استاذجی رحمتہ اللہ علیہ
تخصص سال اول:
نئی صدی اور نئے ہزاریے کا پہلا سورج اپنی اولین کرنیں کرۂارض پر بکھیر رہاتھا،ایک جہانِ نو کا آغاز ہورہا تھا،دنیا بیسویں صدی کو الوداع الوداع اوراکیسویں کومرحباصد مرحبا کہہ رہی تھی اورہم درسِ نظامی سے تخصص کے مرحلے میں داخل ہورہے تھے۔یہ وہ زمانہ تھا کہ مفتی نظام الدین شامزی شہیدؒ جامعہ کے شیخ الحدیث اورتخصص فی الفقہ کے مشرف تھے۔اس وقت آپ کی شہرت کا آفتاب نصف النہارپر تھااور آپ اپنے عروج بلکہ عروج کے بھی عروج پر معلوم ہوتے تھے۔ہرطرف آپ کا طوطی بولتا تھا اورپورے ملک میں آپ کی علمیت کی گونج اور مقبولیت کا غلغلہ تھا۔جامعہ آسمانِ علم کے اس آفتاب وماہتاب کا مطلع اور اس چشمہ صافی کا منبع ومصدر تھا ،اس لیے قدرتی طور پرہر نگاہ اس سے خیرہ اورہر قلب اس سے متاثرتھااورہرایک اپنے اپنے ظرف اورطلب کے بہ قدر اس سے سیراب ہورہاتھا۔
میرے قریبی ساتھیوں میں سے کچھ توپہلے سے اپنے لیے کام اورپروگرام طے کرچکے تھے ،اس لیے وہ تو فاتحۂ فراغ کے انتظار میں دن گن رہے تھے۔کچھ نے بہت مجاہدے اورقربانی سے درس نظامی کی تکمیل کی تھی اور کچھ کے نجی حالات تعلیمی سلسلہ مزید جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ایسے ساتھیوں کی خوشی قابل دید اورمسرت قابل فہم تھی ،مگر میرا حال اس سے مختلف تھا۔ واللہ علی مانقول شہید۔جوں جوں دورہ حدیث قریب آرہا تھا توں توں گویا رگوں میں خون خشک ہورہاتھااور مستقبل کے حوالے سے ذہن ماؤف اوردماغ شل معلوم ہوتاتھا۔جامعہ کی قربت ،طالب علمی کی لذت ،اساتذہ کی شفقت اورکسی قدر عملی زندگی کی ذمہ داریوں کاخوف اورگوشۂ عافیت سے یک دم ایک سرگرم اورچہل پہل سے بھرپور زندگی سے طبعی عدم مناسبت۔یہ تمام عوامل ایسے تھے کہ سند ہاتھ میں تھی اورچاروں اطراف کھلے ہوئے تھے، مگر کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا کہ کیا کریں؟
یہ وقت بڑا نازک اورمرحلہ بڑاہی حساس ہوتا ہے ۔ موج بپھرکر کہیں بھی نکل جاتی ہے۔ ہلکی سی تحریک اور معمولی ترغیب انسان کا رخ کسی بھی جانب موڑ دیتی ہے ۔فتنہ گر اورفتنہ جو لوگ بھی ایسے ہی مواقع پرمنڈیوں سے خام مال اٹھاتے ہیں اور پھر اپنے من پسند ہتھیار تیار کرتے ہیں۔
حق تعالی شانہ کی خصوصی کرم نوازی تھی کہ ہمیں جامعہ سے وابستہ اورپیوستہ رکھا اورصورت اس کی یہ ہوئی کہ جب ہم قریبی تین ساتھیوں نے باہمی مشاورت کی، توتینوں کے اتفاق سے قرارپایا کہ سمندر کے کنارے تشنگی، سوائے حرماں نصیبی اوربدقسمتی کے اور کچھ نہیں، اس لیے حضرت شامزیؒ کے وجود مسعود کو غنیمت جانتے ہوئے ان سے کسب فیض کرنا چاہیے ۔
اگرچہ ہم استاذجی مفتی عبدالمجید دین پوری شہیدؒ سے ہدایہ اول و رابع پڑھنے کی سعادت حاصل کر چکے تھے، مگراس کے باوجود ان سے رسمی نوعیت سے زیادہ تعارف نہ تھا،انہیں دیکھتے اورجانتے تھے مگر پہچانتے اورسمجھتے نہیں تھے۔
مفتی عبدالسلام صاحب چاٹگامی مدظلہ العالی باوجود یہ کہ رئیس دارالافتاء تھے ،مگر ان کی شخصیت سے استفادہ اوران کی ذات سے نیازمندی کا موقع نہیں ملاتھا۔ان کے تحقیقی فتاوی اورگراں قدرمطبوعہ تالیفات اس زمانے میں بھی دستیاب تھیں، لیکن سوء قسمت کہ شروع ہی سے ان شخصیات کی قدر اور ان کی تالیفات کی طرف دھیان نہ ہوسکا۔فیا للاسف۔
حاصل اورمغز سخن یہ ہے کہ شخصیات میں سے مفتی نظام الدین شامزیؒ کی بلند پایہ اورقد آورشخصیت تخصص کے لیے وجہ تحریک بنی تھی۔ چنانچہ داخلے کی رسمی کارروائی ہوئی اورتحریری وتقریری جائزے کے بعدہم درس گاہ میں دروازے کی طرف نگاہیں باندھے حضرت کی آمد کے منتظر تھے۔استاذ محترم مفتی نظام الدین شامزی ؒ ایک دو مہمانوں کی معیت میں جلوہ افروز ہوئے اوران سے مختصر گفتگو فرمانے کے بعد ہم طلباء کی طرف متوجہ ہوئے اورحمد وصلاۃ سے کلام کا آغاز فرمایا۔تخصص کا پہلا سال تھا اور پہلے سال کے پہلے سبق کی پہلی باتیں تھیں، اس مناسبت سے پورا درس تو نہیں البتہ ابتدائی حصہ کچھ یاد رہ گیا ہے۔ آپ کچھ یوں گویا ہوئے:
’’مفتی صاحبان!یہ تخصص جان توڑ محنت اور کتابوں میں ڈوب جانے اورکھوجانے کا نام ہے۔یہ کوئی مشینی طرز کی چیز نہیں ہے کہ اس میں خام مال ڈال دیا جائے اور بنابنایا نکال لیاجائے۔‘‘
اس قدر فرمانے کے بعد اپنے دائیں اور بائیں جانب سلیقے اور قرینے سے لگی کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ :
’’جو کچھ ہے ان کتابوں میں ہے۔میں بھی اور ہر ایک ان کتابوں کا محتاج ہے۔اس لیے کچھ حاصل کرنا ہے توان ہی سے کرنا ہے، البتہ ان سے استفادہ کس طرح کروگے؟اس کے لیے دو باتوں کا خیال رکھو:
۱....سب سے پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کرو کہ سوال کیا ہے؟یا تم سے کیا پوچھا جارہا ہے؟
۲....اس کے بعد تمہیں یہ معلوم ہوکہ اس کا جواب کہاں ملے گا؟
جب تم جواب تلاش کروگے تو کبھی تو تمہیں بعینہ اپنے سوال کا جواب مل جائے گا،کبھی اس کی کوئی نظیر یا مثال مل جائے گی اور کبھی جزئیہ اور نظیر وغیرہ تو نہیں ملے گی البتہ کو ئی ایسا اصول یا قاعدہ کلیہ ہاتھ لگ جائے گاجس کی رہنما ئی سے تمہارا مسئلہ حل ہوجائے گا۔
ان دو باتوں کے بعد جواب لکھنے کا مرحلہ آتا ہے تو اگلے سال تمہیں باقاعدہ اس کی عملی مشق کرائی جائے گی اور اس سال تمہیں بزرگوں کی کتابوں کا مطالعہ کرایا جائے گا،تم اس سے اپنے بزرگوں کا اسلوب اور طرز بیان واستدلال سیکھنے کی کوشش کرو۔‘‘
اس سے آگے حضرت نے جوکچھ ارشاد فرمایا ہوگا، گفتگو کے آغاز سے اختتام کا اور تمہید سے نتیجے کا اندازہ لگایاجا سکتا ہے۔اغلب یہی ہے کہ تمام گفتگو اسی طرح کے رہنما اصولوں، زریں ارشادات اورپرحکمت فرموادات پر مشتمل ہوگی ،مگر چونکہ میرے تصورات اور قیاسات کے خلاف تھی، اس لیے ایک شعوری کوشش کرکے میں نے دھیان دوسری طرف متوجہ کردیا،جس کے بعدمیں جسماََتوحاضرِ درس تھا مگر ذہناََ کہیں اوربھٹک رہاتھا۔
خیال یہ تھااور یہی ذہن بناکر کلاس میں حاضر ہواتھا کہ آج توامام ابو حنیفہؒ اور شافعیؒ کے درمیان دنگل سجے گا،قدیم فقہی اجتہادات کی روشنی میں عصریات کا حل پیش کیا جائے گااورتمدن جدید کے پیدا کردہ الجھے ہوئے اور پیچیدہ مسائل پر گفتگو ہوگی۔لیکن یہ سن کرکہ:’’ پہلے آپ سوال سمجھیں‘‘وہ حسین خواب بکھر نے لگے جو آنکھوں میں سجائے اور دماغ میں بسائے، ہم نے اس کوچہ کا رخ کیا تھا۔سچ پوچھئے تو استاذ کی عظمت کی وہ عمارت جو اپنی رفعت میںآسمان کی بلندیوں کو چھو رہی تھی، اب ذہن ہی ذہن میں زمین بوس ہونے لگی تھی۔ دماغ میں زبردست نقد وجرح اور توڑ پھوڑ کا سلسلہ شروع ہوگیا اور تخصص میں داخلے کے فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس ہونے لگی تھی۔
آخرسوال سمجھنے کے لیے کونسی عقلِ ارسطو اورذہنِ افلاطونی کی ضرورت ہے؟جواب ڈھونڈنا کون ساپہاڑوں کی چوٹیاں سرکرنے،ستاروں پرکمندڈالنے،ندی کے دوکنارے ملانے اور جوئے شیر لانے کے مترادف ہے؟ایک ایک مسئلے کے متعلق آٹھ آٹھ اقوال ہمیں یاد ہیں،ابھی تازہ تازہ دورہ حدیث کر آئے ہیں،کسی مسئلے کے متعلق حنفی أئمہ کیا فرماتے ہیں؟امام زفر کا اجتہاد کیا ہے؟امام بخاری کی کیا رائے ہے؟ائمہ ثلاثہ کا مذہب کیا ہے؟داؤد ظاہری نے کیا راہ اختیار کی ہے؟متقدمین کی سوچ کیا ہے اورمتاخرین اس سے کیا اختلاف رکھتے ہیں؟یہ سب کچھ ترمذی شریف کی بدولت ہمیں ازبراورمستحضر ہے اورنظرِ طحاوی کی بدولت ،مابدولت ان متضاد اقوال اورمختلف نقطہ ہائے نظر کے درمیان محاکمے اورتصفیے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
یہ سوچ کتنی بودی،یہ خیال کتنا احمقانہ اورذہنیت کتنی سطحی تھی ،اہل نظر اورارباب بصیرت پر پوشیدہ نہیں ،اس لیے اِس وقت اس پر تبصرے کی ضرورت نہیں، تاہم اُس وقت اس کی چبھن بہت شدید تھی اوراگر حق تعالی شانہ دستگیری نہ فرماتے توراہِ حق اورجادۂ اعتدال سے انحراف کی پہلی سیڑھی’’ اکابر پر بداعتمادی‘‘ ہی ہوتی ہے۔شیطان پہلے شک کا کانٹا بوتاہے ، وقت کی ضرورت اورزمانے کے تقاضوں کے نام سے اس کی آبیاری کرتاہے ،نوخیزاذہان کی زرخیز زمین جوہر قسم کا بیج قبول کرلیتی ہے ،اس میں اتنی تنقیدی بصیرت اوراسلام کے مزاج ومذاق کا اتنا گہرا شعورتوہوتانہیں کہ وہ زمانے کی ضرورت اوراسلام کی ضرورت میں فرق کرسکے ،نتیجہ یہ نکلتاہے کہ ایسا ذہن کسی’’ ضرورت‘‘ کو دینی معیارات اوراسلامی اصول وقواعد پر جانچنے کے بجائے محض پروپیگنڈے کے زور پر’’ اسلام کی ضرورت ‘‘سمجھ لیتا ہے اور پھر اسلام سے ہمدردی کے معصوم اورپاکیزہ مگر خلافِ حقیقت جذبے کے تحت ان لوگوں کاہم نوا ،ہم مطرب وہم مشرب بن جاتاہے، جو اس کے خیال میں اسلام کی حقیقی ضروریات کو پورا کررہے ہیں یا کم از کم اس کاادراک اوراحساس رکھتے ہیں۔یوں شجرہ خبیثہ کواپنی جڑیں پھیلانے اورمستحکم کرنے کاموقع مل جاتاہے، ’’ہم چوں من دیگرے نیست‘‘اورہمارے حضرت ڈاکٹر صاحب کے بقول ’’ہم چوں من ڈنگرے نیست‘‘ کے کھاد پانی سے اسے سینچاجاتاہے اورمخلوق کی تالیوں اورآفریں آفریں کی صداؤں سے اسے پروان چڑھاجاتاہے۔اس طرح شک کوزادِ راہ بنانے والامسافرکبھی یقین اوراعتماد کی منزل پر نہیں پہنچ پاتا،بلکہ اپنے لیے جمہور سے کٹ کر الگ راہ چن لیتاہے ،یا ان لوگوں کا ہم سفراور شریکِ خیال بن جاتاہے جن کی منزل وہ نہیں جو ہمارے لیے متعین کی گئی ہے۔
تخصص سال دوم:
وقت کا پہیہ اسی طرح گھومتا رہا،دن ہفتوں میں ،ہفتے مہینوں میں اور مہینے سال میں بدل گئے یہاں تک کہ نصف سفر مکمل ہوااورسال اول بخیریت وعافیت گزرگیا۔سال دوم میں بنیادی طور پر فتوی نویسی کی مشق کرائی جاتی ہے اور اس مقصد کے لیے فرضی اور احتمالی سوالات حل کرنے کی بجائے ان سوالات کا جواب لکھنا پڑنا ہے جو لوگ دارالافتاء میں جمع کراتے ہیں،یہ طریقہ کار حد درجہ نافع اور بے شمار فوائد ومصالح پر مشتمل ہے، اس لیے اس پر ہونے والی تنقید بھی گوارا کرلی جاتی ہے ۔
ایک حقیقی اورمصنوعی سوال میں وہی فرق ہے جوایک اصلی اورنقلی شی میں ہوتا ہے۔عام لوگ علمی اصطلاحات سے ناواقف ہوتے ہیں اوران کاطرزِ بیان ہمارے جانے پہچانے اسلوب سے بالکل مختلف ہوتاہے ۔سوال میں یا تواختصارِ مخل ہوتاہے یا اطنابِ ممل،دریافت طلب امر کے متعلق تفصیل نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے، جبکہ حشو وزوائد کی بھرمار ہوتی ہے ۔اس لیے صفحات کے صفحات ملاحظہ کرنے کے باوجودوضاحت لینی پڑتی ہے کہ سائل پوچھنا کیا چاہتاہے؟مدرسے میں رہتے ہوئے جب طلباء ایسے سوالات کے ذریعے باہر کی بولی اورعرف سے واقف ہوجاتے ہیں تو پھرکام کے میدان میں اترنے کے بعد انہیں اجنبیت اوردقت محسوس نہیں ہوتی ۔
جوسوالات دارالافتاء میں جمع کرائے جاتے ہیں،دارالافتا ء کے اساتذہ ہی ان کی تصحیح کرتے ہیں، اس طرح تخصص کے طلباء سال دوم میں دارالافتاء کے زیر تربیت آجاتے ہیں۔اس زمانے میں دارالافتاء کے رئیس اور نگران محدث العصر ،نابغۃ الدہر حضرت مولاناسید محمد یوسف بنوریؒ اور فقیہ وقت،ولی زماں،محدث دوراں مفتی ولی حسن ٹونکی ؒ کے شاگردِ خاص،استاذِمکرم حضرت مولانا مفتی عبدالسلام چاٹگامی مدظلہ العالی تھے۔
حضرت مفتی عبدالسلام چاٹگامی مدظلہ اُسی سال بنگلہ دیش ہجرت کرگئے تھے، مگر اس بُعد مکانی کے باوجود تعلیمی سال کے اختتام پر چند مہینوں کے لیے دارالافتاء تشریف لاتے تھے۔رفتہ رفتہ حضرت کی صحت جسمانی،مشاغل وعوائق اور ویزے وغیرہ کے مسائل کی وجہ سے اس سلسلے میں کمی آتی گئی،اب کچھ عرصے سے آمدکا معمول بالکلیہ متروک ہے۔
ایسا معلوم ہوتاہے اور قرائن وشواہد اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ مفتی عبدالسلام چاٹگامی پہلے سے ہجرت کاعزمِ مصمم کرچکے تھے، مگر کسی ایسے موزوں متبادل اور اہل جانشین کے انتظار میں تھے جو اس امانت کو اس کے تمام تقاضوں سمیت سنبھال سکے،کیونکہ مسندنشینی صرف ظاہری اورروایتی نہیں بلکہ علمی ،روحانی ،معنوی اورفکری بھی تھی اورنائب کے لیے ذاتی جوہر کا حامل،ظاہری وباطنی کمالات سے متصف اورجامعہ کے دارالافتاء کے مزاج ومذاق سے واقف بلکہ اس کامبلغ اورعلم بردارہونابھی ضروری تھا۔ جب ان کی دور اندیش نگاہ اور جوہر شناس طبیعت کو مطلوبہ صفات کی حامل شخصیت میسر آگئی تووہ پورے اطمینان اور بشاشت کے ساتھ یہ بار مشفقی ومربی مخدومی ومولائی حضرت مولانا مفتی عبدالمجید دین پوری شہیدؒ کے سپرد کرگئے۔
اس سلسلے میں خود مفتی عبدالمجید دین پوری شہیدؒ کی ذاتی ڈائری سے کچھ اقتباسات نقل کرنا مناسب معلوم ہوتاہے:
’’آج ظہر کے بعد جب دارالافتاء آیا تو مفتی عبدالسلام صاحب نے یہ تشویش ناک خبر سنائی کہ میں نے آئندہ سال کے لیے جامعہ سے استعفا دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے حضرت ڈاکٹر صاحب کو استعفا پیش کردیاہے۔اس خبر سے بہت زیادہ تشویش ہوئی،رات بھر پریشان رہا۔‘‘ (ڈائری:۲شعبان۱۴۲۱)
’’آج مفتی عبدالسلام صاحب رئیس دارالافتاء کم از کم ایک مہینے کی رخصت پر چلے گئے،وہ آج مدرسے سے الوداع کرگئے،کل صبح بنگلہ دیش چلے جائیں گے، جاتے ہوئے باقاعدہ طور پر بندہ کواپنا قائم مقام بنا گئے،جب کہ اس سے پہلے مہتمم صاحب کی منظوری سے نائب رئیس دارالافتاء بندہ کو ہی مقرر کیا گیا تھا۔اللہ تعالی آسانی فرمائے،تکبر اور غرور سے محفوظ فرمائے۔اللھم الھمنی رشدی واعذنی من شر نفسی
استاذ جی مفتی عبدالمجید دین پوریؒ نے جس توجہ واہتمام،حسن انتظام ، کمال مہارت ولیاقت ،عمدگی وشائستگی اور احسن واکمل طریقے سے اس مفوضہ ذمہ داری کو نبھایا،وہ فضل ایزدی، آپ کی ذاتی صلاحیتوں اورآپ کے اساتذہ کی دوراندیشی او رجوہر شناسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مفتی عبدالسلام صاحب چاٹگامی کے تشریف لے جانے کے بعد اب مشفقی ومربی مفتی عبدالمجیددین پوریؒ دارالافتاء کے مسؤل اورذمہ دارتھے اور طلباآپ کے زیر نگرانی وزیرتربیت تھے،اس لیے کثرت سے دارالافتاء میں آمدورفت رہتی تھی ۔ایک دن جب کسی غرض سے دارالافتاء گیا توسماعت سے کچھ اس قسم کے جملے ٹکرائے کہ میں رکنے اورغورسے سننے پر مجبور ہوگیا، مفتی عبدالمجید صاحبؒ ہمارے ایک ساتھی سے فرمارہے تھے:
’’ ؔ ؔ بھائی دیکھ لیا کروکہ سوال کیا ہے؟جواب کے قابل کیا بات ہے؟مستفتی کیا پوچھ رہاہے؟‘‘
سن کر میں دم بخود رہ گیا،الٰہی! یہ ماجراکیا ہے؟ہر تار سے ایک ہی آواز اور ہر آواز ایک ہی طرح نغمہ سنج کیوں ہے؟ابھی انہی خیالات میں کھویاہواتھا کہ کانوں میں مفتی نظام الدین شامزیؒ کی آوازاپنے مخصوص اندازاورمعصوم لہجے کے استحضار کے ساتھ گونجنے لگی:
’’سب سے پہلے یہ سمجھو کہ سوال کیا ہے؟تم سے کیا پوچھاجارہا ہے ؟‘‘
انسان دھیان نہ دے تو بڑی سی بڑی حقیقت بھی نظروں سے اوجھل رہتی ہے اور اگر شعوری طورپرنظر انداز کرتا جائے تو پھر تودنیا میں کسی حقیقت کا وجود ہی نہیں ہے۔سوئے ہوئے کو توجگایا جاسکتاہے ،مگر جس نے زبردستی آنکھیں بند کررکھی ہوں، اسے جھنجھوڑنے بلکہ بھنبھوڑنے سے بھی بیدار نہیں کیا جاسکتا۔مفتی عبدالمجید صاحبؒ کی تاکید وتنبیہ کو اس شاعرانہ ترنگ میں نظر انداز کرگیا کہ بس یوں ہی ایک استاذ کا خیال دوسرے کے خیال سے ٹکراگیا ہوگا،مگر کچھ ہی عرصے میں یہ حقیقت عیاں ہوگئی کہ ایک جامع پلان،منظم منصوبہ بندی اور مربوط حکمت عملی کے ساتھ فقہی تربیت کا میدان سجایا گیاہے۔
