(غذائی مصنوعات میں حلال وحرام کے اصول (دوسری قسط
11۔ غذائی مصنوعات کے اندر جو اضافی عناصر شامل کیے جاتے ہیں ،ان کے لیے رمز اور اشارے کے طور پر اعداد کااستعمال ہوتا ہے جنہیں ای نمبرز کہا جاتا ہے۔ یہ نمبرات انواع میں اور انواع مزید ذیلی اقسام میں تقسیم کیے جاتے ہیں مثلا کچھ ایسے ہیں جن کی غذائی قدروقیمت ہے اور کچھ کی نہیں ،کچھ ذائقہ کی بہتری کےلیے اور کچھ پروڈکٹ کو دیرپا اور محفوظ بنانے کے لیے اور کچھ جمانے ،گاڑھا بنانے اور بعض رقیق اور سیال حالت میں رکھنے کے لیے اور کچھ پروڈکٹ کو عمدہ اور خوشنما بنانے کے لیے شامل کیے جاتے ہیں ۔
علماء شریعت ایک پروڈکٹ کے تمام مشمولات کو تین انواع میں تقسیم کرتے ہے،خواہ وہ بنیادی عناصر ہوں یا اضافی، ان سے مقصود رنگت ہو یا ذائقہ، یا کچھ اور ہو:
1۔جو حلال ہیں
2۔جو حرام ہیں
3۔جو مشکوک اور مشتبہ ہیں۔
اس تقسیم کی بنیاد وہ مشہور حدیث معلوم ہوتی ہے جس کو ایک چوتہائی دین کہا گیا ہے کہ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں۔
12۔ جو چیزیں کھانے پینے میں استعمال ہوتی ہیں وہ چار قسم پر ہیں:
۱ :.... جمادات
۲ :.... نباتات
۳ :.... حیوانات
۴ :.... مرکبات
حیوانا ت پھر دو قسموں میں تقسیم کیے جاتے ہیں:
۱ :.... بحری
۲ :.... بری
بری جانوروں کی پھر تین بڑی بڑی قسمیں ہیں:
۱: .... جن میں بہتا ہوا خون ہو
۲ :.... جن میں خون تو ہو لیکن بہنے والا نہ ہو
۳ :.... اور جن میں سرے سے خون ہی نہ ہو
وأما الذی یعیش فی البر فأنواع ثلثۃ:مالیس لہ دم أصلا،وما لیس لہ دم سائل...وما لہ دم سائل...‘‘۔
( ہندیۃ: الباب الثانی فی بیان ما یؤکل من الحیوان ،ص:۲۸۹،ج:۵،ط:کوئٹہ
تفصیلی حکم
جمادات سب کے سب حلال اور پاک ہیں البتہ کسی جامد چیز کا اتنی مقدار میں استعمال جائز نہیں جو مسکر ہو یا مضر ہو۔ مضر میں ممانعت کی وجہ ضرر اور مسکر میں سکر ہے اس لیے اگر ضرر اور سکر دور کردیا جائے تو ممانعت بھی نہ رہے گی ۔جو حکم جمادات کا ہے وہی نباتات کا بھی ہے۔
حیوانات میں سے انسان اپنی حرمت کی وجہ سے اور اس کا فضلہ نجاست کی وجہ سے اور خنزیر نجس العین ہونے کی وجہ سے اور کیڑے مکوڑے خبث کی وجہ سے حرام ہیں۔ بحری حیوانات میں سوائے مچھلی کے سب حرام ہیں۔جو مچھلی مرکر پانی کے اوپر الٹی تیرنے لگے جسے سمک طافی کہتے ہیں اس کاکھانا بھی حرام ہے۔
بری حیوانات میں سے جو جانور اور پرندے شکار کرکے کھاتے پیتے رہتے ہیں ان کا کھانا جائز نہیں جیسے شیر،بھیڑیا،بلی،کتا،بندر،شکرا ،باز اور گدھ وغیرہ اور جو ایسے نہ ہوں جیسے طوطا،مینا ،فاختہ ،چڑیا،بٹیر ،مرغابی ،کبوتر،نیل گائے،ہرن،بطخ اور خرگوش وغیرہ یہ سب جانور حلال ہیں۔
