الرحلۃ في طلب الحدیث
استھل الناس ھلال شوال وھم في ذلک علیٰ أحوال : فمنھم من یستقبل قد وم العید ، ومنھم من یفرح لاداء ذمۃ الصوم ، ومنھم من یستھل لمجیءۃ وقت التحاقہ بالمدرسۃ والجامعۃ الدینیۃ لأخذ العلوم ، ینتظر لذلک لیسافر من بیتہ لطلب العلم ، یترک لذائذ العیش ومطاعمہ الھویّۃ وملابسہ الشھیّۃ وشفقۃ أمہ، وحنونۃ أبیہ،ورفاقۃ أخیہ وأغانیج الأخوات والصغار وماکان ھذ ا إلا لیضحیّ لد ین اللہ ویکتسب من العلماء ، فما بزغ فجر الیوم الثاني من العید حتیٰ تھیأ للرحلۃ ، وشد میزرہ ، وأخذ ماتیسر لہ من الزاد أو ما یکفیہ إلیٰ شھر أو سنۃ ، وودعہ أھل بیتہ من الوالدین ، والأخوۃ والأخوات ، فاستودع منھم وعیونھم تدمع ، و قلوبھم تصبر ، تنتظرون أیابہ ورجوعہ إلیٰ بیتہ سالماً عالماً ، فما مرت علیٰ ھذا الحال دقائق عدیدۃ إلا وقد ارتحل من بیتہ وخرج لطلب العلم إلیٰ بلاد مختلفۃ ، وصرف أوقاتہ في اکتساب
صحیح مسلم کے ابواب وتراجم
صحیح مسلم کے ابواب وتراجم
حسن ترتیب اور مضامین وموضوعات کی تقسیم ہرکتاب کی نہ صرف ضرورت ہوتی ہے، بلکہ اس سے استفادہ کی آسانی اور مطلوبہ مضمون وموضوع تک رسائی کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔
موضوعات کے اعتبار سے کتابوں کی تقسیم کا ثبوت خود آسمانی کتابوں سے بھی ملتا ہے، بلکہ ان کتابوں کواس چیز کے لئے بنیاد کہنا چاہئے، مثلاً :زبور سے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کے موضوعات ومضامین مواعظ وحکم کے عنوان کے تحت آتے ہیں، یعنی وہ مواعظ وحکم کی کتاب ہے،جبکہ تورات وانجیل میں کئی موضوعات تھے، جو مواعظ وحکم کے علاوہ احکام وآداب وغیرہ سے متعلق تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کے ساتھ جب موضوعات کے اعتبار سے سابقہ کتابوں کا مقارنہ کیا جاتا ہے تو تورات وانجیل کو مقدم ذکر کیا جاتا ہے، کیونکہ ان دونوں کتابوں میں موضوعات کی تقسیم اور
مجموعۂ چہل احادیث
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مجموعۂ چہل احادیث
چہل احادیث کے جمع کرنے کا سب سے بڑا محرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ہے : ’’ من حفظ علی امتی أربعین حدیثا من امر دینھا بعثہ اللہ في زمرۃ الفقھاء ‘‘۔(۱)
یہ حدیث مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے ، اگرچہ اس کے تمام طرق ضعیف ہیں (۲)لیکن کثرت طرق کی بناء پر اس کا ضعف کم ہو گیا ۔(۳)
ابن عساکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : یہ حضرت عمر ، حضرت علی ، حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت ابودرداء ، حضرت معاذ ، حضرت ابو امامہ ، حض
علوم حدیث میں اختصاص اہمیت وضرورت
علوم حدیث ۔ اک بحر بیکراں:
تاریخ اسلام کے قرون اولی میں علمائے حق نے دین کے بنیادی مآخذ کی حفاظت وصیانت کی خاطر جن نئے علوم وفنون کی داغ بیل ڈالی ہے، ان کا ایک معتدبہ حصہ مختلف جہات اور متنوع عنوانات سے معنون ہوکر ’’علوم حدیث‘‘ کی صورت زندہ وتابندہ ہے، عنوان کی سادگی کی بنا پر ظاہربینوں کوپہاڑ، رائی کی ماننددکھنے لگتا ہے، لیکن حقیقت سے آشنا طبائع اس بحربیکراں میں غوطہ زن ہوکر انگشت بدنداں رہ جاتی ہیں، علم کا جوشیدائی بھی اس سفر پر روانہ ہوا تو متاع حیات تسلیم کرکے بھی تشنہ لبی پرشکوہ کناں نظر آیا،ان علوم کی وسعت کے اجمالی تعارف کے لیے چھٹی صدی ہجری کے معروف محدث وفقیہ، امام ابوبکر زین الدین حازمی رحمہ اللہ(۵۴۸ھ۔ ۵۸۴ھ) کے اس فرمان پر نگاہ ڈالیے :
’’علم الحدیث یشتمل علی أنواع کثیرۃ، تقرب من ماءۃ