سالِ اول کے اول دن صاف اور سادہ لفظوں میں جواصول بیان کیا گیاتھا،اب اس کے آزمانے اور عملی تصدیق کے دن تھے ۔محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ نے کہیں لکھا ہے، جس کے ہو بہو الفاظ تو یاد نہیں، لیکن مرکزی مفہوم اور بنیادی خیال کچھ اس طرح تھا کہ:’’ یہ انبیاء کا کمال ہے کہ سادہ اور مختصر لفظوں میں بڑے بڑے گہرے حقائق بیان کرجاتے ہیں کہ جن کی تشریح کی جائے تو دفتر کے دفتر تیار ہوجائیں ،اس کے برعکس حکماء اور فلاسفہ الفاظ تو بڑے بھاری بھرکم اوربارعب ،اور اصطلاحات تو بہت ثقیل اوردقیق استعمال کرتے ہیں، مگر حقیقت وہی’’ کوہ کندن اورکاہ برآمدن‘‘ ہوتی ہے ۔‘‘متقدمین اور متاخرین کے علوم میں بھی یہ فرق ہے کہ متقدمین کے علوم حقائق سے بھرپور ہوتے ہیں جب کہ متاخرین الفاظ کے پابند رہتے ہیں۔
مقصد متاخرین کی تنقیص نہیں ،کیونکہ اگلوں سمیت پچھلے بھی ہمارے سردار اور سروں کے تاج ہیں۔حدیث شریف میں امت محمدیہ ۔علیٰ صاحبھا الف الف تحیۃ وسلام کوبارش سے تشبیہ دی گئی ہے ۔بارش کا کون سا قطرہ زمین کی روئیدگی،سرسبزی اور شادابی کا باعث ہے،تعیین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا،اس لیے اگلی اورپچھلی پوری امت میں خیر ہے، البتہ مجموعی فضیلت متقدمین کو حاصل ہے۔
اصل مقصود ان دانشوروں اور اسکالروں پر دل کا غبار نکالنا ہے، جو کہتے ہیں کہ:’’ یہ صدی عام آدمی کی صدی ہے‘‘ مگر اس صدی کے علوم ایسے ہیں جو عام آدمی کے دسترس سے باہر ہیں۔ علماء چونکہ انبیاء کے وارث ہوتے ہیں اورانبیاء کا مقصد حق کی پیغام رسانی ہوتاہے، اس لیے وہ تکلفات سے دور اورمصنوعی پن سے متنفر نظر آتے ہیں اور صاف وسادہ ،سیدھے اورکھلے لفظوں میں بڑی گہری حقیقت بیان کرجاتے ہیں۔آج جب اس پہلو پر غور کرتاہوں اوراپنے اساتذہ کی شخصیت کے اس رخ کو سامنے رکھ کرسوچتاہوں تو وہ اوجِ کمال پر نظر آتے ہیں اورذہن میں ان کی عظمت کا میناراپنی بلندیوں میں ستاروں کو چھونے لگتاہے۔
حضرت شامزی شہیدؒ کے اولین درس کے متعلق شروع کی سطور میں گزرا کہ انہوں نے فرمایاتھا:’’ کہ جب تم جواب تلاش کروگے تو کبھی تو تمہیں بعینہ جزئیہ مل جائے گایا پھرکوئی اصول ہاتھ لگ جائے گا۔‘‘حضرت شامزی ؒ کی گفتگو اسی ترتیب سے تھی اورانہوں نے جزئیے کی اصول پر تقدیم کی کوئی تصریح نہیں کی تھی۔ان کی گفتگو کو ذہن میں رکھ کر اب ہم مفتی عبدالمجید دین پوری شہیدؒ کے دربار میں حاضری دیتے ہیں ۔ان کااسی سے ملتا جلتا ایک واقعہ یاد پڑتاہے ۔
ایک مرتبہ ایک سوال کا جواب تلاش کرنے کوکہا،جب تلاش بسیار کے بعد بھی مجھے ناکامی ہوئی تو اصول نکالنے کو کہا،میں اصول وقواعدکے مطالعے کے بعد بھی کسی اصل پر اس مسئلے کو منطبق نہ کرسکااورصاف لفظوں میں حضرت سے عاجزی کا اظہار کیاتو آپ نے فرمایا :’’اچھا چلو جتنا مطالعہ تم نے کیا ہے، اس کے نتیجے میں خود کوئی اصول تشکیل دے سکتے ہو؟‘‘اس وقت تو میں حضرت کے اصل منشا کو نہ سمجھ سکا، لیکن جب اصول کی کتاب پڑھانے کا موقع ملا تو عقدہ کھلا کہ جزئیہ اصول پر اور خاص قاعدہ، عام قاعدے پر مقدم ہوتاہے۔اس لیے پہلے جزئیہ اور پھر اصول تلاش کرنے کاحکم دیا اور حنفی اصولِ فقہ چونکہ استقراء کے اصول پر مبنی ہیں، جس میں جزء سے کل اور خصوص سے عموم اورکچھ سے بہت کچھ کی طرف سفر ہوتاہے اورجزئیات کو سامنے رکھ کر ان سے قدرِ مشترک نکالا جاتاہے اوراسی قدر مشترک کو پھیلا کر اور مسائل کو اس کے ضمن میں لے لیاجاتاہے تو حضرت مفتی صاحب عملی اورتجرباتی طور یہ اصول ذہین نشین کرانا چاہتے تھے۔
اس عملی تربیت کافائدہ یہ ہواکہ اب یہ سمجھنے اورسمجھانے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی کہ ’’حنفی اصول‘‘ جزئیات کوسامنے رکھ کر تشکیل دیے گئے ہیں،نیزکسی فتوی کاجواب لکھتے وقت عمومی قواعدکا سہارا لینا ہے یا پہلے فقہی جزئیہ کوتلاش کرناہے ،اورجزئیے اورقاعدے میں تعارض ہوتو ترجیح کسے دینی ہے۔
مفتی عبدالمجیددین پوریؒ ۔مصلح و فقہی شخصیت:
زمانہ طالب علمی سے لے کر فراغت تک ذہنیت یہ تھی کہ فقہ چند مسائل کے جاننے یا ہدایہ پڑھنے وپڑھانے کا نام ہے اورہم ہدایہ کی چاروں ضخیم جلدیں پڑھ چکے تھے،اس لیے ہوا کے دوش پر سوار تھے۔ طلباء کا عام مزاج اورمشہور عادت ہے کہ وہ مسائل میں رائے زنی اورنکتہ چینی بھی کرلیاکرتے ہیں،مسئلہ بتانے میں بھی جری اوربے باک ہوتے ہیں اوراس حد تک جرات رکھتے ہیں کہ ائمہ اربعہ کے درمیان بھی دلائل کی بناء پر محاکمہ کرلیتے ہیں۔ہمارا حال بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھا۔
یہ تو معلوم تھا کہ مسئلہ بتانے کے لیے اورفقہ میں کمال پیدا کرنے کے لیے تخصص کی صورت میں ایک دوسالہ پروگرام ہوتاہے، مگر ذہن اس کایہ توڑ پیش کرتاتھا کہ کتنے ایسے مشاہیر اہلِ علم اورآسمانِ علم کے درخشندہ ستارے ہیں، جنہوں نے کوئی تخصص نہیں کیا، لیکن فقہ کے میدان میں صف اول کے شہ سوار نظر آتے ہیں۔لیکن جب تخصص کیا تواس کا اولین اثر یہ تھاکہ وہ زبان جو ہروقت چہچہاتی اورقینچی کی طرح چلتی تھی اور جبڑوں میں درد ہوجانے کے باوجود چپ نہیں رہتی تھی،اب اس نے مسائل کے جواب میں خاموش رہنا سیکھ لیا تھا۔
اس کے بعد آہستہ آہستہ ’’لاادری ‘‘کی منزل آئی جب کہ اس سے پہلے یہ نفی کا’’لا‘‘ نہیں جانتے تھے۔امام مالک ؒ کا چھتیس مرتبہ’’ لاادری‘‘ کہنا ،پڑھ اورسن رکھا تھا، مگر اس پر عمل کرتے وقت پورا وجود ٹوٹتا تھا اوردل پر چھریاں چلتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں۔اس کیفیت کودورکرنے اورطبیعت کوصاف کرنے کاحضرت مفتی صاحب کے پاس ایک انتہائی نافع اور مؤثر نسخہ تھا،کیونکہ وہ ایک مصلح وقت اورمرشد کامل کی طرح اپنے تلامذہ کی اصلاح سے غافل نہیں تھے، مگروہ نسخہ اس لحاظ سے منفرد اوربے نظیر تھا کہ اس کااستعمال انہوں نے بجائے مریض کے اپنی ذات پر کیا ہواتھا۔
حضرت مفتی صاحب کی کسر نفسی اورعاجزی ایسی تھی کہ جس سے قلب وذہن خود صاف ہوتے تھے اور دل دماغ دھلتے تھے ۔ حضرت اپنے آپ کو عاجز کہتے نہیں تھے مگر سمجھتے ضرور تھے،وہ صرف ظاہر کے سادہ اورعاجز نہیں تھے بلکہ سادگی اورعاجزی ان کے دل ودماغ میں رچی بسی تھی۔ یہ دوایسی نمایاں صفات تھیں جن کا ظہور آپ کے اقوال وافعال ،نشست وبرخاست اوررہن سہن سمیت زندگی کے ہر گوشے میں ہوتا تھا اورجو بھی تھوڑی دیر کے لیے آپ کی ہم نشینی اختیار کرلیتا یا دوچار جملوں کی حد تک آپ سے ہم کلام ہوجاتا، اس پر آپ کی یہ صفات منکشف ہوجایاکرتی تھیں ۔اکابر کے عام مزاج کے مطابق طلباء پرتو شفقت غایت درجے کی تھی اورفرماتے تھے کہ:’’ ہمارے پاس مہمان آئے ہیں۔‘‘
اپنے خادموں کے ساتھ مخدوموں جیسا سلوک ،تلامذہ کے ساتھ اپنے ہم رتبہ وہم مقام جیسا رویہ ،اپنی کوئی امتیازی شان قائم نہ کرنا ،سب کچھ ہوتے ہوئے اپنے آپ کوکچھ نہ سمجھنا اور برملا اپنی عاجزی کا اعتراف ،کسی نے کوئی مسئلہ پوچھا تو جواب دے دیا،ورنہ غوروفکر کے لیے وقت لے لیا،بعض اوقات کہہ دیا کہ’’ مراجعت کرنی ہوگی‘‘،کبھی کہہ دیاکہ:’’ اس پہلو سے توسوچنے کاموقع ہی نہیں ملا۔‘‘حد تو یہ تھی کہ بھری مجلس میں عقیدت مندوں کی موجودگی میں اصاغر سے پوچھناکہ:’’ ہاں بھائی!کیا رائے ہے؟‘‘یا کم ازکم ان کی طرف استصواب کی نظروں سے دیکھنا، یہ سب امور ایسے تھے کہ دوسروں کے لیے خاموش مگر مؤثر پیغام رکھتے تھے اورخود ان کے حق میں یہ باتیں جان بوجھ کر اپنے آپ کوگرانے کے مترادف تھیں، مگر اس لائن کے اصول ہی نرالے ہیں جو جھکتا ہے وہی اُبھرتاہے اور جو مٹتا ہے وہی چمکتا ہے ۔
بہرحال آپ کی شخصیت سے اس پیغام کی لہریں ہروقت خارج ہوتی تھیں کہ فقہ صرف ہدایہ پڑھنے اور جزئیات پر دسترس حاصل کرنے کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ تو دین کی مجموعی اورمکمل سمجھ کا نام ہے اورسمجھ اس وقت حاصل ہوتی ہے جب انسان علم کے ساتھ عمل کے مرحلے سے گزرتاہے۔آج کے مستشرقین کے پاس علم بہت ہے مگر وہ عمل کے مرحلے سے نہیں گزرے ہیں، اس لیے فہم سے محروم ہیں اوران کی معلومات انہیں دولت ایمان سے سرفراز کرانے میں ناکام ہے۔
فقہ ایک وسیع علم ہے جس کی سرحدیں بہت دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔امام ابوحنیفہ ؒ اس وسعت اورپھیلاؤ سے آگاہ تھے، اس لیے ان کی بیان کردہ تعریف کے مطابق فقہ کی عمل داری زندگی کی ہر شعبے میں نظر آتی ہے۔اس کے ساتھ یہ ایک فکری اورنظری نہیں، بلکہ عملی اورتطبیقی علم ہے جس کی مکلف کوبذات خودہرآن اورہرلحظہ ضرورت ہے ۔ایک مسلمان خصوصا دین کا سچا داعی اورمخلص سپاہی اس علم سے بے اعتنائی برت ہی نہیں سکتا ہے ۔تحریر ہو یاتقریر،خطابت ہویا امامت،جہاد ہویا وعظ ونصیحت ،معیشت ہویا سیاست،ہر شعبے میں اس کی ضرورت ہے اور ہر گوشے میں یہ علم مفید ،معاون اورمددگار ہے ،اس کے بغیر رائے، اعتمادسے اور علم، پختگی سے محروم رہتا ہے۔ یہ زمان ومکان کی قید سے آزاد ہے اور سرحدات کی فرضی لکیریں کھینچ کر اسے محصور اور اس دنیاکی تنگ دامانیوں تک اسے محدود نہیں کیا جاسکتاہے۔فقہ سے فتوی کی اہلیت واستعداد پیدا ہوتی ہے اورفتوی عقائد، عبادات، معاملات، اخلاقیات اورمعاشرت سمیت حشرونشراورجنت و دوزخ کے بارے میں بھی ہوسکتاہے۔
فقہ کی یہی اہمیت ووقعت تھی کہ حضرت استاذ تخصص کے نصاب میں صرف ان ہی علوم وفنون کے قائل تھے، جن سے خود فقہ میں بصیرت اورنکھار پیدا ہوتاہومثلا فلکیات ،جغرافیہ اورقانون وغیرہ۔علم میراث تو خود فقہ کا اہم حصہ اورنصف علم ہے اس لیے اس کی ضرورت سے انکار کی تو گنجائش ہی نہیں۔
حضرت استاذ کی زندگی پر فقہ کا غلبہ تھا اورجب کوئی فکر یا علم انسان کے ذہن پرتسلط جمالیتاہے یا انسان خود اسے اپنے او پر حاوی اورطاری کرلیتاہے تو پھر انسان کے اقوال وافعال اسی کے زیر اثر صادر ہوتے ہیں۔
کوئی چیز جس کے متعلق آئندہ استعمال کا ارادہ نہ ہوتا، مگر کسی دوسرے کے لیے وہ کسی پہلو سے کام کی ہوتی تو اسے یوں ہی نہیں چھوڑجاتے تھے، بلکہ صراحت فرمادیتے کہ:’’ جس کی مرضی ہواٹھالے‘‘ تاکہ لینے والے کے لیے استعمال جائز ہوجائے۔کوئی کتاب وغیرہ اولاد کو مرحمت فرماتے تو حکم دے دیاکرتے کہ:’’ اس پر اپنا نام درج کرلو ‘‘نام کا اندراج ہبہ کا قرینہ ہوتا تھا۔ایک مرتبہ کوئی چیز دوطلباء کو عنایت فرمائی،کاغذکا دستہ یا نقدی میں سے کوئی ایک چیز تھی اوران سے فرمادیاکہ:’’ اس طرح بانٹ لو۔‘‘تقسیم کا حکم دے کر حضرت نے شیوع کے اعتراض کو وارد ہونے سے روک دیا اورعطیہ درست ٹھہرا۔
ایک امانت آپ کی شہادت کے بعد آپ کے سامان سے برآمد ہوئی تو میں نے بچشم خود دیکھا کہ اس میں امانت رکھنے والے اور اشیاءِ امانت کی مکمل تفصیل درج تھی، تاکہ صاحبِ حق کو اپنے حق کے اثبات میں مشکل نہ ہواورورثاء کے لیے انکار کی گنجائش نہ رہے۔ آپ کی ڈائری کی ورق گردانی کرتے ہوئے ایک جگہ پر نظر ٹھہر کرجم گئی۔آپ کی تحریر تھی کہ:
’’ فلاں صاحب کا اتنا قرضہ مجھ پر واجب الاداء ہے ،اگر ادائیگی سے قبل میرا وقت موعود آپہنچے تو میرے ترکہ میں سے پہلے اس کا قرضہ اداکیا جائے۔‘‘
اصل بات وہی ہے کہ فقہ جب تک ذہنی معلومات کی حد تک ہوتو وہ ایک ’’علم بمعنی دانستن‘‘ ہے اورجب یہی معلومات، معمولات بن جائیں اورعلم ،عمل کے سانچوں میں ڈھل جائے تو فقہ ظہور پذیر ہوتاہے اورفقہ اپنے وسیع مفہوم میں فطرت کا مساوی اورہم معنی ہے، کیونکہ فقہ، اسلام ہے اوراسلام فطرت ہے توفقہ بھی فطرت ہے ۔فقہ کو اسلام کہنا کوئی انوکھا انکشاف نہیں ہے۔اسلام قرآن وسنت کانام ہے اورفقہ ان دونوں کانچوڑ ،جوہر،مغز،خلاصہ ،عطر اورلب لباب ہے ۔اگرطبیعت خارجی عوامل اور موروثی اثرات سے پاک ہوتو وہ فقہ کے مطابق چلے گی، جس طرح پانی اپنی فطرت سے ڈھلان کی طرف اور بچہ اپنی طبیعت سے ماں کی طرف لپکتا ہے، کیونکہ اسلام فطرت ہے اور اسلام کی عملی تعبیر کا نام ہی فقہ ہے۔اس لیے کوئی شخص فقہ کے مطابق عامل ہوتو کسی شک وشبہ کے بغیر وہ فطرت سلیمہ اورطبیعت مستقیمہ رکھتاہے۔
فقہ کے ساتھ اگر باطن مصفّٰی ومجلّٰی ہو اورظاہرمزین ومحلّٰی ہوتوحق تعالی شانہ تفقہ کی دولت سے نواز دیتے ہیں۔فقہ اور تفقہ کے ابواب سے ہی معلوم ہوتاہے کہ تفقہ کا مرحلہ فقہ کے بعد ہے اورتفقہ، فقہ کوبھی شامل ہے، مگر مجرد فقہ تفقہ سے عاری ہوتی ہے۔حدیث شریف میں تو صراحت ہے کہ ہر حامل فقہ، فقیہ نہیں ہوتاہے ۔یہ تفقہ کی دولت جو چنے ہوئے اورچانٹے ہوئے لوگوں کوملتی ہے یہ وہبی بھی ہوتی ہے جیساکہ حدیث میں ہے:’’من یرد اللہ بہ خیرا یفقہہ فی الدین‘‘ اورکسبی بھی ہوتی ہے جیساکہ قرآن کریم میں ہے :’’فلولا نفر من کل فرقۃ طائفۃ لیتفقہوا فی الدین۔‘‘
گفتگو ایک ایسے علم کے بارے میں ہے جو خالص اسلامی ہے بلکہ اسلامی علوم کا گل سرسبد ہے اور اس کامصدر وماخذقرآن وسنت ہیں، اس لیے علم ہو،عمل ہویا فکر ہو،ہر ایک کے ساتھ ’’صحیح ‘‘کی شرط لازم ہے۔صرف علم نہیں بلکہ صحیح علم، اورصحیح علم صرف آسمانی علم ہے، اورصرف عمل نہیں بلکہ صالح عمل، اورصالح عمل وہ ہے جو آسمانی ہدایات کے مطابق ہو ،اورصرف فکر نہیں بلکہ راست فکر ،اورفکراسلامی عقائد سے درست ہوتی ہے اورعبادات سے مستحکم ہوتی ہے۔ان تینوں کے ساتھ جوہرذاتی اوراستعداد کی پختگی ،ان چاروں کے مناسب امتزاج کے بعد اللہ تبارک وتعالی بطور انعام’’ تفقہ‘‘ کی دولت سے نوازدیتے ہیں۔
استاذِ محترم نے صحیح علم اس کے سچے اورمخلص حاملین سے حاصل کیا تھا۔علم کے ساتھ وہ اس کے تقاضوں پر عامل بھی تھے اور اس ضرورت کے احساس کے تحت مشہور اصلاحی خانقاہوں سے تعلق جوڑے ہوئے تھے۔ فطرۃََذہین وفطین اور ذکی وزیرک تھے،جسم محنت و مشقت کااورطبیعت مجاہدے اور ریاضت کی عادی تھی، درسی علوم محنت سے پڑھے تھے اورجم کر پڑھائے تھے ،آخر عمر تک درس وتدریس ،فقہ وفتاوی اورامامت وخطابت کا مشغلہ جاری رکھااوراس پرمستزاد یہ کہ خاندانی نجابت وشرافت حاصل تھی جوایک مؤثر عامل کی حیثیت رکھتی ہے ۔ان صفات کے مجموعے سے مفتی عبدالمجید دین پوری کی شخصیت کی تشکیل ہوئی تھی۔اچھے حسب ونسب سے شخصیت کا خمیر لیا گیا تھا ،تواضع اور فروتنی نے اس پر نقوش کھینچے تھے اورفقہ وفتاوی نے ان میں رنگ بھرا تھا ،علم کے زیور نے حسن کو چار چاند لگائے تھے ،اکابر پر اعتماد اور شذوذ سے اجتناب نے حسن کو جمال سے اور تزکیہ نفس نے جمال کو کمال سے او رخلوص نے کمال کو مخلوق اور اللہ ذوالجلال کے دربار میں قبول ومقبول بنادیا تھا۔
حضرت شہیدؒ کے والد ماجد:
حضرت مفتی صاحب کی جامعہ میں پہلی اور دوسری تقرری کے درمیان تقریبا بیس سال کا وقفہ ہے۔یہ تعطل اور انقطاع اس وجہ سے پیداہوا کہ جامعہ میں تقرری کے پہلے سال ہی آپ کے والدماجد مولانا محمد عظیم کی وفات کا حادثۂ فاجعہ پیش آیااور آپ اپنے آبائی وطن خان پور تشریف لے گئے۔جامعہ سے جدائی کے وقت کے آپ کی قلبی کیفیت کیا تھی اوراکابر سے فراق کا صدمہ آپ کو کس قدر تھا؟اس کا بہتر حال تو علیم وخبیر ذات جانتی ہے مگراستعفا کے لیے جوعریضہ آپ نے شفیق وکریم ہستی حضرت بنوری کے نام لکھا ہے ،اس میں آپ کا دل لرزتاہوا،ہاتھ کانپتا ہوا اورقلم روتا ہوا معلوم ہوتاہے ۔یوں محسوس ہوتاہے کہ جسم سے جاں اوردل سے ارماں رخصت ہورہے ہیں۔حضرت بنوری ؒ اس درخواست پر ثبت فرماتے ہیں کہ:’’ عذر قوی ہے اور شرعی ہے ،اس لیے بادل نخواستہ درخواست منظور کی جاتی ہے۔‘‘
آپ کے والدبزرگواردیوبندکے فاضل،حضرت مدنی کے شاگرد،پارساوباکرداراور تہجد گذار عالم تھے۔طلباء کو حصول علم کے لیے دیوبند بھیجتے تھے اوران کے اخراجات اورضروریات کی کفالت فرماتے تھے۔مولانا محمد عظیم ؒ کی وہ مراسلت ومکاتبت جوطلب اصلاح کے سلسلے میں انہوں نے اکابر سے کی ہے، ان کے صاحبزادے اورمفتی صاحب شہیدؒ کے برادرصغیر مولانا عبدالکریم کے پاس محفوظ ہے۔مولاناعبدالکریم صاحب ان طلبا کے نام بھی گنواتے ہیں جنہیں ان کے والد ماجد نے حصول علم کے لیے دیوبند بھیجا تھا۔
حضرت مفتی صاحب کے آباء واجداد، حجاز سے ہجرت کرکے ان دیار میں سکونت پذیر ہوئے تھے اور مولانامحمدعظیم ؒ فراغت کے بعد طریقت وسلوک کے سلسلے میں حضرت مولانا عبدالہادی رحمہ اللہ کے پاس دین پور شریف حاضر ہوئے ۔ان کے صلاح وتقوی کو دیکھ کر مولانا عبدالمنان رحمہ اللہ نے انہیں شرف دامادی بخش دیا تھا۔ دین پو ر شریف میں ہی ۱۹۵۱ء میں حضرت مفتی صاحب تولد ہوئے اورجو مکان آپ کا جائے پیدائش ہے، اس میں آج کل حضرت مرحوم کی ہمشیرہ رہائش رکھتی ہیں۔
مفتی صاحبؒ کا سلسلہ نسب’’ محمد عظیم بن غلام رسول بن خیرمحمد‘‘ہے اورآپ ذات کے ’’آرائیں‘‘ ہیں ۔آپ کے والد ماجدمولانامحمدعظیمؒ ایک نیک فطرت اورعظیم خصلت عالم دین تھے اورکیوں نہ ہوتے کہ ان کا خمیرہی مقدس اور پاک سرزمین سے لیا گیا تھا۔
انسان کی خاک وہاں پہنچتی ہے جہاں کا خمیر ہوتاہے۔ مولانامحمد عظیم فریضہ حج کی تکمیل کے بعد جب وطن لوٹنے کے ارادے سے جدہ پہنچے تو جہاز کی روانگی میں ابھی ایک دن کی تاخیر تھی۔حرم کے پہلو میں ہوتے ہوئے حرم سے دوری اس عاشق صادق سے گوارا نہ ہوئی اورتاخیر کو غنیمت جانتے ہوئے یوں دیوانہ وارحرم کی طرف دوڑے جیسے بچہ ماں کی طرف دوڑتاہے ۔ جہاز کی تاخیر محض ایک اتفاقی واقعہ نہ تھابلکہ آنکھوں سے مخفی قضاوقدر کے فیصلے اپناکام کررہے تھے۔قضاء الہٰی آپ کوحرم کی آغوش سے نکلنے نہیں دے رہی تھی کیوں کہ مشتِ خاک کووہیں آسودہ خاک ہونا تھا۔ مولانامحمد عظیمؒ کی یہ دو دعائیں تو خلعت قبول سے حاصل کرچکی تھیں کہ: ’’یااللہ ! نیک بیوی اورصالح اولاد نصیب فرما۔ان کی تیسری دعا کہ ’’یا اللہ! حرم پاک میں موت عطا فرما‘‘اس ذات کے لیے قبول کرنا کیا مشکل تھی۔چنانچہ موت نے سفر کا رخ تبدیل کردیا اور سوئے حرم چلنے والا مسافر رب حرم کی بارگاہ میں پہنچ گیا اور وہیں جنت المعلی میں اولیاء اور صحابہ کے پہلو میں اور پاک مٹی میں آسودہ خاک ہوا۔رحمہ اللہ وارضاہ۔
مولانا محمد عظیم نے یہاں تنگ وتاریک اورکچی اینٹوں کے مکان میں عسرت اورتنگی کی گزاری تاکہُ اس جہاں میں ان کاقیام محلات اورقصور میں ہو۔چوک رازی خان پور میں ’’مدنی مسجد‘‘ کی تعمیر اسی نیت اور جذبے سے انہوں نے کی تھی۔وہ مسجد جس کے متعلق ان کی سینہ بہ سینہ وصیت منتقل چلی آرہی ہے کہ:’’مسجد کو ذریعۂ معاش نہیں بنانا۔‘‘
مفتی صاحب اپنے والد کے منظور نظر اور ان کی امیدوں کا مرکز تھے،اہم اور سنجیدہ معاملات میں وہ اپنے فرزند ارجمند سے مشاورت کرتے اور ان کی رائے کو اہمیت اور وقعت دیتے تھے ۔بہت سی توقعات کے پیش نظر انہوں نے اپنے قلب وجگر کو اپنی آنکھوں سے دورتعلیم کے لیے بھیجا تھا،جہاں بھیجا تھا وہاں علم وعمل کا سورج اپنے ستاروں ،سیاروں اور کہکشاؤں کے ساتھ سریر آراء محفل تھا،اس لیے اپنے فرزندکی تعلیم وتربیت کے حوالے سے کسی اندیشے یا خدشے کی کوئی وجہ نہ تھی مگر اس کے باجود اپنے پدری فریضے کی بجاآوری میں آپ اپنے فرزند کو مفید کتب مطالعے کے بھیجتے،تعلیمی کیفیت کے متعلق دریافت کرتے اور مستقبل کے متعلق رہنمائی دیتے،فرزند بھی اپنے پدر کو اپنے تعلیمی کوائف سے آگاہ رکھتا ،مستقبل کے منصوبوں پر اعتماد میں لیتا ،نجی اور خانگی امور کے متعلق کو ئی رائے منفعت بخش اور کوئی فیصلہ زیادہ اچھے نتائج کا حامل معلوم ہوتا تو آداب فرزندی کی رعایت رکھتے ہوئے اپنے پدر بزرگوار کے گوش گزار کردیتا۔ جو مراسلت دونوں حضرات کے مابین ہوئی ہے ،ان سے مذکورہ امور کی تصدیق ہوتی ہے اور دونوں کے باہمی تعلق کی نوعیت سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
(1)
۲۲؍رجب۹۶ھ۔۳؍۸؍۷۵ء
ذوالمجدوالکرم حضرت والدماجدزیدت معالیکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
....باغ کے فروخت کرنے سے بقایاجودوسوروپے بچ گئے ہیں اس کے بارے میں میری ناقص فہم کے مطابق میری تجویزیہ ہے کہ آپ بجائے علی عددالرؤس تقسیم کرنے کے اس میں سے نصف یاکچھ کم عزیزی محمدعبداللہ سلمہ کودے دیویں ،تاکہ وہ اس سے اپنے گھرکے کام میں لاسکے،کیونکہ وہ دوکان سے اپنے اوپرخرچ نہیں کرتا،اس لئے وہ بقایاسے زیادہ مستحق ہے،اوربقایاسے عبدالکریم وعبدالعزیز.... وعبدالحی وغیرہ کے کپڑے خریدلیں ویسے بھی عیدقریب ہے،آگے آپ کی مرضی،اگرآپ علی عددالرؤوس تقسیم کرنابھی چاہیں تومیراحصہ عزیزی عبداللہ کودے دیویں،دیگرحالات بحمدللہ ٹھیک ٹھاک ہیں،عزیزان بخیریت ہیں،تمام اہل خانہ کودرجہ بدرجہ تسلیمات۔
والسلام
محمدعبدالمجیددین پوری
دارالعلوم الحسینیہ شہدادپور ضلع سانگھڑ
(2)
۱۸؍صفر۱۳۹۳ھ۔۲۴؍۳؍۷۳ء
بگرامی قدرمحترم المقام حضرت والدماجدصاحب زیدمجدکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
گزشتہ جمعہ ایک عریضہ ارسال خدمت کیاتھااوراس سے قبل بھی دوعریضے ارسال کرچکاہوں ، امیدہے کہ شرف حاضری حاصل کرچکے ہوں گے،آپ کابھی جمعہ کے دن کالکھاہواشفقت نامہ بروزپیرملا،حالات کاعلم ہوا،میرے ایک کام کی وجہ سے آپ کوتکلیف پہنچی ہے،جس کے لئے میں معافی کاخواستگارہوں،امیدہے کہ ضرورنظرکرم فرماویں گے .....آپ نے مقالہ کے بارہ میں استفسارفرمایاہے،توفی الحال تو ابھی نصاب کی کتب باقی ہیں،جن میں مزیدچندمہینے لگیں گے،جب مقالہ ملے گااورجس عنوان پرملے گامیں آپ کومطلع کروں گا........ماہ فروری کاوظیفہ نہیں بھیجاتوکوئی حرج نہیں اورنہ ہی اب آپ ادھاروغیرہ لیکرارسال کریں،بعدمیں دیکھاجائے گا،کیونکہ اس سے آپ کوتکلیف ہوگی۔
(3)
۱۱؍ذوالقعدہ۱۳۹۲ھ۔۱۸؍۲۱؍۷۲ء
بگرامی قدرمحترم المقام حضرت والدماجدصاحب زیدعنایاتکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مزاج گرامی،خیریت طرفین مطلوب من اللہ۔
بندہ بھی اپنی تعلیم میں پوری طرح مصروف ہے،اس سہ ماہی میں کتابیں دیکھنی ہوں گی:القواعدلابن رجب حنبلیؒ ،کتاب الاحکام لعزالدین عبدالسلام،شرح الاشباہ والنظائر،موافقات شاطبی،یہ کتب اصول مذہب اربعہ پرمشتمل ہیں،اس وقت شرح الاشباہ والنظائرزیرمطالعہ ہے،اوراس کے ساتھ ہی انگلش کاکام بھی جاری ہے،بندہ یہاں پہنچنے کے بعدکھانسی، زکام میں مبتلاہوگیاتھا،کھانسی بہت سخت ہوگئی تھی،رات کوبعض اوقات نیندبھی نہیں ہوسکتی تھی،لیکن الحمدللہ آرام ہے کھانسی ختم ہوگئی ہے،البتہ کچھ زکام باقی ہے،خیریہ توکراچی کاخصوصی تحفہ ہے جس سے بچنابہت مشکل ہے،باقی ہرطرح سے خیریت ہے،آپ اپنے جمیع حالات سے مطلع فرمادیں،جمیع اہل خانہ کودرجہ بدرجہ تسلیمات۔
(4)
۱۹ربیع الثانی۱۳۹۵ھ۔۲؍۷؍۷۵ء۔
ذوالمجدوالکرم حضرت والدماجدزیدمعالیکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ!
خداوندقدوس کی دربارمیں احقرہروقت دست بدعاہے کہ آپ کوصحت کاملہ ،عاجلہ،مستمرہ عطا
فرمائیں،اورآپ کے سایہ عاطفت کوتادیرسلامت رکھیں ،آمین۔(لاارضی حتی اقول الف آمین)...... میری دماغی قوت کی افزائش اوراس کی فرحت ایسی ہے کہ میں کم ازکم آپ کی اتنی خدمت کیا کروں،آگے آپ کی مرضی،آپ اسے جس مصرف میں خرچ کریں،آپ اپنے ہاتھ سے خرچ کریں....بندہ کے پروگرام میں یہ بات شامل ہے کہ انشاء اللہ العزیزمعاشرتی علوم کوایم اے تک پہنچاؤں گا،اس سال تومیں کثرت مشاغل کی بناء پرتوجہ نہیں دے سکا۔آئندہ سال انشاء اللہ العزیزضرورکوشش کرکے ایف اے کاامتحان دوں گا،آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے،جمیع عزیزان بخیریت ہیں،بحمداللہ اچھی طرح پڑھتے ہیں محنت کرتے ہیں۔
ماڈل ٹاؤن کے مکان میں جنات کے اثر سے زیادہ مجھے سحرکاشبہ ہے،کیاوہ شخص جس کو یہ معلوم ہوکہ آسیب کی وجہ سے فروخت کیاجاتاہے،اسے اچھی قیمت پرفروخت پر تیارہوگا، بہرحال اس میں مزیدغورکریں،مکان کی مرمت کاکام کہاں تک ہوا ہے؟دوکان منتقل ہوگئی یانہیں؟جمیع حالات سے مطلع فرماویں۔ والسلام
محمدعبدالمجید دین پوری عفی عنہ
دارالعلوم شہدادپورضلع سانگھڑ
(5)
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
بگرامی قدرحضرت والدماجدصاحب زیدمجدکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ابھی پچھلے دنوں معلوم ہوا کہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ یونیورسٹی میں کوٹہ سسٹم ختم کردیاگیاہے،اب اگرکوئی کوشش کرے توداخلہ مل سکتاہے۔جب سے یہ بات معلوم ہوئی ہے بہت شوق ہوگیاہے ،ارادہ ہے کہ پاسپورٹ بنواکرسندات کی نقول وغیرہ اوردیگرتمام کاغذات مکمل کرکے وزارت تعلیم سے تصدیق کراکے یونیورسٹی بھیج دوں۔کیاآپ کی طرف سے اجازت ہے؟دیگرحالات بدستورہیں۔آپ اپنے حالات سے مطلع فرمادیں،تمام اہل خانہ کودرجہ بدرجہ تسلیمات۔
(6)
واجب العزۃ والاحترام حضرت والدماجدصاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بعدازآداب فرزندانہ المرام اینکہ:
..... اس سے پہلے میں ایک عریضہ لکھ چکاہوں، برادرم اخترصاحب کے پاس خط لکھاتھا اس میں آپ کی خدمت میں عریضہ لکھاتھامعلوم نہیں کہ آپ کوملایانہیں، امیدتویہی ہے کہ آپ کومل گیاہوگا،لیکن تاحال آپ کی طرف سے عرصہ ہوا کوئی شفقت نامہ موصول نہیں ہوا،شایدمصروفیات کی وجہ سے وقت نہیں ملاہوگا،دیگرامتحان کانتیجہ آؤٹ ہوچکاہے اورنمبرحسب ذیل ہیں:
بخاری:۶۵،ترمذی:۷۵،ابوداؤد:۶۰،سنن نسائی:۵۵،شرح معانی الآثار:۶۸،مسلم شریف:۴۱،مؤخرالذکرکتاب ایک ایسے استاذکے ہاں ہے کہ جن کے ہاں پاس ہوجانابہت مشکل ہوتاہے ،الحمدللہ کسی کتاب میں بھی ناکام نہیں رہا،کل نمبر۳۶۴حاصل کئے ہیں،اورنتیجہ ۶۰فیصدرہا۔اورپنے ساتھیوں میں تیسری پوزیشن حاصل کی،دعاکریں اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے آئندہ بھی ہردینی ودنیوی امتحانوں میں کامران وکامیاب بنادے،آمین۔
آپ کی تعلیم وتربیت اور زندگی کے اہم فیصلوں میں آپ کے والد سے زیادہ آپ کے نانا مولانا عبدالمنان کا عمل ودخل نظر آتا ہے۔انہوں نے ہی اپنی ذاتی وجاہت اورخاندانی ولایت کے پیش نظر آپ کے والد کا اپنی پوتی کے ساتھ نکاح کیا تھا جو کہ نہایت عابدہ ،زاہدہ اور نیک سیرت خاتون تھیں،حالانکہ دونوں خاندانوں میں نسبی وحدت اور خونی قرابت کچھ نہ تھی ،محض توحید کا رشتہ تھا،جس کی بنیاد پر دو اجنبی خاندان ایک ہوئے تھے اوردین داری اور پارسائی اس ملاپ کا باعث اور اس سنگم کا محرک بنی تھی،حضرت مفتی صاحب کے سر سہرابھی انہوں نے ہی باندھا تھا ۔ یہ ایک ایسا نکاح تھا کہ ایجاب وقبول سے پہلے زوجین ایک ددسرے کے ناموں سے بھی ناواقف تھے۔قاری طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند کی آمد پرآپ کے نانا ہی نے ان سے آپ کی رسم بسم اللہ کرائی تھی اور بنوری ٹاؤن آمد بھی ان ہی کے ارشاد پر ہوئی تھی۔مولانا عبدالمنان رحمہ اللہ اپنے ایک مکتوب بنام محد ث العصر حضرت بنوری ؒ میں تحریر فرماتے ہیں:
بگرامی خدمت عالی مرتبت محترم المقام حضرت مولاناالمخدوم بنوری صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مزاج گرامی،بعداشتیاق اقدام بوسی معروض اینکہ برخورداری عبدالسمیع زیدسعادتہ حصول فیض سے محروم رہاہے(بعض مجبوریوں کے سبب)اوربرخورداری عبدالمجیدکوخدمت اقدس میں بھیج چکاہوں۔ احقرکے خیال میں عزیزکاداخلہ درجہ سادس میں ہوناتھامگراس کاداخلہ درجہ خامس میں ہواہے،آنحضرت بطورخاص عزیزکی لیاقت کاجائزہ لیکر اس فیصلہ پرنظرثانی فرماتے ہوئے اورعزیزکے وقت کالحاظ فرماتے ہوئے اپنی صوابدید پرفیصلہ فرمادیں،بہرکیف آنحضرت کافیصلہ ثانی خواہ جوبھی ہوفقیرکے لئے موجب تسلی ہوگا،عزیزعبدالمجیدکواحقرکی طرف منسوب نہ فرماویں،بلکہ اعلیٰ حضرت دین پوریؒ کے خاندان کاایک فردسمجھ کراس کوفقط اپناشاگردنہ خیال فرماویں ،بلکہ ساتھ ہی اس کواپنابرخوردارخیال فرماتے ہوئے ہرطرح سے تربیت اورتعلیم کاخیال فرمائینگے۔اورعزیزکوانسان بلکہ عالم باعمل بناکرواپس فرمائینگے۔
تاآنکہ خال رابنظرکیمیاکنند آیابودکہ گوشہ چشم بماکنند
امیدہے کہ آنحضرت بمع جمیع متعلقین بخیریت ہونگے اورمزاج گرامی کی خیریت سے مطلع فرماکرمشکورفرماویں گے۔
ازطرف مولاناعبدالمنان
مشہوراساتذہ وشیوخ اور ان سے گرویدگی ووارفتگی:
جامعہ آپ کی مادر علمی تھی اور یہیں کے ائمہ وقت اور اساطین علم کے سامنے آپ نے زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا۔حضرت بنوری ؒ سے آپ کو والہانہ عقیدت ومحبت ،فریفتگی ووالہیت تھی جو جذب وانجذاب کی سرحدوں کو چھورہی تھی۔پینتیس سال گزرنے کے باوجود جب کبھی حضرت اقدس بنوریؒ کاتذکرہ فرماتے توپاس بیٹھنے والاآپ کے سینے کی حرارت اورقلب کی تمازت محسوس کرتاتھا۔ حضرت محدث العصرؒ بھی تجربے ومشاہدے،نور ایمانی اور فراست باطنی سے اپنے اس ہونہار شاگرد کے پیشانی پر چمکتا نور پہچان چکے تھے اورشاگرد بھی دل وجان سے اپنے استادپر فدااوران کے ہر ہرادا پر عاشق زارتھا۔
ایک سال کسی وجہ سے بخاری شریف امتحان سے قبل ختم نہیں ہوسکی تھی، حضرت بنوریؒ نے ایک خاص مقام پر سبق پہنچانے کے بعد فرمایا کہ:’’ بقیہ ان شاء اللہ وفاق کے امتحان کے بعد پڑھیں گے ،دیکھتے ہیں کون وفاق کے لیے اور کون خدا کے لیے پڑھتا ہے ۔‘‘حضرت مفتی صاحب کا ایک ہم درس جوجماعت میں ہمیشہ اول آیا کرتا تھا اورکافی ذہین اور ذی استعداد تھا،وہ امامت ملنے کی وجہ سے چلا گیا ۔مفتی صاحب بڑی حسرت سے اس کا ذکر فرمایا کرتے تھے،فرماتے تھے کہ:’’ وہ اب بھی حیات ہے مگر علم کی برکت اور قبولیت سے محروم ہے۔اے کاش کہ وہ کچھ عرصہ ٹھہرجاتاتو اس وقت کے مشاہیر اورنامور اہل علم میں اس کا شمار ہوتا۔‘‘
حضرت شیخ مولانامحمد زکریا کاندھلویؒ نے لکھاہے کہ:’’ استاذ کی بے حرمتی کرنے والا علم کی برکات سے محروم رہتاہے اوروالدین کی بے حرمتی کرنے والا ہمیشہ روزی کے بارے میں پریشان رہتاہے۔‘‘حضرت شہیدؒ اپنے اساتذہ اور خصوصا حضرت اقدس بنوریؒ کے بارے میں کافی حساس اور محتاط واقع ہوئے تھے اور ان کی ذرا سی خفگی وناراضگی کو اپنے لیے باعث حرمان وخسران سمجھتے تھے۔
