1
Jumadi ul Awwal

تعزیرات پاکستان کی بعض دفعات کا شرعی جائزہ ۔ ۳

دفعہ : ۲۱
۱۔ دفعہ ہٰذا میں مستعمل الفاظ، تشریحات، تمثیلات اور مختلف عدالتوں کے فیصلہ جات کی روشنی میں سرکاری ملازم کی شناخت اور پہچان کے متعلق جو حقیقت ابھر کر آتی ہے وہ یہ ہے کہ جیسے سرکار کی طرف سے کچھ فرائض تفویض ہوں وہ سر کاری ملازم ہے ضروری نہیں کہ وہ حکومت کا باقاعدہ ملازم ہو اور بیت المال سے تنخواہ پاتا ہو اور دیگر مراعات و سہولیات کا استحقاق رکھتا ہو ۔ اس تفصیل کی روشنی میں ضروری نہیں کہ سرکاری ملازم حکومت کی ملازمت میں بھی ہو ۔ اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ جو شخص سرکاری ملازمت میں وہ سرکاری ملازم بھی ہو ۔ گویا نہ ہر سرکاری ملازم گورنمنٹ کا تنخواہ دار ملازم ہے اور نہ ہی ہر تنخواہ دار ملازم اس اصطلاحی معنی کے لحاظ سرکاری ملازم ہے ، جب یہ واضح ہوا کہ سکاری ملازم اور سرکاری ملازمین دو مترادف الفاظ اور ہم معنی تعبیریں نہیں ہیں تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا از روئے عقل و منطق بالکل درست ہے کہ کچھ سرکاری ملازمین ایسے ہیں جنہیں حکومت کی طرف اختیارات و فرائض سونپے گئے ہیں مگر وہ سرکاری ملازم نہیں ہیں اور جب وہ سرکاری ملازم نہیں ہیں تو وہ دفع ۱۶۱ میں درج مفہوم کے تحت داخل نہیں ہیں حالانکہ دفعہ ۲۱ کا اصل منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ ۱۶۱میں جن جرائم کا ذکر ہے انکا تعلق سرکاری ملازمین سے ہوتا ہے اور سرکاری ملازمین پر احکام کے اجراء سے قبل ان کی تعریف کا جاننا ضروری ہے ، جبکہ یہ دفعہ ان تمام پر صادق نہیں آتی ہے۔
۲۔ مزید یہ کہ اگر ریاست سرکاری ملازم اور اپنے تنخواہ دار ملازم میں تفریق کرتی ہے او دفعہ ۲۱ کا مقصد ہی ایک کو دوسرے سے جدا ممیز کرنا ہے تو ایسا کرنا غیر معقول معلوم ہوتا ہے ، کیوں کہ جب ریاست کا کسی فرد کیساتھ آجر اور اجیر کا تعلق ہے اور اس تعلق کی بناء پر ریاست اسے کچھ امور تفویض کرتی ہے اور ان امور کی بجا آوری میں ملازم بے قاعدگی یا غفلت کا مرتکب ہوتا ہے تو ریاست پر نیابتی ذمہ داری کے تحت اس کی مسؤلیت عائد ہوتی ہے ۔
۳۔ جولوگ دفعہ ہٰذا کے تحت سرکاری ملازم ہیں مگر وہ سرکار کی ملازمت میں نہیں ہیں بلکہ وہ رضاکارانہ خدمت انجام دیتے ہیں یا گورنمنٹ کے حکم پرکوئی خدمت انجام دیتے ہیں ایسے لوگوں کی حیثیت بعض اوقات گورنمنت کے بلا اجرت نمائندوں کی ہے اور بعض صورتوں میں یہ محض مامور کہلائیں گے اور اگر انکے لئے اجرت طے ہے تو یہ ملازم کہلائیں گے ۔ اب جب انکی حیثیت مختلف ہوگی تو لامحالہ انکے احکام بھی مختلف ہوں گے ۔ چنانچہ وکیل محض کا وہ حکم نہیں جو اجیر کا ہے اور اجیر کا وہ حکم نہیں جو مامور کا ہے مگر دفعہ۲۱ کے تحت یہ تمام اصطلاح کے تحت داخل ہیں ۔ اور فوج داری احکام ان پر یکساں لاگو ہیں حالانکہ جب حیثیت مختلف ہوں تو انکے احکام بھی مختلف ہونے چاہیءں ۔
۴۔ اس پوری بحث کا حاصل مقننہ پر اس لحاظ سے تنقید نہیں ہے کہ وہ کوئی اصطلاح وضع کرنے کا اختیار نہیں رکھتی کیوں کہ ایسی تنقید بے جا اور ناروا ہوگی ، جب شریعت نے کسی اصطلاح کے معنی متعین نہیں کئے ہیں تو حکومت وقت کو اپنے ظروف و احوال کے مطابق کوئی اصطلاح مقرر کرنے کا اختیار ہے ، مگر شرط یہ ہے کہ وہ اصطلاح شریعت کے احکام اور بنیادی قواعد اسلام سے متصادم نہ ہو ۔ مذکورہ اصطلاح میں چوں کہ ذمہ داری کے اصول سے پہلو تہی واضح ہے اس لئے کوئی ایسی تعریف وضع کرنا مناسب اور قرین انصاف ہوگا جسکی وسعت میں گورنمنٹ کے ماتحت تمام ملازمین داخل ہوں اور ریاست انکے افعال کی ذمہ دار ہو اور عدلیہ و عوام کے سامنے جواب دہ ہو ۔