بری جانور جو شکار کرکے کھاتے رہتےہیں اور ان میں دم سائل ہے وہ حرام ہیں مگر شرعی ذبح سے وہ بھی پاک ہوجاتے ہیں،البتہ خنزیر ذبح شرعی سے بھی پاک نہیں ہوسکتا،اسی طرح دم سائل بھی ذبح سے پاک نہیں ہوتا،جو جانور ماکول اللحم ہیں وہ باقاعدہ ذبح سے حلال بھی ہوجاتے ہیں۔(ملخص ومستفاد من رسالہ طبی جوہر حصہ نہم بہشتی زیور)
حلال ذبیحہ کے مکروہ اعضاء
حلال مذبوح جانور کے بھی سات اعضاء مکروہ تحریمی ہیں:
1۔بہتا ہواخون
2۔مادہ کی پیشاب گاہ
3۔مثانہ
4۔غدود
5۔پتہ
6۔کپورے
7۔نر کی پیشاب گاہ
(مصنف عبدالرزاق ج:۴ ص:۵۳۵، مراسیل ابی داوٴد ص:۱۹، سننِ کبریٰ بیہقی ج:۱۰ص:۷۔ بدائع الصنائع، 5 : 61، ابن نجيم، البحر الرائق، 8 : 553، رد المحتار، 6 : 749)
لحم،کبد اور طحال کا خون حلال ہے اور رگوں میں جو خون رہ جاتا ہے اس کے بارے میں فقہ حنفی میں چار اقوال ملتے ہیں:
فالحاصل من تتبع کتب الفقہ ان فی الدم الباقی فی العروق اربع روایات
(فاکھۃالبستان فی مسائل ذبح وصید الطیروالحیوان للعلامۃ المخدوم ہاشم السندی :171ط:دارالکتب العربیۃ)
جو جانور حلال اور حرام جانور کے ملاپ سے پیدا ہو
جو جانور حلال اور حرام جانورکے ملاپ سے پیدا ہو ،وہ مرجوح قول کے مطابق حرام ہے مگر صحیح تر یہ ہے کہ اگر مادہ حرام ہے تو وہ حرام ہےاور اگر مادہ حلال ہے تو وہ حلال ہے مگر شرط یہ ہے کہ بچہ میں واضح شباہت نر جانور کی نہ ہو۔
المعتبر فی الحل والحرمۃ الام فیما یولد من ماکول وغیر ماکول کذا فی التبیین۔۔۔لکن الحل باعتبار حلیۃ الام اذا لم یکن الولد غالب الشبہ بابیہ فی شئ من الاعضاء ونحوھا لما قال المسکین فی شرحہ علی الکنز فی مسائل الآسار:ان قولھم :الولد یتبع الام فی الحل والحرمۃ مقید بمااذا لم یغلب شبہہ بالاب،امااذا غلب شبہہ فلا یحل۔(المصدر السابق:124،125)
مردارکے پاک اعضاء
مردار حرام بھی ہے اور ناپاک بھی ،مگر اس کے بال،ہڈی جب کہ اس پر دسومت نہ ہو،کھال جب کہ دباغت کردی جائے ،ناخن،سم،سینگ،پروغیرہ پاک ہیں۔کھال کے حکم میں مثانہ،اوجھ،پوست،سنگدانہ،آنتیں اور جھلیاں بھی ہیں کہ یہ اعضاء بھی کھال کی طرح دباغت سے پاک ہوجاتے ہیں۔جو اعضاءنجاست کا محل ہیں جیسے سنگدانہ وغیرہ ان کو نجاست ظاہری سے دھولینا ضروری ہے۔(ملخص ومستفاد من رسالہ طبی جوہر حصہ نہم بہشتی زیور)
نشہ آور اشیاء
اشیاء دوقسم پر ہیں:
1۔نشہ آور
2۔غیر نشہ آور
جو نشہ آور ہیں وہ پھر دوقسم پر ہیں:
1۔سیال
2۔غیرسیال
جو سیال ہیں،ان کی پھر دو قسمیں ہیں:
1۔چار حرام شرابیں
حرام شرابوں کے علاوہ اور شرابیں:
جو چار شرابیں حرام ہیں وہ وہ نجس بھی ہیں اور حرام بھی ہیں اور اس کے علاوہ جو دیگر شرابیں ان کا حکم اسباب حرمت کے بیان میں تفصیل کے ساتھ آتا ہے۔
جو خشک آور اشیاء ہیں جیسے افیون اور بھنگ وغیرہ وہ پاک ہیں،ان کے داخلی یا خارجی استعمال کا بیان بھی آگے آتا ہے۔
13۔ کسی چیز کا استعمال درج ذیل اسباب میں کسی ایک کی بنا پر ممنوع ہوتا ہے:
