كونسل كا ۲۰۰واں اجلاس۔ پریس كانفرنس كے لئے فیصلے
كونسل كا ۲۰۰واں اجلاس۔ پریس كانفرنس كے لئے فیصلے
ایجنڈا نمبر ۳ :پردے کے بنیادی احکامات سے متعلق پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن اسلام آباد کے سوالات
فیصلہ:
(الف): پردہ اور حجاب شرعی حكم ہے جس كی پابندی ضروری ہے، جہاں تك چہرے كے پردے كا تعلق ہے تو جہاں فتنہ كا اندیشہ ہو جیسا كہ دفاتر اور مخلوط تعلیم كے اداروں اور ان جیسے دیگر ادارے، جہاں مرد و زن كے اختلاط كی صورتیں ہوں، وہاں چہرے كا پردہ واجب ہے۔ البتہ ضرورت اور فتنہ كا اندیشہ نہ ہونے كی صورت میں چہرہ، ہاتھ اور پاؤں سے پردہ ہٹانے كی گنجائش ہے۔
(ب): مخلوط تعلیم نہ تو ہماری ضرورت ہے اور نہ ہی شرعی اصولوں كے مطابق ہے۔ لڑكوں اور لڑكیوں كے لئے الگ الگ نظام تعلیم بنانے كی ضرورت ہے جیسا كہ كونسل كی سابقہ سفارشات ہیں جو حسب ذیل ہیں:
· ‘‘مخلوط تعلیم كو ختم كرنے كے لئے بلاتاخیر كم از كم مدت كا تعین كیا جائے جس میں ضروری انتظامی امور كی تكمیل كی جا سكے اور طالبات كے نصاب میں ایسی تبدیلیاں كی جائیں جو ان كی فطری ضروریات كے مطابق ہوں۔ دو خواتین یونیورسٹیوں كے قیام كے متعلق جناب جنرل محمد ضیاء الحق صدر پاكستان كے اعلان كو جلدازجلد عملی جامہ پہنایا جائے’’۔ (رپورٹ تعلیمی سفارشات ۱۹۶۲ء تا ۱۹۹۳ء، ص ۲۳)
· ‘‘مخلوط نظام تعلیم ختم كیا جائے’’۔ (رپورٹ تعلیمی سفارشات ۱۹۶۲ء تا ۱۹۹۳ء، ص 31)
· ‘‘پرائمری سے اوپر كے تمام درجوں میں مخلوط تعلیم ختم كر دی جائے’’۔ (سالانہ رپورٹ ۱۹۹۸- ۱۹۹۹ء، ص ۳۰)
ایجنڈا آئٹم نمبر ۴ : تفویض، خلع، مباراۃ، ظہار، ایلاء اور لعان وغیرہ اسباب تفریق كی تعریفات پر مبنی دفعہ كا متن
فیصلہ:
ہر گاہ كہ عورت كے حقوق كو زیادہ تحفظ دینے كے لئے یہ قرین مصلحت ہے كہ مسلم تنسیخِ نكاح ایكٹ كے حوالے سے اسلامی نظریاتی كونسل كی سفارشات كو بروئے كار لانے كی غرض سے مسلم تنسیخِ نكاح ایكٹ ۱۹۳۹ء میں ترمیم كی جائے۔
۱- مختصر عنوان، وسعت اور آغازِ نفاذ:
(i) یہ ترمیمی ایكٹ مسلم تنسیخِ نكاح ترمیمی ایكٹ ۲۰۱۵ء كے نام سے موسوم ہوگا۔
(ii) یہ پورے پاكستان پر وسعت پذیر ہوگا۔
(iii) یہ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔
۲- ایكٹ ۸مجریہ ۱۹۳۹ء كی دفعہ ۲ میں ترمیم:
مذكورہ ایكٹ كی دفعہ ۲ كی ذیلی دفعہvii اے میں ‘‘لعان’’ كے بعد درج ذیل كا اضافہ كر دیا جائے:۔
(الف) ایلاء۔ (ب) ظہار (ج) مباراۃ (د) ارتداد
تشریحات
(i) ایلاء:ایلاء یہ ہے كہ شوہر چار ماہ یا اس سے زائد یا بلا تعین مدت بیوی سے مباشرت نہ كرنے كی قسم كھا لے۔
ایلاء كا حكم یہ ہے كہ چار ماہ كی مدت گزرنے سے قبل اگر شوہر نے زن شوئی كا تعلق قائم كر لیا تو اس پر قسم كا كفارہ یا حسب شرط، شرط كی جزا لازم ہو گی اور اگر مدت متذكرہ گزر جانے كے باوجود شوہر نے بیوی سے قربت نہ كی تو عدالت سے مرافعہ كیے بغیر بیوی پر ایك طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔
(ii) ظہار: شوہر بیوی كو یا اس كے كسی ایسے جزو كو جس سے كل مراد ہوتا ہو، اپنی ماں سے یا كسی ایسی عورت سے تشبیہ دے جو ممنوعہ رشتہ كے ذیل میں آتی ہو۔ ظہار سے رشتہ زوجیت منقطع نہیں ہوتا مگر ازدواجی تعلق تاوقتیكہ شوہر كفارہ ادا نہ كردے، حرام ہو جاتا ہے۔ اگر شوہر ادائیگی كفارہ میں كوتاہی برتے تو بیوی عدالتی طلاق كے لیے درخواست گزار ہو سكتی ہے۔
(iii) مباراۃ: مباراۃ یہ ہے كہ بیوی شوہر كے ذمہ ہر ایسے حق سے دستبردار ہو جائے جو نكاح سے تعلق ركھتا ہو۔
(iv) خاوند كا ارتداد:
جو كوئی شخص مرتد ہو جائے تو:
(۱) اس كا نكاح فی الفور فسخ ہو جائے گا
(۲) فسخِ نكاح كے عدالتی حكم كی ضرورت نہ ہوگی
ایجنڈا آئٹم نمبر ۵: پاكستان میں چھپنے والے مصاحفِ قرآنیہ ۔۔مراسلہ از ركن كونسل جناب مولانا صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی
جناب مولانا قاری یاسین كے نمائندہ سہ ركنی وفد كی جناب چیئرمین سے ملاقات
فیصلہ:
(الف): پاكستان میں چھپنے والے مصاحف قرآنیہ رسم عثمانی كے موافق ہیں اور صحیح ہیں، مثالی نسخہ كے نام سے كوئی قرآن كریم نہ چھاپا جائے۔
(ب): چیئرمین قرآن بورڈ كو خط لكھ كر دفتر كونسل بلایا جائے تاكہ ان كے طبع كردہ مثالی نسخہ كا مطالعہ كیا جائے اور ان كا مؤقف سنا جائے۔
ایجنڈا آئٹم نمبر ۶: قومی زبان اردو كی سركاری طورپر ترویج۔ آئینی تقاضا۔ سپریم كورٹ كے فیصلے كے تناظر میں عملدرآمد
فیصلہ:
(الف): قومی زبان اردو كی ترویج و ترقی كے لئے عدالت عظمیٰ كا فیصلہ قابل تحسین ہے اس پر عملدرآمد كی كوشش ہونی چاہیے۔ كونسل نے ۹۹- ۱۹۹۸ء میں قومی زبان اردو كے بارے میں درج ذیل تجاویز/ سفارشات حكومت كو پیش كیں۔
(الف) اردو كو سركاری زبان قرار دیا جائے۔ دستور كے آرٹیكل ۲۵۱ (۱) كے مطابق پاكستان كی قومی زبان اردو ہے اور ۱۹۸۸ء كے بعد بطور سركاری زبان اس كا استعمال وجوبی ہے۔
(ب) قومی زبان كو بلاتاخیر دفتری زبان قرار دینے كے لئے ٹھوس اور مؤثر اقدامات كئے جائیں، لیكن قومی زبان كو صوبائی زبانوں كا حریف كسی بھی مرحلے میں ہرگز نہ بننے دیا جائے، تاكہ صوبائی زبانوں كو بھی ترقی كے بہتر مواقع میسر ہوں اور كسی كو قومی زبان كے خلاف عصبیتوں كو ابھارنے كا موقع نہ مل سكے۔
(ج) كونسل تجویز كرتی ہے كہ قومی زبان اردو كو دفتری زبان كا درجہ دینے كے ساتھ ساتھ صوبوں كو یہ اختیار دیا جائے كہ اگر وہ چاہیں تو قومی زبان كے ساتھ صوبائی زبان كو بھی دفتری زبان كے طورپر استعمال كریں۔
(د) مقابلہ كے امتحانات میں بھی اردو زبان میں جوابات لكھنے كا اختیار ہونا چاہیے۔
