پاکستانی مصاحف کے رسم کا شرعی جائزہ
تعارفیہ
برصغیر پاک وہند میں قرآن کریم کے جو نسخے شائع ہوتے ہیں وہ امام ابوعمر الدانی کے علمی منہج کے مطابق ہیں اور ان پر تمام مسالک کے علماء کا اعتماد واتفاق چلا آرہا ہے مگر کچھ عرصہ سے ایک مخصوص ذہنیت کے حامل افراد یہ کوشش شروع کررکھی ہے کہ ان معروف ومانوس اورمسلم الثبوت نسخوں کی طباعت روک کر ایک اور نسخے کی طباعت قانون کی رو سے ضرور قرار دی جائے جسے یہ لوگ مثالی نسخہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔اس فتنے کی بو محسوس ہونے پر ماہر ومحقق علماء نے اس کے خلاف قلم اٹھایا جس کے نتیجے میں بلند پایہ اور تحقیقی مضامین منظر عام آئے۔زیر نظر تحقیقی مقالہ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں ماہر ومشاق قاری ،محقق عالم دین ڈاکٹر مولانا قاری ضیاء الحق صاحب مدظلہ العالی نے تفصیل کے ساتھ برصغیر میں رائج مصاحف قرآنیہ کے رسم الخظ کا تحقیقی وتاریخی تجزیہ پیش کیا ہے اور سنجیدہ اور ٹھوس دلائل کے ساتھ ان شکوک وشبہات اور غلط فہمیوں کا ازالہ کیا ہے جو پاکستان میں چھپنے والے مصاحف کے رسم وضبط کے متعلق لوگ پھیلاتے ہیں۔اس سے پہلے اسی موضوع پر جناب ڈاکٹر محمد شفاعت ربانی کا ایک مضمون بھی ماہنا مہ وفاق المدارس کے رجب 1436ھ کے شمارہ 2 میں شائع ہوچکا ہے۔حال ہی میں یہ مسئلہ اپنی نزاکت واہمیت اور ہمہ گیر اثرات کی وجہ سے اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان میں بھی زیر بحث آیا تھا اور کونسل کے اراکین نے علمی مباحثہ ومناقشہ کے بعد اپنی فیصلے میں قرار دیا تھا کہ:
''فیصلہ۔الف :پاکستان میں چھپنے والے مصاحف قرآنیہ رسم عثمانی کے موافق ہیں اور صحیح ہیں ،مثالی نسخہ کے نام سے کوئی قرآن کریم نہ چھاپا جائے۔''
اس مختصر تمہید کے بعد اب آپ اصل مضمون ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للہ الذی انزل علی عبدہ الکتب ولم یجعل لہ عوجا،والصلوۃ والسلام علی المبعوث رحمۃ للعٰلمین وعلی آلہ وصحابتہ أجمعین،وعلی من تبعھم باحسان الی یوم الدین أما بعد!
علماء محققین وماہرین نے قرآن کریم کی قراءت صحیحہ و غیر صحیحہ کے درمیان فرق اور امتیاز کے لئے جو بنیادی اصول وارکان ثلٰثہ مقرر کردئیے ہیں ان میں سے ایک بنیادی رکن مصاحف عثمانی میں سے کسی ایک مصحف کے رسم کے ساتھ موافقت بھی ہے ، اب یہ موافقت ظاہرا ہو یااحتما لا یا تقدیرا ۔
سیدنا حضرت عثمان غنی ؓ (شہادت ۳۲ھ ) نے جو پانچ (یا سات اور ایک قول پر آٹھ ) مصاحف لکھوائے تھے اُن میں سے کسی ایک مصحف میں وہ قراءت لکھی ہوئی ہو، چاہے سارے مصاحف میں نہ بھی ہو ۔(دوسرے دوارکان یہ ہیں ۱،نحوی وجوہ میں سے کسی ایک وجہ کے موافق ہو ۔۲ ،صحیح اور متصل سند سے ثابت ہو )
یہاں اصل موضوع کی طرف بڑھنے سے پہلے یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ صرف خط اور رسم الخط میں بہت فرق ہے خط کے معنی تو یہ ہیں کسی کلمے کو اس کے ان حروف ہجاء سے لکھنا جو اس پر وقف اور ابتداءکے وقت پائے جاتے ہیں ۔ جبکہ رسم الخط کے معنی ہوں گے"قرآنی کلمات کو حذف وزیادت اور وصل وقطع کی پابندی کے ساتھ اس شکل پر لکھنا جس پر صحابہ کرام ؓ کا اجماع ہے اور وہ پیغمبر ﷺ سے بتواتر منقول ہے۔خط اور رسم الخط کے فرق کو ذہن نشین کرنے کے لئے ذیل میں دی گئی مثالوں پر غور کریں تو آسانی ہوگی ۔( ۱)العٰلمینَ (۲)الرحمٰن (۳) الصٰلحٰت (۴) ہٰؤلآء (۵) من نبایٔ المرسلین ۔مذکورہ کلمات کا موجودہ خط رسم عثمانی کے موافق ہے ،کیونکہ ان میں الف
محذ وف الرسم ہے ،لکھا ہو ا نہیں ہے، لہٰذا اس میں خط اور رسم الخط دونوں موجود ہیں ۔ لیکن اگر ان ہی کلمات کو درجہ ذیل طریقہ پر لکھیں ۔
