فوڈ کے متعلق حلال اسٹینڈرڈز
![](upload/articles/Fiqah-o-Fataw/2014-07-07slide.jpg)
اسلام تمام زمانوں اور پورے انسانوں کے لیے ہے اس لیے اس کی تعلیمات اورہدایات بھی ابدی،آفاقی اور عالمگیر نوعیت کی ہیں۔قرآن کریم جب نمازو روزہ اورحج اورزکواۃ کو بیان کرتاہے تو یأیھا الذین آمنو ‘‘کہہ کر صرف مسلمانوں کو مخاطب کرتاہے مگر جب وہ آفاقی اصولوں،عالمی قدروں اورزمان ومکان سے بے نیاز اپنے عمومی اصولوں کو بیان کرتاہے تو اس کا طرزخطاب بدل جاتاہے،لہجے میں تغیر آجاتاہے اور روئے سخن مسلمانوں کے بجائے تمام انسانوں سے ہوجاتاہے اور وہ خصوصی طرزخطاب کو چھوڑکر عمومی طرز بیان اختیار کرلیتاہے۔چنانچہ جب حلال وحرام کے بیان کا معاملہ آتاہے تو جنس و نوع، ،مذہب وملت اور رنگ ونسل سے قطع نظر کرکے یاأ یھاالذین آمنو کے بجائے یاأ یھاالناس کے ذریعے خطاب کرتاہے۔اس طرح وہ مسلمانوں کے ساتھ،یہودیوں،عیسائیوں،ہندوؤں اوربڈہستوں سب کو شامل کرلیتاہے۔
حلال وحرام کی یہ دعوت کوئی نئی اور دعوت نہیں ہے بلکہ وہی قدیم اور اولین دعوت ہے جس کی ابتدا ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام نے کی تھی اور خاتمم الانبیاء سید الرسل سرکار دوعالم ﷺ نے اسے کمال واختتام تک پہنچایا۔دراصل حلال وحرام کی دعوت اسلام ہی دعوت ہے۔کیونکہ اسلام اور حرام وحلال ایک مطلب کی دو تعبیریں اور ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔الفاظ ضرور مختلف ہیں مگر مطلب ومفہوم ایک ہی ہے۔پورا اسلام دوچیزوں کا مجموعہ ہے:
۱۔کچھ وہ چیزیں ہیں جن کی اجازت ہے اور انہیں حلال کہتے ہیں۔
۲۔کچھ وہ ہیں جن کی ممانعت ہے اور ان کوحرام کہتے ہیں۔
اس لیے دواوردوچار کی طرح یہ بالکل واضح ہے کہ اسلام حلال وحرام کا مجموعے کا نام ہے۔یہ تصور خلاف واقعہ اور ناواقفیت پر مبنی ہے کہ حلال وحرام کا تعلق صرف کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ ہے۔اسلام ایک مکمل پیکج ہے اور زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔جب ہم کہتے ہیں کہ اسلام خدا کا پسندیدہ اور کامل واکمل دین ہے تویہ ناممکن ہے کہ وہ صرف کھانے پینے تک محددود ہو۔وہ معاشرت کے بارے میں ارشاد فرماتاہے:
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ (4:23)
معشت واقتصاد کے بارے میں اس کی تعلیم ہے:
أَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا (2:275)
افکار ونظریات کے بارے میں اس کا فرمان ہے:
فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ (22:30)
