1
Ramadan

مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے

اچھی طرح یاد ہے، اور وہ پر لطف منظر اب بھی ،جب کہ میں یہ تحریر قلمبند کرنے لگا ہوں، میرے دماغ کے پردے پر ایک محفوظ انمٹ فلم کی مانند چل رہا ہے، درجہ سادسہ کا سال ہے، اور جلالین شریف کا درس جاری ہے، سورۂ نساء کی آیت میراث کی تفسیر شروع ہوئی، فن میراث کی پیچیدگیوں اور فن میراث پر دسترس کے حصول میں مشکلا ت کے متعلق دوران گفتگو میں یہ بات کان میں پڑتی ہے:’’ہمارے جامعہ کی دار الافتا میں بھی ہمارے ایک مفتی صاحب کو فن میراث میں وہ کمال حاصل ہے، کہ اگر کوئی نیند میں بھی ان سے میراث کا کوئی مسئلہ دریافت کر لے تو وہ اس کو بالکل ٹھیک ٹھیک بتادیں گے، اور وہ مفتی صالح محمد صاحب کاروڑی ہیں‘‘۔ یہ وہ سب سے پہلا موقعہ تھا جب حضرت استاذ مفتی صالح محمد کاروڑی شہید ؒ کے تذکرۂ خیرمیں یہ کلمات،ایک ایسی شخصیت کی زبان سے سنے جو اپنی گفتگو میں الفاظ کے انتخاب اور ان کی ادائیگی کے بارے میں انتہائی محتاط واقع ہوئی ہے،اوردرحقیقت اس وقت یہ کلمات سن کران سنے کر دیے، البتہ دورۂ حدیث کے اختتام تک میراث کے مسائل حل کرتے وقت ان کلمات کی صدائے باز گشت دماغ کے کسی گوشے میں ضرور سنائی دیتی رہی۔

۲۰۰۹ ؁ء میں جب میرا تخصص فی الفقہ میں داخلہ ہوا اور دار الافتا سے باقاعدہ اور مسلسل ربط کا سلسلہ شروع ہوا، تو چونکہ تخصص سال اول وسال دوم کے طلبہ کی درسگاہ ایک ہی تھی ، تب تخصص سال دوم کے طلبہ ساتھیوں کے ذریعے حضرت استاذ مفتی صالح محمد کاروڑی شہید ؒ کے متعلق جو منتشر طور پر سماعی تعارف ہوا اس کے متفقہ نکات یہ تھے کہ،’’مفتی صالح صاحب بہت ہی سخت ہیں‘‘،’ ’استفتا کی تاریخ واپسی سے ایک دن یا دو دن پہلے ہی اگر فتوی ان کی جگہ پر تصحیح کے لیے نہ پہنچے تو خیر نہیں ہے‘‘،’’جب دار الافتا میں’چھوٹے‘کی صدا گونجے تو پکارنے والے مفتی صالح صاحبؒ ہیں، جو بلا قید عمر ہر ایک کو ’چھوٹے‘ کہہ کر بلاتے ہیں‘‘،’’مفتی صالح صاحب کی تصحیح کی باری میں فتوی انتہائی مختصر اور ’’ٹو دی پوائینٹ ‘‘ہونا چاہیے، تفصیلات سے مکمل گریز‘‘،’’اگر کسی تحریر میں کوئی غلطی محسوس ہوتی ہو، یا مثلا تاریخ واپسی کے بعد ان کی جگہ پر رکھا جانا ہو تو وہ فتوی مفتی صاحبؒ کی جگہ پر ان کے سامنے نہ رکھا جائے ،بلکہ یا ان کے آنے سے پہلے یا ان کے جانے کے بعد رکھا جائے، مبادا ان کی نظر کسی غلطی یا کوتاہی پر پڑ جائے اور پھر وہ سب کچھ ہو جس کو ساتھی اپنی یادداشت میں لکھ کر اپنے ’میڈیا ‘کے ذریعے پھیلا دیں‘‘،’’ اگر فتوے میں کوئی گڑ بڑ ہو تو مفتی صاحبؒ بہت اچھے ’ناشتے ‘، یا ’دوپہر کے عمدہ کھانے‘، یا ’شام کی دودھ پتی چائے‘سے تواضع کرتے ہیں‘‘، یعنی اگر صبح کے وقت استاذ محترم ؒ کسی طالب علم ساتھی کوکسی غلطی پر تنبیہ کے لیے بلاتے تو یہ اس کے لیے ’دن کا میٹھا آغاز‘ اور ’صبح کا بہترین ’ناشتہ‘، دوپہر کے وقت یہ طلبی ہوتی تو ’دوپہر کالذیذ کھانا‘، اور اگر کسی کی ایسی ہی’ قسمت ‘شام کے وقت’ یاوری‘ کرتی تو یہ اس کے لیے ’دودھ پتی چائے کے کپ ‘کی نوید ہوتی،بلکہ ان اصطلاحات کا دائرہ تو تمام اساتذۂ کرام کی ’تواضعات ‘ کو جامع و شامل تھا۔

