14
Rajab

غیر مسلموں کے بنائے ہوئے حلال تصدیقی اداروں کی شرعی حیثیت

بسم الله الرحمن الرحيم

تمہید

کوئی ایساادارہ جو مصنوعات  کے حلال ہونے کی تصدیق کرتا ہواوراس بنا پر حلال کاسرٹیفکیٹ  دیتا ہو ،مگر وہ ادارہ کسی غیر مسلم  ملک یا فرد کا ہو تو کیاشریعت میں ایسے حلال تصدیقی ادارے کی تصدیق کا اعتبار ہوگا   اور اس بنا پر کسی پروڈکٹ کو حلال تصور کرتے ہوئے  مسلمانوں کے لیے اس کا استعمال جائز ہوگا ؟ان سطور میں شریعت  کی روشنی میں اس کاجائزہ لیا گیا ہے۔

سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ حلال وحرام   کا تعلق شریعت کے  کس دائرے سے ہے؟

دوسرے یہ کہ کسی شئ کے  متعلق یہ کہنا کہ وہ حلال ہے یا حرام ہے،اس کادرجہ خبر کا ہے یا شہادت کا ؟کیونکہ شرعی لحاظ سے  دونوں کے احکام میں فرق ہے۔

تفصیل:

1:۔حلال وحرام کا تعلق دیانات سے ہےیعنی ان  حقوق سے ہے جو بندے اور اللہ تعالی کے درمیان  ہوتےہیں۔جو حقوق بندے  اور اس کے رب  کےدرمیان ہوتے ہیں انہیں حقوق اللہ کہتے ہیں مگر انہیں اس نام سے اس وجہ سے موسوم نہیں کرتے کہ ان میں اللہ تعالی کا کوئی فائدہ ہے  کیونکہ وہ حاجتوں سے مبرا ہے اور نہ ہی اس نام سے موسوم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ حقوق خداتعالی کے پیدا کردہ ہیں کیونکہ تمام ہی حقوق اسی نے پیدا کیے ہیں بلکہ انہیں حقوق اللہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان میں کسی خاص شخص کے بجائے معاشرے کی بہبود اور جماعت کا فائدہ متصور ہوتا ہے اور ان کی خلاف ورزی میں ضرر عظیم ہوتا ہے، پس حق اللہ کو مفاد عامہ اور عامہ خلائق کے مترادف سمجھنا چاہیے۔

ان حقوق کو حقوق اللہ سے موسوم کرنے سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ ان کو اسی طریقے  سے بجالانا چاہیے جس طرح  اللہ تعالی نے فرمایا ہے  اور اس میں عقل ومنطق کے گھوڑے نہیں دوڑانے چاہیےکیونکہ جب حق اس کا ہے تو اسی کی منشا کے مطابق اسے ادا کرنا چاہیے۔

حقوق اللہ کے مقابل حقوق العباد ہوتےہیں جو شخصی حقوق ہوتے ہیں اور ان میں حق اللہ کی طرح مفاد عامہ اور معاشرے کی بہبود مدنظر  نہیں ہوتی بلکہ فرد کا مفاد وابستہ ہوتا ہے۔دونوں حقوق میں امتیاز اس طرح کیا جاتا ہے کہ شخصی حقوق کو حاصل کرنا یا چھوڑنا اشخاص کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے مثلا ایک شخص مجاز ہے کہ اپنے مکان کا کرایہ وصول کرے یا چھوڑ دے لیکن حق اللہ کی تعمیل کرانا خود سلطنت کا فرض ہوتا ہے  کیونکہ ریاست جماعت کی نمائندہ ہوتی ہے۔

حلال وحرام کی تصدیق خبر ہے یا شہادت:

یہ معلوم ہونے کے بعد حلال وحرام دیانات کے دائرے میں آتے ہیں ،اگلا سوال یہ ہے کہ کسی پروڈکٹ  کو اس وجہ سے حلال سرٹیفکیٹ دینا کہ وہ شرعی اصولوں کے مطابق تیار کی گیا ہے اور حلال ہے  یا شرعی اصولوں کی عدم  بجاآوری کی وجہ سے وہ حرام ہے،کیا حکم رکھتا ہے؟

