(حلال کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں (پہلی قسط
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
اسلام نے دنیا کو بیش بہا عطیات دیے ہیں ان میں سے ایک اس کا انتہائی لطیف، نفیس اور پاکیزہ ’’نظام اکل و شرب‘‘ ہے۔ جس کی حساسیت کا اندازہ وہی شخص کرسکتا ہے جس کے سامنے اس حوالے سے قرآن و سنت کے احکامات پوری طرح واضح ہوں۔ قرآن حکیم میں ایک جگہ تمام اہل ایمان کو اور دوسری جگہ انبیا کو اپنی ماکولات کو ’’طیب‘‘ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ چند آیات و احادیث ملاحظہ ہوں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
یا ایھا الناس کلو مما فی الارض حلالا طیبا ولا تتبعوا خطوات الشیطن انہ لکم عدو مبین۔ (البقرۃ: ۱۶۸)
ترجمہ: اے لوگوں جو چیزیں زمین میں موجود ہیں اس میں سے حلال پاک چیزوں کو کھاؤ اور شیطان کے قدم بقدم مت چلو، یقیناً وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے۔
یا ایھا الرسل کلوا من الطیبات و عملوا صالحا انی بما تعملون علیہم (المومنون: ۵۱)
ترجمہ: اے پیغمبروں پاک چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرو یقیناً میں تمہارے اعمال سے خوف واقف ہوں۔
ایک اور موقع پر ارشاد ہے۔
یسألونک ماذا احل لکم قل احل لکم الطیبات وما علمتم من الجوارح مکلبین تعلمو نھن مما علمکم اللّٰہ فکلو مما امسکن علیکم وا ذکرو ااسم اللّٰہ علیہ واتقو اللّٰہ ان اللّٰہ سریع الحساب۔ (المائدہ: ۴)
لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا کیا جانور ان کے لیے حلال کیے گئے ہیں؟ آپ فرمادیجیے کہ تمہارے لیے کل حلال جانور حلال رکھے گئے ہیں اور جن شکاری جانوروں کو تعلیم دو اور تم ان کو چھوڑو بھی اور ان کو اس طریقہ سے تعلیم دو جو تم کو اللہ تعالیٰ نے تعلیم دی ہے تو ایسے شکاری جانور جس شکار کو تمہارے لیے پکڑیں اس کو کھاؤ اور اس پر اللہ تعالیٰ کا نام بھی لیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو، بے شک اللہ تعالیٰ جلدی حساب لینے والے ہیں۔ (بیان القرآن)
حدیث شریف میں آتا ہے۔
طلب الحلال فریضۃ بعد الفریضۃ۔
طلب الحلال واجب علی کل مسلم (الجامع الصغیر سیوطی ۳/۱۳۱)
ترجمہ: یعنی طلب حلال ہر مسلمان پر فرض واجب ہے۔
ایک اور جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
ان اللّٰہ طیب لا یقبل الاطیبا و ان اللّہ تعالیٰ امر المومنین بما امربہ المرسلین فقال یا ایھا الرسل کلوا من الطیبات و اعلمواصالحا۔
(الصحیح مسلم ،کتاب الزکواۃ، واخرجہ الترمذی فی التفسیر، سورۃ ۲،باب: ۶۳)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے پاک کے علاوہ کسی چیز کو قبول ہی نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس چیز کا حکم فرمایا ہے جو حکم اپنے رسولوں کو دیا ہے اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) فرمایا: اے رسولوں پاک چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرو۔
