4
Safar

اسلامی احکام کے بارے میں چند سوالات کاجواب

امید ہے کہ آپ بفضلہ تعالیٰ فرحان وشادمان ہوں گے۔ آپ سے ٹیلی فون پر میری عرضداشت کی منظوری کے پیش نظر یہ سوالنامہ حاضرِ خدمت ہے۔ اس کے جوابات تحریری طور پر اور آپ کے ادارہ میں چھپے ہوئے لٹریچر کے ذریعے دیئے جاسکتے ہیں۔ سوالنامہ: برائے پی، ایچ، ڈی تھیسز۔

سوال نمبر۱ (الف)۔۔۔ جناب کی رائے میں اسلام کی صنفی تھیوری (Gender Theory) کیا ہے؟ کیا اسلام تخلیقی، دنیاوی وآخرت کے حوالے سے عورت کو مرد سے کمتر مخلوق گردانتا ہے؟ اس ضمن میں قرآنی آیات کیا بیان کرتی ہیں؟

(ب)۔۔۔برائے مہربانی مغربی تصورِ صنفی انصاف (Gender Justice)اور اسلامی تصور صنفی انصاف جو عدل، قسط اور احسان پر مبنی ہے، کا تقابلی جائزہ لے کر واضح کیجئے کہ صنفی انصاف کو ہم اسلامی تصور مساوات میں کیسے دیکھتے ہیں؟

سوال نمبر۲۔۔۔یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ قرآن میں تعدادِ ازواج (Polygamy)قانونِ وراثت (مرد:عورت236۱:۲کا تصور) عورت کی آدھی گواہی ، بیوی کو مارنے کی اجازت (آیات نشوز) اور حجاب کے متعلق آیات نسوانی کمتری اور جنسی امتیاز کا نظام قائم کرتے ہیں؟اس کا جواب ہم کیا دے سکتے ہیں؟

سوال نمبر ۳ (الف)۔۔۔کیا موجودہ دور کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسلامی فقہ (حنفی، حنبلی، مالکی، شافعی، جعفریہ) اور اسلامی روایتی لٹریچر (حدیث، تفسیر، تصورِ تقلید، وغیرہ) کا اصولِ شریعت وقرآنی اصول مساوات ، عدل، احسان، میزان کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اور قرآن میں احکام کا بتدریج ۲۳/برس کے عرصے میں ارتقاء (Gradualism reform)کی روشنی میں، اصول زمان ومکان اورآج کی ضروریات کے پیش نظر کیا اس کا پھر سے جائزہ (Re-visit)لیا جاسکتا ہے؟۔

ب۔۔۔ کیا اجتہاد کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوچکا ہے؟۔ کیا دورِ حاضر کی ضروریات کے مد نظر اسلامی اصولوں کے اندر نئی قانون سازی ہوسکتی ہے؟ جسے علامہ اقبال نے Spirit of Movement in Islamکہا ہے۔

سوال نمبر ۴(الف)۔۔۔مرد اور عورت کے اندر معاہدۂ نکاح کے مطابق کیا حقوق اور ذمہ داریاں ہیں؟ بیوی کے معاشی حقوق کیا ہیں؟ کیا عورت کو شادی میں حق انتخاب حاصل ہے؟ شادی میں بلوغت کے تصور میں کیا ذہنی اور جسمانی بلوغت دونوں شامل ہیں؟ ایک اسلامی مفکر کے مطابق قرآن وہ واحد صحیفۂ آسمانی ہے، جو ایک شادی (Monogamy)کی سفارش کرتا ہے اور عدل کے پیمانے کی سختی، اسی طرف اشارہ ہے۔اپنے خیالات کا اظہار کریں۔

(ب)۔۔۔آنحضرت ا کے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں کیا گھریلو کام کاج صرف عورتوں کی ذمہ داری ہے؟ اسلام گھریلو کام کو کیا قدر وقیمت دیتا ہے؟

سوال نمبر۵۔۔۔طلاق میں شوہر وبیوی (مطلقہ) کے کیا حقوق وذمہ داریاں ہیں اور اس ضمن میں اسلام نے طلاق کی اقسام کے پیش نظر کیا اصول مساوات وضع کیے ہیں؟ کیا قرآن مرد کو یہ حکم دیتا ہے کہ اپنی مطلقہ بیوی کو متاعِ حیات دو؟ خاندان اسلامی معاشرے کا ستوت ہے، جبکہ مرد اس کو طلاق بدعت کے ذریعے چشم زدن میں توڑ سکتا ہے۔ جبکہ عورت کو ظالم شوہر سے خلع حاصل کرنے کے لئے حق مہر ومال سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں اور عدالتوں میں دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ اس صورتِ حال کے پیش نظر کیا مرد کے حق طلاق کو بھی اسلامی اصولوں کے اندر رہتے ہوئے کسی قانونی دائرہ کار میں لانا چاہئے؟

سوال نمبر۶(الف)۔۔۔کیا اگر کوئی مسلمان چاہے تو بیٹی کے حالات کی تنگی کو دیکھتے ہوئے اپنی زندگی میں اسے بیٹے کے برابر حصہ دے سکتا ہے؟ (وراثت موت کے بعد لاگوہوتی ہے)

(ب)۔۔۔آج پاکستان میں خواتین کو خاص طور پر دیہات میں یہ کہہ کر ان کی اسلامی وراثت سے محروم کردیا جاتا ہے کہ انہیں جہیز دیاگیا تھا؟ اس سلسلے میں علماء کرام خاص طور پر دیہاتی مساجد کے مولوی کیا رول ادا کرسکتے ہیں؟۔ کیا اسلام میں وٹہ سٹہ (شغار شادی) اور قرآن سے شادی کی اجازت ہے؟

سوال نمبر۷ (الف)۔۔۔اسلام صنفی تشدد (غیرت کے نام پر قتل، کاروکاری، ونی سورہ (دیت میں عورت کو مقتول کے خاندان کے حوالے کرنا) عورتوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنا، تیزاب پھینکنا، ناک کان کاٹنا، چھیڑنا اور آوازیں کسنا) کے متعلق کیا سخت رویہ اختیار کرتا ہے؟

ب۔۔۔کیا اسلام گھریلو تشدد کی اجازت دیتا ہے؟ یعنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر مارپیٹ، گالم گلوچ کرکے بیوی پر ذہنی، جسمانی وجذباتی تشدد کرنا، اس بارے میں اسلام کیا سخت تنبیہ کرتا ہے؟

سوال نمبر۸۔۔۔آپ کی محترم رائے میں پاکستان میں عورتوں کی خاص طور پر اور غریبوں (مرد وعورت دونوں) کی زبوں حالی میں،(الف)جاگیردارانہ نظام، (ب)سرداری نظام، (ج)ہندوانہ رسم ورواج، (د)انگریزی استمراری نظام (Colonization)کا کیا حصہ ہے؟ (جسے آج اسلام کے نام پر ہمارے معاشرے کا حصہ بنادیا گیاہے)

سوال نمبر۹۔۔۔اسلام کا Socio-Humanitarian Ethical Framework(تمدنی انسانی حق وانصاف کا دائرہ کار) کیا ہے؟ اسلام کے تمدنی انصاف (Social Justice)کے پیش نظر پاکستان میں موجودہ رائج صنفی ناانصافی، جیسے کہ: لڑکیوں پر لڑکوں کو ترجیح، بیٹی کی پیدائش پر غم وغصہ، خواتین کی زائد شرح اموات(بوجہ Negligence) خواتین کی بنیادی انسانی حقوق وضروریات میں پسماندگی جیسے کہ: تعلیمی ، سیاسی، معاشی، مذہبی پسماندگی (پاکستان میں کوئی نامور خاتون مذہبی عالمہ یا مفسرہ نہیں ہے) کو دور کرنے میں علماء کرام کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟ اور اسلام کا اس سلسلے میں کیا لائحہ عمل ہے؟

سوال نمبر ۱۰۔۔۔ درج ذیل قوانین پر آپ کے ادارے کا اور آپ کا کیا نقطۂ نظر ہے؟( ۱)۔۔۔ عائلی قوانین ۱۹۶۱ء، (۲)۔۔۔حدود قوانین ۱۹۷۹ء، (۳)۔۔۔قانون قصاص ودیت (عورت کی آدھی دیت)، (۴)۔۔۔قانون شہادت ۱۹۸۴ء(عورت کی آدھی گواہی)، (۵)۔۔۔حقوقِ نسواں بل ۲۰۰۶ء (Women Protection Bill 2006۶۔۔۔تحفظِ نسواں بل (Anti, Harassment Bill)

سوال نمبر۱۱۔۔۔ پاکستان UNکا ممبر ہے اور اس کے تحت تمام معاہدوں کا پابند CEDAW یعنی Convention for Elimination of All Forms of Discrimination Against Women کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟۔والسلام