جو سرٹیفکیشن  باڈی حلال وحرام کی تصدیق کرتی ہے وہ دراصل اس بات کی شہادت دے رہی ہوتی ہے کہ یہ شئ حلال ہے یا حرام۔شہادت کی وجہ سے اسلامی  ضابطہ شہادت  متوجہ ہوجاتا ہے کہ آیا شہادت کی شرائط موجود ہیں یا نہیں؟جب کہ شرعی ضابطہ شہادت کے مطابق  ایک غیر مسلم شہادت کی اہلیت نہیں رکھتا  ۔اس کی وجہ فقہاء اسلام یہ لکھتے ہیں کہ شہادت برتری اوربالادستی چاہتی ہے جب کو غیر مسلم کو مسلمان پر کوئی  برتری اوربالادستی حاصل نہیں۔ فقہ حنفی کی مستند کتاب بدائع الصنائع میں علامہ کاسانی لکھتے ہیں:

،لان الشہادۃ من باب الولایۃ ولاولایۃ للکافر علی المسلم ۔لقولہ تعالی:

وَلَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلاً [النساء: ۱۴۱]

 

 ترجمہ :شہادت ولایت کو چاہتی ہے اور کافر کو کسی مسلمان پر ولایت حاصل نہیں ،کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ :اور ہر گز نہ دے گا اللہ کافروں کو مسلمانوں پر غلبہ کی راہ۔(ترجمہ از تفسیر عثمانی)

آیت شریفہ اس بارے میں بالکل واضح اور دوٹوک ہے کہ االلہ تعالی نے کافروں کو مسلمانوں کے کسی معاملہ میں حجت اور دلیل بنانے کو اور انہیں اپنے اوپر غلبہ دینے سے منع فرمایا ہے، جب کہ ان  کی شہادت قبول کرنا انہیں  مسلمانوں پر فوقیت اور برتری  دینا ہے،حالانکہ اسلام  چاہتا ہے کہ یہ  لوگ ایک بالادست قوت کے طور پر نہیں بلکہ مسلمانوں کے زیر دست ہوکر رہیں ۔آیت شریفہ کے تحت مستند تفاسیر کی آراء ملاحظہ کیجیے:

الرابع : إن الله سبحانه لا يجعل للكافرين على المؤمنين سبيلا شرعا ؛ فإن وجد فبخلاف الشرع.

الخامس : ولن يجعل الله للكافرين على المؤمنين سبيلا أي حجة عقلية ولا شرعيه يستظهرون بها إلا أبطلها ودحضت.

( تفسير القرطبي، سورة النساء ۵/ ۴۲٠ ط: دار عالم الكتاب، رياض)

وقال السدي: ولن يجعل الله للكافرين على المؤمنين سبيلا  أي: حجة.

( تفسير ابن كثير، سورة النساء ۲/ ۴۳٦ ط: دار طيبة)

5۔اگر حلال وحرام کی تصدیق کوشہادت کے معنی میں نہ لیا جائے ،اس وجہ سے کہ شہادت  کے لیے کچھ فنی قسم  کی شرائط ہوتی ہیں بلکہ اسے خبر کے معنی میں لیا جائے تو معاملات میں تو غیر مسلم کی خبر قبول کرنے کی گنجائش ہوتی  ہے مگر حلال وحرام کے معاملہ میں مسلمان کے لیے کافر کی خبر پر اعتماد اوربھروسہ کی اجازت نہیں کیونکہ حلال وحرام خالص دینی احکام ہیں اور دینی احکام میں غیر مسلم کی خبر قابل قبول نہیں۔چنانچہ اگر ایک غیر مسلم اطلاع دے کہ پانی پاک ہے یا گوشت حلال ہے تو اس کی اطلاع پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا،بلکہ اگر مسلمان بھی اس قسم کی اطلاع دے اور وہ دین دار نہ ہو تو اس کی خبر بھی قابل قبول نہیں:

۔ ۔ ۔ ۔ أن خبر الكافر مقبول بالإجماع في المعاملات لا في الديانات ··· ( وشرط العدالة في الديانات ) هي التي بين العبد والرب ( كالخبر عن نجاسة الماء فيتيمم ) ولا يتوضأ ( إن أخبر بها مسلم عدل )۔ ۔ ۔ ( ويتحرى في ) خبر ( الفاسق ) ۔ ۔ ۔ ۔و في الرد: قوله ( إن أخبر بها مسلم عدل ) لأن الفاسق متهم والكافر لا يلتزم الحكم فليس له أن يلزم المسلم هداية

( الدر المختار مع رد المحتار، كتاب الحضر و الإباحة  ٦/ ۳۴۴ إلى ۳۴٦ ط: سعيد)

أما الديانات فلا يكثر وقوعها حسب وقوع المعاملات فجاز أن يشترط فيها زيادة شرط ، فلا يقبل فيها إلا قول المسلم العدل ؛ لأن الفاسق متهم والكافر لا يلتزم الحكم فليس له أن يلزم المسلم ، بخلاف المعاملات ؛ لأن الكافر لا يمكنه المقام في ديارنا إلا بالمعاملة ولا يتهيأ له المعاملة إلا بعد قبول قوله فيها فكان فيه ضرورة

( الهداية مع فتح القدير، كتاب الكراهية، فصل في الأكل و الشرب ۸/ ۴۴۵ ط: دار إحياء التراث العربي)

6۔حلال وحرام خالص دینی و مذہبی اصطلاحات  ہیں اور  ایک معنی میں پورے دین اسلام کا حاصل ہی حلال وحرام ہے کیونکہ اسلام میں کچھ چیزوں کی اجازت ہے جنہیں حلال کہتے ہیں اور کچھ کی ممانعت ہے جنہیں حرام کہتے ہیں ،اس طرح پورا اسلام سمٹ کر حلال وحرام میں جمع ہوجاتا ہے تواس طرح کے اہم معاملہ میں غیر مسلم کی خبر کس طرح قبول کی جاسکتی ہے ؟ جب کہ معاملہ صرف  اس حد تک محدود نہیں  کہ ان کی اطلاع معتبر ہے یا نہیں  بلکہ ان کو دخل اور راستہ دینے کا ہے ۔جب شریعت  صرف  ان کی خبر کو قبول نہیں کرتی تو ان  کی مداخلت کو  کس طرح گوارہ   کرے گی ؟

7۔  ہمیں یہ بھی معلوم ہے  اور جسے نہیں معلوم  اسے معلوم ہونا چاہیے کہ غیر مسلم  اپنی قوت اور طاقت کے بل بوتےپر اور اپنے ذرائع اور وسائل کو کام میں لاکر اور اپنی تنظیموں صلاحیتوں  سے فائدہ اٹھاکر  اورروایتی چال بازی اور حیلہ سازی کے ذریعے  ،صرف مداخلت تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ جلد ہی قیادت وسیادت کا علم بھی سنبھال لیں گے اور یہ اسکیم ہی مسلمانوں سے چھین لیں گے۔نتیجہ یہ نکلے گا کہ جن کو متبوع ہونا چاہیے وہ تابع بن جائیں گے۔

8۔حلال وحرام کا معاملہ اہم ہونے کے علاوہ انتہائی حساس بھی ہے ،جس کی حساسیت ،نزاکت  اور باریکی کو ایک مسلمان ہی بہتر سمجھ سکتا ہے،غیر مسلم اس کا اہل نہیں ۔یہ رائے کسی مذہبی تعصب پر نہیں بلکہ اس مسلمہ اصول پر مبنی ہے کہ کام ایسے شخص کے سپرد ہونا چاہیے جو اس کہ اہلیت  اور صلاحیت بھی رکھتا ہو۔

مزید یہ کہ حلال وحرام کی اتھارٹی کسی انسان یہاں تک کہ سرکاردوجہاں ﷺ کے پاس بھی نہیں ہے۔یہ خالص خدائی منصب ہے اور جو شخص حلال کو حرام یا حلال کو حرام کہتا ہے وہ اس خدائی اختیار کو استعمال کرتا ہے۔اب ایک غیر مسلم کو  اس قدر حساس اوراہم مذہبی معاملات کس  طرح سپرد کیے جاسکتے ہیں!؟

