23
Jumadi ul Awwal

تعزیرات پاکستان کی بعض دفعات کا شرعی جائزہ ۔ ۱

وفاقی شرعی عدالت نے تعزیرات پاکستان کی بعض دفعات کے متعلق استصواب کیا تھا کہ آیا متذکرہ دفعات قرآن وسنت کے میزان پر درست اترتی ہیں یا نہیں؟معزز عدالت کے استفسار پر زیر نظر مقالہ عدالت میں پیش کیا گیا،مقالہ طویل ہے اس لیے طوالت کے پیش نظر اسے چند قسطوں میں قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔ 

دفعہ نمبر : ۴۳، ۹۰۱ 
دونوں دفعات میں ایک تو اس لحاظ سے شرعی سقم پایاجاتا ہے کہ ترک فعل کو بھی فوج داری مسؤلیت کا سبب قرار دیاگیا ہے ۔ دوسرا نقص یہ ہے کہ جب ایک سے زائد افراد کے ذریعے جرم وقوع پذیر ہو تو فقہاء بہت دقّت نظری اورجز رسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر ایک فرد کے افعال میں فرق کرتے ہیں اور انہیں ’’ اتفاق و موافقت ‘‘ تحریض ، اعانت اورشرکت کے ناموں سے موسوم کرتے ہیں ۔
پھر ان چاروں مصطلحات میں سے ہر ایک کیلئے اس کی مخصوص نوعیت کے مطابق شرطیں بیان کرتے ہیں اور بعض کے مختلف مدارج قرار دیتے ہیں ، جبکہ مذکورہ بالادونوں دفعات ان مصطلحات کے ذکر اور ان کے مابین درجہ بندی سے خاموش ہیں ۔
ترک فعل : مجموعہ ہٰذا کی دفعہ ۲۳ کی رو سے فعل سے مراد ’’ ترک فعل ‘‘ بھی ہے ، ترک فعل اور عدم فعل میں فرق ہے اول کو ماہرین شریعت کف سے اور ثانی کو ترک سے تعبیر کرتے ہیں ، کف میں ارادے کا دخل نہیں ہوتا جبکہ ترک میں قصد شامل ہوتا ہے ، اس لئے ترک فعل سے دانستہ طور پر کوئی فعل نہ کرنا مراد ہوتا ہے ، مزید یہ کہ ترک فعل سے مراد کسی بھی فعل کا ترک نہیں ہوتا بلکہ ایسا فعل جسکا موقع محل اور حالات و واقعات تقاضہ کرتے ہوں ، مثلاً بچہ کنویں میں گر رہا ہو اور کوئی اسے نہ بچائے تو خاص اس نہ بچانے کو ترک فعل کہا جائیگا ، چوں کہ کوئی فعل نہ کرنا اور کوئی فعل جان بوجھ کر نہ کرنا دونوں میں نیت کا فرق ہے اور نیت ہر معاملے میں بنیادی عنصر اور اہم رکن ہوتی ہے ۔ اس لئے قانون فوجداری جرائم میں ترک فعل کی بناء پر بھی فوج دار ی مسؤلیت عائد کرتی ہے ، مگر شریعت کا معاملہ اس سے مختلف ہے ،شریعت ترک فعل کو جرم نہیں قرار دیتی ہے۔ اب اتفاق اور تحریض تو ایجابی افعال ہیں مگر اعانت سلبی بھی ہو سکتی ہے مثلا کوئی شخص چوری کرتے ہوئے کسی کو دیکھے مگرخاموش رہے یا ایک شخص ڈوب رہا ہو اور دوسرا اسے نہ بچائے تو خاموش رہنے والا اور ڈوبنے سے نہ بچانے والا ترک فعل کا مرتکب ہے مگر فقہاء اسے اعانت نہیں قرار دیتے اگر چہ اخلاقاً خاموشی کو معیوب سمجھا جائیگا مگر اعانت کی یہ قسم قانونی طور پر سزا کیلئے کافی نہیں، کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ ترک فعل کا مرتکب قدرت نہ رکھتا ہو یا اسے خو ف ہو ۔