آپ کے تعاون کی خواہشمند،سیدہ میمونہ اسد رضا۔

الجواب باسم ملہم الصواب

۱۔۔۔الف: عورت کی صنف قدیم زمانہ سے ظلم وستم کا شکاررہی ہے، یونانی اخلاقیات، ہندوسماجیات، بازنطینی روایات، یہودی مذہبیات، عیسائی رہبانیات کسی نے کبھی اس صنف کو اس کے قدرتی حقوق سے بہرہ ور نہیں کیا، بلکہ ہمیشہ مختلف نظریات اور مختلف فلسفوں کو آڑ بناکر اس کے عظیم مرتبہ کو پست کرنے کی کوشش کی ہے۔ ابلیسی مظہر، گندگی کا سامان، تبادلۂ اشیاء کا آلۂ کار بناکر مختلف ناموں سے اس کے استحصال کی کوشش کی گئی ہے۔ عورت کے تحسینی حقوق تو کجا، ضروری حقوق سے بھی عورت کو محروم کرکے بالکل بے جان شئ کی طرح معاشرہ کے لئے ایک ذلت اور رسوائی کا نشان بناکر پیش کیا جارہا تھا۔ فارسی، کسروی ورومی اور قیصری سوسائٹی سے متأثرہ عرب روایات میں بھی عورت کو اس درجہ منحوس سمجھاجاتا تھا کہ اس کو خدا کی زمین پر بسنے کی اجازت بھی دینا ان پر بار تھا، یہاں پیدا ہوتی اور وہاں مہد مادر کے بجائے شکم قبر کی نذر ہوجاتی۔ معاشرہ کی تنگی اور سوسائٹی کے اس قدر پر فساد ماحول میں جب سر زمین عرب کو نسل اسماعیل ؑ سے ایک کامل ومکمل رہبر، آخری پیغمبر، سورج کی مانند تابناک اور چاند کی مانند ٹھنڈی روشنی سے فیضیاب ملا تو فضائے عرب کی اس بے چین وبے سکون کیف میں، حوا ؑ کی بیٹی کو ظلم وستم کی زنجیروں سے آزاد کرنے کے لئے علمی وعملی خدائی ہدایات عرب کے پتھر دلوں کو پگھلانے کے لئے نازل ہونا شروع ہوئیں اور مختلف ترغیبات وتہدیدات کے ذریعے صنف نازک کی عصمت کا بے مثال تحفظ کیا گیا۔

حضرت ابن عمرؓ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا: نزولِ قرآن کے زمانہ میں ہم نے ڈر کے مارے عورتوں سے زیادہ بے تکلفی تک چھوڑ رکھی تھی کہ مبادا ان کے حق میں کوتاہی ہوجائے اور ہم پر خدا کی قابل گرفت آیات نازل ہوجائیں۔ آپ ا کی وفات کے بعد ہمیں عورتوں سے کچھ کھل کربات کرنے کی ہمت ہوئی (یعنی یہ رویہ آپ ادیکھ چکے ہیں اور اس پر آپ ا کو کوئی اعتراض نہ تھا تو اب اس طرح ہم بات کرنے میں فراخی محسوس کرنے لگے) (۱)

ایک موقع پر حضرت عمرؓ کا آپ ا کو یہ عرض کرنا کہ ’’مکہ میں ہم تھے تو ہم عورتوں پر غالب تھے، مدینہ میں یہ ہم پر غالب ہوگئیں‘‘۔ (۲) بعید نہیں اسی حقیقت کی عکاسی ہو کہ اسلام نے ’’عورت‘‘ کے حقوق میں اس قدر آزادی مرحمت کردی تھی کہ ان کو اپنی بات کہنے کی جرأت ہوگئی تھی، ورنہ جاہلیت میں عورت کے میراث میں تقسیم ہونے پر اعتراض کو بھی خاندانی غیرت کے خلاف سمجھاجاتا تھا اور خاندان کا بڑا جس طرح چاہتا مرحوم کی عورت کو تقسیم کردیتا یا پھر اس طرح قید رکھتا کہ نہ اس کو شادی کی اجازت دیتا، نہ خود اس سے شادی کرکے اس کے حقوق ادا کرتا، یتیم بچی اگر خوبرو پیدا ہوتی تو سب کو چھوڑ کر اس کا والی وسرپرست ہی اس سے شادی کرلیتا اور اس کے مہر میں حق تلفی کرتا۔ (۳)

مراجع ومصادر

۱۔مسند احمد بن حنبل، مسند ابن عمرؓ رقم الحدیث ۵۲۸۴۔۵/۹ دار الحدیث القاہرۃ ۱۴۱۶ھ236۱۹۹۵ء

۲۔صحیح البخاری، ابواب المظالم، باب الغرفۃ والعلیۃ المشرفۃ وغیر المشرفۃ فی السطوح وغیرہا ۱/۳۳۴ ط: المیزان، لاہور۔

۳۔تفسیر ابن کثیرؒ ، سورۂ نساء ۲/۲۱۵،ط:مکتبہ فاروقیہ

انتقامی جذبہ کی تسکین کے لئے عورت کو نہ طلاق دے کر آزاد کیا جاتا تھا اور نہ اس کے حقوق کی ادائیگی کی فکر ہوتی تھی، طلاق دے کر عدت کے آخر میں رجوع کرلیا جاتا اور یوں بے شمار طلاقوں کا سلسلہ جاری وساری رہتا۔ چونکہ یہ مثبت انداز کی تحریر ہے، ورنہ تہذیب جدید کے علمبرداروں کے اس ناروا سلوک کا بھی تفصیلاً ذکر کیا جاتا، جسے چھپا کر آج اہلِ یورپ اور مغرب حقوقِ نسواں کے خوشنما ناموں سے عورت کے استحصال کو فروغ دے رہے ہیں۔

بہرحال! اس طرح کے معاشرتی حالات میں اسلام نے حقوق نسواں کا جو دستور پیش کیا، وہ مکمل عدل اور انصاف پر مبنی تھا: بیٹیوں کی پرورش کو جنت کا سبب ٹھہرایاگیا، بچیوں کی نگہداشت پر جنت کی ضمانت دی گئی، عورتوں کے حقوق کے متعلق ان کے مہربانوں کو کوتاہی سے ڈرایاگیا، قرآن میں مؤمنین ومؤمنات، مسلمین ومسلمات کو ساتھ ساتھ ذکر کرکے ان کی دنیوی واخروی مساوات کا ذکر کیاگیا، لیکن اس مساوات کو غلط رنگ میں پیش کرنے کی جو نامسعود سعی کی جارہی ہے، وہ دانشورانِ ملت کے لئے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔

مرد اپنی فطرت میں خداوند کی حکمت کے موافق جس زور بازو کو لے کر پیدا کیا گیا ہے، ظاہر ہے وہ قوتِ بازو عورت کو عطا نہیں کیا گیا۔ مرد کے کاندھوں پر جو ذمہ داریاں ڈالی گئیں، وہ اس کی اس فطری بخشش کردہ قدرت کے پیش نظر ڈالی گئیں، جبکہ عورت کی نزاکت کے پیش نظر اس کو اس کی صنف کے مطابق کام کاج کا ذمہ دار ٹھہرایاگیا۔ اس امتیاز کو ناانصافی کی ٹوکری میں ڈال کر مذکورہ امتیازی خصوصیات کی اس تقسیم کو ظلم ٹھہرانا فطرت کے خلاف جنگ ہے اور فطرت کے خلاف جنگ میں تاریخ شاہد ہے کہ فطرت کو ہی جیت ہوتی ہے۔ فطرت نے جو خصلت اور صفت دے کر کسی شخص کو اس سر زمین پر وجود عطا کیا ہے، اس خصلت کو بدلنا پہاڑ کو اپنے مقام اور محل وقوع سے ہٹانے سے بھی زیادہ مشکل ہے، بالفاظ دیگر یہ محال الوجود کو وجود بخشنے کی سعی ہے، جس میں کامیابی کا تصور بھی محال ہے۔

تخلیق کی کمزوری کا مطلب یہ نہیں کہ عورت مرد سے کمتر ہے، سوسائٹی میں اس کی عزت نہیں کی جائے گی، بلکہ تخلیق کی کمزوری اور نزاکت ہی تو وہ دلچسپ پہلو ہے، جس کے نتیجہ میں وجودِ زن سے کائنات کو رنگ بخشا گیا ہے۔ مرد کی فطرت میں جنسی کشش کا میلان نزاکت ہی کی طرف گرتا ہے اور عورت کی نزاکت اور کمزوری کا جنسی میلان قوت اور طاقت کی طرف گرتا ہے اور اس طرح سارے عالم کی اکائیوں میں پیدا کردہ اس ازدواج سے ایک حسین کائنات کو وجود ملتاہے اور ساری رنگینی اس حسین امتزاج کی گود میں سمٹ کر ماتھا ٹیک دیتی ہے۔

زرگر کا کام نزاکت کا خواہاں ہے، وہاں سنگ تراش کا کام نہیں، اسی طرح زرگر سنگ تراشی نہیں کرسکتا۔ یہاں عدم مساوات کا نعرہ لگاکر کوئی ہوش مند یہ کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا کہ زرگر کے حقوق میں کوتاہی برتی جارہی ہے۔

کاشتکار کو ہل جوتنے کے لئے خوب طاقت اور ہمت کی ضرورت ہے، جبکہ موتیوں کی مالابنانے کے لئے ذہنی کاوش چاہیئے۔ کوئی عقلمند یہ کہہ کر زبان طعن دراز کرے کہ موتیوں کی مالا جڑنے والوں کو کاشتکاری کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی، ظاہر ہے دونوں کی معاشرہ کو ضرورت ہے۔ کاشتکار ہل جوت کر گندم اور خوراک فراہم کرے گا، تب ہی تو زرگر کا کشیدہ کردہ زیور اور موتیوں کی مالا اس کے گھر کی زینت بن سکے گی۔

