انسانی کلوننگ کا شرعی حکم
مذکورہ بالا عنوان کے تحت حضرت مفتی عبدالمجید شہیدؒ نے بنوں کی فقہی کانفرنس میں ایک مقالہ پیش کیا تھا جو سولہ صفحات پر مشتمل تھا ۔ذیل میں اس کی تلخیص پیش خدمت ہے۔اختصار کے پیش نظر عنوانات ،اقتباسات اور حوالہ جات بھی حذف کردیے گئے ہیں اور مقالے کو ایک رواں اور مسلسل مضمون کی شکل دے دی گئی ہے، تاہم اصل کی روح کو مجروح ہونے سے اور اس کے پیغام کو متاثر ہونے سے بچایا گیا ہے۔ مقالے کی زبان شستہ اور شگفتہ ہے ،طرز استدلال عالمانہ اور منطقیانہ اور بیان میں سادگی اور برجستگی ہے جس میں روانی ،سادہ بیانی اور تشبیہات واستعارات کے استعمال نے لطف اورچاشنی پیدا کردی ہے۔ مقالہ اگرچہ مختصر ہے اوراپنے موضوع کے جامع تعارف اورتبصرے پر مشتمل ہے مگرزیادہ اہمیت کے لائق وہ اصول ہیں جن سے کام لے کر موضوع پر قلم اٹھایا گیاہے ۔ اصولوں کو دوام اور ثبات حاصل ہے اور وہ ہر زمانے میں رعنا ،تروتازہ اور شاداب رہتے ہیں،جزئی واقعہ سےکوئی قاعدہ کلیہ تشکیل دیا جاسکتاہے نہ ہی کوئی ضابطہ شرعیہ مستنبط ہوسکتاہے۔جزئیات پر تو وقتی چھاپ غالب رہتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ان کا حسن وجمال گہنا جاتاہے ،ان کی افادیت کم اور نافعیت ختم ہوجاتی ہے اورنتیجۃََ وہ کشش اور رونق کھودیتے ہیں۔اس مختصر تعارفی گفتگو کے بعد اب آپ اصل مقالہ ملاحظہ کیجیے ۔(شعیب عالم)
کلوننگ کے تجزیاتی مطالعے اور شرعی جائزے سے پہلے مناسب معلوم ہوتاہے کہ خلیے کی تعریف اور اقسام کو بیا ن کردیا جائے تاکہ فہم میں سہولت ہو اور ہم بصیرت کے ساتھ کسی نتیجے پر پہنچ سکیں۔
جس طرح سمندر قطروں کا اور پہاڑ ذروں کا مجموعہ ہے، اسی طرح انسانی جسم بہت سی خلیات کا مجموعہ ہے ۔اینٹیں مل کر دیوار بناتی ہیں تو خلیے مل کر جسم کو ترکیب دیتے ہیں۔ جسم کی حیثیت کل کی ہے اور خلیے کی حیثیت جزء کی ہے۔کل ہو تو اجزاء کا وجود بھی ماننا پڑتا ہے،اس لیے جس دن سے انسان کا جسم اور پودے کا وجود ہے اس دن سے خلیہ بھی موجود ہے، مگر جیسے ہر موجود کا معلوم ہونا ضروری نہیں ہے ،اسی طرح خلیہ موجود ہوتے ہوئے بھی انسان کو معلوم نہ تھا ۔انسان پر خلیے کا باقاعدہ انکشاف سترہویں صدی میں ہوا ،رفتہ رفتہ اس تصور میں وسعت آتی گئی اور انیسویں صدی کے نصف اول کے اواخر میں اس تصور کو خلیاتی نظام کا نام دے دیا گیا۔
انسان ایک مکمل وجود رکھتا ہے اور اس کے جسم میں اہم عضو دماغ ہے جو معلوما ت کا خزانہ ہے اور انسانی افعال کو کنٹرول کرتا ہے ۔ جسم کی طرح خلیے میں بھی ایک دماغ ہوتا ہے جسے نیوکلس اور مرکزہ کہتے ہیں،اس مرکزے میں کروموسومز (مادہ حیات ) ہوتا ہے اور اس کے اندر ایک دھاگہ نما مادہ ہوتا ہے جو کسی بہت ہی عمدگی سے تہہ کی ہوئی شئ کی شکل میں ہوتا ہے۔اسی مادے کو سائنسی اصطلاح میں ڈی این اے کہتے ہیں۔ ڈی این اے کے اندر خلیے کے متعلق ایسی تمام معلومات اور تفصیلات ہوتی ہیں جو اس کے افعال کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔الحاصل جسم میں خلیہ اور خلیہ میں دماغ اور دماغ میں ایک خاص مادہ ہوتا ہے، جس میں خلیے کے متعلق معلومات بھی ہوتی ہیں اور وہ خلیے کے افعال کو کنٹرول بھی کرتاہے۔
