وقف املاک بل اسلام آباد 2020 پر فقہی تبصرہ
وقف املاک بل(اسلام آباد) پر تبصرہ
یہ تحریر دو حصوں پر مشتمل ہے۔
پہلے حصے میں وقف کے متعلق عام اسلامی تصورات کا بیان ہے اوردوسرے حصے میں ایکٹ پر ملاحظات ذکر کیے گیے ہیں۔
پہلا حصہ
وقف کے متعلق عام اسلامی تصورات
وقف کا لغوی معنی روکنا،باندھنا اورٹھہرانے کے ہیں۔ جومال وقف کردیا جاتا ہے اسے مالکانہ تصرفات سے روک دیاجاتا ہے۔ اسلامی تصور جائیداد یہ ہے کہ مال مالکانہ اختیارات کے ساتھ کسی کی ملکیت میں ہو، لیکن وقف اس عام کے قاعدہ کے برخلاف ہے، جس میں جائیدادپر مالکانہ حقوق کا استعمال موقوف(روک )دیا جاتا ہے اوراس کےفوائد ومنافع بندگان خدا کے کام آتے ہیں ۔ اس تصور کے مطابق جائیدادخدا تعالی کی ملکیت میں منتقل کردی جاتی ہے، جو فی الحقیقت تمام اشیا کا مالک ہے اورچونکہ وہ اس سے مستغنی اوربے نیاز ہے کہ اشیا سے مستفید ہو اس لیے اشیا کے منافع اس کے بندوں کے فلاح وبہبود کے کام میں لائے جاتے ہیں۔
وقف کی اس حقیقت سے واضح ہے کہ وقف پر تجاوز بندوں کے حق پر تجاوز نہیں ہے بلکہ درحقیقت اللہ تعالی کے حقوق پرتجاوز ہے۔اس قوی اوربرتر ذات کے لیے اپنے حقوق کاحصول کوئی مشکل نہیں ہے۔ اس لیے ہمدردی اورخیر خواہی کے جذبے سے کہتا ہوں کہ حکمراں طبقہ متنازع وقف املاک ایکٹ کے نفاذ سے باز رہے اور اسے فی الفور منسوخ کیا جائے یا اس میں اسلامی تعلیمات کے مطابق ترامیم کی جائیں۔
تاریخ اسلامی میں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ حکمرانوں کو ان جائیدادوں کو واپس لینے کی اجازت نہیں دی گئی جو خود حکمرانوں نے فقراء کے لیے مخصوص کی تھیں چنانچہ ۷۷۰ھ میں مصر کے حاکم برقوق نے چاہا تھا کہ اس سے پہلے حکمرانوں نے جو زمینیں بیت المال کے کسی خاص مصرف کے لیے مخصوص کردی ہیں انہیں واپس لے لے تو اس وقت کے علماء شیخ سراج الدین بلقینی،برہان ابن جماعہ اور شارح ہدایہ شیخ اکمل الدین بابرتی رحمہم اللہ نے سختی سے اس کی مخالفت کی ۔[1]
۲۔وقف کے متعلق ا مت اسلامیہ کا چودہ سوسالہ عمل یہ رہا ہے کہ یہ ادارہ آزاداورمختار رہا ہے ۔اگر کبھی ریاست نے موقوفہ جائیدادوں کا انتظام سنبھالا ہے تو :
- وہ خود ریاست یا سلاطین نے وقف کی تھیں،یا
- ریاست کو اس کو تولیت سپرد کی گئی تھی جیسا کہ وزارت اوقاف کو کوئی جائیداد کو حوالہ کی جائے۔ یا
- حاکم نے بنجر زمین کسی کوسپرد کی تھی او رمالک نے وقف کردی تھی ۔یا وہ بیت المال کی زمینیں تھیں جو بیت المال کے مصارف پر وقف کی گئی تھیں ،یا
- وہ ان چند صورتوں میں داخل ہیں جن میں وقف کا انتظام لینے کی خود شریعت نے ریاست کو اجازت دی تھی اس کے علاوہ اگر کچھ ہوا ہے تو وہ حکمرانوں کا ذاتی عمل تھا،شریعت کی منشا نہ تھی۔
۳۔وقف کا بنیادی تصور تمام ہی مذاہب ونظریات میں پایا جاتا ہے۔مسجد حرام حضرت ابراہیم خیل اللہ علیہ السلام اورمسجد اقصی حضرت سلیمان علیہ السلام کے اوقاف ہیں۔ بئر زمزم اور جو دیگر کنویں کھودے گئے تھے وہ عام لوگوں کے استعمال کے لیے تھے۔مختلف مذاہب میں عبادت خانوں کے لیے جاگیریں مختص کی گئیں جن سے اخراجات پورے ہوتے تھے۔زمانہ جاہلیت میں بحیرہ ،سائبہ ،وصیلہ اورحام کی شکل میں جانوروں کو بتوں کے لیے مخصوص کیا جاتا تھا ۔ان جانوروں کا نہ کوئی دودھ استعمال کرسکتا تھا اور نہ ہی سواری کرسکتا تھا۔یہ وقف کے مشابہ شکل تھی جو جاہلیت میں رائج تھی۔قدیم مصری تاریخ میں معابد کے لیے زمینیں خاص کردیتے تھے جن کی آمدنی معابد کی تعمیر ومرمت پر خرچ ہوتی تھی۔رومیوں کے ہاں بھی کنیساؤں اوررفاہی اداروں کا تصور ملتا ہے۔موجودہ جرمن قانون میں وقف سے مشابہ ایک شکل ملتی ہے جس میں کوئی شخص اپنا مال کسی خاص خاندان کے لیے ایک متعینہ مدت تک مخصوص کرسکتا ہے۔