علاوہ ازیں خاموشی کو چوری اور ڈوبنے کے ساتھ سببیت کا تعلق بھی نہیں اسلئے ترک فعل کی بناء پرشرعاً وہ فوج داری مسؤلیت میں مأخوذ نہیں مگر مذکورہ دونوں دفعات میں جواعانت ترک فعل کی صورت میں ہو وہ بھی داخل ہے ۔ 
دوسری خرابی ( شریک کا حکم
جو شخص جرم ،کے مادی رکن کے نفاذ میں حصہ دار ہو اسے شریک بلاواسطہ یا مباشر کہتے ہیں اس معنی میں جرم کا ہر شریک جس نے براہ راست جرم میں حصہ لیا ہو وہ اس طرح جرم کا ذمہ دار ٹھہرتا ہے ، گویا اس نے تنہا جرم کا ارتکاب کیا ہے ، اگر جرم موجب تعزیر ہو تو حصہ دار تعزیری سزا کے اور اگر موجب حد ہو تو شرکاء حد کی سزا کے مستحق ٹھہرتے ہیں ،جیسے دو افراد ملکر ایک شخص پر فائرنگ کریں تو دونوں پر قصاص جاری ہوگا ۔
حوالہ جات کیلئے دیکھیں حوالہ نمبر ۱ سے نمبر ۳۱ تک
تفاسیر :
۱۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے
مسألۃ : ومذھب الأئمۃ الأربعۃ والجمھور أن الجماعۃ یقتلون بالواحد ، قال عمر : فی غلام قتلہ سبعۃ ، فقتلھم و قال : لو تمالأ علیہ أہل صنعاء لقتلتھم ، ولا یعرف لہ فی زمانہ مخالف من الصحابۃ وذالک کالإجماع ۔ 
(۱؍۰۱۲؍ امجد اکیڈمی لاہور
(تفسیر مظہری : ۱؍ ۲۸۱؍ دہلی
( تفسیر الکشاف : ۱؍ ۱۲۲؍ دار الکاتب ، بیروت
احادیث
۲۔ اعلاء السنن میں ہے
ان عمر قتل نفراً خمسۃ أو سبعۃ برجل قتلوہ غیلۃ ، و قال : لا تمالأ علیہ أہل صنعاء قتلتھم بہ ۔ أخرجہ محمد فی الموطأ ، وسندہ صحیح ، وأخرجہ أیضاً ابن أبی شیبۃ ، والبخاری فی التعلیقات بإسناد صحیح ۔ 
(۸۱؍۶۱۱؍ادارۃ القرآن کراچی
۳۔ مصنف ابن أبی شیبۃ میں ہے
عن سعید بن المسیب : أن انسانا قتل بصنعاء وأن عمر قتل بہ سبعۃ نفر و قال : لو تمالأ علیہ أہل صنعاء لقتلتھم بہ جمیعا۔ رواہ مالک ؛ ۲؍ ۱۸ ، و عبد الرزاق : ۹۷۰۸۱ ، والبیہقی : ۸؍ ۱۴۔
(۴۱؍ ۴۳۲؍ المجلس العلمی ، بیروت
فقہ حنفی
۴ ۔ العنایۃ شرح الھدایۃ میں ہے
وإذا قتل جماعۃ واحداً اقتصّ من جمیعھم لقول عمر رضی اللّٰہ عنہ فیہ : لو تملأ علیہ أہل صنعاء لقتلتھم ، ولأن القتل بطریق التغالب غالب ۔ 
