دو سال سے پہلے بچہ کا دودھ چھڑانا



سوال

دوسال سے پہلے بچہ کا دودھ چھڑا نا جائز ہے یا نہیں؟


جواب

جائز تو ہے مگر قرآن کریم نے اسے دوشرطوں کے ساتھ مشروط کیا ہے۔

ایک یہ کہ ماں باپ دونوں کی یہی رائے ہو پ
دوسرے یہ کہ مشاورت بھی ہوپہلی شرط کا مقصد یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ ماں کسی ذاتی مصلحت کی خاطر دودھ نہ پلانا چاہ رہی ہو یا بچے  کو دودھ نہ پلاکر اس ہکے باپ کو دکھ دینا مقصد ہو یا وہ دودھ پلانے میں مشقت محسوس کرتی ہو۔یہ بھی ممکن ہے کہ باپ اس لیے دودھ چھڑانا چاہ رہا ہو کہ اسے اجرت دینا گراں گزررہاہو یا وہ کسی ذاتی رنجس کی بناپر ماں کو دودھ کے حق سے محروم رکھنا چاہ رہا ہو۔اگر ایسی کوئی بات ہوگی تو لازمی طور پر دوسرا فریق بچے کی مفاد کے خاطر آڑےآئے گا۔
دوسری شرط کا حاصل یہ ہے کہ وہ ہوسکتا ہے کہ دودھ کا چھڑانا بچہ کے لیے مضر ہو اس لیے سمجھ دار اور تجربہ کار لوگوں کی رائے اور مشاورت ضروری ہے۔
ان دونوں شرطوں کو اگر مجموعی نظر سے دیکھیں تو دونوں کا حاصل یہ ہےکہ بچہ کا مفاد کس میں ہے اگر بچہ کی مصلحت دودھ جاری رکھنے میں ہے تو اسے پلایا جائے اور اگر دودھ اس کے لیے مضرت کا باعث ہے تو چھڑادیا جائے یہی والدین کی رضامندی اور باہمی مشاورت کا مطلب ہے اوراسی شرط کے تحت دودھ چھڑانا جائز ہے۔