ان تمام مذاہب اوراقوام میں ایک مشترک خصوصیت کے طور پر صفت پائی جاتی ہے کہ اوقاف کو نہ کوئی بیچ سکتا تھا اور نہ ہی اس کا مالک بن سکتا تھا۔مصری تاریخ میں تو خاندان پر وقف کی صورت میں تولیت کا حق بھی صرف بڑے بیٹے کو ملتا ہے۔
اقوام اور مذاہب کے اس مختصر جائزے سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ مملکت خداداد پاکستان اس ایکٹ کی صورت میں وہ کچھ کرنے جارہی ہے جس کا ان خداناآشنا تہذبیوں اوروحی کی روشنی سے محروم قوموں کے ہاں بھی تصور نہیں ملتا ہے۔[2]
۴۔وقف کا بنیادی تصور اگر چہ اورمذاہب اورنظریات میں بھی ملتا ہے مگر جس وسیع پیمانے ،منظم صورت اورادارہ جاتی شکل میں اسلام نے اس کو وجود بخشا ہے ،اس کی نظیر لانے سے اوراقوام اورمذاہب عاجز ہیں۔وقف کے اس وسیع اور منظم شکل کے باوجود فقہ اسلامی جو قرآن وسنت کے منضبط شکل کا نام ہے ،اس میں ریاست کے دخل کو بہت کم نہ ہونے کے برابر رکھا گیا ہے بلکہ جن صورتوں میں ریاستی قوت کی ضرورت بھی ہو ان میں بھی ریاست سے رابطہ اگر وقف کے مفاد کے لیے مضر ہو تو فقہاء لکھتے ہیں کہ ریاست کے علم میں لائے بغیر دین دار اورمسلمان لوگو ں کی جماعت اس کا فیصلہ کرلیا کرے۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ شریعت اس معاملے میں کس قدر حساس ہے اور وہ حکومت اورحکومتی کارندوں کے مداخلت سے موقوفہ جائیدادوں کو کس قدر دوررکھنا چاہتی ہے۔[3]
۵۔اسلامی تاریخ میں حکومت اورحکمرانو ں کا یہ کردار رہا ہے کہ انہوں نے اموال وقف کیے ہیں اور ایسی پالیسیاں تشکیل دی ہیں جو وقف کے حق میں مفید ثابت ہوئی ہیں چنانچہ سرورِکونین ،فخرِموجودات جناب رسول اللہ ﷺ نے مسجد نبوی کی جگہ خرید کر وقف کی،سات باغ بھی آپ ﷺ نے وقف فرمائے ہیں اوروفات کے بعد جو جائیدادیں آپ ﷺ کے زیر تصرف تھیں وہ بھی صدقہ (وقف )قرارپائیں۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے خیبر کی اراضی وقف کی اورنہرابی موسی ،نہر معقل،نہر سعد وغیرہ کھدوائیں،عمارتیں تعمیر کیں جن میں چھاونیاں ،مساجد ومدارس ،مہمان خانے،سڑکیں اورپل ،چوکیاں،سرائیں وغیرہ شامل ہیں۔ خلیفہ راشد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے اوقاف کی ایک طویل فہرست ہے۔ اورحضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ینبع کی زمین وقف فرمائی۔بعد کے سلاطین نے اس روایت کو برقرار رکھا چنانچہ نظام الملک طوسی نے مدرسہ نظامیہ بغداد قائم کیا، پھر نیشابور،بلخ،اصفہان،ہرات اوربصرہ میں اس قسم کے ادارے قائم کیے اور ان کے مختلف شہروں میں اوقاف قائم کیے۔سلطان صلاح الدین ایوبی کے اوقاف تو چپے چپے پر پھیلے ہوئے تھے،سلطان محمود غزنوی نے غزنی میں اور غوری نے اُچ بہاولپور میں اورفیروز شاہ نے دہلی میں مدارس قائم کیے۔انگریز سیاح ہملٹن کا بیان ہے کہ اٹھارہویں صدی میں ٹھٹھہ میں چار سو مدارس تھے۔قلقشقندی مصری نے لکھا ہے محمد شاہ تغلق کے زمانے میں دہلی میں ہزار مدارس تھے۔ہارون رشید نے بغداد کا بیت الحکمت کتب خانہ،ولید بن عبدالملک نے ہسپتال قائم کیے۔
حکمرانوں اور سلاطین کی اس تاریخ کو سامنے لانے کا مقصد یہ ہے کہ اگرریاست یا حکمراں خودوقف نہیں کرسکتے ہیں تو پہلے سے موجود اوقاف کو بھی برباد نہ کریں ۔ ؎قوت نیکی نہ داری بد نہ کن
۶۔انگریز سے آزاد ی اور اس مملکت کو حاصل کرنے کا بڑا مقصد یہ تھا کہ مسلمان اپنی معاشی ،سماجی اور معاشرتی زندگی اسلام کے زریں اصولوں کے مطابق بسر کرسکیں، جب کہ برطانوی سامراج میں ایسا ممکن نہ تھا۔برطانوی سامراج کا ایک اسلام دشمن اقدام یہ بھی تھا کہ اس نے اوقاف کو قبضے میں لے لیا تھا ،جس سے اوقاف تباہ ہوکر رہ گئے تھے۔طانوی سامراج کا یہ عمل آج بھی اس کے ماتھے پر کلنگ کا ٹیکہ سمجھا جاتا ہے۔
