ماں کا حق رضاعت اور اسلام



سوال

اسلام کی نگاہ میں ماں کا حق رضاعت کیا اہمیت رکھتا ہے ،امید ہے کہ تفصیلی طور پر مسئلہ واضح کریں گے؟


جواب

رضاعت کا اولین حق ماں کو ہے،خواہ وہ:

بچے کے باپ کی زوجیت میں ہو

عدت گزار رہی ہو

عدت گزارنے کے بعد اجنبیہ بن چکی ہو

اگر عدت میں ہو تو عدت طلاق کی ہو یا وفات کی

اگر طلاق کی ہو تو طلاق رجعی ہو یا بائن

اگر بائن ہو تو بینونت صغری ہو یا کبری

مسلمہ ہو یا کا فرہ

دارالاسلام میں ہو یا دارالحرب میں

آیسہ ہو یا ثیبہ

مگر شرط یہ ہے کہ:

 الف۔رضاعت میں رغبت اوراس پرقدرت رکھتی ہو۔

ب۔بلامعاوضہ رضاعت پر رضامند ہو۔

ج۔اگر رضاعت پر اجرت طلب کرتی ہو تو اجنبی عورت سے زیادہ کا معاوضہ کا تقاضا نہ کرتی ہو۔

 د۔ماں کا دودھ رضیع کے لیے مضر نہ ہو۔

تشریح

ماں کو فوقیت اور برتری ا س لیے حاصل ہے کہ وہ نومولود پر سب سے زیادہ شفیق اور مہربانی ہستی ہوتی ہے اور بچے کے مفاد اور بہبودکا تقاضا بھی یہ ہے کہ اسے تقدم حاصل ہو کیونکہ اس کی اولین ضرورت کو حق تعالی نے ماں کے سینے میں ودیعت فرمایا ہے ،جو اس کی حیات کا ضامن اور نشوونما اوربالیدگی کا باعث ہے ،مزید یہ کہ  ماں کو اس حق سے روکنا اس کےمامتا کا خون اور اس کے مسلم حق کی پامالی اوراسے زحمت دینا ہے جب کہ قرآن کریم ہدایت دیتا ہے کہ لا تضاروالدۃ بولدھا

رنگ ونسل اور مذہب وملت  کے اختلاف اور زوجیت کے قیام اور عدم قیام کی وجہ سے چونکہ مامتا میں فرق نہیں اور اصل مقصود نومود کا مفاد ہے اس لیے ماں کافرہ ہویا مسلمہ ،منکوحہ ہو یا مطلقہ ،معتدہ ہو یا اجنبیہ،ا س کا حق برتر ومقدم ہے تاہم رضاعت چونکہ اس کا قانونی حق ضرور ہے مگر قانونی ذمہ داری نہیں اس لیے اس کی رغبت وخواہش ضروری ہے بصورت دیگر حق کی نوعیت بدل کر فریضہ کی شکل اختیار کرلی گی جو کہ قلب موضوع ہے۔مزید یہ کہ حق کے حصول میں کسی دوسرے کو مضرت پہنچانا بھی حق کا ضرررساں استعمال ہے اس لیے اگر کوئی دوسری عورت مفت رضاعت پر رضامند ہے اور ماں اجرت  طلب کرتی ہے یا ماں اجنبی عورت سے زائد اجرت کا مطالبہ کرتی ہے تو نومولود یا باپ کو مضرت سے بچانے کے لیے ماں کے حق کو فوقیت حاصل نہ ہوگا اوراجنبی عورت کا حق مقدم ہوگا۔

حاصل یہ ہے کہ ماں خواۃ منکوحہ ہو یا مطلقہ اور مطلقہ ہو تو معتدہ ہو یا اجنبیہ،اگر وہ اس کو رضاعت پر قدرت اور رغبت ہے اور بچہ کی بھی مصلحت ہے مثلااس کا  دودھ شیر خوار کے ضرر رساں نہیں تو اس کا حق رضاعت سب سے فائق ہے بہ شرط یہ کہ  وہ مفت رضاعت  پررضامند ہو اور اگر اجرت طلب کرتی ہو  تو اجرت مثل سے زائد  کا مطالبہ نہ کرتی ہو۔