1۔کرامت
2۔نجاست
3۔اسکار
4۔استخباث
5۔اضرار
ضبط أھل الفقہ حرمۃ التناول إما بالإسکارکالبنج وإما بالإضرار بالبدن کالتراب والتریاق أو بالإستقذارکالمخاط والبزاق وھذا کلہ فیما کان طاھراً‘‘ ۔تنقیح الفتاوی الحامدیۃ ص:۳۶۳،ج:۲،ط:المکتبۃ الحبیبیۃ
کرامت:
کوئی انسانی عضو یا انسانی عضو سے ماخوذ کو ئی جزء کسی مصنوع میں شامل ہو تو احترام آدمیت کی وجہ سے اس کا استعمال حرام ہوگا،خواہ وہ انسانی عضو بذات خود پاک ہو یا ناپاک ہو ۔مثلا ایل سسٹین جو انسانی بالوں سے بنایا جاتا ہےاور فلور امپروور کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔عورت کے جنین کے اردگرد جو غلاف ہوتا ہے جسے مشیمہ کہتے ہیں اس سے ایک مادہ مولو کوبی بی 12 تیار کیا جاتا ہے جو عورت کے دودھ میں اضافہ کرتا ہے۔پلاسنٹا بھی پیٹ میں موجود بچے کے گر د غلاف سے بنایا جاتا ہے اور کاسمٹکس میں استعمال ہوتا ہے۔ای ڈبلیو ای وہ مادہ ہے جو عورت کو اسقاط حمل کرانے کے بعد ساقط شدہ حمل سے تیار کیاجاتا ہے اور چہرے کی خوبصورتی اور شادابی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ان تمام اشیاء کا استعمال انسانی اعضاء کی شمولیت کی وجہ سے حرام ہے۔
اسکار:
چارحرام شرابوں کا استعمال تو حرام ہے،اس کے علاوہ اور کسی اورنشہ آور چیز کااتنی مقدار میں استعمال کرنا جس سے نشہ ہوحرام ہے خواہ وہ نشہ آور چیز سیال ہو یا جامد،اور اگر سیال ہو تو انگور یا کھجور سے بنی ہوئی شراب ہو یا ان کے علاوہ کوئی اور شراب ہو۔
اضرار:
جو اشیامضرہیں ان کا استعمال ناجائز ہے جیسے زہر وغیرہ
نقصان سے مراد یہ یہ ہے کہ دین ،عقل ،مال اور نسل کے لیے نقصان دہ ہو
اگر مضر اشیاء کا ضرر دور کردیا جائے تو وہ حرام بھی نہیں رہتی ،مگرجن چیزوں کو شریعت نے صراحت کے ساتھ حرام کردیا ہے وہ حرام ہی رہیں گی خواہ اس کے استعمال سے ظاہری اور فوری نقصان ہو یا نہ ہو۔
یہ بھی ضروری نہیں کوئی شی بہرصورت مضر ہو بلکہ عام طبائع کے لیے اس کا مضر ہونا کافی ہے اور ضرر کا بھی صرف غلبہ ظن ضروری ہے ۔
یہ بھی ممکن ہو کہ ایک شی ایک شخص کے مضر ہونے کی بنا پر حرام ہو اور دوسرے کے لیے مضر نہ ہونے کی بنا پر حرام نہ ہواور جو اشیاء مفید اور مضر دونوں پہلو رکھتی ہوں ان میں غالب کا اعتبار ہوگا۔
4۔استخباث
طیب کی ضد خبیث ہے۔جو چیزیں سلیم الطبع انسان کو طبعا ناپسند اور غیر مرغوب ہوں اور اسے ان سے طبعا ًگھن آتی ہوں وہ حرام ہیں۔جملہ حشرات الارض اس علت کی بنا پر حرام ہیں کہ ان میں خبث ہوتا ہے۔مگر خبیث ہونے کے ساتھ کوئی شئ پاک بھی ہوسکتی ہے جیسا کہ مچھلی کے علاوہ دیگر دریائی جانوروں میں خبث ہے مگر وہ پاک بھی ہیں۔پاک ہونے کی وجہ سے ان کا خارجی استعمال جائز ہے اور حلال نہ ہونے کی وجہ سے ان کاکھانا جائز نہیں۔الغرض خبث اور حلت جمع نہیں ہوسکتے مگر خبث اور طہارت جمع ہوسکتےہیں۔