(۱)اَلعالمین (۲) الرحمان(۳) الصالحات (۴) ھآأُلاء (۵) من نباءِ المرسلین ۔
اب ان میں خط (کتابت) تلفظ کے موافق ہے، مگر رسم عثمانی کے بالکل خلاف ہے ، کیونکہ ان میں الف مرسوم (لکھا ہوا ) ہے ،لہٰذا یہاں خط تو ہے مگر رسم الخط نہیں ہے۔ اس مختصر تمہید کے بعد اب یہ جاننا ضروری ہے کہ قرآن مجید کا یہ رسم الخط توقیفی وسماعی ہے یعنی پیغمبر ﷺ سے مسموع اور آپﷺ ہی کے اَمرو املاء سے ثابت و منقول ہے اور لوح محفوظ کی ہیٔت کتابت اور رسم الخط کے مطابق منزّل من اللہ ہے جس میں رائے اور قیاس کا ذرا بھی دخل نہیں ہے ۔(خطان لایقاسان خط القوافی و خط القرآن ) لہٰذا اس کی اتباع اور موافقت بہرصورت واجب ہے اور مخالفت حرام ہے ،محققین علماء کا یہی فیصلہ ہے ، چنانچہ علامہ برہان الدین ابو اسحٰق ابراہیم بن عمر الجعبری (۷۳۲ھ) لکھتے ہیں ۔ رسم المصحف توقیفاً ہو مذہب الأربعۃ۔ (شرح العقیلۃ )۔
کتب تواریخ وتراجم بتاتی ہیں کہ جناب رسالت مآب ﷺ کے دور سعادت میں وہ صحابہ ؓ کرام جو معروف بالکتابت تھے اُن کی کل تعداد چھپن تھی ، ان کو عموماً پانچ قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔
(۱) وہ حضرات صحابہ ؓ جن سے آ نحضرت رسول مقبولﷺ قرآنی آیات اور خطوط نویسی کا کا م لیتے تھے ایسے حضرات چونتیس شمار کئے گئے ہیں ان کو کاتبین نبی ﷺ کہا جاتاہے ۔
(۲) کاتبین جامعین ، یعنی وہ حضرات صحابہ ؓ جو بذات خود قرآن کریم کو بذریعہ تحریر وکتابت جمع فرماتے تھے، یہ چھ ہیں ۔
(۳) کاتبین مصاحف ، وہ حضرات صحابہ ؓ جو مصاحف عثمانی کی کتابت میں شریک رہے، یہ تین ہیں۔
(۴) کاتبین حدیث ، وہ حضرات صحابہ جو وحی خفی یعنی احادیث نبوی ﷺ کے تحریر کرنے اور کتابت کرنے کا خاص اہتمام فر ماتے تھے ، ان کی تعداد سات ہے ۔
(۵) کاتبین محض، وہ حضرات جو طرز اور تحریر کے اسلوب سے بخوبی آگاہ تھے ان کی تعداد چھ ہے ۔ اس طرح گویا تمام حضرات کاتبین صحابہ ؓ کی کل تعداد چھپن ہے ۔
زمانہ اسلام سے بہت پہلے عرب میں علم الانساب اور شعر وشاعری کا بہت چرچا تھا جو قدیم زمانے سے چلا آرہا تھا مگر یہ سب محض زبانی وکلامی تھا ، چونکہ عرب قوم کے حافظے بھی عموما حیرت انگیز طور پر قوی ہوتے تھے ، لہٰذا اسی پر سب کا دارومدار تھا ،تحریر کا رواج نہیں تھا نہ حرف شناسی تھی۔
چنانچہ سب سے پہلے قبیلہ بنی طلحہ کے تین افراد مرامر بن مرّہ ، اسلم بن سدرہ ، اور عامر بن جدرہ نے کتابت نسخ کی بنیاد ڈالی انہوں نے قدرتی ذکاوت کی بنیاد پر یکجا ہو کر حروف کی شکل اور وضع قراردی اور حروف تہجی کو سریانی زبان کی ترتیب پر مرتب کیا ۔ جب یہ اس کام سے فارغ ہو چکے اور حروف کے نقوش اور ان کی صورتوں کی باہمی ترتیب پر قدرت حاصل ہوگئی تو پھر حیرہ کے باشندگان نے باضابطہ اس فن کو ان سے سیکھا ، انہی حیرہ والوں کا ایک شاگرد بشیر بن ولید (جو دو مۃ الجندل کا رئیس تھا ) زیا رت کعبہ یا کسی اور غرض سے مکہ مکرمہ آیا تو وہاں ابوسفیان کی بہن صہبابنت حرب سے نکاح کرلیا ، پھر ابوسفیان بن حرب (والد ِامیر معاویہؓ ) سے ملا ، انہو ں نے بشیر سے فن کتابت سیکھنے کی درخواست کی ، چنانچہ ابوسفیان اور ابوقیس بن عبد مناف یہ دو شخص مکہ میں بشیر کے شاگرد بنے ،بعد ازیں انہوں نے اہل طائف کو تحریر سکھائی ،اور قریش کے دیگر قبائل بھی رفتہ رفتہ اس فن کو سیکھتے گئے اس طرح فن کتابت کا عرب اور حجاز کے اکثر قبائل میں رواج ہوگیا ۔
مدینہ منورہ میں قبل از اسلام تحریر وکتابت رائج ومتعارف ہونا شروع ہو گئی تھی ، انصار اپنے قصائد واشعار بذریعہ کتابت قلم بند کرنے لگے تھے ۔