(۶؍ ۸۲۳ ؍ دار الکتب العلمیۃ ، بیروت
۵۔ فتاوٰی عالمگیری میں ہے
وإذا قتل جماعۃ واحداً عمداً تقتل ذٰلک الجماعۃ بالواحد ۔ 
(۶؍۵؍رشیدیہ
فقہ شافعی
۶۔ المجموع شرح المہذب میں ہے :
وتقتل الجماعۃ بالواحد إذا اشترکوا فی قتلہ ، وھو أن یجنی کل واحد منھم جنایۃ لو انفرد بھا ومات أضیف القتل إلیہ ووجب القصاص علیہ ۔ 
(۸۱؍ ۷۶۳؍ دار الفکر ، بیرو ت
فقہ حنبلی
۷۔ الإنصاف میں ہے
وتقتل الجماعۃ بالواحد ، ھٰذا المذھب کما قالہ المصنف ھنا بلا ریب ۔ 
( ۹؍ ۸۴۴؍ دار إحیاء التراث العربی

فقہ مالکی
۸۔ بدایۃ المجتھد و نہایۃ المقتصد میں ہے
وأما قتل الجماعۃ بالواحد ، فإن جمہور فقہاء الأمصار قالوا : تقتل الجماعۃ بالواحد منھم مالک وأبوحنیفۃ والشافعی والثوری وأحمد وأبوثور وغیرہم ، سواء کثرت الجماعۃ ، أو قلت ، وبہ قال عمر ، حتی روی أنہ قال : لو تمالأ علیہ أہل صنعاء لقتلتھم جمیعا۔ 
(۶؍ ۱۲؍ دار الکتب العلمیۃ ، بیروت
فقہ ظاہری
۹۔ بدایۃ المجتھد و نہایۃ المقتصد میں ہے
وقال داؤد و أہل الظاھر لا تقتل الجماعۃ بواحد ، وھو قول ابن الزبیر وبہ قال الزھری ۔
(۶؍۳۳؍دار الکتب العلمیۃ ، بیروت
۰۱۔ الفقہ علی المذاہب الأربعۃ میں ہے
مبحث قتل الجماعۃ بالواحد :
۱۔۔۔الشافعیۃ رحمہم اللّٰہ تعالیٰ قالوا: تقتل الجماعۃ بالواحد ، سواء کثرت الجماعۃ أم قلت و سواء باشروا جمیعاً القتل أم باشرہ بعضھم ۔۔۔
۲۔۔۔الحنابلۃ : لا تقتل الجماعۃ بالواحد ؛ لأن اللّٰہ تعالیٰ شرط المساواۃ فی القصاص ولا مساواۃ بین الجماعۃ والواحد ۔۔۔
۳۔۔۔الحنفیۃ قالوا : تقتل أنفس الجماعۃ بالنفس الواحد ۔۔۔۔۔۔ وذٰلک ؛ لأن مفھوم القتل إنّما شرع لنفی القتل ، فلو لم تقتل الجماعۃ بالواحد لتذرع الناس إلی القتل بأن یتعمدوا قتل الواحد بالجماعۃ ، سواء باشروا جمیعا القتل أو باشرہ واحد منھم ۔۔۔
۴۔۔۔المالکیۃ قالوا: یقتل الجمع کثلاثۃ فأکثر بواحد ، إن تعمدوا الضرب لہ و ضربوہ ، ولم تتمیز ضربۃ کل واحد منھم ۔۔۔
( ۵؍ ۷۱۲ تا ۹۱۲ ؍ مکتبۃ الصّفا القاھرۃ
۱۱۔ حلیۃ العلماء فی معرفۃ مذاھب الفقہاء میں ہے
ویقتل الجماعۃ بالواحد إذا اشترکوا فی قتلہ ، وروی عن عمر و علی و ابن عباس رضی اللّٰہ عنھم و عطاء و مالک وأبی حنیفۃ و أحمد فی احد الروایتین عنہ ۔ 
(۷؍۶۵۴؍دار الباز مکۃ المکرّمۃ
۲۱۔ الفقہ الإسلامی و أدلّتہ میں ہے