اس حدیث کی تشریح میں علما نے لکھا ہے کہ کوئی بھی عمل حلال کھانے کے علاوہ دوسرے طریقہ سے نہ پاک ہوتا ہے اور نہ ہی قبول ہوتا ہے۔ جبکہ حرام کھانے سے اعمال فاسد ہوجاتے ہیں اور قبولیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ ہر غذا کی تاثیر ہوتی ہے حلال غذا کھانے سے نیک اعمال کی توفیق ملتی ہے جبکہ حرام کھانے سے نیک اعمال کی توفیق سلب ہوجاتی ہے ۔آج کل کا ایک محاورہ بھی ہے:You Are What You Eat
جو کہ اس اصول کی تائید ہے۔ ایک اور حدیث میں تو حرام کھانے کا اثر یہ وارد ہے کہ چالیس دن تک اس کا کوئی عمل عنداللہ مقبول نہیں ہوگا۔
ان العبد لیقذف اللقمۃ الحرام فی جوفہ ما یتقبل منہ عمل اربعین یوما (الترغیب والترھیب،الترغیب فی طلب الحلال والکل منہ والترھیب من اکتساب الحرام واکلہ، ص: ۴۴۲)
جامع الترمذی میں حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ کی ایک روایت میں پیٹ اور غذا کی حفاظت کو اللّٰہ سے حیاء کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔
الاستحیاء من اللّٰہ حق الحیاء ۔۔۔۔۔۔ ان تحفظ البطن وما حوی( جامع الترمذی،کتاب القیامۃ، باب ۲۷)
اکل حلال کی اہمیت سے متعلق یہ چند آیات واحادیث ذکر کی ہیں، ذخیرہ احادیث میں باقاعدہ ابواب قائم کر کے اس موضوع کی احادیث کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہماری رہنمائی کرتا ہے جن سے پتا چلتا ہے کہ ایک مسلمان کا منصب حیات ہی یہی ہے کہ وہ حلال کو اختیار کرے اور حرام سے بچے۔ اللّٰہ تعالیٰ کا بے پناہ احسان ہے کہ فتنوں کے اس دور میں محض اس کے فضل سے مسلمانوں کا دین کی طرف رجوع کا رجحان بڑھ رہاہے۔ باطل قوتوں کے دن رات پروپیگنڈوں اور تمام تر کوششوں کے باوجود غیر مسلم اکثریتی ممالک میں رہنے والے مسلمان نہ صرف دین پر مضبوط ہو رہے ہیں بلکہ کفار میں بھی اسلام تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن گیا ہے۔ انہی دینی رجحانات کا نتیجہ ہے کہ غیر مسلم اکثریتی ممالک میں بالخصوص اور پوری دنیا میں بالعموم مسلمانوں نے حلال خوراک (Halal Food) کا مطالبہ شروع کردیا ہے جو کہ اس احساس کی غمازی کرتا ہے کہ ایک مسلمان کے دل میں حلال کی کتنی اہمیت ہے۔ تاہم ایک طرف اگر حلال و حرام کا یہ نازک مسئلہ ہے تو دوسری طرف اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ معاشی میدان سمیت زندگی کے ہر شعبے میں گلوبلائزیشن کے اس دور میں مکمل انقلاب برپا ہے۔ مغرب کی بے لگام تہذیب نے جو مسائل پیدا کردئیے ہیں انہی میں سے ایک تشویشناک مسئلہ مسلمانوں کی دوا اور خوراک کا بھی ہے، ایک ایسی قوم اور ملت جو اللّٰہ کی حدود کو سر مو بھی پھلانگ نہیں سکتی ہو، جو صرف حلال پر اکتفا کرنے والی اور حرام سے مکمل طور پر پرہیز کرنے والی ہو، در آمدات کی فراوانی نے ان کی زندگی کو دشوار اور کٹھن کردیا ہے کھانے پینے، علاج و دوا،لباس وپوشاک اور حسن و جمال کی افزائش کے لیے متعدد اشیاء اسلامی ممالک میں ان ممالک سے آرہی ہیں جن کے ہاں حلت و حرمت کے درمیان کوئی امتیازی دیوار نہیں ہے۔ ایسی اشیاء میں سے بہت سی تو مکمل حرام اجزاء پر مشتمل ہیں اور ایسی تو لا تعداد ہیں جن میں حرام کی آمیزش ہے۔ ان اشیا کے استعمال کے بے پناہ روحانی، جسمانی اور اخلاقی نقصانات ہیں۔