9۔جیسا کہ پیرا نمبر 6میں مذکور ہوا کہ حلا ل ایک خالص مذہبی معاملہ ہے  ۔ مذہبی معاملات اسی وقت احسن طریقے سے تکمیل پاسکتے ہیں جب انہیں مذہبی روح کے ساتھ سرانجام دیا جائے جب کہ غیر مسلم اس مذہبی روح  اوراسپرٹ سے محروم ہیں اور انہیں مذہب کے بانی سے کوئی عقیدت  نہیں تو اہل مذہب کے جذبات کی وہ کیوں رعایت رکھیں گے۔درج ذیل اقتباس ملاحظہ کیجیے اور غور کیجئے کہ فقہاء کو کس طرح قطرے میں سمندر،ذرے میں پہاڑ اور بیج میں تناور درخت نظر آتا ہے اور ان کی دور بین نگاہ کہاں تک جاتی ہے:

وإن كان الذي أخبره بنجاسة الماء رجل من أهل الذمة لم يقبل قوله لا لأن الكفر ينافي معنى الصدق في خبره ولكن لأنه ظهر منهم السعي في إفساد دين الحق قال الله تعالى لا يألونكم خبالا أي لا يقصرون في إفساد أمركم فكان متهما في هذا الخبر فلا يقبل منه كما لا تقبل شهادة الولد لوالده لمعنى التهمة

( المبسوط للسرخسي، كتاب الاستحسان ۱٠ / ۲۸۲ ط: دار الفكر)

10۔حلال مسلمانوں کا لوگو ہے اورمسلمان ہی اس کے داعی  اورعلم بردار ہیں اور اس وقت حلال کی طلب  حقیقی معنی میں مسلمانوں کی طرف سے ہے ۔اب اگر حلال تصدیقی اداروں کا قیام مسلمانوں کی طرف سے ہوگا تو مسلمان دنیا  اس پر اعتماد کرے گی اور یوں حلال کی یہ اسکیم کامیابی سے ہمکنار ہوجائے گی ،لیکن غیر مسلموں کی شمولیت سے قوی امکان ہے یہ اسکیم ناکامی سے دوچار  ہوجائے  کیونکہ مسلمان مذہبی معاملات میں غیر مسلموں پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ۔ عین ممکن ہے کہ اس میدان میں ان کی دلچسپی اسی سے غرض ہو کہ اس اسلامی اسکیم اور پروگرام کو ناکام بنادیا جائے۔اگر مسلمان اس طرح کا  اندیشہ رکھتے ہیں تو اس کی معقول وجوہ موجود ہیں،قرآن کریم ہمیں ان پر بھروسے اور اعتماد سے روکتا ہے،تاریخ ان  کی چالبازیوں اور ریشہ دوانیوں سے بھری پڑی ہے اور ماضی کے تجربے اورحال کے مشاہدے سے قرآنی احکام اور تاریخ دونوں کی تصدیق ہوتی ہے۔

11۔معاشی میدان میں مسلمانوں کی ترقی اور غیر مسلموں کی کمزوری اسلام کو کس قدر مطلوب ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں کافر کو اپنے محارم سے نکاح  کی، خنزیر کھانے اور شراب پینے کی اجازت ہے مگر سودی معاملات کی اسےاجازت نہیں۔ نجران کےعیسائیوں کو ایک معاہدے کے ذریعے  شہری  حقوق  دیے گئے تھے مگر  سودی لین دین کی ان کو بھی اجازت نہ تھی ،اس سے سود کے خلاف اسلام کی نفرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔دوسری طرف  فقہ حنفی  کے بانی حضرت امام  ابوحنیفہ ؒ  کے نزدیک خاص شرائط کے تابع مسلمان کو  دارالحرب میں حربی سے سود  لینے کی اجازت  ہے۔ جس کی وجہ یہ معلوم ہوتی  ہے کہ امکانی حد تک کافروں کو معاشی میدان میں نقصان دینا مطلوب ہے۔اس وقت اقتصادی ترقی ایک بہترین  اور موثر ہتھیار ہے اور غیر مسلم چاہتے ہیں کہ مسلمان ہمیشہ   اس میدان  میں مغلوب ومحکوم رہیں ،اس لیے  وہ حلال مارکیٹ پر بھی اپنا قبضہ اور برتری چاہتے ہیں ۔ان کے یہ مذموم مقاصد اسی وقت ناکام بنائے جاسکتے ہیں جب  اس میدان میں ان کے داخلے پر پابندی ہو جیسا کہ شریعت  نےان پر یہ پابندی لگائی ہے۔

