خاموشی.....ذریعہ نجات
وہ گناہ جو شرعًا حرام، اخلاقًا ظلم اور قانونًا جرم ہے۔جس کا لینے والا، دینے والا اور درمیان میں پڑنے والا سب جھنمی ہیں۔ ایسا گناہ کہ جب کوئی قوم اس میں مبتلا ہو جاتی ہے تو دشمن سے مرعوب ہوجاتی ہے اور دشمن آسانی سے اسے روندتا ہوا ان پر فتح حاصل کرلیتا ہے۔
’’مامن قوم یظہرفیھم الرشاء الااخذبالرعب‘‘(الحدیث)
وہ گناہ جس کے مرتکب پراللہ تعالیٰ کی لعنت ہے، اس کے رسول کی لعنت ہے۔ اللہ کی لعنت ہے اس لئے وہ نظر رحمت نہیں فرمائیں گے اور رسول کی لعنت ہے اس لئے وہ سفارش سے گریزفرمائیں گے۔
قارئین سمجھ گئے ہیں کہ رشوت کی بات ہورہی ہے۔ ہمارے معاشرے کو اب یہ ناسور لگ گیا ہیاور اس کے رگ و پے اورانگ انگ میں سرایت کرگیا ہے۔ حدیث شریف کے مطابق جس جسم کی پرورش حرام غذا سے ہو اس کے لئے جہنم کی آگ ہی بہتر ہے۔
آج جب کہ زمانہ ترقی پر ہے اور ہر علم و فن میں ترقی ہو رہی ہے تو اس کے ساتھ جرائم کی بھی نت نئی شکلیں سامنے آرہی ہیں۔ رشوت اب نئے انداز اوربدلے ہوئے روپ میں لی اوردی جا رہی ہے۔ سب سے پہلے راشی افسر کے مزاج اورعادت اور اس کے شوق و ذوق کو دیکھا جاتا ہے اور پھر اگر وہ:
۱۔ جہانگیر ہے تو اسے نورجہاں کے ذریعے شیشے میں اتارا جاتا ہے۔
۲۔ پینے پلانے کا رسیا ہے تو شراب کی بوتلیں نہیں بلکہ پیٹیاں اسے فراہم کی جاتی ہیں۔
۳۔ اگرکوئی سیم و زر کا شوقین ہے تو جائیداد اسے سستے داموں فروخت کرکے مہنگی قیمت پر خریدلی جاتی ہے۔
۴۔ اگرکلب کا ممبر ہے تو اس کلب کی رکنیت حاصل کرکے اس کے ہاتھ بڑی رقم جوئے میں ہاری جاتی ہے۔
زمیندار اپنے مال میں سرکاری زکوۃ کے نام سے الگ فنڈ رکھتے ہیں جو محکمہ مال اور آب پاشی کے راشی افسران کی نذر کی جاتی ہے۔
صدقہ جاریہ کا نام ہم سنتے رہتے ہیں بعض جگہوں میں ’’رشوت جاریہ‘‘ ہوتی ہے۔ رشوت کسی کی ذات کو نہیں بلکہ عہدے اور منصب کو ملتی ہے۔ جو بھی اس منصب پر فائز ہوتا ہے۔ رشوت لینا اس کا فطری حق سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض عہدوں کے لئے باقاعدہ بولیاں لگتی ہیں۔ ہمارے ہاں کے بعض محکمے اس سلسلے میں کافی نیک نام ثابت ہوئے ہیں ۔
زیادہ افسوسناک یہ ہے کہ مقدس اورقابل احترام پیشے بھی اب ناپاک کمائی سے پاک نہیں رہے ۔ پہلے طبیب ’’بسم اللہ‘‘پڑھ کر اور ’’ھوالشافی‘‘ لکھ کر نسخہ لکھتے تھے۔ مریض کی آواز سن کر اس کی شکل دیکھ کر اور نبض پر ہاتھ رکھ کر اپنی فراست سے مرض کی تشخیص کرلیا کرتے تھے۔
مولانا سید سلیمان ندویؒ ہندوستان میں ریڈیو پر تقریر کر رہے تھے، اور بنگال میں ایک شخص نے تقریرسن کر مولانا کو لکھا کہ آپ احتیاط کریں، بہ صورت دیگرآپ کوعارضہ قلب لاحق ہوسکتا ہے ان صاحب کی تشخیص درست تھی، حضرت مولانا چند دن بعد عارضہ قلب کا شکار ہوئے۔
آج ٹیسٹوں کی بھر مار ہوتی ہے،گھر پر دیکھنے اور کلینک پر دیکھنے میں فرق ہوتا ہے کیونکہ فیس میں فرق ہوتا ہے، عام مریضوں اور پرائیویٹ مریضوں کو امتیاز سے دیکھا جاتا ہے۔ بعض جگہ ڈاکٹر آپریشن کو سنگین بنا کر مزید رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔
بڑے ہسپتالوں میں کیش کی صورت میں آپریشن کے لئے پیشگی رقم جمع کرانا ضروری ہے اگرچہ مریض تڑپ رہا ہو، مگر رحم دل مسیحا کا دل پسیجتا نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ جو بڑے بڑے ہاتھی انہوں نے پال رکھے ہیں ان کا پیٹ بھرنے کے لئے کثرت سے آپریشن ضروری ہیں۔
اعضاء چوری ہونے،گردے غائب ہونے کی خبریں آئے دن اخبارات میں چھتی رہتی ہیں ظاہرہے کہ یہ کام کسی نیم حکیم یا معمولی سرجن کا نہیں ہوسکتا ہے بلکہ اس کے لئے اعلی مہارت ، ضروری آلات اور منظم طریقہ کار کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹری اور طبابت کے ساتھ معلمی کا پیشہ بھی انحطاط کا شکار اور روبہ زوال ہے۔ اسلامی معاشرے میں معلم کا مقام بادشاہ وقت سے زیادہ ہوتا ہے، مگر جب سے علم کو تول تول کر فروخت کرنا شروع ہوا ہے اور علم کا مقصد صرف پیٹ کی آگ بجھانا ہوگیا ہے اس وقت سے علم سے نور اور برکت ختم ہوگئی ہے۔ ڈاکہ صرف ہتھیار کے ذریعے زبردستی مال چھیننے کا نام نہیں ہے جو لوگ قلم کے ذریعے لاکھو ں کروڑوں ادھر سے ادھر کردیتے ہیں وہ بھی ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ صدر اور وزیر اعظم اور اعلی مناصب پر پہنچنے والے ان پڑھ نہیں ہیں بلکہ دنیا کی اعلی تعلیم گاہوں کی ڈگریاں رکھتے ہیں مگر کرپشن کرتے ہیں ۔جو ظالمانہ قوانین پاکستان سمیت پوری دنیا میں رائج ہیں ان کے بنانے والے کوئی ان پڑھ اور جاہل نہیں ہیں بلکہ قانون کی ڈگریاں رکھنے والے اور اسمبلیوں میں بیٹھنے والے عوامی نمائندے ہیں۔
آج ہم قوانین کے ذریعے اس لعنت کی روک تھام چاہتے ہیں مگر کیفیت یہ ہے کہ :
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
قانون پر قانون بنایا جاتا ہے مگر جوں ہی کوئی نیا قانون آتا ہے رشوت کا دروازہ چوپٹ کھل جاتا ہے۔ بنانے والے جان بوجھ کر قانون میں ابہام رکھتے ہیں ۔
قانون مادر زاد نابینا ہوتا ہے اور خود کچھ نہیں دیکھ سکتا اس لئے بڑی سے بڑی برائی عین قانون کی موجود گی میں بلکہ اس کی روشنی میں ہوتی ہے۔ قانون بذات خود بےحس و بےحرکت ہوتا ہے اسے حرکت میں لانا پڑتا ہے اور رشوت کا کام چونکہ باہمی رضامندی سے ہوتا ہے اس لئے سخت سے سخت قوانین بے اثر رہتے ہیں۔
اگر کوئی قانون طویل غور و فکر کے بعد بنایا گیا ہو اور اس میں معاشرے کے رسم و رواج اور عادات مزاج کی بھرپور رعایت ہو اور خود قانون منصفانہ اور غیر جانب دارانہ ہو تو بھی رشوت کا انسداد اس کے ذریعے ممکن نظر نہیں آتا۔ وجہ اس کی یہ ہے خود قانون اتنا اہم نہیں ہوتا جتنا وہ ہاتھ اہم ہوتے ہیں جن میں وہ قانون دیا جاتا ہے ۔ آج قانون کو نافذ کرنے والے ہاتھ چونکہ کرپٹ ہیں اس لئے اچھا سے اچھا قانون بھی اپنا اثر دکھانے میں ناکام ہے۔
