محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضہ
بدقسمتی سے ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں کہ ہر نیا آفتاب ایک نئی آفت لے کرطلوع ہوتا ہے ، اور ہر رات فتنۂ وفساد اور ظلم وعدوان کی نئی تاریکی چھوڑکرجاتی ہے ۔
دن بدن انسانی قدریں پامال ہورہی ہیں ، دینی شعائر مٹ رہے ہیں ، دل و دماغ مسخ ہو رہے ہیں ، جہل وعنادکی اس تاریک فضا میں دینی حقائق کو اجاگر کرنا اور دین کی بالکل واضح ، بدیہی اور موٹی موٹی باتوں کا سمجھنا بھی بے حد مشکل ہوچکا ہے ، جب بدی نیکی کا روپ دھارلے ، جب صحیح منکر کو ’’معروف‘‘ کا نام دیا جائے ، جب سراپا جہل کوعلم سمجھا جانے لگے اور جب بے حیائی اور بے حمیتی کو شرافت و اخلاق کی سند مل جائے تو کون سمجھا سکتا ہے کہ یہ بات جسے تم دین سمجھ رہے ہو بےدینی ہے اور جسے تم شرف و وقار سمجھتے ہو وہ ننگِ انسانیت ہے ۔
یوں تو دنیا میں حق و باطل کو گڈمڈ کرنے کی رسم بہت قدیم زمانے سے چلی آتی ہے اور حقائق اکثر ملتبس رہتے ہیں ، لیکن اب توعقلوں پر ایسا پردہ پڑا ہے کہ کسی صحیح بات کا انکشاف ہی نہیں ہوتا ، بلکہ باطل محض کو حق کے رنگ میں پیش کیا جاتا ہے ، شعائر کفر کو اسلامی شان و شوکت کا ذریعہ بتایا جاتا ہے ، فسق و فواحش کو تقوی خیال کیا جاتا ہے ، آج کتنی چیزیں ایسی ہیں جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور دین اسلام کی تذلیل ہوتی ہے مگربدفہمی کا یہ عالم ہے کہ انہی کو دین اسلام کے احترام کا ذریعہ بتایا جاتا ہے ، جن چیزوں کو کل تک اعدائے اسلام ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض و نفرت کے اظہار کے لئے استعمال کرتے تھے ، آج انہی چیزوں کو اسلام کے نادان دوست اسلام سے عقیدت کا مظاہرہ کرنے کے لئے اپناتے ہیں ، ذہن و قلب کے مسخ ہو جانے کا قبیح منظر اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے ۔
دراصل جب کسی قوم کے اندر سے دین کی حقیقی روح نکل جاتی ہے اور صرف نمائشی ڈراموں پر اس کا مدار رہ جاتا ہے ، تو گھٹیا قسم کے پست اور سطحی مظاہر اس کے فکر و عمل کا محور بن جاتے ہیں لایعنی حرکات کو حقیقی دین سمجھا جاتا ہے ۔ فواحش ومنکرات کو دینی قدروں کا نام دیا جاتا ہے ، سنت کی جگہ من گھڑت بدعات سے تسکین حاصل کی جاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمانوں کا ظاہر و باطن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت سے سرشار ہوتا ، قدم قدم پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہوتی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک طریقے کو اپنانے کا ولولہ ہوتا ، صورت و سیرت ظاہر و باطن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی جھلک نظر آتی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنت کو زندہ کرنے اور ایک ایک حکم کو ہر شعبۂ زندگی میں نافذ کرنے کی تڑپ ہوتی ، لیکن جب قلوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت سے خالی ہوگئے ، ایمان و یقین کے چراغ دلوں سے گل ہوگئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و اعمال کی پیروی کا جذبہ یکسر ختم ہوکر رہ گیا تو محبت رسول کے صحیح تقاضوں کی جگہ سطحی مظاہر کو عین دین و ایمان سمجھ لیا گیا توہین و تذلیل کو اکرام و احترام اور دشمنی و عداوت کو اظہار محبت تصور کرلیا گیا ۔
وَاحَسْرَتَا ! ! !