ماہِ رمضان کی فجر میں کس قدر قراءت کی جائے؟



سوال:
رمضان المبارک میں فجر کی نماز عام دنوں کی طرح پڑھانی چاہیے یا پھر اس میں اختصار سے کام لیا جائے؟ کیوں کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم رات کو تراویح پڑھتے ہیں اس لیے فجر کی نماز مختصر ہونی چاہیے۔ میں عام دنوں کی طرح ہی پڑھاتا ہوں لیکن قریب کی کچھ مسجدوں میں مختصر ہوتی ہے، اس لیے لوگ ان کا حوالہ دیتے ہیں، مجھے کیا کرنا چاہیے؟
 
 جواب:
رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم نے مقتدیوں کی رعایت کرتے ہوئے نماز  ہلکی پڑھانے کا حکم فرمایا ہے، ہلکی نماز کا مطلب یہ ہے کہ نماز مقدارِ  مسنون  سے طویل نہ ہو، یعنی قراءت کی مقدار مسنون قراءت سے زائد نہ ہو، اور  نہ ہی رکوع سجود  میں تسبیحات مسنون مقدارسے زائد پڑھے، البتہ اگر دوران نماز کوئی ایسا عذر پیش آجائے جو نماز  میں مخل ہو تو اس صورت میں مسنون قراءت ترک کرنے کی بھی اجازت ہے۔
لہذا ماہ رمضان کی فجر میں لوگوں کی تھکاوٹ کی وجہ سے مسنون قراءت مستقل طور پر ترک نہ کریں،البتہ آپ کو چاہیے کہ قراءت بہت زیادہ تکلفات  کے  ساتھ  نہ کریں ، اور جو سورتیں اچھی طرح یاد ہیں ان میں سے سورت منتخب کرکے تجوید کی رعایت رکھتے ہوئے روانی سے قراءت کریں گے تو مسنون قراءت اور مقتدی حضرات دونوں  کی رعایت  ہوجائے  گی۔نیز  حکمت و نرمی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مقتدیوں کو بتائیں اور انہیں ترغیب دیں تو ان شاء اللہ وہ اختصار کا مطالبہ نہیں کریں گے۔
باقی آپ کی قریبی مساجد میں اگر مختصر قراءت ہونے سے یہ مراد ہے کہ وہ پورے مہینے مسنون قراءت ہی نہیں کرتے تو ان کا یہ طرز عمل سنت کے خلاف ہے اور ان کے اس سنت کے خلاف عمل کو دلیل بناکر آپ سے ایسے اختصار کا مطالبہ کرنا بھی شرعاً جائز نہیں ہے۔