محرم الحرام کی عظمت اور فضیلت
محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے ۔ ’’محرم‘‘ کا لفظ تحریم سے بنا ہے اور تحریم کا لفظ حرمت سے نکلا ہے۔ حرمت کا لفظی معنی عظمت ، احترام وغیرہ ہے ، اس بناء پر محرم کا مطلب احترام اورعظمت والا ہے ۔چونکہ یہ مہینہ بڑی عظمت اور فضیلت رکھتا ہے اور بڑا مبارک اور لائق احترام ہے اس لئے اسے محرم الحرام کہا جاتا ہے ۔
یوں تو محرم کا پورا مہینہ ہی مبارک ہے مگر جس طرح رمضان کا آخری عشرہ پہلے دو عشروں سے افضل ہے اور آخری عشرہ میں لیلۃ القدر کی رات سب سے افضل ہے ، اسی طرح اس مہینہ میں عاشورہ کا دن تمام ایام سے افضل ہے ۔ عاشورہ کا مطلب دسواں ہے ، یہ دن چونکہ دسویں تاریخ کو آتا ہے اس لئے اسے عاشورہ کہتے ہیں ۔
فضیلت کامدار:
اللہ تبارک وتعالیٰ تمام اشیاء کی طرح زمانے کے بھی خالق ہیں،اس لئے زمانے کو برا کہنے سے منع کیا گیا ہے، اس لئے ہم اپنی عقل سے ایک زمانے کو دوسرے زمانے پرفضیلت نہیں دے سکتے ہیں،کسی دن کو کسی دن پر،ہفتے کو دوسرے ہفتے پر، مہینے کو دوسرے مہینے پر اور سالوں میں سے کسی سال کو کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔ تمام سال، مہینے، ہفتے، دن، گھنٹے، منٹ اورتمام لحظے اور سب لمحے یکساں اوربرابر ہیں۔ لیکن اگر خود وحی سے معلوم ہو جائے کہ کسی زمانے میں انوارالٰہی اورتجلیات ربانی کاخاص نزول ہوتا ہے تو یقینًا اسے فضیلت حاصل ہوگی۔ محرم کو فضیلت حاصل ہے آگے اس کا بیان اور فضیلت کی وجوہات کا بیان ہوگا۔
عاشورہ کی فضیلت کی وجہ:
عاشورہ کی فضیلت میں ایک طول طولانی تقریرکی جاتی ہے جس کی ابتداء ہمارے ابوالآباء حضرت آدم علیہ السلام سے کی جاتی ہے اورقیامت کے دن پراس کااختتام ہوتاہے۔وہ تقریر کچھ اس طرح سے ہوتی ہے :
۱۔ زمین وآسمان ،بحر و بر ، اور شجر و حجر کو اللہ تعالیٰ نے اسی دن پیدا کیا ۔
۲۔ اسی دن ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اوراسی دن ان کی توبہ مقبول ہوئی ۔
۳۔ عاشورہ کے دن ہی سفینہ نوح کنارے لگا ۔
۴۔ اوراسی دن سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے لئے آگ گل گلزار اور باغ و بہار بنائی گئی ۔
۵۔ اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام بیماری سے صحت یاب ہوئے ۔
۶۔ حضرت عیسی روح اللہ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی ۔
۷۔ اوراسی دن قیامت برپا ہوگی ۔
اسی طرح تاریخی تسلسل کے ساتھ اس دن کی عظمت کو بیان کیا جاتا ہے ، حالانکہ ان میں سے کوئی بات بھی کسی صحیح سندسے ثابت نہیں ۔ جن روایات میں ان باتوں کا ذکرآتا ہے وہ محدثین کے اصولوں کے مطابق کچی اورکمزور ہیں ۔ تو پھرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ روایات کمزور ہیں تو پھر اس دن کی فضیلت کی اصل وجہ کیا ہے؟
