مولانا شیر علی شاہ رحمہ اللہ سے وابستہ چند یادیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مولانا شیر علی شاہ رحمہ اللہ سے وابستہ چند یادیں
سرزمین اکوڑہ خٹک ، صوبہ خیبر پختونخواہ کی تاریخ میں ایک نمایاں مقام کی حامل ہے، اس مقام کو برصغیر کی آزادی کی عظیم تحریک سید احمد شہید میں بھی مرکزیت حاصل رہی ہے، اکوڑہ کی جنگ میں کامیابی نے قافلہ سید احمد شہید کے حوصلوں کو جو توانائی بخشی تھی اسی نے پیش قدمی کے لیے ان کے جوش وخروش میں اضافہ کیا، جدید سائنس کی تحقیق کے مطابق کائنات ارضی کے روز اول سے باہم گفتگو میں استعمال ہونے والا انسانی کلام آج بھی فضاؤں میں محفوظ ہے، ہمارا بھی یہ یقین ہے کہ ان بزرگوں کے اس مقام پر قیام سے فضا میں جو عطر پھوٹی ہے اس کے اثرات آج بھی یہاں موجود ہیں،چنانچہ حضرت مولانا عبدالحق رحمہ اللہ کے ملفوظات میں ملتا ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے: ’’جامعہ حقانیہ کی صورت میں علوم ومعارف کا فیضان ، مجاہدین بالاکوٹ کی ہی برکات کا نتیجہ ہے‘‘۔مولانا کی فراست بھی قابل داد ہے کہ انہوں نے اس مبارک مقام پر ایک گلشن سجا کر طلبائے علم کو ظاہری علوم سے سیراب ہونے کے ساتھ ساتھ، مشام جاں کوباطنی فیض یابی کے مواقع فراہم کیے۔
بندہ کو دو بار حضرت مولانا کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہے، پہلی باررمضان کے مہینے میں رفیق سفر وحضر، برادرم مولانا عطاء الرحمن شہید اور مولانا مفتی عبدالسمیع شہید رحمہ اللہ کے ساتھ حضرت کی قدیم رہائش گاہ پر حاضر ہوا، حضرت نے افطار کی دعوت دی تو ایک دوسرے مقام پر ہامی بھرلینے کی بنا پر ناچار عذر کرنا پڑا، تب سوروپے مرحمت فرمائے(یاد رہے کہ اس دور میں یہ بڑی رقم شمار ہوتی تھی) اور فرمایا:’’ یہ آپ لوگوں کا زاد راہ ہے، اور یہ تو لوگوں کے لیے کچھ بھی نہیں، آپ اس سے کہیں زیادہ اعزاز کے مستحق ہیں‘‘۔بندہ نے دعاکی درخواست کی تو فرمایا: ’’اللہ تعالی سے ہمیشہ بہت اچھی امیدیں رکھاکرو، اللہ نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایاہے، جب اللہ نے شیطان کی دعاقبول فرماکر اسے لمبی زندگی عطا کی ہے تو ہماری دعاؤں کوبطریق اولی قبول فرمائے گا‘‘۔
دوسرے موقع پر وفاق المدارس العربیۃ کی جانب سے دارالعلوم حقانیہ میں امتحانی نظم کے قیام کے لیے مفتی نظام الدین شامزئی اور مفتی ولی درویش رحمہمااللہ کی معیت میں حاضری ہوئی، مولانا سمیع الحق مدظلہ کی قدیم رہائش گاہ (جو کتب خانے کے اوپر ایک جانب تھا) میں ہمارا قیام تھا، ایک روز امتحان کے ختم پر ہم اپنے کمرے میں کھانے کے لیے بیٹھے ہی تھے کہ ایک خادم دوڑتا ہوا آیاکہ حضرت آپ سے ملاقات کے لیے تشریف لارہے ہیں، لیکن انتہائی ضعف کی بنا پر گاڑی سے نیچے اترنا دشوار ہے، فرمارہے ہیں:’’خود حاضر ہونا چاہتا ہوں، لیکن تکلیف کی بنا پر سیڑھیوں سے اوپر آنا مشکل ہے‘‘۔ہم کھانا چھوڑ کر چپلوں کے بغیر ہی نیچے کی جانب دوڑے، حاضر ہوئے تو حضرت نے نہایت عاجزی سے فرمایا:’’میں نے بہت گستاخی کی، بے ادبی کی، آپ علما ہیں، مجھے آپ کے پاس آنا چاہیے تھا، لیکن اس عذر کی وجہ سے آپ کے پاس نہیں آسکا‘‘۔پھر ادارے میں خدمت کے سلسلے میں کمی کوتاہی سے درگزر کرنے کا کہہ کرلجاجت کے ساتھ ہم سے دعا کی درخوا ست کرنے لگے، ان کیے مطالبے سے ہم کانپ گئے ، عرض کیاکہ دعائیں تو ہمیں آپ سے لینی ہیں، آپ ہمارے بزرگ اور بڑے ہیں،ہمارے اصرار پر حضرت دعا فرماکر تشریف لے گئے۔