یجب شرعاً باتفاق الأئمۃ الأربعۃ قتل الجماعۃ بالواحد سداً للذرائع فلو لم یقتلوا لما أمکن تطبیق القصاص أصلاً ، إذا یتخذ الإشتراک فی القتل سبباً للتخلّص من القصاص ، ثم ان أکثر حالات القتل تتم علی ھٰذا النحو فلا یوجد القتل عادۃ إلّا علی سبیل التعاون والإجتماع ۔
( ۶؍ ۵۳۲؍ دار الفکر ، بیروت
۳۱۔ التشریع الجنائی الإسلامی میں ہے
من المتفق علیہ بین الفقہاء الأربعۃ أنّہ إذا قام جماعۃ بقتل شخص فی فور واحد بأن توافقت إرادتھم علی القتل وقت الحادث فقط دون اتفاق سابق ، فإن کلا منھم یعتبر قاتلاً عمداً لہ ۔ 
( ۲؍ ۱۴؍ دار المعروبۃ القاھرۃ
اتفاق و موافقت 
موافقت کا مطلب یہ ہیکہ پہلے سے منصوبہ بندی ہو اور جرم باہمی سمجھوتے کی بناء پر وقوع پذیر ہو جبکہ اتفاق کا مطلب یہ ہے کہ پیشگی منصوبے کے بغیر ایک سے زائد افراد کا ارادہ جرم کا ہوجائے مگر ان میں پہلے سے کوئی مفاہمت نہ ہو بلکہ ہر ایک اپنے ذاتی جذبے اور انفرادی ارادے کے تحت جرم میں حصہ لے جیساکہ اچانک جھگڑے کی صورت میں اکثر و بیشتر یہی صورت حال ہوا کرتی ہے ۔
اتفاق کی صورت میں ایک شریک دوسرے کے فعل کا ذمہ دار نہ ہوگا مگر موافقت کی صورت میں دونوں مسؤل ہوں گے ۔ امام ابوحنیفہ اتفاق و موافقت میں کوئی فرق نہیں کرتے انکے نزدیک دونوں کا حکم یکساں ہے ۔
۴۱۔ التشریع الجنائی میں ہے
أما الاتفاق ، فیقتضی تفاھما سابقا علی ارتکاب الجریمۃ بین شریک المتسبب والشریک المباشر کما یقتضی اتّجاہ إرادتیہما و اتحادھما علی ارتکاب الجریمۃ ، فإذا لم یکن ھناک اتفاق سابق فلاإشتراک ، وإذا کان ھناک اتفاق سابق ، ولکن علی غیر الجریمۃ الّتی ارتکبت ، فلیس ھناک اشترک ۔۔۔۔۔۔ 
ولقیام الاشتراک یجب أن تقع الجریمۃ نتیجۃ للاتفاق ، فإذا وقعت الجریمۃ المتفق علیہا ولکن لم یکن وقوعھا نتیجۃ الاتفاق فلا اشتراک۔ 
(۱؍۷۶۳؍دار العروبۃ القاھرۃ
تحریض:
اسکامطلب ہے کہ مجرم کو ارتکاب جرم پر اکسایا جائے اور یہ اکسانا ہی ارتکاب جرم کا باعث اور محرک بن جائے ۔ 
۵۱۔ چنانچہ التشریع الجنائی الاسلامی میں ہے
ب: التحریض : یقصد بالتحریض إغراء المجنی علیہ بارتکاب الجریمۃ ، والمفروض أن یکون الإغراء ھو الدافع لارتکاب الجریمۃ ۔
(ص: ۷۶۳؍ط: مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت

تعاون :
جو شخص جرم کی تشکیل میں مدد و تعاون کرتا ہے مثلا چوری کے وقت راستہ پر نگاہ رکھتا ہے تو وہ بھی مجرم گردانا جاتاہے ۔
۶۱۔ چنانچہ التشریع الجنائی الاسلامی میں ہے
