بالغ کنواری لڑکی کی خاموشی کب اجازت ہے۔



سوال

کنواری لڑکی سے اگر اجازت مانگی جائے اور وہ خاموش رہے تو اسے اجازت سمجھا جاتا ہے،اس بارے میں متعلقہ فقہی شرطوں کی رعایت کے ساتھ تفصیل مطلوب ہے۔


جواب

عاقلہ بالغہ کا سکوت کب  اجازت ہے :

(1)           عاقلہ بالغہ کا نکاح اس کی اجازت سے درست ہے پس اگر وہ کنواری ہو  اور :

ولی اقرب نے

 یا اس کے وکیل نے

یا اس کے  رسول  نے

 لڑکی سے نکاح کے لیے اجازت مانگی اور لڑکی

 اپنے اختیار سے خاموش رہی

 یا  مسکرادی

 یا  بغیر استہزاء کے ہنس دی

 یا بغیر آواز کے روئی

 تو نکاح کی اجازت سمجھی جائے گی،مگر شرط ہوگا کہ :

الف ؛ ۔ لڑکی شوہر کو جانتی ہو

ب ؛ ۔    لڑکی کے سامنے مہر کا تذکرہ کردیا گیا ہو

( 2)     اگر  ولی اقرب نے

یا اس کے وکیل نے

یا اس کے رسول نے

یا ایک ثقہ پرہیزگار نے

یا دو مستورالحال اشخاص نے

باکرہ کو  اس کا نکاح ہونے کی خبر دی  اور لڑکی شوہر کو جانتی پہچانتی ہو اور وہ  خبر سن کر خاموش رہی تو نکاح کی اجازت سمجھی جائے گی،لیکن اگر نکاح اجنبی نے کیا ہو  تو شرط ہوگا کہ :

الف : ۔ مہر میں کمی فاحش نہ ہو

ب :۔ شوہر اس کا کفو ہو

 (3 )     اگر لڑکی کو  نکاح کا علم ہی نہ ہو

یا علم ہو مگر اس سے نکاح کی اجازت ہی طلب  نہ گئی ہو

یا اس کو اجنبی فاسق نے نکاح کی خبر دی ہو

یا ایک مستورالحال شخص نے یا خبر دی ہو

یا ولی

یا اس کے وکیل

یا رسول نے خبر دی ہو

 مگر وہ شوہر کا جانتی پہچانتی نہ ہو  یا جانتی پہچانتی ہو مگر نکاح اب وجد کے علاوہ کسی اور نے کیا ہو اور  غیر کفو میں کیا ہو یا مہر مثل سے بہت کم پر کیا ہو تو لڑکی کا سکوت اجازت نہ کہلا ئےگا بلکہ اسے نکاح کے منظور کرنے اور مسترد کرنے کا حق ہوگا،پس اگر :

لڑکی نے زبان سے نکاح  مسترد کردیا مثلا مجھے منظور نہیں ،قبول نہیں،میں نکاح نہیں چاہتی یا اس جیساکوئی اور کلمہ  جس سے نکاح  کی عدم منظوری ظاہر ہوتی ہو

یا لڑکی نے فعل سے نکاح کو فسخ کردیا مثلا ہاتھ سے اشارہ کرکے کہا مجھے منظور نہیں یا میں راضی نہیں  یا کوئی اور ایسا فعل جس سے نکاح سے نفرت اور ناراضگی کا اظہار ہوتا ہو تو نکاح باطل ہوجا ئے گا ۔

اگر زبان سے اجازت دی مثلا  اچھا کیا ،یا مجھے منظور ہے یا قبول ہے یا  اللہ تعالی مبارک کرے یا برکت دے  یا اس جیسا کوئی اور لفظ کہا

یا ا پنے فعل سے اجازت دے دی  مثلا  جبر واکراہ بخوشی ورضا شوہر کے ہاں رخصت ہو کر چلی  گئی یا  خلوت میں اسے اپنے اوپر قدرت دی یا  خلوت کے افعال شوہر کو کرنے کا موقع دیا یا  اس سے مہر یا نان ونفقہ طلب کیا  یا کوئی اور رضامندی پردلالت کرنے والا اس سے سرزد ہواتو نکاح کی اجازت سمجھی جائے گی۔

