عدالت کب نابالغ کا نکاح کرسکتی ہے؟



سوال

عدالت کب نابالغ کا نکاح کرسکتی ہے مثلا ایک بچہ ہے اور اس کا کوئی وارث نہیں ہے اور اب اس کی عمر دس سال ہوچکی ہے تو کیا عدالت اس کا نکاح کرسکتی ہے؟


جواب

نابالغ کے نکاح کا حق اس کے نسبی ولی کو ہے۔نبسی ولی سے مراد وہ مرد رشتہ دار ہے جس سے رشتے میں عورت کا واسطہ نہ آتا ہو اور اس کو وراثت بھی ملتی ہو،فقہی زبان میں اس کو عصبہ بنفسہ کہتے ہیں۔اگر عصبہ نہ ہو تو نکاح کرانے کا حق ماں اور ماں کی طرف سے رشتہ داروں کو ہے۔اگر یہ بھی نہ ہوں تو پھر عدالت کو ہے اور اگر کسی جگہ عدالت نہ ہو یا عدالت ہو مگر غیر مسلم جج ہوں تو پھر نابالغ کا نکاح کرنے کا حق علاقے کے علماء کو ہے اور اگر علماء زیادہ ہوں تو جو سب سے بڑا عالم ہو اس کو  ہے اور اگر کسی جگہ کوئی عالم بھی نہ ہو تو مسلمانوں کی پنچایت کو ہے۔لہذا عدالت اس وقت نابالغ کا نکاح کرسکتی ہے جب اس کا قریبی شرعی ولی موجود نہ ہو۔یہ تو شریعت کے لحاظ سے جواب ہے۔رہا ہمارا قانون تو دس سالہ بچہ قانون کی نظر میں نہ خود نکاح کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی اس کانکاح کرسکتا ہے۔قانون نکاح نابالغان کے تحت دس سالہ بچہ کا نکاح ممنوع ہے۔اب جوچیز خود قانون میں منع ہو تو عدالت اس کی خلاف ورزی کیسے کرسکتی ہے۔