ج: الإعانۃ یعتبر شریکا فی الجریمۃ بالتسبب من أعان غیرہ علی ارتکابھا ولو لم یتفق معہ علی ارتکابھا من قبل ۔ فمن یرقب الطریق للقاتل أو السارق یعتبر معینا لہ ۔ (ص: ۸۶۳؍ط: مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت )
فقہاء اول صورت یعنی شریک جرم کو مباشر اور بقیہ تینوں صورتوں کو متسبب کے اصطلاح سے موسوم کرتے ہیں ۔ ان چاروں کی تعیین میں فقہاء کاکوئی اختلاف بھی نہیں ہے البتہ اس میں اختلاف ہے کہ طریقہ جرم مباشرت ہے یا سبب ہے ، اس بارے میں طویل اور دقیق بحثیں کی گئی ہیں جس کا حاصل تین صورتیں ہیں ۔ 
۱۔۔۔ سبب مباشرت پر غالب ہو ۔ 
۲۔۔۔ مباشرت سبب پر غالب ہو ، 
۳۔۔۔ دونوں مساوی ہوں ۔
مثلا ایک شخص کسی کو پکڑے او دوسرا اسے قتل کرے تو اب اصل قاتل کون ہے ؟جس کے نزدیک پکڑنے والا مباشر ہے اس کے نزدیک سبب اور مباشرت برابر ہیں اور جس کے نزدیک پکڑنے والا متسبب ہے اس کے نزدیک مباشرت سبب پر غالب ہے اور پکڑنے والے کا عمل مغلوب ہے ، اس بناء پر اس کاعمل اعانت ہے اور وہ چونکہ براہ راست قتل میں شریک نہیں ، اس لئے مباشر بھی نہیں ۔ 
یہ اس بحث کا مختصر اور اجمالی خاکہ ہے ، جو فقہاء قتل میں اعانت اور شرکت کے بارے میں کرتے ہیں اس کے برعکس دفعہ ۴۳ اور ۹۰۱ میں قتل میں بالواسطہ یا بلا واسطہ شریک اور ان کے درجات کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں کی گئی ہے ۔ 
دفعہ ۹۰۱ میں جس طرح اکراہ تام کو مستثنی کیا گیا ہے اسی طرح بعض صورتوں میں محکوم کو بھی مستثنی کرنے کی ضرورت ہے ، مثلاً حکم دینے والے کو محکوم پر بالادستی حاصل ہو اور محکوم ناسمجھ بھی ہو جیسے باپ اپنے کم سن بیٹے کو جرم کا حکم دیدے تو اس صورت میں حاکم کو ہی مباشر قرار دیا جائیگا جبکہ مذکورہ دفعات میں ایسا کوئی استثناء نہیں ہے ۔
۷۱۔ چنانچہ التشریع الجنائی الاسلامی میں ہے
والخلاف بین الفقہاء لایرجع إلی اعتبار ھٰذا معینا وذاک مباشرا فلا خلاف بینھم فی تعریف المعین والمباشر ۔ وإنّما الخلاف یرجع إلی تطبیق القواعد الّتی تبین الطریقۃ الّتی ارتکبت بھا الجریمۃ و ھل ہی المباشرۃ أو التسبب ۔ و ہٰذا القواعد تلخص فی أن المباشرۃ إذا اجتمعت مع السبب لاتخرج عن حالات ثلاث ۔
الأولیٰ : أن یتغلب السبب علی المباشرۃ ، ویحدث ذالک إذا لم تکن المباشرۃ عدواناً کشھادۃ الزور علی المتّھم بالقتل ، والحکم علیہ ، بناءً علی ہٰذہ الشھادۃ ۔