انسان کے تمام اعضاء بال ،ناخن اور ہڈی وغیرہ میں خلیے ہوتے ہیں ۔مرد کے مادہ منویہ میں بھی خلیے ہوتے ہیں، ان میں سے جو تولیدی جرثومے ہوتے ہیں ،انہیں جنسی خلیے کہتے ہیں،ان کی تعداد نصف ارب تک بتائی جاتی ہے مگر ان میں سے صرف ایک تخلیق کاباعث بنتاہے۔ دوسری طرف عورت کے رحم میں چارلاکھ غیر پختہ انڈے ہوتے ہیں مگر ان میں سے صرف ایک انڈہ وقت پر پختہ ہوکر نمودار ہوتا ہے ۔اب اگر مرد کا وہ خاص جرثومہ عورت کے اس مخصوص بیضے میں آکر داخل ہوجائے تو تخلیق کا عمل شروع ہوجاتاہے۔
کلوننگ کے متعلق ان ابتدائی گزارشات اور تعارفی کلمات کے بعداب ہم اس کی تعریف کرنے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ کلون کا لفظی معنی’’ شکل اور مثل‘‘ کا ہے جبکہ کلوننگ ایک سائنسی اصطلاح کا نام ہے ،جس کا حاصل یہ ہے کہ انسان یا جانور کے خلیے لے کر مصنوعی طریقے سے ان کی افزائش کی جائے یہاں تک کہ ایک نقل بمطابق اصل تیار ہوجائے۔
انسان کا ذہن کچھ سے بہت کچھ کی طرف منتقل ہوتاہے ۔حیاتیات کے ماہرین نے جب دیکھا کہ ریڑھ کی ہڈی نہ رکھنے والے بعض جانور جنسی اختلاط کے بغیر بچے پیدا کرتے ہیں تو انہوں نے سوچا کہ کوئی ایسا طریقہ ایجاد کرنا چاہیے کہ ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے جانور بھی بغیر جنسی اختلاط کے بچوں کو جنم دیں، چنانچہ پہلے مینڈک سے مینڈک اور پھر ایک بھیڑ ڈولی نام کی تیار کی گئی۔غیر جنسی خلیوں سے بھیڑ بنانے کے بعد انسا ن سوچنے لگا کہ غیر جنسی خلیوں سے کلوننگ کے ذریعے انسان کا بنانا بھی ممکن ہے اور جب ایسا ہوجائے گا تو مرد اور عورت کے جنسی تعلقات کی ضرورت بھی نہ رہے گی۔
یہ تصور محض نظری ہے یا عملی طور پر بھی ایسا ممکن ہے ؟اس بارے میں آراء متضاد ہیں۔اگر ایسا ممکن ہوگیا تو طریقہ بظاہر یہی ہوگا کہ ایک خلیے کا مرکزہ لے کر دوسرے خلیے سے ملا دیا جائے گا اور پھر کچھ عرصہ عورت کے رحم میں نشوونما کے لیے رکھ دیا جائے گا۔
آگے بڑھنے سے پہلے چند غلط فہمیوں کا ازالہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔مغربی میڈیا نے کلوننگ کا صور اس زور سے پھونکا تھا کہ گویا کہ انسان خدا بن گیا،خدا کی خدائی پر حرف آگیا اور تخلیق اس کا خاصہ نہ رہا،حالانکہ انسان بے چارا تحلیل وترکیب سے کام لے کر اشیاء کی شکلیں بدل سکتاہے مگرکوئی چیز عدم سے وجود میں نہیں لاسکتا۔کلوننگ کا مدار خلیہ پر ہے مگر سوال یہ ہے کہ خلیہ کس کی پیدائش ہے اور اس کی افزائش کون کرتاہے ؟پیدائش اور پھر افزائش دونوں انسان کی قدرت اور طاقت سے خارج ہیں۔اس کے علاوہ سائنس خلیے کے اندر ڈی این اے کو مرکز حیات قرار دیتی ہے جبکہ خلیے کو حیات عطا کرنے والی ذات اللہ تعالی کی ہے۔
