مقروض عوام پرحج کامسئلہ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ روزنامہ جن مورخہ۱۶؍۳؍۲۰۰۳ء میں ایک کالم چھپاہے جس میں قراردیاگیاہے کہ چونکہ پاکستان مقروض ہے،جس کی وجہ سے ہرپاکستانی مقروض ہے اورکیاایک مقروض شہری کی حیثیت سے ہم پرحج سے قرض کی ادائیگی مقدم نہیں؟کیااس صورت میں پاکستانی مسلمان حج کرسکتے ہیں؟اخبارکی کٹنگ درج ذیل ہے کہ:
۱۔’’اب جب حج کاذکرچلاہے توعلماء کی خدمت میں ایک عرض پیش کرناچاہتاہوں۔حج کافریضہ اداکرنے کی جوشرائط ہیں اورجن کی موجودگی میں ہی حج ہوسکتاہے،ان میں سے ایک یہ ہے کہ عازم حج مقروض نہ ہو،کیونکہ قرض کی ادائیگی حقوق العبادمیں آتی ہے اوریہ اولین فرض ہے۔
میرے خیال میں ہرپاکستانی مقروض ہے اورعالمی اداروں سے کئی ارب روپے قرض لے چکاہے،جس کواداکرناہے،اگرہم پاکستانی ایک قوم کے فردہیں اورہمارے اوپراجتماعی طورپرقومی ذمہ داریاں عائدہوتی ہیں،تویہ قرض بھی ہم سب پرموجودہے،جس کی ادائیگی ہم پرلازم ہے،اس کی موجودگی میں ہم ایک مقروض شہری کی حیثیت سے کیسے حج کرسکتے ہیں؟میں دین کاعالم نہیں ہوں بس میرے خیال میں یہ بات آئی ہے،شایدکبھی پہلے بھی اس طرف اشارہ کیاتھا،اب میں مفتی حضرات سے فتوی طلب کرتاہوں،اگرہم بحیثیت قوم مقروض ہیں اوراس قوم کے فردہونے کی وجہ سے ہم سب فردًافردًابھی مقروض ہیں توکیااس صورت میں ہم حج کافریضہ اداکرسکتے ہیں؟جولوگ اپنے ہم وطنوں اورپڑوسیوں کوغربت کے مارے خودکشیاں کرتے دیکھ رہے ہیں،وہ عمرہ کیسے اورکس دل سے کرسکتے ہیں‘‘؟۔
نیزبرائے مہربانی اس چیزکی بھی تشریح فرمادیں کہ حکومت وقت نے جوقرضہ لیاہے کیاان کی ذمہ داری ہرشہری پرہے؟قرآن وسنت کی روشنی میں تفصیلی جواب مرحمت فرمادیں۔
نوٹ:اس سلسلہ میں یہ چیزبھی غورطلب ہے کہ اگوکوئی شہری ملک چھوڑکرجاتاہے توحکومت اس سے کسی قسم کاکوئی قرض وغیرہ طلب نہیں کرتی ہے۔
محمدعمرکراچی
الجواب ومنہ الصدق والصواب
سودی قرضے غلامی کے طوق اورپاؤں کی وہ بیڑیاں ہیں جن میں غریب ممالک جکڑے نظرآتے ہیں،نہ خودمختاری اورسلامتی برقرارہے اورنہ ہی ملک وعوام کے مفادمیں آزادانہ اوربے لاگ فیصلے کئے جاسکتے ہیں،ان قرضوں سے معیشت میں وقتی ابھارضرورہوجاتاہے لیکن یہ کوئی مستقل پائیداراورحتمی حل نہیں،ہمارے علم میں نہیں کہ کسی ملک نے بیرونی قرضوں کے بل بوتے پرترقی کی ہویاکوئی ملک قرضوں کاخوگرہوکرمزیدپھندوں میں نہ پھنس گیاہو۔
اسلام اسی لئے قرض کی شدیدمذمت اورحوصلہ شکنی کرتاہے،رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہلک بیماریوں،ناگہانی آفتوں،اندھے اورتاریک فتنوں کے ساتھ قرض سے بھی پناہ مانگی ہے۔اسوۂ حسنہ کودیکھاجائے توجوشخص قرض چھوڑجاتااورادائیگی کے لئے مال نہیں چھوڑجاتاتھا،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم خوداس کاجنازہ نہ پڑھاتے صحابہؓ سے فرمادیتے تم لوگ نمازپڑھادواوراپنی دعااورنمازسے اسے محروم فرماتے۔