الثانیۃ : أن تتغلب المباشرۃ علی السبب ، ویکون ذالک کلّما قطعت المباشرۃ عمل السبب ، ولم یکن السبب ملجئاً کمن ألقی بآخر فی لجّۃ ، لاتستطاع النجاۃ منھا ، فلقیہ ثالث فی لجۃ فقتلہ ۔
الثالثۃ : أن یعتدل السبب والمباشرۃ ، ویکون ذالک کلما تساوی عملھما کالإکراہ علی القتل ، فإن المکرِہ والّذی یحرک المباشر ویحمل علی ارتکاب الحادث ۔ ولو لا الأول لما فعل الثانی شیئاً ولو لا فعل الثانی ماأدّی الإکراہ للقتل ۔
(ص: ۹۶۳ ، ۰۷۳؍ ط: مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت

۸۱۔ المجلہ مع شرح لخالد للأتاسی میں ہے
إذا اجتمع المباشر والمتسبب یضاف الحکم إلی المباشر مثلاً : لو حفر بئراً فی الطریق العام فألقیٰ أحد حیوان شخص فی ذالک البئر یضمن الّذی ألقی الحیوان ولا شیئ علی حافر البئر ۔
المباشر ہو الّذی حصل التلف ۔۔۔ بفعلہ بلا واسطۃ ، فکان ھو صاحب العلۃ یضاف إلیہ التلف ، والمتسبب ماحصل التلف لا بمباشرتہ ، وفعلہ بل بواسطۃٍ ھی العلّۃ لحصول المعلول ، وھی فعل فاعل مختار ۔ وأما فعلہ فلا تأثیر لہ سوی أنہ مفضٍ إلیہ ۔ فإن اجتمعا فکما صرحت المادۃ یضاف الحکم إلی المباشر ؛ لأنہ صاحب العلۃ وھی أقوٰی ۔
(۱؍۹۴۲؍رشیدیہ
۹۱۔ الفقہ الإسلامی و أدلتہ میں ہے
القتل بالتسبب : السبب ما یؤثر فی الھلاک ، ولایحصلہ أی أنہ المؤثر فی الموت لا بذاتہ ولکن بواسطۃ ، کحفر بئر فی طریق عام بدون إذن من السلطان و تغطیتھا بحیث یسقط المار فیھا ویموت ، و شھادۃ زور علی برئ بالقتل ، و إکراہ رجل علی قتل رجل آخر ، و حکم جائر من حاکم علی رجل بالقتل ۔۔۔۔۔۔
وحکم القتل بالتسبب إجمالاً
أنہ عند الحنفیۃ لایوجب القصاص ؛ لأن القتل تسبیباً لایساوی القتل مباشرۃ ، والعقوبۃ قتل مباشر ، فمن حفر حفرۃ أو بئراً علی قارعۃ الطریق فوقع فیھا إنسانٌ و مات لا قصاص علی الحافر ؛ لأن الحفر قتل بالتسبب لا بالمباشرۃ ، کما لا قصاص علی شھود الزور إذا رجعوا عن شھادتھم بعد قتل المشہود علیہ ، أما الإکراہ علی القتل فیوجب القصاص عند الحنفیۃ علی المکرِہ ؛ لأنّہ قتل مباشرۃ ، والإکراہ یجعل المستکرہ آلۃ بید المکرہ ، ولا قصاص علی الاٰلۃ ۔ 
وقال الجمہور غیر الحنفیۃ : یجب القصاص بالسبب إذا قصد المتسبب إحداث الضرر و ہلک المقصود المعین بالسبب المتخذ کما فی حالۃ الحفر ، ورجوع الشھود عن شھاداتھم ، والتسمیم ، والإکراہ ۔
(۶؍۰۴۲؍ دار الفکر ، بیروت
۰۲۔ التشریع الجنائی الإسلامی میں ہے