۷۔انگریزی قانون میں وقف سے ملتی جلتی شکل ٹرسٹ کی ہے۔ جس میں مالک جائیداد کو کسی ٹرسٹی کے حوالے کردیتا ہے اور اس کے منافع کسی تیسرے کو پہنچتے ہیں ۔ٹرسٹ وقف کے مشابہ ضرور ہے مگر اس کے باوجو ددونوں میں بہت وجوہ سے فرق ہے: مثلا ٹرسٹ کا صرف قانونی لحاظ سے جائز مقصد کے لیے قائم ہونا کافی ہے۔ٹرسٹ مالک کی ملکیت میں واپس بھی آسکتا ہے اورٹرسٹ کو ختم کرنے کے لیے مالک کاپنے پاس اختیار بھی رکھ سکتا ہے اورناقابلِ انتفاع ہونے کے بعد ٹرسٹ ختم ہوجاتا ہے جب کہ وقف کو بیچ کر دوسری چیز خرید کر وقف کردی جاتی ہے۔اس ایکٹ کے بنانے والوں کے ذہن میں دونوں کا تصور صاف نہیں ہے اس لیے وقف کے لیے وہ احکامات قانون میں درج کردیے گئے ہیں جو وقف کے متعلق جائز نہیں ہیں مثلا وقف کو فروخت کرکے اس کی قیمت کو دیگر فلاحی مدات میں خرچ کرنے کی اجازت دی گئی ہے ،حالانکہ شرعًا اسی نوع کی جائیداد خرید کر وقف کرنا ضروری ہے۔
۸۔وقف میں واقف کی رائے کا احترام بنیادی اصول ہے۔شریعت اسے اس حد تک اہمیت دیتی ہے کہ اس کی خواہش کو اپنے حکم کا درجہ دیتی ہے چنانچہ "نص الواقف کنص الشارع" مشہور جملہ ہے۔وقف کے بے شمار احکام اس ایک اصل پر مبنی ہیں مگر اس ایکٹ میں ہرقدم پر اس بنیادی اصول کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
دوسراحصہ
ایکٹ کی شقوں پر تبصرہ
دفعہ۲۔وضاحت۲:
بھارت میں چھوڑی گئی وقف جائیداد کے بدلے الاٹ جگہ وقف متصور ہوگی۔
تبصرہ:
وقف جائیداد کے بدلے جائیداد دینا حکومت پر لازم نہیں تھا، لیکن جب وقف کے بدلے زمین دے دی تو وہ جس شخص کو ملی ہے اس کی ذاتی ملکیت ہے ، اسے وقف شمار نہیں کیا جاسکتا جب تک مالک کی طرف سے وقف کا ثبوت نہ ہو۔
دفعہ۲۔وضاحت ۳:
وقف کی آمدنی یا تبادلے سے حاصل ہونے والی جائیداد کا موقوفہ ہونا
تبصرہ
یہاں قانون سازی کو غلط فہمی ہوئی ہے۔دراصل موقوف علی الوقف اور مملوک للوقف میں فرق ہے۔ جوجائیداد وقف کی آمدنی سے خریدی جائے وہ وقف نہیں بلکہ وقف کی مملوکہ ہوگی اوراس کامصرف بھی اصل وقف والا مصرف ہوگا، تاہم وقف کی مملوک ہونے کی حیثیت سے وقف کی ضرورت کے تحت اسے بیچاجاسکےگا۔[4]
دفعہ ۲۔وضاحت ۴:
مزار کے احاطے میں سے کسی شخص کو پیش کیے گئے کسی بھی قسم ، نوعیت یا استعمال کے عطیات، چندے یا اشیاء وقف املاک متصور ہوں گی۔
تبصرہ:
۱۔مزار کے احاطے میں اس طرح کی اشیاء سے یہ قیاس ابھرتا ہے ،لیکن اس قیاس کی اگر صراحت کے ساتھ تردید ہوجائے مثلا دینے والا ذاتی ملکیت کی صراحت کردے تو اشیاء موہوب لہ کی ملکیت ہوں گی لان الصریح یفوق الدلالة
۲۔غیر منقولی اشیاء میں سے ہرچیز کا وقف ازروئے شرع درست نہیں ہوتا، بلکہ ایسی اشیاء کا وقف درست ہوتا ہے جو غیر منقولی کے تابع ہو یا جس کا عرف ورواج ہو۔[5]
دفعہ۲۔وضاحت۵:
تبصرہ
اس میں بھی وہی تفصیل ہے جواوپر گزرچکی ۔
دفعہ ۲۔وضاحت (۶):
تبصرہ
اس عبارت میں جن افراد اور اداروں کاذکر کیا گیا ہے ان پر وقف ہوسکتا ہے، مگر اس کے باوجود اس عمل کو بجائے وقف کے خیراتی مقصد گردانا گیا ہے، جس سے مترشح ہوتا ہے کہ الفاظ کے ہیر پھیر سے بعض اداروں کو ایکٹ سے تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔شرعی لحاظ سے یہ تفریق درست نہیں ۔اس مسئلے کی تحقیق یہ ہے کہ :
مصرف کے لحاظ سےوقف کی دوقسمیں ہیں :
وقف عام اور وقف خاص
جو وقف مصالح عامہ جیسے غرباومساکین ،مساجد ،مدارس،شفاخانوں ،لنگرخانوں،جنازہ گاہوں،ہسپتالوں،پلوں،سڑکوں اورسرایوں وغیرہ کے لیے ہواسے وقف عام اور جو اس کے علاوہ ہو اسے وقف خاص کہتےہیں۔
نوٹ :۔عربی کتب میں اول کووقف خیری اورثانی کو وقف اہلی اورشخصی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ دونوں میں فرق وامتیاز کے لیے کوئی خاص الفاظ نہیں ہیں تاہم وقف عام سے مفاد عامہ مقصودہوتا ہے اور وقف خاص کا مقصد عموما واقف کی ذات یا اہل وعیال یا اقارب واعزہ کی بہبود مقصودہوتی ہے۔