بعینہٖ اسی طرح عورت کا معاشرہ کی تشکیل میں اسی قدر حصہ ہے، جس قدر مرد کا ہے۔ مرد کی طاقت ہے تو یہ طاقت اپنے اپنے موقع کے لئے ضروری ہے، عورت میں فطری نزاکت اور خلقی کمزوری ہے تو وہ اپنے دائرۂ کار میں مفید بلکہ ناگزیر ہے، البتہ دنیوی اور اخروی اعتبار سے حقوق کی حدود کے اندر رہتے ہوئے مرد کو عورتوں کے حقوق کی ادائیگی واجب ہے اور عورت پر مردوں کے حقوق کی ادائیگی واجب ہے۔ قصاص میں عورت مرد برابر ہیں، جنگ کے موقع پر کسی کو سیاسی پناہ دینے میں عورت مرد برابر ہیں، اعمال صالحہ کے کرنے اور اس پر ملنے والے ثواب وجزاء میں دونوں برابر ہیں۔ اس برابری کے بعد اگر مردوں کو فطری برتری کسی درجہ میں حاصل ہے تو اس کو ظلم کے بجائے عین انصاف کہا جانا چاہئے، اس برتری کے بے جا استعمال پر شریعت نے مرد کو سخت مجرم بھی ٹھہرایا ہے، آخر یہ پہلو کیوں مہمل رہ جاتا ہے یا مہمل کردیا جاتا ہے؟ اس آخری جزء کی تفصیل سوال نمبر ۲ کے تحت آرہی ہے۔

(ب)۔۔۔جس طرح حقوق کو دبانے سے ایک شدت اور جذبات کی کیفیت ابھرتی ہے اور نرم خوئی ، تشدد پسندی کی جانب بڑھتی ہے، اسی طرح حقوق میں حدود کی رعایت رکھے بغیر آزادی سے جس طرح معاشرتی برائیاں جنم لیتی ہیں، وہ آج کی مغربی تہذیب کے آئینے میں عیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔

ایک زمانہ تھا کہ تہذیبِ نو کی تجدید کے علمبرداروں کے اسلاف نے عورت کو ایک ناپاک حیوان کی حیثیت دے رکھی تھی، زرخرید لونڈی کی طرح انہیں اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر لب کشائی کی جرأت کو قومی جرم سمجھا جاتا تھا۔ یونان وانگلستان کی تاریخ میں گذرے ادوار عورتوں کے معاشرتی کردارکا تاریک زمانہ ہے،ان مظالم سے آخر کار تنگ آکر جب حقوق نسواں کا شور اٹھا اور UNO کی سفارشات پر حقوق نسواں تحفظ کے تحت ’’صنفی انصاف‘‘ کے ملمع نام سے، جس کے پیچھے ابلیسی ذہنیت پوشیدہ تھی، عورتوں کے حقوق کی آزادی کے لئے تحریک ہوئی اور منشور برائے آزادئ نسواں پیش کیا گیا، جو کہ UNOکی قرار دادی دستاویزات کا ایک حصہ ہے او رعورتوں کی مساوات کے لئے یہ طریقہ اختیار کیاگیا کہ عورت کو مرد بنادیا جائے اور مردوں کے وظائف عورتوں پر بھی تقسیم کردیئے جائیں، عورتیں شانہ بشانہ کام کرنے لگیں، لیکن درحقیقت باریک بین نگاہیں اس کو دو طرح سے انتہائی مضر سمجھ رہی تھیں:

۱۔۔۔عورت کی فطرت اس کو مجالس اور محافل کی زینت بنانے کے مخالف ہے اور اس سے ایک ہنگامہ برپا ہوجائے گا۔

۲۔۔۔ابلیسی ذہنیت کے حامل لوگوں کو عورتوں کے استحصال کامزید موقع مل جائے گا۔

آج مغرب کے پیش کردہ عورتوں کے صنفی تحفظ نے آخر دنیا کو کیا پیش کیا ہے؟ یہی کہ مغربی دنیا میں خاندانی نظام تباہ ہوچکا ہے، عورتیں نمائش کا ذریعہ بن چکی ہیں، صرف جنسی تسکین کا ایک ذریعہ سمجھ لی گئی ہیں، ماں، بیٹی اور بہن ہونے کا اعلیٰ مرتبہ اس سے چھین لیا گیا ہے۔ مغربی تہذیب کے ہم نوا پہلے ان کو بیٹی، بہن اور ماں نہ سمجھ کر ان کے حقوق کی پاس داری نہیں کرتے تھے اور اب ان کو بیٹی، بہن اور ماں سمجھ کر ان کے حقوق کی دوسرے انداز میں پامالی کررہے ہیں اوربے چاری عورت نت نئے ناموں کے پیچھے دوڑ کر اپنے فطری مقام، عزت وعظمت کو اور اپنی عصمت کی چار دیواری کو اپنے ہاتھ سے ڈھاکر بے حیائی کا طوق خرید رہی ہے۔ اسلام نے جاہلیت کے ظلم کو ختم کیا، عورت کو وہ مقام بخشا جس میں عورت کو کسی دوسرے قالب میں پگھلانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ عورت کی فطری ضروریات کو فطری نوامیس کے مطابق پورا کرنے کی استعداد، ایمان والوں میں پیدا کرنے کی کوشش کی۔ عورت کو کہیں ماں کے روپ میں دکھلاکر اس کی عزت واحترام کو جنت کے حصول کا آسان ذریعہ قرار دیاگیا اور کبھی بیٹی اور بہن دکھلاکر اس کی عصمت کی حفاظت کا ذمہ دار اس کے باپ اور بھائی کو قرار دیا۔ یہ اسلام کا وہ غیر معمولی پیمانۂ عدل ہے، جس میں افراط کی خوشنما رنگینیاں نہیں اور نہ ہی تفریط کی تاریکیاں ہیں۔ عورت کی کمزوری کے پیش نظراسے صرف گھر کے کام کاج ہی کا ذمہ دار ٹھہرایاگیا اور بغیر ضرورت اپنی عصمت کی چار دیواری سے نکل کر غیروں کے ہاتھ کھیلنے سے بچایا،مردوں کو ان کا سر پرست بناکر ان کے حقوق کی ادائیگی کے لئے ان کو خرچہ اور جائے سکونت کے بندوبست کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اگر مرد اس میں کوتاہی کرکے ظلم کرتا ہے تو عورت کو اسلام نے بے آسرانہیں چھوڑا، بلکہ یہ عورت قاضی کے پاس انصاف کے حصول کے لئے جاسکتی ہے اور قاضی عمومی اختیارات کے تحت اس کے خرچہ اور سکنیٰ کا بند وبست کروائے گا اور اس کی کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھانے والے ہاتھ کو روک دے گا۔

مغربی تہذیب نے صنفی انصاف میں پہلے خود بے راہ روی کے سنکھیا پودے کو نشو ونما بخشی اور پھر جب بے حیائی اور بے شرمی کا سنکھیا پھل نکل کر لہلہانے لگا تو اس کے استعمال سے ناسمجھ اور نادان لوگوں کو روکنے کے لئے تشدد آمیز قوانین بنائے، لیکن ناسمجھ اور سفیہ کو اچھے برے کی کیا تمیز ہوسکتی ہے؟ مغرب میں عورتوں پر ہونے والے جنسی تشدد کے واقعات اس کی واضح ترین مثالیں ہیں، یہ درحقیقت فطرت سے کی جانے والی اس جنگ کا ثمرہ ہے، جس پر بانیان وپرستارانِ تہذیبِ جدید کے اسلاف نے کمرباندھی اور جس پر آج مغربی تہذیب کے علمبردار کمربستہ ہیں۔

۲۔۔۔غیر معقولی منطق کا کیا کیجئے کہ جنسی امتیاز کو جنسی کمتری سمجھ کر مغربی تہذیب سے غیر معمولی متأثر لوگوں نے اسلام کے پیش کردہ نظام عدل پر قدغن لگانے یا پھر تاریخ کے چند ضعیف اور کمزور واقعات کا سہارا لے کر اپنی سوچ کے مطابق اسلامی تہذیب کو بھی مغربی تہذیب سے ہم آہنگ قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن نام نہاد دانشوروں کو کوئی سمجھائے کہ عقل وخرد کے کچھ سرمائے سے مدد لے کر کم از کم اس غیر معقول منطق سے بیزاری کا اظہار کریں۔ دو چیزوں میں فطرت نے امتیاز رکھا ہے تو اس سے کسی چیز کو کمتر اور برترقرار دینا کس معیار کے مطابق ہے؟ یہ تقسیم کس طرح عمل میں لائی گئی ہے؟

گل لالہ اور چنبیلی میں خصوصیات کے مختلف ہونے کی بناء پر چنبیلی کی قدر کو گھٹانا اور گل لالہ کی قدر کو بڑھانا کس طرح درست ہوسکتا ہے؟حالانکہ چنبیلی کی بہت سی خصوصیات سے گل لالہ عاری ہے اور چنبیلی گل لالہ کی کئی خصوصیات پر رشک کرتی ہے، دونوں پھول ہیں اور دونوں کی قدر کے اپنے پیمانے ہیں، جس طرح گل لالہ چمن کی زینت میں حصہ رکھتا ہے، بعینہٖ اسی طرح چنبیلی کی خوشبو، گلزار کو مہکاتی ہے۔ عورت اور مرد میں خصوصیات کے فطری فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کے لئے الگ الگ قوانین وضع کرنا کہاں کا ظلم ہے؟ اور کس طرح عورت کو کمتر قرار دیا جاسکتا ہے؟ اگر عورت میں بعض مردانہ خصوصیات نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عورت کمتر ہے تو مرد کا بعض زنانہ خصوصیات سے عاری ہونا اس بات کو مستلزم ہوگا کہ مرد بھی کمتر ہے۔ ہرایک کو الگ الگ فضیلت بخش دی گئی ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ خداوند تعالیٰ نے تو انبیاء علیہم السلام کی خصوصیات وامتیازات میں تفاوت رکھا ہے تو کیا کسی کو مجال ہے کہ وہ کسی نبی کو کمتر وکہتر اور کسی کو برتر وبالا ثابت کردے؟ بندوں کے لئے سب کو برابر رکھا ہے۔ عقلی حکمتوں کے گورکھ دھندوں سے یک جانب ہوکر ایک مسلمان جو خدائی ہدایت پر کامل یقین رکھتا ہو، وہ اس طرح کا بے جا اعتراض نہیں کرسکتا، یہ اعتراض صرف عقل سے کورے یا بے ایمان لوگوں کا پیدا کردہ ہے۔