اسی ذہنیت کاعکاس وہ واقعہ ہے جو مفتی صاحب مرحوم نے سنایا کہ:’’ ہمارے زمانے میں جامعہ کے مطعم سے کمروں میں کھانا لے جانے کی اجازت نہ تھی۔ایک مرتبہ کچھ طلبا اسی سلسلے میں مطعم کے دروازے پر جمع تھے اورناظم مطبخ سے ان کی نوک جھونک چل رہی تھی، میں ابھی مجمع کے قریب پہنچا ہی تھا کہ سامنے سے حضرت بنوریؒ کو آتا دیکھ کر طلبا ادھر ادھر منتشر ہوگئے،میں نے بھی کھڑا رہنا نامناسب خیال کیااورچلا گیا مگر وسوسوں اور اندیشوں نے مجھے گھیر لیا،رات بھر یہ سوچ کر پریشان ہوتا رہاکہ حضرت نے یقیناًطلبا ء کے اجتماع کی وجہ دریافت کی ہوگی اور ناظم مطبخ نے جو کچھ کہا ہوگا، اس کے سبب اگر حضرت کے دل میں میرے لیے خلش اورکدورت پیدا ہوگئی تومیراکیا ہوگا ؟اس واقعے کا سبب یہ ہواتھا کہ مجھے بدہضمی کا عارضہ تھا اور مطعم کی غذا مجھے موافق نہیں آتی تھی، اس لیے بجائے مطعم میں کھانے کے میں مطعم سے صرف روٹی لے کرکمرے میں دہی وغیرہ کے ساتھ کھا لیا کرتا تھا،اس دن بھی میں صرف روٹیاں لینے گیا تھا، لیکن سوئے اتفاق کہ ان احتجاج کرنے والوں کے ساتھ حضرت کی نظر مجھ پر بھی پڑگئی ۔حضرت سے بالمشافہ عذر ومعذرت کی ہمت تو اپنے اندر نہیں پاتا تھا، اس لیے میں نے اصل حقیقت پر مشتمل ایک طویل عریضہ لکھا اورحضرت کے سامنے اگلے دن دفتر میں پیش کردیا،آپ نے پورا ملاحظہ فرمانے کے بعدہلکا سا تبسم فرمایااور فرمایا کہ: ’’ اچھا کیا کہ تم نے وضاحت کردی۔‘‘یہ واقعہ مکمل سنانے کے بعد مفتی صاحب تبصرے کے انداز میں فرمایاکرتے تھے:’’بھائی ! حضرت بنوری بہت صاف دل کے اوربہت بڑے آدمی تھے۔‘‘
آپ کی علمی تربیت وترقی میں مفتی ولی حسن ٹونکی ؒ کی خصوصی شفقتوں اور عنایتوں کا بھی بڑا دخل ہے۔ مولانا عبدالکریم صاحب (برادر صغیر حضرت مفتی صاحب شہیدؒ ) جو اس زمانے میں ابتدائی درجات کے طالب علم تھے، ان کا بیان ہے کہ:’’ بھائی جی، مفتی ولی حسن ٹونکی ؒ کے چہیتے اور لاڈلے تھے۔‘‘جب تک حضرت مفتی اعظم حیات رہے، آپ کا ان کے ساتھ خادمانہ،نیازمندانہ اور طالب علمانہ تعلق برقرار رہا۔۱۹۷۱ء میں دورہ حدیث سے فراغت اور ۱۹۷۳ء میں تخصص کی تکمیل کے بعد حضرت شہید دارالعلوم حسینیہ شہداد پور تدریس کے سلسلے میں تشریف لے گئے، مگر جامعہ کے علاوہ روح کو سکون اور طبیعت کو قرار مشکل تھا ،اس لیے ۱۹۷۶ء میں دوبارہ کراچی تشریف لائے اور لیاقت آباد میں رہائش رکھی ،نارتھ ناظم آباد میں ایک مسجد میں ساڑھے تین سو ماہوار پر امامت بھی شروع کی اور شام کے اوقات کے اوقات میں جامعہ تشریف لاکر مقالے کی تکمیل بھی کیا کرتے تھے،مگر یہ سب ضمنی مقاصد تھے ،اصل غرض توجامعہ سے ربط اور مشایخ جامعہ سے استفادہ تھا، چنانچہ دارالافتاء میں مفتی ولی حسن صاحب کے زیر سایہ استفادے کی غرض سے ایک عرضی پیش کی،حضرت مفتی اعظم نے مسؤل ہونے کی حیثیت سے اپنی رضامندی کا اظہار کیا، مگر ضابطہ کے تحت حضرت مہتمم صاحب کی اجازت کے ساتھ معاملے کو مشروط کردیا۔سادات کے دروازوں سے حاجت مند کب نامراد لوٹتے ہیں؟حسینی خون جس کی رگوں میں ہو،شہہ لولاک کے ساتھ جس کا نسبی رشتہ ہو اور حضرت آدم بنوری کا جو نسبی وروحانی فرزند ہو ،ایسی فیض رساں شخصیت تو قطرہ مانگنے پر دریا بہادیتی ہے ، چنانچہ یہی ہواکہ حضرت بنوریؒ نے صرف درخواست کو شرف قبولیت نہیں بخشا، بلکہ مصارف خورد ونوش کے لیے وظیفہ بھی مقرر کردیا۔۵ذو الحجہ ۱۴۹۶ھ سے خدمت افتاء کا سلسلہ شروع ہوا اورابھی پانچ ماہ بھی مکمل نہیں ہوئے تھے کہ حضرت بنوری نے مزید عنایت اور غایت شفقت فرماتے ہوئے آپ کو دارالافتا ء کے ایک مستقل رکن کی حیثیت سے مقرر فرمادیا۔
اگر چہ آپ حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی کے زیر سرپرستی خدمت افتا انجام دے رہے تھے ،مگر مزید علمی نکھار ، فقہی دست گاہ اور مہارت پیداکرنے کے لیے حضرت مفتی اعظمؒ نے آپ کواپنے درس ہدایہ میں بیٹھنے کاپابند بنادیاتھا ۔خود حضرت مفتی اعظم کو حضرت اقدس بنوریؒ کی طرف سے ان کے درس ترمذی میں بیٹھنے کی تلقین تھی ۔حضرت بنوریؒ نے انہیں ’’معارف السنن‘‘ کا ایک قلمی نسخہ عنایت فرمایا تھا اورتلقین کی تھی کہ خوب تحقیق ومطالعہ کے بعد شریک درس ہوا کریں،چنانچہ مفتی اعظمؒ پوری تیاری اور نہایت اہتمام والتزام کے ساتھ متواتر تین سال تک شریک ہوتے رہے۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس روایت کے بانی خودحضرت محدث العصر ہیں اوراس کے پس پشت سوچ مستقبل کے دینی تقاضوں کے پیش نظر رجال سازی اورآدم گری ہے اوراس میں کوئی تعجب بھی نہیں،کیونکہ کاملوں کواکمل اورفاضلوں کوافضل بنانے کے لیے مجاہدات وریاضات کچھ زیادہ کرائی جاتی ہیں اورسونے کوکندن بنانے کے لیے بھٹی کی آزمائش سے گزاراجاتاہے اور کندن کو چندن بننے میں کچھ اور مرحلے بھی طے کرنے پڑتے ہیں۔
حضرت مفتی ولی حسن صاحب ٹونکی ؒ فقیہ اور محدث ہونے کے علاوہ ایک صاحب نظر اور صاحب کشف بزرگ بھی تھے ، آپ پر صفت فناوجذب غلبے کے ساتھ چھائی ہوئی تھی۔ایک درویش صفت انسان جو قلبی بصیرت رکھتاہو اور باطنی دولت کا حامل ہو وہ بسااوقات بہت پہلے وہ کچھ دیکھ لیتا ہے، جس کا ظہور محض بصارت رکھنے والوں کے سامنے بہت بعد میں ہوتاہے ۔ بارش برسنے لگتی ہے تو خاص وعام پائنچے چڑھالیتے ہیں، مگراہل نظر بادلوں کے بدلے ہوئے تیور سے ہی اس کا اندازہ لگالیتے ہیں۔
اہل کمال انتخاب میں غلطیاں نہیں کرتے، چھلکاان سے مغز کو ، سیپی صدف کو،سطور بین السطور کو اورحجاب حسن مستور کو پوشیدہ نہیں رکھ سکتا۔مفتی ولی حسن ٹونکی کی درویشی کا جونقشہ استاذ جی ؒ کھینچا کرتے تھے اور آئندہ امکانی حالات کے متعلق جو اقوال ان کے نقل کرتے تھے،ان کے پیش نظر نقشہ کچھ یوں بن رہا تھا کہ مفتی عبدالمجید دین پوری کو ہی مستقبل میں دارالافتا ء کا عَلم لے کر آگے بڑھنا ہے۔یہ کہنے میں بھی کوئی حرج معلوم نہیں ہوتاکہ شاگرد نے آخر حین حیات تک اپنے استاذ سے حصول فیض کا رشتہ استوار رکھا تھا۔
ان دو بزرگ اور ممتازہستیوں کے بعد تیسری شخصیت جس کا تذکرہ بہت کثرت سے حضرت شہیدؒ سے سننے کو ملتے تھا، وہ حضرت مولانا ادریس میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔حضرت میرٹھی ؒ کو اللہ تعالی نے نماز کی لذت اوراس کاخاص ذوق نصیب فرمایا تھا۔خال خال کوئی نگاہ ہوگی جس نے حضرتؒ کومسبوق دیکھا ہوگا۔حضرت کا ایک بہت ہی مشہور معمول سجدے میں دعائیں مانگنے کا تھا۔بہت سی مسنون دعائیں ایسی تھیں جو نہ مکتب میں سیکھیں اور نہ کتابوں میں پڑھیں کر بلکہ اپنے استاذ حضرت میرٹھی ؒ سے سجدوں میں سن سن کر آپ کو یا د ہوگئی تھیں۔حضرت شہیدؒ اپنے استاذ کے سوزدروں اورآوازوانداز کی نقل کرکے ایسی ادعیہ سنایاکرتے تھے۔ایک مرتبہ ایسے ہی کسی قصے کے موقع پر میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ:’’ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شاگرد بھی اپنے استاذ کے قریب ہی صف اول میں نماز پڑھنے کا پابند تھا۔‘‘آپ نے زبانی توکوئی ردعمل ظاہر نہیں فرمایا مگر آپ کے سکوت سے اورپھر فوراموضوع بدلنے سے میں نے جواب خود ہی اخذ کرلیاتھا۔
حضرت میرٹھیؒ جامعہ کے استاذِ حدیث وتفسیر اورماہنامہ بینات کے مدیر ،طابع اورناشر تھے۔فنِ تفسیر میں تویدطولیٰ اورمہارت تامہ رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ :’’حرمین شریفین اورتفسیر وحدیث کے درس کے لیے زندہ ہوں۔‘‘جس دن خلد آشیاں ہوئے اس دن بھی ضعف ونقاہت اور ڈاکٹروں کے منع کرنے کے باوجود جلالین کے درس کے لیے تشریف لائے تھے اورگھر تشریف لے جانے کے تھوڑی دیر بعد روح جان آفریں کے سپرد کردی تھی۔
استاذ کاکمال سمجھاجاتاہے کہ وہ شاگرد کو اپنے رنگ میں رنگ دے، جیساکہ صحابہؓ سارے کے سارے نبوت کے رنگ میں رنگے ہوئے اوراس کے سانچوں میں ڈھلے ہوئے تھے اورشاگردکی سعادت اور اس کے لیے مایہ صد افتخارہے کہ وہ اپنے معلم سے علمِ نبوت اورنورِ نبوت کے علاوہ جذباتِ نبوت بھی حاصل کرے ۔یہ دین حق کی خصوصیت ہے کہ اس میں اندرونی جذبات اور قلبی تاثرات بھی منتقل ہوتے ہیں۔اسی طرح کا ایک قلبی تاثرجو اوپر مذکور ہوا، استاد کے سینہ بے کینہ سے شاگرد کو منتقل ہوا تھا ۔آج سے پچیس سال پہلے مفتی صاحب شہیدؒ کچھ اس قسم کا تاثر اپنی ڈائری میں قلم بند کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:
’’حق تعالی شانہ کے کرم بے پایا سے امید ہے کہ میری تمام کوتاہیوں کو معاف فرماکر اسے(ختمِ بخاری کو) شرف قبولیت سے نوازیں گے۔آئندہ کے لیے دست بدعا ہوں کہ زندگی بھر حدیثِ رسول صلی اللہﷺ کا مشغلہ جاری وساری رکھنے کی توفیق عنایت فرمائے اور اسے میری اخروی نجات کا ذریعہ اور والدین کے لیے صدقہ جاریہ بنادے۔ آمین۔‘‘ (ڈائری ۱۹۸۸ء)
ایک اور صفت جس میں آپ پر اپنے استاذ کی گہری چھاپ تھی اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا استاذ کی روح شاگردمیں منتقل ہوگئی ہے، وہ جامعہ سے والہانہ عقیدت ، عاشقانہ وابستگی اور جنون کی حد تک عشق ومحبت تھی۔محبوب کے عارض ورخسار اوراس کی اداؤں اوروفاؤں پر مرمٹنے والے اورزر،زن اورزمین پر دل وجان سے نثارتو بہت ملتے ہیں مگر بے جان عمارت پر اپنی روح فداکرنے اورجان نچھاور کرنے والے صرف اپنے اساتذہ ہی دیکھے ہیں۔کبھی کبھی تو شک ہونے لگتاہے کہ مدرسے کومنتظمہ نے سرخ رنگاہے یا وہ خونِ شہداء سے ہی رنگین ہے۔
یہ قیاس مبنی بر صحت نہیں معلوم ہوتاکہ آپ اپنی ذات کولاحق خطرات سے آگاہ نہ تھے۔ تحفظِ ذات کا شعور تو ہر جان دار رکھتاہے ۔کراچی کے مخصوص حالات کے پیش نظر تواعدادیہ کا طالب علم بھی مطلوبہ احتیاط برتتاہے، پھرآپ جیسا سن رسیدہ ، جہاں دیدہ اوردینی محاذوں پرسرگرم مجاہداس پہلو سے کیسے غافل رہ سکتا تھا۔اصل بات یہ تھی کہ جامعہ میں آکر آپ کی بے چین روح کو قرار اور مضطرب طبیعت کو سکون مل گیا تھااور آپ جان کی قیمت پر بھی یہ تعلق منقطع کرنے کے روادار نہ تھے ، حالانکہ ایک اہلِ نظرکی زبان سے سن چکے تھے اور اس کی زبان لسان الغیب ثابت ہوئی کہ:’’آجاؤ !(خان پور) اب کیا گولیاں کھاکر واپس آؤگے ؟‘‘مگر آپ اپنے اختیار سے اس وصل کو فصل میں بدلنا نہیں چاہتے تھے ۔یہ وہی جذبہ تھا جس کا اظہار آپ کے استاذحضرت میرٹھی ؒ نے حضرت بنوریؒ کے سامنے کیا تھا کہ:’’ ہم جامعہ سے قبرستان ہی جائیں گے۔‘‘
حضرت مدنی ؒ سے عقیدت:
اکابر دیوبند میں جب شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کا نام سنتے تو روح میں ہلچل اور طبیعت میں ایک جوش سا پیدا ہوجاتا تھا۔موضوع سخن کچھ بھی ہو،سلسلہ سخن چھوڑ کر ان کی منقبت کابیان شروع فرمادیتے تھے۔اہل علم کی بے تکلف مجلس میں آپ کاایک حسین اور ذومعنی جملہ یا د پڑتاہے جومولانامحمد طیب کشمیری مدظلہ العالی (خطیب سبیل والی مسجد) کی حکایت کرتے ہوئے مدنی سلسلہ بیعت وارشاد کے متعلق فرمایاتھاکہ’’ انسان فطری طور پر مدنی الطبع واقع ہوا ہے۔‘‘
حضرت شہید جب اپنی نشست سے درس گاہ جانے کے لیے اٹھنے لگتے تو ہونٹوں کو جنبش شروع ہوجاتی ،دریافت کرنے پر فرمایا کہ درس سے پہلے صاحب کتاب کے لیے ایصال ثواب کرتا ہوں۔کیا پڑھتے ہیں؟ کے جواب میں فرمایا کہ : ’’ حضرت مدنیؒ کے طریقے پر ایصال ثواب کرتاہوں،حضرت مدنی اول وآخر تین تین مرتبہ درود شریف ، تین بار فاتحہ اور بارہ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھتے تھے ۔‘‘سوالات کا سلسلہ چل نکلا تھا اور ابھی آپ دروازے تک ہی پہنچے تھے کہ میں نے مزید پوچھا:حضرت ! قبور پر حاضری کے وقت کیا پڑھنا چاہیے؟فرمایا :’’سورہ یس کا وقت نہ ہوتو میں وہی حضرت مدنی کے طریقے پر ایصال ثواب کرتاہوں۔‘‘
ایک سے زائد مرتبہ اپنے استاذ مفتی ولی حسن ٹونکی کے حوالے سے سنایا کہ:’’ حضرت بنوریؒ نے بنگلہ دیش کے سفر میں اپنے فلاں رفیقِ سفر سے فرمایا کہ آپ حضرت مدنیؒ کے لیے کثرت سے ایصال ثواب کریں، کیونکہ رائے کا اختلاف ہی سہی،لیکن حضرت مدنیؒ بہت بڑے انسان تھے ۔‘‘
کارزارِحیات کے دو راہ نما:
دو شخصیا ت ایسی تھیں جن کے سپرد اپنی زمامِ حیات کردی تھی اوراس پر کثرت کے ساتھ شواہد ودلائل حضرت مرحوم ؒ کی ڈائریوں میں موجود ہیں۔ایک مفتی ولی حسن ٹونکیؒ اور دوسرے خانقاہ دین پور کے موجودہ سجادہ نشین حضرت میاں مسعود دامت برکاتہم۔ہالیجی شریف سے بھی نیازمندانہ،ارادت مندانہ اور خادمانہ تعلق رکھتے تھے اور سکھر کے زمانہ تدریس میں خصوصیت کے ساتھ اور بعد میں بھی وقتا فوقتا وہاں حاضری دیتے تھے۔آپ کی رفاقت کی برکت سے خدام کو بھی ان مشہور ومعروف ،اصلاحی وروحانی اور تاریخی وانقلابی خانقاہوں میں حاضری کی سعادت نصیب ہوجایا کرتی تھی۔حضرت مولاناعبدالصمددامت برکاتہم سجادہ نشین ہالیجی شریف جب کبھی کراچی تشریف لاتے تو غایت شفقت سے حضرت کے ہاں قدم رنجہ فرمایا کرتے تھے۔
حاصل یہ ہے کہ آپ کی ذاتی ڈائریوں کی مطالعہ سے یہ بات بالکل صاف اوربے غبار ہے کہ زندگی کا ہر بڑا اور اہم فیصلہ آپ ان حضرات کی مشاورت سے فرمایا کرتے تھے۔چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:
’’آج عشاء کی نماز میں جامعہ اشرفیہ سکھر کے مفتی جناب مولانا محفوظ صاحب جامعہ(جامعہ اشرفیہ سکھر) کی تدریس کی پیش کش لے کر آئے۔معاملہ کو میاں مسعود احمد صاحب کی واپسی کے ساتھ معلق کردیا تاکہ ان کے آنے پر بات چیت کو ان کی اجازت سے مکمل کیا جاسکے۔‘‘
(ڈائری:۲۱فروری ۱۹۸۸ء)
کراچی کے ایک مدرسے میں بھی آپ کو تدریس کی پیش کش تھی،مذکورہ مدرسے کے مہتمم صاحب سے بایں الفاظ سوچ وبچار کی مہلت حاصل کی:
’’....میں نے انہیں اپنی پوری صورت حال اور حاجی مسعود صاحب سے اجازت کے متعلق آگاہ کیا۔‘‘
(ڈائری:۲۰مارچ۱۹۸۸ء)
میاں مسعودصاحب مد ت فیوضہ کی طرف سے اولین جواب اس طرح ملا:
’’میاں مسعود صاحب سے آئندہ سال کے متعلق اجازت طلب کی ،انہوں نے سوچ کر بتانے کا کہا۔‘‘
ڈائری:۲۶مارچ۱۹۸۸ء)
اوربالآخر اجازت مل گئی:
’’میاں مسعود احمد صاحب مدظلہ کی طرف سے بایں طور پیغام آیا کہ علمی ترقی کی وجہ سے تو روکتا نہیں ،ہاں اگر کوئی اور وجہ ہو تو بتاؤ؟مقصدچونکہ علمی ماحول کی تبدیلی تھا، اسی لیے وہی عرض کیا گویا کہ اجازت مل گئی۔‘‘
(ڈائری:۱۹۸۸،۲۹مارچ)
حضرت مفتی اعظم کی رائے بھی وہی تھی جومیاں مسعود دامت برکاتہم کی تھی:
’’حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی مدظلہ العالی سے ملاقات ہوئی۔ان سے مشورہ کیا انہوں نے جامعہ اشرفیہ کو ترجیح دی۔‘‘
(ڈائری:۱۱اپریل۱۹۸۸)
ان دونوں بزرگوں کی اتفاقی رائے کے بعد کراچی میں تدریس سے معذوری ظاہر کردی۔
(ڈائری،۸اپریل۱۹۸۸)
سکھر میں پہلے سال آپ کے ذمے مسلم جلد ثانی،طحاوی،جلالین دوم،ہدایہ رابع،میبذی اورمتنبی کی تدریس مفوض تھی،۲۳نومبر ۸۸ کو موتی مسجد پرانے سکھر میں آٹھ صد ماہوارپر امامت کا اغازکیا۔
جامعہ اشرفیہ سے پہلے آپ موجودہ امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت حکیم العصر مولانا عبدالمجید لدھیانوی مدظلہ العالی کے ایماء پرجامعہ حسینیہ شہداد پو ر میں اور اس سے بھی پہلے پرانے تبلیغی مرکز خان پور اور ظاہر پیر میں خدمت تدریس انجام دیتے ر ہے۔
ٍجامعہ میں دوبارہ آمد:
