اسلام میں مرد اور عورت کے حقوق برابر ہیں تو عورت طللاق کیوں نہیں دے سکتی؟
سوال
اسلام میں مرد اور عورت کے حقوق برابر ہیں تو عورت طللاق کیوں نہیں دے سکتی؟
جواب
آپ کے سوال کے جواب میں کچه باتیں کہنی ہیں.
پہلی یہ کہ قرآن کریم کے مطابق نکاح کی گرہ مرد کے ہاته میں ہے.جب گرہ اس کے ہاته میں ہے تو وہی اسے کهول سکتا ہے.
دوسری بات یہ کہ حقوق ہر شخص کو اس کی فطرت اور مزاجی ساخت کے مطابق ملے ہیں اور عورت کی فطرت اور جذبات ایسے ہیں کہ اگر طلاق کا حق اسے دیا جاتا تو کوئی نکاح پائیدار نہ رہتا بلکہ کچے دهاگے کی مانند قائم ہوتے ہی ٹوٹ جاتا.اگر نکاح کا رشتہ دائمی اور پائیدار نہ رہے تو نسل انسانی باقی نہیں رہ سکتی اور نسل انسانی باقی نہ رہے تو دنیا قائم نہیں رہ سکتی.اب کہیں گے کہ نکاح کے بغیر بهی تو اولاد ہوسکتی ہے مگر وہ ایک تو شائستہ اور مہذب طریقہ نہیں دوسرے یہ کہ خالق کائنات کو پسند نہیں یہی وجہ ہے کہ جب دنیا میں اسی قماش کے لوگ رہ جائیں گے تو حق تعالی اس دنیا کی بساط ہی لپیٹ دیں گے. نتیجہ یہی نکلا کہ نکاح کے بغیر دنیا قائم نہیں رہ سکتی.
تیسری بات یہ ہے کہ کوئی حق خالی حق نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساته درست استعمال کی ذمہ داری بهی ہوتی ہے .اب حق سبحانہ وتعالی نے چونکہ انسان کو پیدا کیا ہے اس لئے وہی بہتر جانتا ہے کہ کون اس حق کو درست استعمال کرسکتا ہے.درست استعمال کی صلاحیت مرد میں ہے کیونکہ اس کے مزاج میں صبر تحمل دور بینی اور عاقبت اندیشی یے جب عورت اس کے مقابلے میں جلدباز بے صبری اور کوتاہ بین ہے اس لئے یہ عین قرین انصاف ہے کہ ذمہ داری اسے سونپی جائے جو اسے اٹهانے کی صلاحیت اور اہلیت بهی رکهتاہو.طلاق کے معاملے میں عورت کا حال یہ ہے کہ بارہ بچوں کی ماں اور ساٹه سال کی عمر کو پہنچ کر بهی وہ رات کے تین بجے طلاق مانگتی ہے.اگرشوہر کہے کہ دیکه چپ ہوجا ورنہ میں طلاق دے دوں گا تو وہ کہتی ہے کہ طلاق ہوتی ہے دینے کے لئے ہے.اگر شوہر طلاق دے دے تو وہ کہتی ہے کہ جب ایک دے چکے ہوں تو بقیہ دو بهی دے دو.
چوتهی بات یہ ہے کہ حقوق میں مساوات کا کیا مطلب ہے ?اگر مطلب یہ ہے کہ جو حق مرد کو ملا ہے وہ عورت کو بهی ملا ہے تو یہ بالکل خلاف حقیقت اور بدیہی البطلان ہے کتنے حقوق ایسے ہیں جو مرد کو ملے ہیں اور عورت کو نہیں اور بہت حقوق ایسے ہیں جو صرف عورت کو ملے ہیں.مثال کے طور پر نفقہ اور مہر کا حق صرف عورت کو ملا یے اور نگرانی اور نگہبانی کا حق صرف مرد کو ملا ہے.معلوم ہوا کہ حقوق میں برابری کا مطلب وہ نہیں جو سمجها جاتا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ دونوں کے حقوق کے نفاذ میں برابر ہیں یعنی قانون کا نفاذ دونوں پر یکساں ہوگا اور عورت کی عورت ہونے کی وجہ سے کوئی حق تلفی نہیں کی جائے گی اور مرد کو مرد ہونے کی وجہ سے کوئی رعایت نہیں ملے گی.
پانچویں بات یہ ہے کہ طلاق کے معاملے میں عورت کو بے بس بهی نہیں بلکہ اسے بهی خلع کی صورت میں جدائی کا اختیار ہے.اس کے علاوہ بیس تیس صورتیں ایسی ہیں جس میں عورت جدائی اختیار کرسکتی ہے.کیا آپ اسے شوہر کی حق تلفی کہیں گے?ہرگز نہیں.اگر یہ بے انصافی نہیں تو پهر مرد کو طلاق کاحق ملنے سے کون سی بے انصافی لازم آرہی ہے.