ہم مسلمانوں کے لیے توکلوننگ کوئی زیادہ تعجب کی بات نہیں ،ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کسی جنسی اختلاط اورمرد اور عورت کے کردار کے بغیر ہوئی ہے۔اس لیے ہمیں مرعوب یا خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں اور ویسے بھی انسانی کلوننگ ابھی تصور اور خیال کے درجے میں ہے ،امریکی سائنسدانوں کو اعتراف ہے کہ انسانی کلوننگ ممکن نہیں ہے۔بعض نے کلوننگ کے دعوی کو ایک دھوکہ قرار دیاہے،جب کہ کچھ کا کہنا ہے کہ عورت کے رحم سے اتنے بیضے حاصل کرنا ممکن ہی نہیں جس سے انسان کلون ہوسکے۔اس تفصیل سے یہ بھی ظاہر ہے کہ انسانی کلوننگ کوئی فوری حل طلب مسئلہ بھی نہیں،مگر چونکہ حکومتی رکاوٹوں کے باوجود بعض سر پھرے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور ازروئے عقل بھی یہ کوئی ناممکن نہیں اور نقل بھی اس کے بطلان پر قائم نہیں ،اس لیے اس پر لب کشائی کوئی نامناسب اور غیر معقول بھی نہیں اور یوں بھی حادثے سے پہلے اس کا حکم معلوم کرلینا فقہ حنفی کی خاص خصوصیت ہے۔اس خصوصیت کے پیش نظر گفتگو کا سلسلہ اگر کچھ دراز ہوجائے تو امید ہے کہ سامعین کو گراں نہیں گزرے گا۔
خلیے کے اندر جو مخصوص مادہ ہوتا ہے جسے ڈی این اے کہتے ہیں ،اس کے متعلق تصور یہ ہے کہ ہر انسان کو ورثے میں جو خصوصیات ملتی ہیں وہ اسی کے اندر پوشدہ ہوتی ہیں اور اسی کے ذریعے ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی ہیں۔ایک سائنس داں مینڈل نے اپنے تجربات سے ثابت کیا کہ جب دو مختلف پودوں یا بیجوں کو آپس میں گزاراجاتاہے تو کسی ایک کی خصوصیات دوسری میں منتقل ہوجاتی ہیں،اس پر مزید انکشاف ہوا کہ جان داروں میں ایک نسل سے دوسری میں خصوصیات منتقل کرنے کے لیے کچھ مخصوص اجسام کام کرتے ہیں،جسے اس نے فیکٹرز کانام دیا اور ان ہی فیکٹرز کو آج جینز کہا جاتا ہے اور جینز کی بنیاد پر سائنس کی جو شاخ ابھر کر سامنے آئی اسے جینیات یا جینیٹکس کہتے ہیں۔
یہ توتسلیم ہے کہ آباء واجداد سے بعض خصوصیات آنے والی نسلوں میں منتقل ہوتی ہیں ،خصوصیات کے علاوہ بعض بیماریاں بھی منتقل ہوتی ہیں، جنہیں موروثی بیماریاں کہتے ہیں ۔حدیث میں موروثی بیماریوں کا علاج یہ بتلایا گیا ہے کہ غیر خاندان میں شادی کی جائے۔موجودہ سائنس اس کا یہ حل تجویز کرتی ہے کہ خلیات میں بعض نارمل چیزیں داخل کرکے موروثی بیماریوں پر قابو پایا جاسکتا ہے،نیز اولاد کی صلاحیت کے لیے مادہ منویہ میں تولیدی صلاحیت کے حامل جین داخل کیے جاسکتے ہیں لیکن اس طرح اولاد کے حصول کا کیا حکم ہے ؟
اب ہم بحث کے مقصودی مرحلے میں داخل ہوتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ انسانی کلوننگ کے فوائد اور نقصانا ت کیا ہیں اور اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہے ؟
