میڈیکل تعلیم کے بعد لاش کی بے حرمتی

مغربی ممالک میں لوگ میڈیکل کے طلباء کی سہولت کے لیے اپنے بدن کا عطیہ کرجاتے ہیں،جس کے بعد متعلقہ یونیورسٹی یا کالج کےلوگ باعزت طریقے سے اور اپنے ذمہ داری سے میت کی تدفین کردیتے ہیں مگر ہمارے ہاں میڈیکل کالجز میں لاوارث اموات کو میڈیکل ٹریننگ کے لیے استعمال کرنے کے بعد میت اور اس کے بقایا جات کو عزت کے ساتھ اور اسلامی طریقے سے دفن کرنے کے بجائے ضائع کردیتے ہیں۔ذیل کی تحریر اسی موضوع پر ہے۔
انسان بحیثیت انسان قابل احترام ہے خواہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔
اگر وہ مسلمان ہے تو اس کا احترام اور زیادہ ہے۔
اگروہ زندہ نہیں مردہ ہے تو قابل رحم ہے اور اس کے بے احترامی یا بے ادبی کا گناہ اس پہلو سے زیادہ ہے کہ اس سے معافی تلافی اب ممکن نہیں۔
اور اگر لاش مسلمان مرد کے بجائے مسلمان عورت کی ہے تو پردے اورستر کے پہلو سے اس کا احترام اور زیادہ اور احکام اور زیادہ سخت ہیں، یہاں تک کہ عورت کی میت کو ہاتھ لگانا تو درکنار وہ اجنبی کی نگاہ کے نیچے بھی نہیں جاسکتی چنانچہ اس کا شوہر بھی اس کے برہنہ جسم کو ہاتھ نہیں لگاسکتا۔
اب ذرا غور کیجیے کہ اسلام نے مسلمان میت کو کس قدر بلند مرتبہ اور قابل رشک مقام بخشا ہے اور ہمارے مسیحا کیا مسیحائی کررہے ہیں!!؟؟
میت کو تختہ مشق بنانے اور چیر پھاڑکرنے کے بعداس کا اصل حق تو یہ ہے کہ اسے مسنون طریقے سے غسل اور کفن دیا جائے،اس کا جنازہ پڑھاجائے اور ساتھ قبرستان تک جایا جائے ،اسے قبر میں مدفون کیا جائے اور پھر اپنے نیک اعمال میں اسے یاد رکھا جائے،مگر مسلمان ملک میں چھلنی چھلنی لاش کو ،تراشیدہ وخراشیدہ میت کو اور قوم کے مفاد میں کٹے اور نوچے ہوئے جسم کو جنازہ تک نصیب نہیں ہوتا اور اسے آخری آرام گاہ لیجانے کے بجائے کچرے اور فضلے کی طرح ضائع کردیا جاتا ہے۔
کون سامذہب،کہاں کا قانون اور کس قسم کا فلسفہ اخلاق اس کی اجازت دیتا ہے،اسے صریحا لاش کی بے حرمتی ،انسانیت کی تذلیل ، شدید سنگ دلی اور انتہائی قساوت قلبی کے علاوہ اور کیا کہاجاسکتا ہے؟
مسلمان جس طرح حین حیات قابل احترام ہے اسی طرح بعد از ممات بھی اس کا احترام باقی رہتا ہے ،اسے ایذا دینا ایسا ہی ہے جیسا ایک زندہ انسان کو ایذا دینا،سرکار دوعالم ﷺ کا یہ فرمان مشہور ہے کہ :
عن عائشة أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال : كسر عظم الميت ككسره حيا
( سنن أبي داود، كتاب الجنائز، باب فى الحفار يجد العظم هل يتنكب ذلك المكان ۳ / ۲٠۴ ط:دار الكتاب العربي ـ بيروت )
اس شنیع فعل کی وجہ قانون کی سستی اورمعاشرے کی غفلت بھی ہے، مگر اصل وہ ذہنیت ہے جو خوف خدا اور فکر آخرت سے عاری ہے اور جس کی مذہبی احکامات کے متعلق معلومات نہ ہونے کے برابر ہے، مسلمان اطباء کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو وہ فن طبابت کے ساتھ شرعی علوم کے بھی ماہر ہواکرتے تھے،دارالعلوم دیوبند میں عالم وفاضل کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد علم طب پڑھایا جاتا تھا ، مگر ہمارا شعبہ طب سے منسلک طبقہ اسلامی طب کی تاریخ اور اسلامی اصول واحکام سے برائےنام واقف ہوتا ہے، سرکار یہ ضرورت ہی محسوس نہیں کرتی کہ میڈیکل کی تعلیم کے ساتھ شرعی احکام کا جاننا بھی کوئی ضروری چیز ہے،اسی کانتیجہ یہ ظلم اور قساوت ہے۔
لاشوں اور انسانی اعضاء کو بلا اکرام واحترام ضائع کرنے کی اصل وجہ وہ قانون ہے جو میڈیکل تعلیم اورپوسٹ مارٹم کی غرض سے بضرورت اور بلاضرورت کھلم کھلا لاشوں کی چیر پھاڑ کی اجازت دیتا ہے اور اس سلسلے میں کسی حدود وقیود کا قائل نہیں چنانچہ مرد وزن کی مخلوط جماعت ایک برہنہ لاش پر طبی تجربات کرتی ہے،ادھر اخباری اطلاعات کے مطابق الائیڈ ہسپتال فیصل آباد میں واقع شہر کے واحد شعبہِ پوسٹ مارٹم میں "مورٹیشنز" یعنی پوسٹ مارٹم کے لیے پیشہ ور سٹاف کی عدم موجودگی کے باعث یہ کام پچھلے 19 سال سے ہسپتال کی صفائی سُتھرائی کرنے والے مسیحی سینٹری ورکروں سے لیا جا رہا ہے۔
زیادہ صاف لفظوں میں نجاست وغلاظت صاف کرنے والے غیر مسلم لاش کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں۔
ان دومثالوں اور اس سے پہلے کی بحث سے مقصود یہ ہے کہ اصل خرابی ناقص تعلیم اور غیر شرعی قانون میں ہے،تعلیم سے ذہنوں میں بگاڑ پیدا ہوا اور قانون نے اسے راستے اور مواقع فراہم کردیے چنانچہ نتیجہ سامنے ہے ۔