جب قران وسنت میں حلال وحرام کا تعلق،اعتقادات،معاملات،معاشرت،معیشت واقتصاد،افراد وجماعت،حاکم ومحکوم ،امیر وغریب اور کالے اورگورے سب کے ساتھ ہے تو حلال فوڈ کا تعلق بھی صرف بیف،مٹن اور چکن کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کو سروسز،ماکولات،مشروبات،کاسمیٹکس،فارماسیوٹیکلز،پرفیوم،چاول،پانی پولٹری کی خوراک اور ٹیکسٹائل مصنوعات کے ساتھ زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی کرنا چاہیے۔یہی بحیثیت مسلمان ہونے () کی ذمہ داری ہے اور اسی ہم اسے درخواست کرتے ہیں۔ہم ادب سے درخواست کرتے ہیں کہ حلال وحرام کے معاملے میں ہم یورپ کو اپنا آئیڈیل نہ بنائیں۔ہمارا ہدف اوآئی سی کے معیارات نہ ہوں بلکہ ہمارا میدان وہ ہو جو اسلام نے ہمارا لیے منتخب کیا ہے کہ حرام وحلال کا نفاذ آدم کے ہر بچے اور کائنات کے ہر ذرے پر ہونا چاہیے۔
آج ہم فخر کرتے ہیں کہ ہم نے اوآئی سی اور ملائیشیا وغیرہ کے اسٹینڈرڈ فالو کرلیے ہیں۔ایک وقت آئے گا کہ یہ ہماری اتباع میں فخر محسوس کریں گے۔الحمد للہ تمام تر کمزویوں اور خامیوں کے باوجود ہم ان ممالک سے بہت سے میدانوں میں آگے ہیں ،ان شاء اللہ تعالی اس میدان میں بھی ہم ان کی قیادت کریں گے۔وما ذلک علی اللہ بعزیز
بہرحال حلال ہماری دعوت ہے۔ہمارا لوگو ہے۔ہماری خاص صفت اور امتیازی نشان ہے۔ہم اس کے علمبردار ہیں۔ہمیں اس پر فخر ہے اور ہماری تاریخ حلال کی روایت سے جگمگارہی ہے۔اس کے علاوہ یہ ہماری زندگی اور موت اور دین اور دنیا کا سوال بھی ہے۔اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی افلاطونی ذہن اور عقل ارسطو کی ضرورت نہیں ہے۔یہ تو پہلے واضح کیا جاچکاہے کہ حلال کی دعوت دراصل اسلام کی دعوت ہے اور اسلام پر دینی ودنیوی نجات کا انحصار ہے۔اس کے علاوہ خالص مادی نگاہ سے بھی ہماری معاشی واقتصادی خوشحالی حلال مارکیٹ پر موقوف نظر آتی ہے۔اس وقت حلال مارکیٹ کا بزنس دو سے تین ٹریلین تک ہے۔مگر ہمار وزن اس میں نہ ہونے کے برابر ہے۔صرف خلیجی ممالک حلال فوڈ کی درآمد پر سالانہ ۴۴ ارب ڈالر پھونک رہے ہیں۔انڈونیشیا کی درآمدات ۷۰ ارب ڈالر ہے۔مسلمانوں کاملک اور بڑا ملک ہونے کے باوجود اسے گوشت کے سب سے بڑے سپلائر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ ہیں۔برازیل سے تین لاکھ میٹرک ٹن گوشت سعودی اور خلیجی ممالک کو سپلائی ہوتاہے۔یہ مارکیٹ ہمارے انتظار میں ہے۔اور مجھے ناامیدی نہیں امید ہے۔صرف تہیہ کرنے اور عزم راسخ کی ٖضرورت ہے۔تھوڑی سی نقل وحرکت کی برکات ہمارے سامنے ہیں اور ابھی تو ہم سنے صرف چلنا شروع کیا ہے رفتار نہیں پکڑی ہے بعض تاروں کو صرف چھوا ہے چھیڑا نہیں ہے۔جب ہم پوری قوت سے دوڑ لگائیں گے تو ہم ہی اس مییدان کے فاتح ہوں گے۔
طیب:
قرآن وسنت میں حلال کے ساتھ ایک اور لفظ’’طیب‘‘باربار استعمال ہوا ہے۔طیب کا مطلب یہ ہے کہ وہ شی:
۱۔حلال ہو
