رضاعت کی مدت کے بارے میں مختلف ائمہ کے اقوال
سوال
جواب
مدت رضاعت کی تعیین کا مسئلہ دو حوالوں سے بہت اہمیت ووقعت رکھتا ہے۔ایک یہ کہ ماں یا مرضعہ کس عمر تک کے بچے کو دودھ پلاسکتی ہے ،دوسرے یہ کہ کس عرصہ میں دودھ پلانے سے رضاعی رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔امام ابن حزم کے نزدیک بعد ازبلوغ رضاعت بھی حرمت کا باعث ہے۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کے نزدیک ضرورت کی وجہ سے بالغ فرد کو دودھ پلانا بھی جائز ہے اور رشتہ رضاعت قائم ہوجائے گا۔صاحب بدائع نے پندرہ اور چالیس سال کے اقوال بھی نقل کیے ہیں مگر جمہور امت کے نزدیک حرمت رضاعت صرف مدت رضاعت میں ثابت ہوتی ہے،پھر اس عرصہ کی تعیین میں خود جمہور کا اختلاف ہے۔ائمہ احناف سے چار اقوال مروی ہیں۔ صاحبین سمیت اکثریت کے نزدیک دوسال،امام اعظم ڈھائی سال اور امام زفر تین سال کے قائل ہیں،حسن کی روایت کے مطابق اگر بچے کا دودھ چھڑا دیا گیا ہو اور وہ غذا کھانا لگ گیا ہو اور پھر کوئی عورت مذکورہ مدت اسے دودھ پلائے تو رضاعت کا رشتہ قائم نہیں ہوگا، مگراسے خلا ف معتمد قرار دیا گیا ہے ۔قول راجح کے مطابق استغنا بالطعام کے بعد بھی مدت میں رضاعت باعث حرمت ہے ۔یہی ظاہر الروایہ اور اسی پر فتوی ہے۔ امام مالک سے متعدد روایات مروی ہیں ۔امام شافعی اور احمد کے نزدیک مدت رضاعت دوسال ہے۔ فقہاء کے مستدلات ان پر اعتراضات اور جوابات مطولات ومبسوطات میں بالتفصیل مذکور ہیں ۔دوسال کی تعیین میں قرآن کریم کی آیت کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو پورے سال دودھ پلائیں ،اس کے بعد آگے ہےکہ یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو پوری مدت دودھ پلاناچاہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حولین کے بعد رضاعت نہیں نیز حضرت ابن عباس سے دار قطنی وغیرہ کے اندر روایت ہے کہ لا رضاع الاماکان فی الحولین ۔یہ شبہ کے نص میں حولین کے بعد فصال کو والدین کی رضامندی اور مشورہ پر موقوف کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رضامندی نہ ہو تو حولین کے بعد دودھ پلایا جاسکتا ہے ۔مفسرین لکھتے ہیں کہ تراضی اور تشاور حولین کے اندر اندر ہے اور حولین کے بعد اس کی حاجت نہیں بلکہ فصال متعین ہے۔جمہور اور صاحبین کا مسلک دلائل کی رو سے نہایت قوی اور راجح ہے ،خود احناف کانزدیک بھی مفتی بہ یہی ہے۔فتح القدیر میں ہے الاصح قولھما،امام طحاوی نے بھی اسے اختیار کیا ہے ،اصول افتا کی رو سے بھی امام ااعظم اور صاحبین کے اقوال میں اختلاف ہو تو اصح یہ ہے کہ قوت دلیل کا اعتبار ہے اور ابن نجیم لکھتے ہیں ولایخفی قوۃ دلیلھما۔
مذاہب کی تفصیل کے لیے دیکھیں:
(1) بداية المجتهد لابن الرشد (2/36) ورحمة الأمة في اختلاف الأئمة للعثماني (243) والإقناع للخطيب الشربيني (2/366) والمغني لابن قدامة المقدسي (8/143) ومنار السبيل لابن ضويان (2/294) والهداية للمرغيناني (2/243) ومختصر اختلاف العلماء للطحاوي (2/314).