فضلیت کی اصل وجوہات :
۱۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ مہینہ زمانہ جاہلیت سے ہی احترام والا چلا آرہا ہے ، اسلام نے اس کی فضیلت کو نہ صرف برقرار رکھا ہے بلکہ اس میں اضافہ کیا ہے ۔ اہل جاہلیت ذوقعدہ ، ذوالحجہ ، محرم اور رجب کو مقدس سمجھتے تھے،اور ان مہینوں میں باہمی جنگ و جدال اور قتل و قتال سے پرہیز کرتے تھے ، آپس کی لڑائیاں اور خونریزیاں بند کر دیتے تھے اور ان مہینوں کے گذرنے اور دوسرے مہینوں کے شروع ہونے کا انتظار کرتے تھے۔
عرب جاہلیت کی موجودہ مہذب دنیا پر برتری :
وہ زمانہ اگرچہ جاہلیت کاتھامگراتناشعوروہ رکھتے تھے کہ سال میں کچھ ایام اتنے ضرورہونے چاہیئے جن میں جنگ بندی ہو ،امن وامان اورراحت وسکون ہو،آج امن کے بلند بانگ دعوے اور نعرے ہیں مگرعملی صورتحال یہ ہے کہ سال کے بارہ مہینے انسانیت جنگ کی بھٹی کاایندھن بنی رہتی ہے۔توپوں کی گن گرج،بندوقوں کی باڑ،ٹینکوں کی پیش قدمی،لڑاکاطیاروں کے حملے ،فضامیں دھویں کے سیاہ بادل اوربموں اورمیزائلوں کے زورداردھماکے ہروقت جاری رہتے ہیں مگر پھر بھی اس زمانے کو جاہلیت اوراپنے آپ کو مہذب ان کو وحشی اور جنگجو اور اپنے آپ کو صلح پسند اورمتمدن کہا جاتاہے؟
۲۔ دوسری وجہ فضیلت کی یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں صرف عاشورہ کاروزہ فرض تھا،پھررمضان کی فرضیت نازل ہوئی مگرساتھ اختیاربھی تھاکہ چاہوتوروزہ رکھواورچاہوتوفدیہ اداکرو،پھرحکم آیاکہ اگرچہ تمہیں اختیارہے کہ روزہ رکھو یا افطار کرو مگرروزہ رکھنابنسبت فدیہ دینے کے زیادہ بہتر ہے۔اس طرح روزے کی ترغیب بیان کی گئی اوراسے فدیہ پربرتری اور فضیلت دی گئی اس کے بعد آخری حکم یہ نازل ہواکہ جولوگ مسافرنہیں بل کہ مقیم ہیں اورمریض نہیں بل کہ تندرست ہیں،ان کے لئے روزہ کھنالازم ہے۔اب حکم یہ کہ جوشخص شیخ فانی ہے یعنی عمرکے اس حصے میں ہے کہ صحت مسلسل گررہی ہے اورصحت یابی کی بہ ظاہرکوئی امیدنہیں ہے وہ فدیہ دے سکتاہے اور اس کے علاوہ اور اشخاص کے لئے روزہ رکھنا لازم ہے۔اورجوشخص رمضان کے روزے نہیں رکھ سکااورپھرقضابھی نہیں کی تواس پرمرتے وقت اپنے روزوں کے بدلے فدیے کی وصیت کرناواجب ہے کہ میرے مرنے کے بعدمیرے مال میں سے میرے روزوں کافدیہ دے دیاجائے۔
۳۔ عاشورہ کی فضیلت کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ آنحضرت انے جب مدینہ طیبہ ہجرت فرمائی،تودیکھاکہ یہوداس دن روزہ رکھتے ہیں اور آنحضرت ا نے وجہ دریافت فرمائی جس پر معلوم یہ ہوا کہ اس دن اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات عطا فرمائی تھی اور یہوداس کے شکرانے کے طور اس دن کا روزہ رکھتے ہیں آپ ا نے فرمایا کہ ہم تمھاری نسبت ان کے زیادہ قریب ہیں چنانچہ آپ ا نے اس دن کا روزہ رکھا اور ساتھ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ آئندہ سال حیات رہی تو میں اس کے ساتھ ایک اور روزہ ملاؤں گا۔