۲۔پاک ہو
۳۔پاکیزہ ہو
۴۔صاف ستھری ہو
۵۔ابھی یا آئندہ جاکر نقصان دہ نہ ہو
۶۔جسمانی اور روحانی دونوں پہلوؤں سے مفید ہو
اس سے معلوم ہوا کہ طیب سے مراد صرف یہ نہیں کہ شی حلال ہو بلکہ حلال تو طیب کا ایک جزو ہے اور طیب کا لفظ حلال سے زیادہ وسیع اور گہرا مفہوم رکھتا ہے۔افسوس ہے کہ اردوزبان کی تنگ دامنی کے باعث ہمارے پاس کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جو طیب کے مفہوم کو پورا ادا کرتاہو۔
اللہ تبارک وتعالی نے طیبات کا حکم دیا ہے۔اس لیے درج ذیل اشیاء اس بناء پر ممنوع ہیں کہ وہ طیب نہیں ہیں:
۱۔وہ اشیاء جو ناپاک ہوں
۲۔جو مضر اور نقصان دہ ہوں
۳۔جو نشہ آور ہوں
۴۔جو خبیث ہوں
خبیث سے مراد یہ ہے کہ صاف طبیعت اور ذوق سلیم کو ان سے گھن آتی ہو۔اس ایک لفظ سے حلال اسٹینڈرڈ خود بخود ثابت ہوجاتے ہیں۔علامہ راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں طیب کا جو مطلب بیان کیا ہے اس سے ہماری بات بالکل واضح ہوجاتی ہے۔فرماتے ہیں کہ:
’’طیب وہ چیز ہے جس سے حواس لذت اٹھائیں اور جی مزہ پائے۔گویا اسلام ہمارے جمالیاتی ذوق کی بھی تسکین کرتاہے۔اس تعریف سے واضح ہواکہ صرف پانی کا پیاس بجھادینا اور کھانے کا پیٹ بھر دینا کافی نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کھانے میں غذائیت کے ساتھ لذت بھی ہو۔پانی صرف سیراب نہ کرے بلکہ اس میں مٹھاس اور چاشنی بھی ہو۔لباس صرف تن کو نہ ڈھانپے بلکہ اس میں ملائمت اورلطافت ہواورجسم کو سہولت اور روح کو فرحت اور راحت ہو۔اگر ایسا نہ ہواور کسی چیز میں باصرہ کی لذت اور نظر کی عشرت نہیں ہے تو امام راغب کے بقول وہ طیب نہیں ہے۔
اس تفصیل سے ان لوگوں کی غلط فہمی دور کرنا مقصود ہے جو کہتے ہیں کہ یہ اسٹینڈرڈ اسلام میں کہاں سے آئے ہیں۔جیسا کہ معلوم ہواکہ طیب کے مفہوم میں یہ باتیں داخل ہیں۔یہ قرآن کرم کا اعجاز اور بلاغت ہے کہ جس چیز کو بیان کرنے کے لیے دفتر کے دفتر ناکافی ہیں اسے ایک لفظ میں کمال خوبی سے بیان کردیا۔
میں مزید کہنا چاہوں گا کہ خوداسلام بھی تو اسٹینڈرد ہی کا نام ہے۔اسٹینڈرڈ ہر زمانے میں تھے اور ہر چیز کے لیے تھے جس زمانے میں اسٹینڈرڈ نہیں تھے اسی کو زمانہ جاہلیت کہتے ہیں۔ہمارے دین میں تو ہر چیز کے لیے اسٹینڈرڈ ہیں۔کھانے پینے،چلنے پھرنے،اٹھنے بیٹھنے،ملنے جلنے،سب کے لیے آداب اور احکام ہیں۔مثلا راستے میں چلناہوتو:
۱۔دائیں طرف چلو
۲۔نگاہوں کی حفاظت کرو
۳۔سلام کرتے ہوئے چلو
۴۔ایذا دینے والی چیز راستے سے ہٹاؤ
۵۔دوسروں کو پہلے راستہ دو
۶۔کسی کو مدد چاہیے ہو تو مدد کرو
۷۔راستہ گھیر کر نہ چلو