(بحوالہ سالانہ رپورٹ ۹۹- ۱۹۹۸ء، ص: ۳۳- ۳۴)
(ب): چیف جسٹس، سپریم كورٹ كو تحسین كا خط ارسال كیا جائے اور درخواست كی جائے كہ اردو كی ترویج كے نفاذ كے لئے كونسل نے ۹۹- 1998ء میں سفارشات پیش كی تھیں آپ كے فیصلہ سے كونسل كی سفارش پر عملدرآمد ہوگا۔ آپ مزید بھی كونسل كی سفارشات پر عملدرآمد كے لئے اقدامات كروائیں۔
(ج): كابینہ ڈویژن نے سیكرٹریز كمیٹی كے اجلاس كی روداد كے پیرا نمبر ۷ میں اردو زبان كی ترویج و نفاذ سے تعلیمی نظام اور مقابلے كے امتحانات كو مستثنیٰ كیا ہے، یہ بات آئین اور سپریم كورٹ كے فیصلہ كے خلاف ہے۔ كابینہ ڈویژن كو خط لكھ كر كہا جائے كہ نظام تعلیم اور مقابلے كے امتحانات میں بھی اردو كی ترویج و نفاذ كو شامل كیا جائے كیونكہ آئین اور سپریم كورٹ كے فیصلے كا یہی تقاضا ہے۔
ایجنڈا آئٹم نمبر۷ : بچوں كو جسمانی سزادینے كے امتناع سے متعلق كونسل كا تیاركردہ مسودہ بل ---برائے منظوری
فیصلہ:
بل دوبارہ ڈرافٹ كیا جائے گا پھر پارلیمان كو ارسال كیا جائے گا۔
ایجنڈا آئٹم نمبر ۸ : نیشنل ہائی وے اتھارٹی كامراسلہ بابت حج پالیسی۔برائے غورو خوض
فیصلہ:
(الف): ملازمین كو اس پورے معاملے سے آگاہ كر دیا جائے كہ یہ رقم ان ملازمین كی تنخواہ سے كاٹی جائے گی جو اس كے لئے رضامندی ظاہری كریں گے۔
یہ رقم وقف فنڈ برائے حج ہوگی اس لئے تمام ملازمین وقف كی نیت كر لیں اور بعد میں اگر كوئی اپنا نام نكلوانا چاہیے تو اس كی رقم واپس نہیں ہوگی۔
(ب): اس فنڈ كو كسی كاروبار وغیرہ میں نفع كی غرض سے نہیں لگایا جائے گا۔
ایجنڈا آئٹم نمبر۹:لفظ ‘‘خواجہ سرا’’ كی تحقیق، تعیین جنس كی علامات اور خنثی مشكل كے احكام
فیصلہ:
1. خواجہ سرا اور خنثی مشكل دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
2. خواجہ سرا ایك ملوكانہ اصطلاح ہے، قدیم بادشاہوں كے گھروں میں جو غلام ركھے جاتے تھے تو ان كے مذاكیر كاٹ دیئے جاتے تھے تاكہ شہوت ہونے كے باوجود بھی كچھ نہ كر سكیں، تو ایسے غلاموں كو خواجہ سرا كے لقب سے نوازا جاتا تھا، اور اس لفظ كا خنثی پر اطلاق درست نہیں۔
3. خنث ایك پیدائشی عیب ہے۔ چنانچہ خنثی ایسے شخص كو كہتے ہیں كہ جو مرد اور عورت كا عضو ركھتا ہو، یا دونوں سے محروم ہو اور صرف پیشاب وغیرہ كے لئے اسے ایك سوراخ ہو۔
4. ‘‘خواجہ سرا’’ چونكہ درحقیقت مرد ہی ہیں، اس لئے ان پر میراث اور پردے وغیرہ كے امور میں مردوں ہی كے احكام جاری ہوں گے، اور یہی وجہ ہے كہ فقہی كتابوں میں خواجہ سراؤں كے الگ احكام ذكر نہیں كئے گئے۔
5. خنثی مشكل كے الگ احكام ہیں، جن كو فقہاء نے تفصیلاً ذكر كیا ہے۔
6. پاكستان میں پائے جانے والے لوگ، جو عرف عام میں ہیجڑے یا خواجہ سرا كہلاتے ہیں، وہ علی الاطلاق خنثی مشكل نہیں، بلكہ اكثریت مردوں ہی كی ہے، جو خواجہ سرا بھی نہیں ہیں۔ اور وہ باقاعدہ مرد ہیں، شادی كر لیتے ہیں، بچے بھی پیدا ہوتے ہیں، پیشہ كے طورپر صرف ظاہری شكل و صورت، عورتوں كی طرح بنا لیتے ہیں۔ اس لئے ان كے بطور خنثی رجسٹریشن كرنے اور حقوق دلوانے كے حوالے سے قانون سازی كرنے میں انتہائی احتیاط سے كام لینا چاہیے۔
7. رجسٹریشن كرانے سے پہلے ان كی جنس كی تعین كے لئے میڈیكل ٹیسٹ كی شرط ہونی چاہیے، اور اگر غلط بیانی كا مرتكب پایا جائے تو اس كو قابل تعزیر جرم قرار دینا چاہیے۔
8. مخنث كوئی الگ جنس نہیں خاندان كا حصہ ہے اور آئین كے آرٹیكل ۳۵ كے تابع اس كے حقوق كی حفاظت ضروری ہے۔ لہٰذا اگر اس میں مردانہ علامات غالب ہوں تو اس كو وراثت سے مرد والا حصہ دیا جائے گا اور اگر اس میں زنانہ علامات غالب ہیں تو اس كو عورت والا حصہ دیا جائے گا اور اگر دونوں علامات برابر ہیں كہ كسی ایك طرف كا تعین نہ ہو سكے تو یہ خنثی مشكل ہے اس كو وراثت میں سے آدھا حصہ مرد والا اور آدھا حصہ عورت والا دیا جائے گا۔
ایجنڈا آئٹم نمبر ۱۰: دہری سزا كا نظام۔۔۔ مراسلہ از ہیومن رائٹس وركرز
فیصلہ:
عدالتی نظام كی وجہ سے كچھ لوگوں كو دہری سزا كا سامنا ہے۔ اس حوالے سے كونسل نے چند سوالات مرتب كئے ہیں ان كی تحقیق كے بعد ان پر فیصلہ كیا جائے گا۔
1. جس شخص پر كسی بھی جرم كا الزام لگے تو الزام ثابت ہونے سے پہلے اس كو قید كرنے كے بارے میں شرعی احكام كیا ہیں؟۔
2. ملزم كو عدالت نے بری كر دیا تو جو دن اس نے قید میں گزارے اس كا شرعی حكم كیا ہے؟۔
3. جس كی پھانسی كا فیصلہ ہو چكا ہو لیكن عدالت فوری طورپر عملدرآمد نہ كرے تو عملدرآمد تك كے عرصے كی قید كا كیا حكم ہے؟۔
4. عمر قید كے فیصلے سے پہلے جو سزا اس نے كاٹی ہے وہ عمر قید كی سزا میں شامل ہوگی كہ نہیں؟۔
ایجنڈا آئٹم نمبر ۱۸: دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ كی طرف سے متروكہ وقف املاك بورڈ، حكومت پاكستان كو بورڈ كی املاك كو طویل مدت كے لئے لیز پر دینے كی درخواست۔۔۔ برائے غوروخوض
فیصلہ:
متروكہ وقف املاك بورڈ پاكستان اور انڈیا كے درمیان ہونے والے ۱۹۵۳ ء كے معاہدہ، قانون ۱۹۷۵ء اور اپنے سابقہ معمول كے مطابق عمل كرے۔
ایجنڈا آئٹم نمبر۱۹: سودی سرمایہ كاری، نیشنل سیونگ سرٹیفكیٹ اور این آئی ٹی یونٹس كے حوالے سے مراسلہ۔ از انجمن فیض الاسلام ، اسلام آباد
فیصلہ:
این آئی ٹی یونٹس كے نمائندے كے مطابق پانچ طریقوں كے مطابق سرمایہ كاری ہو رہی ہے جن میں سے چار غیر شرعی ہیں اور ایك نئی سكیم اسلامی ایكویٹی فنڈ كے نام سے متعارف كروائی ہے جس كے بارے میں تفصیلی معلومات دینے كے لئے آئندہ اجلاس میں ان كی طرف سے شریعہ ایڈوائزر اور كچھ ماہرین بھیجے جائیں گے۔ تب اس سكیم كے شرعی یا غیر شرعی سكیم كا فیصلہ كیا جائے گا۔