حالانکہ صحابہ کاقرض کچھ زیادہ نہ ہوتاتھا،اوروہ شدیدمجبوری کی حالت میں ہی قرض لیتے تھے،رحمت وشفقت کایہ بحربے کراں ایک طرف رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول کاجنازہ پڑھنے کے لئے تیارہے،جس نے حریم نبوت پرحملہ کیاتھا،دوسری طرف مخلص فدائیین کونمازجنازہ سے محروم فرمارہے ہیں،یہ نالائقوں کی تعلیم کے لئے تھا۔
ایک حدیث میں ارشادہے کہ مومن کی روح دخول جنت سے روکی جاتی ہے جب تک اس کاقرض نہ اداکیاجائے،ایک صحابی سے ارشادہواکہ تمہارابھائی قرض کی وجہ سے قیدہے(مشکوۃ کتاب الافلاس)
یہ زریں تعلیمات ایک فردکے لئے بھی ہیں اورایک گرہ وجماعت کے لئے بھی،پبلک ورعایاکے لئے بھی اورحکام وصاحب اقتدارکے لئے بھی۔
اس حققیت کے اعتراف کے باوجودکہ زمین پربسنے والوں کوایک د وسرے سے ضرورت پیش آتی ہے اگرفرداپنی ضرورت فردسے اورقبیلہ قبیلے سے پوری کرتاہے توایک ملک دوسرے ملک کی طرف دیکھتاہے نہ توملک کی ضرورت افرادپوری کرسکتے ہیں اورنہ ہی کوئی ملک دوسرے ملک سے بالکلیہ قطع تعلق کی پالیسی اختیارکرسکتاہے کسی واقعی اورحقیقی ضرورت کوپوراکرنے کے لئے جس کاحل اپنے ذاتی وسائل سے ممکن نہ ہوکسی دوسرے ملک سے مددکی جاسکتی ہے ،لیکن کشکول گدائی لے کرقرض مانگتے پھرنااوروہ بھی کفارسے ان کی شرائط پر،چاہے اپنی خودمختاری سے دستبردار،غریب سے جینے کاحق چھینناپڑے،اغیارکی خوشامداورمنتیں کرناپڑے،یہ کم ہمت لوگوں کاطریقہ ہے تعلیمات نبوی میں اس کی گنجائش نہیں۔بھلااسلام یہ کیسے برداشت کرسکتاہے کہ اس کے پیروکارمتاع قلیل کے لئے اسلام دشمن قوتوں کے سامنے جھکیں۔کیونکہ
’’اذامدح الفاسق یھتزمنہ عرش الرحمن‘‘الحدیث
ترجمہ:جب دنیاوی مفادکے لئے کسی فاسق وفاجرکی تعریف کی جاتی ہے توخداکاعرش غصے سے ہل جاتاہے۔
جبکہ ہمارے ہاں کامیاب وزیرخزانہ وہ ہے جوعالمی مالیاتی اداروں سے زیادہ سے زیادہ خیرات بٹورسکے،اس کے لئے کتناجھکناپڑے گا؟عاجزی،شکستگی،درماندگی کے کیسے کیسے مظاہرے کرناپڑتے ہونگے؟تصورہی سے دل کانپ اٹھتاہے۔
اگرمعاش میں انصاف ہووسائل کی تقسیم میں مساوات ہو،صحیح منصوبہ بندی ہوتوان ہی وسائل سے معاشی بدحالی کاعلاج ممکن ہے،بلکہ بہت جلدہم دوسروں کی دستگیری کرنے والے بن جائیں گے۔
لیکن افسوس!کہ بحیثیت مجموعی ہم نے انتہائی غیرتسلی بخش کارکردگی دکھائی ہے،قدرت نے خوب فیاضی کی ہے مگراے کاش کہ مسلمان ممالک دنیاکی دوتہائی معدنیات سے مالامال ہونے کے باوجودغیروں کے دست نگرہیں،تیل ہی کولے لیجئے مسلمان اول توتیل نکال نہیں سکتے اگرنکال لیں توصاف نہیں کرسکتے اگرصاف کرلیں توعلمی منڈیوں میں مارکیٹنگ نہیں جانتے بے دینی میں یورپ کی تقلیدکی تونقل اصل سے بڑھ گئی ان کی خوبیوں،صلاحیتوں اورمقصدسے لگن کونہیں دیکھا،اگوحکمران واقعی ان قرضوں سے نجات حاصل کرناچاہتے ہیں توسب سے پہلے قوم میں اپنی ساکھ اوراعتمادبحال کریں،قوم کواپنے طرزعمل سے یہ باورکرائیں کہ ہم ان کی صلاح وفلاح کے لئے کام کررہے ہیں،ساتھ ساتھ قوم کی اخلاقی تربیت ہواوران کوایک بلندنصب العین کے حصول کے لئے آمادہ کیاجائے،قوم بھی زہدوقناعت،سادگی اورکفایت شعاری کی زندگی اپنائے(اس مقصدکے لئے حکومت بے جاتعیش پرپاپندی لگاسکتی ہے)کیونکہ تعزیرکے باب میں حکومت کے اختیارات بہت وسیع ہیں۔