5۔نجاست
جو چیز گندی اور پلید ہے اس کا کھاناجائز نہیں جیسے پیشاب ،خون ،پیپ وغیرہ
6۔مرکبات:
نجس اور غیر نجس مل جائیں تو وہ نجس ہوتے ہیں ۔
اگر نجاست غالب ہوتو اس کا حکم نجس العین کا ہےاور اگر نجاست مغلوب ہو تو وہ نجس تو ہے مگر خارجی استعمال اس کا جائز ہے۔
اگر مضر اور غیر مضر مل جائیں اور ضرر جاتا رہے یا خبیث اورغیرخبیث مل جائیں اور خبث جاتا رہے تو ضرر اور خبث کی بنا پر پائی جانے والی حرمت بھی ختم ہوجاتی ہے۔
اگرمضر کا ضرر،مسکر کا سکر اور خبیث کا خبث دور ہوجائے تو حرمت بھی دور ہوجاتی ہے۔
نجس چیز اگر نجس العین ہے تو سوائے تبدیل ماہیت کے طہارت کا اور کوئی طریقہ نہیں اور اگر متنجس ہے توانقلاب ماہیت سے بھی پاک ہوسکتا ہے اور نجاست کے اجزاء الگ کرنے سے بھی پاک ہوسکتا ہے۔
إحياء علوم الدين - (2 / 92)
أن المال إنما يحرم إما لمعنى في عينه أو لخلل في جهة اكتسابه القسم الأول الحرام لصفة في عينه كالخمر و الخنزير وغيرهما وتفصيله أن الأعيان المأكولة على وجه الأرض لا تعدو ثلاثة أقسام فإنها إما أن تكون من المعادن كالملح و الطين وغيرهما أو من النبات أو من الحيوانات أما المعادن فهي أجزاء الأرض وجميع ما يخرج منها فلا يحرم أكله إلا من حيث أنه يضر بالآكل وفي بعضها ما يجري مجرى السم والخبز لو كان مضرا لحرم أكله و الطين الذي يعتاد أكله لا يحرم إلا من حيث الضرر وفائدة قولنا انه لا يحرم مع أنه لا يؤكل أنه لو وقع شيء منها في مرقة أو طعام مائع لم يصر به محرما وأما النبات فلا يحرم منه إلا ما يزيل العقل أو يزيل الحياة أو الصحة فمزيل العقل البنج و الخمر وسائر المسكرات ومزيل الحياة السموم ومزيل الصحة الأدوية في غير وقتها وكأن مجموع هذا يرجع إلى الضرر إلا الخمر و المسكرات فإن الذي لا يسكر منها أيضا حرام مع قلته لعينه ولصفته وهي الشدة المطربة وأما السم فإذا خرج عن كونه مضرا لقلته أو لعجنه بغيره فلا يحرم وأما الحيوانات فتنقسم إلى ما يؤكل وإلى ما لا يؤكل وتفصيله في كتاب الأطعمة والنظر يطول في تفصيله لا سيما في الطيور الغريبة وحيوانات البر والبحر وما يحل أكله منها فإنما يحل إذا ذبح ذبحا شرعيا روعي فيه شروط الذابح والآلة والذبح وذلك مذكور في كتاب الصيد والذبائح وما لم يذبح ذبحا شرعيا أو مات فهو حرام ولا يحل إلا ميتتان السمك والجراد وفي معناهما ما يستحيل من الأطعمة كدود التفاح والخل والجبن فإن الاحتراز منهما غير ممكن فأما إذا أفردت وأكلت فحكمها حكم الذباب والخنفساء والعقرب وكل ما ليس له نفس سائلة لا سبب في تحريمها إلا الاستقذار ولو لم يكن لكان لا يكره فإن وجد شخص لا يستقذره لم يلتفت إلى خصوص طبعه فإنه التحق بالخبائث لعموم الاستقذار فيكره أكله كما لو جمع المخاط وشربه كره
جاری ہے