تعدد ازواج کی اگر شوہر کو اجازت ہے تو کیا ظلم کی بھی اجازت ہے؟ اس شوہر کے لئے جو بیویوں میں ناانصافی برتے، قیامت کے دن کی سخت شرمندگی اور سزا کی وعید کیوں بھلا دی جاتی ہے؟ قانون وراثت میں اگر عورت کو مرد سے ایک گنا کم حصہ ملتا ہے تو یہ کیوں نہیں دیکھا جاتا کہ عورت پر سوائے چند ناگزیر حالات کے خرچہ کی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی، اس کی ذمہ داری کبھی باپ اٹھاتا ہے، کبھی بھائی اور پھر شوہر اور آخر کار اولاد کو اٹھانی ہے۔

عورت کی آدھی گواہی سے عورت کی قدر ومنزلت گھٹانے کو کیا نسبت ہے؟ عورت کو محافل عام میں شرکت سے روک دیاگیا ہے، لوگوں کی ناجائز خواہشات کے لئے آلۂ کار بننے سے محفوظ کرکے ان کو حیا کی چادر پہنائی گئی ہے۔ عقلی طور پر اس حیا کی چادر کا تقاضا بھی یہی تھاکہ وہ قاضی کی مجلس میں کھل کر بولنے سے بھی اس ’’حیاء‘‘ کی پاکیزہ پوشاک کو اتارنے کے لئے تیار نہ ہو اور ہیبت زدہ ہوکر گواہی سے ہی دستبردار ہوجائے اور حقوق تلف ہونے لگیں تو اس کی ہمت بڑھانے کے لئے اس کے ساتھ ایک عورت کا اضافہ کردینا کیا ظلم ہے؟

ایک طرف آیاتِ نشوز کو ہوّا بناکر آج جو بدطینت وبدخصلت لوگوں نے ناجائز فائدہ اٹھاکر اپنی بیویوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ ڈالے ہیں، تو دوسری جانب اس آیت کو بنیاد بناکر کوتاہ عقل والوں نے اسلام کو ’’مرد‘‘ کو جائز بالادستی بخشنے پر موردِ الزام ٹھہرایا ہے، حالانکہ یہ دونوں گروہ یاتو احکامات کی درست تشریح سے غافل وجاہل ہیں یا پھران کے باطن بدمیں اسلام کے خلاف بغض بھر ہوا ہے۔ مرد کو اگر بیوی کومارنے، پیٹنے کی اجازت ہے تو اس کے مراتب ودرجات کا مفہوم اور ان کی تشریح اس قدر ہے کہ اس کے پیش نظر اس حکم کو ظلم کہنے والے خود ظالم ہیں۔ اس مارنے کو بھی اس شرط کے ساتھ مقید کردیا گیاہے کہ کوئی نشان جسم پر نہ پڑنے پائے اور کیا اس مارنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے؟ ہرگز نہیں! یہاں سورۂ تغابن کی آیت ’’عفو وصفح‘‘ نگاہوں سے کس دباؤ کی بناء پر پوشیدہ رہ جاتی ہے؟ جس میں سرپرست حضرات کو عفو ودرگزر اور غلطیوں کو بھلا دینے کی ترغیب دی گئی ہے۔ (سورۂ تغابن، آیت: ۱۴)

’’حجاب‘‘ کو کمتری کی دلیل بتلانا اور اس پر ایک عالَم کا متأثر ہوجانا، یہ مسلمانوں کی واضح مرعوبیت اور غلامی کے آثار میں پیدا ہونے والی احساس کمتری کی بیّن دلیل ہے۔ کسی شئ کی حفاظت کے لئے اس کو لوگوں سے چھپا کر رکھنا، یہ اس شئ کی عظمت کی دلیل ہے یا کمتری کی؟ ہدایت اور گمراہی واقعی اس مالک کے ہاتھ میں ہے جو اگر گمراہ کردے تو ہدایت کی طرف راہ یابی ناممکن ہے، کتاب کی جلد بندی کو آج تک کسی نے کتاب کی بے حرمتی نہیں کہا، گندم کے خوشوں پر چڑھے پردے کو کسی نے گندم کی کوتاہی شمار نہیں کیا، مغزیات کے خول میں بند ہونے کی بناء پر کسی نے ان کی قدر کو گھٹا ہوا نہیں پایا، پھر حجاب کو( جو کہ عورت کے قیمتی ہونے کی علامت ہے) اس کی کمتری کی دلیل کیوں اور کس منہ سے قرار دی جارہی ہے؟ اسلام عورت کے احترام اور عظمت کو گندی نگاہوں سے پوشیدہ کرنے میں مضمر سمجھتا ہے۔ ’’نمائشی عورت‘‘ کی طرح صرف جنسی جذبات کی تکمیل کے لئے بازار میں نکلنے کا اسلام ہرگز حامی نہیں اور اس طرح زرمبادلہ کی طرح استعمال کو عورت کی حقیقی قدر کو بے قیمت کرنے کے مترادف سمجھتا ہے۔ اگر کسی کوڑھ مغز کو ’’حجاب‘‘ کی تہہ میں چھپی حیا اور پاکیزگی کی پوشاک بری لگتی ہو تو وہ اپنا سردھنتا رہے اور اپنی اس جہالت آمیز منطق کے گن گاتا رہے، اہل عقل اور ہوشمند شخص کو ’’حجاب‘‘ کی خوبیوں پر مزید کسی دلیل کی حاجت نہیں۔

۳۔۔۔الف:سب سے پہلے تو یہ ذہن نشین کیا جانا ضروری ہے کہ اسلامی فقہ کے ذخائر جو فی زمانہ ہمارے مکاتب کی زینت اور امت اسلامیہ کے لئے سرمایۂ افتخار ہیں، قرآن وحدیث سے جدا کوئی انسانی ساختہ قوانین نہیں ہیں۔ اسلامی فقہ دراصل قرآن وسنت یعنی فرمانِ خدا اور اس کی شرح فرامینِ مصطفی سے حاصل شدہ اصول ومبادی اور فروعات وجزئیات کی روشنی میں اہل علم وفضل اور خدائی حکمت سے بہرہ ور اصحابِ فقہ وکمال کا تشکیل کردہ اور ترتیب کردہ دستور اسلام ہے، جس میں کوئی اختراعی فارمولا پیش نہیں کیاگیاہے۔ اس کے بعد سوال کی مذکورہ تحریر میں جس جائزہ کی ضرورت کا ذکر کیاگیا ہے، اس کے متعلق سوال کی ظاہری ساخت خاصی مبہم ہے، جس کے لئے اول تجزیہ وتحلیل ناگزیر ہے ۔ ’’اسلامی احکام‘‘ کی نوعیت آپس میں مختلف ہے، ضروریات کے شعبہ سے متعلقہ اسلامی احکام وعقائد میں کوئی تغیر وتبدل آمیز کاوش ہرگز روا نہیں۔

قطعیاتِ دین، دین کی وہ بنیادیں ہیں جن کو نظر انداز کرکے دین کی کوئی تشریح ناقابل قبول ہوگی، جیسے: نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، محرماتِ قطعیہ اور محللاتِ قطعیہ، جن کا حکم قرآن وسنت اور اجماع امت میں واضح ہے، اس میں مزید کسی جائزہ کی ضرورت نہیں ، چاہے اس جائزہ کا جواز پیش کرنے کے لئے اسے ارتقائی مراحل کا ملمع عنوان کیوں نہ پہنادیا جائے، اس لئے کہ تکمیلِ دینِ اسلام کے اعلان کے بعد اس میں ’’ارتقاء‘‘ کے پیش نظر ، زمانہ کی فساد سے بھر پور فضا سے متأثر ہوکر احساس کمتری کی بناء پر کوئی تغیر براہ راست تکمیلِ اسلام کے خدائی دعویٰ پر اشکال کے مترادف ہے۔