ایجنڈا آئٹم نمبر۱:
روداد کے متعلق
رحم کرایہ لینا:
"متبادل ماں"کا تصور خلاف اسلام ہونے کی بنا پر ناجائز ہے ،اس سلسلے میں مجھے کونسل کے فیصلہ سے اتفاق ہے تاہم ثبوت نسب کے سلسلہ میں درج ذیل تفصیل کو ملحوظ نظر رکھا جائے،جیسا کہ احقر نے اپنی پچھلی تحریر میں اس کی وضاحت کی تھی:
ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے نسب کی چند صورتیں ہوں گی:
1۔ عورت کسی کی منکوحہ ہو
۲۔ منکوحہ یا معتدہ نہ ہو بلکہ آزاد ہو
۳۔ جس مرد کا نطفہ ہے وہ نسب کا دعوی کرتا ہے
۴۔ وہ شخص نسب کا دعوی نہیں کرتا جس کا نطفہ ہے۔
پہلی صورت میں نسب ثابت نہیں ہوگا۔
دوسری صورت میں اس شرط کے ساتھ نسب ثابت ہوگا کہ مرد نسب کا دعوی کرے بشرطیکہ زنا کی صراحت نہ کرے ۔
آخری صورت میں بھی نسب ثابت نہیں ہوگا۔
بچہ شادی ممانعت ایکٹ کے متعلق
بچہ شادی ممانعت پنجاب (ترمیمی) ایکٹ 2015ء کے متعلق میری تحریری رائے کی سطر اول میں لفظ"صرف'' کو حذف کیا جائے۔
مسلم فیملی لازپنجاب 2015ء
کونسل نےمسلم فیملی لاز پنجاب 2015ء کی اضافی دفعہ 9 کی شق 1 کی ذیلی جزء الف پر جو رائے ظاہر کی تھی ،راقم نے اس پر اختلافی نوٹ تحریر کیا تھا،جو روداد برائے توثیق میں درج ہونے سے رہ گیا ہے،متذکرہ نوٹ کے چنداقتباسات اور آخر میں اس کا حاصل پیش خدمت ہے۔
''خرچہ کی ذمہ داری باپ پر عائد کرنے میں تو کوئی شرعی سقم نہیں بشرطیکہ نابالغ اپنا مال نہ رکھتا ہو ،مگر دیکھ بھال اور تعلیم اور تربیت کی ذمہ داری ماں کو اور اس کی عدم موجودگی یا عدم اہلیت یا عدم رضامندی کی صورت میں نانی ماں کو سپرد کرنا اس وقت جائز ہے جب بچہ یابچی کی مدت حضانت نہ گزری ہو،اگر بچہ سات سال کا اوربچی نو سال کی ہوچکی ہے تو حق پرورش ماں یا نانی کو سپرد کرنا شرعی پرورش اولاد کے احکام کے خلاف ہے ،کیوں کہ مدت حضانت کی تکمیل کے بعد بچہ عصبہ کی تحویل میں آجاتا ہے ، عصبہ میں الاقرب فالاقرب کا قاعدہ کارفرما ہوتا ہے یعنی جو رشتے میں جتنا زیادہ قریب ہے وہ اتنا ہی مقدم ہے ، قریب پر قریب تر کو اور قریب تر پر قریب ترین کو فوقیت حاصل ہے۔۔۔
عصبہ میں اور زیر پرورش میں اتحاد دینی شرط ہے،لیکن عصبہ کامحرم ہونا شرط ہے یا نہیں ؟ لڑکے کے معاملے میں ایسی کوئی شرط نہیں لیکن لڑکی کی پرورش کا معاملہ ہو تو مجوزہ عصبہ کا محرم ہونا بھی شرط ہے ،مزید شرط یہ ہے کہ عصبہ فاسق نہ ہو ،فسق سے مراد یہ ہے کہ عصبہ سے بچی کی ذات اور مال کے متعلق فتنے کا اندیشہ نہ ہو۔
درج بالا تفصیل کے مطابق اگر باپ پرورش کی اہلیت نہیں رکھتا تو پرورش کا حق قریب ترین عصبہ یعنی دادا اور پھر بھائی اور پھر بھتیجے اور پھر چچا کوسپرد ہوگا، مگر ماں یا نانی کو حق پرورش نہ ہوگا کیوں کہ ماں یاقریب ترین عورتوں کو مدت حضانت میں تو حضانت کا حق ہے ،مگر اس مدت کی تکمیل کے بعد یہ حق قریب ترین عصبہ(باپ) کو منتقل ہوجاتا ہےاور باپ کے بعد دادا وغیرہ کوکفالت کا حق حاصل ہوتا ہے۔
الحاصل ماں یا نانی کویا قریب ترین عزیزہ کو صرف مدت حضانت میں حق حضانت ہے،مدت حضانت گزرجانے کے بعد یہ حق عصبہ کو منتقل ہوجاتا ہے،اس لیے مدت حضانت مکمل کرنے والے کم سن کو ماں یا نانی کی تحویل میں دینے کی سفارش غیر شرعی ہے، البتہ اگر زیر پرورش نے ابھی مدت حضانت مکمل نہیں کی ہے تو پھر بلاشبہ حضانت کا اولین حق ماں کو اور پھر نانی کو ہے۔
ایجنڈا آئٹم نمبر4:
تفویض طلاق وغیرہ کے متعلق
1۔ دفعہ 8 کے عنوان کو جامع اور عام فہم بنانے کے خاطر تجویز ہے کہ اس کا عنوان یوں بدل دیا جائے:
"بذریعہ طلاق یا فسخ رشتہ ازدواج کا خاتمہ"
2۔احقر کے مراسلہ میں دفعہ 8 کے حصہ ب کی ذیلی شق 9 اور اس کا عنوان طباعت سے ر ہ گیا ہے۔عنوان یوں ہے:
''(9) عاقلہ وبالغہ کا قریب ترین مرد رشتہ دار کی رضامندی کے بغیر غیر کفو میں نکاح کرنا''
3۔دفعہ 8کے حصہ ب کے ذیلی شق 10میں غیبت منقطعہ کا ذکر آیا ہے جس کی تو ضیح دفعہ مذکورہ میں شامل کرنا قرین مصلحت ہے۔
غیبت منقطعہ کی تعریف :
اگر ولی ایسے مقام پر ہو کہ اس کے انتظار میں زیر ولایت کے لیے جو ہم پلہ رشتہ میسر ہووہ ہاتھ سے جاتا ہو تو یہ غیبت منقطعہ ہے،یہاں تک کہ اگر ولی شہر میں کہیں روپوش ہو اور مقام اس کا معلوم نہ ہو یا معلوم ہو مگر اس تک رسائی نہ ہو یا رسائی بھی ہو مگر اتنا انتظار باعث فوت کفو ہو تو یہ غیبت منقطعہ سمجھی جائے گی اور ولی بعید کو (نہ کے عدالت کو) نکاح کرانے کا اختیار ہوگا۔
غیبت غیر منقطعہ :
جو غیبت منقطعہ نہ ہو۔
4۔پچھلے مراسلہ میں بعض الفاظ کتابت سے رہ گئے ہیں۔اب مکمل وتصحیح شدہ متن ارسال کیا جارہا ہے۔
ایجنڈا آئٹم نمبر5:
پاکستان میں چھپنے والے مصاحف قرآنیہ کے متعلق
کونسل کی قائم کردہ رائے سے اتفاق کے ساتھ میں اس کی تائید میں کچھ نکات کا اضافہ چاہتا ہوں:
1۔ غور کرنا چاہیے کہ صحابہ کرام نے کس مقصد کے حصول کے لیے ایک ہی رسم پر اتفاق کیا تھا اور کیوں انہوں نے مصاحف عثمانیہ کی اشاعت کے بعد دیگر نسخوں کو تلف کرنا ضروری سمجھا تھا ؟حالانکہ جو نسخے تلف کیے تھے وہ بھی قرآن کریم کے ہی نسخے تھے اور ان میں قرآن کریم کے علاوہ کچھ شامل نہ تھا ،اگر ان فیصلوں کی روح تلاش کی جائے تو یہی ظاہر ہوگی کہ امت کو افتراق وانتشار سے بچانا مقصود تھا ،اب اگر ایسی کوئی کوشش کی جاتی ہے تو یہ اس اجماع کے روح کی منافی ہوگی۔
