سود کی حقیقت اور پرائز بانڈ کے جائز اور ناجائز ہونے کی بحث
سوال
محترم مفتی صاحب
ذیل میں پرائز بانڈ کے جائز اور ناجائز ہونے کے بارے میں دونوں طرح کے فتاوی ہیں.آپ کی رائے مطلوب ہے کہ آپ کس کو درست سمجهتے ہیں.
پہلی رائے:
بعض علماء کرام نے پرائز بانڈ کے بارے میں اختلاف کیا ہے لیکن ہمارے نزدیک پرائز بانڈ خریدنا جائز ہے کیونکہ اس میں ناجائز ہونے کا کوئی جواز نہیں پایا جاتا۔ اسی طرح ان پر انعام نکل آئے تو وہ بھی لینا جائز ہے۔ ناجائز ہونے کے دو اسباب ہو سکتے ہیں جو ان میں نہیں پائے جاتے۔ سود جوا پرائز بانڈ میں سود نہیں پایا جاتا کیونکہ " سود قرض پر متعین اضافہ بطور شرط ہوتا ہے۔ جبکہ 200، 500، 1000 روپے والے بانڈ پر لاکھوں روپے کا انعام نکل آنا یہ شرح سود دینا کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ اس کے ناجائز ہونے کا دوسرا سبب جوا ہوتا ہے وہ بھی یہاں نہیں پایا جاتا کیونکہ جوئے میں ساری رقم ڈوب جاتی ہے یا پھر کئی گنا زیادہ آ جاتی ہے۔ یہاں انعام نکلنے یا نہ نکلنے، دونوں صورتوں میں اصل زر محفوظ رہتا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا ناجائز ہونے کے جب دونوں امکان براہ راست موجود نہیں ہیں تو پھر پرائز بانڈز کا لین دین ناجائز ہونیکی وجہ نہ ہوئی لہذا یہ جائز ہے۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔ مفتی: محمد شبیر قادری
حکومت اپنی مختلف پیداواری یا غیر پیداواری ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے عوام سے پیسہ قرض لیتی ہے، بعض سکیموں میں متعین منافع دیتی ہے، انعامی بانڈز وہ تمسکات ہیں جن کے ذریعے حکومت لوگوں سے روپیہ وصول کرتی ہے اور دینے والوں کو ترغیب کی خاطر، اس مال کو تجارتی و صنعتی مقاصد میں لگاتی اور منافع کماتی ہے۔ کھاتے داروں کی دلجوئی اور ترغیب کی خاطر حاصل ہونے والے منافع میں سے انتظامی اخراجات منہا کرکے باقی کی کچھ رقم قرعہ اندازی کے ذریعے کھاتے داروں میں تقسیم کر دیتی ہے۔ کسی کو ملتا ہے کسی کو نہیں ملتا، البتہ اصل زر محفوظ رہتا ہے۔ ہر چند کہ اس صورت میں قباحت ہے کہ بعض کھاتے دار منافع سے محروم اور بعض متمتع ہوتے ہیں، جبکہ سرمایہ سب کا لگا ہوا ہے، تاہم اس خرابی کے باعث چونکہ یہ جوا یا سود نہیں لہذا جائز ہے۔ اگر حکومت چاہے تو حاصل شدہ رقم کو مضاربہ کے طور پر استعمال کر سکتی ہے۔ جس سے حاصل شدہ منافع اخراجات کو منہا کرنے کے بعد تمام کھاتے داروں میں متناسب شرح سے تقسیم کر دیا جائے اور ہر حصہ دار کو اس کا جائز حصہ پہنچ جائے۔ اپنے ہاتھ کی کمائی واقعی بہترین روزی ہے لیکن کچھ دوسری صورتوں سے حاصل شدہ روزی بھی بہترین ہے۔ مثلاً وراثت سے شرعی حصہ، ھبہ شدہ مال، مالِ غنیمت وغیرہ بھی بہترین رزق ہیں۔ واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔ مفتی: عبدالقیوم ہزاروی
دوسری رائے:
سوال :-
کیا فرماتے ھیں مفتیان دین متین اس مسئله کے بارے میں
پرائزبانڈ میں جوانعامی رقم ملتی ھے .شریعت کی روشنی میں اس کا کیا حکم ھے؟
المستفتي: محمدنبي نيازي
بلديه پلازه کوئٹه 1437/4/5سوموار
=====================
الجواب حامداومصلیا:-