احکام کا دوسرا شعبہ اجتہادی فروعی مسائل کا ہے، جو جزئیات فقہاء کرام نے اپنے اپنے مدارکِ اجتہاد کے مطابق طے کردیں اور ہر فقیہ کو تکوینی طور پر پیرو کار میسر آئے اور آئندہ زمانوں میں چار مسالک بنیادی طور پر امت میں عموماً شہرت پذیر ہوئے، جن میں فقہ حنفی کو خصوصی شہرت حاصل ہوئی اور اولین تشکیل سازی وتدوین نگاری کا سہرا اسی کے مجتہدین کے سر ہے، اسی طرح فقہ مالکی، فقہ شافعی اور فقہ حنبلی کو بالترتیب امتِ اسلامیہ میں پذیرائی حاصل ہوئی، ان اجتہادی مسائل کے متعلق جوکچھ تشریح ان ائمہ فقہاء سے منقول ہو، قاعدہ یہ ہے کہ زمانہ ومکان کی رعایت رکھتے ہوئے اور عرف ورواج کو دخل دیتے ہوئے مخصوص شرائط اور اہم تقاضوں اور ضرورت کے پیش نظر کسی بھی ایک فقہ کی تقلید کی جاسکتی ہے، اسی طرح وہ مسائل جو ان ائمہ فقہاء سے منقول نہیں ہیں اور لامتناہی حوادث کا سلسلہ جاری ہے، ان میں ’’اجتہاد فی المسائل‘‘ کے شعبہ کو بروئے کار لاتے ہوئے اہل علم طبقہ ہر زمانہ میں ائمہ سے منقول جزئیات کی روشنی میں جائزہ لیتا رہا ہے اور لیتا رہے گا ۔ ’’اجتہاد فی المسائل‘‘ کا یہ درجہ اور رتبہ امت کے فقہاء کو اب بھی حاصل ہے اور وہ نئے پیش آمدہ حوادث میں آئین اسلام کے متفقہ دستور، یعنی مذاہب اربعہ کے فقہی ذخیرے کو کام میں لاکر ان کا حل پیش کرتے رہتے ہیں۔ (۴)

ب۔۔۔ اور دراصل ’’اجتہاد فی المسائل‘‘ کے اسی عملی فن کے پیش نظر شاعر مشرق علامہ اقبالؒ ؒ نے Spirit of Movementکو اسلامی فقہ کا خاصہ شمار کیا ہے۔ اس کے علاوہ ’’نئی قانون سازی‘‘ سے کوئی اور مراد درست نہیں۔

جس قرآنی مساوات اور عدل کا ذکر سوال میں کیا گیاہے، اس کے ضوابط اور شرائط قرآن وحدیث کی روشنی میں اسلامی فقہ کے ماہرین اصول فقہ اور اصولِ حدیث کے نام سے مرتب کرچکے ہیں اور انہی کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل کا جائزہ لیا جاتا رہا ہے اور لیا جاتا رہے گا۔ البتہ اس عنوان کے تحت ’’آزاد فکری‘‘ اور ’’آزاد روی‘‘ کے رجحان کو فروغ دے کر مسلّمہ اصول وقوانینِ شریعت میں جو تغیر وتبدل کیا جارہا ہے، وہ قابلِ صد افسوس اور قابلِ صد مذمت ہے۔

۴۔۔۔(الف،ب)اسلام جو نظام حیات پیش کرتا ہے، اس میں کسی فطری اور خلقی جذبہ کے ازالہ (بالکلیہ ناپیدکرنے) کے بجائے اس فطری جذبہ اور خمیرۂ انسان میں رچے بسے ہوئے خصائل اور عادات کو اس کی درست سمت اور جہت کی طرف موڑ دیا ہے۔خواہشاتِ انسانی کی تکمیل کے لئے مرد وزن کو جب بغیر نکاح کے ناپاک ملاپ سے منع کردیا اور اس پر وعیدات وارد کردیں تو ان خواہشات کی تکمیل کے لئے نکاح کا پاکیزہ اور صاف ستھرا رشتہ بطور نعمت مرحمت کردیا، تاکہ کسی کو اپنی بے راہ روی اور آوارگی کے جواز کے لئے ناحق ہتھیار نہ مل جائے۔ مرد وزن کے باہمی پاکیزہ رشتہ نکاح کو سنوارنے کے لئے ہرایک کے لئے کچھ فرائض مقرر کردیے اور جو فرائض مرد کے اوپر لازم ہیں، وہ ا س کی بیوی کے حقوق ہیں اور جو فرائض عورت کے اوپر لازم ہیں، وہ اس کے شوہر کے حقوق ہیں، اگر ہرایک اپنے فرائض کو صحیح طور پر بجالائے تو آج گھروں کے سارے جھگڑے ہی ختم ہوجائیں، اپنے فرائض میں کوتاہی ہی سے دوسرے کے حقوق پامال ہوتے ہیں اور بدمزگی کی فضا پیدا ہوکر خاندان کو تباہ کردیتی ہے۔ قرآن کریم نے مرد وعورت، ہر دو کے حقوق کو ایک جامع انداز میں صرف ایک سطر میں اس طرح سمودیا کہ فصاحت وبلاغت کی ساری رعنائیاں بیک وقت سمٹ کر اس اجمال میں جھلکنے لگتی ہیں۔ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ، وَاﷲُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ‘‘۔ (البقرہ:۲۲۸)

ترجمہ:۔’’اور عورتوں کا بھی حق ہے، جیساکہ مردوں کا ان پر حق ہے دستور کے موافق، اور مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے اور اللہ زبردست، تدبیر والا ہے‘‘۔

جس طرح عورت کو اس کے حقوقِ مناسبہ نہ دینا ظلم وجور اور قساوت وشقاوت ہے، جس کی اسلام نے مکمل بیخ کنی کردی ہے، اسی طرح ان کو کھلے مہار چھوڑ دینا اور مردوں کی نگرانی اور سیادت سے آزاد کردینا، اس کو اپنے گزارے اور معاش کا خود متکفل بنانا بھی اس کی حق تلفی اور بربادی ہے، نہ اس کی ساخت اس کی متحمل ہے اور نہ گھریلو کام کی ذمہ داری اور اولاد کی تربیت کا عظیم الشان کام جو فطرۃً اس کے سپرد ہے، وہ اس کا متحمل ہے۔ علاوہ ازیں مردوں کی سیادت ونگرانی سے نکل کرعورت پورے انسانی معاشرہ کے لئے خطرۂ عظیم ہے، جس سے دنیا میں فساد وخونریزی اور طرح طرح کے فتنے پیدا ہونا لازمی اور روز مرہ کا مشاہدہ ہے، اس لئے قرآن کریم نے عورتوں کے حقوق واجبہ کے بیان کے ساتھ ساتھ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ:’’وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ‘‘ یعنی مردوں کا درجہ عورتوں سے بڑھا ہوا ہے اور دوسرے لفظوں میں یہ کہ مرد ان کے نگران اور ذمہ دار ہیں۔

ذیل میں شوہر اور بیوی کے باہمی حقوق اور ان کی ذمہ داریوں کے متعلق بنیادی اصول پر مشتمل اجمالی خاکہ پیش کیا جاتا ہے:

۱۔۔۔امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ دونوں نے یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا:

’’تم میں سے ہر شخص (اپنے اپنے شعبے اور اپنے اپنے متعلقہ امور کا) نگران اور ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھ ہوگی: حاکم وقت نگران ہے، اس سے عوام کے متعلق پوچھ ہوگی، مرد اپنے اہل وعیال کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعایا (یعنی اہل وعیال کے حقوق کی ادائیگی) کے متعلق پوچھ ہوگی، عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران اور محافظ ہے اور اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال ہوگا، ملازم اپنے مالک کے مال کا نگران ہے اور اس کے متعلق پوچھا جائے گا (بہرحال) تم میں سے ہرشخص کسی نہ کسی شعبہ کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال ہوگا‘‘۔ (۵)

۲۔۔۔ترمذی شریف میں روایت ہے کہ نبی اکرم ا نے ارشاد فرمایا:

’’سب سے زیادہ کامل ایمان والا مؤمن وہ ہے، جس کے اخلاق اچھے ہوں اوربہتر وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے‘‘۔ (۶)

۳۔۔۔مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا:

’’کوئی مؤمن شوہر اپنی مؤمن بیوی سے بغض نہ رکھے، اگر اس کی کوئی ایک عادت بری لگتی ہے تو دوسری عادت سے وہ خوش ہوگا‘‘۔(۷)

۴۔۔۔ابوداؤد شریف میں یہ روایت منقول ہے کہ ایک صحابی معاویہ بن حیدہؓ نے بیوی کے حقوق کے متعلق دریافت کیا۔ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا:

’’جب تو کھائے تو اس کو بھی کھلا، جب تو پہنے تو اس کو بھی پہنا، چہرے پر مت مار، برا بھلامت کہہ (اور اگر بیوی کی بدخلقی پر اس کو سرزنش کرنے کے لئے اس کو اپنے بستر سے علیحدہ کرنے کی ضرورت پڑے تو) گھر ہی میں علیحدہ کر ‘‘۔ (۸)

۵۔۔۔حجۃ الوداع کے موقع پر آپ ا نے عورتوں کے متعلق جو نصائح امت کو ارشاد فرمائیں، ان کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ:

’’خبردار! عورتوں کے بارے میں بھلائی کی روش اختیار کرو، وہ تمہارے ماتحت نگرانی میں ہیں، وہ تمہاری مملوکہ لونڈیاں ہرگز نہیں، تم صرف نگران ہو، البتہ اگر وہ کوئی بری حرکت (زنا، فحش وغیرہ) کرتی ہیں تو ان کو بستر سے علیحدہ کردو اور ان کو اس طرح مارو کہ اس مار سے کوئی نشان نہ پڑے اور اگر تمہاری فرمانبرداری کرنے لگیں تو تمہیں ان پر کوئی اختیار نہیں، خبردارر ہو! تمہارے حقوق کی ادائیگی ان پر ضروری ہے اور ان کے حقوق کی ادائیگی تم پر ضروری ہے ، تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستر کو کسی غیر شخص سے گندا نہ کریں اور جو لوگ تمہیں ناپسند ہیں ان کو گھر آنے نہ دیں اور خبردار! تم پر عورتوں کا یہ حق ہے کہ تم ان کے کھانے، پہننے کا خوب اچھی طرح خیال رکھو‘‘۔ (۹)