جامعہ میں آپ کی دوبارہ آمد۶ شوال ۱۴۱۶ھ؍ ۱۹۹۶ء میں ہوئی ہے۔اس سے پہلے آپ جامعہ اشرفیہ سکھر میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ان تاریخی واقعات کی تخیل کی مدد سے واقعہ نگاری اور ظن وتخمین کے کچے سہاروں پر اس کی بنیاد رکھنے اورپھرافسانہ اورناول کی طرح قیاس کی مددسے کڑی سے کڑی ملانے کے بجائے بہتر ہے کہ حضرت شہید کے اپنے الفاظ سے ہی جو تصویر ابھرتی ہے اسے ہی قبول کرلیا جائے ۔ خصوصا جب کہ وہ اب ہم نہیں ہیں اور کسی واقعے پر تبصرہ کرنے سے قاصر ہیں۔
’’کل شام جامعہ اشرفیہ کے ناظم اعلی جناب قاری خلیل صاحب کو اپنا استعفیٰ نامہ لکھ پیش کردیا....شکر ہے معاملہ احسن طریقے سے اختتام کو پہنچا۔اللہ تعالی آئندہ کے لیے بہتری فرمائے۔‘‘
(ڈائری :یکم جنوری۱۹۹۶ء)
’’قاری صاحب نے استعفاء واپس لینے پر زور دیا لیکن بندے نے معذرت کردی۔‘‘
(ڈائری:۲جنوری۱۹۹۶ء)
’’مولانا حبیب اللہ مختار صاحب سے ملاقات ہوئی اور آئندہ آنے سے متعلق بات چیت ہوگئی۔‘‘
(ڈائری:۲۵جنوری۱۹۹۶ء)
’’مولانا حبیب اللہ سے ملاقات ہوئی پھر ....مفتی عبدالسلام صاحب سے ملا ،کل سے کام شروع کرنے کا کہا۔‘‘
(ڈائری:۲مارچ۱۹۹۶ء)
’’آج سے بحمداللہ باقاعدہ دارالافتاء میں کام شروع کردیا پہلے ہی دن ایک .... کو مسلمان کیا ۔بحمداللہ ابتدا اچھی ہوگئی۔دوتین فتاوی لکھ اولاًمفتی عبدالسلام صاحب کو دکھائے، پھر صاف کرکے واپسی والے کے حوالے کردیے۔‘‘
(ڈائری:۳مارچ۱۹۹۶ء)
’’کراچی میں زمانہ طالب علمی کے بعد آج پہلی عید الاضحیٰ گزری،فرق یہ تھا کہ ۱۳۹۰ھ میں دورہ حدیث کے طالب علم کی حیثیت سے مدرسہ کے چرم قربانی جمع کرنے کے سلسلہ میں ازخود مدرسے میں رہا اورتاکہ ایام رخصت میں ترمذی کی کاپی مکمل کرسکوں۔آج چھبیس سال بعد ۱۴۱۶ھ میں مدرسہ میں جو اب جامعہ کے نام سے موسوم ہے، رفیق دارالافتاء اور مدرس کی حیثیت سے عید جامعہ میں گزاری،صبح کی نماز باجماعت اداکرنے کے بعد گھر میں کپڑے تبدیل کیے، نماز عید جامع مسجد نیوٹاؤن میں ادا کی ۔آٹھ بجے نماز سے فارغ ہوئے، نماز کے بعد گھر میں ناشتہ کرکے جامعہ میں اجتماعی قربانی میں شریک رہا،زیادہ وقت وزن کرنے میں گزرا،تقریبا تین بجے فارغ ہوئے۔
غریب الدیاری میں کئی عیدیں گزریں،لیکن آج کا اس کا بہت احساس ہوا،مشغولیت کے سبب یہ احساس کم ہوگیا تھا لیکن فراغت کے بعد یہ احساس شدیدہوگیا۔اللھم آنس وحشتی فی قبری۔‘‘
(ڈائری:۲۹اپریل۱۹۹۶ء)
’’.....کل کام کی وجہ سے ہاتھوں میں ورم ہوگیا تھا اور ہاتھ کافی زخمی ہوگئے تھے....مدرسہ آیا اور پھر کام میں شریک رہا، ظہر تک کام سے فارٖغ ہوگئے۔‘‘
(ڈائری:۳۰اپریل۱۹۹۶ء)
’’آج مفتی عبدالسلام صاحب رئیس دارالافتاء کم ازکم ایک مہینے کی رخصت پر چلے گئے، وہ آج مدرسے سے الوداع کرگئے کل صبح بنگلہ دیش چلے جائیں گے۔جاتے ہوئے باقاعدہ طوہر پر بندہ کو ااپنا قائم مقام بناگئے، اس سے پہلے مہتمم صاحب کی منظوری سے نائب رئیس دارالافتاء بندہ کو ہی مقررکیا گیا تھا۔اللہ تعالی آسانی فرمائے،تکبر اور غرور سے محفوظ فرمائے۔أللھم ألھمنی رشدی وأعذنی من شر نفسی۔‘‘
صورتِ مسئلہ کی تحقیق وتدقیق:
کسی سوال کا جواب اسی وقت مکمل شرح صدر اور کامل بصیرت کے ساتھ دیا جاسکتاہے جب اس سے متعلقہ حقیقت سے کامل آگاہی حاصل ہو، بلکہ جواب سے پہلے خود سوال کا سمجھنا اس سے متعلقہ امور کے سمجھنے پر موقوف ہوتاہے۔اس مقصد کے لیے اگر سوال کسی جدید ایجاد کے متعلق ہوتا تو آپ اصحاب فن سے مشاورت اور متعلقہ ماہرین سے معاونت اور رہنمائی لیتے تھے۔اگر سوال کسی حقیقت واقعہ کے متعلق ہوتا جو تکرار کے ساتھ وقوع میں آرہی ہوتو کبھی اسے خود ملاحظہ فرماتے اورکبھی جس کے فہم ودانش پر آپ کو اعتماد ہوتا اس کو مامور فرماتے۔اگر سوال کا تعلق عرف وعادات،رسم ورواج اور روایات کے متعلق ہوتا تو از خود متعلقہ کمیونٹی اور برادری کے عرف کی تحقیق فرماتے اور مختلف افراد کے بیانات لینے کے بعد کوئی فیصلہ صادر فرماتے تھے۔اس قسم کی چند مثالیں خفیف سی ذہنی کاوش اور معمولی غور وفکر سے لوح دماغ پر نمودار ہوگئی ہیں،جوحقیقت میں اسی سادہ اصول کی تفسیرہیں کہ ’’سوال سمجھو‘‘، ملاحظہ فرمائیں:
۱....اسلامی بینکوں اور اور مرکزی بینک کے تعلقات کی فقہی نوعیت کیا ہے ؟اس بارے میں حقیقت حال کی تحقیق کے لیے خود اسٹیٹ بینک تشریف لے گئے تھے ۔
۲....نوٹوں کی چھپائی اسٹیٹ بینک خود کرتاہے یا اجرت پر کراتا ہے۔جب اصل حقیقت معلوم ہوئی تو وہ عام تصور کے برعکس تھی۔اسی طرح اسٹیٹ بینک کے اخراجات حکومت پاکستان اداکرتی ہے یا بینک خود اس کا بندوبست کرتاہے؟تاکہ معلوم ہوسکے کہ بینک کے ملازمین کو کس قسم کی رقم سے تنخواہ ملتی ہے۔
۳....جامعۃ الرشید میں بینکنگ کے سلسلے میں جو تعارفی مجالس ہواکرتی تھیں۔حضرت باوجود اپنی پیرانہ سالی،عوارض جسمانی اورکثرت مشاغل کے بنفس نفیس تشریف لے جایا کرتے تھے۔
۴....ایک مشہور نعت گو کی نعتوں کے متعلق سوال ہوا کہ اس کے بیک گراؤنڈ میں موسیقی کی دھن ہے یا نہیں؟وہ صاحب انکار کرتے تھے۔حضرت رحمہ اللہ مسئلے کی تحقیق کے لیے خود اسٹوڈیو تشریف لے گئے اور حقیقتِ حال کا مشاہدہ فرمایا۔
۵....شیئرز کے متعلق بعض نکات کی وضاحت کے لیے آپ کا اسٹاک ایکسچینج تشریف لے جانا بھی یاد ہے۔
۶....قصابوں کے متعلق مشہور ہے کہ ان کے منہ میں پان،گٹکا اور مین پوری وغیرہ ہوتی ہے اور بات کرتے ہیں تو بے ہودہ گوئی کرتے ہیں اور اسی حالت میں جانور پر چھری بھی پھیردیتے ہیں۔یہ حقیقت ہے یا پروپیگنڈہ ؟اس امر کی تحقیق کے لیے ہمیں لانڈھی کے مذبح خانے میں کئی راتیں گزارنا پڑیں ۔
۷....الکحل ملا پرفیوم استعمال کرتے وقت الکحل ہوا میں اڑجا تاہے یانہیں؟ اس مسئلے کی تحقیق کے سلسلے میں ڈاؤ میڈیکل کالج کے متعلقہ شعبے سے گفت وشنیدکی جاتی رہی ۔
اس تحقیق وتدقیق اور تفتیش وتنقیح کااثر ونتیجہ یہ تھا کہ جورائے دیتے تھے، مکمل اعتماداورکامل بصیرت سے دیتے تھے ۔
رجوع واعترافِ حق:
زندگی کے ہر مرحلے میں میں انسانی علم وتحقیق کی نوعیت یکساں نہیں ہوتی ہے۔عمر اور علم کے ساتھ رائے اور تحقیق بدلتی رہتی ہے۔اگر کسی مسئلے کے متعلق آپ پر واضح ہوجاتا کہ اس بارے میں آپ کی تحقیق مکمل اور رائے صائب نہیں ہے تو آپ کسی ہچکچاہٹ کے بغیر اپنی رائے اور فتوی سے رجوع فرمالیا کرتے تھے۔
صریح کنایہ بائن،کنایہ بائن کے ساتھ ملحق ہوجاتی ہے۔ دارالافتاء کا بھی یہی فتوی چلا آرہا تھا۔آپ کو اس مسئلے میں حق جانب مخالف میں محسوس ہواتوازسرنو تحقیق کی اوراس کے بعدرائے بدل دی اور عدمِ لحوق کا فتوی دینے لگے تھے۔اگر آپ کی توجہ آپ کی رائے سے اختلاف کی طرف دلائی جاتی تو آپ کچھ اس قسم جملے ارشاد فرماتے تھے: ’’ٹھیک ہے، ان سے عرض کردیں کہ اپنے دلائل سے ہمیں آگاہ کردیں،ہم نے کسی خاص رائے کی قسم تو نہیں کھارکھی۔‘‘
بعض مسائل کے متعلق ذاتی رجحان:
بعض مسائل میں آپ تردد کا شکار نظر آتے تھے مگر آپ کا مزاج نقل کو عقل پر اورفقہی نص کو اپنے ذاتی ذوق اور مزاج پر ترجیح دینے کاتھا۔اس قسم کے مسائل کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
۱....کتابوں میں لکھا ہے کہ نابالغ اولاد کا نان ونفقہ باپ پر لازم ہے، چاہے اولاد اس کے زیر تربیت ہو یا نہ ہو۔اب ایک عورت شوہر کی مرضی کے خلاف میکے میں بیٹھ جاتی ہے اور اولاد کو بھی اپنے ساتھ روک لیتی ہے اوربچوں کے خرچے کا مطالبہ کرتی ہے ۔اگر شوہر لیت ولعل سے کام لے تو وہ قانون کے زور پر شوہر سے وصول کرتی ہے۔حضرت مفتی صاحب کسی قدر جھنجھلاہٹ کے ساتھ فرمایا کرتے تھے کہ:’’ ایک عورت خود ناشزہ ہے،ذاتی کردار کی بھی اچھی نہیں ہے،شوہر کو پرورش کا حق تو کجا اسے اولاد سے ملنے بھی نہیں دیتی ہے، بلکہ شوہر کے خلاف بچوں کے کان بھرتی ہے اورماہ بماہ خرچہ وصول کرتی رہتی ہے ؟‘‘مطلب یہ تھا کہ ایسی ناشزہ کو تو خرچہ نہیں دینا چاہیے۔
۲....ایک شخص خواب آور ادویات کی معمول سے زائد مقدار استعمال کرکے عقل کھو دیتا ہے اور اسی حالت میں طلاق دے دیتا ہے۔اصول کی رو سے طلاق واقع ہے اور آپ کا فتوی بھی یہی تھا،مگر آپ جانب مخالف کی طرف کچھ رجحان رکھتے تھے یا کم ازکم اس مسئلے میں مزید تحقیق کے خواہاں تھے۔
۳....زکوۃ کے نصاب کے بارے میں ضم بالقیمۃ کا قول مفتی بہ اور معمول بہ ہے۔مگر بعض صورتوں میں یہ قول شدید حرج اور تنگی کا باعث بن جاتاہے۔بعض ممالک میں تو پورا نصاب خرچ کرنے کے باوجود قربانی ممکن نہیں ہوتی ہے۔اس کے علاوہ اکثر ایسا ہوتاہے کہ خواتین کے پاس سونا چاندی کے علاوہ تھوڑی بہت نقدی ہوتی ہے۔اب اصل مذہب کی رو سے اگر سونے یاچاندی کے ساتھ ایک روپیہ بھی ہو تو ضم واجب ہے۔نتیجۃََ ایسی عورتوں پر بھی زکوٰۃ واجب ہے۔ اس بارے میں دارالافتاء کے بعض رفقاء کی رائے یہ ہے کہ کم از کم خمس نصاب کے برابرنقدی ہونی چاہیے، مگرآپ کا میلان صاحبین کے مذہب کی طرف تھا۔
۴....ایک اہم مسئلہ بلڈنگوں میں بنی مساجد کاہے۔مذہب حنفی کی رو سے ایسی مساجد شرعی مساجد نہیں بلکہ جائے نماز ہیں۔جن پرشرعی مساجد کے احکام لاگو نہیں ہوتے ہیں۔کراچی میں مساجد کی قلت،آبادی کی کثرت،لوگوں کا تعب ومشقت اور کچھ لوگوں کا طرزعمل کہ وہ بلڈنگ کی پارکنگ میں چار دیواری کھینچ لیتے ہیں اوروہاں اپنا گڑھ بناکر لوگوں میں اپنے نظریات کا پرچار کرتے ہیں اور اہلِ حق سے انہیں متنفر کرتے ہیں۔ان وجوہ کی بناء پر امام محمدؒ کے قول کی اتباع میںآپ نے ایسے مصلوں کے مسجد ہونے کا فتوی دیا تھا۔مبسوط سرخسی کے’’ اواخر ھبہ‘‘ میں اس پر اچھی بحث مل جاتی ہے۔یاد پڑتاہے کہ مفتی عبدالسلام چاٹگامی مدظلہ العالی بھی ایک ایسے فتوی کی تصحیح فرماچکے ہیں۔اگرچہ مفتی بہ قول کے مطابق یہ مصلے مسجدیں نہیں ہیں اور دارالافتاء کا فتوی بھی ان کے مساجد نہ ہونے کا ہے اور خود مفتی صاحب نے بھی ایک دو فتاوی کے بعد اس قول پر فتوی کا اجرا روک دیا تھا،مگرتاریخ محفوظ رکھنے کی غرض سے اور اس متوقع فائدے کے خیال سے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیشِ نظر کل کلاں کو یہ مسئلہ زیر بحث آئے توبڑوں کے مزاج اوررجحان سے ہمیں رہنمائی ملے گی،اس فتوی کاذکرکردیا۔آ ج کے اہل افتاء کل کے اکابر ہوں گے اور کل کے اصاغر آج کے اہل علم کی آراء سے رہنمائی حاصل کریں گے۔
۵....منی میں قصرہے یااتمام؟اس موضوع پرجامعہ میں ایک ’’دوروزہ بین الاقوامی فقہی سیمنار‘‘ ہواتھا۔کانفرنس اس غرض سے منعقد کی گئی تھی کہ حج کے موقع پر خیمہ خیمہ اختلاف کا شکار ہوجاتا ہے اورسیاسی پمفلٹ کی طرح حج کے موقع پر فتاوی تقسیم ہوتے ہیں اور حج جیسی عبادت کے لیے جس سکون اور یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے وہ فوت ہوجاتی ہے۔عوام اس لیے باہم دست بگریبان ہوتے ہیں کہ اہل علم کسی ایک قول پر متفق نہیں ہیں اور انہوں نے علماء کے اختلاف کو اپنے لیے باعثِ سہولت بنانے کے بجائے اذیت اور عذاب کا باعث بنالیاہے۔
بہرحال اس اختلاف کے خاتمے اور کسی ایک موقف پر امت کو جمع کرنے کے لیے مذکورہ کانفرنس بلائی گئی تھی۔اتفاق کا خواب تو شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا، البتہ مفتی صاحب کے خلوص کا اندازہ ہوگیا۔حضرت مفتی صاحب کی طرف سے مقالے کی تیاری احقر کے ذمے تھے۔آپ نے اس سلسلے میں کچھ نکات زبانی ارشاد فرمائے، جس سے جامعہ کے موقف کی بھرپور تائید ہوتی تھی۔میں نے عرض کیا کہ:’’ حضرت میں جامعہ کے موقف پر دلائل جمع کرلیتا ہوں‘‘اور یہ کہہ کر کتب خانے کے ارادے سے اٹھ کرجانے لگاتوآپ نے بیٹھنے کااشارہ کیا اوربڑی شفقت اور ملائمت سے فرمایاکہ:’’ یہ نہ دیکھو کہ ہمارے موقف کے دلائل کیا ہیں، بلکہ یہ دیکھو کہ دلائل کی روشنی میں حق کیا ہے؟اگر ذہن بناکر کتاب دیکھو گے تو صرف اپنے دلائل نظر آئیں گے۔جیسا چشمہ لگاؤگے دنیاویسے ہی نظر آئے گی۔‘‘
دقتِ نظری اوروسعت فکری:
جو فتاوی دستخط کے لیے آپ کے پاس پہنچتے تھے، وہ تحقیق وتنقید کی چھلنی سے چھن کر آپ پاس پہنچتے تھے۔مگر جس طرح زرگر سے زر کا کھوٹ اور انجینئر سے عمارت کا نقص چھپا نہیں رہ سکتا، اسی طرح فتوی کی خامی آپ کی باریک بین نگاہ سے اوجھل نہیں رہ سکتی تھے ۔ایسا لگتاتھا کہ عیب خود اچھل اچھل کر آپ کے سامنے اپنے آپ کو نمایاں کرتاہے۔کبھی ایسی تنقیح نکالتے تھے کہ دل کی گہرائیوں سے آپ کے لیے دعا نکلتی تھی۔
ایک سوال آیا کہ میرے والدکا کینسر کے مرض میں انتقال ہوگیا اور دورانِ مرض انہوں نے اپنا پورا کاروبار اپنے بڑے بیٹے کو منتقل کردیا تھا۔ابتداءََ اس کا جواب یوں تیار ہوا کہ چوں کہ حالت مرض میں ہبہ وصیت کا حکم رکھتا ہے اور وصیت وارث کے حق میں اس وقت نافذ ہوتی ہے جب دیگر ورثاء اس کے نفاذ پر رضامند ہوں، اس لیے دیگر ورثاء کی رضامندی دیکھی جائے گی۔آپ نے مستفتی سے یہ وضاحت طلب کرنے کا حکم دیا کہ کینسر کی تشخیص کے کتنے عرصے بعد مرحوم کا انتقال ہوا؟انہوں نے وضاحت دی کہ ڈیڑھ سال بعد وفات ہوئی تھی۔چنانچہ بیٹے کے حق میں ہبہ کے نفاذ کا فتوی دیا گیا۔کاروبار کے بارے میں معلوم ہوا کہ کروڑں کی مالیت کا تھا اور کئی شہروں میں پھیلا ہواتھا۔اگر وضاحت نہ لی جاتی تو ایک شخص لاکھوں کروڑوں کی صورت میں اپنے جائز حق سے محروم ہوسکتا تھا۔
کراچی کی ایک مسجد میں سینکڑوں افراد اپنے متبع سنت شیخ کی معیت میں رمضان کا مسنون اعتکاف کرتے ہیں۔معتکفین کے طعام اور قیام کا بندوبست مسجد کی بالائی منزل پر ہوتا ہے اوراوپر جانے کے لیے ایک ہلالی شکل کا زینہ ہے جو گھومتے ہوئے تھوڑا سا مسجد کی حدود سے باہر نکل جاتاہے۔ایک صاحب سے مذکورہ صورت حال کے بارے میں سوال ہوا انہوں نے اعتکاف کے فساد اور آئندہ قضا کا حکم دیا۔جب آپ کے سامنے نوعیت آئی توفرمایا کہ:’’ قضا کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘میں نے حکمت دریافت کی تو فرمایاکہ:’’ مذکورہ زینے کا استعمال ناگزیر ہے اور اتنی بڑی تعداد کے لیے قضا مشکل ہے اور اس کے ساتھ امام ابویوسف کے ہاں گنجائش اس سے زیادہ ہے،اس سہولت کو استعمال میں لانے کا اس سے بہتر موقع اور کوئی نہیں۔‘‘
یہ مسئلہ اور اس سے ملتے جلتے اور مسائل میں آپ کا ذہن اس طرح پڑھنے میں آتاتھا کہ آپ تسہیل اور تلہی میں فرق کرتے ہیں۔تشہی اور تلہی ممنوع ومذموم ہیں، مگریسرو سہولت تومطلوب ومحمودبلکہ وجہ ترجیح ہے۔
جذبۂہمدردی وخیرخواہی:
فتوی حکم شرعی کے اظہار کا نام ہے اور مفتی کا فریضہ بھی بس اس قدر ہے کہ سائل کو حکم شرعی بتلادے،مستفتی کو مطمئن کرنا،اس کی ذہن سازی کرنا اور فتوی کے مطابق اسے عمل کے لیے آمادہ کرنا فتوی کی حدود سے خارج ہے۔مگرآپ ایک سچے مبلغ اورخیرخواہی و ہمدرددی سے معمور سینہ رکھتے تھے۔اس لیے فتوی کے ساتھ مستفتی کو ذہنی طور پر مطمئن بھی کرتے تھے۔
