8
Jumadi ul Awwal

مردار کی ہڈی کا حکم

آج کل مرغیوں کی خوراک میں جانوروں کی ہڈی کا استعمال ہوتا ہے،اسی طرح  فوڈ  انڈسٹری کثرت کے ساتھ جیلاٹن کا استعمال کرتی ہے۔اگر چہ پاکستان میں اب حلال جیلاٹن بنانے والی کمپنیاں وجود میں آگئی ہیں مگر بڑے پیمانے پر اب بھی مغربی ممالک اسے تیار کرتے ہیں اور اس کابڑا ماخذ جانور کی ہڈی ہےجب کہ غیر مسلم ممالک میں ذبیحہ غیر شرعی ہوتا ہے جو بحکم مردار ہے اور اسی مردار کی ہڈی سے جیلاٹن تیار کیا جاتا ہے،اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا جیلاٹن جو مردار کی ہڈی سے بنایا گیا ہو،حلال ہے یا نہیں؟اس سوال کا جواب جیسا کہ ظاہر ہے اس پر موقوف ہے کہ مردار کی ہڈی کا کیا حکم ہے۔

تمام جانوروں کی ہڈیا ں پاک ہیں خواہ جانور ماکول اللحم ہو یا غیر ماکول اللحم ہو اور خواہ شرعی طریقے پر ذبح کیا گیا ہو یا غیر شرعی طریقے پر ذبح کیا گیا ہو اور جانور سمندری ہو یا خشکی کا  ہو اور اگر سمندری ہو تو مچھلی ہو یامچھلی کے علاوہ کوئی اور جانور ہو اور اگر خشکی کا جانور ہو تو اس میں دم ہو یا نہ ہو اور اگر دم ہو تو دم سائل ہو یا غیر سائل ہو،سب کی ہڈی حلال ہے،البتہ درج ذیل اصناف کی ہڈیا ں حرام ہیں:

1۔        خنزیر کی ہڈی نجس اورحرام ہے کیونکہ خنزیر اپنے تمام اعضاء سمیت نجس العین ہے۔                     

2۔        انسان کی ہڈی پاک ہے مگر اس کی عظمت اور کرامت کی وجہ سے اس کی  ہڈی کا استعمال حرام ہے۔

3۔        مردار کی ہڈی پر دسومت اور چکنائی ہو تو اس کا استعمال حرام ہے،البتہ جن جانوروں میں دم نہ ہو یا دم تو ہو مگر سائل نہ ہو اس کی ہڈی پر اگر دسومت ہو تو اس کا استعمال حلال ہے۔

حاصل یہ ہے کہ سوائےخنزیر کے ہر جانور کی ہڈی پاک ہے خواہ حلال ہو یا حرام ،مذبوح ہویا مردار البتہ مردار کی ہڈی میں شرط ہے کہ اس پر دسومت نہ ہو اور اگر جانور میں دم سائل نہ ہو تو اس کی ہڈی پر دسومت کا نہ ہونا بھی شرط نہیں۔

اس تفصیل کی روشنی میں ہڈیوں سے بننے والی خوراک کا حکم یہ ہے کہ :   

1۔شرعی طور پر مذبوح  حلال جانوروں کی ہڈیوں سے خوراک بنانا اور جانوروں کو کھلانا جائز ہے۔

2۔جو جانور حلال نہ ہو مگر شرعی طریقے پر ذبح کردیا گیا ہو اس کی ہڈی سے بھی خوراک بنانا اور جانور کو کھلانا جائز ہے۔

3۔مردار کی ہڈی پر اگر رطوبت ہے تو خشک ہوجانے کے بعد اس سے خوراک بنا نا جائز ہے   

4۔ایسی خوراک جس میں انسانی ہڈی یا خنزیر کی ہڈی استعمال ہو،اس کا بنانا اور جانوروں کو کھلانا جائز نہیں۔           

الجامع الصغير - عبد الحي اللكنوي - (1 / 328)

 ولا يجوز بيع شعر الإنسان والانتفاع به ولا بيع جلود الميتة قبل أن تدبغ فإذا دبغت فلا بأس ببيعها والانتفاع بها ولا بأس ببيع عظام الميتة وعصبها وعقبها وصوفها وشعرها وقرنها ووبرها والانتفاع بذلك كله

 الهداية شرح البداية - (3 / 46)

 قال ولا بيع جلود الميتة قبل أن تدبغ لأنه غير منتفع به قال عليه الصلاة والسلام لا تنتفعوا من الميتة بإهاب وهو اسم لغير المدبوغ على ما مر في كتاب الصلاة ولا بأس ببيعها والانتفاع بها بعد الدباغ لآنها قد طهرت بالدباغ وقد ذكرناه في كتاب الصلاة ولا بأس ببيع عظام الميتة وعصبها وصوفها وقرنها وشعرها ووبرها والانتفاع بذلك كله لأنها طاهرة لا يحلها الموت لعدم الحياة وقد قررناه من قبل والفيل كالخنزير نجس العين عند محمد رحمه الله وعندهما بمنزلة السباع حتى يباع عظمه وينتفع به

فتح القدير لكمال بن الهمام - (15 / 75)

قال ( ولا بيع جلود الميتة قبل أن تدبغ ) لأنه غير منتفع به ، قال عليه الصلاة والسلام { لا تنتفعوا من الميتة بإهاب } وهو اسم لغير المدبوغ على ما عرف في كتاب الصلاة ( ولا بأس ببيعها والانتفاع بها بعد الدباغ ) لأنها قد طهرت بالدباغ ، وقد ذكرناه في كتاب الصلاة ( ولا بأس ببيع عظام الميتة وعصبها وصوفها وقرنها وشعرها ووبرها والانتفاع بذلك كله ) ؛ لأنها طاهرة لا يحلها الموت ؛ لعدم الحياة وقد قررناه من قبل .