نیز ازروئے شرع درج ذیل افراد پر وقف ہوسکتا ہے:
وقف اشخاص اورمقاصد ذیل پر ہوسکتا ہے:
۱۔مسلمان،ذمی اور کافر پر ہوسکتا ہے مگر حربی جو دارالحرب کا باشندہ ہواس پر نہیں ہوسکتا
۲۔مردوعورت دونوں پر ہوسکتا ہے۔
۳۔بالغ ونابالغ پر ہوسکتا ہے۔
۴۔وارث اورغیر وارث پر ہوسکتا ہے۔
۵۔اقربا اورہمسایوں پر ہوسکتا ہے۔
۶۔اجنبیوں اور غیروں پر ہوسکتا ہے۔
۷۔جو اولاد یا لوگ ہنوز پیدا نہ ہوئے ہوں ا ن پر ہوسکتا ہے۔
۸۔جملہ امورخیر کے لیے ہوسکتا ہے۔
۹۔خود واقف وقف کے منافع سے منتفع ہوسکتا ہے۔
دفعہ ۳۔ناظم اعلی کی تقرری:
تبصرہ:
چیف کمشنرایسے اختیارات ناظم اعلی کوتفویض نہیں کرسکتا ہے جن اختیارات کا اس دفعہ میں بیان ہے، کیوں کہ تفویض کے لیے ضروری ہے کہ چیف کمشنر خود ایسے اختیارات رکھتا ہو جب کہ وقف کے متعلق اختیارات خود واقف کو ہیں یا واقف کے مجاز نمائندے کو ہیں ۔الغرض خفتہ خفتہ راچہ کند بیدار
اگر چہ بعض صورتوں میں عدالت کو اختیار حاصل ہوتا ہے ،مگر اس کی ولایت واقف کی ولایت سے خاص ہونے کی بناپر موخر ہوتی ہے اورچند مخصوص صورتوں میں اسے حاصل ہوتی ہے۔خود موقوف علیہ کو بھی ولایت حاصل ہوتی ہے، جب وقف متعین اور محصورافراد پرہو اورواقف یا متولی کے انتقال کے بعد وہ کسی کو متولی مقرر کردیں اورجسے متولی نامزد کریں وہ تولیت کی اہلیت بھی رکھتا ہو۔
پاکستان میں وزارت اوقاف کی حیثیت ریاست کے مجاز نمائندے کی ہے جسے ولایت عامہ ہے جو متولی کی ولایت سے کم ترہوتی ہے ،اس لیے وزارت کو متولی کی موجودگی میں اوقاف میں مداخلت کا حق نہ ہے البتہ جو اوقاف وزارت کے ماتحت ہیں ان میں وزارت کی حیثیت متولی کی ہے، جس پر اسے ولایت خاصہ بھی حاصل ہے۔[6]
دفعہ۴۔(۱):
تبصرہ:
ناظم یا ڈپٹی ناظم کوصرف وزارت اوقاف کے ماتحت اوقاف کے متعلق اختیارات سپرد کیے جاسکتے ہیں۔
دفعہ ۶۔(۱) وقف املاک کی رجسٹریشن :
تبصرہ:
وقف محض واقف کے اظہارسے وجود میں آجاتا ہے، کیوں کہ اسقاط کے قبیل سے ہے اور اسقاط میں محض ایجاب کافی ہوتا ہے۔ ایجاب کبھی لفظی ہوتا ہے، جب واقف زبان سے الفاظ وقف اداکرے یا تحریر کرے اور کبھی فعلی ہوتا ہے، جب وہ ایسا فعل انجام دے جو عرف عام میں وقف پر دلالت کرتا ہو۔حکومت وقف کی تشکیل کے لیے کسی ایسی شرط کا اضافہ نہیں کرسکتی جو شرط خود شریعت نے عائد نہ کی ہو ،فقہی اصطلاح میں وہ غیر لازم کو لازم نہیں ٹھہراسکتی ہے۔اس کے قانون سازی کا دائرہ صرف اورصرف مباح کی تین قسموں میں سے صرف مباح اصلی ہے۔[7]
دفعہ ۸۔(۱)ناظمِ اعلی کا وقف املاک اپنے زیرِ اختیار لینا:
یہ اوقاف کا بحق سرکارضبط کرنا ہے۔اس پر عمل درآمد برطانوی سامراج کی یادکو دہرانا ہوگا۔وقف پر اختیار واقف کو ہے یا اس کے مقرر کردہ متولی کو ہے ۔ تقرر متولی کے سلسلے میں بانی وقف کے اختیارات کی تفصیل درج ذیل ہے:
- واقف چاہے تو خود متولی ہوسکتا ہے۔
- کسی کو اور متولی مقررکرسکتا ہے۔
- اپنی اولاد یا اقارب میں سے کسی کو مقررکرسکتاہے۔
- شخصی نامزدگی کی بجائے مستقبل کے متولی کے صفات متعین کرسکتا ہے،مثلا یہ کہ سن رسیدہ اورفہمیدہ شخص وقف کا انتظام وانصرام سنبھالےگا۔
- ہونے والے متولیان میں ترتیب قائم کرسکتا ہے۔
- ایک ہی وقت میں ایک سے زائد متولیان کا تقررکرسکتا ہے۔[8]
واقف کو عہدہ تولیت کی شرائط کی متعلق تغیر وتبدل کا اختیار ہے اگرچہ اس نے تصریحی طور پر یہ اختیاراپنے لیے محفوظ نہ رکھا ہو۔[9]
یہ شرط غیر متعلقہ ہے کہ واقف کے حین حیات ناظم اعلی جائیداد کو زیر اختیار نہیں لے گا۔
ضمنی دفعہ ۲ واقف اورمتولی کے اختیارات کےخلاف ہے۔شریعت نے جسے اختیار بخشا ہو اسے مخلوق اختیار سے محروم نہیں کرسکتی ہے۔
دفعہ۱۰۔غیرقانونی قابضین کی بے دخلی:
تبصرہ:
کوئی شخص اس خلافِ شریعت قانون کے تحت ناجائز قابض ٹھہرتا ہو، مگر ازروئے شرع وہ جائز قابض ہو تو اسے بے دخل نہیں کیا جاسکتا، بلکہ خودحکومت کا دخل مداخلت بے جا کہلائے گا۔
دفعہ۱۱۔پٹہ داری کی معطلی:
تبصرہ:
مزارع یا پٹہ دار کو معاہدہ کی شرائط کے تحت بے دخل یا برقرار رکھا جاسکتا ہے اورمجاز وہ شخص ہےجسے وقف کی تولیت حاصل ہے۔
اپیل ناظم اعلی کے روبرو ہوگی،یہ بھی انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے کیونکہ ناظم اعلی خود فریق ہے۔
دفعہ۱۳۔(۱):
تبصرہ:
اس دفعہ کا تعلق قانون معیاد سماعت سے ہے۔عدالت میں کب تک نالش دائر کی جاسکتی ہے ،اس کاانحصار مقدمے کی نوعیت اور متعلقہ حالات پر ہوتا ہے مگر اندریں تیس یوم اپیل نہ کرنے پر کسی پر انصاف کے دروازے بندکردینا انصاف کاقتل ہے۔
اس دفعہ کا آخری پیرا بھی غیر شرعی ہے۔
دفعہ۱۴:
تبصرہ:
یہ دفعہ غیر شرعی افعال کو مزید استحکام فراہم کرتی ہے اور خود اپنے نظام انصاف پر عدم ااعتماد کی واضح دلیل ہے۔
دفعہ۱۶۔(۱):
تبصرہ:
اگر زیر اختیار لینے کا شرعی جواز فراہم کردیا جائے تو ناظم اعلی کو اسکیم تیار کرنے کا حق ہوگا ۔بصورت دیگر یہ غاصب کی مال مغصوبہ کے متعلق پلاننگ کہلائے گی۔
ذیلی دفعہ ۲کے تحت واقف کی خواہشات کی ممکنہ حد نہ صرف تعمیل کی جائے بلکہ اس کی خواہش کے مطابق جائیداد کاقبضہ اورانتظام اس کے حوالے کیا جائے۔
دفعہ ۱۷:
تبصرہ:
حسبِ سابق یہ دفعہ بھی خلاف شریعت امور پر مشمل ہے۔تفصیل حسب ذیل ہے:
۱۔وقف کو نہ بیچا جاسکتا ہے نہ ہی خریدا جاسکتا ہے۔[10]جن صورتوں میں وقف کی بیع جائز ہے وہ صرف دو ہیں:
۱۔وقف ناقابلِ انتفاع ہو۔
۲۔واقف نے استبدال کی شرط اپنے لیے محفوظ رکھی ہو۔
مگر زیادہ اقتصادی فوائد کے حصول کے لیے وقف کی بیع کا جواز ہرگز نہیں ہے۔
بالفرض وقف کو فروخت کردیا جائے تو بیع کالعدم ہے اور اگر مندرجہ بالا دو صورتوں میں وقف کو فروخت کیا گیا ہو تو قیمت سے اسی جنس کی جائیداد خرید کر وقف کرنا ضروری ہے۔ہماری مقننہ کے خیال میں قیمت کو کسی بھی مصرف میں استعمال کیا جاسکتا ہے ،حالاں کہ ایسا ہر گز نہیں ہے۔
وقف کی بیع کے متعلق احکام کا حاصل یہ ہے کہ اگروقف ناقابل انتفاع ہوجائے مثلا:
- زمین بنجر ہوجائے اور اس پر کاشت ناممکن ہوجائے
- جائیداد کے اخراجات اس کے منافع سے بڑھ جائیں
- وقف رہائشی مقاصد کےلیے ہواور علاقہ ویران ہوجائے اور کوئی اسے کرایہ پر لینے کے بھی آمادہ نہ ہو
- موقوفہ عمارت منہدم یا کمزور ہوجائے اورقابل استعمال نہ رہے اور وقف کی ملکیت میں فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے اس کی تعمیر ممکن نہ ہواور کوئی پیشگی کرایہ دینے کے لیے تیار نہ ہوتاکہ اس کی مرمت کرلی جائے
مندرجہ بالاصورتِ حال میں :
الف۔اگر وقف مسجد کے علاوہ جائیداد ہو تو عدالت یا اس کے مجاز نمائندہ کی اجازت سے اسے فروخت کرکے دوسری مناسب جگہ خرید کروقف کردی جائےگی۔
ب۔اگر مسجد ویران ہوجائے اور قابل انتفاع نہ رہے تو اسے اس حال پر چھوڑ دیاجائےگااور اسے خریدنا ،بیچنا یا منتقل کرنا جائز نہ ہوگا۔
دفعہ ۱۷ کی شق بقیہ شقیں بھی اس وجہ سے ناجائز ہیں کہ وقف کی آمدنی اس کے متعینہ مصارف میں صرف کرنا ضروری ہے۔اس بارے میں شرعی احکام کا حاصل یہ ہے کہ اتحاد جہت کے وقت بوقت ضرورت ایک وقف کی آمدنی دوسرے وقف پر خرچ کرنا جائز ہے ،اگر چہ واقف الگ الگ ہوں اوراختلاف جہت کے وقت ایک وقف کی آمدنی دوسرے پر استعمال کرنا جائز نہیں اگر چہ واقف ایک ہی ہو۔[11]
دفعہ۔۱۸:
تبصرہ
وقف املاک کا استعمال ناظم اعلی کی صواب دید پر رکھنا ہرگز جائز نہیں۔اس سلسلے میں واقف کی شرائط کی رعایت واجب ہے۔
وقف کی آمدنی کو کیسے خرچ کیا جائے گا؟شریعت نے ترتیب کے ساتھ ہر جہت کو متعین کردیا ہے اور خود شریعت نے تعیین مصرف کے سلسلے میں واقف کو وسیع اختیار دیا ہے۔
دفعہ ۲۱۔(۱) ناظم اعلی کو بعض وہ اختیارات بخشے گئے ہیں جن کا وہ شرعا مجاز نہیں ہے۔
