اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کاقبول اسلام(مجوزہ بل)

سوال:۔مکرم جناب! کچھ ایسی اخباری اطلاعات ہیں کہ ایک ایسا بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے کے لیے تیارکیا جارہا ہے کہ جس کی رو سے جو لوگ اٹھارہ سال سےکم عمر ہوں گے وہ اگر مذہب تبدیل کریں گے تو ان کا مذہب تبدیل شدہ نہیں سمجھا جائے گا۔چونکہ اطلاعات اٹھارہ سالہ افراد کے متعلق ہیں ،اس لیے سوال یہ ہے کہ کیا ایسی کوئی شرط ہے کہ اس سے عمر سے کم افراد مذہب تبدیل نہ کرسکتے ہوں؟
جواب :۔پاکستان میں کچھ عرصے سے کچھ ایسی قانون سازیاں ہورہی ہیں جن سے دینی طبقہ کے علاوہ عام پاکستانی بھی سخت تشویش میں مبتلا ہیں۔پہلے وقف املاک بل اسلام آباد نافذ ہوا جس کامقصد پہلے سےموجود وقف املاک کو قومیانہ اورآیندہ کےلیے وقف کا دروازہ بند کرنا ہے حالانکہ وقف کادروازہ قرآن وسنت نےکھولا ہے۔پھر بچوں کے جسمانی سزا کے نام سے ایک ایسا بل پاس ہوا جس کا عنوان تو جسمانی سزا کی ممانعت ہے مگر اس کے ضمن میں کچھ ایسے احکام شامل میں کردیے گئے ہیں جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں۔گھریلو تشدد کے روک تھا م اور اس سے حفاظت کے نام پر بھی ایک بل قومی اسمبلی سے پاس ہوکر سینیٹ میں منظوری کے لیے گیا اورسینیٹ نے اس میں کچھ ترامیم تجویز کیں اوراب یہ بل دوبارہ قومی اسمبلی لوٹ آیا ہے۔بل ایسا ہے جو نام سے لے کر اختتام تک خلاف شریعت اورخلاف آئین ہے۔اس بل کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مغربی ممالک کا ایک قانون اٹھا لیا گیاہے جسے یہاں کے اقدار،روایات اورخاندانی نظام کو سمجھے بغیر من وعن نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس سے پہلے چاروں صوبوں میں اس نوع کے قوانین نافذ کیے جاچکے ہیں ۔
غرض یہ کہ قوانین کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو منقطع ہونے کا نام نہیں لیتا۔ابھی ہم ایک قانون کے صدمے سے سنبھل نہیں پاتے کہ فورا دوسرے کی نوید مل جاتی ہے چنانچہ ابھی اخباری اطلاعات ہیں جیسا کہ آپ نےذکر کیا ہے کہ ایک نیا مسودہ قانون زیر غور ہے جسے جلد ہی مجلس شوری ٰ میں پیش کردیا جائے گا۔
یہ امر کہ اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کا مذہب تبدیل کرنا قانون کی رو سےغیر معتبر قرار پائے گا اوریوں قراردیا جائے گا کہ اس نے مذہب تبدیل کیا ہی نہیں ہے۔اگر حقیقت واقعہ اسی طرح ہےتو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسلام کا دروازہ غیر مسلموں پر بندکیا جارہا ہے کیونکہ مملکت خداداد میں اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں جو اسلام قبول کرتے ہیں اورمعاذاللہ اسلام سے پھرنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
کس قدر حیرت بلکہ افسوس کا مقام ہے کہ ہمارادستور تو اسلامی احکام کے مطابق قانون سازی کی ضمانت دیتا ہے مگر قانون ساز اس ملی میثاق کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں جس کے تحفظ اورپاسداری کا انہوں نے خود بھی حلف اٹھا یا ہوا ہے۔دستو ر پاکستان سے پہلے بھی ہم دستور قرآنی کے مکلف ہیں ۔قرآن کریم کی آیات ہرچھوٹے بڑے کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتی ہیں ۔آخر ہم کسی کو کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ وہ مسلمان نہیں ہے جب کہ قرآن کریم نے اس طرح کہنے کی ممانعت کی ہے۔قرآن حکیم میں سورہ بروج کی تفسیر میں اس لڑکے کاواقعہ خصوصیت سے مفسرین ذکر کرتے ہیں جس نے اس وقت کادین حق قبول کیا تھا،جس مطلب یہ ہےکہ پچھلے آسمانی ادیان میں بھی چھوٹی عمر کے لوگ دین حق قبول کرسکتے تھے۔
