حضرت عمر رضی اللہ عنہ
وہ ہستی جس کاذکرتورات وانجیل میں ہے
جس کے دورمیں قرآن کریم کی پیش گوئیاں پوری ہوئیں
جس نے سرکاردوجہاں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض الوفات کی یہ وصیت کہ’’یہودونصارٰی کوجزیرہ عرب سے نکال دو‘‘کوعملی جامہ پہنایا
جو’’اشداء علی الکفاررحماء بینھم‘‘کاکامل نمونہ اوراعلیٰ مظہرتھا
جس کاوجودعطیہ خداوندی اور تحفہ سماوی تھا
جسے بہ طورخاص اسلام کے غلبے کے لئے مانگاگیاتھا
جس کامسلمان ہونا،اسلام کی فتح،جس کی ہجرت مسلمانوں کی نصرت،اورجس کی خلافت مسلمانوں کے لئے رحمت تھی
وہ مقدس ہستی جس کارعب اوردبدبہ آج تک قائم ہے،جس سے دل دھلتے تھے،زمین کانپتی تھی،آسمان تھرتھراتاتھااورشیاطین دوربھاگتے تھے۔
جواس امت کا’’محدث‘‘ تھا،تکوینیات میں سے جسے وافرحصہ ملاتھا،جس کی رائے منشاء خداوندی کے عین مطابق ہواکرتی تھی اوروحی اس پرمہرتصدیق ثبت کردیتی تھی
ہواؤں پرجس کی حکومت تھی اور اس کے پیغام کو دور پہنچاتی تھی ۔دریاجس کے کہنے پررواں دواں ہوجاتے تھے اور زمین اس کے ضرب سے تھم جاتی تھی۔
جوخلیفہ برحق تھے،دوقبلوں کے فاتح تھے،نبوت کے خصائص وکمالات رکھتے تھے،جس کے دورمیں تسبیح کی طرح آس پاس کے ممالک ٹوٹ کر بھکرنے لگے اورپکے ہوئے پھل کی طرح اسلام کی جھولی میں گرنے لگے۔
یوں تو کشورکشااورفاتحین اسلامی ادوارمیں اوربھی گزرے ہیں،جنہوں نے اسلامی تخت کو پھیلایا ،ریاست کی حدود میں اضافہ کیا،بحروبرپرحکومت کی،شہروں کوفتح اوردشمن کومغلوب اوران کی طاقت کوپست کیامگرمسلمان سلاطین اور ان میں یہ فرق ہے کہ انہوں نے صرفددشمن کی تلواروں کوکندکیا،ان کے سروں کوجھکایا۔ان کے شہروں کو فتح کیا مگران کے دلوں کوفتح نہ کرسکے،یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے ممالک جلدیابدیراسلامی حلقہ سلطنت سے نکل گئے۔یہی اندلس جس پرآٹھ سوسال تک اسلامی پرچم پورے آب وتاب سے لہراتارہا،آج اوروں کے زیراقتدارہے اور وہاں کا قلعۃ الحمراء اور مدینۃ الزہراء مسلمانوں کی عظمت رفتہ پر نوحہ کناں ہیں۔ہندمیں تو جیسے مسلمانوں نے حکومت ہی نہیں کی ۔عربوں ،غزنیوں ،غوریوں،خلجیوں،تغلقوں،لودھیوں ،سوریوں اور مغلوں کو یہاں کی سر زمین بھلا چکی ہے۔ یہی حال وسطی ایشیاکی ریاستوں کا ہے ۔اسلامی شعائر پر پابندی ہے۔اسلام پر عمل گویا مٹھی میں انگاروں کو تھامنا اور کانٹوں پر چلنا ہے۔ غرض یہ کہ وہاں بھی اسلام اورمسلمانوں کی زبوں حالی،بے کسی،کمزوری اورکمپرسی اپنے عروج پرہے۔
اگر خالص انتظامی اور مادی نگاہ سے دور فاروقی کو دیکھا جائے تو بھی دور فاروقی اسلامی تاریخ میں منفرد اور ممتاز نظر آتا ہے۔جو راحت اور چین ان کے دور میں مسلمانوں کو ملا تاریخ شاہد ہے کہ پھر مسلمانوں کو نہ مل سکا۔ عالمی طاقتوں کو انہوں نے سرنگوں کیا،بیت المال قائم کیا،مفتیوں اورقاضیوں کاتقررکیا،محکمہ پولیس قائم کیا،ڈاک کانظام جاری کیا،مردم شماری کرائی،زمین کی پیمائش کی،اسلامی کلنڈرکااجراء کیا،مفتوحہ ممالک میں فوجی چھاؤنیاں قائم کیں،اورمفتوحہ ممالک کوصوبہ جات میں تقسیم کیااور تنخواہوں میں گریڈیشن کا اصول جاری کیا۔
اب تک کی خامہ فرسائی سے آپ بخوبی جان گئے ہیں کہ سیدناابوحفص عمربن الخطاب کے متعلق گفتگوہورہی ہے۔
نام عمر،کنیت ابوحفص،اورلقب فاروق اعظم اورولدیت خطاب تھی،نویں پشت میں سلسلہ نسب آقائے نامدارسروردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملتاہے۔
بچپن میں اونٹ چرائے اورجوانی میں شرفاء کے علوم حاصل کئے۔ نزول وحی کے وقت ان سترہ ہستیوں میں سے تھے جولکھناپڑھناجانتے تھے۔