دفعہ ۲۲۔(۱)
تبصرہ:
بل کے محرک کا ذکر ہے۔
دفعہ۔۲۴۔دائرہ سماعت کا امتناع:
تبصرہ:
عدل وانصاف کے مسلمہ تقاضوں کے خلاف ہے۔
دفعہ ۲۶۔نیک نیتی سے کیے گئےاقدام:
تبصرہ:
نیک نیتی دنیوی مواخذے سے بریت کے لیے معقول عذر نہیں ہے۔مزید برآں نیک نیتی کے ساتھ عمل کا نیک ہونا بھی ضروری ہے۔
دفعہ ۲۷۔جرائم:
تبصرہ:
جرم اگر معصیت نہ ہو تو وہ جرم نہ ہے اور اس پر سزا کا نفاذ بھی جائز نہ ہے۔اس ایکٹ میں ایسے افعال کو جرم گردانا گیا ہے جو معصیت نہ ہونے کی وجہ سے جرم نہ ہے اورجرم نہ ہونے کی وجہ سے اس پرمالی یا بدنی سزا کا نفاذ بھی جائز نہ ہے۔
دفعہ ۲۹۔تعلیمی اداروں کے لیے تشکیلِ نصاب اورتعلیمی اداروں کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال:
یہ موضوع اکابرِ وفاق سے متعلقہ ہے۔
[1] الفتاوى الهندية - (18 / 236)
أما تعريفه فهو في الشرع عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى حبس العين على ملك الواقف والتصدق بالمنفعة على الفقراء أو على وجه من وجوه الخير بمنزلة العواري۔۔۔ وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد ۔۔۔وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما
[2] وأما الإسلام فليس بشرط فلو وقف الذمي على ولده ونسله وجعل آخره للمساكين جاز ويجوز أن يعطي المساكين المسلمين وأهل الذمة وإن خص في وقفه مساكين أهل الذمة جاز ويفرق على اليهود والنصارى والمجوس منهم إلا إن خص صنفا منهم فلو دفع القيم إلى غيرهم كان ضامنا ولو قلنا: إن الكفر ملة واحدة ولو وقف على ولده ونسله ثم للفقراء على أن من أسلم من ولده فهو خارج من الصدقة لزم شرطه وكذا إن قال من انتقل إلى غير النصرانية خرج اعتبر نص على ذلك الخصاف كذا في فتح القدير، و في فتاوى أبي الليث نصراني وقف ضيعة له على أولاده وأولاد أولاده أبدا ما تناسلوا وجعل آخره للفقراء كما هو الرسم فأسلم بعض أولاده يعطى له كذا في المحيط.
(الفتاوى الهندية ، كتاب الوقف 2/ 353 ط: دار الفكر)
[3] مطلب الأفضل في زماننا نصب المتولي بلا إعلام القاضي وكذا وصي اليتيم ثم ذكر عن التتارخانية ما حاصله أن أهل المسجد لو اتفقوا على نصب رجل متوليا لمصالح المسجد فعند المتقدمين يصح ولكن الأفضل كونه بإذن القاضي ثم اتفق المتأخرون إن الأفضل أن لا يعلموا القاضي في زماننا لما عرف من طمع القضاة في أموال الأوقاف وكذلك إذا كان الواقف على أرباب معلومين يحصى عددهم إذا نصبوا متوليا وهم من أهل الصلاح ا هـ
حاشية رد المختار على الدر المختار - (4 / 422)
[4] الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (4 / 416)
( اشترى المتولي بمال الوقف دارا ) للوقف ( لا تلحق بالمنازل الموقوفة ويجوز بيعها في الأصح ) لأن للزومه كلاما كثيرا ولم يوجد ها هنا
حاشية رد المختار على الدر المختار - (4 / 377)
واعلم أن عدم جواز بيعه إلا إذا تعذر الانتفاع به إنما هو فيما إذا ورد عليه وقف الواقف أما إذا اشتراه المتولي من مستغلات الوقف فإنه يجوز بيعه بلا هذا الشرط لأن في صيرورته وقفا خلافا والمختار أنه لا يكون وقفا فللقيم أن يبيعه متى شاء لمصلحة عرضت ا هـ
الفتاوى الهندية - (19 / 23)
متولي المسجد إذا اشترى بمال المسجد حانوتا أو دارا ثم باعها جاز إذا كانت له ولاية الشراء ، هذه المسألة بناء على مسألة أخرى إن متولي المسجد إذا اشترى من غلة المسجد دارا أو حانوتا فهذه الدار وهذا الحانوت هل تلتحق بالحوانيت الموقوفة على المسجد؟ ومعناه أنه هل تصير وقفا ؟ اختلف المشايخ رحمهم الله تعالى قال الصدر الشهيد : المختار أنه لا تلتحق ولكن تصير مستغلا للمسجد كذا في المضمرات ولو اشترى بغلته ثوبا ودفعه إلى المساكين يضمن ما نقد من مال الوقف لوقوع الشراء له كذا في البحر الرائق ناقلا عن الإسعاف .