یہ تمام چیزیں اسٹینڈرڈ نہیں ہیں تو کیا ہیں؟اور یہ اسٹینڈرڈ ہر شعبے کے لیے ہیں، یہاں تک کہ سیاست کے لیے بھی ہیں۔کہ ملک وقوم کی فلاح مقصود ہو،اقرباء پروری نہ ہو،دیانت اور امانت ہو۔اگر ہمارے تمام انسٹٹیوشنز میں یہ اسٹینڈرڈ زندہ ہوگئے تو عوام بھی خود بخود درست ہوجائیں گے۔
آڈیٹر کی شرعی حیثیت
۱۔قابلیت
جب کو ئی شخص اپنے آپ کو کسی منصب کے لیے پیش کرت ہے تو وہ بزبان حال اس بات کا مدعی ہوتا ہے کہ وہ اس منصب کا اہل ہے اور اس عہدے کے لیے درکار صفات وخصوصیات کا وہ حامل ہے۔اگر وہ اپنے اس دعوی می سچا نہیں ہے اور مطلوبہ قابلیت نہیں رکھتا ہے تو وہ جھوٹ،خیانت اور غلط بیانی کا مرتکب ہے اور اس عہدے کے لیے نااہل ہے۔
۲۔امانت
جتنے بھی عہدے ہیں وہ سب کے سب امانت کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس لیے اس منصب کے حامل کا امین ہونا ضروری ہے یعنی اس میں قابلیت اورلیاقت کے علاوہ امانت اور دیانت کی صفت ہونی چاہیے۔آڈیٹر کسی نہ کسی حلال سرٹیفکیشن باڈی کا ملازم بھی ہوگا اور ملازم کی بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہے:
ان خیر من استاجرت القوی الامین
۳۔وکالت
آڈیٹراپنی کمپنی کا نمائندہ ہے اور یہ نمائندگی ایسی ہے اس کے ساتھ بہت سارے لوگوں کے حقوق وابستہ ہیں۔وہ گویا صارفین کے حقوق کا محافظ ہے۔اور صارف اس کے اعتماد پرکسی پروڈکٹ کے استعمال کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتاہے۔گویا اس کے ساتھ عام لوگوں کے حقوق متعلق ہیں اور اس کا عمل کا نتیجہ صرف ذاتی نفع ونقصان نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑی جماعت اس کے زیر اثر آتی ہے۔
۴۔شہادت
آڈیٹر جب کسی پروڈکٹ کی تصدیق کرتاہے تو گویا وہ اس بات کی گواہی دیتاہے کہ یہ پروڈکٹ خالص حلال ہے۔اگر وہ اپنی شہادت میں سچاہے تو اجروثواب کا مستحق ہے لیکن اگر جھوٹا ہے توصحیح بخاری کی حدیث میں جھوٹی شہادت کو جھوٹی شہادت کو شرک کے برابر جرم قرار دیا گیا ہے۔
۵۔حلال تصدیقی ادارہ اپنا لوگو لگاکر اس بات کی ترغیب دیتی ہے کہ مارکیٹ میں موجود اور مصنوعات کے مقابلے میں اس مصنوع کو ترجیح دیں گویا وہ گاہک سے سفارش کرتاہے۔قرآن کریم کے بیان کے مطابق اگر جو شخص اچھی شفارش کرتاہے اسے بھی اس کا حصہ ملتاہے اور جو بری سفارش کرتا ہے تو اس کی برائی میں بھی اس کا حصہ لگتاہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ آڈیٹر کا عمل خالص دینی اورمذہبی ہے اس لیے وہ شہادت میں درج ذیل امور کا خصوصیت کے ساتھ خیال رکھے:
اس کی شہادت ذاتی خواہشات سے بالاتر ہو
اس نے خود مشاہدہ کیا ہو
اس کی شہادت دوٹوک ہو
وہ غیر جانبدار ہو
شہادت سے اس کا ذاتی نفع یا نقصان وابستہ نہ ہو
وہ خود اس کاروبارمیں شریک نہ ہو
جوکچھ حقائق اور واقعات اس کے علم میں آئے ہوں انہیں بلاکم وکاست بیان کردے
