رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تاریخِ ولادت کی تحقیق
افادات: حضرت مفتی رِضاء الحق صاحب (أدام ظلال برکاتہ علینا وعلی سائر الناس)
(شیخ الحدیث ومفتی دار العلوم زکریا، جنوبی افریقہ،خلیفہ فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ تعالی(م۱۹۹۶ ء)
ترتیب وتخریج: اویس گودھروی (فاضل دار العلوم زکریا واستاذ جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین، ڈابھیل، گجرات)
محققین کے نزدیک آپ ا نو(۹) ربیع الاول کی ابتدا میں پیدا ہوئے، جو شمسی لحاظ سے ۲۰ ؍اپریل ۵۷۱ ء کا دن تھا۔تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ اربیع میں پیدا ہوئے اور موسمِ ربیع ایشیا میں اپریل کے مہینہ میں آتاہے، اس سے ثابت ہواکہ اپریل کا مہینہ تھا۔کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کاربیع میں ہونا یوں بیان کیاہے :
یقول لنا لسانُ الحال منہ
وقول الحق یَعذُب للسمیع
فوجہي والزمان وشہر وضعي
ربیع في ربیع في ربیع
( شرح الزرقانی علی المواہب ۱/۲۵۷. سبل الہدی والرشاد ۱/۳۳۴)
تحقیقِ تاریخِ ولادت:
سال: یہ بات مسلّم ہے کہ رسول اللہ ا کی ولادت باسعادت عام الفیل میں ہوئی تھی ، اس پر سب ہی مؤرخین وسیرت نگار متفق ہیں۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی (م۷۷۴ ھ)فرماتے ہیں: قال ابن إسحاق: وکان مولدہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عام الفیل، وہذا ہو المشہور عند الجمہور. (البدایۃ والنہایۃ ۲/۳۲۱)
علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ تعالی (م ۵۹۷ ھ)فرماتے ہیں: واتفقوا علی أن رسول اللّٰہ ۔صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ ولد یوم الإثنین في شہر ربیع الأول عام الفیل. (صفۃ الصفوۃ ۱/۵۱. وینظر: الروض الأنف ۱/۲۷۶)
واقعۂ فیل کے کتنے دنوں بعد آپ کی ولادت ہوئی؟ اس بارے میں متعدد اقوال ہیں؛مگر مشہور قول ۵۰؍دن کا ہے۔
ولد عام الفیل ... فقیل: بعدہ بشہر ... وقیل: بخمسین یوما، وہو أشہر. (البدایۃ والنہایۃ ۲/۳۲۱)
مہینہ: اس سلسلہ میں علامہ قسطلانی رحمہ اللہ تعالی (م۹۲۳ ھ)نے چھ اقوال نقل فرمائے ہیں : (۱) محرم(۲) صفر (۳)ربیع الاول(۴) ربیع الآخر(۵) رجب(۶) رمضان؛ مگر جمہور کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ماہِ ربیع الاول میں ہوئی۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: ثم الجمہور علی أنہ کان في شہر ربیع الأول. (البدایۃ والنہایۃ ۲/۳۲۰)
ابھی ابن الجوزی رحمہ اللہ تعالی کی عبارت گذری، اس میں بھی ربیع الاول کی تعیین پر اتفاق نقل کیا گیا ہے۔
مشہورمحقق عالم علامہ محمد زاہد کوثری رحمہ اللہ تعالی (م۱۳۷۱ ھ)نے تاریخ ولادت پر اچھی تحقیق فرمائی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ربیع الاول کے علاوہ کسی اور مہینہ کا قول علمائے ناقدین کے نزدیک سبقتِ قلم کے قبیل سے ہے:
وقد اتفق جمہرۃ النقلۃ علی أن مولدہ کان عام الفیل، وأنہ کان یوم الإثنین، وأن شہر مولدہ ہو شہر ربیع الأول، وذکرُ شہرٍ سواہ لمولدہ علیہ السلام لیس إلا من قبیل سبق القلم عند النقاد. (مقالات الکوثري، ص۴۰۵)