۶۔۔۔صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابوداؤد اور سنن نسائی میں یہ حدیث منقول ہے کہ رسول اکرم ا نے ارشاد فرمایا:

’’جب شوہر( اپنی جائز خواہش کو پورا کرنے کے لئے) اپنی عورت کو بستر پر بلائے اور پھر (بغیر کسی عذر کے، محض شوہر کو رنج پہنچانے کے واسطے) وہ نہ آئے اور شوہر غصہ کی حالت میں رات گزارے تو فرشتے ایسی عورت پر صبح تک لعنت کرتے رہتے ہیں‘‘۔ (۱۰)

۷۔۔۔طبرانیؒ نے اوسط میں یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ رسول کریم ا نے فرمایا:

’’دو شخص ایسے ہیں، جن کی عبادت قبولیت کے واسطے ان کے سروں سے بھی اوپر تجاوز نہیں کرتی (چہ جائیکہ آسمان تک پہنچ کر ان کے نامۂ اعمال میں مندرج ہو): ایک غلام جو اپنے آقا سے بھاگ جائے، یہانتک کہ وہ دوبارہ لوٹ نہ آئے، دوسری وہ بیوی جس نے شوہر کی نافرمانی کی ہو، یہانتک کہ وہ اس سے راضی ہوجائے‘‘۔ (۱۱)

۸۔۔۔ طبرانیؒ نے اوسط ہی میں ایک اور روایت یہ بھی ذکر فرمائی ہے کہ رسول کریم ا نے فرمایا:

’’جب عورت گھر سے ایسی حالت میں نکلتی ہے کہ شوہر اس کے اس نکلنے پر رضامند نہیں ہوتا تو آسمان کے فرشتے اور سوائے انسان وجن کے ہر وہ چیز جس کے پاس سے وہ گذرتی ہے، اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں، یہانتک کہ وہ لوٹ کر گھر واپس آجائے‘‘۔ (۱۲)

ترمذی، ابوداؤد اور نسائی کی روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا:

’’جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں عدل ومساوات نہ برتتا ہو تو قیامت کے دن ایسی حالت میں حاضر ہوگا کہ اس کا ایک پہلو گراہوا ہوگا‘‘۔ (۱۳)

۱۰۔۔۔سنن ابوداؤد اور سنن نسائی کی روایت ہے کہ رسول اکرم ا نے ارشاد فرمایا:

’’آدمی کے گناہ گار ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ جن کی روزی رسانی کا ذمہ دار ہو، اس کو ضائع کردے (اور ان کا خیال نہ رکھے)‘‘۔ (۱۴)

درج بالا احادیث کی روشنی میں شوہر وزن کے باہمی حقوق کا تعین بھی بخوبی ہوگیا، نیز گھریلو کام کی قدر وقیمت اور زن کی بحیثیت زن ہونے کے ذمہ داری بھی واضح ہوجاتی ہے، اسی طرح بیوی کی معاشی ذمہ داری کی وضاحت بھی خوب ہوجاتی ہے۔

عورت کو شادی میں انتخاب کا بہرحال حق حاصل ہے، لیکن آوارگی کا اسلام نہ حامی ہے اور نہ اس کی اجازت فطرتِ سلیمہ پر مبنی عقل دے سکتی ہے کہ از خود عورت عدالتی نکاح چھپ چھپا کر کرلے، ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ عورت کی رضامندی کے بغیر اس کا نکاح نہیں کیا جاسکتا ہے۔

 

جسمانی بلوغت اور ذہنی بلوغت کی جو تقسیم زور وشور سے پیش کی جارہی ہے، وہ ایک نئی اختراع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جسمانی بلوغت کے ساتھ ہی ذہنی بلوغت کے حصول کا فطری قانون جاری فرمارکھا ہے۔ اس تقسیم میں مزید بحث اس وقت کی جاسکتی ہے، جب کہ اس تقسیم کی تشریح واضح طور پر بیان کردی جائے اور دونوں کی حدود کو متعین اور واضح کردیا جائے۔

اسلام عدل وانصاف کا ضرور حکم کرتا ہے او رعدل نہ کرنے والے کے لئے وعیدات بھی سناتا ہے، لیکن عدل کرنے والوں کے فضائل بھی بیان کرتا ہے اور قیامت کے دن ان کے لئے نور کے منبر بچھائے جانے کی بشارت بخشتا ہے۔ (۱۵)

یہ سیدھا سادا مفہوم سمجھ لینے کے بعد یہ ذہن نشین کر لیجئے کہ اسلام اسی عدل کی سفارش کرتا ہے، ورنہ اسلام شادی کے معاملہ میں آزاد مرد کو چار تک بیویاں بیک وقت عقد نکاح میں رکھنے کی باقاعدہ اجازت دیتا ہے اور پھر اس اجازت کے ساتھ عدل کو مضبوط تھامنے کا حکم دیتا ہے، نیز عدل کا مفہوم جب ہی واضح ہوسکتا ہے، جب کہ ایک سے زائد بیویاں اس کے نکاح میں ہوں: عدل پر سختی کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ مرد کے لئے ایک سے زائد شادی ممنوع اور حرام ہوگئی ہے، بلکہ علمائے تفسیر فرماتے ہیں کہ وہ آیت جس میں دو سے چار تک شادی کی اجازت فرمائی گئی ہے، اس میں دو بیویوں سے ابتداء کرنے سے اس طرف اشارہ ہوسکتا ہے کہ دو یا اس سے زائد شادیاں کرنا مستحب ہے ۔ (۱۶)

اگر عدل وانصاف نہ کرسکتا ہو اور معاشی مجبوریاں کسی مرد کو اس بات کی اجازت نہ دیتی ہوں تو پھر اس کو ایک ہی شادی کرنا مناسب ہوگا۔

۵۔۔۔نکاح اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لئے وہ عظیم نعمت ہے، جس کے ضمن میں اور کئی نعمتیں انسان کو بیک وقت حاصل ہوجاتی ہیں: اس نکاح کے ذریعہ توالد وتناسل کا مقصد حاصل ہوتا ہے اور فطرت کی پیدا کردہ انسانی خواہش کی تسکین کے لئے پاکیزہ راہ فراہم کی جاتی ہے۔ اس نکاح سے جہاں مرد گھریلو ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتا ہے ،وہاں عورت کو اپنی عفت وعصمت کی حفاظت کا سامان بہم میسر آجاتا ہے اور آپس کے اس امدادِ باہمی اور تعاونِ جانبین سے ایک پاکیزہ معاشرہ وجود پاتا ہے۔

نکاح کے اس عظیم تحفہ کو ختم کرنے کا اختیار اگرچہ مرد کو حاصل ہے، عورت کو شریعت نے طلاق دینے کا ہرگز اختیار نہیں دیا، تاہم طلاق کو ’’ابغض المباحات‘‘(مباح امور میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ) قرار دے کرشوہرکو اس انتہائی سنگین اقدام سے گویا روک دیا گیا ہے (۱۷) کیونکہ اس سے صرف دوزندگیاں ہی نہیں، دو خاندان باہم دست وگریبان ہوجاتے ہیں اور سوسائٹی اعلیٰ اقدار سے پستی کی طرف جانے لگتی ہے، جس کو اسلام ہرگز پسند نہیں کرتا، البتہ طبائع کے فطری اختلاف کی بناء پر اگر میاں بیوی کا آپس میں رہنا قطعاً دشوار ہو اور اس اختلاف کی وجہ سے جھگڑا اور فساد ہوتا رہے تو معاشرتی اور انسانی نجی زندگی کو ایسی بے اطمینانی کی کیفیت سے نکالنے کے لئے شریعت نے طلاق اور خلع کا حکم مرحمت کیا ہے۔طلاق کے متعلق مرد کی ذمہ داری تو یہ ہے کہ اس سنگین اور خطرناک اقدام کی طرف بڑھنے سے پہلے اس بات کو ذہن نشین کرلے کہ اگر اس عورت میں کچھ خرابی ہے تو انسان اس سے مبرّا نہیں، کوئی دوسری عورت اگر بیاہ لی جائے تواس میں بھی اس کی طبیعت کے ناموافق کوئی نہ کوئی بات ضرور ہوگی، پھر آخری درجہ میں جب سمجھانے کے طریقے ختم ہوجائیں اور نباہ بالکل مشکل ہوجائے تو ایسی پاکی کی حالت میں جس میں صحبت نہ کی ہو، ایک طلاق دے کر عورت کو عدت گذارنے کے لئے چھوڑ دیا جائے۔ ایک طلاق اس لئے تاکہ بعد ازاں اگر اللہ تعالیٰ موافقت پیدا کردیں تو پشیمان نہ ہونا پڑے اور بآسانی رجوع کیا جاسکے۔ اور پاکی کی حالت میں اس لئے تاکہ عورت کے لئے تین ماہواریاں جلد گذارنا آسان ہوجائیں، ورنہ اگر حیض کی حالت میں طلاق دی جاتی تو اس حیض کے گزارنے کے بعد علیحدہ تین حیض گذارنے پڑتے اور عدت لمبی ہوجاتی۔ عدت گذرجانے کے بعد عورت کو دوسری جگہ نکاح کرنے کا مکمل اختیار ہے۔

مراجع ومصادر

۴۔اصول الفقہ الاسلامی للدکتور وہبۃ الزحیلی،مجال الاجتہاد ۲/۱۰۵۲،ط:دار احسان ۱۹۹۷ء