توضیح : باکرہ کا سکوت اذن جب ہے کہ ولی  ایک ہی  ہو ،اگر دومساوی درجے کے اولیاء نے اذن لیا یا بیک وقت نکاح کردیا تو اس کے احکام آگے مستقل دفعہ میں مذکورہوں گے۔

توضیح :سکوت کے اذن ہونے کے لیے یہ بھی ضرور ہے کہ نکاح قائم ہو اور بوجہ موت باطل نہ ہوا ہوکیونکہ اجازت کے قیام عقد شرط ہے۔

توضیح :سکوت اذن ہے ،اگر چہ  لڑکی اس کا اذن ہونا نہ جانتی ہو۔

تشریح

عاقلہ بالغہ سے نکاح کی اجازت لینا سنت ہے مثلا یو ں کہا جائے کہ فلاں تمہارا رشتہ چاہتا ہے تمہار ا کیا خیال ہے،اگر بغیر اذن نکاح کرلیا  تو سنت کے خلاف ہے اور نکاح موقوف رہے گا۔لیکن اگر  لڑکی باکرہ ہو تو اپنی  رضا کے اظہار میں اسے حیا مانع آتی ہے اس لیے ولی کے لیے درست لائحہ عمل یہ ہے کہ ثقہ اور پرہیزگار عورتوں کو طلب اذن کے لیے بھیج دے ،ماں اس مقصد کے لیے بہتر ہے کہ بچیاں ماؤں سے آزادانہ اپنی مرضی کا اظہار کرسکتی ہیں اور آج کل کے عرف میں لڑکی کی سہیلیوں کو بھیجنا سب سے انسب  واقرب ہے۔اگر ولی  اقرب نے خود اذن مانگا  یا اس کے وکیل یا رسول نے مانگا  اور لڑکی سن کرکسی اور کام یا کلام میں مشغول ہوگئی  اور نکاح  کو مستردنہ کیا تو یہ بھی اذن سمجھا جائے گا،کیونکہ سکوت سے مراد مطلق سکوت نہیں بلکہ  بلکہ رد سے سکوت مراد ہے اور اجنبی کام یا کلام میں مشغولیت  رد سے سکوت ہے، لیکن اگر چھپ رہی اور چھپ رہنا اس وجہ سے ہو کہ اسے بولنے کا موقع ہی نہ دیا گیا ہو مثلا اس کا منہ بند کردیا گیا ہو یا اس کی خاموشی کھانسی یا چھینک کے سبب ہو یا  ولی نے دھمکی دی کہ اگر تو نے انکار کیا تو تجھے قتل کردوں گا تو اس طرح کا سکوت نکاح کی اجازت نہ کہلا ئے گا،اسی طرح اگر وہ ہنسی  مگر ہنسنا  استہزاء کے طور پر ہو  یا روئی اور رونا آواز سے ہو  تو یہ اجازت نہیں،کیونکہ ہنسنا اس وجہ سے اجازت ہے کہ رضا پر دلالت ہے مگر جب رضا پر دلالت نہیں  تو  سکوت اجازت بھی نہیں ۔رونے کے بارے میں مذہب حنفیہ میں تین اقوال  ہیں :

معراج میں ہے کہ نہ اذن ہے اور نہ رد

وقایہ  میں ہے کہ رد ہے ۔

ذخیرہ میں ہے کہ رضا ہے۔

اصل اختلاف  بکاء میں ہے  اور اس بارے میں دونوں ہی روایات ہیں ۔یہ قول  کے رونا اگر آواز سے ہو  تو اذ ن نہیں  اور بلاآواز ہو تو ا
ذن  ہے،دونوں اقوال میں تطبیق  کی خاطر اختیار کیا ہے۔ سوال کہ کون سا ہنسنا یا رونا اذن ہے اور کون سا نہیں ؟حاضرین مجلس پر بخوبی ظاہر ہوتا ہے اور قرائن وعلامات سے اسے بخوبی اخذ کیا جاسکتا ہے۔اگر یہ فیصلہ نہ ہوسکے کہ رونا یا ہنسنا رضا کی علامت یا نفرت کا اظہار ہے تو احتیاط افضل  ہے۔