دن: اس بات پر بھی اربابِ سیر وتاریخ کا اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت پیر کے دن ہوئی۔
وفي الحدیث: وسئل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن یوم الاثنین؟ قال: ذاک یوم ولدت فیہ، ویوم بعثت... (صحیح مسلم، رقم:۱۱۶۲، باب استحباب ثلاثۃ أیام من کل شہر)
وقال ابن کثیر رحمہ اللّٰہ تعالی: وہذا ما لا خلاف فیہ أنہ ولد صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوم الإثنین. (البدایۃ والنہایۃ ۲/۳۱۹)
تاریخ: ماہِ ربیع الاول کی کونسی تاریخ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی تھی؟ اس کے متعلق بعض علماکا کہنا ہے کہ ربیع الاول میں پیر کے دن ہوئی، مگر تاریخ کا تعین نہ ہوسکا، جب کہ جمہور فرماتے ہیں کہ تاریخ متعین ہے۔ پھر وہ کونسی تاریخ تھی؟
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ تعالی(م۹۲۳ ھ) نے اس سلسلہ میں کل سات اقوال نقل فرمائے ہیں:(۱) ربیع الاول کی دوسری(۲)آٹھویں (۳)دسویں(۴)بارھویں(۵)سترھویں(۶)اٹھارھویں (۷) بائیسویں ۔ (المواہب اللَّدُنِّیَّۃ ۱/۱۴۰۔۱۴۲)
علامہ کوثریؒ فرماتے ہیں کہ:(۱) آٹھویں تاریخ ختم ہونے کے بعد یعنی نویں تاریخ (۲) دسویں تاریخ(۳) بارھویں تاریخ۔ان تین اقوال کے علاوہ دیگر چار اقوال؛ مستند اور قوی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے قابل التفات نہیں۔ تواب کل بحث کامحور انہی تین روایات میں سے راجح کی ترجیح ہے۔
دسویں تاریخ کی روایت:
اس روایت کو ابن سعد (م۱۶۸ ھ)نے محمد باقر (م۱۱۴ ھ)کی طرف منسوب کیا ہے؛لیکن اس کی سند میں تین روات متکلم فیہ ہیں، اس لیے دس تاریخ والی روایت قابلِ ترجیح نہیں ہے۔ اس روایت کی طرف علامہ کوثری رحمہ اللہ تعالی نے اشارہ فرمایا ہے۔ وہ روایت طبقات سے نقل کی جاتی ہے:
قال ابن سعد : أنا محمد بن عمر بن واقد الأسلمي قال: ثني أبو بکر بن عبد اللّٰہ بن أبي سبرۃ عن إسحاق بن عبد اللّٰہ بن أبي فروۃ عن أبی جعفر محمد بن علي (ویعرف بمحمد الباقر) قال: ولد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لِعشرٍ خَلَون من شہر ربیع الأول...، فبین الفیل وبین مولد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم خمس وخمسون لیلۃ. (الطبقات الکبری لابن سعد ۱/۱۰۰ ذکر مولد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم)
بارہویں تاریخ کی روایت:
اس قول کو محمد بن اسحاق (م۱۵۱ھ )نے نقل کیا ہے، مگراس کی کوئی سند نہیں بیان کی ، اگرچہ یہ قول سب سے زیادہ مشہور ہے اور اہل مکہ کی مجالسِ مولود پرانے زمانے سے اسی تاریخ میں ہوتی رہی ہیں، نیز دنیا بھر میں محافلِ مولود اور جلسے اسی دن کیے جاتے ہیں، مگرروایت سے اس دن ولادت ہونے کا ثبوت نہیں۔ملاحظہ فرمائیں: مستدرکِ حاکم (م۴۰۵ ھ)میں ہے:
أخبرنا أبو الحسن محمد بن أحمد بن شبویہ بمرو، ثنا جعفر بن محمد النیسابوري، ثنا علي بن مہران، ثنا سلمۃ بن الفضل عن محمد بن إسحاق قال: ولد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لاثنتي عشرۃ لیلۃ مضت من شہر ربیع الأول.
