافی واقعۃ ابن خطل۔
محترمہ کامقصداتناواضح ہے کہ نیت ٹٹولنے کی ضرورت نہیں،اہل علم کومتفقہ طورپرموصوفہ کے بارے میں شرعی حکم وحیثیت کاتعین کرناچاہئے۔
آخری دلیل یہ پیش کی گئی ہے کہ:
’’قرآن کریم میں عورت کوامام بننے سے روکانہیں گیا‘‘
قرآن حکیم میں اگرمنع نہیں کیاگیاتوترغیب بھی کہیں نہیں آئی،لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کی روسے عورت کامردوں کے لئے امام بنناناجائزہے۔مفسرین کرام نے قرآنی آیات کی بناء پرعورت کی امامت کوناجائزقراردیاہے۔مذکورہ بالاحوالہ جات ایک مرتبہ پھردیکھ لئے جائیں۔
امام شافعیؒ نے آیت کریمہ’’الرجال قوامون علی النساء‘‘ کوبنیادبناکرعورت کی امامت کوناجائزکہاہے۔ان کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
’’(قال الشافعی)واذصلت المرأۃ برجال ونساء وصبیان ذکورفصلاۃ النساء مجزءۃ وصلاۃ الرجال والصبیان الذکورغیرمجزءۃ۔لان اللہ عزوجل جعل الرجال قوامین علی النساء وقصرھن عن ان یکن اولیاء غیرذالک‘‘
(الام ج:۱ص:۱۶۴،دارالمعرفۃ)
علاوہ ازیں صرف قرآن کریم کودلیل شرعی کے طورپرتسلیم کرنامنکرین حدیث کاعقیدہ ہے،اہلسنت کے نزدیک سنت مبارکہ،اجماع وقیاس سے بھی احکام ثابت ہوتے ہیں اورعورت کامردوں کے لئے امام بنناچاروں دلائل کی بناء پرناجائزہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ازروئے شرع عورت کامردکے لئے امام بنناناجائزہے،اسی پرشروع سے لے کرآج تک امت مسلمہ کامتواتر،متوارث اورمسلسل عمل چلاآرہاہے اورچاروں ائمہ سمیت تمام فقہاء ومحدثین ومفسرین کایہی مذہب ہے،جس عورت نے مردوں وعورتوں کی مخلوط جماعت کی امامت کی نرم سے نرم الفاظ میں اس نے حرام کاارتکاب کیا۔
کتبہ شعیب عالم
الجواب صحیح
محمدعبدالمجیددین پوری(شہید)