صحیح بخاری شریف میں باقاعدہ باب باندھا گیا ہے کہ:
باب إذا أسلم الصبي فمات، هل يصلى عليه، وهل يعرض على الصبي الإسلام''
اس کے تحت حافظ ابن حجر ؒ لکھتےہیں کہ :
هذه الترجمة معقودة لصحة إسلام الصبي۔ صحيح البخاري (2/ 94)
یعنی یہ ہیڈنگ اس لیے ڈالی گئی ہے کہ بچے کا اسلام قبول کرنا درست ہے۔ ایک یہودی لڑکے کا واقعہ مشہور ہے کہ اس نے وفات سے قبل خود آنحضرت ﷺ کی تلقین پر اسلام قبول کیا تھا۔ملاحظہ کیجیے:[صحيح البخاري (2/ 94)]
اب یہ کس قدر افسوس اورڈر کامقام ہے کہ نبی اکرم ﷺ توبچوں کااسلام قبول فرمائیں اورہماری ریاست اسے مسترد کردے۔اگر اٹھار ہ سال کی شرط لگانے کامقصد یہ ہے کہ اس کم عمر کا شخص نابالغ رہتا ہے تو اول تو نابالغ کا اسلام قبو ل کرنا بھی درست ہے۔دوسرے یہ کہ شریعت کی رو سے بلوغت کی زیادہ سے زیادہ عمر پندرہ سال ہے۔پندرہ سال کی عمر بھی اس وقت ہے جب اس سے پہلے لڑکے یا لڑکی میں بلوغت کی کوئی علامت ظاہر نہ ہو ورنہ لڑکا بارہ سال میں اور لڑکی نو سال میں بلوغت حاصل کرسکتی ہے۔ اگر قانون سازوں کا یہی اصرا ر ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کا اسلام قبول نہیں ہے تو پھر ان کے پاس ان بے شمار صحابہ کرام کے ایمان کا کیا جواب ہےجو بلوغت سے قبل اسلام لائے تھے۔ خلیفہ راشد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا بچپن میں اسلام لانا تو ہمارے بچے بچے کوازبر ہے اورخود حضرت علی رضی اللہ عنہ اشعار پڑھ پڑھ کر اپنے اس کارنامے کو فخریہ بیان کرتے تھے:
سبقتكم إلى الإسلام طرا ... غلاما ما بلغت أوان الحلم
اس وقت ان کی عمر ایک قول کے مطابق سات سال اور ایک قول کے مطابق دس سال تھی (سیرت ابن إسحاق ص ۱۳۷ دارالفکر بیروت )حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی بلوغ سے قبل اسلام لائے تھے(طبقات الکبری ۲/۲۶۹)اسی عمر میں حضرت ولیدبن عقبہ بھی اسلام لائے تھے(الاستیعاب ۴/۱۱۴)حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کی قبول اسلام کے وقت عمر نو سال تھی(الاصابٰۃ۸/۴۲) اسی طرح حضرت مسلم اورزبیر بن العوام رضی اللہ عنھما بھی کم عمری میں اسلام لائے تھے۔
یہی وجہ ہے حنفی کتب جیسے مبسوط سرخسی ،الاختیار،کنز کی شروحات اورشامی وغیرہ سب میں صراحت ہے کہ بچے کا قبول اسلام درست ہے۔
یہ کچھ مختصر معروضات تھیں جو مجوزہ قانون کے صرف اس پہلو کے متعلق تھیں جس طرف آپ نے توجہ دلائی ہے ۔میری اس سلسلے میں وزارت مذہبی أمور سےگزارش ہےکہ وہ ایسی قانون سازی روکنے میں اپنا کردار اداکرے ۔اسلامی نظریاتی کونسل بھی دستور کے تحت حاصل اختیار کے تحت اس مجوزہ بل کو شرعی جائزے کے لیے اپنے پاس طلب کرے ۔اسمبلی کے اراکین سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اگر انہوں نے اس بارے میں سیاسی مصلحت کا خیال رکھا یا کسی بھی قسم کے دباؤ کو قبول کیا تو میں انہیں خبر دارکرتا ہوں کہ عنداللہ مجرم قرار دیے جائیں گے اورپاکستانی عوام کے غیص وغضب کا شکار ہوں گے۔خدارا! اسلام کا دروازہ غیر مسلموں پر بند مت کیجیے۔یہی شریعت کا حکم ،ایمان کا تقاضا اورحلف کی پاسداری ہے۔