الفرق بین مسؤلیۃ المباشر ومسؤلیۃ المتسبب: الأصل فی الشریعۃ الإسلامیۃ : أن المباشر والمتسبب کلاھما مسؤل جنائیاً عن فعلہ ، لکن المساواۃ فی المسؤلیۃ لا تستلزم تساویھما فی العقوبۃ فی جرائم الحدود ؛ لأن القاعدۃ فی جرائم الحدود أن عقوبۃ الحد لا تجب إلّا علی مباشرۃ فلایمکن إذن أن یعاقب المتسبب بعقوبۃ حد ، وإنّما یعاقب بعقوبۃ التعزیریۃ ۔
أما جرائم القصاص فعقوباتھا وإن کانت مقدرۃ کعقوبات الحدود إلّا أنّھا تقع علی المباشر والمتسبّب معاً عند مالک والشافعی ، وأحمد ؛ لأن ھٰذہ الجرائم یقع غالباً بطریق التسبب فلو قصرت عقوباتھا علی المباشر فقط لتعطلت نصوص القصاص لإمکان الجانی أن یعدل عن طریق المباشرۃ إلی طریق التسبب ۔
ولکن أبا حنیفۃ لایسوی بین عقوبۃ القتل العمد المباشر والقتل العمد بالتسبب ، مع أنہ یعتبر الفعل فی الحالین قتلاً عمداً وھو یخصص عقوبۃ القصاص للقاتل المباشر ویدرأ ہا عن القاتل المتسبب ۔۔۔۔۔۔ و جرائم التعزیر لا فرق بین عقوبۃ المباشر والمتسبب فالعقوبات المقررۃ لھا واحدۃ ، لکن ھٰذا لا یقتضی التسویۃ بینھما فی نوع العقوبۃ ۔ 
(۱؍۶۵۴؍ مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت
احادیث
۱۲۔ اعلاء السنن میں ہے
عن ابن عمر عن النبی ﷺ إذا أمسک الرجلُ الرجل وقتلہ الآخر یقتل الذّی قتل و یحبس الّذی أمسک ۔
(۸۱؍۵۴۱؍ادارۃ القرآن کراچی
وفیہ أیضا
عن علی قال : من حفر بئرا أو أعرض عودا فأصاب إنسانا ضمن ۔ رواہ عبد الرزاق أخرجہ فی کنز العمال (۵؍۰۱۳)
(۸۱؍۰۴۲؍ادارۃ القرآن
۲۲۔ مصنف ابن أبی شیبۃ میں ہے
عن علی قال من أخرج حجرا أو مرزابا أو زاد فی ساحتہ ما لیس لہ فھو ضامن ۔
(۴۱؍۸۵۱؍ المجلس العلمی ، بیروت)
و فیہ أیضاً :
عن اسماعیل بن أمیہ قال : قضی رسول اللّٰہ ﷺ فی رجل أمسک رجلا و قتلہ آخر أن یقتل القاتل ویحبس الممسک ۔۔۔۔۔۔و ھٰذا حدیث مرسل رجال إسنادہ ثقات۔ وقد رواہ الدار قطنی ۳؍۰۴۱؍رقم الحدیث : ۷۷۱، والبیھقی ۸؍۰۵، ۱۵ ، و رواہ عبد الرزاق ، رقم الحدیث ۲۹۸۷۱۔ ورُوی مرفوعا رواہ الدار قطنی ۳؍۰۴۱۔
(۴۱؍۱۶۲؍المجلس العلمی ، بیروت

فقہ حنفی
۳۲۔ المبسوط للسرخسی میں ہے
وإذا شھد الشاھدان علی رجل بقتل عمداً و قُبلت شھادتھما ثم رجعا فعلیہما الدیۃ فی مالھما فی قول علمائنا رحمہم اللّٰہ و قال الشافعی علیھما القصاص وکذالک إذا رجع أحدھما ۔۔۔۔۔۔ وحجتنا فی ذالک أن الشاھد سبب للقتل و السبب لا یوجب القصاص کحفر البئر وھٰذا لأنہ یعتبر فی القصاص المساواۃ ، ولا مساواۃ بین السبب والمباشرۃ ۔ 