پرائزبانڈ میں ملنےوالی رقم انعام میں نھیں ملتی .بلکه حقیقت میں وه انعامی رقم قرض کے بدله میں سود ملتاھے کیونکه بسا اوقات حکومت کو عوام سے قرض لینے کی ضرورت پڑتی ھے اس لۓ وه مختلف اوقات میں مختلف طریقوں سے عوام سے قرض وصول کرتی ھے _
اور اس مقصد کے حصول کے لۓ ایک طریقه کار یه ھے که حکومت مختلف قسم کے بانڈز جاری کرتی ھے
پھر بانڈز کے جتنے خریدار ھوتے ھیں ھر ھولڈرز کو سود دینے کے بجاۓ وه سودی رقم کو جمع کرکے قرعه اندازی کرنے پر ایک ھی ھولڈر کو وه رقم دے دی جاتی ھے
عصرحاضر کے تمام علماء کرام نے اس کو قرض کا معامله قرار دیا ھے لھذا اس پر ملنے والی رقم سود اور حرام ھے_
ويُوجَد في عصرنا نوع اٰخر من الجوائز. وهو ما يعطي لحاملي السندات الحكومية(prize bonds) علي أساس القُرعة.
والحكم الشرعي لهذه الجوائز موقوف علي معرفة حقيقة هذه السندات.
وحقيقتها: أن الحكومة ربما تحتاج إلي استقراض من عامة الشعب لمواجهة عجزميزانيتها. فتعطي كل مقرض سندًا يمثل مديونية الحكومة تجاه حامله. وإن هذه السندات تكون ربوية في العادة . بحيث إن الحكومة تضمن لصاحبها أن تعيدإليه مبلغ القرض مع الفائدة الربويّة.
(بحوث في قضايا فقهية معاصرة٢/ ١٥٩-١٦٠ الجوائز علي السندات الحكومية)
========================
كذا في فقه البيوع ١/ ٣٥٣-٣٥٤ الشرط الخامس . السندات(Bonds))
========================
كذافي الفقه الإسلامي وأدلته٧/ ٥١٨٨ القرارات......في دورة مؤتمر السادس . بشأن السندات
========================
١٥٥-السندات ذات الجوائز(Prize Bond)
وقد تُصدر سنداتٌ للقرض .................
وقدزعم بعض المعاصرين جواز مثل هذه الجوائز علي أساس أن الحكومة لاتشترط إعطاء زيادة لأحدالمقرضين حاملي السند.
غالعقد مع كل واحدمن حملة الند عقد قرض بدون فائدة ثم إنها تعطي الجوائز تبرعا علي أساس القرعة .فلا يلزم منه الربوا
هذالإستدلال غير صحيح:
أما أولا: فلأن الحكومة تلتزم بتوزيع الجوائز علي حملة السند.
فالزيادة علي مبلغ القرض وان لم تكن مشروطةً لكل واحد من المقرضين.
فإنها مشروطة تجاه مجموعة المقرضين. لأن الحكومة تلتزم علنًا عند اصدار السندات أنها توزّع هذه الجوائز. وإن التوزيع مفروض عليها بحكم القانون . بحيث إن امتنعت من توزيعها . استحقًّ كل حامل للسند أن يطالبها بتوزيع الجوائز قانونًا.
وقدشرحت هذه المسألة في رسالتي"أحكام الجوائز"
(فقه البيوع علي المذاهب الأربعة ١/ ٣٥٥- ٣٥٦ المبحث الثالث.Prize bond)
=========================
والله تعالي أعلم بالصواب
كتبه: محمدعارف عرفان
خريج: جامعة دارالعلوم كراتشي
المتخصص بجامعة العلوم الاسلامية الهاشمية كوئته
٨ ربيع الثاني ١٤٣٧ هجري
========================
الجواب صحيح
شيخ الحديث ورئيس دارالإفتاء
الأستاذ الألمعي والشيخ الهبرزي
القاضي المفتي نجيب الله المنيب صاحب المحترم حفظه الله تعالي
١٤٣٧/٤/٩
========================
دونوں قسم کی آراء ملاحظہ فرمانے کے بعد امید ہے کہ اپنی رائے سے آگاہ فرمائیں گے.المستفتی انس عالم
الجواب باسمہ تعالی
جواب
الجواب باسمہ تعالی
بندے کی رائے میں پرائز بانڈ کے ناجائز ہونے کا موقف درست ہے اور یہی ہمارے اکابر اہل افتاء کی رائے ہے.