12۔ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو شہری حقوق حاصل ہوتےہیں اور ان کی جان ومال کابھی اسی طرح تحفظ کیاجاتا ہے جس طرح مسلمانوں کا کیا جاتا  ہے ۔ہمارے آئین نے بھی بہت کشادہ دلی اور وسیع الظرفی کے ساتھ غیر مسلم اقلیتوں کو حقوق دیے ہیں ،مگر اس کے ساتھ اسلام کا یہ بھی حکم ہے  کہ اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہری ایسے نام اور اصطلاحات استعمال نہ کریں جس سے مسلمانوں کے ساتھ ان کااشتباہ والتباس لازم آئے ،یہی وجہ ہے  کہ وہ اپنے بچوں کے ایسے نام نہیں رکھ سکتے جو خالص اسلامی ہوں اور مسلمانوں کے ساتھ خاص ہوں۔اب اگر غیر مسلم اپنے مذہبی معتقدات  کے مطابق اپنے ملک میں کوئی لفظ یا اصطلاح  استعمال کرتےہیں تو انہیں اس کا حق پہنچتا ہے کیونکہ نہ توشریعت اسلام کا مذہبی حصہ ان پر  لاگو ہے اور نہ ہی  وہاں شریعت کی عمل داری ہے،لیکن اگر وہ ایک اسلامی ملک میں مسلمانوں کی اصطلاح  کو مسلمانوں کے تصورات کے ساتھ استعمال کریں گے تو اس سے اشتباہ والتباس لازم آئے گاجس کو دور کرنے کے لیے ریاست کو حرکت میں آنا ہوگا۔

13۔قرآن کریم حکم دیتا ہے کہ اے  ایمان والوں !اللہ تعالی کی اور اس کے رسول  کی  اور اولوالامر کی اطاعت کرو:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُم [النساء : 59]

اولوالامر کے ساتھ ( منکم ) کا لفظ قابل غور ہے۔مطلب یہ ہے کہ ان اولوالامر کی اطاعت کرو جو تم سے ہو یعنی مسلمان ہو،معلوم ہوا کہ غیر مسلم کی اطاعت کو قرآن کریم مسلمانوں پر لازم نہیں قرار دیتا۔ اسی آیت سے یہ بھی  معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلم کو بحیثیت کارکن تو کسی کام میں شریک کیا جاسکتا ہے لیکن کلیدی آسامی اس کے سپرد نہیں کی جاسکتی۔تاریخ کے بعض ادوار میں غیر مسلم کلیدی عہدوں پر فائز رہے ہیں مگر وہ تاریخ ہے شریعت نہیں ،مسلم سلاطین کاذاتی عمل ہے ،حکم ربانی نہیں،بادشاہوں  کی دریادلی  اور صلح جوئی ہے،اسلام کی عطا کردہ گنجائش ورعایت نہیں۔

14۔ مسلم سیاسی مفکرین صاف لکھتے ہیں کہ غیر مسلموں کو قوت اور طاقت نہیں دینی چاہیے کیونکہ یہ خود مسلمانوں کے حق  میں ضرررساں  اور نقصان کا باعث ہے۔