حکمران طبقہ اپنی عیاشانہ اورمسرفانہ زندگی ترک کردے،کیونکہ اونچے طبقات کااثرمتوسط طبقے پرپڑتاہے اورنچلے طبقے کے لوگ متوسط طبقے سے اثرپذیرہوتے ہیں۔
ان مراحل کے بعدقوم اپنی کمائی کاایک بڑاحصہ عطیات اورچندوں کی صورت میں ایک وافرحصہ قرض حسنہ کے طورپراورایک بڑی رقم نفع نقصان میں شرکت کے طورپردینے میں آمادہ ہوجائے گی۔
لیکن جب تک بالائی طبقہ اپنی موجودہ روش تبدیل نہیں کرتا۔عوام سے کسی ایسے اقدام کی امیدحماقت ہوگی۔
اوراگربالفرض قوم راضی بھی ہوجائے تویہ شرکت رضاکارانہ بنیادوں پرہوگی،اس لئے کہ یہ قرضے عوام کی مرضی اورمفادکے خاف زبردستی ان پرمسلط کئے گئے ہیں ا س لئے یہ ان حکمرانوں سے وصول کئے جائیں جنہوں نے لئے ہیں،انہیں قومی فریضہ قراردینادرست نہیں۔
بہرحال آمدم برسرمطلب:
۱۔سوال یہ ہے کہ کیاقرضے ملکی مفادمیں حاصل کئے گئے ہیں؟اوراس کاکوئی حقیقی فائدہ عوام کوپہنچایا؟افسران بالاکی جیبوں میں چلئے گئے؟حالانکہ حکومت کے کسی بھی اقدام کے لئے ضروری ہے کہ وہ اقدام مفادعامہ کی مصلحت کے پیش نظرہو۔’’تصرف الامام منوط بالمصلحۃ‘‘
حکمرانوں کے تصرفات رعایاپرمصلحت کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔
۲۔شرعی اصول کے مطابق نابالغ اوریتیم کاسرپرست،نابالغ یایتیم کے حق میں مصلحت سے عاری کوئی تصرف نہیں کرسکتا،تورعیت کے نگہبان وحکمران کے لئے یہ کس قانون ومنطق کی بنا پرجائزہوسکتاہے کہ مفادعامہ کے نام پراپنی جیبیں بھریں،حالانکہ ولی کویتیم ونابالغ کے حق میں تصرف کاحکمران سے زیادہ اختیارہے۔کیونکہ ضابطہ ہے کہ:الولایۃ الخاصۃ اقویٰ من الولایۃ العامۃ‘‘
۳۔بالفرض ہرپاکستانی کومقروض قراردے دیاجائے توقرض کی تقسیم ہرپاکستانی پرمساوی ہوگی یاکم وبیش؟مساوات کی صورت میں صریح ناانصافی ہے کہ ایک غریب کنبے کاواحدکفیل بھی اتناہی اداکرے جتناایک ھرب پتی اداکرے گا،اوراگرامیروغریب کافرق ہے تواس کاتعین کیاجائے۔
۴۔پھرجب ہرپاکستانی کومقروض قراردیاجائے گاتوقرض کے تمام احکام ثابت ہونگے۔کیونکہ‘‘الشئی اذاثبت ثبت بجمیع احکامہ‘‘لہذااگرکسی ایسے قومی مقروض شخص کاانتقال ہوجائے تونفاذوصیت اورتقسیم ترکہ سے پہلے یہ قرض اداکیاجائے گا۔اس طرح توکسی پاکستانی کی میراث تقسیم نہیں ہوگی۔
۵۔گورنمنٹ پربھی لازم ہوگاکہ جن لوگوں کی رقوم بینکوں میں پڑی ہیں،اورحکومت ڈھائی فیصدزکوۃ کی مدمیں جوکٹوتی کرتی ہے ان کوقرض کے بقدرچھوٹ دی جائے کیونکہ قرض کوقابل زکوۃ اموال سے منہاکرنااتفاقی مسئلہ ہے۔