2۔مستند تاریخی شہادتوں سے ثابت ہے کہ خلیفہ راشد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے صرف قرآن کریم کے نسخے ہی مرتب نہیں فرمائے تھے بلکہ ان کو ٹھیک اور درست طریقے سے پڑھنے کے لیے ماہرین کا بھی بندبست کیا تھا ،کیا مجوزہ طریق کے مطابق نسخوں کی اشاعت وطباعت کرنے والے ان نسخوں کو صحت ودرستگی کے ساتھ پڑھنے کے لیے ماہرین کا بھی بندوبست فرمائیں گے ؟
3۔کچھ عرصہ قبل ایک حلقہ کی جانب سے یہ اعلان سامنے آیا تھا کہ اختلاف قراءت کی بنا پر قرآن کریم کے بیس الگ الگ نسخے چھاپے جائیں گے ،اس اعلان کی ہمارے ہاں کے دارالافتاء نے یہ کہہ کر مخالفت کی کہ اس سے مسلمانوں کی پرسکون فضا میں اضطراب پیدا ہوگا،میرے رائے ان سے متفق ہے اور میرے خیال میں ہر ایسی کوشش کی حوصلہ شکنی ضروری ہے جو عوام الناس کے اس اعتماد واعتقاد کو متزلزل کرے جو وہ قرآن کریم کے متعلق رکھتے ہیں یا جو معاشرے کے پرسکون فضا میں اضطراب پیدا کرے،خواہ وہ کوشش مروجہ رسم الخط بدلنے کی صورت میں ہو یا اختلاف قراءت کی بنانے پر قرآن کریم کے الگ الگ نسخے چھاپنے کے رنگ میں ہو۔
4۔بلاد مغرب میں جونسخے شائع ہوتے ہیں ،ہمارے کے ہاں لوگ اس میں سرعت اور سہولت کے ساتھ تلاوت نہیں کرسکتے بلکہ سرعت تو کجا صحت کے ساتھ بھی تلاوت نہیں کرسکتے حالانکہ وہ نسخے رسم عثمانی کے موافق ہیں اور یہاں اور وہاں کے نسخوں میں فرق صرف ضبط کا ہے،مگر عوام کے لیے اس کا سمجھنا دشوار ہے اور وہ تلاوت میں دقت محسوس کرتے ہیں،ہمیں تو حکم یہ ہے کہ آسانیاں پیدا کرو،آسانی اسی صورت پیدا ہوسکتی ہے کہ یہاں صرف وہی نسخے چھاپے جائیں جو یہاں معروف ومتداول ہیں اور صدیوں سے یہاں مروج ہونے کی بنا پر طبیعتیں ان سے مانوس ہیں اور اصح المطابع پوری احتیاط اور ذمہ داری سے انہیں چھاپتے ہیں۔
5۔آخری گزارش یہ ہے کہ مجوزہ نسخے کی اشاعت فی حد نفسہ مباح ہے یا زیادہ سے زیادہ مستحسن ہے مگر اس نسخے کی اشاعت جو مفاسد پیدا ہوں گے ان سے بچنا واجب ہے۔اب خودہی فیصلہ کرلیا جائے کہ معمولی منفعت کے حصول کے لیے ضرر عظیم کا ارتکاب کس قدر دانشمندی ہے۔
ایجنڈا آئٹم نمبر 6:
قومی زبان اردو کی سرکاری زبان کے طور پر ترویج
اردو زبان کی ترویج اور اسے بحیثیت قومی زبان اختیار کرنا قیام پاکستان کے اغراض سے میں تھا مگر شومئی قسمت کہ بوجوہ ایسا ممکن نہ ہوسکا اب جب کہ عدالت عظمی کا نہایت مستحسن اور قابل صد تبریک فیصلہ آچکا ہے تو ا س پر فوری عمل درآمد کی ضرورت ہے ،اس سلسلے میں چند تجازیر پیش خدمت ہیں:
عملدرآمد کے لیے اقدامات اور سفارشات:
1۔ "سرکاری زبان کے طور پر ترویج " کا مطلب یہ ہونا چاہیے کہ اردو کو دفتری، تعلیمی، سفارتی، معاشی اور معاشرتی امور میں قومی زبان کے طور پر اختیار کیا جائے۔
2۔ دفتری امور کے ساتھ ساتھ تعلیمی نصاب بھی اردو میں مرتب کیا جائے لیکن کابینہ ڈویژن کی رودا دکی شق نمبر ۷ میں درج ہے کہ "لیکن تعلیمی نظام اور مقابلے کے امتحانات کو اس میں فی الحال شامل نہیں کرنا چاہیے" اس استثناء سے عدالت عظمی کے فیصلہ کی معنویت ختم ہوجاتی ہے۔
3۔ حکمران اورعہدیداران اردو زبان کے استعمال کو ترجیح دیں، انگریزی الفاظ کی پیوند کاری سے گریز کریں، البتہ جو الفاظ اس طرح اردومیں استعمال ہوتے ہیں کہ اردو ہی معلوم ہوتے ہیں ان کے استعمال میں حرج نہیں۔
4۔ تمام جامعات کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ دیگر زبانوں سے علوم و فنون منتقل کرنے کے لیے علم ترجمہ (ٹرانسلیشن سائنس) کی فیکلٹی قائم کریں، جس کے تحت بنیادی سائنسوں اور فنون وغیرہ کے تراجم کے شعبہ جات قائم ہوں اورہر شعبہ میں ایم اے کی سطح کی تعلیم کا بندوبست ہو ۔
5۔ وزارت تعلیم اور کابینہ ڈویژن اردو اساتذہ کی مؤثر تربیت اور تدریس اردو کے معیار میں اضافہ کے لئے تمام شہروں میں اردو اکادمیاں اور جامعات میں قومی زبان میں تحریر و تصنیف اور تحقیق و تجزیہ پر مبنی تربیتی کورسز متعارف کرائے ،جن میں قومی زبان کی تدریس ، معیاری تراجم، تحقیق و ترقی اور جدید اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے حوالے سے اس کے فنی اور اطلاقی پہلوؤں پر توجہ مرکوز کی جائے۔
6۔ ضلعی حکومتیں ہر ضلع کی سطح پر ماڈل اردو میڈیم پبلک اسکول قائم کریں، جہاں انگریزی میڈیم اسکولوں کے معیار کے مطابق بہترین اساتذہ اور تعلیمی و تدریسی سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ ذہین اور قابل طلبہ ان اداروں کا رخ کریں اور قومی زبان میں اپنی خداداد تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرسکیں۔
7۔ تاجر طبقہ کی قومی ذمہ داری ہے کہ وہ قومی تعمیر وترقی اور ملکی سلامتی و یک جہتی کی غرض سے اپنے جملہ تجارت و کاروباری معاملات اور باہمی تعلقات میں قومی زبان کو فروغدیں۔
8۔عام شہری اور سول سوسائٹی کے ادارے پیغام رسانی، ابلاغی امور،ذاتی تعارفی کارڈ، تحریروتقریر، باقاعدہ سرکاری و غیر سرکاری یا نجی تقریبات اور ان کی روداد نویسی اور مراسلت میں ہر جگہ پورے اعتماد اور وقار کے ساتھ قومی زبان کے بھرپور استعمال کو ترجیح دی جائے۔
9۔وفاقی و صوبائی حکومتیں اور محکمہ صحت ادویہ ساز کمپنیوں کو پابند کرے کہوہ اندرون ملک تیار یا فروخت ہونے والی ادویات کے لیبل، طریقہ استعمال، احتیاطی تدابیر، امکانی خدشات و مضرصحت اثرات، قیمت، تاریخ پیداوار و تاریخ زائد المیعاد وغیرہ جیسی تمام اہم معلومات اور دیگر رہنما ہدایات قومی زبان اردو میں طبع کریں۔
10۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں اور محکمہ صحت سرکاری و نجی شعبہ میں دستیاب طبی سہولیات اور معالجین کی خدمات سے مریضوں اور ان کے تیمارداروں کو زیادہ سے زیادہ استفادہ کے قابل بنانے کی غرض سے ہسپتالوں ، دواخانوں ، مراکز صحت اور میڈیکل لیبارٹریوں میں تمام سہولیات، خدمات ، شعبوں اور افراد کے نام کی تختیاں اور دیگر بورڈ قومی و علاقائی زبانوں میں تحریر کرنا لازمی قرار دے۔
11۔کابینہ ڈویژن ہر سال ۱۴ اگست کو اعلان کردہ اور ۲۳ مارچ کو عطا کئے جانے والے سرکاری اعزازات میں قومی زبان کو باقاعدہ ایک شعبہ قرار دے کراس شعبہ کے تحت ایسی شخصیات اور تنظیموں، اداروں اور انجمنوں کو قومی زبان کے نفاذ اور فروغ کے لئے گراں قدر خدمات انجام دینے پر قومی اعزازات سے نوازے۔
12۔ وزارت اطلاعات اور پیمرا ذرائع ابلاغ میں انگریزی کے ایسے نامانوس اور غیر ضروری الفاظ جن کے بہترین مترادفات قومی زبان میں موجود ہیں اور جو ہماری تہذیب و ثقافت کی عکاسی کرتے ہیں ، کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرے۔
کونسل سے گزارشات
1۔اسلامی نظریاتی کونسل ادارہ جاتی سطح پر کسی سرکاری ادارہ کی ایسی مراسلت قبول نہ کرے جو قومی زبان میں نہ ہو۔
2۔اگر ممکن ہو تو کونسل ایک سیمینار کا انعقاد کرے جس میں ہر طبقہ اور ہر شعبہ سے منسلک افراد شریک ہوں اوروہ مشترکہ اعلامیہ میں قوم کوباور کرائیں کہ اردو نہ صرف ہماری آئینی اور قانونی ضرورت ہے بلکہ ہماری سماجی،معاشرتی اور مذہبی اقدار کا تحفظ بھی اس میں پوشیدہ ہے۔سیمینار میں بطور خاص اردو کے نفاذمیں حائل رکاوٹوں کا جائزہ لیا جائے،اگر کوئی طبقہ اس سلسلہ میں خدشات رکھتا ہے تو اس کے خدشات دور اشکالات کا ازالہ کیا جائے۔
3۔کونسل بطور خاص ایسا لٹریچر کرے جس میں خالص مذہبی نقطہ نظر سے اردو کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہو۔
ایجنڈا آئٹم نمبر7:
بچوں کے جسمانی سزا کے امتناع کا بل
ارکان اسمبلی اور کونسل دونوں ہی کا مجوزہ بل بوجوہ ذیل ناقابل توثیق بلکہ خلاف شرع ہے :
1۔بچوں کو جسمانی سزا دینے کا جواز نصوص سے ثابت ہے،چنانچہ سات سال کے بچےکو نماز کی تاکید کا اور دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر مارنے کا حکم ہے،اسی طرح حدیث میں اہل وعیال کی تنبیہ کے لیے گھر میں کوڑا لٹکانے کا حکم ہے،معمولی غوروفکر سے ان دواحادیث سے تین باتیں معلوم ہوتی ہیں:
ایک یہ کہ بچوں کی بغرض اصلاح تخویف جائز ہے۔
دوسرے یہ کہ ان کو مارنا بھی جائز ہے ،البتہ دوسرے نصوص کی وجہ سے مار کی حد مقرر ہے، اس حد کو بعض نے ہلکی مار بعض نے ضرب غیر مبرح اور بعض نے عرف کے ساتھ مقید کیا ہے کہ عرف میں جس کو معمولی مار سمجھا جاتا ہو وہ جائز ہے۔
تیسرے کہ جرم کے ارتکاب کے بغیر بھی تادیب جا ئز ہے ،کیونکہ چھوٹے بچے کے فعل کو جرم سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔
2۔فقہاء لکھتے ہیں کہ باپ اور معلم کو چھوٹے بچوں کی تادیب کا حق حاصل ہے،وصی کو اپنی ولایت میں رہنے والے بچوں کا اور ماں کو اگر وہ بچہ کی وصیہ یا اس کی کفالت کرتی ہو تو اسے باپ کی غیر موجودگی میں بچوں کی تادیب کا حق حاصل ہے،امام احمد اور مالک کے نزدیک تو اگر تادیب اپنے قانونی حدود میں ہو اور عرف عام میں تادیب متصور ہوتی ہو اور اس کی بنا پر بچہ کا کوئی عضو تلف ہوجائے یا وہ مرجائے تو مودب پر کوئی فوجداری مسئولیت عائد نہیں ہوتی،اس سے معلوم ہوا کہ ائمہ مجتہدین بھی اس کی اجازت دیتے ہیں۔
3۔بچوں کی تادیب والدین کا حق ہے یا ان پر وجوب عائد ہوتا ہے،دونوں ہی اقوال ہیں،اگر حق ہے تو حق کے استعمال پر کسی کا مواخذہ جائز نہیں اور اگر وجوب ہے تو والدین پابند ہیں اور جب وہ پابند ہیں تو سزا کی ممانعت کھلم کھلا شرع کی مخالفت ہے۔
4۔نصوص کی رو سے والدین اور اور اساتذہ پر بچوں کی تعلیم وتربیت کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے،والدین اور اساتذہ اسی صورت اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوسکتی ہیں جب انہیں مناسب حد تک بچوں کو سزا دینے کا اختیار حاصل ہو۔یہی وجہ ہے فقہاء نےمناسب قیود وشروط کے ساتھ والدین اوراساتذہ کے لیے ضرب وغیرہ کاجواز لکھا ہے۔
3۔بچوں کے ساتھ نرمی اور محبت وشفت کے ساتھ پیش آنے کی تلقین ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بسا اوقات جسمانی سزا دیے بغیر چارہ نہیں ہوتا ،ایسے موقع پر متنبی کے شعر کا یہ مصرعہ نہایت برمحل معلوم ہوتاہے:
والسیف أبلغ واعظ علی أمم
4۔منکر کے ازالہ کا فریضہ عام معاشرہ پر بھی عائد ہوتا ہے اور وہ اس کے لیےمناسب قوت کا استعمال بھی کرسکتے ہیں ،مگر قانون ہذا ان پر بھی قد غن لگاتا ہے۔
5۔شوہر کو بیوی پر کوئی ولایت حاصل نہیں مگر اس کے باوجود اسے ضرب غیر مبرح کی اجازت ہے جب کہ باپ کو تو نابالغ پر ولایت بھی حاصل ہوتی ہے،اس لیے یہ نہایت مضحکہ خیز ہوگا کہ زیرولایت کے متعلق ایک حق حاصل نہ ہو اور جس پر ولایت نہ ہو اس پر حق حاصل ہو۔
6۔سزا کی ضرورت پر مفکرین کا اتفاق ہے،یہ ضرورت جس طرح بڑوں کے لیے ہے اسی طرح بچوں کے لیے بھی ہے البتہ صغر سنی کی وجہ سے سزا کی نوعیت میں فرق ہے مگر نفس سزا میں کوئی اختلاف نہیں ۔
7۔اس بل کا اصل ہدف دینی تعلیم اور دین دار طبقہ ہے اور اسے کے پس پشت محرکات مغرب کی کورانہ تقلید اور اس کا نتیجہ بچوں کو خود سری اور سرکشی پر آمادہ کرنا اور اپنے مصلحین کے خلاف بغاوت پر اکسانا ہے۔
ایجنڈا آئٹم نمبر8:
نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا مراسلہ بابت حج پالیسی
1۔کونسل کا جواب درست ہے تاہم وقف کی تجویز سے اتفاق نہیں ہے۔