حضرت کو اللہ نے بہت سی نعمتوں سے مالامال کر رکھا تھا، وہ اپنے حلقے سے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے قومی اسمبلی کے ممبر رہے ہیں، ان کے ادارے کو اللہ نے عالمی شہرت سے نوازا ہے، ان کا جنازہ اکوڑہ کا تاریخی جنازہ شمار ہوتا ہے، ان کے پاس مال ودولت کی فراوانی تو نہ تھی، لیکن علم وتقوی کا کمال حاصل تھا، مولانا شیر علی شاہ رحمہ اللہ بھی انہیں کے ایک جانشین اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے تھے، درس وتدریس کے ساتھ عوامی رابطوں میں چوبند، متواضع اور درویش صفت شخص تھے، ادنی مطالبے پر کہیں بھی کسی نوعیت کے دینی پروگرام میں پہنچنے کی کوشش فرماتے تھے، ہمارے ایک دوست مولانا عباد الرحمن صاحب نے سنایا کہ ایک بار دارالعلوم حقانیہ کے دفتر میں مولانا سمیع الحق صاحب مدظلہ کے ساتھ بیٹھا تھا، میں نے عرض کیا کہ مولانا شیر علی شاہ صاحب سے ملاقات کی خواہش ہے تومولانا فرمانے لگے:’’وہ تو کہیں ’’قدوری شریف‘‘کے ختم میں گئے ہوں گے، اس لیے کہ کسی کی دعوت کو ٹھکرانا ان کے لیے بہت دشوار ہوتا ہے‘‘۔درحقیقت یہ مولانا کی تواضع ، للہیت اورخدمت دین کے لیے ہر دم جانفشانی کی قوی دلیل ہے۔
مولاناسے اکوڑہ خٹک، جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن اور دیگر مقامات میں ان گنت ملاقاتیں رہی ہیں،کبھی خیال گزرتا ہے کہ صوبہ خیبرپختونخواہ میں بڑے بڑے بزرگ، اولیا وعلمائے کرام گذرے ہیں، ماضی قریب میں مولانا عزیر گل رحمہ اللہ، مولانا احمد رحمہ اللہ، ہمارے علاقے کے مولانا امین گل باباجی رحمہ اللہ اور جہانگیرہ کے مولانا عبدالحنان صاحب رحمہ اللہ وغیرہ، ان سب بزرگوں کا اپنا مقام ہے، لیکن مولانا کو اللہ تعالی نے جو فصاحت وبلاغت، فی البدیہ عربی پر عبور، اور گوناگوں صلاحیتیں دے رکھی تھیں،اس وقت صوبہ سرحد میں ان کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
ان کی محبتوں کے کیا کہنے!بندہ پر ان کی عنایات کے دسیوں واقعات ہیں، کہاں تک لکھے جائیں! شیخ عطا کی شہادت کے موقع پر فرمانے لگے:’’کراچی میں ہمارے دو دوست تھے: امداداللہ اور عطاء الرحمن، اب ایک تو چلا گیا لیکن دوسرا باقی ہے، ہمیں تو کوئی کام ہوتا ہے ان سے کہتے ہیں‘‘۔ میرے پاس ان کے کئی خطوط موجود ہیں، بعض میرے اور شیخ عطا کے نام مشترکہ اور بعض محض میرے نام ہیں، طلباکے داخلوں کے متعلق اور یوں بھی نجی کاموں کے سلسلے میں خط وکتابت فرماتے تھے، ایک دو بار مختلف کاموں کے سلسلے میرا بھی جانا ہوا تووہ جس محبت واپنائیت کے ساتھ پیش آئے الفاظ ان کی تعبیر سے قاصر ہیں۔ میرے چھوٹے بھائی اسد اللہ مرحوم کی تعزیت پر مولانا زرولی خان مدظلہ تشریف لا رہے تھے تو مفتی صاحب کے خاص استاذ مولانا عبدالحنان رحمہ اللہ(جہانگیرہ) اور مولانا بھی تشریف لائے، شیخ عطا کی شہادت کے موقع پر ہم ان کی میت لے کر گاؤں سے تھوڑے فاصلے پر پہنچے، مدرسے میں نماز جنازہ ہونا طے تھی، اس اثنا میں کسی کی تقریر کی آوز سنائی دی تو میں نے برادرم مولانا انعام اللہ سے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ مولانا شیر علی شاہ صاحب تشریف لاچکے ہیں، قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ مولانا ہی خطاب فرمارہے ہیں، میری رائے تھی کہ اب جنازہ بھی مولانا ہی پڑھائیں، اس لیے کہ ان جیسی بزرگ ہستی کی موجوگی میں کسی اور کا آگے بڑھانا مناسب نہیں، دیگر ساتھیوں کی بھی یہی رائے ہوئی، چنانچہ مولانا نے ہی شیخ عطا کی نماز جنازہ پڑھائی۔
مولانا کواللہ تعالی نے ہر ایک کے لیے محبت والفت کا وافر حصہ عنایت فرمایا تھا، بلاشبہ وہ دارالعلوم حقانیہ کی ایک ایسی شخصیت تھے جن کے تعارف کا ذریعہ ان کا ’’علم ‘‘کے سوا کچھ نہ تھا، دنیاوی سازوسامان اور دولت وجائیداد اتنی نہ تھی، البتہ وراثت نبوی سے ’’حظ وافر‘‘ پایا تھا، یہی ان کی قبولیت ومقبولیت اور مرکزیت کا سبب تھا، ان کی نماز جنازہ کے موقع پرخلق خدا کے ہجوم اس کا واضح ثبوت ہے۔حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی جب اپنے کسی بندے سے محبت فرماتے ہیں تو حضرت جبریل علیہ السلام کو بلاکر فرماتے ہیں کہ میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں، تم بھی اس سے محبت کرو، چنانچہ جبریل بھی ان سے محبت کرنے لگتے ہیں، اور آسمان کے فرشتوں میں اس کا اعلان کرتے ہیں تو سارے فرشتے بھی اسے اپنا محبوب بنالیتے ہیں، پھر زمین پر لوگوں کے دلوں میں بھی اس شخص کی محبت ڈال دی جاتی ہے، اور خلق خدا بھی اس سے محبت کرنے لگتی ہے۔مولانا شیر علی شاہ رحمہ اللہ اس آسمان سے اتری محبت کا ایک مظہر تھے، ان کے جنازے کاآنکھوں دیکھا حال بتاتا ہے کہ اللہ تعالی کے ہاں ان کی کس قدر قبولیت مقبولیت تھی اورآسمانی فیصلے کے نتیجے میں انسانی قلوب میں بھی اس کا کس قدر فیضان تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ دین کی حفاظت اللہ تعالی خود فرماتے ہیں، اور اس کے لئے رجال کار بھی پیدا فرماتے ہیں، سنن ابن ماجہ میں حضرت ابو عنبہ خولانی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’لایزال اللہ یغرس فی ھذا الدین غرسا یستعملھم فی طاعتہ‘‘۔(سنن ابن ماجۃ ص:۲، قدیمی)
’’اللہ تعالی اس دین (کے باغ) میں ہمیشہ پودے لگاتے رہے گا، جنہیں اپنی اطاعت (اور اپنے دین کی خدمت )میں استعمال کرے گا‘‘۔
ہمارے مفتی نظام الدین شامزئی شہید رحمہ اللہ کی شہادت کے موقع پر مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہ تعزیت کے لیے تشریف لائے تو تعزیتی بیان کے دوران کہی گئی ان کی ایک بات سے ہمیں بہت حوصلہ اور اطمینا ن ملا، فرمانے لگے:’’اللہ تعالی نے دین کا مدار افراد پر نہیں رکھا، افراد سے اللہ دین کی خدمت کا کام لیتے ہیں، دین کا مدار افراد پر ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دنیا سے جانے کے بعد دین مٹ جاتا، اللہ نے دین کی خدمت کے لیے اپنا یہ بندہ پیدا کیا تھا، اللہ ان جیسے اور سپاہی پیدا فرمادے گا‘‘۔ بلاشبہ مولانا کی وفات سے دارالعلوم حقانیہ میں خلا آیا ہے،لیکن ہمیں یقین ہے کہ اللہ اپنی قدرت سے اس خلا کو پر کرنے پر بھی قادر ہے، اللہ تعالی دارالعلوم کو بھی مولاناشیر علی شاہ رحمہ اللہ کا بدل اور دین کی خدمت کرنے والے نئے سپاہی فراہم کرے، آمین!