شریعت کے احکام میں گہری معنویت اور زبردست حکمت پنہاں ہے، حکمائے اسلام یا فلسفۂ تشریع کے ماہرین نے شرعی احکام کی حکمتوں کے بیان میں غیر معمولی مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ علمائے ہند میں حضرت شاہ ولی اللّٰہ دہلوی نے تو ’’حجۃ اللّٰہ البالغۃ‘‘ لکھ کر پورے دین کا فسلفہ بیان کردیا ہے، ان کے بعد مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللّٰہ اور مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللّٰہ نے بھی اپنی کتابوں میں غیر معمولی نکتہ آفرینیوں سے کام لیا ہے۔ اس کے علاوہ جدیدی تحقیقات نے بھی ثابت کردیا ہے کہ اسلام نے جن چیزوں کو حرام کیا ہے وہ سر تا پا مضرت ہی مضرت ہیں۔ ان سے اجتنا بے حد ضروری ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بیرونی دنیا سے درآمد کیئے جانے والے کھانے کے پیکٹوں میں خنزیر کی چربی یااس کے انفحہ (رینیٹ) سے تیار کردہ پنیر کی آمیزش ہے۔ خنزیر کی کھال کا استعمال بعض قسم کے صابنوں بلکہ بعض مٹھائیوں اور کیک کی تیاری تک میں کیا جاتا ہے، شوگر کے مریضوں کے لیے استعمال کی جانے والی انسولین میں اس کی آمیزش ہے۔ غذا کا مسئلہ ایک وقت تھا کہ جھٹکے کی مرغی اور مشینی ذبیحہ تک محدود تھا لیکن اب صورتحال یکسر مختلف ہے۔ اب ان میں دیگر ماکولات، مشروبات، کاسمیٹکس، فارما سیوٹیکلز، پرفیوم، پولٹری کی خوراک، چمڑے اور ٹیکسٹائل کی مصنوعات بھی شامل ہوچکی ہیں۔ آج کی جدید دنیا میں ان درآمدات کی مارکیٹنگ کے لیے بھی مختلف وسائل رائج ہیں۔ ٹی وی، انٹرنیٹ، میسجز، فیس بک وغیرہ کا یہ ایک انتہائی نفع بخش کاروبار ہے جس کے نتیجہ میں بعض مرتبہ ایک ہی دن میں ان میں سے بعض اشیاء اس کثرت سے فروخت ہوتی ہیں کہ پہلے کبھی اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔
بہرحال قصہ مختصر، اس زمانہ میں جہاں صحیح معنوں میں ’’فقیہ‘‘ بننے کی شرائط میں اضافہ ہوگیا ہے اور مفتی کی ذمہ داریاں اور بڑھ گئی ہیں وہیں ایک اسلامی ریاست کے کندھوں پر بھی ذمہ داریوں کا بار بڑھ گیا ہے ،اس لیے مسلم ممالک کے ذمہ داران کی ذمہ داری اس معاملہ میں بہت بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنے ممالک میں ایسی اشیاء کے داخلہ پر مکمل طور پر پابندی عائد کرے اور بے ضمیر تاجروں اور جرائم پیشہ اداروں پر سخت قسم کا سنسر لگائے تاکہ کسی کو اس بات کا حوصلہ ہی نہ ہوسکے کہ مسلم مارکیٹ میں حرام مواد سپلائی کرے۔آئندہ کی سطور میں اس موضوع پر قدرے تفصیل کے ساتھ گفتگو ملاحظہ ہو۔
حلال و حرام کی نگہداشت (Regulatery) کے حوالے سے اسلامی ریاست کی ذمہ داری
ذکر کردہ قرآن کریم کی آیات اور احادیث مقدسہ سے جہاں ایک فرد کیے لیے اکل حلال کی اہمیت و فرضیت کا پتہ چلتا ہے۔ وہیں اسلام کی اولین اسلامی ریاست،ریاست نبوی اور بعد کے ادوار کے نظم و نسق سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ایک اسلامی ریاست کی منجملہ ذمہ داریوں میںیہ بھی شامل ہے کہ لوگ حلال کمائیں اور حلال کھائیں۔
درحقیقت اسلامی ریاست ایک دینی ریاست ہے اس مفہوم میں کہ وہ خالص دینی تعلیم کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے، دینی اہداف کی علمبردار ہوتی ہے، دینی احکام پر عملدرآمد کی پابند ہوتی ہے، ایک ایسے قانون کے نفاذ کی مکلف ہوتی ہے جو دینی قواعد اور تعلیمات پر مبنی ہو۔