2۔کوئی ملازم حج کرنے کے بعد حج کٹوتی فنڈ سے اپنے آپ کو خارج کرنا چاہے تو اس کے حج پر آنے والے باقی ماندہ اخراجات کو اس کی تنخواہ سے منہا کیا جائے گا،اس شق کے جواز کے لیے معاہدہ میں مطلوبہ شرعی ترمیم ضروری ہوگی۔
3۔بے قاعدگی کے ازالہ کے لیے کمیٹی جو تجاویز دے گی این ایچ اے اس کی منظوری دے گی ،یہ شق غیر مشروط ہے جس سے ملازمین کا مفاد متاثر ہوسکتا ہے۔
ایجنڈا آئٹم نمبر10:
دوہری سزا کا نظام۔۔۔۔مراسلہ از ہیومن رائٹس ورکرز
1۔ہیومن رائٹس کے مراسلے میں قاری کو جذبات کے رو میں بہانے کا کافی سامان ہے مثلا کہا گیا ہے کہ اگر سزائے موت کے قیدی نے جیل منوئیل کے مطابق ایک خاص مدت بطور قید گزار دی ہے تو اسے بری کردیا جائے حالانکہ جس طرح سزا کی مقررہ مقدار میں اضافہ نادرست ہے اسی طرح یہ بھی عدل کے اصولوں کے خلاف ہے کہ سزا اس مقدار سے کم ہو جو مقدار اجتماعی تحفظ اور معاشرہ کو جرم کے نقصان سے بچانے کے لیے ضروری ہو،گویا برائی کا خاتمہ برائی کے ذریعے تجویز کیا جارہا ہے۔
2۔پھانسی کے بجائے سزائے قیدکو کافی قرار دینے کا تعلق سزا کی تبدیلی اور معافی سے ہے جبکہ حدود کی سزاؤں میں تبدیلی یامعافی کا کسی کو اختیار نہیں اور قصاص میں معافی دینا صرف ولی مقتول کا حق ہے اور جرائم تعزیرات میں اگر چہ ولی الامر کو معافی دینے کا اختیار ہے مگر وہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ مفا دعامہ کے لیے مفید ہو،لیکن مراسلہ نگار لکھتا ہے کہ آٹھ سال قید بھگتنے کے بعد ان کو خلاصی دی جائے اور جنہوں نے آٹھ سال قید نہیں بھگتی وہ یہ عرصہ مکمل کرلیں اور اس قانون کا اطلاق بلاتفریق قصاص وحدود اور تعزیرات پاکستان کے تحت درج مقدمات میں سزا پانے والے قیدیوں پر ہونا چاہیے اور وہ کسی بھی جرم میں سزا ہوئے ہوں اور ان کی اپیلیں کہیں بھی زیر سماعت ہوں یا مسترد ہوچکی ہوں۔
3۔اس کہاوت کا سہار ا بھی لیا گیا ہےکہ اگر ایک بے گناہ کو بچانے کیے لیے سو گناہ گاربھی چھوڑنے پڑیں تو چھوڑدیں اور بے گناہ کو بچالیں۔اس کہاوت کا مصداق وہ صورت ہے جب ملزم کے ارتکاب جرم کا ثبوت نہ بہم پہنچ جائے یا جرم کو ناجائز قراردینے والی نص اس جرم خاص پر منطبق نہ ہو ،لیکن جب ارتکاب جرم ٹھوس شہادت سے پایہ ثبوت تک پہنچ جائے تو پھر مجرم کو معاف کرنا بے گناہوں کا خون اور معاشرے پر ظلم ہے،لہذا یہ مقولہ بھی یاد رکھنا چاہیےکہ ظالم پر رحم مظلوم پر ظلم ہے۔
علاوہ ازیں مروجہ قوانین میں ایک دوسرے عنوان سے ملزم کو اس کہاوت کا فائدہ دیا جاتا ہے چنانچہ شک کی تعبیر ملزم کے مفاد میں کی جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں کبھی سزامیں تخفیف اور کبھی اورسے معاف کردیا جاتا ہے۔
4۔شریعت اتحاد جرم کی صورت میں اتحاد عقوبت کی قائل ہے ،اس لیے یہ درست ہے کہ ایک ہی فعل پر دوسزائیں نہیں دی جاسکتیں ،مگر ایسا موجودہ عدالتی سزاؤں کے مزاج کی وجہ سے ہے کیونکہ مروجہ سزاؤں میں فوجداری سزاؤں کو تادیبی سزاؤں سے علیحدہ رکھا گیا ہے اور بیشتر تادیبی جرائم فوجداری قوانین کے میں نہیں آتے اور ان دونوں قسم کی سزاؤں اور جرم کے مختلف ہونے کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مجرم پر ایک ہی جرم کے سلسلہ میں دو مرتبہ مقدمہ قائم کردیا جاتا ہے اور ایک سزا کا وقوع دوسری سزا کے وقوع سے مانع نہیں بنتا اور ایک میں مقدمے میں بریت سے وہ دوسرے مقدمہ میں بری نہیں ہوتا۔
حاصل یہ ہے کہ صرف پھانسی کے مجرم پر ہی دوسزاؤں کانفاذ نہیں ہوتا بلکہ یہ خامی نظام عقوبات میں اور جگہ بھی موجود ہے مگر تعجب ہے کہ صرف پھانسی کے مجرموں کی مظلومیت کا رونا رویا جاتا ہے اور ان کے حق میں ہی آواز بلند کی جاتی ہے جس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ ایسا غیروں کی ایماء پر کیا جاتا ہے۔
5۔جو ملزم حتمی سزا سے پہلے ہی ایک طویل عرصہ قید وبند کی صعوبتیں گزارتے ہیں اس کی وجہ نظام انصاف کی سستی اور خرابی ہے مگر فیصلہ سے قبل ملزم کو قید میں رکھنا ناجائز نہیں قرار دیا جاسکتا،آنحضرت نے ایک شخص کو چوری کی تہمت میں محبوس فرمایا تھا اور پھر عدم ثبوت کی بنا پر اسے بری کردیا تھا جس سے معلوم ہوا کہ اسے صرف الزام پر ہی سزا دی گئی اس طرح آپ علیہ السلام نے عملا ہر اس شخص کو سزا دینا جائز قرار دے دیا جو اپنے آپ کو قابل الزام حال میں پیش کرے یاجس کو حالات ملزم ٹھہرائیں اگر چہ وہ کسی فعل حرام کا مرتکب نہ ہو۔
لیکن اگر ملزم کے متعلق حتمی فیصلہ پھانسی کا ہوچکا ہے اور پھر بھی اس نے سزائے قید بھگت لی ہے تو عدالت پھر بھی اسے بری نہیں کرسکتی کیونکہ قانون میں مجرم کی اصل سزا پھانسی ہے نہ کہ قید،اور شریعت میں بھی قتل کی اصل سزا پھانسی ہے، اب جب شریعت کی وجہ سے سزائے قید باطل ہوئی تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ ہم مجرم پر اصل سزا جاری کریں نہ یہ کہ اسے بری کردیں،الحاصل مجرم کو بری کرنے کے بجائے اس پر شریعت کی طرف سے مقرر سزا جاری کرنی چاہیے مگر اس کے برعکس تجویز یہ دی جارہی ہے کہ انہیں پھانسی کے بجائے معاف کردیا جائے۔