خط عربی (حمیری) نے تبابعہ کے دور میں ترقی پائی ، پھر ان کے ختم ہونے کے بعد آل منذر یعنی سلاطین حیرہ کے ہاں فن کتابت کا رواج ہوا، کیونکہ یہ تبابعہ کے قرابت دار تھے پھر حیرہ کی شاگردی قریش اور اہل طائف نے اختیا ر کی ۔ جب سلطنت عرب کا دامن وسیع ہونے لگا اور بصرہ وکو فہ کو دارالخلافہ ہونے کا شرف حاصل ہوا تو اب ظاہر ہے کہ والیان حکومت وارکان سلطنت کو فن کتابت کی ضرورت بھی محسوس ہوئی اور ارکان دولت کی سرپرستی کی بدولت اس میں مزید چارچاند لگ گئے اور بڑی حد تک اس میں اصلاحات ہوئیں چنانچہ خط کوفی آج تک مشہور چلا آرہاہے ۔
عرب کی حدود سلطنت بڑھتے بڑھتے جب افریقہ اور اندلس تک جاپہنچیں اور وہاں اسلام کا جھنڈا لہرایا اور بنو عباس نے بغداد کی داغ بیل ڈالی ،بغداد چونکہ سلطنت عرب کا مرکز اور دارالاسلام تھا اس وجہ سے فن کتابت نے یہاں بہت نمایاں ترقی کی ،غالباً اسی وجہ سے بغدادی رسم الخط بہت معروف رہا حتی کہ افریقہ میں اسی کو اختیار کیا گیا ، البتہ اندلس میں بنو امیہ نے اپنے خط کو دیگر صنائع کی طرح بہت ہی ممتاز اور جدا کرلیا ۔ پھر جب سلطنت اسلامیہ تنزل اور زوال کا شکار ہوئی تو خط وکتابت ہی نہیں تمام علوم وفنون نے اپنا منہ موڑ کر رخ تبدیل کرلیا اور مصر وقاہرہ میں جاکر اس کو عروج حاصل ہوا ۔
کتابت وتدوین قرآن
عموماً قرآن کریم کی کتابت وتدوین کونمایاں طور پر تین ادوار میں تقسیم کردیا گیا ہے :
(۱) پہلا دور،دور نبویﷺ :
نزول وحی کے وقت جب کوئی آیت یا آیات و سورت نازل ہوتی تھی تو آنحضرت پاک ﷺ اسے حضرت زید بن ثابت ؓ وغیرہ کو بلا کر لکھوادیتے تھے ، یہ حضرات کاتبین وحی اسے کبھی ہڈی پر کبھی کھجور کی ٹہنی یاچھال پر اور کبھی پتھروں کی ہموار تختی پر لکھ لیا کرتے تھے ، اس طرح پورے کا پورا قرآن مجید پیغمبر ﷺ کے دور مبارک ہی میں پورا ہوگیا تھا ، تاہم اُس وقت اکثر دارومدار حفظ صدری پر تھا ، عموماً صحابہ کرام ؓ بغیر دیکھے صرف سن کر خداداد قوت حافظہ کی بدو لت اپنے سینوں میں محفوظ رکھتے تھے ۔
(۲)دوسرادور ،دور صدیقی :
پیغمبر ﷺ کی وفات کے بعد سلسلہ وحی منقطع ہونے کی بناء پر درمیانی اضافہ جات کی گنجائش باقی نہ رہی ، قرآن کریم جو اب تک باضابطہ طور پر کتابی شکل میں مجتمع اور یکجا حالت میں نہیں تھا ،دور صدیقی میں یکجا کردیا گیا ، جس کا مختصر پس منظر یہ تھا کہ سید نا ابوبکر ؓ کے عہد خلافت راشدہ میں یمامہ کے مقام پر حضرت خالد بن ولید ؓکی سرکردگی میں مدعی نبوت مسیلمہ کذاب سے ایک خونریز جنگ ہوئی جس میں شہدائے اسلام کی کل تعداد بارہ سو تھی اور بہت سے مجروح تھے ،حاشیہ بخاری شریف ص۷۴۵ پر مذکور ہے کہ" کان عدۃ من القراءِسبع مائۃ " یعنی اس جنگ میں شہید ہونے والے حفاظ وقراء کی تعداد سات سو تھی ،جبکہ ان قراءمیں حضرت سالم ؓ بھی تھے جن کی بڑی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ یہ ان چار جلیل القدر قراء میں دوسرے نمبر پر تھے جن سے پیغمبر ﷺ قرآن مجید پڑھنے کا حکم فرما یا کرتھے (بخاری شریف جلد ۲، ص۷۴۸،) نیز یہ کہ حضرت سالمؓ کے ساتھ جو فوجی دستہ تھا وہ خاص اہل قرآن یعنی قراء وحفاظ کا دستہ سمجھاجاتا تھا ، یہ سب حضرات ایسے تھے جن کے پاس قرآن مجید تحریری شکل میں بھی تھا ۔ سیدناحضرت عمر فاروقؓ کو اس اندو ہناک صورت حال سے سخت اندیشہ اور فکر لاحق ہوئی جبکہ واقعے کی اہمیت کا بھی یہی تقاضا تھا ، اگر بعد میں بھی ایسے جنگوں کے واقعات رونما ہوتے جن میں قراء وحفاظ شہید ہوتے رہتے تو امت مسلمہ کے اس عظیم نعمت ولازوال دولت سے محروم ہو جانے کا قوی اندیشہ تھا ، چنانچہ آپؓ نے سیدنا صدیق اکبر ؓ کی توجہ اس جانب کرائی اور آپ نے قرآن پاک کے تمام حصوں کو یکجا طورپر جمع کرنے کی سعی بلیغ فرمائی (بخاری ج ۲ ص ۷۴۵) اس سلسلے میں حضرت صدیق اکبر ؓ نے حضرت زید بن ثابت ؓ کو تتبع اور جمع قرآن کا حکم فرمایا ،چنانچہ حضرت زید کو لکھنے اور حضرت اُبی بن کعب ؓ کو لکھا نے کاحکم فرمایا ۔ انتہائی احتیاط کے پیش نظر ان دونوں حضرات نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ جن حضرات صحابہ ؓ کے پاس سے قرآن مجید اکٹھا کر تے ان سے دو گواہ اس بات کے لئے لیتے کہ انہوں نے یہ آیا ت مبارکہ یا قرآن کا حصہ پیغمبرﷺ کے بتائے ہوئے رسم الخط پر تحریر کیا تھا ،اس طرح انتہائی محتاط انداز میں جمع قرآن کا کام انجام دیا گیا۔ یہ نسخہ قرآنی سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کےپاس آپ کی وفات تک موجود رہا، آپ کی وفات کے بعد امیر المؤمنین سید ناحضرت عمر فاروقؓ کے پاس تاحیات رہا اور آپ کی شہادت و وفات کے بعد ام المؤمنین حضرت حفصہؓ کے پاس رہا ( النشرج۱ ص ۷) جس حسن انتظام واہتمام کے ساتھ جمع وکتابت قرآن مجید کی یہ عظیم الشان خدمت خلیفہ اول نے انجام دی اسے دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ اس میں کسی بھی قسم کا کوئی سقم یا ادنی ٰفروگزاشت باقی رہی ہوگی ،اس مو قع پر حضرت علی ؓ کا وہ مقو لہ نقل کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا جس میں انہوں نے فرمایا "اللہ تعالیٰ ابوبکر ؓپر رحم فرمائے وہ اولین ہستی تھے جنہوں نے قرآن کو کتابی صورت میں جمع فرمایا "(البرہان ج ۱ ص ۲۳۹) بہر حال اس عظیم الشان ذمہ داری سے فراغت کےبعد اس کے تصدیق شدہ نسخو ں کی بکثرت نقلیں شائع کی گئیں ۔ چنانچہ کوئی مقام کوئی شہر ایسا نہ رہا جہاں لوگوں کے پاس مصاحف کے نسخے نہ ہوں ۔
تیسرا دور ،دور ِفارو قی :
خلیفۃ المسلمین ہونے کے بعد حضرت عمر فاروق ؓ قرآن کریم کی نشر واشاعت کی طرف بطور خاص متوجہ ہوئے ،چنانچہ آپ نے ایک مرتبہ اپنے فوجی افسران کو خط میں لکھا کہ میرے پاس حفاظ قرآن بھیجو ،اس پر حضرت سعد بن أبی وقاص ؓ نے جو اباً لکھا کہ میری فوج میں تین سو حفاظ ہیں۔ امام ابن حزم اندلسی کہتے ہیں کہ آپ ؓکے عہد خلافت میں امت کے پاس ایک لاکھ سے زائد قرآن پاک کے لکھے ہوئے نسخے موجود تھے ،اسی کے ساتھ باجماعت نماز تراویح کی بنیاد آپؓ نے ڈالی اور پوری مملکت میں اسے نافذ فرمایا ،حفظ قرآن کی تحریک کو آپ ؓکے اس فرمان سے زبردست تقویت حاصل ہوئی ، امت مسلمہ پر حضرت عمر ؓ کا یہ بڑا احسان ہے کہ آج اس کے پاس قرآن مجید اسی شکل میں جیسا کہ نزول کے وقت تھاسید نا عمر فاروق ؓ کی بر کت سے محفوظ طریقہ پر پہنچ گیا ۔
چوتھا دور ،دور عثمانی :
جب فتوحات اسلامی کا دائرہ وسیع تر ہوا ،اور جزیرۃ العرب سے باہر مختلف امصار وبلاد کے لوگ حلقہ بگوشِ اسلام ہونے لگے اورلسان عرب کے مادری زبان نہ ہونے کے سبب اس کے حروف والفاظ کےصحیح تلفظ واداء پرقدرت ان میں عموماً نہیں پائی جاتی تھی با ایں ہمہ خود قبائل عرب میں مختلف لب ولہجہ کا اختلاف کثرت سے موجود تھا جس کی وجہ سے ان میں مختلف طریقہ اداء تلاوت کے وقت بھی پایا جاتا تھا ،اگر چہ فی الحقیقت یہ اختلاف خاص عرب قوم یا عربی زبان کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ جیسا کہ ابن قتیبہ ان اختلافات کا ذکر کر تے ہوئے لکھتے ہیں :
" فا لُھذلی یقرأ" عتٰی عین" والاسدی یقرأ "تِعلمون" بکسر التاء ، والتیمی یَہمزوالقریش لایھمز "(تبیا ن فی مباحث القرآن ص ۴۴ طاہر الجزائری ) "یعنی قبیلہ ہذیل "حتی حین" کو" عتی عین" پڑھتے ہیں ، اور اسدی لوگ "تِعلمون" بکسر التاء پڑھتے ہیں اسی طرح تمیمی ہمزہ کو بالتحقیق پڑھتے ہیں اور قریش ہمزہ نہیں پڑھتے ہیں " ۔ اسی طرح قبیلہ قیس کے لوگ تانیث کے کاف کا تلفظ شین سے اس طرح کرتے ہیں کہ " قد جعل َِرَ بک تحتکِ سریاً" کو "ربشِ تحتشِ سریا" پڑھتے ہیں ،تمیمی "اَن" کو" عن" ادا کر تے ہیں ،اور یہی تمیمی سین کی جگہ ثا کا تلفظ کرتے تھے مثلا "برب الناث ، ملک الناثِ" پڑھتے تھے ۔