یہ روایت صحیح سند سے ثابت ہے اس لئے اسے عاشورہ کی فضیلت میں پیش کرنا بلاشبہ درست ہے ۔ اس روایت میں ان مسلمانوں کے لئے تعلیم ہے جوغیروں کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں ، اور ان کے سانچوں میں ڈھلے ہوئے ہیں ، ان ہی کے دماغ سے سوچتے ہیں اوران کی عینک لگا کر دنیا کو دیکھتے ہیں ، کسی چیز کے مضر یا نافع ہونے کا ، اور کسی چیز کے لائق ترک یا قابل تقلید ہونے کا فیصلہ ان کے معیارات ، ان کے اصول اور ان کی طرز زندگی کو دیکھ کر کرتے ہیں ۔ ایسے مرعوب اور اسلام کی حقیقی عظمت سے ناواقف اورقرآن پر یقین کامل سے محروم لوگوں کے نزدیک ہر وہ فکر و فلسفہ درست ہے اور ہر وہ نظریہ قابل اتباع ہے اور ہر وہ ادا و انداز اپنانے کے قابل ہے جس کی کاشت اور تخم ریزی وہاں ہوئی ہو اور جو وہاں پروان چڑھی ہو اور وہیں اس کی ترقی و نشو و نما ہوئی ہو اور ان ہی کے کیمپ سے اس کی صدا بلند ہوئی ہو ۔ اللہ پاک ہمیں ایمان پر زندہ رکھے اسلام پر خاتمہ فرمائے اور غیروں کی تقلید و اتباع اور ان کے نظریات اور افکار سے ہماری حفاطت فرمائے۔
۴۔ چوتھی وجہ اس ماہ مبارک کی فضیلت کی یہ ہے کہ اسلامی کلینڈرکاآغازاس مہینے سے ہوتاہے اسلامی سال کی ابتداء پر دورفاروقی میں مشاورت ہوئی،آراء کاتبادلہ ہوا،کئی ایک تجاویزسامنے آئیں،مثلًاسرورکونین،سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی یوم ولادت سے سال کاآغازکیاجائے،ایک رائے یہ سامنے آئی کی بعثت کے واقعے کوبنیادبنایاجائے،مگربحث ومباحثے اورغوروفکرکے بعداورمعاملے کی حساسیت کومدنظررکھتے ہوئے بالآخرتمام تجاویزمستردہوئیں اوراس پرسب صحابہ کااتفاق ہواکہ ہجرت کے واقعے سے اسلامی سال کاآغاز کیاجائے۔
صحابہ کی فراست ایمانی :
اگرآج کل کے عقلاء ومفکرین،دانشوروں،اسکالروں،ارباب دانش وبینش اوراصحاب فکرونظرکوبلایاجاتااوران سے رائے طلب کی جاتی کہ بتاؤکس واقعے کواسلامی کلینڈرکانقطہ آغازقراردیاجائے؟توشایدان کی نگاہ ہجرت کے واقعے کی طرف نہ جاتی۔مگر صحابہ نبیوں کی طرح معصوم تونہیں تھے مگرمحفوظ ضرورتھے،قرآن کریم کے چشمہ صافی سے براہ راست سیراب اورمصدرنبوت سے بلاواسطی فیض یاب ہوئے تھے،وہ رب تعالی کا انتخاب اورنبوت کے تربیت یافتہ تھے، قرآن کو انہوں نے اترتے ہوئے ، جبرئیل امین کو اسے لاتے ہوئے اورمعجزات کو رونما ہوتے ہوئے انہوں نے خود مشاہدہ کیا تھا۔ ظاہر ان کا اجلا اور پاکیزہ اور باطن ان کا مجلی و مصفی تھا ، وہ اسلام اور قرآن کے معنی و مطلب کے ساتھ اس کی روح اور حقیقت سے بھرپور آگاہی رکھتے تھے۔