6۔مراسلہ کا درپردہ مقصد تو کچھ اور ہے جس کا بیان آخر میں ہوگا تاہم تحریر میں جس نکتہ کو شد ومد کے ساتھ اٹھایا گیا ہے وہ غیر ضروری سزائے قید ہے،اس غیر ضروری سزائے قید کوختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سزائے قید کی عدم افادیت پر زور دیا جائے اور مروجہ نظام عقوبات پر موثر تنقید کی جائے،مثلا مروجہ سزاؤ ں کی خامی یہ ہے کہ اس میں اصل سزائیں معطل ہوجاتی ہیں یا ان میں تخفیف ہوجاتی ہے،دوسری خامی یہ ہےکہ مروجہ نظام بیشتر جرائم میں ایسی سزائیں مقرر کرتا ہے جو بنیادی طور پر مختلف نہیں بلکہ ایک ہی ہیں یعنی سزائے قید،صرف اس میں نرمی اور سختی کا فرق ہوتا ہے جب کہ شریعت میں جرائم حدود وقصاص میں سرے سے کوئی قید نہیں ہے اور تعزیرات میں شریعت نے کوڑوں کی سزا کو ترجیح دی ہے ۔قید کو شریعت نے اس وقت تک ترجیح نہیں دی ہے جب تک وہ غیر معینہ مدت کے لیے نہ ہو تاکہ مجرم کے شر سے ہمیشہ کے لیے معاشرے کو دور کردیا جائے،تعزیرات کے باقی جرائم میں جلاوطنی اور جرمانے کی سزائیں ہیں ۔
المختصر شریعت میں حدود ،قصاص اور تعزیرات کی سزائیں ہیں ،اول دونوں میں سرے سے قید ہی نہیں اور آخر الذکر میں اصل کوڑوں کی سزا ہیں اور کچھ جرائم میں جرمانہ وغیرہ کی سزائیں ہیں،اس طرح اگر تحقیقی جائز لیا جائے تو صرف پانچ سے دس فیصد جرائم میں سزائے قید ہوگی،اس لیے اگر منشا یہ ہے کہ مجرموں کو سزائے قید نہ دی جائے تو اس کا طریقہ یہ نہیں کہ پھانسی کی سزا کی مخالفت کی جائے بلکہ شرعی سزاؤں کے نفاذ پر زور دیا جائے۔
7۔شریعت میں سقوط سزا کے اسباب یہ ہیں :
مجرم کی موت،محل قصاص کا باقی نہ رہنا،مجرم کی توبہ،صلح،معافی،قصاص کی وراثت،تقادم
درج اسباب میں سے صرف تقادم ایسا سبب ہے جس سے ایسی قیدی کی سزا ساقط ہوسکتی ہے جس نے طویل عرصہ تک قید کی سزا گزاری ہو مگر تقادم کا مطلب یہ ہےکہ فیصلہ سزا کو نافذ ہوئے بغیر اک عرصہ گزرجائے اور اس عرصہ کے گرزنے سے سزا کا نفاذ رک جائے۔اسی کو دوسرے الفاظ میں زائد المیعاد ہونا کہتے ہیں،تقادم کو بھی اکثر فقہاء سبب سقوط تسلیم نہیں کرتے اور جو تسلیم کرتے ہیں وہ بھی اسے ہر سزا کے سقوط کے لیے سبب تسلیم نہیں کرتے ۔
ایجنڈا آئٹم نمبر 11:
سپریم کورٹ کا فیصلہ،بنیادی آئینی خصوصیات میں اسلامی شقوں کا ذکر کرنا
موجودہ آئین پاکستان کے سابقہ دساتیر کے مقابلے میں زیادہ اسلامی ہے اور یہ اس کی ایک اہم اور بنیادی خصوصیت ہے،اس لیے سپریم کو رٹ کو اسے اپنے فیصلہ میں اجاگر کرنا چاہیے تھا، اب جب کہ عدالت عظمیٰ فیصلہ دے چکی ہے تو ان قانونی ماہرین کے رائے کو فوقیت دی جائے جو فیصلے میں سقم کو تسلیم کرتے ہیں اور اس بنیاد پر کونسل اپنا موقف سامنے لائےمگر زیادہ مفید یہ معلوم ہوتا ہے کہ مزید لب کشائی سے گریز کیا جائے ،یوں بھی اصل اعتبار اس کا ہےکہ عملا اسلام کی حکمرانی ہے یا نہیں،اگر جواب نفی میں ہے تو اس سے فرق واقع نہیں ہوتا کہ دستور اسلامی ہے یا نہیں اور اور سپریم کورٹ نے اسے ذکر کیا ہے یا نہیں۔
ایجنڈا آئٹم نمبر 13:
میڈیکل کی تعلیم کے بعد لاش کی تدفین
پاکستان میڈیکل اینڈ کونسل کے مرتب کردہ ضابطہ اخلاق میں موضوع کے متعلق مواد ناکافی ہے،دوسری طرف اس موضوع پر حکومت سے قانون کی سفارش کرنا بھی بہت ضروری ہے ،مجھے ذاتی طور جو معلومات حاصل ہوئی ہیں اس کے مطابق لاوارث لاشوں کی ا س حد تک چیر پھاڑ جاتی ہے کہ صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ جاتا ہے ،ہڈیوں کے علاوہ بقیہ حصوں کو کہیں دبادیا جاتا ہے اور ہڈیاں بون بینک میں محفوظ کردی جاتی ہیں اور جس طرح لائبریری سے عاریت پر کتابیں ملتی ہیں اسی طرح وہ ہڈیاں میڈیکل کے اسٹوڈنٹس کو فراہم کی جاتی ہیں،چنانچہ جنازہ پڑھنا اور عزت کے ساتھ دفنانا تو کجا لاش ٹکڑوں ٹکڑوں میں بٹ کر طلبا کے ہاتھوں گھومتی رہتی ہے،اپنی گزشتہ تحریری رائے میں راقم الحروف کے لب ولہجہ میں سختی اسی سنگین اور غیر اسلامی بلکہ غیرانسانی سلوک کی وجہ سے تھی۔
ایجنڈا آئٹم نمبر 15:
بچیوں کی تعلیم کے بارے میں اسلامی تعلیمات
عورتوں کی تعلیم کے متعلق اول نفس تعلیم اور پھر طریقہ تعلیم کا سوال پیدا ہوتا ہے۔
اسلامی احکام کاخطاب جس طرح مردوں کوہے اسی طرح عورتوں کوبھی ہے،بلکہ بعض احکام خواتین کے ساتھ ہی مخصوص ہیں،ان حکام کی بجاآوری کے لیے علم کی ضرورت ہے۔صاحب شریعت رسول اللہ ﷺ کے اقوال وافعال سے بھی صاف ظاہرہے کہ صنف اناث کے لیے تعلیم کاحصول ضروری ہے۔بعض صحابیات نے رسول کریمﷺسے شکوہ کیاکہ ہمارے مقابلے میں مردوں کو آپ کے اوقات میں زیادہ حصہ ملتا ہے ،ہمیں بھی آپ ایک دن عطافرمایئے،آپ ﷺنے ان کی درخواست قبول فرمائی اورایک صحابیہ کے مکان میں عورتوں کے لیے مخصوص اجتماع ہواجس میں مربی اعظمﷺنے انہیں احکام شریعت کی تعلیم دی۔
اسی طرح ایک عیدکے موقعہ پرآپ ﷺنے مردوں سے خطاب فرمایاپھرخیال ہواکہ یہ خطاب عورتوں نے نہیں سناہوگاچنانچہ آپ خودبنفس نفیس عورتوں کے اجتماع کے قریب تشریف لے گیے اوردوبارہ خطبہ ارشادفرمایا۔
مذکورہ بالاارشادنبوی اور ان دونوں واقعات سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ شریعت میں خواتین کے تعلیم کے سلسلہ میں کوئی ممانعت یاحرمت نہیں،البتہ جو علوم ضروری ہیں ان کی تحصیل بھی فرضیت کے درجہ میں ہوگی اورجن علوم کی حیثیت مستحب یامباح ہونے کی ہے ان کی تحصیل کاحکم بھی اسی درجہ کاہوگا۔
عصری علوم جونافع ہوں اگرشرعی حدودکی رعایت کے ساتھ مسلمان لڑکیاں حاصل کریں توکچھ حرج نہیں بلکہ انسانی زندگی کے کئی شعبے ایسے ہیں جہاں صرف خواتین ہی کی ضرورت پڑتی ہے اب اگرخواتین کی تعلیم پرپابندی ہوتوان شعبوں ک کوکون پُرکرے گا؟
عورتوں کی تعلیم کے سلسلہ میں کیاطریقہ اختیارکیاجائے ؟
1۔لڑکیوں کے لیے جداگانہ تعلیمی ادارے ہوں یعنی مخلوط نظام کو تعلیم کویکسرختم کیاجائے،آٹھ نوسال کی عمرتک مشترکہ تعلیم گاہ کو گوارہ کیا جاسکتا ہے لیکن جب بچوں میں سمجھ بوجھ پیدا ہوجائے اوروہ صنفی جذبات کی پہچان کرنے لگ جائیں،توایک ساتھ ان کی تعلیم بے شمار مفاسد کا ذریعہ ہے۔