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم، رقم: ۴۱۸۳)
یہ روایت بھی سندِ متصل نہ ہونے کی وجہ سے قابلِ التفات نہیں اور اس کا حال بھی ان روایات کی طرح ہے جن کی سند نہ ہو۔
نویں تاریخ کا قول:
عقلاً اور نقلاً اس بات کو ترجیح حاصل ہے کہ آپ کی ولادت آٹھویں تاریخ کے ختم پر نویں تاریخ کو ہوئی۔
روایتاً:( ۱)علامہ ابن عبد البر (م۴۶۳ ھ)نے اس بارے میں اختلاف نقل کرتے ہوئے اس قول کو سب سے پہلے ذکرکیا ہے۔
قال أبو عمر: وقد قیل: لثمان خلون منہ ، وقیل ...، وقیل... (الاستیعاب لابن عبد البر ۱/۳۰)
(۲)حافظ ابنِ کثیرؒ فرماتے ہیں : وقیل : لثمان خلون منہ، حکاہ الحمیدي عن ابن حزم، ورواہ مالک وعقیل ویونس بن یزید وغیرہم عن الزہري عن محمد بن جبیر بن مطعم، ونقل ابن عبد البر عن أصحاب التاریخ أنہم صحَّحوہ، وقطع بہ الحافظ الکبیر محمد بن موسی الخوارزمي، ورجَّحہ الحافظُ أبو الخطاب بن دحیۃ في کتابہ ’’التنویر في مولد البشیر النذیر‘‘.(البدایۃ والنہایۃ ۲/۳۲۰)
(۳) حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب ؒ (م۱۳۸۲ ھ) تحریر فرماتے ہیں: عوام میں تو مشہور قول یہ ہے کہ ۱۲؍ ربیع الاول تھی، اور بعض کمزور روایات اس کی پشت پر ہیں، اور اکثر علماء ۸؍ ربیع الاول کہتے ہیں۔ لیکن صحیح اور مستند قول یہ ہے کہ ۹؍ربیع الاول تاریحِ ولادت ہے، اور مشاہیر علمائے تاریخ اور حدیث اور جلیل المرتبت ائمۂ دین اسی تاریخ کو صحیح اور اثبت کہتے ہیں؛ چنانچہ حمیدی ، عقیل، یونس بن یزید، ابن عبد اللہ، ابن حزم، محمد بن موسی خوارزمی، ابو الخطاب ابن دحیہ، ابن تیمیہ، ابن قیم، ابن کثیر، ابن حجرعسقلانی،شیخ بدر الدین عینی [رحمہم اللہ اجمعین]جیسے مقتدرعلماکی یہی رائے ہے۔ (قصص القران ۴/۲۵۳)
(۴)علامہ سید سلیمان ندوی ؒ نے بھی نو(۹) تاریخ کو ولادت ہوناراجح قراردیا ہے۔(رحمت للعالمین۱/۳۸۔۳۹)
درایتاً /عقلاً:
( ۱) محمد بن موسی خوارزمی (م۲۳۵ ھ)فلکیات کے بہت بڑے امام ہیں، ان کا حوالہ ابھی اوپر کی عبارت میں ذکر کیا گیا۔
(۲) فن ریاضی کے بہت بڑے عالم علامہ محمود پاشا فلکی مصری (م۱۳۰۲ ھ)نے فرانسیسی زبان میں’’ تقویم العرب قبل الإسلام ‘‘کے موضوع پر ایک بے مثال کتاب تالیف فرمائی ہے، اور علامہ احمد ذکی پاشا (م۱۳۵۳ ھ)نے اس کا عربی میں ترجمہ کیا ہے ،جس کانام ’’نتائج الأفہام في تقویم العرب قبل الإسلام وفي تحقیق مولد النبي وعمرہ علیہ الصلاۃ والسلام‘‘ہے۔ اس کتاب میں مشرق اورمغرب کے کئی ایک فلکی ماہرین کے اقوال کو مد نظر رکھ کر کی گئی تحقیق سے بھی نو(۹) تاریخ ہونا واضح ہے۔ (نتائج الأفہام ص۲۸۔۳۵)
ان کی بیان کردہ وجوہات میں سے ایک وجہ کچھ اس طرح ہے کہ:
رسول اللہ اکے عہدِ مبارک میں سنہ۱۰ھ ماہِ شوال کی آخری تاریخ کو سورج گہن ہواتھا، اُسی دن آپ کے صاحبزادہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہواتھا۔
قال الحافظ (م۸۵۲ ھ): یوم مات إبراہیم یعني ابنَ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وقد ذکر جمہور أہل السیر أنہ مات في السنۃ العاشرۃ من الہجرۃ، فقیل: ... والأکثر علی أنہا وقعت في عاشر الشہر. (فتح الباري ۲/۵۲۹)
اس حساب سے اگر پیچھے شمار کیا جائے تو ربیع الاول کی نویں تاریخ کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت بابرکت ہونا ثابت ہوگا،اس لیے کہ پیر کا دن یومِ پیدائش ہونا تو متفق علیہ ہے،اور وہ عام الفیل کے ربیع الاول میں نو (۹)تاریخ ہی کوآتاہے۔علامہ محمود پاشافرماتے ہیں:
وقد اتفقوا جمیعا علی أن الولادۃ کانت في یوم الإثنین، وحیث إنہ لا یوجد بین الثامن والثاني عشر من ہذا الشہر یوم إثنین سوی الیوم التاسع منہ، فلا یمکن أن نعتبر یوم الولادۃ خلاف ہذا الیوم.
حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب تحریر فرماتے ہیں:
محمود پاشا فلکی نے (جو قسطنطنیہ کا مشہور ہیئت داں اور منجم گذراہے) ہیئت کے مطابق جو زائچہ اس غرض سے مرتب کیا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے اپنے زمانے تک کے کسوف اور خسوف کا صحیح حساب معلوم کرے، پوری تحقیق کے ساتھ یہ ثابت کیاہے کہ سنِ ولادت باسعادت میں کسی حساب سے بھی دو شنبہ کا دن ۱۲؍ ربیع الاول کو نہیں آتا، بلکہ ۹ ربیع الاول ہی کو آتاہے، اس لیے بلحاظِ قوت وصحتِ روایات اور باعتبارِ حسابِ ہیئت ونجوم ولادتِ مبارکہ کی مستند تاریخ ۹ ؍ربیع الاول ہے۔ (قصص القران ۴/۲۵۳)
(۳) مذکورہ بالا کتاب ’’نتائج الأفہام في تقویم العرب قبل الإسلام وفي تحقیق مولد النبي وعمرہ علیہ الصلاۃ والسلام‘‘کے ایک ایڈیشن پراپنے زمانے کے عظیم ونامور مؤرخ وادیب شیخ علی طنطاوی (م۱۴۲۰ ھ)نے مقدمہ لکھا ہے، جس میں آپ نے نو(۹) ربیع الاول کوولادت با سعادت کادن قراردینے پر مؤلفِ کتاب کی پرزور تایید فرمائی ہے۔ (مقدمات الطنطاوي ۸۳)
(۴) محدثِ عظیم ومحققِ بے نظیر شیخ احمد شاکر ( احمد بن محمد عبدالقادرم ۱۳۷۷ ھ)نے بھی شیخ محمود پاشا فلکی کی تحقیق کواختیار کرکے اس سے کسوفِ شمس کی تعیین میں مدد لی ہے۔ (حاشیۃ الشیخ أحمد شاکر علی’’المحلّٰی بالآثار‘‘ ۵/۱۱۴۔۱۱۵ لابن حزم الظاہري م ۴۵۶ ھ)
(۵) سعودی عرب کے ایک محقق وماہرِفلکیات عالم عبد اللہ بن محمد بن ابراہیم (م۱۴۱۶ ھ)اپنی کتاب ’’تقویم الأزمان‘‘میں تحریرفرماتے ہیں:
وقد ثبت بما لا یحتمل الشک من النقل الصحیح أن ولادتہ ۔صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ کانت في ۲۰؍ نیسان ابریل سنۃ ۵۷۱ عام الفیل ... فبالإمکان معرفۃ یوم ولادتہ ویوم وفاتہ بالدقۃ ... وعلی ہذا فتکون ولادتہ ۔صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ یوم الإثنین، الموافق ۹ ربیع الأول سنۃ ۵۳ قبل الہجرۃ ویوافق ۲۰ ؍ نیسان ابریل سنۃ ۵۷۱ء نقلا وحساباً. (تقویم الأزمان لإرشاد ذوی الألباب لمعرفۃ مبادئ السنین والشہور من طریق الحساب ص ۱۴۳، الطبعۃ الأولی).
