غیر کی زمین پر درخت لگانے کے بعد درختوں کا حکم / کرایہ پر دی ہوئی زمین کی آمدن پر عشر لازم ہے یا زکوٰۃ؟
سوال:
ہماری کچھ زمین ہے، جس پر کسی شخص نے ہماری اجازت کے بغیر خود ہی درخت لگادیے، درخت بڑھنے پر اس شخص نے مجھے 25 ہزار روپےدیے، اب مجھے پوچھنا یہ ہے کہ ان پیسوں کی زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟ آیا زمین کے اعتبار سے عشر دیں گے یا پھر سالانہ پیسوں کی آمدن کے حساب سے زکوٰۃ ادا کریں گے؟
جواب:
صورتِ مسئولہ میں سائل کی زمین پر کسی اور شخص کا یوں مالک کی اجازت کے بغیر درخت لگانا جائز ہی نہیں تھا، تاہم درخت لگانے کے بعد سائل کو اس شخص نے رقم دی، اور سائل اس رقم پر رضامند بھی تھا، تو اس صورت میں یہ اجارہ(کرایہ کا معاملہ) کہلائے گا، یعنی سائل نے کچھ پیسوں کی اجرت کے بدلے اپنی زمین دوسرے شخص کو اجارے پر دے دی ہے، اس صورت میں بھی سائل اور مذکورہ شخص کو چاہیے کہ ہرماہ یا سال کےلیے کرایہ طے کرلے، اور کرایہ کے دیگر تمام معاملات کی پاسداری بھی کریں، کرایہ طے ہوجانے کے بعد مذکورہ زمین سائل کی اور درخت، درخت لگانے والے ہی کی ملکیت شمار ہوں گے۔
نیز اس صورت میں سائل کے ذمہ مذکورہ زمین کی عشر دینا لازم نہیں ہے؛ کیوں کہ وہ پیداوار سائل کی ملکیت ہی نہیں ہے، البتہ زمین کا جو 25 ہزار روپے کرایہ وصول ہوتا ہے، سائل کے زکوۃ ادا کرنے کی تاریخ تک یہ رقم موجود رہے، تو سائل کے دیگر مال کی طرح اس کرایہ کی رقم پر بھی زکوٰۃ لازم ہوگی۔ (فتاویٰ شامی، کتاب الغصب، ج: 6، ص: 194، ط: سعید - فتاویٰ ہندیہ، کتاب الزکوٰۃ، الباب الاول، ج: 1، ص: 71،72، ط: دارالفکر)