ظاہر سی بات ہے کہ ’’لاء اینڈ آرڈر ‘‘کی اتنی کشیدہ صورتحال ، اور ’’کورٹ مارشل ‘‘ کے اتنے سخت اصولوں کو سن کر بہ استثنائے چندجو سب کی حالت ہوتی تھی،وہی میری حالت تھی،نتیجہ یہی ہوا کہ جب سال دوم والے ساتھیوں کا قافلۂ علم کوچ کر گیا اور تمرین افتا کی وادی میں ہمارے سال کے ساتھیوں نے قدم رکھا تو مفتی صاحبؒ کا یہی تأثر سب کے دماغوں پر مسلط تھا اور جو اصول و قواعدسال گزشتہ کے ساتھیوں سے سن رکھے تھے، اور ہم تک وہ بطور وراثت منتقل ہوئے تھے،انہی کی مکمل پاسداری کی گئی ، حتی کہ صبح کے ناشتے ، دوپہر کے کھانے اور شام کی چائے تک کی اصطلاحات تک میں کسی قسم کی ترمیم کو گوارا نہیں کیا گیا۔تخصص فی الفقہ سے فراغت تک میرا حال یہ تھا کہ میں بلا وجہ شدید استاذ محترم ؒ کے سامنے جانے کی کبھی بھی جرأت نہیں کر سکا، حتی کہ جب راستے سے گزرتے ٹکراؤ ہوجاتا توہمارے مدارس کے عام رواج کے موافق راستہ چھوڑ کر ایک جانب کھڑا ہو جاتالیکن سلام کے الفاظ منہ کے اندر ہی رہ جاتے ان الفاظ کے باہر آنے کی قوت نہیں پاتا تھا۔

لیکن تخصص فی الفقہ مکمل کر لینے کے بعد میری انتہائی خوش قسمتی سے جب حضرت استاذؒ سے گھل ملنے کا موقعہ میسر آہی گیا ،تب آپؒ کی مرنجاں مرنج طبیعت، آپؒ کا ذوق ظرافت، طلبہ سے آپؒ کا پر خلوص اور بے لوث و بے غرض قلبی تعلق اور آپؒ کی اس ظاہری سختی کے پردے کی اوٹ سے ایک انتہائی نرم خو اور نرم دل انسان آشکارا ہوا۔ اس انکشاف نے وہ تمام کدورتیں اور دوریوں کی پرچھائیاں جو بشری اور فطری کمزوریوں کی بنا پر دل پر چھائی ہوئی تھیں یکدم و یکسر صاف کر کے دل کو قلعی کردیا، اور آپ ؒ کی محبت دل میں جاگزیں بلکہ پیوست ہوگئی۔

نحیف البدن ، میانہ قامت، سخت جانی و سخت کوشی کی واضح علامات لیا ہوا گندمی رنگ ،آنکھوں پر عینک، اور اس عینک کو نیچے کی جانب رکھ کر اوپر سے دیکھنے ایک مخصوص انداز ، سیدھا سادا لباس جس میں پر تکلف مفتیانہ جاہ و جلال کی کوئی شان جھلکتی نظر نہ آتی تھی، سر پر جالی والی ٹوپی ،جو ایک خاص وضع کے ساتھ ہر وقت سر پر رہتی تھی،انداز گفتگو میں مادری زبان پشتو کے محسوس ہوتے اثرات ، لیکن اردو الفاظ کے استعمال میں کسی قسم کی شکستگی یا جھول سے مبرا،چلتے وقت سینہ کشادہ ،کندھے اچکے ہوئے ،کبھی جھکتی، کبھی اٹھتی نظریں ، لیکن راہ گزرتے ہوئے نہ کوئی گھن گرج ہوا کرتی اور نہ ہٹو بچو کا شور۔