قارئین کرام غور فرمائیں کہ جب لب ولہجہ کے اختلاف میں قبائل عرب کا یہ حال تھا ، تو اہل عجم کا کیا پوچھنا ؟
یوں بھی لب ولہجہ اور زبان کا اختلاف آپ کو ہر دور میں ملے گا ۔ اب اگر قرآن کریم کی کتابت وطباعت مختلف انداز،تلفظ اور طرح طرح کے لب و لہجہ کے لحاظ سے ہوتی توآج ہمارا کیا حال ہوتا ،امت عظیم اختلاف وتفریق کا شکار ہو کر رہ جاتی ، اسی کے ساتھ دوسرا مسئلہ یہ بھی درپیش تھا کہ عوام الناس معلمین سے قرآن سیکھتے پڑھتے اور دوسروں کو تعلیم دیتے رہے ،ان معلمین میں بعض تعلیم کے وقت کچھ تشریحی و توضیحی کلمات کا اضافہ بھی کرتے تھے اور متعلمین بعض مر تبہ اسے قرآن کا جز سمجھ کر محفوظ کرلیتے تھے ،مثلا "لیس علیکم جناح ان تبتغو ا فضلا من ربکم "(تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو ) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے اپنے ذاتی نسخہ میں فی مواسمِ الحج کے الفاظ لکھے تھے ،جسکا مطلب یہ ہےکہ ایام حج میں تجارت کرکے کچھ مالی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اب ظاہر بات ہے کہ یہ اضافہ محض توضیح وتشریح کی غرض سے تھا ۔
اسی طرح ہر تلفظ کی ادائیگی کے لئے پیغمبر ﷺ نے جو اجازت دی تھی ، اس میں بھی مبالغہ ہونے لگا اور نوبت سخت قسم کے اختلافات" کَفّرَ بعضُہم بعضاً" تک پہنچنے لگی ۔
چنانچہ عہد عثمانی میں فتح آرمینیہ اور آذر بائیجان ۳۰ھ کے وقت شام اور عراق کی فو جیں ایک جگہ جمع تھیں ان دونوں کی قراءت میں تشویشناک حد تک اختلاف پایا گیا ، ہر شخص اپنی قراءت کو دوسرے سے افضل قرار دیتا ۔ اس جنگ میں دیگر اصحاب کے ساتھ حضرت حذیفہ بن یمان ؓ بھی تھے ، انہوں نے جب یہ صورت حال دیکھی تو انہیں سخت تشویش ہوئی پوری تفصیل بخاری شریف ص ۷۴۶میں موجود ہے ، اسی طرح مشکوۃ باب فضائل القرآن ص۱۹۳ اور النشرج ۱ ص ۷ میں مذکور ہے ، جبکہ امام شاطبی ؒ نے علامہ دانیؒ (م ۴۴۴ھ ) کی کتاب المقنع کو نظم کرتے ہوئے اپنے قصیدہ رائیہ کے شعر نمبر ۳۱سے نمبر ۳۴ تک کے چار اشعار میں اس کو بیان کیا ہے ۔ خلاصہ یہ کہ حضرت حذیفہ ؓ کو اس سے بڑا دکھ ہوا اور واپس ہو کر آپ نے خلیفہ وقت حضرت عثمانؓ سے یہ واقعہ بیان کرکے ان کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ قراءت کو رسم الخط کا پابند اور اضافہ جات کو حذف کیا جائے اور جمع شدہ قرآن سب کے روبہ رو لایا جائے ۔حضرت عثمان ؓنے حضرت حذیفہ ؓ کی رائے کو پسند فرمایا اور ام المؤمنین حضرت حفصہ ؓ کے پاس سے عہد صدیقی کا جمع کردہ قرآن مجید منگواکر حضرت زید بن ثابت ؓ ، حضرت عبد الرحمٰن بن حارث بن ہشامؓ کو اس کام پر مقرر فرمایا۔( بخاری شریف ج۲ص ۷۸۴)۔ ان حضرات کو حضرت عثمانؓ کی طرف سے یہ تاکید کی گئی کہ اس رسم الخط میں تمام قراءات متواترہ ثابت ہوں، امام سیوطی الاتقان ج ۲ ص ۲۸۹ میں لکھتے ہیں کہ جہاں تک مشہور اور مختلف قراءٰت کا تعلق ہے جیسے "أوصیٰ ووصّیٰ ، تجری ، تحتھا ،اور، من تحتھا ،سیقولون اللہ ،اور، سیقولون لِللّہ ،فتبیَّنوا ، اور، فتثبّتوا ،وغیرہ یہ سب قرائتیں حضرت عثمان ؓ کے مصحف میں موجود تھیں ، اور چونکہ اس میں نقطے اور اعراب نہیں تھے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ بعض الفاظ کو جن میں مختلف قراءٰت تھیں انہیں کئی طریقے سےپڑھا جاسکتا تھا ۔
قراءات متواترہ کو ثابت اور باقی رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ اس کی اجازت خود حدیث مشہور سے ثابت ہے، ارشاد فرمایا نبی کریم ﷺ نے "اِن ھذا القرآن اُنزل علی سبعۃ أحرف فاقرؤا ماتیسرمنہ "(صحیحین ج۲ص ۷۴۷ ۔ ج ۱ص ۲۷۲۔)