الغرض عوام پران قرضوں کابارڈالناالتزام بمالایلز م ہے۔(ایسابوجھ جس کے اٹھانے کاانہوں نے التزام نہیں کیاتھا)اوراس کے لئے اسلام سے ایثارکی اپیل کرنازیادہ تعجب خیزہے۔
ہماری التجاہے کہ خداراکسی معاشی ہدف کے حصول کے لئے اسلام کی گردن پرپاؤں نہ رکھاجائے،یہ وجودپہلے ہی سے تھکاماندہ اورزخموں سے چورچورہے،اب اگرحج وعمرہ کے بجائے قومی قرضوں کی ادائیگی کولازم کہاجائے اوریہ دروازہ ایک مرتبہ کھول دیاجائے توایثارکرتے کرتے اسلام کاپوراوجودہی ختم اورمٹ جائے گا،اس آٹے کے بت کی طرح جس کوپجاری کے پوجاپاٹ کے لئے اپنے ساتھ لیااوربھوک کی شدت سے مجبورہوکرحسب ضرورت کھاتارہایہاں تک کہ پورابت ہضم کرگیا۔
بدقسمتی سے قیام پاکستان کے وقت ہی سے اسلام احکامات اورتعلیمات پرفضول اعتراضات اوربے جانقدوتبصرے شروع ہوئے،قربانی کومال کاضیاع کہاگیا،نمازکوپیداواری مقاصداورمعاشی سرگرمیوں میں رکاوٹ سمجھاگیا،اسلامی سزاؤں کووحشیانہ کہاگیا،مسلمانوں کے عائلی قوانین جس میں دخل اندازی کی انگریزتک کوبھی ہمت نہ ہوئی،مسلمان ملک میں مسلمان حکمران نے اس میں ترمیم اورکانٹ چھانٹ کرکے اس کاحلیہ بگاڑا،،اب حج وعمرہ کوموقوف کرنے کی تجاویزسامنے آرہی ہیں،یہ اسی طبقے کاکام ہوسکتاہے جوبندگی کی روح سے ناآشنا،عبادت کی حقیقت سے ناواقف اوراعمال کی طاقت سے بے خبرہو،جن کی نگاہیں مادی اسباب ووسائل سے آگے نہیں جاتیں۔
جوعبادات کوبھی کاروباری نقطہ نظر سے تولنے کے عادی ہوں،جومعاشی فائدے کوہی عبادت کامقصدقراردیتے ہوں،جن کی نظروں سے یہ تعلیمات مخفی ہوں کہ حج فقیری نہیں غنالاتاہے،صدقے سے مال گھٹتانہیں،زکوۃ کے ذریعے مال آفتوں سے محفوظ ہوجاتاہے،تقوی اورپرہیزگاری سے برکتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔بخدااعمال صرفف آخرت نہیں سنوارتے دنیابھی سدھارتے ہیں لیکن معاشی فوائدکے حصول میں پھنسی عقل شایدیہ باورنہ کرسکے،یہ اعمال بیمارمعیشت کے لئے صحت کے انتظارمیں بیٹھے ہیں۔
الغرض اس معاملے میں لچک ہوتی گنجائش کاکوئی پہلونکلتاتوعلماء بتانے میں ہرگزبخل سے کام نہ لیتے،لیکن کیاکیاجائے کہ عقل وفکراورقیاس واجتہادکے ذریعے کسی شرعی حکم کامتبادل تلاش نہیں کیاجاسکتا،بلکہ اس کے لئے نص وروایت کی ضرورت ہے۔جوموجودنہیں۔
محترم عبدالقادرحسن صاحب کی ہماری نگاہ میں بڑی وقعت ہے،وہ ایک خودداروبااستعدادصحافی ہیں،اپنے مضامین کے ذریعے انہوں نے ملک وملت کی بڑی خدمات انجام دی ہیں ،مذکورہ مضمون بھی انہوں نے یقینًااس درمندی کے تحت لکھاہوگا،مگرافسوس کہ دین وشریعت اس معاملے میں ان کاساتھ نہیں دیتے،لہذاارباب فکرودانش اوردانشوران قوم کافریضہ ہے کہ وہ مفیدتجاویزسامنے لائیں،کیونکہ شرعًاصرف نیت کی خوبی اورجذب کی پاکیزگی سے کوئی عمل جائزنہیں ہوجاتا،جب تک کہ اس کی پشت پرٹھوس دلائل نہ ہوں،اس لئے ادائیگی قرض کے لئے حج وعمرہ کومؤخریاترک کرنے کی تجویزسے اتفاق ممکن نہیں،جومسلمان اس طرح کرے گاوہ گناہ گاراورفریضہ ج کاتارک ہوگا۔واللہ اعلم
کتبہ
محمدشعیب عالم