اس ریاست کا دنیا کی دوسری ریاستوں سے امتیازہی یہ ہے کہ یہاں ریاست برائے قانون ہے، قانون برائے ریاست نہیں۔ دوسرے نظاموں اور دوسری ریاستوں کی تاریخ میں پہلے ریاست وجود میں آتی ہے پھر ریاست کو بنانے اور چلانے کے لیے قانون کی ضرورت پڑتی ہے۔ اسلامی ریاست میں ایسا نہیں ہوا۔ یہاں قانون پہلے سے موجود ہے، اس قانون کو نافذ کرنے اور اس کے مطابق زندگی کے پورے نظام کو چلانے کے لیے ریاست درکار ہے۔ گویا یہاں مقنّنہ کا اپنا کوئی قانون نہیں بلکہ قانون حاکم اعلیٰ جل جلالہ کا ہے اور مقنّنہ کا کام اس کی تنقیذ اور اس پر عملدرآمد ہے۔
اہل ایمان کے اقتدار کے فرائض کو اللّہ پاک نے ان الفاظ سے بیان کیا ہے:
الذین ان مکنھم فی الارض اقامو الصلوۃواتواالزکوۃ وامروا بالمعروف ونھوا عن المنکر (الحج: ۴۱)
کہ اگر اہل ایمان کو ہم اقتدار بخشیں تو وہ نماز کا نظام قائم کریں گے زکاۃ کا نظام قائم کر یں گے، شریعت کے معروفات کا حکم دیں گے اورمنھیات اور منکرات کا سدباب کریں گے۔
یہ چار فرائض بہت عمومی نوعیت کے ہیں اور ان میں وہ تمام فرائض اور ذمہ داریاں شامل ہیں جو اسلامی ریاست کو سر انجام دینی ہے۔ ان کی صراحت اور وضاحت فقہائے اسلام اور متکلمین نے کی ہے۔
آگے چلنے سے پہلے یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسلام کی دستوری اور فقہی تاریخ کے ہر دور میں اولو الامر کی خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ واضح کیا گیا ہے جو لوگ حکمرانی کے منصب پر فائز ہوں یا ریاست کے اداروں کو چلانے کے لیے مقرر ہوں ان کی خصوصیات اور اہلیت کیا ہونی چاہیے۔ وہ خصوصیات اور اہلیتیں انہی فرائض کی روشنی میں متعین کی جائیں گی، ظاہر ہے اہلیت کا تعین فرائض کے تعین کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے۔ اگر ایک شخص کا فریضہ ہے کہ وہ لوگوں کی صحت کا خیال رکھے، لوگوں کی بیماریوں کا علاج کرے اس کی اہلیت اور ہوگی ،اگر فریضہ گھر کی چوکیداری کا ہے اس کی اہلیت کا تعین کسی اور انداز سے ہوگا۔ اس لیے اہلیت کے تعین میں ان چاروں فرائض کو جو قرآن کریم کی اس آیت میں بیان ہوئے ہمیشہ پیش نظر رکھا گیا ہے۔
ان چاروں فرائض میں سے موخر الذکر دو فرائض ’’شریعت کے معروفات کا حکم اورمنھیات و منکرات کا سدباب‘‘ یہ اسلامی ریاست کے وہ دو اہم فرائض ہیں جن میں شریعت کا ’’نظام اکل و شرب‘‘ بھی داخل ہے کہ اسلامی ریاست کو افراد کو حلال میسر ہو اور وہ حرام سے بچے رہیں، اس کا اہتمام اور نگہداشت اسلامی ریاست کی اہم ذمہ داریوں اور فرائض میں شامل ہے۔
اور ایک مثالی اور معیاری اسلامی ریاست کی تعریف ہی ابو نصر فارابی نے یہی کی ہے کہ وہاں کہ افراد اور فرمانروا شریعت کے پابند اور شریعت کے تحفظ کرنے والے ہوں۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو وہ اسلامی ریاست کہلانے کی مستحق نہیں ہوگی۔
ذبیحہ کے حوالے سے شریعت اسلامیہ نے واجبات، سنن، مستجاب و مکروہات کی مستقل تعلیم دی ہے اور صرف خاص طریقہ پر ذبح شدہ جانور کو حلال قرار دیا ہے۔