ایک صاحب نے پوچھا کہ میں ایک ریٹائرڈ ملازم ہوں اور مجھے مختلف مدات کی صورت میںیکمشت ایک بڑی رقم ملی ہے۔کوئی ہنر مجھے آتانہیں اورامانت دیانت کے فقدان کی وجہ سے کسی پر بھروسہ کرسکتا نہیں ۔اس لیے میں بینک میں رقم رکھ کر اس پر ماہ بماہ نفع وصول کرتاہوں۔اس سوال کا سادہ ،سیدھا اور مختصر جواب صرف اتناتھاکہ بینک کا نفع سود ہونے کی بناء پر حرام ہے اس لیے آپ کا عمل ناجائز ہے، مگر آپ ہر طرف سے منقطع ہوکر اس کی طرف متوجہ ہوئے اورکچھ اس طرح ارشاد فرمایا :’’بھائی! خدا تعالی کے ہاں خاتمے کا اعتبار ہے۔زندگی بھر تو حلال کھایا ، کمایااورکھلایا، اب آخر عمر میں بھی حلال ہی کوشش کرنی چاہیے ۔کسی کو معلوم نہیں کہ اس کی کتنی عمر باقی ہے۔اگر اس حالت میں چلے گئے تو خدا سے حالت جنگ میں ملاقات ہوگی، میرے بھائی! لوگ اس طرح بینکوں میں رقم رکھواتے ہیں اور اس دوران بلاواآتاہے اور چلے جاتے ہیں۔ اب آپ سوچیں کہ زندگی بھر حلال کھایا اورآخرمیں حرام کھایا ،خود حرام کھایااور حلال اپنے ورثاء کے لیے چھوڑ گیا۔آخرہم مسلمان ہیں توخدا پراتنا یقین تو ہونا چاہیے کہ وہ اب بھی ہمیں حلال کھلانے پر قادر ہے۔اگر کسی پر اعتماد نہیں تو چلیں سونا خرید لیں،شیئرز خرید لیں۔ ‘‘
آج کل کثرت سے مشاہدے میں آرہا ہے کہ لوگ اپنی رقوم بینکوں میں رکھ لیتے ہیں اوراس پر جو سود ملتاہے وہ غریبوں پر صدقہ کردیتے ہیں،حالانکہ صدقہ کرنے کاجو حکم دیاجاتاہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ اگر ناپاک رقم ملکیت میں آگئی ہے تو خلاصی کے لیے مستحق پر صدقہ کردی جائے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ صدقے کی نیت سے سودی معاملہ کیا جائے یا اگر کیا ہے تو اسے برقرار رکھا جائے۔اس نیت سے سودلیتے رہنا کہ حاجت مند کودے دیا کریں گے گویا توبہ کی نیت سے گناہ کرنا یااس وجہ سے انگلی کٹوانا ہے کہ مرہم موجود ہے۔ایسے لوگ دوسروں کے فائدے کے لیے خود سوزی کرتے ہیں جیسے راستے کا چراغ جو دوسروں کو روشنی دینے کے لیے خود جلتا رہتا ہے۔جن علماء کافرمانا ہے کہ سود کی رقم بینک میں چھوڑنی نہیں چاہیے ان کے ارشاد کا مطلب بھی یہ ہے کہ اگر غلطی سے ایسا ہوگیا ہے تو اصل بمع سود بینک سے نکال دے تاکہ وہ رقم اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سرگرمیوں میں استعمال نہ ہو۔یہ مطلب ان کا بھی نہیں ہے کہ صدقے کی نیت سے سود وصول کرتے رہنا چاہیے۔
دارالافتاء کی مصروفیات پرایک نظر:
اپنی نشست پر پہنچتے ہی آپ پر کاموں کا ہجوم ہوجاتاتھا۔پہلی نگاہ دستخط کے منتظر فتاوی کے ڈھیر پر پڑتی تھی ۔کبھی بڑی معصومیت سے فرمادیتے کہ رات کو تو میں کام ختم کرکے گیا تھا؟اور جب نشست پر تشریف فرماہوجاتے تو سب سے پہلے ان فتاوی کو نمٹاتے جن میں کوئی ظاہری یا معنوی سقم ہوتا۔اگر املا یازبان یا قواعد کی غلطی ہوتی توخود ہی درست فرماتے ۔خط اورقرآنی رسم میں چونکہ فرق ہے، اس لیے تاکید فرماتے تھے کہ مصحف شریف دیکھ کر آیات مبارکہ لکھا کریں۔ بہت سے ایسے چھوٹے موٹے کام جن کوخود انجام دیناشاید ٹائم منیجمنٹ کے اصولوں کے خلاف ہو،مگر وہ بھی خود ہی انجام دیا کرتے تھے۔
نشست دارالافتاء کے وسط اور دروازے کے سامنے تھی، اس لیے زبانی دریافت کرنے والے سیدھا آپ کا رخ کرتے۔کبھی کسی نے مشورہ دیا کہ آپ کی نشست ایک جانب کسی کونے میں ہو تاکہ ذرا یکسوئی رہے تو سن لیا اورخاموش رہے ۔اسی وقت میل وملاقات اور زیارت والے حاضر ہوتے، طلبا رہنمائی لیتے اور اساتذہ مشاورت کرتے۔کام کے دوران جب فون بجتا (جیساکہ وہ بجتا زیادہ اور خاموش کم رہتا ہے اور بزبان حال نہیں بلکہ بزبان مقال چیخ چیخ کر اورپکار پکار کر کہتاہے کہ میرے ہوتے ہوئے کسی اورکام کی گنجائش نہیں) تو دوسری اور تیسری گھنٹی پر اٹھالیتے تھے۔کسی خالی نشست پر فون بجتاتو اسے اپنے پاس ٹرانسفر کرلیتے تھے۔ذاتی فون پر تو بہت کثرت سے لوگ رجوع کرتے مگر مصروفیت کتنی ہی شدیدکیوں نہ ہو کبھی یادنہیں پڑتا کہ آپ نے کال وصول نہ کی ہو۔آپ پر حملے کی اطلاع سن کر جب رابطہ کرنے پرآپ نے فون ریسیو نہیں کیا تو خدشہ یقین میں بدل گیاکہ اطلاع میں صداقت ہے۔کبھی ازراہ مذاق فرماتے کہ:’’ یہ بٹیرا بولتا بہت ہے۔‘‘خود سنایاکہ:’’ میں استنجاء کی غرض سے اندر گیا اور فون بجنا شروع ہوا،جب آکردیکھا تو سولہ مِسڈ کالیں تھیں۔ ‘‘جب وہ صاحب اپنی ضد میں کامیاب ہوگئے اورمسئلہ پوچھا تو وہ بھی کوئی اہم نوعیت کایا فوری جواب کا متقاضی مسئلہ نہیں تھا، مگرآپ کی نرم خوئی اور عاجزی نے لوگوں کو جری اور دلیر بنادیا تھا۔
کوئی استاذیا معززمہمان یا کوئی ایسا سائل ہوتا جسے نفسیاتی طور پر مطمئن کرنے اوریہ یقین دلانے کے لیے ضروری ہوتا کہ آپ کی توجہ ہے اور مسئلہ خوب اچھی طرح سمجھ گئے ہیں، کام روک کراس کی طرف متوجہ ہوجاتے تھے، ورنہ گفتگوسے کام میں تعطل پیدا نہیں ہوتاتھا۔لوگ پوچھتے رہتے اورآپ صفحات پلٹتے اوردستخط کرتے ہوئے جواب دیتے رہتے،گویا تم اپنا کام کیے جاؤہم تمھارے کام سمیت اپنا کام بھی کیے جائیں گے۔ یہی سرعت اور وقت میں برکت تھی کہ آپ کم وقت میں زیادہ کام کرلیا کرتے تھے۔اگرچہ مغرب یا عشاء کے بعد بھی تشریف لاتے تھے لیکن اس کوملاکر بھی اگر میزانیہ تیار کیا جائے تو کام کے مقابلے میں وقت کوئی زیادہ نہیں تھا۔
جامعہ میں آپ کی مصروفیت دارالافتاء کی مشغولیت،دورہ اورتخصص کا درس اور شوری کی رکنیت تھی اورجامعہ سے خارج جامعہ درویشیہ میں بخاری کا درس اور معہد الخلیل میں دارالافتاء کی رکنیت اور مسجد الحمراء کی امامت تھی۔معمول یہ تھا کی فجرسے قبل بیدارہوجاتے اورآنکھوں میں نیند کا خمار لیے دولت کدہ تشریف لے جاتے تھے۔
فقہ وفتاوی میں مہارت اوردقتِ نظر:
فقہ اورفتاوی آپ کا خاص موضوع اور اختصاصی مضمون تھا۔ ساری عمر اس کوہ پیمائی،آبلہ پائی اورصحرانوردی میں گزری تھی ۔کلیات ازبر ،جزئیات مستحضر اورہدایہ پر گہری نظر تھی۔فقہی ملکہ،خداداد ذہانت اوربے نظیر ذکاوت کی دولت سے مالا مال تھے۔وسعتِ مطالعہ کے بجائے قوتِ حافظہ اورکثرتِ معلومات کے بجائے دقتِ فہم میسر تھی۔آپ کو دیکھ کر یقین ہوتا تھا کہ درس نظامی اگر اس طرح پڑھی جائے جیساکہ اس کا حق ہے تو مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی ہے ۔آپ نے درسیات محنت سے پڑھیں اورپھر تدریس جم کرکی تھی، جس سے علمی رسوخ اور پختگی حاصل ہوگئی تھی۔طبیعت کے ذہین وفطین،جسم مجاہدے اورمشقت کاعادی،خاندانی نجابت و شرافت،اندرونی پاکیزگی وصفائی اوراساطین علم کا تلمذ ،ان امور کی وجہ سے حق تعالی شانہ نے آپ کو’’ تفقہ‘‘ کی دولت سے نواز دیا تھا۔
زندگی کی اڑتیس بہاریں آپ نے تدریس کرتے ہوئے گزاریں،نصف آ خر میں آپ باقاعدہ افتاء کے شعبے سے منسلک رہے،یہ ۱۹۹۶ء سے شہادت تک کا زمانہ ہے جب جامعہ میں آپ کی دوبارہ تقرری ہوچکی تھی،اس دوران ڈیڑھ لاکھ کے قریب فتاوی کی تصحیح فرمائی،جوفتاوی خود لکھے یاجن کی تصدیق کی،ان کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔،اس سے پہلے مفتی کی
حیثیت سے آپ کی شہرت نہ تھی مگر افتاء کی حقیقت آپ کو حاصل تھی ۔سکھر کے زمانہ تدریس میں جامعہ اشرفیہ کے باضابطہ مفتی کوئی اور تھے، مگر افتاء کے معاملات میں آپ معاونت فرماتے تھے۔سکھر سے پہلے جب خان پور میں اقامت رکھتے تھے تو اعزہ واقارب اور دوست واحباب مسائل کے سلسلے میں آپ سے رجوع کرتے تھے۔اپنے ایک مکتوب میں اپنے برادر صغیر کو لکھتے ہیں:
۲۶جمادی الثانیہ۱۴۰۳ھ۔۱۱؍۴؍۸۳ء
برادرعزیززیدلطفہٗ
آپ نے کیسٹ میں چندچیزوں کااستفسارکیاہے توجواب حاضر ہے۔
۱۔آپ جونمازیں گھرپراداکرتے ہیں ان کواول وقت پرپڑھیں البتہ نمازعصرچونکہ وہاں پرمثل ثانی میں ہوتی ہے اسمیں تاخیرکریں،مغرب کے وقت سے تقریبًاسواگھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ پہلے اداکیاکریں۔
۲۔علماء کافتوی یہ ہے کہ بنک ملازم کوجب تک متبادل روزگارمہیانہ ہواس وقت تک ملازمت نہ چھوڑے،ٹی،وی کی دوکان پرملازمت اس سے کم درجہ رکھتی ہے، خصوصًاجب کہ آپ خوداس کے دیکھنے سے مجتنب رہتے ہیں اوروہ بھی بقول شمادوماہ تک تکلیف ہے اس لئے صبرکریں،انشاء اللہ ضرورمددہوگی،اللہ تعالیٰ نے موقعہ عطافرمایاہے،حرم میں اگرچہ کبھی کبھی نمازتومل جاتی ہے،بیت اللہ کی زیارت بھی ہوتی ہے،آب زمزم بھی پینے کومل جاتاہے،ملتزم اورحجراسودکے بوسے تومہیاہوجاتے ،ان سعادتوں کے حصول کے لئے اگرکچھ مشقت ہے تواس کوبرداشت،شایداللہ تعالیٰ اسی کے صدقہ اقبال صاحب اللہ تعالیٰ ہدایت نصیب فرمادیں،وماذالک علی اللہ بعزیز۔
خان پور کے زمانہ قیام سے پہلے ایک ایسے ادارے میں خدمت افتاء سے وابستہ تھے جہاں لوگوں کی کثرت مراجعت ،کام کی کثرت اور تیز رفتاری کی بنا پر صدیوں کی مسافت برسوں میں اورسالوں کے نتائج مہینوں میں حاصل ہوجاتے ہیں،مگر اس سے زیادہ لائق رشک آپ کی ایک اور صفت ہے اور وہ یہ ہے کہ شروع ہی سے آپ کی طبیعت میں فقہ کا جوہر ودیعت تھا،جس پر آپ کے زمانہ طالب علمی کے مکتوبات دلالت کرتے ہیں۔طبیعت میں یہ جوہر نہ ہوتو کسب وجدوجہد کے باوجود انسان فقہ کا حافظ بن سکتا ہے مگر محافظ نہیں،ناقل ہوسکتا ہے مگر نکتہ رس نہیں،اسے جزئیات ازبر ہوسکتی ہیں جو کچھ کم مشکل نہیں مگر وہ فن کی مشکلات کامقابلہ کرنے سے عاجز اور مغلقات کو حل کرنے سے قاصر رہتاہے۔
آپ کی یہ صفت تمام صفات پر اوریہ خوبی سارے کمالات پر برترمعلوم ہوتی ہے۔کسی نوپید مسئلے میں میرے لیے کتاب سے زیادہ آپ کے مزاج کا جاننا اہمیت رکھتاتھا،کیونکہ ذوق فقہی تھا اور اس ذوق کی بناء جو رائے قائم فرماتے ،حقیقت بھی اسی کے مطابق منکشف ہوتی تھی اور جس طرح صالح خون فاسد مادے کو قبول نہیں کرتا ہے اسی طرح ذوق غلط رائے کو قبول نہیں کرتاتھا۔
کہنہ مشقی، پختگی اور افتاء کے طویل تجربے کی بناء پر فتوی کا مطالعہ یا اخبار کا ملاحظہ آپ کے لیے برابر تھا۔سوال اگرچہ طویل ،پیچیدہ اورگنجلک ہو، ایک مرتبہ ملاحظہ فرماتے اور دوران ملاحظہ جواب طلب نکات اورتنقیحات ایک خاص ترتیب سے ذہن میں جمع ہوتی رہتی تھیں۔تعجب یہ ہے کہ سوال اور جواب کے ملاحظہ کے وقت گفتگو سے ذہن منتشر ہوتا، نہ ربط اورتسلسل ٹوٹتا۔ جب جواب پر نگاہ ڈالتے اورکوئی جواب طلب نکتہ باقی رہ جاتا یا کسی پہلو سے جواب تشنہ محسوس ہوتا تو ہلکا سا سوالیہ نشان ڈال کر اسے ایک جانب رکھ دیتے تھے۔اگر جواب درست نہ ہوتا تو اسے پورا تبدیل کرنے اور دوبارہ لکھنے کی ضرورت نہ تھی، آپ معمولی سی اصلاح دیتے اور جواب کچھ سے کچھ ہوجاتا، وہ خفیف سی ترمیم ایسی بنیادی اور جوہری نوعیت کی ہوتی کہ گویا کانٹا بدل دیا، جواب کا رخ ہی بدل جاتاتھا۔
ایک قابل قدراور لائق رشک جوہر حق تعالی شانہ نے یہ طبیعت میں ودیعت فرمارکھا تھا کہ مستفتی کی بدنیتی آپ پر آشکارا ہوجاتی تھی۔شرکی بدبو فورا محسوس فرمالیتے تھے اور ایسے فتاوی کا اجرا روک لیتے تھے، جنہیں شر اور فتنہ وفساد کے پھیلاؤ کا ذریعہ بنایا جاسکتاہو۔
ایک مرتبہ ایک سیدھا سادہ اور معصوم و بے ضرر سا سوال مدت سے آپ کے دستخط کے انتظار میں تھا۔خیال آتا تھا کہ ایک مسلمان سے بدگمانی اور اس کی نیت پر حملہ کرکے جواب میں تاخیر کی جارہی ہے، مگر حضرت اس دوران اپنے ذرائع اور وسائل کو کام میں لے کر سوال کی صدا قت اور واقعیت کو جانچ رہے تھے۔اگر حضرت کی تیزحس شر کی بو بروقت محسوس نہ فرمالیتی تو قرائن بتلارہے تھے کہ ایک بڑا فتنہ برپا کرنے کے لیے جواب وصول کیا جارہا تھا۔
کبھی ایسا ہوتا کہ سوال دور دراز علاقے کا ہوتا اورآپ کو جواب دینے میں کامل شرح صدراور کلی اطمینان نہ ہوتا تو مستفتی کو مقامی اہل علم کی طرف محول فرمادیتے تھے ۔زیادہ عجیب یہ واقعہ ہے کہ خلع کا سوال تھا اور بالکل واضح تھا اور اس کا جواب بھی متعین تھا اور اس سے پہلے سینکڑوں مرتبہ آ پ اس کا جواب مرحمت فرماچکے تھے ،مگر اس کے باوجود آپ نے سائل کو ایک اور دارالافتاء سے مراجعت کرنے کا ارشاد فرمایا۔میرے فہم کے مطابق وہ بے چارہ سخت لاچار اور مجبور تھا ،مگر آپ نے اپنی رائے کے برخلاف اسے فتوی بھی نہیں دیا اور اس کی تنگی اس طرح دور کردی کہ اسے وہاں بھیج دیا جہاں اسے گنجائش مل سکتی تھی۔
اوزان کے متعلق پوچھنے پر فوری جواب مل جاتاتھا اورتفصیل سے بتاتے تھے، مثلاََ یہ کہ تولہ بارہ ماشہ کا اورماشہ آٹھ رتی کا اوررتی آٹھ چاول کی اورچاول دورائی دانوں کا۔ عربی، برطانوی اوراعشاری کا فرق بھی آپ کے لیے مشکل نہ تھا۔اراضی کی پیمائش ،مال گزاری کی مقداراورزرعی اصطلاحات وغیرہ کے بارے میں ہم خود کفیل تھے۔
بارہا یہ واقعہ پیش آیا کہ لوگ کاغذات کاپلندہ اورضخیم فائل لے کرحاضر ہوئے،جس میں مختلف ڈاکٹروں کی آراء،بہت سے ٹیسٹ اورالٹراساؤنڈ کی رپورٹیں ہوتی تھیں کہ ماں کے پیٹ میں بچہ ناقص الخلقت ہے،حمل کے سر میں پانی ہے،اس کا دماغ نہیں بن رہا،جنین اگر پیداہوتو عمر بھر معذوراورمفلوج رہے گا۔یہ مسئلہ ہمارے ہاں بہت کثرت پوچھا جاتاہے اورپچھلے چند سالوں سے ہی اس میں شدت آئی ہے۔فقہ کی رو سے اگر حمل کی مدت چار ماہ سے کم ہوتو معاملہ آسان ہے لیکن چارماہ کے بعد توحمل گرانے کی گنجائش نہیں ہے ،مگر تعجب ہے کہ چھ اورسات ماہ کے بچے بھی گرادیے جاتے ہیں۔حضرت مفتی صاحب کا چار ماہ سے زائد حمل کے بارے میں ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ:’’ اللہ کے بھروسے پر چھوڑ دو،ڈاکٹروں کے پاس گھومنے سے سوائے پریشانی اورپیسے کے ضیاع کے اورکچھ حاصل نہیں۔‘‘
ایک صاحب کہنے لگے کہ حضرت بچہ پیدا ہوتے ہی مرجائے گا۔فرمایا کہ:’’ جواپنی موت مرجائے گا،ہم سے اس کی پوچھ بھی نہیں ہوگی، لیکن ہم اس وجہ سے ماردیں کہ وہ مر کررہے گا، ہمیں اس کی اجازت نہیں،آخر سارے ہی انسان مریں گے تو کیا قتل جائز ہے۔‘‘
اس یقین کامل، عزم راسخ اورراست گوئی اورسلامت فکری کا نتیجہ تھا کہ لوگ شیرینی لے کر حضرت کے پاس حاضر ہوتے کہ حضرت جی! ہمارے ہاں صحتمند بچے کی ولادت ہوئی ہے اورزچہ وبچہ دونوں خیریت سے ہیں۔
اس طرح کے خیالات اس شخص کے ہوسکتے ہیں جومحض نظری،فکری اورفلسفی قسم کا فقیہ نہ ہو، بلکہ دین کے مزاج ومذاق کا فہم رکھتا ہواوراسے اپنے ظاہر وباطن پر لاگو کیے ہوئے ہو۔ حدیث شریف میں فقیہ کے ساتھ عابد کی شرط لگائی گئی ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ علم وعمل کا جامع ہی فقیہ ہوسکتاہے۔سلف صالحین سے بھی فقیہ کی تعریف میں منقول ہے کہ’’ جو دنیا سے بے رغبت اورآخرت کی رغبت رکھتاہو۔‘‘اورجب انسان ان دونوں شرطوں کا حامل بن جاتاہے تو عقائد سے اس کی فکر راست ہوجاتی ہے ،اخلاقیات سے رویہ درست ہوجاتاہے ،فقہ سے ذہنی پریشانی دور ہوجاتی ہے اور عبادات سے خالق کے ساتھ تعلق مستحکم ہوجاتاہے۔ اورجب کوئی انسان بایں معنی فقیہ ہوتو پھر وہ ایسے ہی موتی رولتاہے ۔
ہمارے تخصص کے سال شام کی چھٹی سے کچھ دیر پہلے ایک خاتون کافون آیا کہ میرے انسٹھ روزے ہوچکے ہیں اورکل رمضان کا امکان ہے۔بتائیں میں کیا کروں ؟آپ نے جواب دیا کہ:’’ سفر شرعی شروع کردو اوربجائے رمضان کے کفارے کا روزہ رکھ لو۔‘‘
فون پرمناسخہ تو مفتی صالح محمد شہید ؒ بھی حل کردیتے تھے، مگر فون پر فیصد بتانے والا آپ کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا۔یہ اوران جیسی بہت سی خصوصیات کی وجہ سے آپ کی معمولی جدائی بھی گوارا نہیں ہوتی تھی۔اب تو حضرت طویل سفر پر چلے گئے ہیں۔دنیا تو جدائی کا گھر ہے اورایک دن ایسا ہوکر رہنا تھا۔اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ ہمیں آخرت میں جدا نہ کرے۔
امام مالکؒ کا قول ہے کہ’’ ماکان للہ یبقیٰ‘‘امام موصوف ،نے یہ جملہ اس وقت ارشاد فرمایا تھا جب کہنے والوں نے