بعض لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں حلال کھانے کا حکم غیر مسلموں کو بھی ہے،چنانچہ قرآن کریم میں یا ایھا الناس کہہ کر  پوری نوع انسانیت کو حلال کھانے کی دعوت دی گئی ہے۔لہذاجب غیر مسلم بھی اس حکم کے مخاطب ہیں تو  اس حکم پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اگر وہ حلال سے متعلق تصدیقی ادارے قائم کرتے ہیں تو انہیں اس کی اجازت ہونی چاہیے۔مگر یہ شبہ اپنے اندر وزن نہیں رکھتا کیونکہ خودحلال کھانے اورمسلمانوں کے لیے حلال کی اتھارٹی بن جانے میں بڑافرق ہے۔پھر اگر یہ شبہ درست تسلیم کرلیا جائے  تو اس کا دائرہ بہت دور تک پھیل جاتا ہے ۔مثلا حلال کی طرح عدل وانصاف بھی اسلام کی ایک آفاقی اور عالمگیر دعوت ہے  مگرمسلمانوں کو حکم ہے کہ وہ ایسے مسلمان حکام کے پاس دادرسی اور طلب انصاف کے لیے حاضر ہوں جو قرآن وسنت کے مطابق ان کے تنازعات کا تصفیہ کریں،مگر جو شبہ اوپر ذکر کیا گیا ہے اس سے لازم آتا ہے  کہ ایک غیر مسلم جج بھی مسلمانوں کا مقدمہ فیصل کر سکتا ہے۔

علاوہ ازیں : غیر مسلم اسلام کے اعتقادی مسائل کے تو مخاطب ہیں مگر راجح قول کے مطابق  فروعات کے مخاطب نہیں اور حلال وحرام کا تعلق ثانی الذکر سے ہے۔اگر حلال وحرام میں ان کی اتھارٹی کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر دیگر فروعی احکام مثلا نماز وروزہ میں ان کی اس حیثیت کو تسلیم کیا جانا چاہیے کیونکہ فروعی احکام ہونے میں نماز وروزہ اور حلال وحرام برابر ہیں اور جب فروعی احکام میں ان کی اتھارٹی تسلیم کرلی جائے تو پھر انہیں اقامت صلوۃ کی بھی اجازت ہونی چاہیے یعنی غیر مسلم اگر مسجد بنائے اور اس کا نظم سنبھالے تو پھر اس پر کوئی اشکال نہیں ہونا چاہیے حالانکہ کوئی بھی مسلمان ان کویہ حیثیت دینے کو تیار نہ ہوگا۔

بحث کے نتائج

1۔پیرا نمبر 1 اور2 سے واضح ہوا کہ حلال وحرام کا تعلق حقوق اللہ سے بھی بنتا ہے اور حقوق اللہ کی خلاف ورزی پر ریاست کو باز پرس کرنی چاہیے۔اس لیے ریاستی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے  حکومت  غیر مسلموں کو حلال تصدیقی ادارے قائم کرنے اجازت نہ دے۔

2۔حقوق اللہ کو اس طرح ادا کرنا چاہیے جس طرح اللہ تعالی نے انہیں مقرر کیا ہے  کیونکہ حق اللہ سے مقصود اللہ تعالی کی منشا کو پورا کرنا ہوتا ہے اور اللہ تعالی کی منشا  کے خلاف  اپنی  منشا پر عمل حق اللہ کو مجروح کرنا ہے جس سے احتیاط چاہیے۔دیکھیں پیرا نمبر3

3۔پیرا نمبر 4 سے واضح ہوا کہ حلال و حرام کی تصدیق شہادت ہے اور غیر مسلم حلال وحرام کے متعلق شہادت کا اہل نہیں۔

4۔غیر مسلم کو حلال وحرام کی اتھارٹی دینا انہیں ایک بالادست قوت تسلیم کرنا ہے جب کہ حکم یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے دست نگر بن کررہیں۔ د یکھیں :پیرا نمبر4

5۔حلال وحرام کو اگرحق اللہ تسلیم نہ کیاجائے اور نہ ہی اسے شہادت تسلیم  کیاجائے تو اس کے دیانات  میں سے  ہونے کا کوئی انکار نہیں کرسکتا اور پیرا نمبر 5 میں حوالوں سے واضح ہوا کہ  دیانات میں غیر مسلم کی خبر معتبر نہیں۔

6۔غیر مسلم کوحلال وحرام کی اتھارٹی دینااپنی معاشی قوت  ان کے سپرد کرنا ہے۔

ان پر حلال وحرام کے متعلق بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔

ان کی شمولیت سے قوی امکان اس مشن کی ناکامی کا ہے۔

وہ دین اسلام سے محروم ہونےکی  وجہ سے ایک عبادت سمجھ اور مذہبی اسپرٹ کے ساتھ اس کام کو انجام نہیں دے سکتے۔پیرا نمبر11،10

7۔مسلمان ہونے کے ناطے حلال کا تعارف اور اس سے آگہی پھیلانا ہمارے ذمہ داری ہے جب کہ غیر مسلموں کی شرکت سے یہ دعوت  اور اسکیم ناکام ہوجائے گی کیونکہ مسلمان اپنے دین کے معاملہ میں ان پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں اور یہ عین ممکن ہے کہ ان کا مقصد ہی اس اسکیم کو ناکام بناناہو۔پیرا نمبر 13 سے معلوم ہوا کہ غیر مسلموں کو حتمی اتھارٹی نہیں دینی چاہیے اور آخری پیرا کاحاصل یہ  ہے کہ مسلمانوں کو  اہم اور کلیدی مناصب اپنے پاس رکھنے چاہیے۔

 اختتامیہ

پاکستان میں خالص خوراک کاقانونpure food  مجریہ 1960 ء نافذہے  جس میں اشیاء خوردنوش کو تیاری  سے لے کرفروخت تک  ملاوٹ اور مضر صحت اجزاء سے بچانے کا طریقہ کار وضع کیا گیا ہےمگر یہ قانون حلال وحرام کے معیارات کے حوالے سے ناکافی ہےکیونکہ اس کی وضع کا ہدف ومقصد ہی یہ نہ تھا۔ اس وقت حلال وحرام کے متعلق دو سرکاری ادارے کام کررہے ہیں،ایک پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (psqca) اوردوسرا پاکستان نیشنل اینڈ ایکریڈیٹیشن(pnac) دونوں ادارے وزارت سائنس وٹیکنالوجی کے ماتحت ہیں۔اول الذکر  حلال وحرام کے متعلق قانون سازی کرتا ہے اور مؤخرالذکر اس کی تنفیذ وتعمیل کرتا ہے۔ پاکستان میں  کسی کمپنی کو حلال سرٹیفکیشن  کی اجازت دینا یا نہ دینا ان ہی  سرکاری اداروں کا کام  ہے۔آج سے کچھ عرصہ قبل جب یہ بازگشت سنائی دینے لگی کہ غیر مسلم بھی اس میدان  میں کودنے کی تیاری میں ہے تو اس وقت اپنےفہم کے مطابق یہ تحریر تیار کی گئی اورایک  موقر حلال تصدیقی ادارے سنہا(sanha) نے دونوں اداروں کو پیش کردی مگر مقام افسوس ہے کہ جو خدشہ تھاوہ سامنے آگیااور پنیک نے غیر مسلموں کے قائم کردہ ایک ملٹی نیشنل ادارے (sgs)کو پاکستان میں حلال سرٹیفکیشن کی اجازت دے دی ہے۔.sgsکا صدر دفتر جنیوا سوئٹزرلینڈ میں ہے اور یہ ادارہ انسپکشن،ویری فیکیشن ،ٹیسٹنگ اور سرٹیفکیشن کی خدمات سرانجام دیتا ہے۔ دوسری طرف مقام شکر ہے کہ گزشتہ مہینے کی تیرہ اور چودہ تاریخ کو ترکی کے شہر استنبول  میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی جس  میں دنیا بھر سے مسلمانوں کے حلال تصدیقی ادارے شریک ہوئے اورکانفرنس کے اختتام پر یہ مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا کہ حلال وحرام کےمتعلق غیر مسلموں کی مداخلت قبول نہیں کی جائے گی۔کانفرنس کا اعلامیہ طویل ،خوش آیند ، اور ترکوں کی قائدانہ تاریخ اور خوددارانہ جذبا ت کا بھرپور ترجمان ہے  جسے ضمنی حیثیت سے نہیں بلکہ مستقل موضوع کے طور پر زیر بحث لانا مناسب ہے۔