تعزیرات پاکستان کی بعض دفعات کا شرعی جائزہ ۔ ۴
دفعہ :۱۶۱
سرکاری ملازم اگر اپنے کام کے متعلق سرکاری تنخواہ کے علاوہ کوئی اور ناجائز مفاد حاصل کرتا ہے تو حکومت اس سے جرمانہ یا قید کی سزا دے گی ،یہی مذکورہ دفعہ کا حاصل ہے۔
ناجائز استفادہ بالفاظ دیگر رشوت لینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔ اگر کوئی اپنے منصب کو ایسے کاموں کیلئے استعمال کرے تو حکومت کی شرعی ذمہ داری بنتی ہے کہ اسکا سد باب کرے اور اس کے سد باب کیلئے حکومت تعزیری سزاؤں سے بھی کام لے سکتی ہے ۔
البتہ تعزیر کیلئے ضروری ہے کہ وہ سزا ایسی ہو جو حد سے کم ہو لہٰذا حکومت رشوت ستانی کے مرتکب کیلئے قید وغیرہ کی سزا تجویز کرسکتی ہے ۔جمہور فقہاء امت کا تعزیر مالی یعنی مالی جرمانہ کے جائز نہ ہونے پر اتفاق ہے لہٰذا حکومت رشوات ستانی کے سد باب کیلئے مالی جرماہ کو بطور سزا کے عائد نہیں کرسکتی ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ حکومت رشوت ستانی کے مرتکب کو تعزیری سزا کے طور پر قید کرنا چاہے تو شرعا اسے اختیا رہے ۔لیکن مالی جرمانہ چونکہ شرعاممنوع ہے اس لئے بطور سزا کے اسے عائد نہیں کرسکتی فتاوٰی شامی میں ہے :والحاصل أن المذھب عدم التعزیر بأخذ المال (۴؍۲۶؍سعید )۔
لہٰذا تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۱۶۱اس حد تک شریعت سے متصادم ہے کہ اس میں مالی جرمانہ کو تجویز کیا گیا ہے۔
دفعہ ۵۸ ، ۶۸ :
۱۔ زبردست ی کی جو تعریف دفعہ ہٰذا میں کی گئی ہے وہ تفصیل چاہتی ہے ، اگر اکراہ تام ہو تو وہ معقول عذر ہوگا بصورتِ دیگر اوسکران اپنے افعال ایک تندرست شخص کی طرح ماخوذ ہوگا ۔
۲۔ نشی کی جو تعریف ذکر کی گئی ہے کہ وہ اپنے افعال کی نوعیت جاننے سے قاصر ہو یا یہ کہ وہ نا جانتا ہو کہ جو کچھ وہ کررہا ہے وہ غلط اور خلاف قانون ہے ۔ ائمہ اربعہ کے راجح قول کے مطابق نشہ یہ ہے کہ گفتگو میں زبان غالب ہوجائے اور اسے یہ معلوم نہ ہوکہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔
الأشباہ والنظائر میں ہے :
أحکام السکران ھو مکلّف لقولہ تعالیٰ ( لا تقربوا الصلوٰۃ وأنتم سکارٰی ) خاطبھم تعالیٰ ، ونھاھم حال سکرھم فإن کان السکر من محرم فالسکران منہ ھو المکلّف ، وإن کان من مباح فلا ، فھو کالمغمیٰ علیہ ، لایقع ، واختلف التصحیح فیما إذا سکر مکرھا أو مضطراً فطلّق۔
(۱؍۰۱۳؍ دارل الکتب العلمیۃ )