دوپہر کے کھانے کے وقفے میں سال گزشتہ تک میرا معمو ل تھا کہ میں دار الافتا میں اپنے کچھ اساتذہ اور دیرینہ احباب کے ساتھ دسترخوان پر کھانے میں شریک ہوا کرتا تھا،میرے لیے یہی وہ حسین لمحات ہوا کرتے تھے جب آپؒ کے ساتھ خوب کھل کر گفتگو ہوتی اورآپؒ سے مختلف قسم کی علمی باتیں، سیاسی نکات، ادبی ظرائف ،تاریخی سلسلے، اور مزید بر آں ’’خوش گپیاں ‘‘،اور ’’چھیڑ چھاڑ‘‘ سننے کو ملتیں۔ کبھی مولانا شمس الحق افغانیؒ کے علمی شہ پارے، کبھی تقسیم ہند و پاک اور دو قومی نظریے کے سیاسی اثرات، کبھی مولانا اعزاز علیؒ کی ’’نفحۃ العرب‘‘ وغیرہ سے کشید کیے ہوئے ادبی قصے، کبھی افغانیوں، پشتونوں، بلوچیوں،میمنوں اور گجراتیوں کے تاریخی پس منظر اور پیش منظر۔ تخصص فی الفقہ کے دورانیے میں آپؒ کی شخصیت کا جوعکس لوح دل پر ثبت تھا، اس کی بنا پر میرے لیے آپؒ کی شخصیت کے اس پر لطف اور دلنشیں رخ کا انکشاف ایک اچھنبا تھا ، جلد ہی آپؒ کے سامنے مجھے بھی ’’جرأت گفتار ‘‘ہو ہی گئی،جس کا میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور پھر آپؒ کے ساتھ محفل کا رنگ، استاذ اور شاگرد کی محفل کے بجائے، گہرے مونس ورفیق کی محفل کا سا معلوم ہونے لگا ؂

بہت لگتا ہے جی ان کی صحبت میں

حال ہی میں مولانا شمس الحق افغانیؒ کے جملہ افادات ،تالیفات و رسائل اور ملفوظات سمیت ، ایک عمدہ مجموعے کی صورت میں شایع ہوئے ہیں، اس مجموعے کے بازار میں آنے کے کچھ ہی دن بعد آپؒ نے دوران گفتگو فرمایا کہ ’میں نے اس مجموعے کا مکمل سیٹ خرید لیا ہے ‘،اسی طرح اس مجموعے میں موجود مولانا شمس الحق افغانیؒ کے دروس تفسیر کی خوب تعریف فرمائی، اور اس کے بعد گاہے گاہے مولانا شمس الحق افغانیؒ کی تحقیقات سنا کر طبیعت شاد فرماتے رہتے تھے۔ جس انداز کے ساتھ آپؒ یہ تحقیقات بالاستیعاب کے ساتھ سنایا کرتے تھے اس سے ہی معلوم ہوتا تھا کہ آپؒ غیر معمولی حد تک مولانا افغانیؒ کی شخصیت سے متأثر تھے اور معقولات میں کسی صاحب علم کو ان کے پائے کاتسلیم نہیں فرماتے تھے۔ اگرچہ مولانا شمس الحق افغانیؒ کی علمی شخصیت اورمعقولات پر مولانا افغانیؒ کی دسترس ویسے ہی روز روشن کی طرح آشکارا ہے، لیکن آپؒ سے متعدد بار مولانا افغانیؒ کی تعریف و توصیف سن کر اس مجموعے سے استفادے کا طبعی رجحان دو چند ہوگیا۔

برصغیر کی سیاسیات کے باب میں ’’مدنی الطبع ‘‘تھے،اور حضرت مدنیؒ کی سیاسی بصیرت کے بے حد مداح تھے، تقسیم ہند و پاک کے متعلق اپنے اختیار کردہ نکتۂ نظر کے بارے میں انتہائی منشرح الصدر تھے، اور اس بارے میں اس کے مخالف کسی رائے کو تسلیم کرنے سے یکسر بیزار تھے۔ایک صاحب نے، جو آپؒ سے بہت زیادہ بے تکلف تھے، ایک موقعے پر اپنے کسی سیاسی نکتۂ نظر کی ،جو آپؒ کے سیاسی موقف کے برخلاف تھا،وکالت کرتے ہوئے جب یہ کہا کہ، ’’میرے اختیار کردہ اس سیاسی نظریے کی فقہی بنیادیں مضبوط ہیں، البتہ یہ سیاسی نظر یہ معروضی صورت حال میں نتیجہ خیز اس وجہ سے ثابت نہ ہوسکا کہ اس نظریے کو اپنی وکالت کے لیے درست اور ایمان دار لوگ نہ مل سکے‘، اس واقعے کے بعد جب بھی آپؒ کی ان صاحب سے ملاقات کی صورت ہوتی تو بڑے مزے لے لے کر ان صاحب کے اس جملے پر کہ ’لوگ صحیح نہیں ملے‘ ان کو چھیڑا کرتے تھے، اور آپ ؒ کا یہ انداز مزاح تمام حاضرین مجلس کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیتا ۔