۵۔الترغیب والترہیب، ترغیب الزوج فی الوفاء بحق زوجتہ وحسن عشرتہا الخ ۳/۴۸،ط:دار احیاء التراث العربی ۱۳۸۸ھ236۱۹۶۸ء

۶۔حوالۂ سابق ۳/۴۹

۷۔حوالۂ سابق ۳/۵۰

۸۔حوالۂ سابق ۳/۵۱

۹۔حوالۂ سابق ۳/۵۱

۱۰۔حوالۂ سابق ۳/۵۸

۱۱۔حوالۂ سابق ۳/۵۹

۱۲۔حوالۂ سابق ۳/۵۹

۱۳۔ حوالۂ سابق ۳/۶۰

۱۴۔حوالۂ سابق ۳/۶۵

۱۵۔الترغیب والترہیب، الترہیب من ترجیح احدی الزوجات وترک العدل بینہم ۳/۶۰،ط: داراحیاء التراث العربی

پھر مطلقہ بیوی کے لئے کچھ سامان، لباس، وغیرہ دینے کا حکم فرمایا گیا ہے، جس کی تعبیر عربی زبان میں ’’متعہ‘‘سے کی جاتی ہے، اس سے مراد ’’متاعِ حیات‘‘ اور اس کی کوئی خاص تشریح نہیں اور یہ پہناوے، اوڑھنے کا لباس اس لئے کہ عورت کو طلاق کے ذریعہ شوہر نے جو ایک وحشت میں مبتلا کردیا ہے، اس کا کچھ ازالہ ہوسکے اور بہرحال شوہر اور بیوی کے خاندانی ربط وتعلق پر کوئی اثر نہ پڑے، ورنہ دیکھا گیا ہے اور تجربہ شاہد ہے کہ طلاق کے بعد دو طرفہ خاندان منہ دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے اور اسلام اس لاتعلقی کو پسند نہیں کرتا، بلکہ وہ چاہتا ہے کہ انسان ایک دوسرے سے مربوط ہوکر معاشرتی تشکیل میں اپنا اپنا کردار ادا کرے۔ ’’طلاقِ بدعت‘‘ یعنی ایک ساتھ تین طلاقیں دینے کا اقدام، جہاں خود ایک سنگین معاملہ ہے، وہاں مرد کے لئے یہ اقدام گناہ بھی ہے، جس نے اس خطرناک معاملہ کو کھیل سمجھ کر کھیل دیا، دنیا میں بھی ایسا شخص معاشرتی ملامت اور لعنت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔

اس اخلاقی شعور کا فقدان، جس کی بناء پر مرد اپنے اس اختیار کو غلط استعمال کرتا ہے، اسلامی تعلیمات اور احکام کا نقص نہیں، بلکہ اس اخلاقی شعور کے اپنے ضمیر میں اجاگر کرنے کے لئے درست روی اختیار نہ کرنا اور نہ کروانا ایک جرم ہے۔ اسلام نے ان اختیارات کو قانونی حدود مہیا کردی ہیں اور ان حدود کی پاسداری میں کسی طرف اعتراض کی مجال نہیں، لیکن جب ان حدود سے تجاوز کیا جاتا ہے تو اسلام اگرچہ دنیوی اعتبار سے اس اختیار کو نافذ قرار دیتا ہے، لیکن اخروی سزا کا ضرور مستحق ٹھہراتا ہے ۔

اگر عورت اور مرد کے درمیان پیچیدگیاں بڑھ جائیں اور نباہ کی صورت بظاہر مشکل نظر آتی ہو تو خاندان کے بڑے افراد کے ذریعہ صلح صفائی کی کوشش اس ناہمواری کا اولین نسخہ ہے، جو شریعت نے ہمیں مرحمت فرمایا ہے۔ اگر شوہر ظلم کو روارکھے اور بیوی واقعۃً مظلوم ہو تو خلع کی صورت میں مرد کے لئے عورت سے مال یا حق مہر کی رقم لینا اخلاقی طور پر ہرگز مناسب نہیں، لیکن کیا کیجئے کہ غفلت میں شریعت کے یہ عادلانہ احکام پسِ پشت ڈال کر شریعت کو موردِ الزام ٹھہرانے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔

جہاں تک عدالتی پیچیدگیوں کی بات ہے تو یہ موجودہ عدالت کے دستور کا نقص ہے، نہ کہ شریعت کا۔ علمائے کرام ان عدالتی پیچیدگیوں اور انصاف کی بآسانی رسائی کے لئے کئی مرتبہ گشتی عدالتوں کے لئے حکومت سے درخواست کرچکے ہیں، لیکن یہ درخواست، نقار خانے میں طوطی کی پکار سے زیادہ وقعت حاصل نہ کر سکی۔(۱۸)

۶۔۔۔(الف) اگر زندگی میں باپ اپنی جائیداد کو اپنے ورثاء میں تقسیم کرنا چاہتا ہے تو چونکہ وراثت کا حکم موت کے بعد لاگو ہوتا ہے، اس لئے زندگی میں یہ تقسیمِ املاک عطیہ، ہبہ اور گفٹ ہے۔اپنی اولاد کے درمیان زندگی میں معاشرتی سلوک کے متعلق اسلامی ہدایت یہ ہے کہ ان میں مکمل برابری کی جائے، اگر کچھ دیا جائے تو برابر برابر دیا جائے، کسی کونقصان پہنچانے کے لئے کم اور کسی کو زیادہ دینا ، شرعی ہدایت کے مطابق جرم ہے۔

زندگی میں تقسیمِ املاک کا اصول یہ ہے کہ اس میں بیٹا اور بیٹی کے حصے میں کوئی کمی زیادتی نہیں ہوگی، دونوں کو برابر برابر دینا واجب ہوگا، بلکہ اگر کسی بیٹے یا بیٹی کو نقصان پہنچانے کی نیت کے بغیر کسی بیٹے یا بیٹی کی خانگی مجبوریوں کے پیش نظر یا اس کی دینی فضیلت کی بنا پر یا اس کے خدمت گذار ہونے کی وجہ سے زیادہ دیا جائے تو اس کی بھی اجازت ہوگی۔ (۱۹) البتہ زندگی میں عطیہ کردہ املاک کے متعلق یہ ضروری ہے کہ اس مال واسباب سے اپنا مکمل مالکانہ تصرف ختم کردے اور اس طور پر مکمل اختیار دیدے کہ وہ جس طرح اس مال کو چاہے، جائز مصارف میں استعمال کرے۔ صرف نام کردینے سے کسی کی ملکیت ثابت نہیں ہوتی، صرف نام کردینا قانونی اعتبار سے اگرچہ ملکیت کا سبب قرار دیا گیا ہے، لیکن شرعی اعتبار سے صرف نام کردینے کے بجائے مکمل مالکانہ تصرف دے کر ہی اس چیز کو اس کے بیٹے اور بیٹی کی ملکیت شمار کیا جائے گا۔

ب۔۔۔عورتوں کو وراثت سے محروم کردینا، یہ شرعی جرم ہے اور اس کی سزا دنیا وآخرت دونوں میں ملے گی ۔ حدیث شریف میں میراث کی تقسیم کو اس قدر ضروری قرار دیاگیا ہے کہ اس میں کوتاہی کرنے والے کو جنت سے محرومی کی وعید سنائی گئی ہے اور اخلاقی وجذباتی طور پرمیراث کی شرعی تقسیم پر زور دیا گیا ہے۔ (۲۰) میراث کے معاشی اور اقتصادی کیا فوائد ہیں اور اس کی شرعی تقسیم سے کس قدر خوشحالی حاصل ہو سکتی ہے ؟ علماء معیشت اور ماہرین اقتصادیات کی نظروں سے ہرگز پوشیدہ نہیں، لہذا میراث کی تقسیم میں کوتاہی کرنا صرف افراد واشخاص کی حق تلفی نہیں ہوگی، بلکہ ایک گھناؤنا معاشرتی جرم ہوگا، جس کی پاداش میں ریاست کی اسلامی معاشی پالیسی پر بڑا اثر پڑسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ علماء کرام تحریر وتقریر کے ذریعہ اور جہاں بااختیار ہوں، وہاں عملی طور پر اس رسم بد کے خاتمے کے لئے کوشاں ہیں اور ریاست سے اپنے اختیارات بروئے کارلاکر اس رسمِ بد کو بدلنے کی درخواست پیش کرتے رہے ہیں۔

’’وٹہ سٹہ‘‘ کی شادی میں اگر دونوں طرف مہر پورے طور پر ادا کیا جائے تو جائز ہے۔(۲۱)تاہم چونکہ ایسی شادیاں اکثر جھگڑے اور فساد کی وجہ سے نادرستی کا شکار رہتی ہیں، اس لئے اس طرح کی شادی سے حتی الامکان پرہیز کرنا چاہئے ۔ قرآن سے شادی ہرگز نہیں، ایسے افراد اسلام کے ساتھ مذاق کررہے ہیں، ان کو سخت تعزیری سزا دے کر اس جرم کا سدِّباب کیا جانا چاہئے۔

۷۔۔۔(الف) سوال میں پیش کردہ رائج الوقت تمام صورتیں اسلامی تعلیمات اور احکام کے منافی ہیں، اگر عورت یا مرد بدکاری کا فعل کرتے ہیں اور اس پر کوئی اقدام کیا جانا چاہئے تو یہ ریاستی ذمہ داری ہے، افراد کو اس ذمہ داری میں بے جا مداخلت کا حق نہیں۔ اسلامی حکومت کو چاہئے کہ ’’حدود اللہ‘‘ کے نفاذ میں کسی طرح کی نرمی سے باز رہے ۔(۲۲) جس خداوند نے یہ حدود اتاری ہیں، وہی ان کی حکمتوں سے باخبر ہے، ایک مسلمان کو ان ’’حدود‘‘ کے واقعہ کے موافق ہونے میں عقلی گھوڑے دوڑانے کی ہرگز ضرورت نہیں۔