[5] حاشية رد المختار على الدر المختار - (4 / 363)
مطلب في وقف المنقول قصدا قوله ( كل منقول قصدا ) أما تبعا للعقار فهو جائز بلا خلاف عندهما كما مر لا خلاف في صحة وقف السلاح والكراع أي الخيل للآثار المشهورة والخلاف فيما سوى ذلك فعند أبي يوسف لا يجوز وعند محمد يجوز ما فيه تعامل من المنقولات واختاره أكثر فقهاء الأمصار كما في الهداية وهو الصحيح كما في الإسعاف وهو قول أكثر المشايخ كما في الظهيرية لأن القياس قد يترك بالتعامل ونقل في المجتى عن السير جواز وقف المنقول مطلقا عند محمد وإذا جرى فيه التعامل عند أبي يوسف وتمامه في البحر والمشهور الأول
الفتاوى الهندية - (18 / 296)
وأما وقف المنقول مقصودا فإن كان كراعا أو سلاحا يجوز فيما سوى ذلك إن كان شيئا لم يجر التعارف بوقفه كالثياب والحيوان لا يجوز عندنا وإن كان متعارفا كالفأس والقدوم والجنازة وثيابها وما يحتاج إليه من الأواني والقدور في غسل الموتى والمصاحف لقراءة القرآن قال أبو يوسف رحمه الله تعالى : إنه لا يجوز ، وقال محمد رحمه الله تعالى : يجوز ، وإليه ذهب عامة المشايخ رحمهم الله تعالى منهم الإمام السرخسي كذا في الخلاصة وهو المختار والفتوى على قول محمد رحمه الله تعالى ، كذا قال شمس الأئمة الحلواني كذا في مختار الفتاوى ولو جعل جنازة وملاءة ومغتسلا يقال بالفارسية حوض مسين وقفا في محله فمات أهلها كلهم لا يرد إلى الورثة بل يحمل إلى مكان آخر أقرب إلى هذه المحلة كذا في الخلاصة .
[6] حاشية رد المختار على الدر المختار - (4 / 424)
مطلب المراد القضاة في كل موضع ذكروا القاضي في أمور الأوقاف قوله ( للقاضي ) قيده في البحر بقاضي القضاة أخذا من عبارة الفصولين التي قدمناها قبل ورقة ثم قال وعلى هذا فقولهم في الاستدانة بأمر القاضي المراد به قاضي القضاة وفي كل موضع ذكروا القاضي في أمور الأوقاف بخلاف قولهم وإذا رفع إليه حكم قاض أمضاه فإنه أعم كما لا يخفى ا هـ
حاشية رد المختار على الدر المختار - (4 / 423)
مطلب ولاية القاضي متأخرة عن المشروط له ووصيه فأفاد أن ولاية القاضي متأخرة عن المشروط له ووصيه فيستفاد منه عدم صحة تقرير القاضي في الوظائف في الأوقاف إذا كان الوقف شرط التقرير للمتولي وهو خلاف الواقع في القاهرة في زماننا وقبله بيسير ا هـ
وأفتى في الخيرية بهذا المستفاد وقال وبه أفتى العلامة قاسم كما قدمناه عند قول المنصف ينزع لو غير مأمون
قوله ( ولم يوص ) أي المشروطة له قال في البحر إذا مات المتولي المشروط له بعد الواقف فالقاضي ينصب غيره وشرط في المجتبى أن لا يكون المتولي أوصى به لآخر عند موته فإن أوصى لا ينصب القاضي ا هـ
حاشية رد المختار على الدر المختار - (4 / 374)
مطلب لا يملك القاضي التصرف في الوقف مع وجود ناظر ولو من قبله قوله ( بل المتولي أو القاضي ) ظاهره أن للقاضي الإجارة ولو أبى المتولي إلا أن يكون المراد التوزيع فالقاضي يؤجرها إن لم يكن لها متول أو كان وأبى الأصلح وأما مع حضور المتولي فليس للقاضي ذلك بحر وفي الأشباه في قاعدة الولاية الخاصة أقوى من الولاية العامة بعد أن ذكر فروعا وعلى هذا لا يملك القاضي التصرف في الوقف مع وجود ناظر ولو من قبله اه قال الرملي وسيأتي أن ولاية القاضي متأخرة عن المشروط له ووصيه تنبه اه ومفاده أنه ليس له الإيجار مع حضور المتولي وأيده الرملي في محل آخر واستند له بالقاعدة المارة لكنه نقل بعده عن أوقاف هلال أن القاضي إذا آجر دار الوقف أو وكيله بأمره جاز قال وظاهره إطلاق الجواز مع وجود المتولي ووجهه ظاهر اه
لكن في فتاوى الحانوتي أن تنصيصهم على أن القاضي محجور عن التصرف في مال اليتيم عند وصي الميت أو القاضي يقتضي بالقياس عليه أنه هنا كذلك فلا يؤجر إلا إذا لم يكن متول أو كان وامتنع اه وعليه يحمل كلام هلال
[7] حاشية رد المختار على الدر المختار - (4 / 356)
وعند أبي يوسف يزول بمجرد القول ولم يرد أنه لا يزول بدونه لما عرفت أنه يزول بالفعل أيضا بلا خلاف ا هـ
حاشية رد المختار على الدر المختار - (4 / 343)