(۶۲؍۷۱۲؍عباس احمد الباز مکۃ المکرمۃ )
۴۲۔ اللباب فی شرح الکتاب للمیدانی میں ہے
وأما القتل بسبب کحافر البئر وواضع الحجر فی غیر ملکہ ۔۔۔۔۔۔ وموجبہ ۔۔۔۔۔۔الدیۃ علی العاقلۃ ۔ 
(۴؍۶۵۳؍ دارالسراج المدینۃ المنوّرۃ) ھٰکذا فی شرح الزیادات ۴؍۷۹۴۱؍ادارۃ القرآن کراچی 
ھٰکذا فی بداء الصنائع ۶؍۵۳۳؍مؤسسۃ التاریخ العربی ، بیروت 
ھٰکذا فی فتاوٰی قاضی خان ۳؍۰۴۲؍ حقانیۃ پشاور
ھٰکذا فی الفتاوٰی العالکیریۃ ۶؍ ۶؍حقانیہ 
ھٰکذا فی الفتاوٰی البزازیۃ ۶؍۵۸۳؍حقانیہ 
فقہ شافعی
۵۲۔ المجموع شرح المہذب للإمام النووی میں ہے
وإن شھد شاھدان علی رجل بما یوجب القتل فقتل بشھادتھما بغیر حق ثم رجعا عن شھادتھما وجب القود علی الشھود ؛ لما روی القاسم بن عبد الرحمٰن أن رجلین شھدا عند علی کرم اللّٰہ وجھہ علی رجل أنہ سرق فقطعہ ثم رجعا عن شھادتھما ، فقال لو أعلم أنکما تعمدتما لقطعت أیدیکما و أغرمھما دیۃ یدہ ۔
(۸۱؍۱۹۳؍دار الفکر بیروت
وفیہ أیضاً :
وإن سقاہ سماً مکرھاً فمات وجب علیہ القود ؛ لأنہ سبب یقتل غالبا فھو کما لو جرحہ جرحا یقتل غالبا ، وإن خلطہ بطعام و ترکہ فی بیتہ فدخل رجل فأکلہ و مات لم یجب علیہ القود کما لو حفر بئرا فی دارہ فدخل رجل بغیر إذنہ فوقع فیھا و مات ۔
(۸۱؍ ۵۸۳؍ دارالفکر ، بیروت
ھٰکذا فی النجم الوھاج فی شرح المنھاج ۸؍۶۴۳؍ دار المنھاج 
ھٰکذا فی اخلاص الناوی فی ارشاد الغاوی الی مسالک الحاوی ۳؍۲۵۱؍دار الکتب العلمیۃ بیروت 
فقہ حنابلہ
۶۲۔ الإنصاف للعلّامہ المرداوی میں ہے
وإ ن أمسک إنسانا لآخر لیقتلہ فقتلہ قتل القاتل و حبس الممسک حتی یموت ۔
(۹؍۶۵۴؍دار إحیاء التراث العربی )
فقہ مالکی
۷۲۔ مواھب الجلیل شرح مختصل الخلیل مین ہے
و کحفر بئر وإن ببیتہٖ أو وضع مزلق أو ربط دابۃ بطریق أو اتخاذ کلب عقور تقدم لصاحبہ قسڈ الضرر و ھلک المقصودوإلّا فالدیۃ ۔۔۔۔۔۔ یعنی أن من فعل شیئا ممن تقدّم لقصد الضرر لمعیّن أو لغیر معیّن و ھلک المقصود ففیہ القصاص ۔۔۔۔۔۔ وإلّا فالدیۃ ۔
(۸؍۵۰۳؍ دار الکتب العلمیۃ ، بیروت

فقہ ظاہری
۸۲۔ المحلّی میں ہے
ہل علی الممسک لللقتل قود ؟ ۔۔۔۔۔۔ قال أبو محمد ثم نظرنا فی غیرہ فوجدنا الممسک لیس قاتلاً لکنہ حبس إنساناحتی مات ۔۔۔۔۔۔ فکان الممسک للقتل سبباً و متعدّیاً فعلیہ مثل ما فعل فواجب أن یفعل بہ مثل ما فعل فیمسک محبوساً حتی یموت ، وبھٰذا نقول ۔ 
(۱۱؍۲۷۱؍دار الفکر ، بیروت)
جاری ہے