مزید دیکھیے: (۱) ایک مفصل مضمون بعنوان ’’تحدید میلادہ الشریف‘‘ہمارے یہاں موجود کتاب ’’ماشاع ولم یثبت فی السیرۃ النبویۃ‘‘ تألیف: محمد بن عبد اللّٰہ العوشن، ط: دار طیبۃ، الریاض‘‘ میں بھی مذکور ہے، جس میں شیخ عبد اللہ بن محمد بن ابراہیم کی مذکورہ عبارت کے علاوہ دیگر علمائے کرام کے اقوال کی روشنی میں ۹؍تاریخ ہونا راجح قراردیاہے۔
(۲) علامہ محمد زاہد کوثری رحمہ اللہ تعالی (م۱۳۷۱ ھ)کا ایک مختصر اورمحقق مقالہ بعنوان ’’المولد الشریف النبوي‘‘ اس موضوع پر شائع ہواہے۔ انہوں نے بھی محمود پاشا فلکی کی مذکورہ کتاب سے استفادہ کیا ہے اورمؤلف کے بارے میں اونچے کلمات تحریر فرمائے ہیں۔
دیکھیے: (مقالات الکوثري ص۴۰۵ تا۴۰۸، ط: مطبعۃ الأنوار بالقاہرۃ).
(۳) حضرت مولانا مفتی عمر فاروق لوہاروی دامت برکاتہم، شیخ الحدیث دارالعلوم لندن (یو ۔کے )کاایک مضمون بعنوان’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخِ ولادت‘‘ ان کے بیش قیمت محقق ومدلل رسائل ’’فقہی جواہر‘‘(ج ۱؍ص۶۸؍تا؍۷۱) میں موجودہے۔ان رسائل پراکابر علماء کی تقریظات ہیں، جن میں ایک حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری دامت برکاتہم بھی ہے۔
تنبیہ:
بعض علمانے آٹھویں تاریخ کا قول اختیار کیا ہے،تویاد رہے کہ آٹھویں اور نویں تاریخ کے دو اقوال میں ترجیح دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک تطبیق حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحبؒ کی ہے ،وہ یہ ہے کہ آٹھ(۸) اورنو( ۹)ربیع الاول کا اختلاف حقیقی نہیں۔مولانا تحریر فرماتے ہیں:
’’۸ اور ۹ کا اختلاف حقیقی اختلاف نہیں، بلکہ مہینے کے ۲۹ ؍اور ۳۰ کے حساب پر مبنی ہے، اور جب کہ حساب سے ثابت ہوگیا کہ صحیح تاریخ ۲۱؍ اپریل تھی تو آٹھ(۸) کے متعلق تمام اقوال دراصل نو(۹) کی تائید میں پیش ہو سکتے ہیں۔‘‘ (قصص القران ۴/۲۵۴)
وقت:
کتبِ سیرت میں اس بات کی صراحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت صبح صادق کے وقت ہوئی، اور مکہ مکرمہ میں ۲۰ ؍اپریل کو (۳۹:۴) پر صبح صادق ہوتی ہے، اس لیے کہا جاسکتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ۹ ربیع الاول عام الفیل، ۲۰؍ اپریل ۵۷۱ء بروز پیر ،بوقت صبح تقریباً ۴ بج کر ۴۰ منٹ پر اس دنیا میں تشریف لائے ۔
خلاصہ:
مذکورہ بالا تفصیلات کا حاصل یہ ہے کہ نقلاً وعقلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی معتمد تاریخ نو(۹) ربیع الاول ہے۔
ویتلخص من ہذا أن سیدنا محمدا صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولد یوم الإثنین ۹؍ من ربیع الأول، الموافق العشرین من إبریل سنۃ ۵۷۱ مسیحیۃ، فاحرص علی ہذا التحقیق، ولا تکن أثیراً للتقلید. (نتائج الأفہام في تقویم العرب قبل الإسلام ص ۳۵)
مکانِ ولادت:
جمہور کے نزدیک مکہ مکرمہ میں ولادت ہوئی۔پھر جگہ کی تعیین میں تین اقوال ہیں۔مشہور قول یہ ہے کہ آپ اکی ولادت شعبِ بنی ہاشم میں ہوئی۔یہ مشہور جگہ ہے اور چند سال پہلے تک لوگ اس کی زیارت کے لیے جایا کرتے تھے۔ چند سال پہلے سعودی حکومت نے اسے بند کردیا اور اس کی جگہ مکتبہ بنادیا۔
فی الدار التي فی الزقاق المعروف بزقاق المولد في شعب مشہور بشعب بني ہاشم. (سبل الہدی والرشاد ۱/۳۳۸).
من الطرف الشرقي لمکۃ، تزار ویتبرک بہا إلی الآن. (تاریخ الخمیس في أحوال أنفس النفیس ۱/۱۹۸).
واللّٰہ تعالی أعلم وعلمہ أتم وأحکم