دوسری تاکید یہ تھی کہ دوران تلاوت جہاں اختلاف ہو اور مشکل پیش آئے وہاں لغت قریش کو ترجیح دیتے ہوئے اسی کے مطابق لکھا جائے کیونکہ قریش ہی کی لغت میں قرآن نازل ہوا ہے چنانچہ قراءت قرآن کے بارے میں یہی اختلاف ونزاع حضرت عثمانؓ کے قرآن کریم کو کتا بی صورت میں جمع کر نے وکتابت کا حکم فرمانے کا اساسی وبنیادی سبب تھا ۔
اس مہتم بالشان خدمت قرآن کی تکمیل کے بعد مشہور قول کے مطابق قرآن مجید کے پانچ نسخے لکھے گئے(الاتقان ج۱ص ۱۰۴۔) یہ نسخے مدینہ طیبہ ، مکہ مکرمہ ،شام،بصرہ اور کوفہ روانہ کیے گئے ۔ دراصل سیدنا حضرت عثمانؓ کا منشا یہ تھا کہ صرف تحریر کردہ قرآنی نسخو ں ہی پر قناعت نہ کی جائے بلکہ براہ راست و با لمشافہ صحابہ ؓ کےمنہ سےقرآن سن کر اپنے سینوں میں محفوظ کرلیں اس لیے حضرت عثمانؓ جب کہیں کوئی قرآنی نسخہ روانہ فرماتےتو اس کے ساتھ ایک معلم وقاری بھی بھیجتے تھے ۔ اس لیے مذکورہ پانچوں شہروں کے لیے ممتاز صحابہ کرامؓ معلم اور نگران مقر ر کیے گئے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن کریم کی تعلیم میں صرف قرآنی نسخےکا پڑھ لینا یا مطالعہ کر لینا کافی نہیں بلکہ کسی ماہر و مشاق معلم سے بالمشافہ سیکھنا ضروری ہے۔ چنانچہ مدینہ طیبہ میں حضرت زید بن ثابتؓ کو ، مکہ مکرمہ میں حضرت عبداللہ بن سائب ؓکو، شام میں حضرت مغیرہ بن شہاب ؓ کو، بصرہ میں حضرت عامر بن عبد اللہ القیس ؓ کو،اور کوفہ میں حضرت عبدالرحمٰن السلمیؓ کو نگراں مقرر کیا گیا ، (مناہل العرفان ج۱ص۳۹۶۔۳۹۷ )اور ایک نسخہ آپ نے اپنے لیے خاص فرما یا جسے مصحف امام کہاجاتاہے ۔ اس طرح کل تعداد ان مصاحف کی چھ ہو گئی ۔ پھر بعض نے تعداد آٹھ بتائی ہے، اس اعتبا ر سے ساتواں بحرین اور آٹھواں یمن ارسال فرمایا ۔ بعض کے نزدیک آپ نے ایک نسخہ مصر بھی روانہ فرمایا (النشر:۱/۷) قرآنیت کے اصول ثلٰثہ میں سے ایک اصول یہ بھی ہے کہ جس قرآن کا رسم الخط مصاحف عثمانی کے مطابق ہو گا وہی قرآن کہا جائے گا، اس کےخلاف جائز نہیں۔
قرآن مجید کو مصحف کا نام سب سے پہلے حضرت ابوبکر ؓ کے دور خلافت میں دیا گیا ۔ چنانچہ محمد بن عبداللہ بن اشتہ متوفی ۳۶۰ ھ اپنی کتاب "المصاحف " میں بطریق موسیٰ بن عقبہ روایت کر تے ہیں کہ جب قرآن کریم کو جمع کرکے اوراق پر لکھا گیا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ اس کا کوئی نام مقرر کیا جائے ،بعض حضرات نے "السِّفر" (پیغامات) تجویز کیا ،آپ نے فرمایا یہ یہود کا تجویز کردہ نام ہے ،بعض نے حبشہ میں رائج نام یعنی "المصحف " تجویزکیا جس پر اتفاق ہوگیا اور قرآن مجید کو اَلمصحف کہا جانے لگا ۔
سید نا حضرت عثمان ؓ نے مذکورہ بالاعلاقوں میں مصاحف روانہ کرکے یہ حکم جاری فرمایا کہ اس کےعلاوہ جس کےپاس بھی ذاتی قرآن کے نسخے موجود ہوں وہ حکومت کو بھیج دئیے جائیں ، چنانچہ دوسرے تمام نسخے تلف کردئیے گئے ۔ اس میں شک نہیں کہ آپ کا یہ فیصلہ بہت سی حکمتوں اور مصلحتوں پر مبنی تھا ، کیونکہ بعد میں ان نسخوں کا وجود امت میں زبردست افتراق واختلاف کا سبب بن سکتا تھا، عہد رسالت مآبﷺ سےجس قدر دوری ہوتی جاتی اسی قدر یہ نسخے امت مسلمہ کےلیے زیادہ مضرثابت ہوتے۔
فائدہ مہمہ:یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قرآن کریم کے جن کلمات میں ایک سے زائد قراءتیں متواتر دلیل سے ثابت نہیں تھیں ان کو ایک ہی طرح سے لکھا جاتا تھا ،لیکن جن کلمات قرآنی میں بدلیل تواتر ایک سے زائد قراءتیں تھیں ان تمام قراءتوں کا اظہار صرف ایک ہی رسم الخط کے ذریعہ ہر جگہ ممکن نہ تھا ، اس لیے کتابت کرنے والے ایسے تمام کلمات کو ایک نسخہ میں ایک متواتر قراءت کے اظہار کے لیے ایک طرح ،اور دوسرے نسخہ میں دوسری متواتر قراءت کے اظہار کے لیے دوسری طرح، اور تیسری متواتر قراءت کے اظہارکے لئے تیسرے نسخے میں تیسری طرح لکھنے پر مجبور تھے ، اس مجبوری میں مصاحف میں تعدد ناگزیر تھا ۔