اگر قانون سے جرائم کا انسداد ممکن ہوتا تو آج کی دنیا سب سے بڑی عابد و زاہد ہوتی کیونکہ جتنے قوانین آج رائج ہیں اس سے پہلے کبھی نہ تھے ۔ ایک جمہور ی ریاست کے تین ستون ہوتے ہیں :
مقننہ
عدلیہ
انتظامیہ
مقننہ کا کام ہی قانون سازی ہے۔ خود مملکت خداداد پاکستان میں ہزاروں قوانین رائج ہیں۔ ہر محکمے کے قوانین جداگانہ ہیں اور اس کے لئے الگ عدالتیں ہیں۔ بینکنگ کی ، فیملی معاملات کی ، کمپنیوں کی ، دیونی اور فوجداری نوعیت کی جرائم کی عدالتیں الگ الگ ہیں۔ مگر انصاف کتنا ہے ، مظلوم کو کتنی داد رسی ملتی ہے،عوام کا اعتماد ان اداروں پر کس قدر ہے ؟ سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ کسی کو بددعا دینی ہو تو اسے کورٹ کچھری کی بددعا دی جاتی ہے۔ عملی صورتحال یہ ہے کہ لوگ ان عدالتوں کو رخ نہیں کرتے ہیں بلکہ باہر ہی ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ایک تو وقت بہت لگتا ہے۔ جج صاحبان اپنے فیصلوں میں لکھتے ہیں کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے مگر ہوتا یہ ہے کہ دادا کے دائر کیے ہوئے مقدمے کا پوتے کے حق میں بھی بسا اوقات فیصلہ نہیں ہوتا ہے۔ خرچ اتنا ہوتا ہے کہ مرغی کے متعلق انصاف درکار ہو تو اس کے لیے بھینس قربان کرنی پڑتی ہے ۔ اس کے علاوہ قانون کی زبان ایسی ہے جو یہاں کے اسی فیصد کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ انصاف کی لمبی لمبی کوٹیاں دارالحکومت میں ہوتی ہیں جہاں کا سفر اور جہاں تک رسائی ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی ہے۔ انگریز کی آمد سے پہلے یہاں ہر گاؤں اور دیہات میں پنچایتیں ہوتی تھیں۔ سب کو ان پر اعتماد ہوتا تھا اور فیصلے کرنے والے مقدمے کی نوعیت سے وہ پوری طرح آگاہ ہوتے تھے کیونکہ گاؤں کا تنازع اسی گاؤں کی پنچایت میں پیش ہوتا تھا مگر اب جہاں جھگڑا ہوتا ہے وہاں اس کا حل نہیں ہوتا اور جہاں جرم ہوتا ہے وہاں اس کی سماعت نہیں ہوتی ہے۔ فیصلہ کرنے والا جج ضروری نہیں ہے کہ مقدمے کے فریق کی زبان سے واقف ہو اور اس کے مقامی رسم و رواج کو جانتا ہو۔ اس لئے جو وکیل زیادہ چالاک ہوتا ہے وہی زیادہ کامیاب ہوتا ہے اور وہ دوسرے کو اپنی لفاظی اور طلاقت لسانی سے زیر کر دیتا ہے اور جج بھی اس زور بیانی سے متاثر ہو جاتا ہے نتیجۃ یہ نکلتا ہے کہ ظالم مظلوم اور مظلوم ظالم بن جانتا ہے۔ عدالت کا فیصلہ ایک نئے تنازع اور نہ ختم ہونے والی دشمنی کا بیج بو دیتا ہے ۔ نسلوں کی نسلیں اسی مقدمہ بازی میں گذر جاتی ہیں ، روپیہ پانی کی طرح بہہ جاتا ہے اور بہترین صلاحیتیں ، قیمتی اوقات سب اسی میں برباد ہوجاتے ہیں۔ اب اسے انصاف کی فراہمی کہا جائے گا یا انصاف کا خون، یہ مظلوم کی اشک شوئی ہے یا اس کے حقوق کی پامالی، یہ نظام عدل ہے یا نظام جور و ظلم، فیصلہ ہم ان پر چھوڑتے ہیں جو بینائی والی آنکھیں ، شنوئی والے کان اور سوچنے والا دل رکھتے ہیں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار
بہ ہر حال قوانین اور قوانین کے نفاذ کے لئے مزید افراد کی بھرتیوں کے ذریعے اس لعنت سے نجات ممکن نہیں ہے ۔ کیونکہ جو قوانین ہیں وہ سب کے سب انسان کے بنائے ہوئے ہیں،اورانسان میں خامیاں ہیں تواس کے بنائے ہوئے قوانین میں کیوں خامیاں نہ ہوں گی۔؟ حل یہی ہے کہ قانون بلاشبہ نافذ کیا جائے ۔ مجرمانہ ذہن رکھنے والے افراد کو قانون کی گرفت سے آزاد رکھنا درندوں کو آزاد چھوڑنا ہے ۔ مگر قانون ایسا اختیار کیا جائے جو ان نقائص سے پاک ہو جن کا تذکرہ ہم پیچھے کر آئے ہیں اور ایسا قانون جو ہر عیب سے خالی ، ہر خامی سے پاک اور ہر نقص سے منزہ ہو وہ صرف وحی پر مبنی قانون سکتا ہے۔ ہمارے پاس یہ نعمت موجود ہے مگر ہم اس کی طرف سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ہمارے پاس روشن سورج ہے مگر ہم دوسروں کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ پر رشک بھری نگاہ ڈالتے ہیں ۔ہمارے دستر خوان پر ہر قسم کی نعمت ، دنیا کا ہر لذیذ پکوان اور تمام انواع کے ذائقے موجود ہیں مگر ہم ہیں کہ دوسروں کے دستر خوان پر رکھی ہوئی چوسی ہوئی ہڈیوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس سے بڑی ناقدری اور اس سے زیادہ احسان فراموشی اور اس سے زیادہ اپنی جانوں پر کیا ظلم ہوگا؟
زہر پی رہے ہیں، آگ اگل رہے ہیں، وجود ہمارا بھسم اور زندگی ہماری جہنم بن چکی ہے، مگر ہم اس نسخہ کیمیا، اکسیر نجات اور دوائے شافی سے پرہیز کر رہے ہیں۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
اب وقت آگیا ہے ہم ٹھنڈے دل و دماغ سے اس مسئلے پر غور و فکر کرے، مرض کے علاج سے پہلے اس کی تشخیص اور اسباب و وجوہات کا پتہ چلائے اور پھر حزم و احتیاط سے کوئی قدم اٹھائیں۔
آسان علاج اور سادہ تدبیر اور مفت حل یہ ہوسکتا ہے کہ ہم ذرا اپنے ماضی پر نظر ڈالیں اور اسلاف کی زندگیوں سے رہنمائی حاصل کریں۔ آخر وہ بھی انسان تھے، بھوک سردی اور گرمی انہیں بھی ستاتی تھی۔ خواہشات ان کے دل میں بھی مچلتی تھیں اور اپنے بیوی بچوں کو قابل رشک حالت میں دیکھنا تو انسان کی فطری خواہش ہوتی ہے اس لئے یقیناً وہ یہ خواہش بھی رکھتے تھے مگر اس کے باوجود وہ کس طرح اس سے محفوظ اور ہم کیوں مبتلا ہیں؟
اس سوال کا دو اور دو چار کی طرح جواب یہ ہے کہ ان کی زندگی سادہ اور معاشرت روحانی تھی، وہ کھانے پینے، لباس اور مکان پر بہت کم خرچ کرتے تھے ۔ اس کے ساتھ انہیں اپنی خواہشات پر کنٹرول اور اپنے نفس پر ضبط حاصل تھا، ان کے سامنے ہر آن یہ حقیقت پیش نظر رہتی تھی کہ اصل حیات آخرت کی حیات ہے
وان الدار الآخرۃ لھی الحیوان
وہ دنیا کو خواہشات کی تکمیل اور آرزوؤں کی تسکین کی جگہ نہیں سمجھتے تھے ۔ انہوں نے اپنی بہت سی خواہشات ، اہنی دلی امنگیں اور قلبی چاہتیں آخرت کے دن کیلئے سنبھال رکھی تھیں۔ اس لئے وہ ہر حالت میں راضی برضا رہتے تھے، بہت کم ان کے کافی ہوجاتا تھا ، قناعت کی دولت سے وہ مالامال اور محبت الہی کے جذبے سے سرشار تھے، اس لئے دنیا ان کو دھوکہ نہیں دے سکتی تھی۔ بارہا اس مکار حسینہ نے ان کے سامنے اپنی دراز زلفیں کھولیں، مگر وہ اس کے دام فریب میں نہیں آئے۔