قوم افغان آپؒ کی دلچسپی کا خصوصی مرکز تھی، جا بجا ان کی غیرت، ان کی ہمت، اور ان کی شجاعت کو داد تحسین سے نوازتے اور تاریخی واقعات سے اپنی بات کو مدلل کر کے بیان کرتے ،نیز وہاں کی مختلف شخصیات کے تعارف اور ان کی مدحت میں رطب اللسان رہتے ، اور اپنی بات کو اتنی قوت اور جوش کے ساتھ پیش کرتے کہ سامعین کو اپنا واقعی ہم نوا بنا لیتے۔اسی مدح سرائی جب آپ ؒ دیگر اقوام کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے قوم افغان کے خصائل و شمائل کو دیگر اقوام کے خصائل و شمائل کے بالمقابل شمار کرتے تو آپ ؒ مفتی سے مؤرخ نظر آنے لگتے۔ ’’دریائے کابل سے دریائے یرمو ک تک‘‘ مؤلفہ مولانا ابو الحسن علی ندویؒ آپؒ کی نشست پر موجود کتابوں میں مستقل موجود رہتی تھی، جو آپ ؒ کے اس قوم افغان اور ان کے خطۂ ارضی سے آپؒ کی محبت کی علامت تھی۔محمد بن قاسمؒ کے سندھ میں داخلے کی کیا صورت بنی؟سندھ میں بیرون سندھ سے آنے والی قوموں کے آ بسنے کا سبب اور محرک کیا ہوا؟ تقسیم بر صغیر سے کس کو کیا فائدہ ہوا اور کس کوکیا نقصان؟گجراتیوں اور میمنوں کی تاریخی وابستگی اور ان کے نمایاں اوصاف وخصوصیات کیا ہیں؟وغیرہ وہ سوالات تھے جن کے جوابات آپؒ خوب جی کھول کر مزے مزے سے دیتے۔اس وقت میں دوران گفتگوآپؒ کے انداز کو چشم تصور میں واضح طور پر دیکھ رہا ہوں اور آپ ؒ کے سادہ اور مخصوص تکیۂ کلام ’’صحیح ہے نا‘‘ کی مٹھاس کانوں میں رس گھولتی محسوس ہو رہی ہے ۔

میری نظر میںآپ ؒ کی شخصیت کا ایک انتہائی نمایاں پہلو آپؒ کا اخفائے حال تھا، آپ ؒ کے حین حیات آپ ؒ کے قریبی رفقا و احباب تک کو آپؒ کی گوناگوں علمی و دینی و رفاہی مصروفیات کی مکمل واقفیت نہ تھی، آپؒ کی دن بھر کی مصروفیات سن کر جہاں حیرت اور تعجب کا جھٹکا لگا وہیں آپؒ کی للہیت اور خلوص نے دل میںآپؒ کی عظمت کو اور بڑھا دیا، دار الافتا میں آپؒ کی جو مصروفیات تھیں، ان کا بوجھ اور ان کی ذمہ داری کما حقہ وہی جان سکتے ہیں جن کو اس راہ کے نشیب و فراز معلوم ہوں، ورنہ جن کا دار الافتا سے صرف مسائل پوچھنے کی حدتک رابطہ ہویاجن کا صرف دار الافتا سے گزر ہی ہواہو ،وہ مسند افتا کی بھاری ذمہ داری کوکبھی نہیں سمجھ سکتے ہیں،اور یہی وجہ ہے کہ جب ایسے ہی نا سمجھوں کی طرف سے کسی ناسمجھی کا اظہار بڑی دلیری کے ساتھ سننے میں آتاتو عقل ا ن کی جہالت و ناواقفیت پر سراپا ماتم ہو جاتی ہے، جس کو کبھی سر میں درد ہی نہ ہوا ہو، سر درد سے کراہتا ہوا مریض اس کو اپنی تکلیف بتائے، تو کیسے؟ دار الافتا کی ان تھک ہمہ جہتی مصروفیات کے بعدتدریسی سلسلہ، وہ بھی صرف ایک جگہ بیٹھ کر نہیں، بلکہ تین مختلف جگہوں پر مختلف اوقات میں، اگر یہ خلوص کی علامت نہیں، تو پھراس کو کیا کہا جائے؟