ایسے لوگ جو مزاج نبوت سے آشنا اور نور قرآنی اور فراست ایمانی سے سرشار تھے ، ان کی نگاہیں وہ کچھ دیکھ سکتی تھیں اور وہاں تک دیکھ سکتی تھیں جہاں تک ہماری نگاہیں توکجا ہماری قوت خیال اور طائرفکر کی رسائی نہیں ہے ۔ رضی اللہ عنہم اجمعین
میں عرض کررہاتھاکہ صحابہ نے ہجرت کے واقعے کوبنیادبنایاکیونکہ ہجرت ایک عظیم الشان واقعہ ہے،جس سے اسلام کوسربلندی اوراقبال نصیب ہوا،مکہ میں مسلمان مظلوم اورمغلوب تھے،اورحق کی روشنی صرف ان تک محددوتھی اوروہ خودبھی اسلامی اصولوں پرآزادانہ طورپرعمل نہیں کرسکتے تھے مگرہجرت کے بعدصورتحال پلٹ گئی اب مسلمانوں کاضعف قوت میں اورمغلوبیت غلبہ میں اور محکومیت حاکمیت میں بدل گئی،اپنے دین کاعلی الاعلان اظہار اور کھلے بندوں اس پرعمل ممکن ہوگیا خوشبو تھی جو چھپی ہوئی تھی اورہوا تھی جو دبی ہوئی تھی ۔ اب ایمان کے جھونکے چلے اور اسلام کی خوشبو پھیلی اورجب دنیا نے اس ہوا میں سانس لیا اور خوشبو سے ان کے دماغ معطر ہوئے اور دین کا حسین چہرہ جو اہل مکہ کے جبر سے چھپا ہوا تھا لوگوں کو دیکھنے کا موقع ملا تو لوگ جوق درجوق اورقافلہ درقافلہ اسلام میں داخل ہوئے۔حق کا بول بالا ہوگیا اور طاغوتی قوتوں نے شکست کھائی اورقرآن دیگر کتابوں پر اور دین اسلام دیگر ادیان پرغالب آگیا ۔
آج کل کی ہجرتیں
یہ سب ہجرت کی بدولت ممکن ہوا ، ہجرت اب بھی ہوتی ہے مگرآج کی ہجرتیں زر،زن،زمین،ممالک کی سیاحت اوربہتر مستقبل کی تلاش میں ہوتی ہے،اگرچہ تعلیم،معاش اورجان کے تحفظ کے لئے مغربی ممالک کاسفراوروہاں پرقیام جائزہے مگرکچھ بنیادیں شرطیں ہیں جن کاخیال رکھناازحدلازم ہے۔
مثلًاپہلی شرط تویہی ہے کہ دین کابنیادی علم حاصل ہو،کیونکہ وہ لوگ کھلم کھلااسلام چھوڑنے کانہیں کہتے مگرشکوک وشبہات ضرورپیداکرتے ہیں۔اگر وہ شکوک پیدا نہ کرے تو خود انسان کے اپنے ذہن میں سوال پیدا ہوتے ہیں کیونکہ انسان انسان ہے سوچتا ہے اور اندر سے سوالات ابھر تے ہیں اور جو سوالات قلب و ضمیر سے پیدا ہو ں ان کا ٹالنا بھی مشکل ہوتا ہے اس لئے دل اپنی تسلی کے لئے ان سوالات کے جوابات چاہتا ہے جبکہ ذاتی مطالعہ سے وہ اشکالات دور نہیں کیے جاسکتے اور اہل علم سے مشاورت ممکن یا آسان نہیں ہوتی ،اس طرح شک کے کانٹے چھبتے رہتے رہتے ہیں اورجب شک کا کانٹا دماغ میں پیوست ہوجائے توسب سے پہلے عمل پراس کا اثر پڑتا ہے اورجوں جوں اس کانٹے کی چھبن گہری ہوتی جاتی ہے توں توں انسان عمل میں سست اور دین سے دور ہوتا جاتا ہے ۔ آج افسوس اس پر نہیں کہ وہ ہمارے ہاں آگئے ہیں بلکہ زیادہ افسوس اس پر ہے کہ ہماری نوجوان نسل ان کے گود میں جابیٹھی ہے۔