’’المدخل‘‘ جو مشہور مالکی عالم ابو عبداللہ محمد ابن محمد ابن العبدری الفاس المتوفی 737 ھ کی مایہ ناز کتاب ہے، میں مذکور ہے:
’’جانوروں کو شرعی طریقہ پر ذبح کرنا ایک امانت ہے، لہٰذا اس خدمت کو ایسے لوگوں کے سپرد کرنا چاہیے جو امین ہوں اور دینی امور میں تہمت زدہ نہ ہوں، کیونکہ اس کے خصوصی احکام ہیں۔‘‘
آگے چل کر فرماتے ہیں کہ عہد رسالت میں ذبح اور نحر کی خدمت جلیل القدر صحابہ کے ذمہ تھی۔ چنانچہ اس سلسلہ میں حضرت زبیر، عمر وبن العاص، عامر بن کریز، خالد بن اسید بن ابی العیص الاموری کا نام لیا جاتا ہے۔ (المدخل، بحوالہ فتاویٰ بینات 505/4)
۲:۔ امام نووی رحمہ اللّٰہ المجموع شرح المہذب میں رقم طراز ہیں:
’’ذبیحہ کے مسائل کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ سے کسی نے شکایت کی مدینہ کے قصاب جانور کے ٹھنڈا ہونے سے پہلے کھال نکالنا شروع کردیتے ہیں اس پر حضرت عمر رضی اللّٰہ نے ریاستی سطح پر سرکاری اعلان جاری کیا اس اعلان میں لوگوں کی غلطی بھی واضح اور شرعی طریقہ ذبح کی نشاندہی بھی کی تاکہ لوگ اس سے غفلت نہ برتیں۔ اعلان کے الفاظ یہ تھے۔
الذکاۃ بین اللبۃ والحلق لمن قدر، ولا تعجلوا الانفس حتی تزھق
کہ اختیاری ذبح کا محل حلق اور لبہ ہے اور پوری طرح جان نکلنے سے پہلے (کھال اتارنے میں) جلدی نہ کرو (المجموع شرح المہذب (۹/۸۴) ط: دار الفکر)
۳:۔ حضرت عمر رضی اللہ کا اپنے دور خلافت میں بازاروں کا گشت اور دھوکہ کے ساتھ گندم فروخت کرنے والے تاجروں کے خلاف تادیبی کارروائی بھی اس نگہداشت اور Regulatery کی واضح مثال ہے کہ مسلم مارکیٹ میں مسلم تاجر حرام طریقہ تجارت کو اختیار نہیں کرسکتا۔
حلال کی نگرانی کرنے والے اداروں کی ضرورت:۔
گزشتہ سطور سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ اسلام میں حلال و حرام کی کتنی اہمیت ہے۔ نیز مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے کہ حلال کا اہتمام کریں اور حرام سے بچیں۔ عصر حاضر میں مسلمانوں کو اس بارے میں اور بھی زیادہ حساس رہنے کی ضرورت اس لیئے بھی ہے کہ فوڈ ٹیکنالوجی اور سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ ان سے بنی اشیاء ماکولات، مشروبات، ادویات، کاسمیٹکس وغیرہ پورے عالم اسلام میں اپنی شکل جدید کے ساتھ پھیل چکی ہیں اور روز افزوں ان میں اضافہ ہو رہا ہے، ان مصنوعات کی موجود شکل میں یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ ان اشیاء کو کس مادّے سے کس طرح تیار کیا گیا ہے اور بسا اوقات یہ لا علمی ایک اچھے خاصے دیندار مسلمان کو انجانے میں حرام میں مبتلا کردیتی ہے۔ اسی مقصد کے پیش نظر بعض مسلم اکثریت ممالک اور بعض دیگر غیر مسلم اقلیتی ممالک میں سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر Halal Supervisory Centers کا قیام عمل میں آیا ہے تاکہ مسلمانوں کی حفاظت اور حرام چیزوں سے اجتناب کے سلسلہ میں حلال مصنوعات کی نشاندہی اور ان کی نگرانی کی خدمت انجام دی جاسکے۔ مسلمانوں کی آبادی اس وقت ڈیڑھ ارب سے بڑھ گئی ہے۔ اس آبادی پر مشتمل عالمی حلال مارکیٹ غیر متوقع طور پر بڑھ گئی ہے ایک سروے کے مطابق اس وقت عالمی حلال مارکیٹ کا اندازہ 3 ٹریلین ڈالر لگایا گیا ہے۔ مسلمان گاہک (Muslim Customer) کی حلال ترجیحات اور بڑھتی ہوئی عالمی حلال مارکیٹ کے پیش نظر کھانے پینے کی اشیا مہیا کرنے والے افراد اور اداروں نے بھی حلال خوراک فراہم کرنے کا پروگرام شروع کردیا ہے۔