اتفقوا على صحة الوقف بمجرد القول وإنما الخلاف في اللزوم
حاشية رد المختار على الدر المختار - (4 / 338)
ثم إن أبا يوسف يقول يصير وقفا بمجرد القول لأنه بمنزلة الإعتاق عنده وعليه الفتوى
[8] الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (4 / 421)
( ولاية نصب القيم إلى الواقف ثم لوصيه ) لقيامه مقامه ولو جعله على أمر الوقف فقط كان وصيا في كل شيء خلافا للثاني ولو جعل النظر لرجل ثم جعل آخر وصيا كانا ناظرين ما لم يخصص وتمامه في الإسعاف فلو وجد كتابا وقف في كل اسم متول وتاريخ الثاني متأخر اشتركا ( ثم ) إذا مات المشروط له بعد موت الواقف ولم يوص لأحد فولاية النصب ( للقاضي ) إذ لا ولاية لمستحق إلا بتولية كما مر ( وما دام أحد يصلح للتولية من أقارب الواقف لا يجعل المتولي من الأجانب ) لأنه أشفق ومن قصده نسبة الوقف إليهم
حاشية رد المختار على الدر المختار - (4 / 421)
مطلب ولاية نصب القيم إلى الوقف ثم لوصيه ثم للقاضي قوله ( ولاية نصب القيم إلى الواقف ) قال في البحر قدمنا أن الولاية للواقف ثابتة مدة حياته وإن لم يشترطها وإن له عزل المتولي وإن من ولاه لا يكون له النظر بعد موته أي موت الواقف إلا بالشرط على قول أبي يوسف
حاشية رد المختار على الدر المختار - (4 / 379)
مطلب في اشتراط الواقف الولاية لنفسه قوله ( جاز بالإجماع ) كذا ذكره الزيلعي وقال لأن شرط الواقف معتبر فيراعى لكن الذي في القدوري أنه يجوز على قول أبي يوسف وهو قول هلال أيضا وفي الهداية أنه ظاهر الرواية
حاشية رد المختار على الدر المختار - (4 / 457)
مطلب في شرط التولية للأرشد فالأرشد قوله ( وكذا لو شرطه لأرشدهم ) فيقدم بعد الاستواء فيه الأسن ولو أنثى كما في الإسعاف والأعلم بأمور الوقف وأفتى في الإسماعيلية بتقديم الرجل على الأنثى والعالم على الجاهل أي بعد الاستواء في الفضيلة والرشد
[9] حاشية رد المختار على الدر المختار - (4 / 422)
إن التولية من الواقف خارجة عن حكم سائر الشرائط لأن له فيها التغيير والتبديل كلما بدا له من غير شرط في عقدة الوقف على قول أبي يوسف وأما باقي الشرائط فلا بد من ذكرها في أصل الوقف ا هـ
حاشية رد المختار على الدر المختار - (4 / 423)
مطلب التولية خارجة عن حكم سائر الشرائط لأن له فيها التغيير بلا شرط بخلاف باقي الشرائط قوله ( بعد موت الواقف الخ ) قيد به لأنه لو مات قبله قال في المجتبى ولاية النصب للواقف وفي السير الكبير قال محمد النصب للقاضي اه وفي الفتاوى الصغرى الرأي للواقف لا للقاضي فإن كان الواقف ميتا فوصيه أولى من القاضي فإن لم يكن أوصى فالرأي للقاضي ا هـ بحر ومفاده أنه لا يملك التصرف في الوقف مع وجود المتولي ومنه الإيجار كما حررناه عند قول المصنف ولو أبى أو عجز عمر الحاكم بأجرتها الخ ويؤيده قوله في البحر بعد ما نقلناه عنه
[10] عن ابن عمر: أن عمر أصاب أرضا بخيبر فأتى النبي - صلى الله عليه وسلم - ليستأمر فيها، قال: إني أصبت أرضا بخيبر لم أصب مالا قط أنفس عندي منه، فما تأمر به؟ قال: "إن شئت حبست أصلها وتصدقت بها" قال: فتصدق بها عمر: أن لا تباع، ولا توهب، ولا تورث، فتصدق بها على الفقراء، والقربى، والرقاب، وفي سبيل الله، وابن السبيل، والضعيف. لا جناح على من وليها أن يأكل منها بالمعروف، أو يطعم صديقا غير متمول فيها. قال ابن عون: فحدثت به محمدا، فقال: غير متأمل مالا. قال ابن عون: وحدثني من قرأ الكتاب: غير متأثل مالا.
(صحيح ابن خزيمة 2/ 1189 ط: المكتب الإسلامي)
(فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن)
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين، كتاب الوقف 4/ 351 ط: سعيد)
[11] الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (4 / 360)
( اتحد الواقف والجهة وقل مرسوم بعض الموقوف عليه ) بسبب خراب وقف أحدهما ( جاز للحاكم أن يصرف من فاضل الوقف الآخر عليه ) لأنهما حينئذ كشيء واحد ( وإن اختلف أحدهما بأن بنى رجلان مسجدين ) أو رجل مسجدا ومدرسة ووقف عليهما أوقافا ( لا ) يجوز له ذلك