انسانی کلوننگ کے فوائد میں کہا جاتا ہے کہ بے اولاد جوڑوں کو اولاد نصیب ہوجائے گی اور اولاد نہ ہونے کی وجہ سے جو معاشرتی مسائل پیدا ہوتے ہیں اور نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے اور اس کے نتیجے میں اولاد کا مستقبل تباہ ہوجاتا ہے،کلوننگ کے ذریعے اس معاشرتی فساد کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کے ساتھ حسب خواہش لڑکے یا لڑکی کو پیدا کیا جاسکے گا اورکوئی انسان جو غیر معمولی صلاحیت کا حامل ہو اس کی کاپی بنائی جاسکے گی اور اس طرح ذہانت ،طاقت اور مہارت کو محفوظ کیا جاسکے گا۔مزید یہ کہ کلوننگ کو انسانی اعضاء کی پیوندکاری کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔
اگر جینیاتی تبدیلی محض دفع مضرت کے لیے ہو مثلا: کوئی بیماری دور کرنا مقصود ہو اور یہی اس کا علاج ہو اور مسلمان، دین دار طبیب اس کا یہی علاج تجویز کرے تو متاثرہ حصے میں جین داخل کیے جاسکتے ہیں۔اور اگر جین کی تبدیلی جلب منفعت کے لیے ہو مثلا: تولیدی صلاحیت کے جراثیم داخل کرنا مقصود ہو تواگرایسی صورت میں غیر محرم کے سامنے ستر کھولنے کی نوبت آتی ہو تو یہ طریقہ علاج ناجائز ہوگا کیونکہ دفع مضرت جلب منفعت سے مقدم ہے۔اگر ستر کا دیکھنا لازم نہ آتا ہو تو چونکہ یہ صورت اضطرار کی نہیں اس لیے قواعد فقہ کی رو سے اسے ناجائز ہونا چاہیے لیکن جو جین داخل کیے جاتے ہیں وہ بہت چھوٹے اورکم ہوتے ہیں حتی کہ خوردبین سے بھی بہ مشکل نظر آتے ہیں اس لیے دفع مضرت کے جواز کے ساتھ اس صورت کا بھی جوازہونا چاہیے کیونکہ فقہاء بہت قلیل نجاست کو معاف لکھتے ہیں۔
لیکن انسانی کلوننگ کا مسئلہ دوسرا ہے ،اسے ایک مختلف زاویہ نظر سے دیکھنا چاہیے ۔اول تو اس میں کوئی فائدہ نہیں اور اگر کوئی فائدہ ہو تو ہر فائدہ قابل حصول نہیں ہوتا ہے اور اگر قابل حصول ہو تو کلوننگ کے نقصانات کا پلہ اس کے فوائد پر بھاری ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اخباری خبروں کے مطابق امریکی صدر بل کلنٹن نے انسانی کلوننگ کے لیے مختص فنڈ روک دیے ہیں۔اس عمل سے مخلوق میں یکسانیت ہوگی جبکہ خالق حقیقی نے تنوع کو پسند کیا ہے بلکہ قرآن کریم میں اسے جتلایا ہے۔علاوہ ازیں کلوننگ سے آپس کا ظاہر ی فرق ختم ہوجائے گا جس سے متعدد مسائل جنم لیں گے اور محرم اور غیر محرم کا فرق ختم ہوجائے گا اور جب انسان بھی مصنوعی طور پر بننے لگیں گے تومشین سے بنی پروڈکٹ اور اشرف المخلوقات میں کیا فرق رہ جائے گا؟یہ انمول موتی منڈیوں کی جنس بن جائے گا،اس کی کھپت اور تجارت ہوگی ،کارخانے اس کی پیداوار میں سبقت کریں گے،غذائی اجناس اوربکاؤ مال کی طرح اس کے بھاؤ لگیں گے اورانسان خود انسان کے ہاتھ میں مال تجارت بن کر ذلیل ہوگااور یوں انسان اپنے ہاتھوں اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارے گا اوراپنے اعزاز واکرام کو کھو دے گاجو حق تعالی شانہ نے اسے بخشاہے۔