اب حال یہ ہے کہ روحانیت مادیت بدل گئی ہے، دنیا نے آخرت پر ترجیح حاصل کرلی ہے ۔ ایمانی قوت کمزور بلکہ نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ سینے یقین سے خالی ، دل کی دنیا اجڑی ہوئی اور جسم تنعم کے عادی ہیں۔ رہی سہی کسر مغربی تہذیب نے پوری کردی ہے ۔ خدا غارت کرے اس مصنوعی اور خدافراموش تمدن کو کہ جب سے اس تمدن کی باد مسموم یہاں چلی ہے، تب سے قدریں ہی بدل گئی ہیں، ہر شخص عیش اور کیش چاہتا ہے ، ہر دل کی امنگ جلد سے جلد امیرتر بننے کی ہے۔
کوٹھی، بنگلہ اور کار ہر ایک کی ضرورت ہے۔ وسائل اجازت نہیں دیتے اور خواہش کو دبانا نہیں جانتے اس لئے گندگی میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ وبا اس لئے عام ہے کہ تنخواہیں کم ہیں مگر یہ سطحی تشخیص ہے۔ جن کی تنخواہیں زیادہ پھر انہیں اس لعنت سے دور ہونا چاہیے تھا مگر وہ بھی اس گندگی میں لت پت ہیں۔ انسان کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے اور اللہ تعالی پوری فرما دیتے ہیں مگر ہوس کسی کی پوری نہیں ہوتی یہاں تک کہ بادشاہوں کی بھی پوری نہیں ہوتی ہے ۔ بڑے بڑے افسران قومی سودوں میں، خریداریوں میں، اسکیموں، منصوبوں میں پرمٹ اور الاٹ منٹوں میں گھپلے کرتے ہیں حالانکہ دولت کی ان کے پاس کمی نہیں ہوتی ہے۔
اصل وجہ وہی ہے کہ جو بیان ہوئی کہ برائیوں کے انسداد کا اسلامی فلسفہ نہیں آزمایا جارہا ہے۔ اسلام معاشرے کی اصلاح کے لئے صرف قانون کو کافی نہیں سمجھتا ہے بلکہ اس کے ساتھ دلوں میں خوف خدا اور فکر آخرت بھی پیدا کرتا ہے، جو دل اس دولت سے آباد ہو،وہ گنج قارون کو بھی پائے حقارت سے ٹھکرا دیتا ہے۔ ان کے سامان ہفت اقلیم بلکہ ہشت بہشت کی دولت بھی رتی برابر اہمیت نہیں رکھتی ہے ۔جس نے اللہ و رسول کی محبت کے جام پی لئے اس کے سامنے سمر قند و بخارا کی سلطنت بھی ہیچ ہے۔
اس زمانے میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اس گندگی سے دامن بچائے ہوئے ہیں۔ یہ مٹھی بھر لوگ جو تعداد میں بہت کم مگر وزن میں بہت زیادہ ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو خوف خدا اور فکر آخرت رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی جو خاطر اس جہاں میں ہوگی وہ اپنی جگہ ہے ، دنیا میں بھی اصل دولت اور حقیقی نعمت ان ہی کے پاس ہے، اگر بادشاہوں کو معلوم ہوجائے تو فوجیں لے کر ان پر حملہ آور ہوجائیں، وہ دولت دل کا اطمینان اور سکون ہے۔ جو لذت انہیں اطاعت الہی اور عشق نبوی میں ملتی ہے اس کا موازنہ دنیا کی کسی لذت سے نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اگر دل کی آنکھیں کھلی ہوں تو ایسے لوگوں کا مطمئن ضمیر اور تروتازہ چہرے نظر آسکتے ہیں۔