شروع شروع میں کمپنیاں اپنی مصنوعات پر لفظ حلال لکھا کرتی تھیں۔ چونکہ ان اداروں میں اکثر غیر مسلموں کی ملکیت ہیں اس لیے شرعاً اس خود ساختہ دعوے (Self Claim) کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہ حلال کی تصدیق ایک مسلمان کے لیے شہادت کے درجے میں ہے جس کے لیے دیانتدار مسلمان ہی کا قول قابل اعتبار ہوگا۔یہ امر خوش آئند ہے کہ دنیا میں حلال سرٹیفکیشن کے ادارے وجود میں آنا شروع ہوگئے اور رفتہ رفتہ حکومتی سطح پر بھی اس میدان میں دلچپسی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ (جو کم ایک اسلامی ریاست کے فرائض میں بھی شامل ہے جیسا کہ گزشتہ اوراق میں تفصیل سے بتایا جا چکا ہے) چنانچہ اس وقت مختلف ممالک میں حکومت کی نگرانی میں حلال سرٹیفکیشن کا کام اسی دلچسپی کا ایک مظہر ہے۔
احتیاط: جیسے کہ ہم نے ماقبل میں ذ کرکیا تھا کہ ہر کام کی اہلیت کا تعین فرائض کے تعین کے بعد ہوتا ہے، اسی اصول کے پیش نظر یہ بات قابل ملاحظہ ہے کہ کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینا یا اس کی نشاندہی کرنا انتہائی حساس معاملہ ہے۔ قرآن و سنت میں اس حوالے سے واضح ہدایات موجود ہیں۔ اگر ایک طرف حلال کھانے کی ترغیب اور حرام سے بچنے کی تاکید ہے تو دوسری طرف اس بارے میں بھی اسلام کی تعلیمات کافی سخت اور غیر لچکدار ہیں کہ حلال و حرام کے مسئلہ میں عقل کو کوئی دخل نہیں، بلکہ شریعت نے جن چیزوں کو حلال کیا ہے وہ حلال اور جن کو حرام کیا وہ حرام ہیں۔ بہرحال یہ ایک دو دھاری تلوار ہے جس میں ذرا سی بے احتیاطی سے بندہ اللّہ اور اس کے رسول صلی اللّہ علیہ وسلم کی لعنت میں گرفتار ہوسکتا ہے۔ لہٰذا یہ بات ضروری ہے کہ حلال سرٹیفکیشن کرنے والے ادارے اس کے لیے معیارات بنانے والے سرکاری محکمے اس بات کا خاص خیال رکھیں اس معاملہ میں حتمی فیصلے سے پہلے مستند مفتیان کرام کی طرف رجوع کریں اور شریعہ اور غذائی ماہرین ہی کی رائے کو ترجیح دیں۔ اس لیے کہ اس معاملہ کے اصل اسٹیک ہولڈرز وہی ہیں جن کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ حلال کے اس تصور کو جو ایک اسلامی قدر کی حیثیت رکھتی ہے، جس کی رو سے مصنوعات کی فنانسنگ ، سورسنگ، پروسیسنگ، اسٹوریج اور مارکیٹنگ میں کوئی حرام عنصر شامل نہ ہو کو پرکھیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں ایک اسلامی ریاست کے لیئے اب مزید گنجائش نہیں ہے کہ وہ حلال مصنوعات کے حوالے سے قانون سازی میں مزید تاخیر کرے۔ حلال کے تصور کو اجاگر کرنے اور اس پر حقیقی عملدرآمد کرانے کے لیے ضروری ہوچکا ہے کہ اسٹیک ہولڈرز، علماء و مشائخ، غذائی ماہرین کو ایک چھت تلے مشترکہ طور پر تحقیقی کام سر انجام دینے کی دعوت دی جائے تاکہ اس حوالہ سے درپیش چیلنجز سے با آسانی نمٹا جاسکے۔