نہ شہادت کو چھپائے نہ ہی اس میں کچھ آمیزش کرے
شہادت دیتے وقت کسی کی عداوت میں انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔
وہ کاروبار اس کے کسی قریبی رشتہ دار یا جگری دوست کا نہ ہو
شہادت کا نصاب:
گواہوں کی تعداد کتنی ہوگی ؟شریعت اسلامیہ نے مختلف حالات اورمقدمات می گواہوں کی تعدادمختلف رکھی ہے۔کبھی چار مردوں کی شہادت ضروری ہوتی ہے،کبھی صرف دو مردوں کی اورکبھی دومردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کا فی ہوتی ہے۔بعض مقدمات میں تعداد کی کوئی شرط نہیں ہوتی ہے اور بعض میں صرف عورتوں کی گواہی کواوربعض میں ماہر کے بیان کو کافی سمجھا جاتاہے۔پھر بعض معاملات میں چشم دید شہادت لازم ہوتی ہے اور بعض میں عوامی شہرت کی بناء پر بھی گواہی دینا جائز ہوتاہے۔ان سب کی تفصیل اسلامی قانون کی کتابوں دلائل کے ساتھ موجود ہے۔
حلال انسپکشن کے وقت آڈیٹر کے ساتھ ایک شرعی ایڈوائزر بھی موجود ہوگا اور دونوں کی شہادت متعلقہ امر کے متعلق ضروری ہوگی اور یہ بھی ضروری ہوگا کہ ان دونوں کی شہادت میں کوئی اختلاف نہ ہو۔
آڈیٹر کی ذمہ داریاں:
۱۔احساس ذمہ داری اور خوف جواب دہی
۲۔بہترین اسلامی اخلاق اور پیشہ ورانہ طرز عمل کا اظہار
۳۔صارف کے جائز حقوق کا تحفظ
۴۔یہ اطمنان کے مصنوعات میں کوئی حرام رنگ،ذائقہ،یا کوئی حرام عنصر کسی بھی مرحلے میں شامل نہ ہے۔
۵۔اشیاء حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ہیں اور ان سے کو ئی متعدی بیماری پھیلنے کا اندیشہ نہ ہے۔
۶۔مصنوعات کا معیار،ترکیب،مقداراور ساخت ویسے ہی ہے جیسا کہ اس میں درج ہے۔
۷۔اجزائے ترکیبی میں سے کوئی جزو زائد المیعاد نہیں ہے۔
۸۔کسی مرحلے پر حلال کے ساتھ حرام مخلوط نہیں ہے۔
۹۔پلانٹ کا درجہ حرارت مطلوبہ معیا ر کے مطابق ہے۔
۱۰۔صفائی وستھرائی کا ایسا اہتمام ہے جو اس جیسی اشیاء کے لیے ناگزیر ہے۔
۱۱۔کسی جزو میں زہریلے اثرات کی بناء پر فوڈ پوائزنگ کا احتمال نہیں ہے۔
۱۲۔پروڈکٹ میں کسی ملاوت یا مضر صحت شی کا شمول نہیں ہے۔
۱۳۔جن اشیاء کو کولڈ اسٹوریج کرنا ضروری ہے وہ انہیں بروقت کولڈ اسٹوریج میں ذخیرہ کیا جارہا ہے۔
۱۴۔ایسی کوئی شی پروڈکٹ میں شامل نہیں کی جارہی جواپنی کوالٹی یا اجزائے ترکیبی کے لحاظ سے ناقص ہو
۱۵۔کوئی ایسا زائد جزو استعمال میں نہیں لایا جارہا جس کی کمپنی نے پہلے صراحت نہ کی ہو۔
۱۶۔کوئی غیر معیاری جزو کسی معیاری کمپنی کی طرف منسوب نہیں کیا جارہا۔
۱۷۔اس کے علاوہ آڈیٹر کا ایک اہم اور حساس ذمہ داری یہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوکوئی شی حلال ہو اور وہ اسے حرام قرار دے دے یا اس کا برعکس کردے۔کیونکہ یہ صرف خدائی اختیار ہے۔