بہرحال حضرت عثمانؓ کے اس اقدام کو سب حضرات نے بڑی وقعت اور پسندید گی کی نگاہ سے دیکھا، قرآن کریم کے ذاتی وانفرادی نسخوں کے معدوم کیے جانے کا اقدام آپ ؓ نے صحابہ ؓ کے مشوروں کے بعد کیا تھا ۔ چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرمایا کرتے تھے کہ" عثمانؓ کے بارے میں بھلائی کے سوا کچھ نہ کہو، بخدا آپ نے مصاحف کے بارے میں جو کچھ بھی کیا وہ ہمارے مشورے کے مطابق اور ہماری موجودگی میں کیا " (الاتقان ج۱ ص۱۰۳) (بعض نےکہا کہ حضرت سوید بن غفلہؓ کا بھی یہی قول ہے )
بہرحال ان مصاحف عثمانی میں نقطے اور اعراب نہیں تھےجن کا فائدہ یہ تھا کہ مختلف قراءات پڑھی جاسکتی تھیں ، نیز ان میں آیات اور سورتوں کی بعینہ وہی ترتیب تھی جو کہ موجودہ قرآنی نسخوں میں ہے۔
اس امر میں بھی کوئی شک وشبہ نہیں کہ قرآن مجید فرقان حمید کے سو ا دنیا کی کسی کتاب کی حفاظت کے لیے وہ اہتمام نہیں کیا گیا جو قرآن کے حصے میں آیا ، قرآن کریم کے سوا دنیا میں کوئی کتاب بطریق تواتر انسانوں تک نہیں پہنچی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے "لایأتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ تنزیل من حکیم حمید "یعنی باطل اس قرآن میں نہ آگے سے آسکتا ہے نہ پیچھے سے (کسی راہ سے جگہ نہیں پاسکتا) یہ حکمت والے، سزاوارِ حمدوثنا کا نازل کردہ ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید کے لفظا ومعنیً،رسماً وکتابۃً ہر اعتبار سے خود رب العزت ہی محافظ ہیں ، قال تعالیٰ :"اِنا نحن الذکر وانا لہ لحٰفظون "
خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عثمانؓ کا امت مسلمہ پر یہ عظیم احسان ہے کہ آپ نے رسم الخط وکتابت کی حد تک قرآن پاک میں وحدت کا رنگ پیدا کردیا ،"فجزاہ اللہ عن امۃ محمد ﷺ خیرالجزاء"۔
دور حاضر میں عالم اسلام میں جو مصاحف کہ مروج اور متداول ہیں ،ان میں بیشتر کارسم عموما ًمصاحف عثمانیہ کے رسم ِعثمانی کےمطا بق ہے، چاہے وہ مصحف حفص ہو کہ زیادہ تر مصر، شام یا سعودیہ میں رائج ہے ،جسے مصحف مشارقہ بھی کہاجاتا ہے ،یا وہ روایت ورش اور قالون والا مصحف ہو جسے مصحف مغاربہ کہاجاتاہے،اور مراکش ، الجزائر ، اور موریطانیہ وغیرہ میں متداول ہے ، یا وہ مصحف نستعلیق ہو جو بر صغیر میں مطبوع اور معمول بہ ہے ،" مجمع ملک فھد " میں بھی اسی نسخہ کو مصحف تاج یا نستعلیق کا نام دیا گیا ہے ۔
مذکورہ تین قسم کے مصاحف ہی عالم اسلام یا بلاد اسلامیہ میں پائے جاتے ہیں ۔ ان مصاحف میں خصوصا ًحذف الف اور اثبات الف کے اعتبار سے جو فرق مشاہدے میں آیا ہے اس کی اصل بنیاد و دلیل در اصل وہ قدیم مصاحف ہیں جن میں اوپر سے یہ اختلاف چلاآتاہے ، جبکہ ائمہ رسم اور محققین علماء نے بھی بنیاد انہی مصاحف کو بنایا ہے ،ان میں امام دانی صاحب "المقنع" متوفی ۴۴۴ھ اور ان کے ارشد تلمیذ امام ابو داؤد بن نجاح کے اسمائے گرامی نمایاں ہیں ۔ اب قرآنی کلمات میں الف کے حذف و اثبات میں اختلاف کے پیش نظر پاکستان میں متداول مصحف تاج یا مصحف نستعلیق کے متعلق بعض سطحی نظر رکھنے والے حضرات مسلسل یہ پرو پیگنڈہ کررہے ہیں کہ اس پاکستانی مصحف تاج کا رسم غلط اور بلادلیل ہے، جبکہ حذف الف واثبات الف کے دونوں منہج درست ہیں ۔ چنانچہ جمع مذکر سالم میں سولہ کلمات، جمع مؤنث سالم میں سات کلمات اور ان کے علاوہ الف سے یاءتک تمام حروف کے بعد آنے والے الف کے مختلف کلمات میں یہی صورتحال ہے کہ حذف الف واثبات الف میں امام دانی اور امام ابو داؤد کا مؤقف کہیں ایک ہے، کہیں مختلف ہے ، اس بارے میں تقریبا تین سو کلمات ایسے مذکور ہیں کہ جن میں حذف الف واثبات الف کی بنیاد ائمہ کے نصوص وروایات اور قدیم مصاحف پر قائم ہے ، مصاحف مشارقہ اور مغاربہ میں با لعموم امام ابو داؤد بن نجاح کی تصریحات کو بنیادی حیثیت دی گئی ہے ، جبکہ بر صغیر کے متداول مصاحف میں امام دانی کے نصوص و تصریحات پر عمل کیا گیا ہے، لہذا بیک جنبشِ قلم اسکی تغلیط نہیں کی جاسکتی ، کیونکہ منہج دونوں صحیح ہیں اور کسی میں رسم عثمانی کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی گئی ۔ ان تمام مناہج کے اصول و ضوابط اور ان کےدلائل امام ابو عمرو دانی کی "المقنع " اور امام ابوداؤد بن بجاح کی" التبیین لھجاء التنزیل " اور امام شاطبی ضریرؒ کی " عقیلۃ أتراب القصائد" میں موجود ہیں۔ البتہ رسم عثمانی کے جن کلمات میں امام ابو عمرو دانیؒ اور امام ابو داؤدؒ میں باہمی اتفاق ہے وہاں مصحف تاج میں بھی اسی رسم کی پابندی کی گئی ہے، جہاں اختلاف ہے ان میں ا مام دانی ؒکی تصریحات پر دارو مدار رکھا گیا ہے ، کچھ کلمات ایسے بھی ہیں جن میں امام شاطبی کےنصوص کو مد نظر رکھا گیا ہے اور خاص ان کلمات میں امام شاطبی کا مؤقف امام ابو عمرو دانی سے الگ ہے ۔ اسی طرح اس مصحف تاج میں تقریبا دس کلمات ایسے ہیں جو اس منہج سےمختلف ہیں ،ان میں یا تو امام ابو داؤد یا کسی دوسرے رسم عثمانی کے امام کے قول کولیا گیا ہے ،چند کلمات ایسے بھی ہیں کہ جن میں بعض قراءات متوترہ کی بنا ء پر حذف الف کو اختیار کیا گیا ہے ، اس مصحف تاج اور دوسرے مصاحف خصوصا مصحف مدینہ کے مابین موازنہ کرنےسے معلوم ہو تا ہے کہ کل" ۱۷۴۶ "کلمات رسم میں یہ فرق ہے ،جن میں تقریبا ۹۸ فیصد میں مصحف تاج میں امام ابو عمرو دانی کے منہج کو لیا گیا ہے، اور مصحف مدینہ میں امام ابو داؤد کا منہج اختیار کیا گیا ہے ۔
ا ب چند سالوں سے پاکستان میں ایک مخصوص لابی پاکستانی مصاحف کے رسم اور ضبط سےمتعلق شکوک وشبہات پھیلارہی ہے ،چونکہ اس مسئلہ پر کوئی مدلل اور مرتب دستاویز منظر عام پر نہ تھی جس کی وجہ سے عالم عرب کے بعض اسکا لر ز اور ان کی دیکھا دیکھی بعض ہمارے پاکستانی اسکالر ز بھی اس کاغلط فہمی کا شکار ہو گئے کہ عالم عرب میں متداول اور مروج مصاحف خواہ وہ مصری ہوں یا مدنی وہ تو رسم عثمانی کے عین مطابق ہیں اور پاکستانی مصاحف رسم عثمانی کے خلا ف ہیں ،لہذا اب پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہوگیا ہے کہ رسم قرآنی اور برصغیر پاک وہند کے مروج مصاحف سے مدلل ومرتب دستاویز ی ثبو ت کے ساتھ کتاب ترتیب دی جائے ،جس میں ساری جزئیات ،تفصیلات اور مقامات درج ہوں اور دلائل واضحہ سے اس مسئلہ کو مبرہن کیا جائے ، امت مسلمہ کو آگاہ ہی دی جائے ،اور ان کی آنکھیں کھولی جائیں ،انہیں معلوم ہوکہ امت مرحومہ نے کبھی بھی کسی گمراہی اور سنگین غلطی پر اتفاق نہیں کیا ، اور ان شاءاللہ کبھی کرے گی بھی نہیں ،چہ جائے کہ رسم قرآنی پر پورے برصغیر کے اہل علم ارباب رسم محققین ،ائمہ قراءت ومجودین ،ماہرین فن قاطبۃً کتاب اللہ کے رسم پر یکے بعد دیگرے ضلالت و غوایت کاشکار ہو جائیں :کلا وحاشا
اس فتنے کا سد باب کر نے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کی وزارت مذہبی امور پاکستان میں طبع ہونے والے تمام مصاحف قرآنی میں اپنے رسم عثمانی کی پوری حفاظت وپابندی کرے، ان میں واقعۃ جو اغلاط ہوں ان کی درستگی کے لئے ماہرین رسم عثمانی اہل علم وفضل کا انتخاب کرے ،اس کا مر بوط ومستحکم نظم قائم کرے تاکہ قرآنی نسخوں کی طباعت میں رسم عثمانی کی پابندی کو یقینی بنایا جاسکے ۔
تاج کمپنی ودیگر مطابع ،اہل علم محققین علمائے رسم کا ایک بورڈ تشکیل دیں جو ان اغلاط کی درستگی کا اہتمام کرے جو فی الواقع اصل رسم کی رُو سے قابل اصلاح ہیں اور جن کی نشاندہی مختلف مقالوں میں کردی گئی ہے۔