اس سے یہ بھی معلوم ہو ا کہ ہمارے دیا ر میں جو عین مجلس نکاح میں یا تمام تر تیاریوں کے بعد لڑکی سے اذن لیا جاتا ہے اس سے اذن کا منشا پورا نہیں ہوتا اور سنت کی روح فوت ہوجاتی ہے کیونکہ ایسے موقع پر انکار کا مطلب  والدین اور خاندان کی جگ ہنسائی  اور سخت ذلت  ورسوائی کا موجب ہوتا ہے،اس لیے شاید وباید کوئی لڑکی اس طرح کے انکار کی جراءت کرسکتی ہے۔

اگر نکاح غیر کفو سے کردیا گیا اور لڑکی کو خبر پہنچی اور چھپ رہی تو صاحبین کے نزدیک سکوت رضا نہیں کہلا ئے گا اور امام اعظم جے نزدیک اگر نکاح باپ یا دادا نے کیا ہو تو سکوت رضا ہے ورنہ نہیں۔باپ دادا کے علاوہ سے مراد ہر ایسا شخص ہے جس کو ولایت نہ ہو چنانچہ اگر باپ ہو مگر کافر ہو یا مکاتب ہو  تو اجنبی ہے لیکن  اگر ولی کا وکیل یا رسول ہو تو وہ اجنبی نہین بلکہ ولی کے قائم مقام ہیں۔

اگر اجازت ولی بعید نے طلب کی  مثلا باپ کے ہوتے ہو ئے سگے بھائی نے اجازت مانگی یا باپ غیبت منقطعہ کے ساتھ غائب نہ ہو تو سکوت کافی نہ ہوگا  البتہ امام کرخی کے نزدیک کافی ہوگا۔

ولی اگر طلب اذن کے بھیجے تو اس کے الفاظ یوں ہے کہ میں نے تمہیں  وکیل کیا تا کہ تم فلاں لڑکی سے اس  معاملہ کے متعلق میرے  لیے اجازت لے کر آؤ۔رسول کو یوں بھیجا جائے کہ  فلاں لڑکی سے پاس جاؤ اور  اس سے کہہ  دو کہ تمہارا بھائی فلاں اس معاملہ  میں تم سے اجازت طلب کررہا ہے ۔

اگر ولی اقرب نےعاقلہ وبالغہ کے موجودگی میں اس کا نکاح کردیا تو اس کے احکام علیحدہ ہیں جن کا بیان آگے آئےگا۔

اذن لینے میں مہر کا ذکر شرط ہے یا نہیں ؟اس بارے میں تین اقوال  ہیں :

مہر کا ذکر شرط نہیں ،صاحب ہدایہ نے اسے صحیح کہا ہے کیونکہ نکاح بدون مہر بھی درست ہوتا ہے ۔

مہر کا ذکر شرط ہے کیونکہ مہر کے کم وزیادہ سے رغبت کم یا زیادہ ہوتی ہے ۔فتح القدیر میں اسے اوجہ کہا گیا ہے ۔

اگر نکاح باپ یا دادا نے کیا ہے مہر کا ذکر شرط نہیں  اور اگر ان کے علاوہ کسی نے کیا ہے تو شرط ہے۔ان اقوال میں قول ثانی  راجح ہے،یوں بھی اختلاف سے بچنا احوط ہے۔

ان تشریحی سطور کے اختتام پر یہ وضاحت قرین مصلحت ہے کہ باکرہ اور ثیبہ کے احکام میں صرف سکوت کے اذن ہونے یا ہونے میں اختلاف ہے۔بالغہ باکرہ کا سکوت ولی اقرب یا اس کے مجاز نمائندوں کے سامنے اجازت ہے اور بالغہ ثیبہ کا سکوت اجازت نہیں۔