کثرت سے آآکرکہا کہ بہت سے لوگ مؤطا لکھ رہے ہیں، آپ کی مؤطا کا کیا فائدہ ہوگا؟حضرت امام کا جواب تھا کہ:’’ اخلاص کو بقا ہے۔‘‘دارالافتاء کے دومرکزی ستون گرنے کے بعد کس کو یقین تھا کہ وہ اپنی پرانی شان بان کے ساتھ چل سکے گا۔مگر ایک تو بانی کا اخلاص پھر یہ اٹل اورمحکم خدائی اصول کہ:’’ ان اللہ یغرس فی ھذا الدین غرسا‘‘(سنن ابن ماجہ ص۳)کہ وہ اس دین کے گلشن میں شجر کاری کرتا رہے گا، اور ساتھ خون شہداء کی قبولیت ومقبولیت ،ان باتوں کااثرہے کہ کشتی طوفانی لہرسے ڈگمگائی ضرورمگرڈوبی نہیں،ہچکولے کھانے کے بعد اس نے پھر چلنا شروع کیا اورالحمدللہ پہلے سے زیادہ رفتار پکڑلی ہے۔خوش خبری ہومخلصین کوکہ وہ غم نہ کھائیں فکرنہ کریں۔وھی تجری بھم فی موج کالجبال۔
فقہ وفتوی کے متعلق بعض اہم ہدایات وارشادات:
تربیت کے زمانے میں کسی زیر تربیت کی غلطیوں سے چشم پوشی اس کے حق میں سخت مضر ہے،زمانہ تربیت کی کمزوری آخر تک رہتی ہے اور اس پر قابو بہت مشکل ہوتا ہے۔یہی وجہ تھی کہ اگر تخصص کے طلبہ سے کوئی چوک ہوجا تی تو خود ان کی غلطی کی اصلاح کرنے کے بجائے انہیں بلاکر تنبیہ فرماتے تھے اور ہمیں بھی اس طرح کرنے کی تاکید فرمائی تھی۔عام طور پر ہر طالب علم کو انفرادی تلقین اور نصیحت فرماتے لیکن جب کوئی مسئلہ عمومی شکل اختیار کرلیتا تو تخصص کی کلاس تشریف لے جاتے اور طلبہ کو اجتماعی ہدایات دیتے تھے۔اسی طرح کی ایک مجلس میں ان سے فرمایا کہ:
۱۔طلبہ وارث کے حق میں وصیت کو باطل لکھتے ہیں، حالانکہ باطل نہیں بلکہ اس کا نفاذ دوسرے ورثاء کی رضامندی پر موقوف ہوتاہے اور جو ورثاء وصیت پر عمل درآمد کی اجازت دیں،ان کا عاقل اور بالغ ہونا ضروری ہے۔
۲۔میت بہت قدیم ہو، مثلا ساٹھ کی دہائی میں انتقال ہوا ہو تو اس کے حقوق متقدمہ کے بیان پر مشتمل طویل عبارت لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
۳۔اگر والدین میں سے کسی ایک کا انتقال ہوجائے اور کسی اور وارث کے انتقال سے پہلے والدین میں سے دوسرے کا بھی انتقال ہوجائے تو اب مناسخہ بنانے کی ضرورت نہیں ۔
۴۔طلاق کا ذکر کریں تو اس کے ساتھ عدت کو بھی بیان کریں کہ کون سی عدت ہے اور کتنے دن ہوگی؟مطلقہ اگر حاملہ ہے تو بچے کی پیدائش پر عدت ختم ہوگی، ورنہ تین ماہواریاں عدت ہوگی اور اگر وفات کی عدت ہے تو ایک سو تیس دن ہوگی وغیرہ ،صرف طلاق کا حکم نہ لکھیں۔
۵۔میراث کے مسائل میں حصص کو فیصد کے حساب سے بھی تقسیم کریں ، ربع اور ثمن وغیرہ میں کسر نہیں آتا، لیکن جب کسر آجائے تو اعشاریہ کے بعد دو تین اعداد لکھ لیا کریں اور اگر ترکہ کی مالیت زیادہ تو پھر پانچ تک اعداد لکھیں کیوں کہ بڑی رقم ہونے کی صورت میں اعشاریہ در اعشاریہ سے بھی بڑا فرق پڑجاتاہے۔
مجھے تخصص کے سال ارشا د فرمایا کہ :’’میں جواب میں کچھ بڑھاؤں یا گھٹاؤں تو اس پر خوب غور کرلیا کرو اور اس کی وجہ تلاش کرنے کوشش کرو۔‘‘ایک دوسرے موقع پرآپ سے دریافت کیا کہ:’’ اردو فتاوی میں کون سی بہتر ہے ؟‘‘جواب میں اپنے استاذ حضرت مفتی ولی حسن ٹونکیؒ کا طرز عمل نقل کیا کہ وہ اپنے ابتدائی زمانے میں ’’امداد الفتاوی‘‘ کا صرف سوال پڑھتے اور پھر اس کا جواب لکھ کر امداد کے جواب سے تقابل کرتے تھے۔خود آپ ’’کفایت المفتی‘‘ کو پسند فرمایا کرتے تھے۔کسی مسئلے کے جواب میں اردو فتاوی مختلف ہوتے تو اکثر وبیشتر کفایت المفتی کے مطابق کے فتوی دیتے تھے۔بارہا آپ سے سننے کو ملا کہ مفتی کفایت اللہ دہلوی کی فقاہت کا اندازہ لگانا ہو توکفایت کے ان مقامات کو پڑھ لو ،جہاں دیگر اکابر کے ساتھ ان کامناقشہ ہوا ہے۔ہدایہ کے بارے میں مفتی ولی حسن ٹونکی ؒ کے حوالے سے بتایا کرتے تھے کہ اگر وکیل بھی ہدایہ کا طرز استدلال سیکھ کر استعمال کرے تو کوئی دوسرا اس پر غالب نہیں آسکتا۔
فتوی اگر پھیل کر مضمون کی شکل اختیار کرلیتا تو ہلکی پھلکی تنبیہ فرماتے اور اگر اس میں بجائے فتوی کے وعظ ونصیحت اور تذکیر وموعظت کا پہلو غالب ہوجاتا توخفگی کا اظہار فرماتے۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبا اپنے مقالہ جات کے سلسلے میں دارالافتاؤں سے مراجعت کرتے ہیں،سوالات کا ایک طویل سلسلہ قائم کرتے ہیں اوران کا مفصل ،مدلل اور محقق جواب چاہتے ہیں۔ ایسے سوالات پر خفگی اورکسی قدربرہمی کی وجہ یہ تھی کہ ایسے طلباء درحقیقت خود محنت سے جی چراتے ہیں اوردوسروں کے جوابات کو اپنی تحقیق کے عنوان سے مقالے کا حصہ بنالیتے ہیں۔اس کے باوجود ان کے حسب منشا جواب دے دیا کرتے تھے کہ حق کی تشہیر اور نشرواشاعت ہونی چاہے،کسی بھی نام،عنوان یا مقام سے ہو
طلبہ کو عرف سے متعارف کرنے کے لیے انہیں خود عرف کی تحقیق کرنے کا ارشاد فرماتے اور اگر خود ضرورت محسوس فرماتے تو آپ کا مقام اور مصروفیت اس میں رکاوٹ نہیں بن سکتی تھی۔
قربانی کے دنوں میں تخصص کے طلبہ کی جماعتیں بنا کر انہیں منڈی بھیجا کرتے تھے ،مقصد یہ ہوتا تھا کہ ان کی تربیت ہو اور عوام کو رابطہ کرنے میں سہولت ہو اور انہیں دینی رہنمائی میسر ہو ۔
اختلاف رائے کاتحمل:
دارالافتاء میں منعقد کسی علمی مجلس میں میر مجلس اورمحفل میں چراغ محفل آپ ہی ہواکرتے تھے۔اس وقت آپ کے انگ انگ اورروئیں روئیں سے خلوص اور عجز وانکساری پھوٹتی محسوس ہوتی تھی۔اختلاف رائے کونہ صرف برداشت کرتے بلکہ مخالفانہ رائے اگر معقول اورموزوں معلوم ہوتی تو اسے لے کراور زیادہ مدلل اورحسین پیرایے میں بیان کردیتے تھے،جس سے اس کے وزن میں اضافہ ہوجاتااورآپ کی رائے کا پلڑا ہوامیں جھولنے لگتاتھا۔
سب سے رائے لیتے اور ہر ایک کی رائے کو اہمیت ووقعت دیتے، ہمیں کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ محض فیصلہ سنانے کے لیے کوئی مجلس بلائی گئی ہے۔طریقہ کار یہ ہوتاتھا سب سے پہلے مسئلے کی وضاحت فرماتے، پھر موافق و مخالف دلائل کے بیان کے ساتھ اس پر تبصرہ فرماتے اور اس کے بعد مناقشے کا باب کھول دیتے تھے۔اس قسم کی مجالس میں اگرہم پوری جرأت اوراعتماد کے ساتھ تنقید وتردید کرسکتے تھے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارا میر کارواں اس کا حوصلہ رکھتا تھا۔
علمی مجالس کے علاوہ عام زندگی میں بھی آپ نے اپنی شخصیت کو اتنا بلند نہیں کیا تھا کہ کوئی حق بات بھی آپ سے کہنا چاہتا تو نہ کہہ سکتا۔اسی بلند حوصلگی ،عالی ظرفی اور وسعت قلبی کا نتیجہ تھا کہ تمام رفقاء کے دل جڑے ہوئے اور ذہن متحد تھے،جس سے کام میں برکت اور فتنوں سے حفاظت تھی۔
اختلاف رائے کااصول اورتنقید پر صبر:
ایک اہم خوبی یہ تھی کہ کسی کی رائے سے اختلاف کواس کی ذات سے اختلاف نہیں بننے دیتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ اختلاف کے باوجود اہل علم کے ساتھ آپ کے روابط اورتعلقات اختلاف سے قبل جیسے نظر آتے تھے۔بعض معرکۃ الآراء اختلافی مسائل میں آپ کی رائے کی بجائے آپ کی ذات پر تنقید کی گئی اورتنقید کیا تھی زہر میں بجھے ہوئے تیر تھے ،مگر کبھی اس کاذکر نہیں کیا۔یہ وجہ نہیں تھی کہ آپ کو ذاتیات پر ناروا تنقید سے تکلیف نہیں پہنچتی تھی ۔آخر بشر تھے اوربشر باوجود کوشش اورضبط کے اپنے آپ کوبشریت کی سطح سے اوپر نہیں اٹھاسکتا ۔بس سنتِ سلف کے مطابق ایسے مواقع پر صبر کرجاتے اورزبان سے اظہار نہیں فرماتے تھے، مگردل پر کس کا زور چلتاہے اور آنکھوں پر ضبط کس کے قدرت میں ہے، اکیلی زبان تو دل کی واحد ترجمان نہیں ہے۔قدرت نے جگہ جگہ یہ ترجمان بٹھارکھے ہیں۔ جب اندر دھواں زیادہ بھر جاتاہے تو چمنیوں سے خارج ہونے لگتاہے ۔معصوم آنکھوں سے چھلکتے آنسو اندر کے تلاطم کا پتہ دیتے تھے ۔
اہم انتظامی وصف:
دارالافتاء کے اساتذہ کی اکثریت آپ کے تلامذہ کی ہے اور مسؤل ہونے کی حیثیت سے آپ انتظامی امور کے سربراہ بھی تھے ،مگر آپ کا رویہ ایسا نہ تھاجو ایک منتظم کا اپنے ماتحتوں کے ساتھ اورحاکم کا اپنی رعایاکا ساتھ ہوتاہے۔ جن لوگوں کو انتظام کے ساتھ سابقہ پیش آیا ہے وہ جانتے ہیں کہ اس منصب کے تقاضوں کے پیش نظرہر ایک کی تطییبِ قلب اورسب کے مزاج ومذاق کی رعایت بہت مشکل ہوتی ہے، مگر آپ نے حسن معاملہ اورحسن انتظام کا ایسا نقشہ کھینچا کہ سب آپ کوعظمت اورمحبت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔اصلاح وتربیت اورتنبیہ وتاکید بھی فرماتے تھے مگرجب فیصلوں سے محبت جھلکتی ہوئی اورشفقت ٹپکتی ہوئی محسوس ہوتو کون نادان ہے جو اسے محسوس کرے ۔
اصاغر کی تشجیع اورحوصلہ افزائی:
آپ کا ایک اہم وصف اصاغر کی تشجیع اور حوصلہ افزائی کا تھا۔من لم یشکرالناس لم یشکراللہ۔ان سطور کا راقم آپ کی توجہات اور عنایات کا خصوصی مورد تھا۔ایک شخص جسے مادی اسباب وسائل میسرہوں،ذاتی جوہر وصلاحیت بھی رکھتا ہو،فضا بھی سازگار اور ماحول بھی موافق ہومگر کوئی اس کو داد دینے، حوصلہ افزائی کرنے اور کام کو سراہنے والا نہ ہو تو اس کی طبیعت بجھ جاتی ہے،صلاحیتیں ماند اوروسائل واسباب غیر موثر رہ جاتے ہیں، اس کے برعکس حوصلہ افزائی کے دوبول اس کی روح میں گرمی اور جسم میں بجلی دوڑادیتے ہیں۔
ہمارے اکابرنے اپنے مذکورہ طرز عمل کی بدولت اپنے اصاغر کے ذریعے انقلاب برپاکیے ہیں، طوفانوں کا رخ موڑا ہے اور زندگیاں تبدیل کی ہیں۔مفتی صاحب نے اپنے اس وصف کی بدولت افراد تیار کیے ہیں ۔وہ کام لینا اور شاعرانہ زبان میں ممولے کو شہباز سے لڑانا جانتے تھے۔واقعی اکابر حوصلہ افزائی کریں تو چھوٹے اپنی صلاحیت سے بڑھ کر کارکردگی دکھاتے ہیں۔صاف نظر آتا تھا کہ حضرت خود کوئی کام بہت سہولت اور عجلت سے اور نہایت نفاست اورلطافت سے انجام دے سکتے ہیں، مگر دوسروں کے سپرد کرنے کامقصد ان میں ذمہ داری کا احساس پیدا کرنا ،ان کے تجربہ وصلاحیت کو بڑھانا اور سب سے بڑھ کر ان میں حوصلہ اور اعتماد پیداکرنا ہوتا تھا۔
فضلاء سے ان کے مقامی علاقوں کے حالات دریافت کرتے تھے اور پھر اس کی روشنی میں انہیں وہاں کام کی ترغیب دیتے،اپنے مشوروں سے نوازتے،ان کی حوصلہ افزائی کرتے،مدد اورمعاونت فرماتے اورسفر درپیش ہوتا تو اپنے پروگرام کو ترتیب دیتے وقت اس قسم کے فضلاء سے ملاقات کواپنے سفر کالازمی حصہ بناتے تھے۔ اس طرح دوردرازعلاقوں میں چھوٹے چھوٹے دارالافتاء وجود میں آگئے تھے۔آپ کی شہادت سے اس قسم کے ادارے اپنے شفیق ومحسن اورنگراں وسرپرست سے محرو م ہوگئے ہیں۔
وقت کی قدر وقیمت:
اپنے استاذ مولانا ادریس میرٹھی کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے، اس لیے کام،آرام اورعبادت کے علاوہ کوئی مزید مشغلہ نہیں رکھتے تھے۔محفل آرائی ،گپ تراشی اورتبصرہ بازی کی مجلسیں قائم کرنے کی آپ کوفرصت نہ تھی۔اوقات ایسے منضبط ومنقسم تھے کہ ان میں کوئی خلا نظر نہیں آتا تھا مگر جب کوئی دینی ومذہبی ضرورت ہوتی تو اوقات میں گنجائش نکل آتی تھی۔
وقت کے ضیاع پر تنبیہ فرماتے اور اس معاملے میں نگاہ وہاں پہنچ جاتی جہاں عام نگاہ، رسائی سے قاصر رہتی ہے۔ایک فاضل اپنے موبائل فون پر پیغام بھیجنے اوروصول کرنے میں مصروف تھے،آپ نے دیکھ کر فرمایاکہ:’’کال مہنگی ہی سہی لیکن اس میں وقت کی بچت ہے اورچھوٹے چھوٹے پیغامات اگر زیادہ بھی ہوں تو ان کاخرچ کال سے بڑھ جاتاہے ،اورزبانی بات کی طرح تسلی پھر بھی نہیں ہوتی‘‘وہ صاحب کہنے لگے کہ :’’حضرت ! میرے پاس پیکج ہے اورمجھے یہ سہولت مفت میسر ہے۔‘‘آپ نے فرمایا کہ:’’کوئی سہولت مفت نہیں ہوتی،ان کمپنیوں سے کوئی جیت نہیں سکتا،اگر مفت بھی ہو تو پیغام لکھنے میں بھی تووقت لگتاہے اوراگر ہم نے مفت سمجھ کر دس آدمیوں کوپیغام بھیجا تو ان دس کا مجموعی لحاظ سے کتنا وقت ضائع کردیا؟‘‘۔
بذلہ سنجی اورظرافت طبع:
فقہ جیسے خشک موضوع سے گہرے تعلق کے باوجود آپ طبیعت کے ہنس مکھ اورظریف الطبع تھے اور ایک مخصوص قسم کی مسکراہٹ چہرے پر سجی رہتی تھی۔شہادت کے بعدبھی چہرہ مبارک سے ایسا لگ رہاتھا کہ جیسے گہری نیند میں ہوں اورہلکا سا تبسم فرمارہے ہوں۔لطائف وظرائف، حکایات وواقعات اورقصص وامثال سے بھی گفتگو مزین کرتے مگر برجستہ گوئی اورحاضر جوابی میںآپ کانظیر ومثیل نظر سے نہیں گزرا ۔خالص علمی اور سنجیدہ نوعیت کی مجلس میں بھی اگرکوئی اپنی ظرافتِ طبع سے مجبور ہوکر کوئی جملہ اچھالتا تو آپ کبیدہ خاطر ہونے کے بجائے اسی رنگ اور ڈھنگ میں اس پر ردعمل ظاہر کرتے جس سے روح باغ باغ ہوجاتی ۔
ایک مرتبہ کھانے کے دوران آپ کو مخاطب کرکے میں نے کہا:’’حضرت !ان صاحب کودیکھیں،یہ چباچبا کر نہیں کھارہے۔‘‘آپ نے جواب دیا:’’توکیاجگالی کرے؟‘‘کوئی نیاز مند آپ کی جوتی اٹھانا چاہتاتوفرماتے:’’بھائی!یہ میری جوتیاں ہیں۔‘‘
ایک دفعہ آپ اپنی نشست پر تھے اورہم دوتین تلامذہ پاس جمع تھے۔کام کے دوران ہلکی پھلکی گپ شپ بھی چل رہی تھی۔آپ نے سلوک واحسان کے متعلق کوئی بہت ہی دقیق اور حکیمانہ جملہ ارشاد فرمایا۔میں نے بے تکلفانہ لہجے میں کہا:’’لائیے حضرت! ہاتھ بڑھائیے،میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتاہوں۔‘‘لیکن اس سے قبل کہ آپ ہاتھ آگے بڑھاتے ،میں نے مزید کہا کہ :’’میری دوشرطیں بھی ہیں۔‘‘آپ کو تعجب تو ہوا کہ مرید اورشرطیں؟!لیکن فرمایا: ’’چلو بتاؤ۔‘‘ میں نے کہا:’’پہلی شرط یہ ہے کہ میں کوئی ٹوٹکے نہیں کروں گا اوردوسری شرط یہ ہے کہ مجھے فوری خلافت چاہیے۔‘‘آپ نے فرمایا :’’منظور ہے لیکن اس سے پہلے تمہیں ایک قصہ سننا ہوگا۔‘‘ پھر آپ نے ایک بزرگ کا واقعہ سنایا کہ وہ کسی خدمت پر اپنے عقیدت مند سے بہت خوش ہوئے اور ان سے کہا کہ مانگو کیا مانگتے ہو؟ مریدپہلے تو انکار کرنے لگا، لیکن جب شیخ کا اصرار بہت بڑھا تو کہنے لگا:’’حضرت !مجھے اپنے جیسا بنادیں۔‘‘شیخ نے بہت سمجھایا کہ اس کے علاوہ کچھ مانگ لو، مگرجب وہ نہ مانا توشیخ اسے کمرے میں لے گئے اورباطنی دولت اسے منتقل کرنے لگے اورجب دروازہ کھولنے کے بعد مرید باہر نکلا تو پاگل تھا اوردوتین دن اس طرح رہنے کے بعد مرگیا۔‘‘قصے کے اختتام پر حضرت فرمانے لگے:’’اس طرح کے مطالبوں کا یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے،اب بتاؤ! چاہیے؟‘‘
آپ سے کوئی جملہ کہتے وقت ضمیر کا مرجع اور اشارے کا مشار الیہ کھولنے اوروضاحت کے ساتھ بیان کرنے کی ضرورت نہ ہوتی ،جس سے جملہ بازی کا حسن مرجھا جاتاہے اورلطف جاتا رہتاہے ،بلکہ اشاروں،کنایوں اورلطیف استعاروں پر مشتمل مختصر جملہ بھی کافی ہوتا،آپ کی زیرک طبیعت خودہی مقدمات جوڑ کر اصل مطلوب تک رسائی حاصل کرلیتی اور احوال وظروف سے مدد لے کر ذہن خود ہی منشا تک رسائی حاصل کرلیتا تھا۔
دین کامزاج شناس مفتی:
آپ کے ان کریمانہ اخلاق اورپدرانہ شفقت کا نتیجہ تھا کہ ہم آپ سے بسااوقات کچھ ایسے لب ولہجہ میں گفتگو کرجاتے جو شاید عام حالات میں اور کسی اور کے لیے بے ادبی اورگستاخی شمار ہو۔ایک مرتبہ جب حسب معمول فتاوی پر دستخط فرمارہے تھے اور اسلامی بینکوں کے متعلق سوال آیا تو میں نے عرض کیا:
’’فلاں طبقے کے اکابر ایک پہلو سے اچھے ہیں۔‘‘
حضرت مفتی صاحبؒ :
’’وہ تمہیں کیوں اچھے لگنے لگے ہیں؟‘‘
راقم الحروف:
’’ان کے اکابر اپنی نسلوں کے معاش کا بندوبست کرگئے ہیں۔آئے دن کے میلے ٹھیلے اور اس کے نتیجے میں ہدیے ،تحفے اورنذرانے۔محلے میں کہیں فوتگی ہوجائے تو انواع واقسام کے کھانے۔ایک ہمارے اکابر ہیں(اشارہ حضرت کی طرف تھا)کہ یہ غلط وہ بھی غلط۔شایداس وجہ سے کہ بھاری تنخواہ،بڑا گھر، لمبی گاڑی اورمہنگے ہوٹلوں میں قیام اوردنیا کی سیاحت کوئی اچھی بات نہیں۔شایداس وجہ سے کہ اللہ کے مقبول بندے زیادہ ناز ونعم میں نہیں رہتے۔‘‘
حضرت مفتی صاحب:
’’ارے بھائی!تمھارے نگاہ صرف گنتی پر جاتی ہے کہ تنخواہ تھوڑی ہے۔یہ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالی تمھارے کتنے کام مفت میں بنادیتے ہیں اورکتنے مصائب وآلام سے تمھیں محفوظ رکھتے ہیں۔بس تنخواہ پر نظر اور پہلوؤں سے صرف نظر۔اورکچھ وہاں کے لیے بھی تو بچا کر رکھو۔یہ بات بھی ہے کہ مولوی کو بیکار بنانا ہوتو اسے دولت دے دو۔‘‘
ایسا حکیمانہ اوردل میں اتر جانے والا جواب سن کر روح کو تسکین توہوگئی،مگر حکمت کے ان موتیوں کو رولنے سے روکنا مناسب نہ تھا، اس لیے وہی بے تکلفانہ اورمزاح کا لہجہ بناکر مزید عرض کیا :
’’ اچھا چلیں! بینک نہ سہی،تکافل ہی سہی۔‘‘
حضرت مفتی صاحب:
’’بھئی! تکافل کے جواز اورعدم جواز سے قطع نظر، یہ جو کچھ ہورہا ہے تمہیں اچھا لگ رہا ہے؟‘‘
راقم الحروف:
’’کیا ہورہاہے ؟(انجان بنتے ہوئے )
حضرت مفتی صاحبؒ :
’’وہ لوگ جو منبر نبوی پر بیٹھ کردنیا کی بے ثباتی،حوادث پر صبر،آخرت کے استحضار اورپیغمبر علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کے زہد وقناعت اورتقوی وتوکل کا درس دیتے ہیں،وہی لوگ کمپنی کے ایجنٹ بن کر کہتے ہیں کہ پالیسی لے لو ۔تم نہ رہے تو تمھاری اولادکا کیا ہوگا؟‘‘
یہ کلمات کہہ کر آپ آبدیدہ ہوگئے۔اب دونوں طرف سے سکوت تھا۔آپ نے اگلافتوی اٹھا یا اورمیں سوچنے لگا کہ واقعی نقوش اورسطور سے معلومات میں اضافہ ہوتاہے ،مگر جذبات اورخیالات تو قلوب اور صدور سے قلوب اورصدور میں منتقل ہوتے ہیں۔نقوش کافی ہوتے تو انبیاء کی بعثت کی ضرورت نہ تھی۔ہم کہنے کو توکہتے ہیں کہ خاتم الانبیاءﷺکتاب کی تعلیم کے ساتھ جذبات بھی سکھاگئے ہیں ،مگر ہم ان کونقوش سے حاصل کرنا چاہتے ہیں،حالانکہ قلب کا حصہ تو قلب سے ہی حاصل کیا جاسکتاہے ۔افسوس کہ ہم اپنے بزرگوں پر ناز تو کرتے ہیں مگر ان کوسمجھتے نہیں ہیں اورسمجھتے اس لیے نہیں ہیں کہ ان کے سینوں سے اپنا سینہ قریب نہیں کرتے ۔
بعض اہم مسائل کے متعلق حضرتؒ کی آراء:
دنیا عجائب خانہ ہے اوررنگارنگ نظریا ت کا طلسم خانہ ہے۔ یہاں ہر مزاج اورفکر کے لوگ ملتے ہیں۔انسان دنیا سے چلاجاتاہے تو اس کے خیالات تقدس کا حسین جامہ پہن لیتے ہیں اور پھر اس کے افکار وخیالات سے اختلاف،اس کی ذات سے اختلاف سمجھاجاتاہے۔کبھی اس کے متعلق ایسے اقوال منسوب کیے جاتے ہیں جن سے وہ اپنی حیات میں بے زار نظر آتا ہے اورکبھی اس کے اقوال وافعال کی ایسی تعبیر وتشریح کی جاتی ہے جس میں شارح کے ذاتی خیالات ورجحانا ت کا رنگ نمایاں ہوتاہے۔اس لیے دل چاہتاہے اور ہوسکتاہے کہ مفید ثابت ہوکہ بعض مشہور زمانہ کے مسائل کے متعلق حضرت کا نقطہ نظر واضح کردیاجائے:
۱۔مروجہ اسلامی بینک کاری کے عدم جواز کا فتوی دے چکے تھے اورآخر حیات تک جواز کی طرف کوئی میلان یارجحان دیکھنے میں نہیں آیا۔
۲۔ڈیجیٹل تصویرکو تصویر ہی سمجھتے تھے۔جب آپ سے پوچھا جاتا کہ ڈیجیٹل تصویر پائیدار نہیں ہے ؟تو جواب دیتے کہ :’’محفوظ تو ہے۔‘‘
۳۔شفیق انٹرپرائز کے عدم جواز کے متعلق جامعہ خلفاء راشدین کے فتوی پر دستخط فرماچکے تھے، دیگر کمپنیوں کے متعلق ایک فتوی آپ کے دستخط کے انتظار میں میز پر رکھا تھا۔دستخط میں تاخیر ایک تو اس وجہ سے تھی کہ آپ کو سوال کے اسلوب سے اختلاف تھا اوردوسرے رفقاء میں سے ایک رفیق کو تاحال انشراح صدر نہیں تھا۔حضرت کی عادت شریفہ ساتھیوں کی رائے کو احترام دینے کی تھی۔
۴۔شیئرز کے متعلق تشقیق سے جواب دیتے تھے۔بدلہ،بلاقبضہ، سٹہ،مستقبل کی تاریخ پرخریدوفروخت اورانشورنس،لیزنگ اوربینکوں وغیرہ کے شیئرز کو ناجائز کہتے تھے اورکچھ شرطیں لگاکر بقیہ کو جائز کہتے تھے۔لیکن جس کوجائز کہتے تھے اس کو بھی کوئی اعلی اورمثالی طریقہ کاروبار نہیں سمجھتے تھے۔دراصل آپ کا مزاج شیئرز کے کاروبار کوقبول نہیں کرتاتھا۔اسٹاک ایکسچینج کے صدر کے ساتھ آپ کی گفتگو کا کچھ حصہ مجھے یادرہ گیا ہے۔ آپ کا سوال تھاکہ:’’ یہ بتائیے کہ شیئرز کی قیمت میں اضافے سے معیشت میں کیا حقیقی اور ٹھوس اضافہ ہوتاہے؟کون سے حقیقی اثاثے وجود میں آتے ہیں؟ہم تو دیکھتے ہیں کہ کہیں کوئی پٹاخا پھوٹایا یا جھوٹی افواہیں پھیلی اور مارکیٹ کریش ہوگئی یا گورنمنٹ نے جھوٹے سچے وعدے کیے یا تاجروں نے اپنے مفاد میں بے پر کی اڑائی اور اسٹاک مارکیٹ نفسیاتی حد عبور کرگئی؟‘‘
اس سوال کی موزونیت اورمعقولیت کافیصلہ تو ماہرین کریں گے، تاہم ایک دو نظائر ذہن میں آتے ہیں جن سے شریعت کے مزاج کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ایک تو یہ کہ شریعت صرف لوگوں کی رغبت اور چاہت کو قیمت تسلیم نہیں کرتی ہے۔گڈول کا مال نہ ہونا بھی اسی قاعدے پر مبنی معلوم ہوتاہے۔
دوسرے یہ کہ موہوب میں کوئی متصل اورناقابل علیحدگی اضافہ ہوجائے جس سے اس کی قیمت بڑھ جائے تو رجوع ممنوع ہوجاتاہے، لیکن اگر صرف موہوب کی قیمت میں اضافہ ہوجائے اوراس میں کوئی زیادت متصلہ نہ ہو تو رجوع جائز رہتاہے، کیونکہ صرف قیمت کی بڑھوتری شریعت کی نظر میں مال نہیں ہے۔
۵۔کرسی پر نماز کے متعلق آپ کے دستخط سے کئی فتاوی جاری ہوئے ہیں اور ماہنامہ ’’بینات‘‘ میں بھی شائع ہوچکے ہیں۔شہادت سے کچھ عرصہ قبل یہ مسئلہ پھر زیر بحث آیا تھا اوراس کی کل چودہ شقیں بنائی گئی تھیں، جن پر اجتماعی صورت میں ہفتہ وار مشاورت ہوتی تھی۔مشاورت کی تکمیل سے قبل ہی آپ کی شہادت کا واقعہ پیش آگیا۔
۶۔ملٹی لیول مارکیٹنگ کرنے والی کمپنیاں پاکستان میں متعارف ہوتی ہیں اور رفتہ رفتہ معدوم ہوجاتی ہیں۔ہر نئی کمپنی پچھلی کمپنی سے ذرا سے فرق کے ساتھ ابھرتی ہے مگر بنیادی کام سب کا ایک جیسا ہوتاہے ۔ شینل ،بزناس ،گولڈن کی ،گولڈ مائن وغیرہ اس کی مثالیں ہیں،اس نوع کی کسی کمپنی کے متعلق حضرت نے جواز کا فتوی نہیں دیاہے۔
۷۔زکاۃ فنڈاور وقف فنڈ کے بارے میں کئی مرتبہ سوال ہوا کہ اسے کاروبار میں استعمال کیا جائے اور حاصل ہونے والا نفع بھی مستحقین پر تقسیم کیا جائے ،مگر کوئی دلیل یا تاویل آپ کو جواز کے قول پر آمادہ نہ کرسکی۔
علم طب میں درک:
آپ کے والد ماجدنے ہندوستان میں رہ کر طب کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی۔آپ نے بھی طبابت کا مشغلہ کسی زمانے میں ضمنی حیثیت سے اختیارکیا تھا،جس کی بدولت ذاتی استعمال کی ادویہ خود ہی تیار کرتے تھے۔انگریزی ادویات کے بارے میں فرماتے تھے کہ:’’ بس دوا کھائے جاؤ اورعارضی سکون لیتے جاؤ۔‘‘غور کیا جائے تو پورے مغربی تمدن میں عارضیت اورسطحیت ہے اوراس کی وجہ شاید یہ ہے کہ تمدن کا منبع مذہب ہے اورعیسائی مذہب میں سطحیت ہے۔ اپنی ڈائری میں اپنے استاذ مفتی ولی حسن صاحب کے حوالے سے لکھا ہے کہ:’’ انگریزی طب کامدار جراثیم پر جب کہ اسلامی طب کامدار تجربے پر ہے۔‘‘طب سے واقفیت کااصل فائدہ یہ ہواکہ اس موضوع کے متعلق سوالات کا بصیرت سے جواب دیتے تھے۔ ہم امراض کی حقیقت آپ سے پوچھ لیا کرتے تھے۔کسی دوا کے اجزائے ترکیبی کے متعلق سوال ہوتا تو ہمیں طب کی کتابیں تلاش کرنے اوراطباء سے مراجعت کی ضرورت نہ تھی ۔ایک مرتبہ غالبا کسی خمیرے کے متعلق فتوی ملاحظہ فرمارہے تھے ،میں نے پوچھا حضرت یہ خمیرہ،کشتہ ،معجون وغیرہ دیکھنے میں تو ایک جیسے ہیں،ان کاباہم فرق کیا ہے ؟جواب دل نشین ملا،ہومیوپیتھک ادویہ کے متعلق پوچھا کہ اس میں الکحل خود مقصود ہوتاہے یا موصل ہوتاہے ؟جواب سے دل کو تسلی کوہوئی ،میرا تصور یہ تھا کہ کھانسی کے تمام شربتوں میں افیون شامل ہوتاہے ۔آپ نے فرمایا:’’ نہیں! ایسا نہیں۔‘‘ایک صاحب نے ’’کوچنیل‘‘ کیڑے کے متعلق سوال کیا کہ رنگ کے حصول کے لیے اسے الکوحل میں ابالا جاتا ہے۔آپ نے فرمایا کہ:’’ اول تو الکوحل بہت مہنگاہے ،اس لیے اس کا استعمال سمجھ میں نہیں آتا اوراگرالکوحل انگور اورکھجور کا نہ ہو بلکہ سستاہو، توبھی اتنا حساس ہے کہ یا تو اڑجاتاہے یا آگ پکڑ لیتاہے،اس لیے الکوحل کو آگ پر رکھنا سمجھ میں نہیں آتا ہے۔‘‘جب تحقیق کی تو آگ میں ابالنے کی بات درست نہیں تھی۔
سفر میں معمولات:
سفر میں باوجود تھکاوٹ کے فجر سے گھنٹہ بھر قبل بیدار ہوجاتے اوراگر ایک جگہ قیام کے بعدکسی اورمنزل کا ارادہ ہوتاتوپوپھوٹتے ہی سفر شروع فرمادیتے تھے۔دوران سفرجب ایک منزل سے دوسری منزل کے لیے سواری پر سوار ہوتے تو اذکار اورادعیہ کا اس طرح اہتمام فرماتے جیسے ابھی گھر سے خروج فرمارہے ہوں، لیکن جب معمولی نقل وحرکت کاارادہ ہوتا تودوتین مشہور دعاؤں پر اکتفا فرماتے ۔
سفر میں بھی حزب البحر کاصبح وشام معمول رکھتے ،حضر میں دلائل الخیرات بھی معمولات میں شامل تھی۔ان اذکار کے علاوہ غالب وقت قرآن کریم کی تلاوت میں گزرتاتھا۔مصحف شریف دیکھ کر تلاوت فرماتے اور اچانک بریک وغیرہ پر نگاہ اٹھاکر پھر جھکادیتے تھے۔بنوں کے سفر سے واپسی پر جب ہم سندھ میں داخل ہورہے تھے توآپ کا ختمِ قرآن قریب الاختتام تھا۔ وضو پر مواظبت فرماتے اورباوجود مشقت کے یہ معمول پورا فرماتے تھے ۔ جہاں اترتے وہاں کا میزبان آپ کے پروگرام اورقیام کی مدت وغیرہ سے آگاہ ہوتاتھا۔کھانے میں سنن وآداب کی رعایت رکھتے لیکن جب کھانا چنا جاتا اورقرائن سے اندازہ ہوتا کہ ہاتھ دھونا میزبان کے لیے کسی درجے میں ذہنی یاجسمانی حرج کاباعث ہوسکتاہے مثلا اندرون خانہ جانا پڑے گایاخواتین کوپردے کی زحمت ہوگی یا مناسب جگہ نہیں ہے ،تو کوئی معقول سا عذر فرمادیتے مثلاََ’’ ابھی تو نماز پڑھی ہے،ہاتھ تو بالکل صاف ہیں ،پیٹ کے چوہے مزیدانتظار نہیں کرسکتے وغیرہ‘‘ ۔
ادب چھوڑ کر قلب کی رعایت اوراصولوں سے زیادہ اصولوں کے مقصود پر نظر کی اس سے بہتر مثال اور نہیں مل سکتی۔اس حکیمانہ طرز عمل سے ایک اور معاشرتی اصول بھی پھوٹتا ہوا محسوس ہوتاہے ،وہ یہ کہ مہمان کوبھی اس جگہ تک محدود رہنا چاہیے جہاں تک کی اسے صریح یا معنوی اجازت حاصل ہے اوراسے اس اجازت کو ازخودوسعت نہیں دینی چاہیے ۔
طلباء کے نام ایک پیغام:
شہادت سے ایک دوہفتے قبل حضرت مفتی صاحب شہیدؒ نے جامعہ خلفاء راشدین ماڑی پورمیں تقسیم انعامات کی تقریب میں شرکت فرمائی تھی۔ آپ مہمان خصوصی تھے۔تلاوتِ کلامِ پاک کے بعد ایک طالب علم نے پرسوز اورپرکشش آواز میں ترانۂ دیوبند پڑھا ،جس کے بعد آپ کو دعوت خطاب دی گئی ۔آپ نے ابتدا میں اپنی ذات کے متعلق بڑے ہی عاجزانہ کلمات ارشاد فرمائے اورپھر وقت ،موقع ،مقام اورحاضرین کی مناسبت سے ترانہ دیوبند کو ہی موضوع بناکر اپنی تقریر کا آغاز کیا۔تقریر کا حاصل طلبا کو یہ ترغیب تھی کہ:’’ ابھی ابھی آپ نے ترانے میں جن اکابر کے نام سنے ہیں، آپ کو ان جیسا بننا ہے۔ہمیں صرف ان کا نام نہیں لینا ہے بلکہ ان جیسا کام بھی کرنا ہے، اورہم چونکہ ان اکابر کی طرف نسبت رکھتے ہیں ،اس لیے ہمیں اس نسبت کی لاج رکھنی ہے۔‘‘
نسبت کی لاج رکھنے پر حضرت نے بہروپیے کا معروف قصہ سنایا، جو اسی نمبر میں شائع شدہ حضرت کی تقریر میں مفصل آچکا ہے۔
یہ قصہ سنانے کے بعد حضرت مفتی صاحب ؒ بہت ہی لجاجت سے فرمانے لگے کہ: ’’میری آپ سے دست بستہ درخواست ہے کہ ہم کچھ نہیں، لیکن جن بزرگوں کے ہم نام لیوا ہیں وہ بہت بڑی ہستیاں ہیں اورہماری نسبت ان کی طرف ہے ،ہمیں اس نسبت کاپاس اور اس کا لحاظ رکھنا چاہیے۔‘‘
زندگی کے آخری ایام:
آپ متوکل اور صابر وشاکر تو شروع ہی سے تھے ،مگر آخری ایام میں حد درجہ پرسکون اورمطمئن ہوگئے تھے۔اس اطمینان اورسکون کے اثر سے تروتازہ اورہشاش بشاش دکھائی دیتے تھے، حالانکہ آخر حینِ حیات تک جامعہ سے وابستہ رہے اورجامعہ کراچی میں ہے توکراچی میں ہوکر کراچی کے حالات سے کیسے لاتعلق یا بے خبررہ سکتے تھے ،خصوصا جب کہ طوفان کے تھپیڑے اورآندھی کے بگولے وقفے وقفے سے اس کے درودیوار سے ٹکراتے رہتے ہوں،انگریزی محاورے کے مطابق پورا شہر جس سے گونج رہاہوممکن نہیں کہ اس کی آواز اندرنہ سنائی دیتی ہو،مگر اس کے باوجود آپ کی طبیعت میں کوئی بے چینی یاخوف کا کوئی عنصر محسوس نہیں ہوتاتھا ،البتہ یہ تغیر کھلی آنکھوں مشاہدہ ہونے لگاتھاکہ قوی ہمت اورمضبوط اعصاب کا مالک اب بہت جلد آبدیدہ ہوجاتاہے ۔ہمت تو جواں اورعزم تو بلند تھا مگرآنکھوں کے بند اورپشتے کچھ کمزور سے ہوگئے تھے، جو معمولی موجوں اورہلکے سے تلاطم کا زور بھی نہیں سہار سکتے تھے ۔کسی واقعے پر تبصرہ فرماتے تو اس میں آخرت کااستحضار اوردنیا سے بے اعتنائی کاجذبہ واضح جھلکتا تھا۔بہت سے ایسے موضوعات جوکسی زمانے میں آپ کے لیے باعث کشش تھے اوران میں آپ کی طبیعت کی دل چسپی کا سامان بھی تھااوراس وجہ سے ان پر ازخود گفتگو چھیڑ دیا کرتے تھے اوراگرکوئی چھیڑتا تو رغبت سے اس میں حصہ لیتے بلکہ وہ موضوع ہی گویاان سے چھین لیتے تھے ،مگراب وہ آپ کے لیے روکھے روکھے اورپھیکے پھیکے سے تھے ۔بعض موضوعات جو دوسروں کے زعم میں تفصیل طلب اورکھل کر طویل گفتگوکے متقاضی تھے، ان پر بھی بسااوقات ہاں یاناں کی صورت میں مختصر سا جواب مل جاتا تھا اور اس کے بعد’’ وہی دست بکار ودل بیار‘‘اس کے علاوہ کچھ عملی اقدامات جو دیکھنے سے زیادہ سمجھنے سے تعلق رکھتے ہیں اورجن کے اظہارو افشاء پر اس کے شاہد کو مجبور نہیں کیا جاسکتا ، ایسے تھے جن سے الوداع اورہم توچلے کا خاموش پیغام ملتا تھا۔یہ سب قرائن ایسے تھے جن کے مجموعے سے نتیجہ اخذ کرنا کوئی مشکل نہیں تھا۔
اب آپ ہم میں نہیں ہیں اورآپ کے فراق پر ہر دردمند اوردرد دل رکھنے والا صدمے میں ہے ،مگران کے صد مے کا کیا کہنا جو کبھی بھی آپ کے احسانات کے بار سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتے ،مگر اس کے ساتھ دل کو تسلی اس بات کی ہے کہ ہمارے اکابرایسے حال میں رخصت ہوجاتے ہیں کہ ان کے اقبال کاستارہ بامِ عروج پر ہی رہتاہے اوروہ اس آفاقی،فطری اورشرعی قانون کی زدسے محفوظ رہتے ہیں کہ ہرعروج کوزوال،اقبال کوادباراوربلندی کو پستی ہے۔اس کے ساتھ دل کومزیداطمینان اس پہلو سے بھی ہے کہ آپ کی شہادت حقیقی اورحکمی دونوں پہلوؤں سے شہادت ہے اورآپ بارگاہِ الٰہی میں حاضری کے لیے ہمہ دم تیار اورہرلحظہ مستعد تھے۔نرسری کی شاہراہ پر جوخون رزقِ خاک ہوا ہے ،اس کی صرف ظاہری قبولیت اس دن ہوئی ہے ورنہ جاننے والے جانتے ہیں کہ آپ اس کا اس نذرانہ بہت پہلے محبوب حقیقی کے حضور پیش کرچکے تھے۔آپ نے نسبت کی لاج رکھنے کی جوتلقین کی تھی وہ کوئی خطیبانہ گرج اورمقررانہ بھڑک نہ تھی بلکہ اپنی زندگی کاعملی پیغام تھا جسے شہادت نے اورزیادہ مدلل اورموثر کردیا ہے۔آسمان نے دیکھ لیا،زمین نے جان لیا،قلم نے لکھ لیا اورسینوں نے محفوظ کرلیا کہ دین پور کی نسبت رکھنے والا خود بھی پورے دین پر عامل تھا۔