بہترین شہسوارتھے گھوڑے پراچھل کرسوارہوجاتے تھے،قوی جسمانی قوت وطاقت رکھتے تھے،عرب کے میلوں میں پہلوانی کرتے تھے۔علم الانساب کے ماہرتھے اس لئے افراداورقبائل کے نسبی حالات اوران کے خاندانی خصوصیا ت اور ذاتی کمالات سے بھرپورواقفیت رکھتے تھے اس لئے جو تقررکرتے تھے درست اور موزوں کرتے اور عہدے کے لئے انتخاب میں غلطی نہیں ہوتی تھی۔
خاندانی وجاہت اوراونچے حسب ونسب کی بدولت سفارت کاری کاعہدہ ان کے خاندان کے پاس قدیم سے چلاآتاتھا۔خود حضرت فاروق اعظم قریش کے سفیرمقررتھے۔سفارت کے لئے سفراء میں متانت ،سنجیدگی،معاملہ فہمی اور ذاتی وجاہت اس دور میں لازمی سمجھی جاتی تھی اوریہ تمام خصائص وصفات حضرت فاروق اعظم کے خاندان کوحاصل تھیں۔
دوسری طرف روحانیت،اخلاص وللہیت اورنبوت کے لئے لازم صفات وخصائص میں درجے انتہاء تک پہنچے ہوئے تھے۔نبوت کی خوبیاں اورکمالات اوراس کے لئے درکارصفات تمام کی تمام انہیں حاصل ومیسرتھیں مگراس وجہ سے نبی نہیں بنائے جاسکے کہ نبوت کا سلسلہ بند ہوچکا تھا۔
آ نے حضرت صدیق اکبرکو’’یاخیررجل‘‘کہہ کرمخاطب کیا،انہوں نے جواب دیاکہ آپ اس طرح مجھے
پکارتے ہیں جب کہ میں نے نبوت کی زبانی سن رکھاہے کہ’’ماطلعت الشمس علی رجل خیرمن عمر‘‘
حضرت عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کہ بہ قول کہ’’حضرت عمراوردیگرصحابہ میں یہ فرق ہے کہ دیگرصحابہ مریدرسول تھے،اورحضرت عمرمرادرسول تھے۔
حقیقت میں ان کااسلام حضورصلی اللہ علیہ وسلم کامعجزہ تھاکیونکہ اسلام سے پہلے ایسے کوئی شواہدوآثار اورخارجی قرائنو علامات نہیں تھے جن سے ان کے اسلام کی توقع جاسکتی ہومثلًاحضرت ابوبکرصدیقؓ کوزمانہ بعثت سے نبوت کے ساتھ دوستی اورمحبت کاشرف حاصل تھا،حضرت خدیجہؓ نبوت نبوت کے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں،حضرت علیؓ نبوت کی گودمیں پلے بڑھے تھے۔مگریہ توسرلینے آرہے تھے اورسردے کرچلے گئے۔
ایسی جامعیت کی حامل اورہمہ جہت شخصیت کہ نبوت کی طرح امامت خطابت،وعظ ونصیحت اورتزکیہ واصلاح بھی فرمارہے ہیں اورغنیمت کی تقسیم،میدان جنگ کے نقشے،سفراء سے ملاقات اوربیرون کے اسفاربھی فرمارہے ہیں۔
بہادری اورشجاعت ایسی تھی کہ باطل تارعنکبوت معلوم ہوتاتھااورعاجزی وانکساری اس قدرکہ خاک کوبستربناتے ،بیواؤں کے لئے پانی بھرتے اورخوداونٹوں پرتیل ملتے تھے۔قیصر کا نمائندہ ملنے آیا اس نے خلیفہ کے متعلق پوچھا لوگوں نے امیر المومنین کی طرف اشارہ کیاجو اس وقت سر کے نیچے اینٹ رکھے زمین پر آرام فرمارہے تھے وہ بول کہ عمر....تمھیں آرام کا حق ہے تم جہاں چاہو آرام کرسکتے ہومگر حکمراں رعایا پر ظلم کرتے ہیں اس لئے چین کی نیند نہیں سولستے ہیں۔
آج مسلمان دورفاروقی کی طرح امن،سکون،چین اورراحت چاہتے ہیں۔ہرایک کی قلبی تمناہے کہ پھرسے اسلام کوغلبہ اورمسلمانوں کوبرتری نصیب ہو،مگروہ فاروقی نسخہ آزمانے کے لئے ہماری طبیعتیں آمادہ نہیں ہیں،ہم پھل چاہتے ہیں مگردرخت کی آبیاری کے لئے تیارنہیں،نتائج سے غرض رکھتے ہیں مگراس سے پہلے کے مراحل سے گزرنانہیں چاہتے
۔
منزل ہمیں مطلوب ہے مگررخ ہمارامخالف سمت میں ہے،غیروں کے نسخوں سے اپناعلاج،ان کے افکارسے اپنی اصلاح اوران کے نظام سے اپنی تنظیم چاہتے ہیں۔
مگرنگاہوں میں دورفاروقی کے خواب سجائے ہوئے ہیں۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے جونسخہ آزمایاتھاوہ خودقرآن کریم میں مسلمانوں کے لئے تجویزہواہے۔
’’وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین‘‘
ترجمہ:اگرتم مومن(صادق)ہوتوتم ہی غالب رہوگے۔
اورکودحضرت عمررضی اللہ عنہ اس کابرملااعلان کرتے تھے:
’’اعزنااللّٰہ بالاسلام فلوجعلناالعزبغیرمااعزنااللہ لاذلنااللّٰہ‘‘
ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعے ہمیں عزت سے نوازااگرہم اسلام کے علاوہ کسی اورشئی میں عزت تلاش کریں گے تواللہ ہمیں ذلیل فرمادیں گے۔