باپ معروف بسوء الاختیار ہو کا مطلب



سوال

میں نے سنا ہے کہ باپ معروف بسوئے الاختیار ہو اور وہ اپنے کسی نابالغ لڑکے یا لڑکی کا نکاح کردے تو لڑکا یا لڑکی بالغ ہونے کے بعد  اس نکاح کو ختم کرسکتے ہیں۔ہمارے خاندان میں ایک ایسا ہی مسئلہ ہوا،ایک شخص نے ایک مالدار اور عیاش انسان کے ساتھ اپنی بیٹی کا نکاح کردیا ۔اب جب بچی کا عمر پختہ ہوگئی تو اس نکاح سے انکاری ہے اور اس نے برملا کہہ دیا ہے کہ میں اس نکاح سے راضی نہیں،کیا شرعی لحاظ سے اس کا نکاح ختم نہیں ہوگیا ہے؟


جواب

معروف بسوء الاختیار کا مطلب سمجھنا چاہیے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ باپ نے کسی نامناسب جگہ نابالغ کا نکاح کیا تو وہ معروف بسوء الاختیار ہوگیا۔اس کامطلب یہ ہے کہ باپ اس قسم کے فیصلے کرنے میں مشہور معروف ہو مثلا ایک مرتبہ کسی بچی کا انتہائی نامناسب رشتہ کیا اور اس کے بعد دوبارہ کسی اور بچی کا نامناسب رشتہ کیا تو اب معروف بسوء الاختیار  ہوگیا۔لہذا معروف بسوء الاختیار وہ کہلائے گا جو اس سے پہلے بھی غیر مناسب رشتہ کرکے مشہور ہوچکاہو۔دوسری بات یہ ہے کہ باپ معروف بسوء الاختیار اس وقت ہوتا ہے جب وہ لڑکی کا مہر مثل سے بہت کم پر کردے مثلا خاندان کا مہر پچیس ہزار ہواور باپ دس ہزار مقررکردے یا پھر لڑکی کا رشتہ بہت ہی بے جوڑ شخص سے کردے۔اگر ان دوباتوں میں سے کوئی بات ہوتی ہے تو باپ معروف بسوء الاختیار ہوتا ہے۔تیسری بات یہ ہے کہ باپ اگر اپنی لڑکی کا نکاح بے جوڑ خاندان میں بھی کردے یا مہر مثل سے بہت کم پر نکاح کردے مگر نکاح کرتے وقت وہ نشے میں نہ ہو اور نکاح سے پہلے درج بالا تفصیل کے مطابق وہ معروف بسوء الاختیار بھی نہ ہو تو اس کا کیا ہوا نکاح لازم اور نافذ ہوتا ہے خواہ لڑکی کو پسند ہو یا نہ ہو۔چوتھی بات یہ ہےکہ جس صورت میں نابالغ کو بلوغ کے بعد نکاح ختم کرنے کا اختیار ہوتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر نابالغ کو پہلےسے نکاح کا علم ہو تو بالغ ہوتے ہی اور اگر پہلے سے علم نہ ہو تو جس وقت علم ہوجائے اسی وقت وہ یہ کہہ دے کہ میں اس نکاح سے راضی نہیں ہوں اور میں اس کو مسترد کرتا ہو ،اگر بلوغت کے بعد اس نے ذرا بھی تاخیر کی اور بالغ ہوتے ہی وہ کسی دوسرے کام یا کلام میں مشغول ہوگیا تو اس کاحق ختم ہوجاتا ہےا ور پھر وہ نکاح کو ختم نہیں کرسکتا ہے۔آخری بات یہ ہے کہ صرف یہ کہنے سے نکاح ختم نہیں ہوتا کہ مجھے یہ رشتہ پسند نہیں بلکہ عدالت کے ذریعے اس نکاح کو منسوخ کرانا ضروری ہوتا ہے۔

اس تفصیل کی رو سے اگر مذکورہ لڑکی کا باپ اوپر بیان کردہ تفصیل کے مطابق معروف بسوء الاختیار نہیں تھا تو لڑکی کو نکاح ختم کرنے کاحق نہیں ۔اگر باپ معروف بسوء الاختیار بھی ہو مگر اس نے نکاح مہر مثل پر اور کفو میں کیا تھا تو پھر لڑکی اس نکاح کو ختم نہیں کرسکتی ۔اور اگر لڑکی کو نکاح ختم کرنے کااختیار ہوبھی لیکن اس نے بلوغت کے بعد تاخیر کردی ہو یا پہلے رضامندی دے دی ہو مثلا بلوغت کے بعد شوہر کو تعلق قائم کرنے دے دیا ہو یا اس کو شوہر کہہ کر پکارا ہو یا مہر وصول کرلیاہو تو تب بھی اسے مذکورہ نکاح ختم کرنے کا حق نہیں ۔