قضا نمازوں کے احکام
میری عمر تقریباً 18سال ہے میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں نمازوں کی بہت پابند نہیں ہوں جب بچپن میں یعنی 10-11سال کی عمر میں نماز پڑھنی سیکھی تب تھوڑی بہت پڑھ لیتی تھی اب تو ایک عرصہ ہوا نہیں پڑھی۔
سوال :1۔ آپ سے سوال یہ ہے کہ قرآن اور سنت کی روشنی میں بتادیں کہ میں اُن نمازوں کی قضاء کیسے ادا کروں تفیصلاً بتادیں ؟
سوال :2۔قضاء ادا کرنے کی ضرورت ہے یا صرف اللہ سے صدقِ دل سے معافی مانگ لوں؟
سوال :3۔اگر قضاء ادا کرلوں تو کیا مجھے اُس کا جواب نہیں دینا پڑے گا بروزِ قیامت؟
نوٹ:۔ برائے مہربانی مجھے جلد از جلد جواب دے دیں تاکہ مجھے اُس خوف سے نجات ملے جو مجھ پر ہر وقت سوار رہتا ہے کہ اگر مرگئی تو عذاب ہوگا؟ سکینہ
جواب:بلوغت کے بعد جتنی نمازیں رہ گئی ہیں ،ان کا اندازہ لگا کرادا کرنا شرو ع کردیں،نیت اس طرح کریں کہ مثلا فجر کی جتنی نمازیں مجھ سے قضا ہوگئی ہیں،ان میں سے پہلی اداکرتی ہوں،جب یہ ادا ہوجائے گی تو اس سے اگلی نمازپہلی بن جائے گی اور اس کی ادائیگی بھی اسی طرح ہوگی کہ میرے ذمہ فجر کی جونمازیں ہیں ان میں سے پہلی ادا کرتی ہوں،اسی طرح ظہر ،عصر ،مغرب ،عشاء اور وتروں کی ادائیگی میں نیت کی جائے۔قضا نماز سوائے تین اوقات یعنی طلوع شمس اور عین زوال اور عین غروب کے باقی سب وقتوں میں جائز ہے۔فجر اور عصر کے بعد بھی قضا نماز جائز ہے مگر ان دو اوقات میں قضا نماز خفیہ طریقے سے ادا کرنی چاہیے تاکہ لوگوں کو اس کا علم نہ ہو،کیوں کہ گناہ کا اظہار بھی گناہ ہے۔ادائیگی کی آسان تدبیر یہ ہے کہ ایک دن کی قضا رکعتوں کی کل تعداد بیس ہوتی ہے اور بیس رکعتوں کے لیے کل بیس منٹ درکار ہیں جوچوبیس گھنٹے کا صرف بہترواں حصہ ہیں،اس لیے اگر صبح سے دوپہر تک یا عشاء کے بعد صبح تک کسی بھی وقت یہ بیس منٹ صرف کرلیں تو تمام نمازیں ادا ہوجائیں گی۔دوسری ترکیب یہ ہے کہ ہرنماز سے پہلے یا بعد میں جب کہ مکر وہ وقت نہ ہوایک قضا نماز پڑھ لیں، یا پھر ان بیس رکعتوں کی تین قسطیں کرلیں،فجر اور ظہر کی چھ رکعتیں ظہر کے بعد ادا کرلیں اور عصر اور مغرب کی سات رکعت مغرب کے بعد، عشاء کے چار فرض اور تین وتر عشاء کے بعد ،یہ کل بیس رکعات ہوگئیں اور ہرنماز کے بعد صرف سات منٹ زیادہ خرچ ہوئے ،اس طرح سب قضا نمازیں آسانی سے ادا ہوجائیں گی۔
۲۔نمازقضا کرنا فرض ہے،صرف توبہ کافی نہیں۔
۳۔سچی توبہ سے تاخیر کا گناہ معاف ہوجائے گااور قضا سے فریضہ اداہوجائے گا،اس لیے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں البتہ وقت کی فضیلت جو چھوٹ گئی ہے وہ اب ہاتھ نہیں آسکتی کیونکہ بروقت اور بے وقت کی نماز برابر نہیں ہوسکتی۔