اللہ تعالی کے فضل وکرم کی امید پر قضا نمازیں ادا نہ کرنا



سوال :1۔اگر کوئی نماز یانمازیں قضاء ہوجائیں تو اُن کا پڑھنا ضروری ہے یا اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم اور رحم وکرم سے معاف فرمادیں گے؟

جواب: آپ کے سوال کے جواب میں ہم فقہ اسلامی کے بجائے براہ راست سرکار دوجہاں ﷺ کی سیرت طیبہ اور حیات مبارکہ سے رہنمائی لیتے ہیں۔غزوہ خندق کے موقع پرنبی کریم ﷺ کی کچھ نمازیں قضا ہوگئی تھیں۔یہ نمازیں تعداد میں کتنی تھیں اور کون کون سی تھیں ؟اس بارے میں روایات کے اندر اختلاف ہے۔صحیحین میں صرف عصر کی نماز کا،مؤطا میں ظہر اور عصر کا ،نسائی میں ظہر ،عصر اور مغرب کا اورترمذی کی روایت میں ظہر،عصر اورمغرب کے ساتھ عشاء کا بھی ذکر ہے۔محدثین کا فرمانا ہے کہ یہ تمام روایتیں اپنی اپنی جگہ درست ہیں،کیوں کہ غزوہ خندق کئی روز جاری رہااور یہ روایتیں کسی ایک دن اور ایک ہی واقعے کے متعلق نہیں بلکہ ان میں مختلف دنوں کے مختلف واقعات کا بیان ہے،اس لیے روایات میں کوئی تعارض اور اختلاف نہیں ۔بہرحال جوبات یقینی اور بے غبار ہے اور جس پرسب کا اتفاق ہے ،وہ یہ ہے کہ اس موقع پر آپ ﷺ کی کچھ نمازیں قضا ہوگئی تھیں اور قضا ہونے کے بعد آپ ﷺ نے یہ نمازیں ادا فرمائی تھیں۔یہ حدیث گوش گزار کرانے کے بعد میں آپ کے غوروفکر کے لیے کچھ نکات عرض کرتاہوں ۔


(۱)غزوہ خندق کے موقع پر آپ ﷺ اپنے جاں نثار صحابہ کے ساتھ جہاد جیسے اہم دینی فریضے میں مصروف تھے اور اس فریضے میں مصروفیت کے سبب یہ نمازیں وقت سے ہٹ گئی تھیں،گویا ایک عبادت میں مشغولیت ہی دوسری عبادت کے فوت ہونے کا سبب بن گئی تھی،مگر آپ ﷺ نے پھر بھی یہ نمازیں لوٹائی ہیں،اس کے برعکس ہماری نمازیں بے دھیانی،غفلت ،سستی اور کوتاہی کے سبب قضا ہوتی ہیں ۔

(۲)غزوہ خندق میں کافروں نے مسلمانوں پر چڑھائی کی تھی،یہ معرکہ اتنا سخت اور میدان ایسا گرم تھا کہ نماز پڑھنے کا مطلب اپنی جان گنوانا تھا ۔اگر اس پہلو پر سوچیں تو موت کا یقینی خدشہ اس بات کے لیے کافی عذر اور معقول جواز تھا کہ وقت نکلنے کے بعد بھی ایسی نمازوں کی قضا نہ کی جائے، مگر نہ تو اللہ تبارک وتعالی نے مسلمان لشکر کو قضا معاف کی او رنہ ہی اس کے حبیب نے اس واقعی او رشدید عذر کو قضا چھوڑنے کے لیے کافی سمجھا۔

(۳) آپ لکھتے ہیں کہ کیا قضا نمازیں اللہ تعالی اپنے فضل وکرم سے معاف فرمادیں گے؟سوال یہ ہے کہ سرور کونین ﷺ سے سے زیادہ حق تعالی شانہ کے فضل وکرم کا مستحق کون ہوسکتا ہے؟ ارشاد ربانی ہے:وکان فضل اللہ علیک عظیما۔(سورہ نساء ،آیت ۱۱۳)یعنی اللہ کا فضل آپ پر بہت بڑا ہے۔قرآن کریم کی اس شہادت کے باوجود میرے اور آپ کے اور ہم سب کے محبوب نے تو قضا نمازیں ادا فرمائی ہیں،جب کہ ہم اس امید پر ہیں کہ حق تعالی شانہ اپنے رحم وکرم سے معاف فرمادیں گے۔اب آپ خود فیصلہ کیجیے کہ جو نمازیں قضا ہوجائیں وہ پڑھنی ضروری ہیں یا نہیں؟