2۔لڑکیوں کی آمدورفت ایسے طریقے پر ہو کہ فتنہ کا احتمال نہ رہے۔
3۔عورتوں کی تعلیم کے لیے مرد اساتذہ کی بجائے نیک کردار خواتین اساتذہ کاتقررکیاجائے اورجہاں کہیں خواتین اساتذہ میسرنہ ہوں تومجبوراً نیک صالح اورقابل اعتمادمردوں کومتعین کیاجائے اوران کے احوال کی نگرانی بھی ہو۔
4۔نیزلڑکیوں کے نصاب تعلیم کابھی جائزہ لیاجائے،نصاب میں غیرضروری ،اخلاقیات اورتہذیب کے خلاف موادکوخارج کیاجائے،نیزجوچیزیں مشترکہ ہیں انہیں نصاب میں یکسان رکھاجائے مثلاً زبان وادب،تاریخ ،معلومات عامہ،جغرافیہ،ریاضی،سائنس اورسماجی علوم،لیکن بعض مضامین میں فرق کرناہوگا:مثلاًانجینئرنگ کے شعبے،عسکری تعلیم اورٹیکنکل تعلیم وغیرہ،نصاب میں عصری علوم کے ساتھ ساتھ دینی کتب بھی شامل کی جائیں جن سے خواتین کوبنیادی دینی مسائل سے آگاہی اوردین سے متعلق معلومات حاصل سے ہوسکیں، چندایسے دینی رسائل شامل کیے جائیں جس سے عقائد،طہارت،احکام روزہ نماز،نکاح وطلاق سے آگاہی حاصل ہو،بہشتی زیوراس سلسلہ میں مفیداورعام فہم ہے اورخواتین کی دینی ضرورت کے لیے کفایت کرنے والی ہے۔
5۔عورتوں کے لیے ایسے علوم وفنون کااہتمام کیاجائے جن کی معاشرے کوضرورت ہے ،ایسے فنون سے احترازبرتاجائے جوشریعت کے مخالف ہوں اورجن سے بے راہ روی عام ہوتی ہوجیسے رقص وسرود وموسیقی کی تعلیم وغیرہ۔
6۔''امراض نسواں''زمانےسے طب کامستقل موضوع رہاہے ،یہ لڑکیوں کے لیے نہایت ضروری ہے جیساکہ سابق میں ذکرکیاگیا ،اسے اہمیت کے ساتھ توجہ دی جائے،نیزلڑکیوں کی تعلیم میں امورخانہ داری کی تربیت بھی شامل کی جائے کیونکہ اس کاتعلق ان کی معاشرتی زندگی سے ہے،سلائی،کڑھائی،پکوان کے مختلف اصول اوربچوں کی پرورش وتربیت کے طریقے بھی ان کے نصاب تعلیم کاحصہ ہونے چاہئیں،ازدواجی زندگی کو بہتربنانے اورغیرمتوقع صورت حال میں لڑکیوں کے لیے اپنی کفالت کے یہ آج بھی بہترین وسائل ہیں۔
بہرحال طریقہ اورصورت وہی ہوجوان کی فطرت ، لیاقت اور قوت ِ فکروادراک کے مناسب ہو اوران کی عفت وعصمت اورپاکدامنی میں ممدومعاون ہو،نہ کہ ایسی تعلیم جوانہیں زمرہ نسواں سے ہی خارج کردے۔
ایجنڈا آئٹم نمبر 16:
شادی بیاہ سے متعلق رسوم پر پابندی لگانے کی تجویز
رشتہ ازدواج کے استحکام ، زوجین کے درمیان تعلقات کی خوش گواری اور بے جا رسومات کے خاتمہ کے لیے ضروری ہے کہ نکاح حتی الامکان سادہ اور تکلفات سے پاک ہو۔
تعلیم یہ ہے کہ ’’وہ نکاح بہت بابرکت ہے جس کابارکم سے کم پڑے۔(شعب الایمان للبیہقی)
اگروالداپنی رضاوخوشی سے اپنی بیٹی کورخصتی کے موقع پرکچھ دیناچاہے تو ممنوع بھی نہیں،لیکن اس کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کی گئی ،نہ ہی کسی روایت میں اس کاتذکرہ یاترغیب ملتی ہے،آنحضرت ﷺ نے اپنی صاحبزادی کو جو کچھ دیا تھا وہ اصطلاحی معنی میں جہیز نہ تھا۔
حسب خواہش کسی عور ت سے نکاح ہوجانابلاشبہ بڑی نعمت ہے،اس نعمت کے شکرانے کی عملی شکل ولیمہ ہے، ولیمہ کامسنون طریقہ یہ ہے کہ بلاتکلف جس قدرمیسرہوجائے اپنے خاص لوگوں کوکھلادے،اس سنت کی ادائیگی کے لیے شرعاً نہ مہمانوں کی کوئی تعدادمقررہے نہ کھانے کاکوئی معیاربلکہ ہر شخص اپنے وسائل میں سہولت کے ساتھ جس قدر ممکن ہو ولیمہ کرسکتا ہے۔
1۔شادی کے موقع پراطلاع کے لیے کارڈ چھپوائے جاتے ہیں ،اور کاڑڈ چھپوانے میں ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں ،حالانکہ اس کاحاصل صرف اطلاع دیناہے،جس گھرمیں دیاگیاانہوں نے پڑھااورایک طرف رکھ دیا،اس سلسلہ میں بھی قانون سازی کی ضرورت ہے،شادی کی اطلاع کے لیے اگرکارڈ چھپوانے کی ضرورت بھی ہوتومعمولی درجے کاکارڈ چھپوایاجائے،سرکاری سطح پراس کی ترغیب چلائی جائے۔
2۔نیوتہ یعنی شادی کے موقع پرپیسے لینے دینے کارواج بھی شریعت کے خلاف ہے،وجہ اس کی یہ ہے کہ دینے والااس نیت سے دیتاہے کہ آئندہ کسی موقع پریہ رقم مزیدبڑھاکردی جائے گی یہ ایک طرح کاسودی قرض ہے،اس کاتذکرہ بھی قانون سازی میں شامل کیاجائے۔
4۔لڑکی والوں کی طرف سے باراتیوں کے لیے کھانے کی دعوت کوولیمہ کی طرح لازم سمجھاجاتاہے حالانکہ یہ خیال بےبنیادہے۔
5۔ شادی کے موقع پرگانابجانا،مووی بنوانا،اورتصویرکشی کی وباعام ہوچکی ہے،حالانکہ یہ چیزیں شریعت میں سخت حرام اورناپسندیدہ ہیں۔
6۔ہماری تقریبات میں مخلوط اجتماعات کی وباعام ہوچکی ہے،جس احتراز لازم ہے۔
7۔جہیزکے مطالبے اوراس کی نمائش پرپابندی عائد کی جائے ۔
8۔شادی بیاہ کی تقریبات کے لیے نظام الاوقات بنایاجائے،اوروقت کی پابندی کولازم قراردیاجائے۔
9۔ ولیمہ اورجہیزکے سلسلہ میں سب سے زیادہ ذمہ داری کھاتے پیتے اور مقتدر رطبقہ پر عائد ہوتی ہے کیونکہ متوسط اور ادنی طبقہ ان سے اثر پذیر ہوتا ہے۔
10۔سرکاری خزانہ سے ناداراوربے سہارابچیوں کی تعلیم اورانکی شادی کے لیے انتظام کیاجائے،اوراس کے لیے مستقل کوٹہ مقرریاجائے،ہرصوبہ میں اس کے لیے مستقل ایک محکمہ قائم کیاجائے۔جب ملک میں ثقافت اوردیگرکاموں کے لیے لاکھوں کروڑوں روپے صرف کیے جاسکتے ہیں تواس مدمیں خرچ کرنے میں کون سی رکاوٹ ہے؟
11۔سرکاری انتظام کے علاوہ اہل ثروت کوترغیب دی جائے کہ وہ اپنے معاشرے میں مستحق بچیوں کے لیے اجتماعی شادی کاانتظام کریں،تاکہ اسلامی طریقہ نکاح معاشرے میں آسان ہواورفحاشی وبے حیائی کاسدباب ہو۔
12۔شادی ہالوں میں بڑے پیمانے پرکھانے کاضیاع ہوتاہے ،جس کے سدباب کے مناسب تدبیر کی ضرورت ہے۔