ہجرت کی دوسری شرط یہ ہے کہ اس بغاوت کے ماحول میں اپنے دین کا تحفظ کرسکے ، جہاں فحاشی اورعریانی عام ہو ، شراب اور زنا کے اڈے ہوں ، قدم قدم پرسفلی خواہشات اورشہوانی جذبات کوبھڑکانے اور بڑھانے کے اسباب ہوں ، نیکی ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے ، اور گناہ ازخود دعوت دیتا ہو ، دور دور تک نہ مؤذن کی آواز نہ نماز کے لئے مسجد ، نہ اللہ کا ذکر بلکہ گرجوں کے نقارے ہوں ، ایسے ماحول میں مناسب دفاع اور معقول حفاظتی تدابیر کے بغیرجانا خود کنویں کے گر چکرانا اور اپنے دین و ایمان کو داؤ پرلگانا ہے۔
۳۔ ہجرت کے لئے یہ بھی شرط ہے کہ کوئی ایسی ضرورت یاحاجت ہوجس کاحصول یاجس کی تکمیل یہاں ممکن نہ ہویاممکن ہومگربہت مشکل اوردشوارہو،مثلًاتعلیم علاج معالجہ وغیرہ۔جولوگ سیاحت کے لئے جاتے ہیں اورجوان بچیوں کوساتھ لیکرجاتے ہیں ان کامعاملہ بڑانازک ہے۔
اگرکوئی شخص اپنے نفس پرقوی گرفت رکھتاہے وہ اپنے دین کاتحفظ کرنابھی جانتاہے اوراسلام پرواردکئے جانے والے اعتراضات کابہ خوبی جواب دے سکتاہے ایسے شخص کے لئے وہاں کاقیام جائز تو ہے مگر بہتر پھر بھی نہیں ہے ۔معاشرے کی عمومی فضاجیسی ہوتی ہے انسان کوغیرشعوری طورپرمتاثرضرورکرتی ہے۔
ہمارے دین میں تو صلحاء کے ساتھ بیٹھنے اورفساق وفجارسے دوربھاگنے کاحکم ہے۔اگر نیک ماحول بھی میسر ہو پھربھی انسان وہاں رہ کران کی کثرت میں اضافہ اوران کی قوت میں زیادتی کاباعث تو بنتاہے۔
بہ ہرحال ان وجوہات کا ذکر ہورہاتھا جن کی بناء پریہ مہینہ لائق عزت اورقابل احترام ہے اور اسی ضمن میں دیار مغرب میں سکونت اور وہاں کی ہجرت کا تذکرہ بھی آگیا جو امید ہے کہ فائدے سے خالی نہ ہوگا ۔
شہادت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ:
اب ہم واقعہ کربلا کا ذرا تاریخی جائزہ لیتے ہیں جس کا مقصد ایک غلط فہمی کی اصلاح اور ایک خیال کی تصحیح ہے۔ ہجرت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دس سال تک حیات رہے ، اس کے بعد دو ڈھائی سال تک حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت رہی ، دورفاروقی تقریبًا گیارہ سال رہا اور خلافت عثمانی تقریبًا چودہ سال رہی ، اس کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجھہ تقریبًا ساڑھے چار سال خلیفہ رہے ، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی خلافت چھ ماہ رہی پھر خلافت علی منہاج النبوۃ کا اختتام ہوا اور اموی دور کا آغاز ہوا ۔ پہلے سیدنا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان خلیفہ رہے اور پھر ان کے بعد یزید تخت خلافت پرمتمکن ہوا اور یزید کے دورمیں ہی ۶۱ھ میں نواسۂ رسول شہید مظلوم حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔
اس تاریخی جائزے سے صاف واضح ہے کہ جس وقت واقعہ کربلا ہوا اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے جام شہادت نوش فرمایا اس وقت اسلام پر نصف صدی سے زیادہ وقت گذرچکا تھا ، لیکن لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عاشورہ اس لئے محترم اور فضیلت والا ہے کہ اس دن واقعہ کربلا ہوا حالانکہ حقیقت یہ ہے اورآپ تفصیل سے پڑھ چکے کہ یہ دن پہلے سے فضیلت والا چلا آ رہا تھا ، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سے اس میں مزید اضافہ ہوا ، اور ان کا اخلاص اور للہیت تھی کہ اس مبارک دن اللہ تعالی نے ان کی قربانی کو شرف قبولیت عطا فرمایا مگر اس دن کی فضیلت صرف اس بناء پر نہیں ہے۔
عاشورہ کے دن کے اعمال:
دسویں محرم کو دو ہی کام کرنے ہیں:
۱۔ روزہ رکھنا ہے ، حدیث شریف کی رو سے یہ روزہ گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے ، مگراس سے پہلے یا بعد میں ایک روزہ اور بھی رکھنا چاہیے ، تاکہ یہود کے ساتھ مشابہت لازم نہ آئے۔
ہمارا حال بڑاعجیب ہے سورہ فاتحہ ہماری مذہبی دعا ہے اورہمارا قومی نغمہ اور ملی ترانہ ہے ، یہ دعا ہر نماز کی ہر رکعت میں ہم پڑھتے ہیں اور اللہ سے پناہ مانگتے ہیں ’’ غیرالمغضوب علیھم ولاالضالین ‘‘ اے اللہ یہود و نصاری کے طریقوں سے ہماری حفاظت فرما ، مگر زبان پر یہ دعا ہوتی ہے اورجسم پران کا لباس ہوتا ہے دماغ میں ان کے خیالات ہوتے ہیں ، زندگی ان کے نقش قدم پر ہوتی ہے ، اور دل ان کے طریقوں سے متاثر ہوتا ہے ، یہ قول و فعل کا کتنا بڑا تضاد ہے ؟ اور خدا سے ہرنمازمیں کئے ہوئے عہد کی کتنی بڑی خلاف ورزی ہے ، نمازمیں ہم خدا کے سامنے کہیں ’’ ونخلع من یفجرک ‘‘ جبکہ عملًا ان سے دوستی و محبت رکھتے ہوں ، یہ طرز عمل امت محمدیہ کے شایان شان نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائیں ۔
۲۔ عاشورہ کا دوسرا عمل یہ ہے کہ اپنے اہل وعیال اورجن لوگوں کی کفالت ذمے ہو ان پر دسترخوان وسیع کیا جائے ۔دسترخوان کی وسعت کامطلب یہ ہے کہ ایک کھانے کامعمول ہے تودوبنالیں اس عمل کی برکت سے خداتعالی پورے سال خوشحالی نصیب فرمائیں گے۔
بعض بزرگوں سے منقول ہے کہ ہم نے بارہا اس کا تجربہ کیا یعنی اس دن اپنے اہل وعیال پر فراخی کی اورپورے سال اللہ تعالی نے ہمیں فراوانی سے رزق نصیب فرمایا ۔
روزہ اوردسترخوان کی فراخی سے اصل مقصود یہ ہے کہ اس دن ہم کس حالت میں اپنے آپ کوخداتعالی کے سامنے پیش کرتے ہیں جیسی ہماری حالت ہوگی ویسا ہمارے ساتھ معاملہ ہوگا۔
اسوۂ حسینی:
عین میدان جنگ میں جب کہ تیروں کی بارش ، نیزوں کی چمک اور تلواروں کی جھنکار سے گھوڑے بھی آگے بڑھنے سے انکار کردیتے ہیں، بڑے بڑے سور ماؤں کے دل دھلتے اور قدم اکھڑنے لگتے ہیں ۔ اس عین معرکہ کارزار میں بھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ روزے سے ہوتے ہیں،میدان جنگ میں بھی کوئی نماز قضا نہیں ہوتی ہے،اہل بیت کی عورتیںاس سخت آسمائش میں بھی جب کہ کلیجے منہ تک آگئے اس وقت بھی بےپردہ نہیں ہوئیں یہی ان کی تعلیم ،ان کا اسوہ اور دنیا کے لئے ان کا سبق ہے۔