ایک مرتبہ آپؒ دوران گفتگو کوئی بات بتلانے لگے تو سلسلۂ کلام میں تذکرہ آیا، ’میں ایک جگہ جمعہ پڑھاتا ہوں‘، پھر یک دم زور دے کر جملہ معترضہ کے طور پر کہا، ’لیکن یاد رکھو میں اس جمعہ پڑھانے کا کوئی معاوضہ نہیں لیتا ہوں‘، اس وقت میراخیال یہی تھا کہ کبھی کبھا رکہیں کسی مسجد میں کسی کی جگہ جمعہ پڑھا لیا کرتے ہوں گے، کیوں کہ آپؒ باقاعدہ امام نہیں تھے، شہادت کے بعد اس سربستہ راز سے پردہ اٹھا کہ آپؒ نے اپنے رہائشی علاقے میں اہل محلہ سے وفا کا یہ نمونہ وہاں ایک مسجد (مسجد نور)کی تعمیر کا انتظام سنبھالنے اور ایک دینی مدرسے (جامعۃ النور الاسلامیۃ)کی بنیاد بھر نے کی صورت میں پیش فرما رکھا تھا، اور جس مسجد میں جمعہ پڑھانے کی آپؒ بات فرمایا کرتے تھے، وہ یہی مسجد نورتھی، جس کے بانی و مبانی خودآنجناب کی ذات تھی۔ اس مدرسے میں سینکڑوں طلبہ نور نبوت سے اپنے سینوں کے چراغ روشن کر رہے ہیں،اور ان طلبہ میں ان بچوں کی بھی معتد بہ تعداد ہے، جن کے سروں سے ان کے والد کا سایہ اٹھ چکا ہے،اور حضرت شہید ؒ ان کے سروں پر شفقت کا ہاتھ رکھ کر ان کے سروں پر موجود بالوں کی تعداد کے بقدرہر گھڑی اجر و ثواب کی روحانی لذت سے بہرہ اندوز ہو رہے ہیں۔

ملکی وبین الاقوامی کئی علمی و مذہبی و سیاسی شخصیا ت جامعہ میں وقتا فوقتا قدم رنجہ فرماتی رہتی ہیں، اور بعض اوقات مہمانوں کی قدر بلند کے پیش نظر جامعہ کے خارجی اطراف اور اندرونی در و دیوار میں غیر معمولی اثرات نظر آتے ہیں،لیکن آپؒ کو میں نے بارہا دیکھا کہ اس شور و شغب سے مکمل یکسو رہتے ، اور آپؒ کے معمولات میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور نہ کچھ ہونے جا رہا ہے، اوروں کے لیے وہ دن بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی آپؒ کے لیے وہ دن بھی ایک معمولی دن ہی ہوتا اور اوروں کے جلو میں اپنے آپ کو نمایاں کرنے سے آپ ؒ مکمل طور پر گریزاں رہتے، یہ بھی آپ ؒ کی اسی صفت اخفا کا ایک اور مظہر تھا۔ اللہ تعالی آپؒ کی اس صفت اخفا اور صفت خلوص سے مجھ سمیت آپ ؒ کے جملہ تلامیذ کو حصہ عطا فرمائے۔

پانچ سال کی عمر میں اپنے گاؤں کاروڑ سے کراچی کا سفرہجرت کرنے والا ، تقریبا تین دہائیاں طلب علم نبوت میں گزار کر، تبلیغ علم کا علم بلند کیے علم پھیلانے کا مخصوص مشن لیے ۱۸ ربیع الاول ۱۴۳۴ ؁ھ بمطابق ۳۱ جنوری ۲۰۱۳ ؁ء کی دوپہر کو بھی معمول کے مطابق ایک محاذ سے دوسرے محاذکی طرف اپنا فریضہ ادا کرنے ہی جا رہا تھا کہ پیغام اجل آ پہنچا، اور ہجرت کے بعد شہادت کے مرتبے سے بھی سرفراز ہوا۔دار الافتا کا ایک دلچسپ عہد جس میں ’’چھوٹے‘‘ کی آواز گونجتی تھی،قوم افغان کی قصیدہ خوانی ہوتی تھی،مختلف قوموں کے تاریخی ادوار اور ان کے ارتقا کی دلنشین انداز میں تحلیل ہوتی تھی،ختم ہوا، اور شہید راہ علم مفتی صالح محمد صاحب کاروڑی ؒ ، ڈالمیا کے قبرستان کی خاک میں آسودہ خواب ہوئے، لیکن آپ ؒ کی یادوں کے دیے نہ جانے کتنے ہی دلوں میں جل رہے ہیں جن کے باعث کتنی ہی آنکھوں سے ایک سیل رواں مسلسل جاری ہے:

جان کر من جملہ خاصۂ مے خانہ مجھے

مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے

محمد بلال بربری