دوسرا فتوی کافی مفصل ہے اور اس میں تمام شبہات کے تسلی بخش جوابات دیے گئے ہیں اس لئے مزید تفصیل کی حاجت معلوم نہیں ہوتی البتہ چونکہ دوسرا فتوی براہ راست پہلے فتوی کے جواب میں نہیں ہے اس لیے پہلے فتوی میں اٹهائے گئے ایک شبہ کا جواب ضروری ہے وہ شبہ یہ ہے کہ سود متعین مقدار میں مشروط اضافے کو کہتے ہیں جب کہ بانڈز میں اضافہ متعین نہیں ہوتا مزید یہ کہ سستے بانڈز پر لاکهوں کا انعام نکلتا ہے جب کہ اس شرح سے کوئی بهی سود نہیں دیتا.
یہ شبہ کوئی زیادہ مضبوط معلوم نہیں ہوتا کیونکہ نہ تو سود کا متعین مقدار میں ہونا ضروری ہے اور نہ ہی یہ کوئی شرط ہے کہ سود بہت زیادہ نہ ہو.
اج کل بینک متعین مقدار میں سود دیتے ہیں لیکن اگر وہ ایسا نہ کریں اور صرف یوں کہیں کہ ہم کچه زیادہ دیں گے تب بهی سود ہوگا.اسی طرح یہ بهی ضروری نہیں کہ سود اصل زر کے تناسب سے ہو اور بہت زیادہ نہ ہو.فرض کیجیے کہ اگر بینک ایک ہزار پر پچاس ہزار زیادہ دے تو کیا صرف اس وجہ سے اسے جائز کہہ دیا جائے گا کہ اضافہ بہت زیادہ ہے?
جواب کو ختم کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سود کی حقیقت بیان کردی جائے.اس سے یہ معلوم ہوجائے گا کہ پرائز بانڈ پر ملنے والا نفع سود ہے.
سود کی پہلی شرط یہ ہے کہ عقد معاوضہ ہو.بدائع میں ہے کہ جریان الربا مختص بالمعاو ضات.معاوضات کا مطلب یہ ہے تبرعات میں سود نہیں ہوتا.یہی وجہ ہے کہ اگر کسی کو سو روپے ہبہ کئے اور اس نے بدلے میں دوسو ہبہ کردیے تو سود نہیں.
دوسری شرط یہ ہے کہ ایک جانب سے اضافہ ہو.سو روپے کے بدلے سو روپے لینا جائز ہے کیونکہ کہ کسی جانب اضافہ نہیں.
تیسری شرط یہ ہے کہ اضافہ مخصوص اشیاء میں ہو جن کو اموال ربویہ کہتے ہیں.ایک گهر کے بدلے دو گهر لینا جائز ہے کیونکہ گهر سودی اشیاء میں سے نہیں ہے.
چوتهی شرط یہ ہے کہ اضافہ مشروط ہو.اگر اضافہ مشروط نہ ہو تو سود بهی نہیں.یہی وجہ ہے کہ اگر قرض میں اضافہ مشروط نہ ہو تو مقروض زیادہ واپس کرسکتا ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو ان کے دیے قرض سے بڑهاکر واپس کیا وہ خود فرماتے ہیں کہ فاعطانی وزادنی .ایسا اس لئے جائز تها کہ قرضہ لیےوقت اضافہ مشروط نہیں تها.
اس چوتهی شرط پر غور فرمائیں کہ شرط یہ ہے کہ اضافہ مشروط ہو یہ شرط نہیں کہ اضافہ متعین ہوا.بانڈز میں چونکہ اضافہ مشروط ہوتا ہے اس لیے وہ سود ہے.واللہ اعلم