زبردستی کا نکاح منعقد ہوتا ہے یا نہیں ؟



سوال

بعض اوقات والدین اولاد کی خواہش کے برعکس ان کا نکاح کرتے ہیں ۔کبھی تو جذباتی طور اولاد کو قائل کرتے ہیں مثلا خاندان میں  بے عزتی ہوجائے گی یا تمہارے والد بیمار اور دل کے مریض ہیں یا پھر سنگین نتائج کی دھمکی دی جاتی ہے،بعض دفعہ اولاد دکو زد وکوب کیا جاتا ہے اور اولاد مجبور ہوکر دل سے نہ چاہتے ہوئے بھی نکاح کرلیتی ہے تو کیا ایسا نکاح ہوجاتا ہے ؟


جواب

 جو والدین اولاد کی پسند اور ناپسند کا لحاظ کیے بغیر زبردستی ان کا نکاح کردیتے ہیں وہ بہت برا کرتے ہیں  اور ایسے نکاح عموما کامیاب نہیں ہوتے لیکن دوسری طرف والدین کی شفقت  اور محبت سے توقع یہی ہوتی ہے کہ انہوں نے اولاد کے مفادات اور مصلحت کا ضرور لحاظ رکھا ہوگا۔فقہی لحاظ سے بالغ لڑکے اور لڑکی نے اگر نکاح کے وقت اپنی رضامندی کا اظہار کردیا تو نکاح منعقد اور لازم ہوجائےگا ،اگر چہ جبر اور زور زبردستی کے ذریعے ان کی رضامندی حاصل کی گئی ہو۔ذیل میں اس کی کچھ تفصیل ذکر کی جاتی ہے:

بلوغت کے حصول کے بعد لڑکے اور لڑکی پر اولیاء کی ولایت انتہاپذیر ہوجاتی ہے اور انہیں اپنے نفس پر تصرف اور رشتہ کے انتخاب کا حق ہوتا ہے،اس لیے اولیاء کو جبراور زور دھمکی کے ذریعے بالغ لڑکے یا لڑکے کو کسی خاص رشتے پر مجبور یا اصرار کرنا درست نہیں ،دوسری طرف لڑکے اور لڑکیوں کو بھی چاہیے کو وہ خود سے کوئی رشتہ منتخب کرنے کے بجائے اولیاء کے انتخاب کردہ  رستے کو ترجیح دیں کیونکہ ان کی محبت وشفقت اور تجربہ ومشاہدہ سے امید یہی ہے کہ انہوں نے اولاد کے مفادات کا پورا لحاظ اوررعایت رکھی ہوگی۔اس کے باوجود اگر لڑکا اور لڑکی کسی رشتہ پردل سے رضامندنہ ہوں مگر والدین کی ناراضگی یا دھمکی یا جبر سے مجبور ہوکر انہوں نے نکاح کے  وقت ہاں کہہ دی تو نکاح منعقد ہوجائے گا ،کیونکہ نکاح کے انعقاد کا تعلق نکاح کے وقت  کے اظہار سے ہے۔اس سلسلے میں بنیاد یہ حدیث ہے کہ ثلاث جدھن جد وہزلھن جد۔امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن غریب کہا ہے اور تمام اہل علم کا اس موافق عمل ذکر کیا ہے۔ اس حدیث کے مطابق مذاق کے طور پر کیے جانے والے ایجاب وقبول کے الفاظ بھی صحت نکاح کے لیے کافی ہیں تو اکراہ واجبار کی صورت میں بطریق اولی کافی ہوں گے کیونکہ مذاق کی صورت میں جانبین کا سرے سے رشتہ کاکوئی ارادہ ہی  نہیں ہوتا ہے اور گفتگو محض مذاق اور دل لگی اور تفریح طبع کے طور پر ہوتی ہے جب کہ اکراہ کی صورت میں  ایک فریق تو پورے طور پر کامل اور سنجیدہ ہوتا ہی ہے ،دوسرا فریق بھی اپنے نفع ونقصان کو سوچ کر ہی فیصلہ کرتا ہے اور بادل نخواستہ  ہی سہی بڑے مضرت کے بنسبت کم تر مضرت پرراضی  ہوجاتا ہے۔

حقیقۃ الرضا غیر مشروطۃ فی النکاح لصحتہ مع الاکراہ والہزل۔شامی ،کتاب النکاح:4/86

لان النکاح تصرف قولی فلا یوثر فیہ الاکراہ کالطلاق والعتاق۔بدائع ،کتاب الاکراہ:6/198

واماما ذکر من ان نکاح المکرہ صحیح ان کان ھو الرجل وان کان ھو المراۃ فھو فاسد فلم ار من ذکرہ وان اوھم کلام القھستانی  السابق،ذلک بل عبارتھم مطلقۃ فی ان نکاح المکرہ صحیح کطلاقہ وعتقہ مما یصح مع الہزل ولفظ المکرہ شامل للرجل والمراۃ،فمن ادعی التخصیص فعلیہ اثباتہ بالنقل الصریح۔شامی،کتاب النکاح: 4/84