ب۔۔۔اس کے متعلق تفصیلی بحث سوال نمبر۱ کے تحت گزرچکی ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ مرد کو اگرعورت کے مارنے کا کچھ اختیار دیا گیا ہے تو اس کی شرائط اور حدود بھی مقرر ہیں اور ’’مارنا‘‘ اصلاحی پروگرام میں سب سے آخری اقدام ہے، پھر چہرہ پر مارنا منع ہے اور جسم کے دیگر نازک حصوں پر مارنا بھی منع ہے اور مارنا اس قدر ہونا چاہئے کہ اس مار سے جسم پر کوئی نشان نہ پڑنے پائے ۔(۲۳) اگر کوئی اپنی حیوانی مار یا کسی بھی قسم کے غیر انسانی رویہ کو اسلام کی طرف منسوب کرتا ہے تو وہ مستحق لعنت وملامت، بلکہ قابل سزا وتعزیر ہے۔

۸۔۔۔اسلام عدل وانصاف کا علمبردار ہے اور دنیا کے ہرگوشہ میں عدل وانصاف کی حکمرانی اور برتری کا خواستگار ہے، ظلم اور زیادتی کے خلاف (اسلامی احکام چاہے معاشرتی ہوں، معاشی ہوں، سماجی ہوں یا ثقافتی ہوں) اتنے مضبوط بند باندھتا ہے کہ ظلم کسی صورت انسانیت میں راہ نہ پاسکے، لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے، جب اسلام کے نام لیوا اس کے احکام کو صحیح صورت میں نافذ بھی کردیں۔ جاگیردارانہ نظام، سرداری نظام، استعماری نظام میں اصولی وفروعی مظالم کی روک تھام کے لئے قوانین طے کردیئے جائیں تو وہی اسلامی نظامِ عدل قائم ہوجائے گا۔ ظلم پر مبنی جن قوانین کو ان نظامہائے مروّجہ میں جگہ دی گئی ہے، اس نے ساری انسانیت کو جس میں غریب کے ساتھ ساتھ امراء واغنیاء کا طبقہ بھی ہے، کرب اور پریشانی میں مبتلا کررکھا ہے۔ اگرچہ امراء کا طبقہ ظاہر بین نگاہوں میں ترقی پذیر اور آسودہ حال ہے، لیکن معاشرتی ناہمواری کا بلاواسطہ وہ بھی شکار ہیں، ایسی صورت میں ان خودساختہ ناانصافی پر مبنی قوانین میں ریاستی طور پر تبدیلی ناگزیر ہے، ورنہ ساری انسانیت اس ناپاک رو میں بہہ جائے گی۔

۹۔۔۔انسانی حقوق کی ہمہ گیریت کے متعلق خطبۂ حجۃ الوداع میں نبی اکرم ا کی طرف سے پیش کردہ ایک جامع جملہ ہی کافی ہے اوروہ یہ ہے کہ: کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، سب برابر ہیں۔ فضیلت تقویٰ سے ہے اور تقویٰ کا فیصلہ آخرت میں ہوگا، لہذا دنیا میں جس طرح عربی کے حقوق کی پاسداری اسلام کا محکم حکم ہے، اسی طرح عجمی کے حقوق کی پاسداری بھی اسلام کا محکم حکم ہے۔ جس طرح مرد کے حقوق بجا لائے جائیں گے ،اسی طرح عورت کے حقوق میں کوتاہی جرم شمار ہوگا۔ عورتوں پر کچھ فرائض لاگو ہیں، وہی مردوں کے حقوق ہیں اور مردوں پر کچھ ذمہ داریاں ہیں، وہی عورتوں کے حقوق ہیں۔ ’’صنفی نا انصافی‘‘ جاہلیت کا مرض تھا، جس کو اسلام نے عورتوں کے حقوق بیان کرکے ختم فرمایا تھا۔ جاہلیت سے اپنی جہالت کی بناء پر غیر معمولی طور پر متاثر افراد نے وہی روش اختیار کر رکھی ہے کہ لڑکیوں کو لڑکوں پر ترجیح دی جاتی ہے، بیٹی کی پیدائش پر غم کیا جاتا ہے۔ یہ بعینہٖ جاہلیت کے امراض ہیں، جنہیں ختم کیا جانا اسلام کا عظیم ترین مقصد ہے۔ علماء کرام اس سلسلہ میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں اورادا کررہے ہیں؟ اس کا جواب سوال نمبر ۶ کی شق نمبر (ب) میں گزرچکا ہے، وہیں ملاحظہ کرلیا جائے۔

۱۰۔۔۔سوال میں مذکور تمام قوانین کی مکمل طور پر تنقیدی تفصیل خود ایک مقالہ چاہتی ہے، جس کے لئے ابھی نہ اتنا وقت میسر ہے، نہ ہی سر دست ان تمام قوانین کی کتب دستیاب ہو سکتی ہیں، تاہم جن مشہور خلاف شریعت قوانین کے متعلق تنقیدی نظر پیش کرکے اہل علم اپنی کاوشیں صرف کرچکے ہیں، ان میں تعدد ازواج کا مسئلہ، طلاق کے مسائل، یکطرفہ عدالتی خلع کی حیثیت، یتیم پوتے کی میراث اور حدود ترمیمی بل سرفہرست ہیں، ان کے متعلق بارہا حکومت اور عدلیہ سے درخواست کی جاچکی ہے کہ ان پر نظرثانی کریں اور انہیں خالص اسلامی احکامات کے مطابق کرنے کی کوشش کریں، جس میں احساس کمتری، مغرب زدہ طبقے سے مرعوبیت یا کسی علمی وشرعی کوتاہی کی گنجائش نہ رکھی جائے اور خالص اسلامی نظریات اور قابل اعتماد فقہی لٹریچر سے مدد لے کر ان کو قرآن وسنت سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جائے اور جن ظاہری مفاسد کی وجہ سے اسلامی احکام میں رد وبدل کو راہ دی جارہی ہے، بجائے اسلامی احکام میں کسی ترمیم کے ان بنیادی مفاسد کے سدباب کی کوشش کی جائے۔ (۲۴)

۱۱۔۔۔’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ایک خالص اسلامی نظریات کا حامل ملک ہے اور اپنے دستور میں اقتدارِ اعلیٰ کو خدا کے لئے مختص قرار دیتا ہے۔ حدیث میں منقول ہے کہ مخلوق کی اطاعت میں خالق کی نافرمانی ہرگز جائز نہیں، چنانچہ اگرUNO کے معاہدات میں کوئی شق اسلامی تعلیمات کے مخالف ہو تو ایمانی غیرت اور اسلامی حمیت کا تقاضا ہے کہ اس سے ببانگِ دہل دستبرداری کا اعلان کرکے ایسی تمام شرائط سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے مکمل طور پر براء ت اختیار کرلی جائے۔ اس بنیادی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر مغرب زدہ ذہنیت عورتوں کو آزادی دینے کے خوشنما نام سے اسلامی معاشرہ کو بھی فحاش اور بدکار بنانے پر مصر ہواور CEDAWمعاہدے میں اسلام کے خلاف احکام کا پرچار کرے یا منوائے تو ان معاہدات کو تسلیم نہ کرنا اور اس کے متعلق چارہ جوئی کرنا اسلامی ممالک کا فرض ہے۔واللہ اعلم

الجواب صحیح الجواب صحیح الجواب صحیح کتبہ

محمد عبد المجید دین پوری محمد شفیق عارف شعیب عالم محمد بلال بربری

متخصص فقہ اسلامی

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن

مراجع ومأخذ

 

۱۸۔جواہر الفقہ ۲/۴۸، رسالہ عائلی قوانین پر مختصر تبصرہ، مفتی محمد شفیع دیوبندیؒ ،ط: دارالعلوم، کراچی

۱۹۔فتاوی عالمگیری، کتاب الہبۃ، باب الہبۃ للصغیر، ۴/۳۹۱ ط:رشیدیہ

۲۰۔مشکوٰۃ شریف، حدیث نمبر ۳۰۷۸ کتاب الفرائض والوصایا، الفصل الثالث ۳/۱۱۹۳،ط:دار ابن حزم ۱۴۲۴ھ236۲۰۰۳ء

۲۱۔فتح الملہم شرح صحیح مسلم، ۶/۳۶۹،ط:دارالقلم، دمشق ۱۴۲۸ھ236۲۰۰۶ء

۲۲۔احکام القرآن للجصاصؒ ،۳/۳۳۸ تحت قولہ تعالیٰ: ولا تأخذکم بہما رأفۃ فی دین اللہ ، ط:دارالکتب العلمیۃ ۱۴۱۵ھ236۱۹۹۴ء

۲۳۔حوالۂ سابق، ۲/۲۳۸ تحت قولہ : فعظوہن واہجروہن فی المضاجع واضربوہن ط:دارالکتب العلمیۃ

۲۴۔مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: رسالہ عائلی قوانین پر مختصر تبصرہ، مولفہ: مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندیؒ ۔ رسالہ عائلی قوانین شریعت کی روشنی میں، مؤلفہ: مفتی ولی حسن ٹونکیؒ ، رسالہ حدود ترمیمی بل ۲۰۰۶ء کیا ہے، مؤلفہ: مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم۔